مولوي نہيں ملے گا...صبح بخير…ڈاکٹر صفدر محمود | |||||||||
قرارداد مقاصد بھي زير عتاب آگئي ہے جسے اکثر ماہرين آئين محض غير مضر اور سجاوٹي شے سمجھتے ہيں ليکن بدقسمتي سے يہ قرارداد الٹرا لبرل دانشوروں کي مادر پدر آزاد آنکھوں ميں بہت چبھتي ہے بلکہ روڑے کي مانند ”روڑکتي“ ہے? ميں نے اپنے ان دوستوں کي خوبصورت آنکھوں ميں کئي بار جھانکا ہے? ان ميں ان کي بے بسي ديدني ہے? بہت سے مہربانوں کا فرمان ہے کہ قرارداد مقاصد ہم پر مسلط کي گئي ہے اور يہ ہماري گردن کا طوق ہے حالانکہ بيچاري قرارداد مقاصد ميں ايسي کوئي بات نہيں جو ہمارے 1956ء اور 1973ء کے آئين کا حصہ نہ رہي ہو? شايد ہمہ وقت جمہوريت اور آئين کا شور مچانے والے اور ترانے گانے والے آئين کو پڑھتے ہي نہيں يا پھر انہيں متفقہ طور پر قبول آئين کے کچھ حصے منظور ہيں اور کچھ نامنظور… مسلط تو وہ شے ہوتي ہے جو کسي باہر کي قوت يا غير آئيني قوت کي جانب سے نافذ کي جائے قرارداد مقاصد پاکستان کي پہلي دستور ساز اسمبلي نے مارچ 1949ء ميں پاس کي اور يہ وہي اسمبلي تھي جس کے اراکين نے قيام پاکستان ميں اہم کر دار سر انجام ديئے تھے? وزيراعظم لياقت علي خان نے اسے آئين سازي کي جانب اہم قدم قرار ديا تھا البتہ اقليتي اراکين اور آزاد خيالوں کے ”باوا“ مياں افتخارالدين نے اس پر تنقيد کي تھي? تاہم چند آوازوں کي مخالفت کے ساتھ يہ قرارداد بہت بھاري اکثريت کے ساتھ منظور ہوگئي? 1956ء ميں جس آئين ساز اسمبلي نے آئين بنايا يہ تقريباً وہي تھي جسے 1945-46ء کے انتخابات ميں منتخب کيا گيا تھا? آپ چاہيں تو 1956ء کا آئين مجھ سے مستعار لے ليں? اس آئين ميں قرارداد مقاصد کے مقاصد معمولي ترميمات کے ساتھ شامل تھے? ايوبي دستور البتہ مسلط کيا گيا تھا اس لئے اس کا ذکر چھوڑيئے? ان الٹرا لبرل دانشوروں کے ذہني ہيرو اور انقلابي سرخيل جناب ذوالفقار علي بھٹو نے جب 1973ء ميں آئين بنايا تو اسے ابتدائيہ ميں شامل کيا? حيرت ہے يہ لوگ اپنے آپ کو بھٹو کا نظرياتي وارث اور عاشق کہتے ہيں ليکن اس کے بنائے ہوئے آئين کے بارے ميں شاکي ہيں? بھلا شاکي کيوں ہيں؟ وہ اس لئے کہ قرارداد مقاصد سے قطع نظر1973ء کا آئين يہ اعلان اور وعدہ کرتا ہے کہ ”مسلمانان پاکستان کي زندگيوں کو اسلامي سانچے ميں ڈھالنے کے لئے اقدامات کئے جائيں گے اور مواقع بہم پہنچائے جائيں گے کہ قرآن و سنت کي روشني ميں زندگي کا مفہوم سمجھ سکيں“?
(آرٹيکل 31) يہ حضرات جب آئين کا يہ آرٹيکل پڑھتے ہيں تو ان کے دلوں اور ذہنوں پر غم کے بادل چھا جاتے ہيں حالانکہ حقيقت يہ ہے کہ رياست اسے اپني ذمہ داري قرار دے چکي ہے? چنانچہ رياست کو اس ذمہ داري کا احساس دلانے يا پھر ياد دہاني کرانے کا فريضہ جرم نہيں بلکہ شہري و آئيني تقاضا ہے? اس پر ناک بھوں چڑھانا فيشن تو ہوسکتا ہے ليکن معاشرے کے ضمير کي آوازہرگز نہيں? ہمارے ان دين بيزار دوستوں کو سمجھ نہيں آتي کہ ان کے ہيرو ذوالفقار علي بھٹو نے ان اصولوں کو آئين کا حصہ کيوں بننے ديا؟ موٹي سي بات ہے بھٹو عوامي ليڈر تھا، ڈرائنگ روم پيو پلاؤ دانشور نہيں تھا وہ عوام کے دل کي آواز سمجھتا تھا چنانچہ اس نے وہ حق ادا کيا جو قوم نے فرض کے طور پر اسے سونپا تھا? اب اگر چند درجن آزاد خيال دانشوري کے زور پر اس طوق سے نجات حاصل کرنا چاہئيں تو يہ ممکن نہيں اس لئے ان کي ”فلاح“ اسي ميں ہے کہ وہ حدود و قيود کا تعين کروا ليں اور وضاحت ہونے ديں کيونکہ وہ اپنے نظريات اور اپنا کلچر پاکستان کي مسلمان قوم پر تھوپ نہيں سکتے، نہ ہي کوئي اسے قبول کرے گا? مجھے ايک لاہوري بزرگ ياد آرہے ہيں نام ان کا حضرت شورش کاشميري تھا? عمر ميں خاصا تفاوت ہونے کے باوجود وہ ميرے دوست اور نہايت مہربان دوست تھے? کبھي کبھي ترنگ ميں ہوتے تو کہتے کہ ”يارو! ان کو سمجھاؤ، ايسا نہ ہو ان کا جنازہ پڑھنے کے لئے کوئي مولوي ہي نہ ملے“? ميرا مرحوم دوست شورش کاشميري زبان اور قلم کا بادشاہ اور حکمران تھا نہ جانے اس فقرے سے ان کي مراد کيا تھي؟ اگر آپ سمجھ گئے ہوں تو مجھے بھي بتا ديں?
آئين پاکستان کي شق 3 ميں کہا گيا ہے کہ رياست ہر قسم کے استحصال کو ختم کرنے کو يقيني بنائے گي
شق 37 اور 38 ميں رياست پر ذمہ داري ڈالي گئي ہے کہ وہ سستا اور جلد انصاف فراہم کرے، سماجي انصاف کو فروغ دے اور ربو (سود) کا جلد از جلد خاتمہ کرے
شق 227 ميں کہا گيا ہے کہ تمام متعلقہ قوانين کو قرآن و سنت کے مطابق بنا ديا جائے اور کوئي نيا قانون اسلامي تعليمات کے خلاف
نہيں بنايا جائے? ان تمام امور پر اسلامي نظرياتي کونسل، وفاقي شرعي عدالت اور سپريم کورٹ کي کارکردگي انتہائي مايوس کن ہے
آئين کي حکمراني کي باتيں تو معزز جج صاحبان کي جانب سے تواتر کے ساتھ کي جارہي ہيں مگر معيشت سے سود کا خاتمہ کرنے کا عمل
اعلي عدالتوں کي وجہ سے رکا ہوا ہے
وفاقي شرعي عدالت نے1991ء ميں قوانين کو اسلام کے منافي قرار ديا تھا وہ فيصلہ ہي سپريم کورٹ کے پي سي او ججز نے معطل کرديا تھا مگر 10برس سے زيادہ کا عرصہ گزرنے کے باوجود شرعي عدالت مقدمہ کي شنوائي شروع ہي نہيں کررہي بينکوں کے کھاتے داروں کو منافع ميں شريک نہ کرکے اور غلط طريقوں سے اربوں روپے کے قرضے معاف کرکے ان کا استحصال کيا ہے مگر اس ضمن ميں اہم مقدمات سپريم کورٹ نے بھي پس پشت ڈال ديئے ہيں
سپريم کورٹ تقريباً 1000 دنوں سے ايسے مقدمے ميں الجھي ہوئي ہے جو منطقي انجام تک نہيں پہنچ رہے? اين آر او کے فيصلے پر عمل درآمد کيلئے جو مانيٹرنگ سيل 3برس قبل سپريم کورٹ اور ہائي کورٹس کي سطح پر قائم کئے گئے تھے ان کي کارکردگي نظر نہيں آرہي? ان تمام معاملات ميں معيشت کو کئي کھرب روپے کا نقصان ہوچکا ہے? انتخابات سے قبل وطن عزيز ميں زبردست سياسي جوڑ توڑ اور الزامات کي سياست ہورہي ہے مگر ان تمام اہم ترين معاملات کو مذہبي و سياسي جماعتيں مطلق نظر انداز کررہي ہيں چنانچہ ان خدشات کو تقويت مل رہي ہے کہ 2013ء کے ممکنہ انتخابات کے نتيجے ميں کسي معني خيز بہتري کا امکان روشن نہيں ہے الّا يہ کہ عوام اٹھ کھڑے ہوں
http://search.jang.com.pk/details.asp?nid=18917
اسلامي فلاحي رياست??? واحد حل...کس سے منصفي چاہيں…انصار عباسي
|
More:
While some prefer to emphasise the economic independence within secular Pakistan, others dream of theocracy like Iran. They try to support their perceptions by misquoting and twisting sayings of Muhammad Ali Jinnah, the ...
Visit: http://freebookpark.blogspot.com