Featured Post

FrontPage صفحہ اول

Salaam Pakistan  is one of projects of  "SalaamOne Network" , to provide information and intellectual resource with a view to...

Pakistan Quagmire – پاکستان کی دلدل اور بچاؤ



پاکستان کی ترقی ، خوشحالی اور امن کے لییے کچھ بنیادی معاملات طے کرنا ضروری ھیں. اس وقت پاکستانی سوسائٹی ، معاشره فکری طورپرتین بڑے حصوں تقسیم ہو چکا ہے 

ایک طرف  اشرافیہ , لبرل طبقہ ہے جو مذہب کوہر شخص کا ذاتی معاملہ سمجھتا ہے،ان کے مطابق مذہب، اسلام کا  قانون، سوسائٹی سے کوئی تعلق نہیں . مذہیب عبادت گاہوں تک محدود ہو.کچھ معتدل لوگ اقلیت میں  ہیں. یہ  اشرافیہ لبرل طبقہ  اگر چہ تعداد میں قلیل ہے مگربہت طاقتور ہے . حکومت ،معشیت، کاروبار، بیورو کریسی، فوج، سیاست دان، میڈیا سب  کچھ ان کے قبضہ  اور کنٹرول میں ہے. ان میں کچھ لوگ راے امہ ھموار کرننے کے لیے مذہب اسلام کا نام استمال کرتے ہیں. یہ صرف دکھا وہ ہے. طاقت اور پیسے کے زور پر یہ مخالف کوکچل دیتے ہیں 

یہاں اشرافیہ سے مراد ان کے ھمدرد ، فائدہ اٹھانے والے مدد گار اور دوسرے طبقات کے امیدوار بھی شامل ہیں 
کسی صورت میں یہ طاقت چھوڑنے کو تیار نہیں ، یہ مختلف بھیس بدل کر پاور میں رہتے ہیں
ان میں کچھ شدت پسند لوگ بھی ہیں جو مذھبی یا مذہب کی طرف مائل لوگوں کوچاہے وہ معتدل مزاج ہوں، ان کو  جاہل، دقیانوسی ، کم عقل، قابل  نفرت سمجھتے ہیں. ان کے خیال میں تمام مصیبتوں کیبنیاد مذہب اور مذھبی لوگ ہیں. ان کو لبرل فاشسٹ بھی کہا جا سکتا ہے
 دوسری طرف خاموش اکثریت ہے جو اسلام کو مکمل ضابطہ حیات کی حیثیت سے تمام جگہ شریعت نافذ کرنا چاہتے ہیں . اور اس کو قیام پاکستان کا مقصد سمجھتے ہیں
ان میں بہت سے امن پسند  معتدل علماء اکرام اور سوسائٹی کے تمام  طبقات کے معتدل  لوگ شامل ہیں. جو دہشت گردی کے خلاف ہیں بہت سے اپنی زندگی اس نیک مقصد میں قربان کر کہ شہید ہو گئے . مگر ان کی آواز دہشت گردی اور لبرل لوگوں کے درمیان گم جاتی ہے . کیوں کہ وہ انصاف اور عوام کے استحصال کے بھی خلاف حق کی آواز بلند کرتے ہیں 
 عوام اسلام سے جذباتی لگاؤ رکھتے ہیں اور مرنے مارنے کو تیار ہو جاتے ہیں مگر عام طور پر ذاتی زندگی میں اسلام کی اعلی  اقدار سے دور ہیں . جھوٹ دھوکہ ، نا انصافی ،کرپتشن کا دور دورہ ہے. شریعت کا نفاذ اپنے پر نہیں کرتے مگر دوسروں پر نافذ کرنا چاہتے ہیں. عبادات پر زور ہے مگر حقوق العباد پس پشت ہیں. ان کا مسلہ معاشی اور معاشرتی انصاف اور امن ہے جو اسلامی نظام کے زریعے حاصل کرنے کی امید کر سکتے ہیں.


تیسری تعارف اسلامی شدت پسند( دہشت گرد) اور ان کے خاموش ہمدرد 
   عوام کی  اکثریت شدت پسندی کے بجاے پر امن طریقے سے شریعت کا نفاذ چاہتے ہیں . جبکہ کچھ شدت پسند لوگ اور گروہ جیسے طالبان ، طاقت کے زور پر اپنی مرضی کی شریعت نافذ کرنا چاہتے ہیں . اس کے لیے وھ دہشت گردی اور قتل و غارت کو جائزاسلامی طریقہ سمجھتے ہیں . اس سے تمام قابل زکر علماء اوراکثرمذہبی جماعتیں بظاھر اختلاف  کرتے ہیں . مگر خاموشی سے اںدورن خانہ ان کے حمایت کرتے  معلوم ہوتے ہیں
 امام مسجد , خطیب کا سوسائٹی میں بہت اثر ہے . جمعہ کے خطبات ور مذھبی اجتما ع میں وھ جو چاہیں تقریر کریں . کسی کی جرات نہیں کہ اختلاف  کر سکے.اکثر خطیب صاحبان دہشت گردوں کی خاموش حمایت کرتے معلوم ہوتے ہیں ان کی مذمت نہیں کرتے ، گول مول بات کرتے ہیں. شائد ان کا  خیال ھوکہ اس طرح وہ بھی  پاور گیم کا حصہ بن جایں گے
 تمام حکمران فوجی یا سول جمہوری, عوام کے استحصال میں
ملوث ہیں ، کرپشن نا انصافی نے عوام کو بدحال کر دیا ہے . وہ امید سے ہر ایسے لوگوں کے پیچھے چلنے کو تیار ہیں جو ان کو انصاف خوشحالی کی امید دکھاتا ہے . مذہبی شدت پسند لوگوں کو وہ ردعمل میں امید لگاتے ہیں . جیسے پرانے لوگ کہتے ہیں کیہ انگریز کا دور اچھا تھا قانون کی حکمرانی تھی وغیرہ وغیرہ . مذہبی لوگ اپنے آپ کو اس لیڈرشپ کے خلا کو پر کرنے کا اهل سمجھتے ہیں. پاور طاقت کا اپنا مزہ ہوتا ہے . ان میں کم لوگ ادراک رکھتے ہیں. کچھ نیک نیت ہیں مگر یہ ان کے بس کا کام نہیں


سوسائٹی فکری طور پر  تقسیم ہو چکی ہے . ایسے حالات میں 
ضروری ہے کہ کنفیوژن کو دور کیا جائے تاکہ اکثریت ایک نقطہ نظر پر متفق ہو  جائے. اور پھر تمام توانایوں کو مرکوز کرکہ عظیم مقاصد ، امن . خوشحالی . ترقی کی طرف رواں دواں ہوں


 اگر ہم کچھ بنیادی سوالات کا جواب موجودہ تناظرمیں قرآن سنت کی  روشنی میں معلوم کر لیں. ان پر قومی مباحثہ ہو جس میں میڈیا ، دانشور ، مذہبی سکالرز علماء ، سیاسی مفکرین ، سول سوسائٹی ، فوجی ماہرین ،  قانون ، خارجہ امور کے ماہرین اور تمام دوسرے متعلقہ ماہرین  اور عوام حصہ لیں . پھر جس پر سب یا اکثریت متفق ہو ان پر پھر ڈٹ کرعمل کریں تو پاکستان ایک ترقی یافتہ باعزت ملک، قوم  بن سکتا ہے:
کچھ سوالات بظاھر معمولی معلوم ہوتے ہیں مگر گہرے اثرات رکھتے ہیں. 
 :بنیادی مکالمہ کےسوال درج ذیل ہیں 
  1. . متفقہ آیین پاکستان  جو الله کی حاکمیت اعلی کا اقرار کرتا ہے اور  قرآن سنت کو اول قرار دے, کیا  اس کا مکمل انکار درست ہے ؟ 
  2. کیا اسلامی جمہوریت  جس میں حاکمیت الله کی اور قانون شریعت  کا ہو غیر اسلامی ہے ؟
  3. خلافت میں اگر خلیفہ منتخب ہو گا تو پھر اسلامی جمہوریت میں کیا فرق ہے ؟  
  4. آیین فقط قرار داد مقاصد شامل کرنے سے اسلامی نہیں بنتا اس پر عمل درآمد بھی ہو؟
  5. اسلامی نظریاتی کونسل فقط ایک  سفارشی ادارہ ہے . اس کی تشکیل نو اور اختیارات بھی ہونا چاہے ؟
  6.  اگر موجودہ آیین اور جمہوریت اسلامی نہیں تو متبادل نظام کیا ہے؟ اس کو جمہوری طریقے سے نافذ کریں گے یا ڈکٹیٹر شپ سے ، کیا یہ سب کو قبول ہو گا ؟ 
  7. عام حالات میں اشرافیہ کواگر ختم نہیں تو کم از کم مجبور کیا جا سکتا ہے کہ وہ عوامی امنگوں کا خیال کرتے ہوۓ امن، خوشحالی اور ترقی کے اقدام اٹھاے. جب اس کو معلوم ہو کہ اس میں اشرافیہ کی اپنی سروائیول اور ان کا اپنا بھی فائدہ ہے تو وہ کچھ گنجائش دے گی. دہشت گرد اس میں کامیاب ہوتے نظر آتے ہیں.  اسے کیا اقدام کئے جائیں جو اشرافیہ کوعوام کے فائدہ میں رویہ تبدیل کرنے پر مجبور کرے؟ 
  8.  آیین کے مطابق جمہوری طریقے سے حکومت شوری پارلیمنٹ کا انتخاب سیکشن 62 ، 63 کے سختی سے نفاذ سے قبول ہے  یا جس کی لاٹھی اس کی بھینس ؟
  9. پاکستان میں نفاذ شریعت کی تعریف اجماع جمہور کے مذہب اسلام  کی ہو گی یا اقلیت شیعہ ، دیوبندی، اہل  حدیث ، تکفیری ، خوارج ، کے مطابق ؟
  10.   اسلامی ریاست میں  چند افراد کے نظریے کی شریعت کے نفاذ کے نام پر بغاوت اور جنگ قتال جائز ہے ؟
  11.  کیا اقوام متحدہ کے چارٹر پر دستخط کے بعد “دار-الحرب ” اور “دارلسلام ”  کا قدیم اجتہادی نظریہ ختم ہو کر دنیا اب “دار-الامن ” ہے علاوہ ان علاقوں کے جن پر دوسرے لوگ  قابض ہیں؟
  12.  کسی تبدیلی کی صورت میں حکومت پاکستان کے ماضی میں کئے گیے بین الاقوامی میثاق اور معاہدوں کی پاسداری کی کیا اہمیت اور سٹیٹس ہوگا ؟
  13. کیا  حکومت پاکستان دنیا میں مسلم مقبوضہ علاقوں کی آزادی کے لیے یا کسی اور وجہ سے اخلاقی ، مالی امداد یا جہاد  قتال  کا  فیصلہ کرے گی، یا گروہ ، افراد یا علماء کریں گے یا حکومت سب کے مشورے سے کرے گی ؟ اسی صورت میں بین الاقوامی معاہد و ن کی کییا حیثیت ہو گی ؟ 
  14. غیر مسلمان اقوام سے عام تعلقات  ،تعلیمی . جدید ٹیکنالوجی کا حصول ، تبلیغی، اسلامی دعوت , تجارتی اور دفاعی معاہدے، جدید اسلحہ کا حصول اپنے فائدے کے لیے  ممنوع ہے یا جائز ؟
  15. کیا بین الاقوامی سرحدوں کا احترم ہو گا یا ساری زمین الله کی ہے کوئی سرحد نہیں ہو گی ؟
  16. کیا پاکستان ساری دنیا سے جنگ کرے گا اور تباہ و برباد ہو جائے گا ؟
  17. حکومت پاکستان موجودہ نواز شریف  اور سابقہ حکمران  مشرف،  زرداری تمام امریکہ کی پٹھو  ہیں جوامریکا کی غلام ہیں . وہ سب اس کا انکار کرتے ہیں . اس دعوے کی حقیقت کیسے معلوم ہو گی ؟
  18.  کیا حکومت  کے خلاف اس قسم کے الزمات پر بغاوت جائز ہے ؟
  19. کیا جو  عوام بغاوت نہیں کرتے وہ کیا حکومت کے ساتھی ہیں ، مرتد ہیں سب واجب قتل ہیں ، اور جہنمی ہیں . ان کو مارنا ثواب ہے ؟
  20.  انسانی حقوق کیا ہیں ؟ یا انسانی حقوق وہ ہیں جو حکومت وقت دے ؟
  21. کیا پاکستان میں غیر مسلمانوں کے لیے جگہ نہیں اور یہ سب واجب قتل ہیں ؟
  22. کفار ملکوں میں مسلمانوں پر جوابا ” ظلم کا کون ذمہ دار ہوگا ؟
  23. پاکستان میں غیر مسلم اقلیت  کے برابر حقوق “میثاق مدینہ” اور آیین کے مطابق  یا کچھ اور ؟
  24. ا قلیت کی مذہبی آزادی، عبادت کا حق اور چرچ ، مندر گردواروں کی حفاظت یا تباہی ؟
  25.  اختلاف رائے کا حق ہو گا . ظالم حکمران کیسے تبدیل کیا جا سکے گا ؟
  26. ریاست میں گروہ ، جتھوں اور پرائیویٹ ملیشیا  کی تشکیل کی اجازت ہو گی ؟ ان کو کنٹرول کون کرے گا ؟
  27.  کیا امر با المعروف نہی عن المنکر ، (نیکی کی ترغیب اور برائی سے اجتناب ) کے لیے حکومت ، افراد، مذہبی اور سوشل تنظیموں کے طریقہ کار اور دائرہ اختیار کو طے کرنے کی ضرورت ہے؟
  28. سماجی اوراخلاقی برایوں نے معاشرے کو تباہی کے دھانے پر کھڑا کر دیا ہے. اس ضمن میں حکومت، افراد اورمذہبی اور سوشل تنظیموں کی کوششوں میں ربط کی ضرورت اور طریقہ کار؟   
  29. کیا دینی مذہبی تعلیم پر حکومت کا کسی حد تک کنٹرول ہو؟  نصاب کو جدید تقاضوں کے مطابق ڈھالا جانے . مدارس کے طلبا دین کے ساتھ دنیاوی ، سائنس کی تعلیم حاصل کریں  مزید امام مسجد کے علاوہ دوسرے کام حصول روزگار کے لیے کر سکیں؟
  30. کیا عوام کا دشت گردی خودکش حملوں سے قتال جائز ہے؟   
  31. فوج، پولیس اور دوسرے قومی دفاعی ادارے اور ان کے افراد مساجد ، گرجوں عوامی اجتماع کی جگہوں پر  طالبان کے خود کش حملوں اور دہشت گردی کو روکیں یا نہیں؟
  32. عوام کی جان اور پراپرٹی کی حفاظت کون کرے گا؟ 
اہل علم ، دانشور حضرات اور تمام عوام الناس سے قرآن ، سنّت ، تاریخی حقائق  اورموجودہ حالات کے تناظر میں  رہنمائی کی  درخواست ہے . اس پیغام کو پھیلائیں تاکہ ایک قومی مکالمے کا آغاز ہو . ہم مل کر ان مسائل کا حل پا سکیں . اور کچھ نہیں تو کم از کم عوام میں ایک فکری،  شعوری آگاہی پیدا ہو جائے گی . عوام دھوکہ سے بچ جائیں گے . الله ہماری مدد فرماتے . آمین .
مَّن يَشْفَعْ شَفَاعَةً حَسَنَةً يَكُن لَّهُ نَصِيبٌ مِّنْهَا ۖ وَمَن يَشْفَعْ شَفَاعَةً سَيِّئَةً يَكُن لَّهُ كِفْلٌ مِّنْهَا ۗ وَكَانَ اللَّـهُ عَلَىٰ كُلِّ شَيْءٍ مُّقِيتًا
جو بھلائی کی سفارش کریگا وہ اس میں سے حصہ پائے گا اور جو برائی کی سفارش کرے گا وہ اس میں سے حصہ پائے گا،  اور اللہ ہر چیز پر نظر رکھنے والا – قرآن ٤:٨٥



.
Related:
~ ~ ~ ~ ~ ~ ~ ~ ~ ~ ~ ~ ~ ~ ~ ~ ~  ~ ~ ~  ~
Humanity, ReligionCultureSciencePeace


 A Project of 
Overall 2 Million visits/hits

سیاست علما کا میدان نہیں



سیاست علما کے لیے ممنوع نہیں لیکن یہ ان کا حقیقی میدان نہیں۔ سیاست اس امت کی تاریخ میں کبھی علماکا اصل تعارف نہیں رہا۔ ان کی سیاست بس اتنی تھی کہ حکمرانوں کو انذار کیا جائے، جب اس کی ضرورت ہو۔ ہمارے ہاں جب سیاست علما کی دل چسپی کااصل میدان بنی تو ان کی صفوں سے باصلاحیت لوگ اس طرف کا رخ کرنے لگے۔ یوں مسندِ دعوت وارشاد ان کے حوالے کر دی گئی جو درحقیقت اس کے مستحق نہیں تھے۔ انہوں نے اپنے ذوق کے مطابق مذہبی اداروں کی تشکیل کی۔ یوں یہ مسلکی اورگروہی مفادات کے تابع ہوگئے۔ ان میں اکثریت ان کی تھی جن کی شہرت رسوخ فی العلم نہیں، شعلہ فشانی تھی۔ انہوں نے مذہبی اداروں کو مسلکی انتہا پسندی کے مراکز میں بدل دیا۔
دوسری طرف افغانستان میں سوویت یونین کا قبضہ ہوا تو ریاست ِ پاکستان نے امریکی تائیدو نصرت کے ساتھ،اس 
معرکے کو مذہبی بنیادوں پر لڑنے کا فیصلہ کیا۔ ریاست کی سرپرستی میں تصورِجہاد کی تفہیم ِ نوسامنے لائی گئی اوراسے نجی شعبے کے حوالے کر دیا گیا۔ یوں جہادی گروہ وجود میں آئے۔ سوویت یونین ختم ہوا تو ریاست نے ان گروہوں کو نیامحاذ دینے کی کوشش کی۔ سب کے لیے یہ اہتمام نہیں ہو سکا۔ یوں ان کے نئے گروہ وجود میں آئے جو ہدف اور حکمتِ عملی، دونوں کے تعین میں خود مختار تھے۔ دوسری طرف امریکہ کا مفاد ختم ہوا تو وہ اس سارے عمل سے لاتعلق ہو گیا، یہاں تک کہ تاریخ نے کروٹ لی اوریہ لوگ خود اس کے لیے چیلنج بن گئے۔ ریاست ِ پاکستان نے پالیسی تبدیل کی اور امریکہ کا ساتھ دینے کا فیصلہ کیا تو ان گروہوں نے انہیں قبول کرنے سے انکار کر دیا۔ یوں ریاست پاکستان اور جہادی گروہوں کے مابین ایک نیا معرکہ شروع ہوا۔ اس معرکے میں جہادی گروہوں نے ریاست کے ساتھ پاکستانی سماج کو اپنا ہدف بنا لیا۔ ایک مرحلے پر یہ جہاد اور مسلکی انتہا پسندی ہم آہنگ ہوگئے۔ اب معاملات ریاست کے ہاتھ سے نکل گئے اور مذہبی قیادت بھی بے بس ہوگئی۔ یوں مساجد اور شاہراہیں مقتل بن گئے۔
یہ وہ مر حلہ تھا جب علما کو بروئیِ کار آ نا چاہیے تھا۔ وہ علما جنہوں نے خود کو اس ہنگامہ آرائی سے دور رکھا اور سیاست کو اپنی پہلی ترجیح نہیں بنا یا۔ جنہوں نے اشاعتِ دین کی کوششوں کے ساتھ ،اپنے تئیں نئے فتنوں کے خلاف علمی جہاد کو جاری رکھا۔ انہوں نے جہاد سے متعلق اس نئی تعبیرکو نظرا ندازکیا جس نے جہاد کو ریاست کے بجائے نجی شعبے کے حوالے کردیا۔ جب مختلف لوگوں نے جہادکا فریضہ اپنے ہاتھ میں لیا توہدف کے ساتھ،حکمت عملی کا تعین بھی ان کی صواب دید بن گیا۔ اب کسی کے نزدیک دوسرے مسلک کے لوگوں کومارنا جہاد قرار پایا اورکسی کے اجتہاد میں مو لا نا حسن جان واجب القتل ٹھہرے۔ علما نے اس اہم تبدیلی کو نظر انداز کیا اور یوں پاکستان فسادکاگھر بن گیا۔ اس سے دوسری قوتوں کو مو قع ملا جو پاکستان کی سلامتی کے درپے رہتی ہیں۔ ان کے لیے آسانی ہوگئی کہ وہ اس معاشرے کو مسلکی بنیادوں پر تقسیم کریں اوراسے کمزور کریں۔ پاکستان اس وقت عالمی سیاست کے ساتھ ساتھ مشرقِ وسطیٰ کی سیاست کا بھی مرکز بن چکا

More:

Revising Education Syllabus نصابِ تعلیم کی تشکیلِ نو


ایک اچھا فیصلہ، خدشہ ہے کہ عجلت پسندی کی نذر ہو جا ئے گا , نصاب کی تشکیلِ نوجس مشاورت اورغور وفکر کی متقاضی ہے،اس کے لیے دو ماہ کافی نہیں۔کابینہ میں بیٹھے احسن اقبال تو یہ بات جا نتے تھے۔کیا انہوں نے وزیر اعظم کو بتا یا نہیں؟پھر یہ کہ اس کام کی راہ میں چند قانونی اور سماجی رکاوٹیں بھی ہیں۔اٹھارویں آئینی ترمیم کے بعد،تعلیم اب صوبائی مسئلہ ہے۔نصاب سازی، اسلامی تعلیم،تعلیمی منصوبہ بندی ،یہ اب صوبوں کی ذمہ داری ہے۔ مزید یہ کہ،پاکستان میں اس وقت ایک نہیں، کئی نظام ہائے تعلیم رائج ہیں۔اس تنوع کو کسی ہم آہنگی میں تبدیل کیے بغیربھی کوئی قدم نتیجہ خیز نہیں ہو گا۔اچھا ہو تا اگر کوئی فرمان جاری کر نے سے پہلے، اس مسئلے پرماہرین سے مشاورت کرلی جاتی۔
اٹھارویں ترمیم کے بعد وفاق نے اپنے ہاتھ کاٹ ڈالے ہیں۔اب وہ صوبوں کو مشورہ دے سکتا ہے یا کسی ہم آہنگی کے لیے معاونت کر سکتا ہے،حکم نہیں دے سکتا۔اس ترمیم میں سب مذہبی وسیاسی جماعتیں شریک تھیں۔ مذہبی تعلیم میں پہلے ہی ریاست کا کوئی عمل دخل نہیں۔ان کے اپنے وفاق ہیں اور اپنے نصاب۔وزیراعظم اس اقدام سے جونتیجہ نکالنا چاہتے ہیں، وہ ممکن نہیں جب تک مذہبی تعلیم بھی نئے خطوط پر استوار نہ ہو۔ایک اور پہلو بھی قابلِ غور ہے۔سول سوسائٹی کے چند ادارے بھی اس باب میں متحرک ہیں۔ان کی رسائی نجی تعلیمی اداروں تک ہے جو دینی مدارس کی طرح ریاست سے بے نیاز ہیں۔اس پراگندگی میں،اس بات کا امکان بہت کم ہے کہ وزیر اعظم کا خواب تعبیر آ شناہو ۔اس کی نتیجہ خیزی کے لیے، ضروری ہے کہ ان حقیقتوں کے اعتراف کے ساتھ کوئی حکمتِ عملی اختیار کی جا ئے۔
کے پی میں جو تنازع کھڑا ہوا، وہ ایک صوبے کا مسئلہ نہیں ہے۔اگر کسی اور صوبے میں نصاب کو اس طرح تبدیل کیا جا تا توبھی ردِ عمل یہی ہو نا تھا۔پاکستان میں مو جود نظری تقسیم جس طرح عصبیت میں ڈھل چکی، اس کے بعدکسی اتفاقِ رائے کی تو قع رکھنا مشکل ہے۔اختلاف کایہ دائرہ تین سوالات پر محیط ہے:
1۔ مذہبی تعلیمات کو کیا عمومی نصاب کا حصہ ہو نا چاہیے؟اگر اس کا جواب اثبات میں ہے تو اس پر مذہبی اقلیتوں کو اعتراض ہے۔ہمارے نصاب میں مذہبی تعلیمات پر مشتمل ابواب میں عام طور پر ایجابی کے بجائے سلبی انداز اختیار کیا جاتا ہے۔ایجابی انداز یہ ہے کہ ہم اسلام کی مثبت تعلیمات کو نمایاں کریں۔سلبی انداز یہ ہے کہ دوسرے ادیان کی نفی کی اساس پر اپنا مقدمہ قائم کریں۔اس کا ایک نتیجہ یہ بھی نکلتا ہے کہ دوسرے مذاہب کے ماننے والوں کے ساتھ تحقیراور عداوت کے جذبات پیدا ہوتے ہیں جو پاکستان کی قومی سلامتی کے لیے نقصان دہ ہیں۔اس کا دوسرا پہلوبھی ہے۔آئین ریاست کو اس بات کا پابند بنا تا ہے کہ وہ سماج کی اسلامی تشکیل اور تشخص کے لیے اقدام کرے۔اس کے لیے تعلیم کی اسلامی تشکیل بدرجہ اتم ضروری ہے۔اب اس تضاد کو کیسے دور کیا جا ئے؟
2۔ ہماری تاریخ کب سے شروع ہوتی ہے؟محمد بن قاسم کی آمد سے یا 'ہمارا‘ وجود اس سے پہلے بھی ثابت ہے؟اس سوال کا تعلق شناخت کے بنیادی مسئلے سے ہے۔اگر ہم اجتماعی طور پر اپنی مسلم شناخت پر اصرار کرتے ہیں توپھر اس کا آغاز محمد بن قاسم سے ہو تا ہے۔اگرہماری شناخت ہندی ہے تو پھر ظاہر ہے کہ ہندوستان کی تاریخ کہیں زیادہ قدیم ہے۔مسئلہ وہی قدیم ہے:قومیت کی اساس نظریہ ہے یا وطن؟ہمیں تسلیم کر نا چاہیے کہ پاکستان کو نظریاتی ریاست تسلیم کرنے کے بعدہم اسے بیسویں صدی میں فروغ پانے والے قومی ریاست کے تصور سے ہم آہنگ بنا نے میں کامیاب نہیں ہو سکے۔نظریاتی شناخت پر اصراراقلیتوں میں بھی بے چینی کی لہر دوڑا دیتا ہے۔وہ پھر قائد اعظم کی 11اگست کی تقریر میں پناہ تلاش کر تے ہیں۔اکثریت اس تقریر کو قائد اعظم کی اجتماعی تعلیمات کی روشنی میں سمجھنے پر اصرار کرتی ہے۔ دوسرے گروہ کا کہنا ہے کہ قانون ساز اسمبلی کے خطاب کو کسی عوامی اجتماع کی تقریر پر قیاس نہیںکیا جا سکتا۔اس کی سنجیدگی متقاضی ہے کہ اسے دستور اور اجتماعی شناخت کے حوالے سے دیکھا جائے۔یہ گروہ اس مقدمے کے حق میں قائد اعظم کے بعض عملی اقدامات کاذکر کرتا ہے جن میں اہم وزارتوں پر غیر مسلموں کاتقرر بھی شامل ہے۔اس کا اب ایک جواب یہ آیا ہے کہ قائداعظم نے کوئی ایسی تقریر کی ہی نہیں۔ظاہر ہے کہ یہ اب ایک نہ ختم ہو نے والی بحث ہے۔
3۔اگر نصاب کو مذہبی تعلیم کے زیر اثرتشکیل پانا ہے تویہ کس تعبیر پر مبنی ہوگا؟ سماج میں اسلام کی بہت سے تعبیرات رائج ہیں۔ریاست کون سی تعبیر اختیار کرے گی؟ مسلمان مسالک، بالخصوص ایک دو مسالک میں تعبیر کی لکیر گہری ہے۔ اس لیے یہ مسئلہ بہت عرصے سے زیر بحث ہے۔ بھٹو صاحب کے دور میں اسلامیات بھی دو ہو گئی تھیں۔ کئی ریاستوں نے تو اس مسئلے کو حل کر لیا۔پاکستان کے لیے ممکن نہیں کہ یہاں ہر مسلک خود کو' سٹیک ہو لڈر‘ سمجھتا ہے اور ریاست کی 'اونرشپ‘ میں شرکت کا دعوے دار ہے۔یہاں ریاست جبر نہیں کر سکتی۔اسلامیات کو دو خانوں میں تقسیم کر نا زبانِ حال سے اس بات کا اقرار ہے کہ مذہب قومی وحدت کی اساس نہیں بن سکتا۔ہم اس با ت کو تسلیم نہیں کرتے۔یوں مسئلے کا یہ پہلوبھی تعلیمی نصاب کی تشکیلِ نو میں مانع ہے۔
ان سوالات کے چند سادہ جواب دیے جاسکتے ہیں۔جیسے مذہبی تعلیمات کو عمومی نصاب کا حصہ نہیں ہو نا چاہیے۔ اگر ہم نے بچوں کو اردو سکھانی ہے تو یہ لازم نہیں کہ اس میں مذہبی اسباق کو شامل کیا جائے۔ہم اردوکا مضمون کسی مذہبی حوالے کے بغیربھی پڑھا سکتے ہیں۔جہاں تک مذہبی تعلیم کا معاملہ ہے تومسلمان طالب علموں کے لیے اسلامیات کا مضمون نصاب کا حصہ ہے۔وہ اس سے اپنے مذہب سے واقف ہو سکتے ہیں۔ غیر مسلم طلبا و طالبات کے لیے 'اخلاقیات‘ کا مضمون شامل کیا جا سکتاہے۔ اسی طرح مسلکی تفریق سے بچنے کے لیے اسلامیات کی تعلیم کو قرآن مجید کی تعلیم سے بدل دیا جائے۔اگر پہلی جماعت سے یہ نصاب اس طرح ترتیب دیا جائے کہ عربی زبان کی تدریس سے اس کا آ غاز ہو یہاں تک کہ بارہ سال کی تعلیم کے بعد ایک طالب علم میں یہ استطاعت پیدا ہو جائے کہ وہ قرآن مجید کے متن سے براہ راست وابستہ ہو سکے۔اس میں قرآن مجیدکی آیات کو بچے کی صلاحیت اور ضرورت کے مطابق شاملِ نصاب کیا جائے۔ جیسے پانچویں جماعت تک بنیادی اخلاقیات، اس کے بعد سماج اور باہمی تعلقات۔ میٹرک میں ریاست و سیاست سے متعلق تعلیمات۔ اسی طرح تاریخ کو بھی دوحصوں میں پڑھایا جا سکتاہے۔ایک قبل از اسلام اور ایک اسلام کی آ مد کے بعد۔اگر اسلام کے آنے سے پہلے مو جود حکمرانوں میں کوئی خوبی تھی تو اس کے بیان میں کیا حرج ہے یا کسی مسلمان حکمران میں کوئی کمزوری تھی تو اس کا اسلام سے کیا تعلق؟تاریخ تو افراد کا نامۂ اعمال ہے۔ اس کی ذمہ داری مذہب پر نہیں ہے۔
یہ معاملہ،تاہم اتنا سادہ نہیں ہے۔اس کے لیے قومی سطح پر مشاورت ہونی چاہیے۔ علما، ماہرینِ تعلیم،سیاسی راہنما،پالیسی ساز، سول سوسائٹی، سب کو مل کراتفاقِ رائے تلاش کر نا چاہیے۔ میرا مشورہ ہو گا کہ وزیر اعظم تعلیم کو اس کے وسیع تر تناظر میں دیکھیں۔اس میں نصاب ہائے تعلیم کا تنوع اور مذہبی تعلیم کو بھی شامل کرتے ہوئے ایک اصلاح کی حکمتِ عملی ترتیب دینی چاہیے۔ اس کاآغاز نصاب کی تشکیلِ نو سے ہو سکتا ہے۔یہ کام مگر عجلت کا نہیں۔تعلیم میٹروبس کی طرح کا 
منصوبہ نہیں جو دس ماہ کی'ریکارڈ مدت‘ میں مکمل ہو جائے۔ 
Khursheed Nadem Dunya.Com



* * * * * * * * * * * * * * * * * * *
Humanity, Religion, Culture, Ethics, Science, Spirituality & Peace
Over 1,000,000 Visits
* * * * * * * * * * * * * * * * * * *