ایک اہم سوال جو لکھنے اور تجزیہ کرنے والوں میں گردش کر رہا ہے کہ آخر نوجوانوں ، پڑھے لکھے لوگوں کی ایک بڑی تعداد عمران خان کے گرد کیوںاکٹھی کیوں ہوگئی ہے،؟ اس انقلابی طبقہ میں خوشحال اور متوسط طبقات کے لوگ نمایاں ہیں ، مگر یہ حقیقت ہے کہ نچلے طبقہ کا عام آدمی بھی اس طرف متوجہ ہوچکا ہے۔ تجزیہ کار اپنے اپنے انداز میں اس کی تعبیر وتشریح کر رہے ہیں۔ کسی کے خیال میں یہ عمران کا شخصی کرشمہ ہے تو کچھ لوگوں کے خیال میں خان نے اپنی تقریروں سے لوگوں ، خاص کر نوجوانوں کو ایسا رومانویت آمیز خواب دکھایا ہے کہ وہ اس کی تعبیر پانے کے لئے سرگرم ہوچکے ہیں۔
عمران خان میں بہت سی کمزوریاں اور خامیاں ہیں۔ سیاست میں دو عشرے گزارنے کے باوجود اس میں ایک خاص قسم کی سادگی اور ناپختگی ہے۔ وہ ہمیشہ کچھ زیادہ بول جاتا ہے، اس کی میڈیا ٹیم کو بعد میں سنبھالنے کی کوشش کرنی پڑتی ہے۔
اس کی مشاورت کا نظام زیادہ مضبوط نہیں، اس کے اردگرد موجود لوگوں پر کئی اعتراضا ت کئے جا سکتے ہیں۔عمران خان کی سیاست اور اس کے کئی فیصلوں پر ہم تنقید کرتے ہیں۔
بہرحال حقیقت ہے کہ عمران خان ہماری جدید سیاست کا واحد شخص ہے ،جس نے اس قدر پرزور انداز میں روایتی سیاست اور سٹیٹس کو کے نظام کو للکارا، اسے بھرپور طریقے سے چیلنج کیا۔
پینتالیس سال پہلے ایک اور شخص نے بھی ایسا ہی کیا تھا، جس کا نام ذوالفقار علی بھٹو تھا۔عمران خان بھٹو نہیں ، انہیں بننابھی نہیں چاہیے۔ ہر دور کے اپنے تقاضے ،رواج اور دستور ہوتا ہے۔ بھٹو صاحب کے اپنے مثبت ، منفی نکات تھے،ویسے بھی وہ اپنا دور گزار کر تاریخ کا حصہ بن گئے۔
عمران کو ابھی خاصا سفر طے کرنا ہے، ان کے بارے میں حتمی رائے دینا مورخ کا کام ہے۔
عمران کی دیانت میں کسی کو کوئی شک نہیں اوران کی یہی کریڈیبلٹی ہی ان کی سب سے بڑی طاقت ہے۔لوگ جانتے ہیں کہ یہ شخص روایتی نظام سیاست کا حصہ نہیں اور شائد بن بھی نہ سکے۔
جو لوگ تبدیلی کا سپنا آنکھوں میں سجائے عمران خان کے گرد اکٹھے ہوئے ہیں، انہیں انڈر اسٹیمیٹ نہیں کرنا چاہیے۔ ان میں پڑھے لکھے لوگوں کی اکثریت ہے۔ فعال طبقات سے تعلق رکھنے والے ڈاکٹرز، انجینئرز، سافٹ وئیر ایکسپرٹ، اکائونٹنٹ،آئی ٹی ایکسپرٹ، فنانشل سروسز اور شعبہ تعلیم سے تعلق رکھنے والے ، کاروباری طبقات،فن کار، ڈیزائنرزاور دیگر پروفیشنلز کے ساتھ خواتین اور طلبہ و طالبات ۔
یہ وہ لوگ ہیں، جن کا سیاست سے کوئی تعلق نہیں، اقتدار یا اختیار ان کی توجہ کا مرکز ہے نہ ہی ان کے پاس اتنا وقت کہ وہ سیاست کر سکیں یا بلدیاتی الیکشن لڑ سکیں۔
یہ رائے بھی درست نہیں کہ ان لوگوں کو نظام سے فائدہ ملا ہے۔ سوال تو یہ ہے کہ نظام سے مرادکیا ہے؟ٹھیک ہے، جن لوگوں نے اپنی تعلیم پر توجہ دی، اچھی پیشہ ورانہ ڈگریاں حاصل کیں، انہیں نجی سیکٹر میں اچھی ملازمتیں ملی گئیں، ان کی زندگیوں میں کچھ آسودگی آئی۔زندگی گزارنے کے لئے مگر اچھی ملازمت کافی نہیں۔
وہ سماج میں رہتا، زندگی بسر کرتا، اتارچڑھائو کا سامنا کرتا ہے۔ لااینڈآرڈر کے مسئلے سے اسے روز واسطہ پڑتا ہے۔ اس کا صاف ستھرا لباس اور گاڑی بھی اسے پولیس کے ہاتھوں ذلیل ہونے سے نہیں بچا سکتی۔
کمر توڑ مہنگائی کا نشانہ اسے بھی بننا پڑتا ہے، بیس بیس تیس تیس ہزار کے بل اس کے لئے بھی سوہان روح ہیں، لوڈ شیڈنگ کے ہاتھوں دم توڑتے یوپی ایس اور جنریٹر اسے بھی اس شدید کوفت اور تکلیف سے دوچار کرتے ہیں۔
سب سے بڑھ کر یہ کہ پچھلے دس پندرہ برسوں میں ہمارے ریاستی ادارے ایک ایک کر کے تباہ ہوگئے۔
پولیس کا نظام زیادہ ظالمانہ اور وحشیانہ ہوگیا، پٹواری کی آہنی گرفت ڈھیلی نہیں پڑی۔
ریاست اپنی ذمہ داریوں سے ہاتھ پیچھے کھینچ رہی ہے۔ سرکاری سکول سسٹم مکمل طو رپر ناکام ہوچکا۔
دانش سکولوں کے ڈھکوسلے کسی پڑھے لکھے سمجھدار شخص کو بے وقوف نہیں بنا سکے۔
ہر سال لاکھوں لوگوں کو سرکاری کالجوں میں داخلہ نہیں مل پارہا کہ نئے کالج اور یونیورسٹیاں تعمیر کرنا حکومتوں کی ترجیح نہیںرہی۔
یہی حالت محکمہ صحت کا ہے۔
جس شخص کا کسی بھی سرکاری دفتر سے کبھی واسطہ پڑے ، شدید تذلیل اور ذہنی اذیت لے کر وہ واپس لوٹتا ہے۔
پڑھے لکھے، باشعور لوگ اس بات کو زیادہ محسوس کرتے ہیں۔ وہ سوچتے ہیں کہ ہمارا پڑوسی ملک بھارت کہاں سے کہاں چلا گیا، وہاں قومی تفاخر عروج پر ہے ، جبکہ ہمارے ہاں بھارت کی برابری تو دور کی بات ہے، اس سمت میںسفر شروع بھی نہیں ہو رہا۔
2007ء کی عدلیہ بچائو تحریک نے اس قوم پر ایک بڑا احسان یہ کیا کہ ایسی بحثیں شروع ہوئیں، جن سے عوام میں شعور جاگا ، انہیں احساس ہوا کہ دنیا میں کیا ہو رہا ہے اور ہمیں کن کن چیزوں کی ضرورت ہے؟
اخبارات میں ادارتی صفحات اور کالموں کی ریڈرشپ کئی گنا بڑھ گئی اور سیاسی ٹاک شوز نے بہت کچھ ایکسپوز کر دیا۔ ہماری روایتی سیاسی قوت کا ذہنی افلاس اس نے واضح کر دیا۔
تبدیلی کی خواہش رکھنے والے، اس کے لئے باہر نکلنے والوں سے بے شک اختلاف کیا جائے، کسی کو ان کے اجتماع پسند نہ ہوں تو نہ دیکھے ، مگر خدارا انہیں یہ گالی نہ دیں کہ یہ لوگ اقتدار اور اختیار کے لالچی ہیں، اس میں حصہ چاہتے ہیں۔
یہ ان باغیرت، باشعور، درد دل رکھنے والے لوگوں کی توہین ہے۔اس گالی کا، ایسی توہین کا حق کسی کوحاصل نہیں ۔ یہ زمین کا نمک ہیں۔ان کی قدر کیجئے، تربیت کیجئے، آگہی دیجئے، دلیل کے ساتھ اپنانقطہ نظر سمجھائیے، قائل کیجئے ،مگربراہ کرم تذلیل ، توہین نہ کریں۔
Edited extract from column by Amir Hashim Khakwani. Dunya.com.pk