Featured Post

FrontPage صفحہ اول

Salaam Pakistan  is one of projects of  "SalaamOne Network" , to provide information and intellectual resource with a view to...

Do Qomi Nazryah Pakistan دو قومی نظریہ پاکستان





دو قومی نظریہ (انگریزی: Two Nation Theory) بر صغیر کے مسلمانوں کےہندوؤں سے علاحدہ تشخص کا نظریہ ہے۔

جنگ آزادی 1857ء کے دس سال بعد علی گڑھ مکتبہ فکر کے بانی سرسید احمد خان نے ہندی اردو جھگڑے کے باعث 1867ء میں جو نظریہ پیش کیا ، اسے ہم دو قومی نظریے کے نام سے جانتے ہیں۔ اس نظریے کی آسان تشریح یوں کی جاسکتی ہے کہ اس کے مطابق نہ صرف ہندوستان کے متحدہ قومیت کے نظرئیے کو مسترد کیا گیا بلکہ ہندوستان ہی کے ہندوؤں اور مسلمانوں کو دو علاحدہ اورکامل قومیں قراردیا گیا۔ انڈین نیشنل ازم پر یقین رکھنے والوں کے لیے دو قومی نظریہ صور اسرافیل بن کر گونجا ۔ ہماری شاہراہ آزادی پر دو قومی نظریہ وہ پہلا سنگ میل ہے جسے مشعل راہ بنا کر مسلمانان ہند بالآخر 1947ء میں اپنی منزل مقصد کو پانے میں سرخرو ہوئے۔

 پس منظر
جنگ آزادی 1857ء کے زخم ابھی تازہ ہی تھے کہ ہندوؤں نے ایک اور مسئلے کو لاکھڑا کیا۔ یہ جھگڑا ہندی اردو جھگڑے 1867ء کے نام سے موسوم ہے۔ 1867ء میں بنارس کے ہندوؤں نے لسانی تحریک شروع کر دی جس کا مقصد اردو کی جگہ ہندی کو سرکاری اور عدالتی زبان کے طور پر رائج کرنا تھا۔ اور عربی رسم الخط کی جگہ دیوناگری رسم الخط کو اپنانا تھا۔ اس جنونی اور لسانی تحریک کا صدر دفتر آلہ آباد میں قائم کیاگیا جبکہ پورے ملک میں ہندوؤں نے کئی ایک ورکنگ کمیٹیاں تشکیل دیں، تاکہ پورے ہندوستان کے تمام ہندوؤں کو اس تحریک میں شامل کیا جائے اور اس کے مقاصد کے حصول کو ممکن بنایا جائے۔
اگر غیر جانبداری سے دیکھا جائے تو اردو کے خلاف ہندوؤں کی تحریک ایک ناقابل فہم اور غیر دانشمندانہ اقدام تھا۔ کیونکہ اردو کو جنوبی ایشیاء میں نہ صرف متعارف کرانے اور ہر دلعزیز بنانے بلکہ اسے بام عروج پر پہچانے کے لیے انہوں نے وہی کردار ادا کیا تھا جو خود مسلمانوں کا تھا۔ اگر اردو کا کوئی قصور تھا بھی تو صرف اتنا کہ اس نے مسلمانوں کے شاندار ماضی ان کے بہادروں ، عالموں اولیاء کرام او رسپہ سالاروں کے کارناموں اورکرداروں کو اپنے اصناف اور دبستانوں میں محفوظ کر لیا ہے۔ کئی مسلمان رہنماؤں نے ہندوؤں کو سمجھانے کی کوشش کی ان پر واضح کیا گیا کہ اردو انڈو اسلامک آرٹ کا ایک لازمی جزو بن گئی ہے۔ کوئی لاکھ بار چاہے تو جنوبی ایشیاء کی ثقافتی ورثے سے اس انمول ہیرے کو نکال باہر نہیں کرسکتے۔ مگران دلائل کا ہندوؤں پر کچھ اثر نہ ہوا سرسید احمدخان نے بھی ،جو ان دنوں خود بنارس میں تھے، اپنی تمام تر مصالحتی کوششیں کر لیں لیکن بری طرح ناکام رہے کیونکہ سرسید ہی کے قائم کردہ سا ئینٹیفک سوسائٹی آف انڈیا کے ہندو اراکین بھی اردو کے خلاف تحریک میں پیش پیش تھے۔ ہندی اور اردو کے درمیان اس قضیے کا نتیجہ بڑے پیمانے پر ہندو مسلم فسادات کی صورت میں برآمد ہوا۔ ثقافتوں کے اس ٹکراؤ نے سرسید کے خیالات میں ایک اورانقلاب برپا کر دیا۔

مسلم قیادت اور دو قومی نظریہ
ایک دن بنارس کے چیف کلکٹر سکسپئیر سے ہندی اردو جھگڑے سے متعلق تبادلہ خیال کرتے ہوئے سرسید احمد خان نے اپنا مشہور زمانہ دو قومی نظریہ پیش کرتے ہوئے کہا :

“Now I am convinced that both these communities will not join whole heartedly in any thing. Hostility between the two communities will increase immensely in the future. He who
lives will see.”


یہاں یہ وضاحت ضروری ہے کہ سرسید احمد خان ہندی اردو جھگڑے سے پہلے ہندو مسلم اتحاد کے بڑے علمبردار تھے۔ اور متحدہ قومیت کے حامی تھے لیکن اس جھگڑے کے باعث ان کو اپنے سیاسی نظریات یکسر تبدیل کرنا پڑے۔ ہندو۔ مسلم اتحاد کی بجائے اب وہ انگریز مسلم اتحاد کے داعی بن گئے۔ اور متحدہ قومیت کے بجائے ہندوستان میں مسلمانوں کے جداگانہ تشخص کے عظیم پیامبر بن کر ابھرے۔
سرسید احمد خان کے بعض سوانح نگاروں کے مطابق اس جھگڑے سے پہلے سرسید Idealistتھے اور Idealism پر یقین رکھتے تھے لیکن اس جھگڑے نے ان کو Realist بنا دیا اور اب وہ Realism کے پیکر بن کر سامنے آئے۔ یہ تھا وہ جھگڑا جس نے ہندوستان میں متحدہ قومیت کے سامنے ایک بڑا سوالیہ نشان لا کھڑا کیا۔
یہ تھا وہ جھگڑا جس نے ہندو مسلم اتحاد کی حقیقت کو طشت ازبام کر دیا۔ حقیقت یہ ہے کہ ہندی اردو جھگڑے کی صورت میں ہم ان دو مختلف ثقافتوں کا ٹکراؤ دیکھتے ہیں جو باوجود اس حقیقت کے کہ صدیوں تک ایک ہی خطے میں پروان چڑھی تھیں لیکن ریل کی دو پٹریوں کی طرح یا بجلی کے ایک ہی کیبل کے اندر دو تاروں کی طرح اور یا پھر ندی کے دو کناروں کی طرح نہ کبھی ماضی میں آپس میں گھل مل سکے اور نہ کبھی مستقبل میں ان کے گھل مل جانے کا کوئی امکان تھا۔

علی گڑھ
مکتبہ علی گڑھ کے قائدین نے دو قومی نظرئیے کو منطقی انجام تک پہنچانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی ۔ ان کا استدلال تھا کہ دو قومی نظرئیے ہی کی بنیاد پر مسلمانان ہند اپنے دائمی حلیفوں کی دائمی غلامی سے بچا سکتے ہیں۔ اس نظریے کے حامی راہنماؤں نے 1906ء میں نہ صرف شملہ وفد کو منظم کیا بلکہ آل انڈیا مسلم لیگ کے نام سے مسلمانان ہند کے لیے ایک الگ نمائندہ سیاسی جماعت بھی قائم کر دی۔

مسلم لیگ
1906ء سے 1947ء تک آل انڈیا مسلم لیگ کی سیاست کا مرکز دو قومی نظریہ ہی رہا ہے۔ اس ضمن میں آل انڈیا کانگریس، ہندو مہا سبھا دیگر ہندو تنظمیں اورہندو رہنما اپنی تمام تر کوششوں ، حربوں اور چالوں میں مکمل طور پر ناکام رہے ہیں کہ آل انڈیا مسلم لیگ کے قائدین کو دو قومی نظریے سے برگشتہ کیا جاسکے اور اس نظریے کو غلط مفروضے کے طور پر پیش کیا جائے سکے۔ لیکن ایسا نہ ہوا۔


محمد اقبال
یورپ کی سیر، یورپ میں مطالعہ اور مسجد قرطبہ میں اذان دینے کے بعد ڈاکٹر علامہ اقبال نے عملی سیاست میں سرگرمی سے حصہ لینا شروع کیا۔ تو آپ کے سیاسی نظریات سامنے آئے ۔ 1930ء میں الہ آباد کے مقام پر آل انڈیا مسلم لیگ کے اکیسویں سالانہ اجلاس کی صدارت کرتے ہوئے آپ نے نہ صرف دو قومی نظرئیے کی کھل کر وضاحت کی بلکہ اسی نظرئیے کی بنیاد پر آپ نے مسلمانان ہند کی ہندوستان میں ایک الگ مملکت کے قیام کی پیشن گوئی بھی کر دی۔ دوسری گول میز کانفرنس میں شرکت کے دوران آپ نے محمد علی جناح سے کئی ملاقاتیں کیں جن کا مقصد دو قومی نظریے ہی کی بنیاد پر مسلمانان ہند کے حقوق کے تحفظ کے لیے کوئی قابل قبول حل تلاش کرنا تھا۔ 1936ء سے 1938ء تک آپ نے قائداعظم کو جو مکتوبات بھیجے ہیں ان میں بھی دو قومی نظرئیے کا عکس صاف اور نمایاں طور پر نظر آتا ہے۔


محمد علی جناح

بانی پاکستان دو قومی نظرئیے کے سب سے بڑے علمبردار رہے ہیں آپ نے نہ صرف آل انڈیا کانگریس کے تا حیات صدر بننے کی پیشکش کو مسترد کیا بلکہ علمائے دیوبند اورمسلم نیشنلسٹ رہنماؤں کی مخالفت بھی مول لی۔ لیکن دو قومی نظرئیے کی صداقت پر کوئی آنچ نہ آنے دی۔ حقیقت یہ ہے کہ آپ نے پاکستان کا مقدمہ دو قومی نظرئیے ہی کی بنیاد پر لڑا اور اسی بنیاد پر ہی آل انڈیا سلم لیگ کو ہندوستان کے شمال مشرق اور شمال مغرب میں آباد مسلمانوں کی واحد نمائندہ اور سیاسی جماعت منوائی ۔ دو قومی نظرئیے کو نظریہ پاکستان میں منتقل کرنے کا سہرا آپ ہی کو جاتا ہے۔

https://ur.wikipedia.org/wiki/دو_قومی_نظریہ
.............................................................

نظریہ پاکستان کیا ہے؟

افسوس کیوں ؟ یہ تو خوشی کی بات ہے کہ آخر کار نظریہ پاکستان پر بحث شروع ہوئی ۔ نئی نسل کو بھی پتہ چلے گا کہ اسلامی جمہوریہ پاکستان میں آج تک نظریہ پاکستان کی تعریف کیوں نہ سامنے لائی جا سکی ۔ 27ستمبر 1971ء کو پنجاب ٹیکسٹ بک بورڈ نے ملک کے ممتاز ماہرین تعلیم اور دانشوروں کو لاہور میں اکٹھا کیا اور ان سے درخواست کی کہ وہ نظریہ پاکستان کی تعریف کریں ۔ پنجاب یونیورسٹی لاہور کے وائس چانسلر علامہ علاؤالدین صدیقی نے اپنے تحریری مقالے میں کہا کہ نظریہ پاکستان دراصل اسلام کا دوسرا نام ہے ۔

ڈاکٹر سید عبداللہ نے دو قومی نظریے کو پاکستان کی اساس قرار دیا جنرل یحییٰ خان کی رنگین مزاج حکومت نے نظریہ پاکستان کی بحث شروع کرنے کے چند ماہ بعد ہی 16دسمبر 1971ء کو ڈھاکہ میں بھارتی فوج کے سامنے ہتھیار ڈال دیئے اور پاکستا ن دو لخت ہو گیا ۔پاکستان کے دشمنوں نے کہا کہ سقوط ڈھاکہ کے بعد دو قومی نظریہ بحیرہ عرب میں غرق ہو گیا لیکن بنگالیوں نے بھارت کا حصہ بننے سے انکار کر دیا ۔ بنگلہ دیش کی صورت میں ایک خودمختار ریاست وجود میں آ گئی ۔ 1981ء میں جنرل ضیاء الحق کے دور میں مطالعہ پاکستان کو سرکاری تعلیمی اداروں میں لازمی مضمون کے طور پر متعارف کرایا گیالیکن نظریہ پاکستان کی تعریف نہ کی جا سکی ۔ وجہ یہ تھی کہ مارشل لاء دور میں پارلیمینٹ موجود نہ تھی ،میڈیا پر پابندیاں تھیں ۔

 آئین میں نظریہ پاکستان کی کوئی تعریف اور وضاحت موجود نہیں بلکہ آئین کی دفعہ 19کے تحت ہر شہری کو اظہار کی آزادی حاصل ہے ۔ نظریہ پاکستان کی خلاف ورزی کا الزام لگا کر کسی بھی امیدوار کے کاغذات مسترد کرنا قطعی نامناسب ہے لیکن اچھی بات یہ ہے کہ ایک ریٹرننگ افسر کے متنازعہ فیصلے کے باعث پورے ملک میں نظریہ پاکستان پر بحث شروع ہو گئی اور یہ ضرورت محسوس کی گئی نئی نسل کو نظریہ پاکستان کی کسی متفقہ تعریف سے آگاہ کیا جائے ۔ خیال رہے کہ پاکستان کے ساتھ ہماری وفاداری غیر مشروط ہونی چاہئے لیکن نظریہ پاکستان کے نام پر کسی پاکستانی کی وفاداری کو مشکوک بنانا پاکستان کے ساتھ دشمنی کے مترادف ہے ۔

نظریہ پاکستان کی بحث شروع ہونے کے بعد سیکولر عناصر 11/اگست 1947ء کو قائد اعظم کی ایک تقریر کی روشنی میں پاکستان کو سیکولر ریاست قرار دے رہے ہیں۔ پاکستان کو اسلام کا قلعہ سمجھنے والے 14/اگست1947ء کو قائد اعظم کی تقریر کا حوالہ دے رہے ہیں جس میں بانی پاکستان نے نبی کریم حضرت محمد کو اپنا رول ماڈل قرار دیا تھا۔ ان دونوں تقاریر سے اپنی اپنی مرضی کا مطلب نکال کر نئی نسل کو گمراہ کرنے کی ہر کوشش قابل مذمت ہے ۔ 

کون نہیں جانتا کہ قائد اعظم سیکولر کانگریس چھوڑ کر مسلم لیگ میں آئے تھے ۔ انہوں نے مسلم لیگ میں آنے کے بعد کبھی سیکولر ازم کی حمایت نہیں کی۔

کون نہیں جانتا کہ متحدہ ہندوستان کے بڑے بڑے مولانا اور مفتی صاحبان علامہ اقبال اور قائد اعظم دونوں کے سخت مخالف تھے ۔ نظریہ پاکستان نہ تو سیکولر ازم ہے نہ ہی مذہبی انتہا پسندی ہے ۔ ہمیں نظریہ پاکستان کو سمجھنے کیلئے کچھ اہم تاریخی حقائق پر غور کرنا ہوگا ۔

ہمیں تسلیم کرنا ہو گا کہ پاکستان کی خالق جماعت آل انڈیا مسلم لیگ نے 1906ء میں ڈھاکہ میں جنم لیا اور سر آغا خان اس کے پہلے صدر تھے ۔ کانگریس بنگال کی تقسیم کے خلاف تھی اور مسلمان بنگال کی تقسیم کے حق میں تھے تاکہ انہیں ہندو برہمنوں کی معاشی اجارہ داری سے نجات ملے۔ دوسرے الفاظ میں تحریک پاکستان کا آغاز آج کے پاکستان سے نہیں بلکہ بنگلہ دیش سے ہوا تھا ۔1930ء میں علامہ اقبال کے خطبہ الہ آباد میں ایک علیحدہ مسلم ریاست کا تصور سامنے آیا ۔ 1937ء کے انتخابات میں مسلم لیگ کو پنجاب، سرحد اور سندھ میں شکست ہوئی ۔ متحدہ بنگال میں مسلم لیگ تیسرے نمبر پر آئی لیکن اے کے فضل الحق کی کرشک پرجا پارٹی کے ساتھ مل کر مسلم لیگ نے مخلوط حکومت بنائی ۔

بنگال میں مسلم لیگ کو پذیرائی ملنے کی وجہ یہ تھی کہ سیکولر کانگریس کا لیڈر سبھاش چندر بوس ہندو ترانے بندے ماترم کو پورے ہندوستان پر مسلط کرنے کا حامی تھا۔ مسلم لیگ نے ایک ایسے ترانے کو مسترد کر دیا جس میں لکشمی دیوی، سرسوتی دیوی اور درگا دیوی کو نمسکار کیا گیا تھا۔ 

سبھاش چندر بوس کی منافقت کا یہ عالم تھا کہ علامہ اقبال کی وفات پر کلکتہ کی میونسپل کارپوریشن کا اجلاس ملتوی کیا گیا تو اس نے مخالفت کی۔ کانگریسی قیادت کی مسلم دشمنی کے باعث کلکتہ کے مسلمانوں نے مولانا ابو الکلام آزاد کی امامت میں نماز عید ادا کرنے سے انکار کردیا کیونکہ وہ کانگریس کے حامی تھے ۔ ایک طرف سیکولر کانگریس تحریک پاکستان کی مخالف تھی دوسری طرف جمعیت علماء ہند اور دیگر مذہبی جماعتیں قائد اعظم پر کفر کے فتوے لگا رہی تھیں ۔

 1940ء میں منٹو پارک لاہور میں قرار داد لاہور منظور کی گئی تو اس میں فلسطینیوں پر یہودی مظالم کی مذمت بھی کی گئی ۔ 1940ء کے بعد کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا نے قیام پاکستان کی حمایت شروع کر دی اور کمیونسٹ دانشور دانیال لطیفی کو مسلم لیگ کی منشور کمیٹی میں بھی شامل کیا گیا جس سے ثابت ہوتا ہے کہ قائداعظم کے تصور پاکستان میں نظریاتی مخالفین کے ساتھ ہاتھ ملانے کی گنجائش موجود تھی ۔ 

پاکستان 1947ء میں قائم ہو گیا لیکن افسوس کہ قائد اعظم زیادہ عرصہ زندہ نہ رہے ۔ پاکستان میں فوجی مداخلتوں کا سلسلہ شروع ہو گیا حالانکہ قائد اعظم سیاست میں فوج کی مداخلت کے سخت خلاف تھے ۔

قائد اعظم نے ایک سیاسی اور جمہوری جدوجہد سے پاکستان کی منزل حاصل کی وہ آئین اور قانون کی بالادستی پر یقین رکھتے تھے ۔

 قائد اعظم کے پاکستان میں سیکولر ازم کے نام پر منافقت اور اسلام کے نام پر فتوے بازیوں کی کوئی گنجائش نہیں۔

 قائد اعظم کے نظریہ پاکستان میں غیر مسلموں کے حقوق کا تحفظ ریاست کی اہم ذمہ داری ہے اسی لئے پاکستان کا پہلا وزیر قانون ایک ہندو جوگندر ناتھ منڈل بنایا گیا۔

علامہ اقبال اور قائد اعظم کی تعلیمات ہی اصل نظریہ پاکستان ہیں۔

 علامہ اقبال سنی گھرانے میں پیدا ہوئے اور قائد اعظم شیعہ گھرانے میں پیدا ہوئے لیکن دونوں کی ذات فرقہ واریت سے بالاتر تھی دونوں صرف اور صرف مسلمان تھے ۔ 

نظریہ پاکستان سمجھنے کیلئے ہمیں کلام اقبال کے ساتھ ساتھ خطبات اقبال کا مطالعہ بھی کرنا چاہئے۔ قائد اعظم کی 11/اگست کی تقریر کے ساتھ ساتھ 14/اگست کی تقریر کو بھی اہمیت دینی چاہئے ۔ دونوں کا مرکزی خیال ایک ہی ہے ۔ نظریہ پاکستان دراصل ایمان بھی ہے ،اتحاد بھی ہے اور تنظیم بھی ہے ۔ نظریہ پاکستان رواداری اور اعتدال ہے ۔ نظریہ پاکستان پر مزید بحث کی ضرورت ہے اور آئندہ پارلیمینٹ کو نظریہ پاکستان کی تعریف ضرور سامنے لانی چاہئے ۔

حامد میر - (اقتباسات ) بہ شکریہ روزنامہ جنگ

https://urdu.alarabiya.net/ur/politics/2013/04/08/نظریہ-پاکستان-کیا-ہے؟.html
....................................................................


مارچ کا مہینہ۔ ہماری تاریخ کا سنگ میل.…
ڈاکٹر صفدر محمود 

مارچ کا مہینہ ہماری قومی زندگی میں ایک منفرد حیثیت رکھتا ہے ۔ یوں تو مارچ کے مہینے میں کئی اہم واقعات رونما ہوئے لیکن میری رائے میں جن تین اہم ترین واقعات نے مارچ کو ہماری تاریخ میں یادگار اور سنگ میل ماہ کی حیثیت دی وہ کہیں قرارداد لاہور جسے بعدازاں قرار داد پاکستان کہا گیا، قرارداد مقاصد جو 12مارچ 1949ء کو منظور ہوئی اور ہمارے 1956ء اور 1973ء کے وساتیر کا حصہ بنی اور تیسرا اہم ترین واقعہ یا کارنامہ 1956ء کے آئین کی منظوری تھی جسے 23مارچ 1956ء سے نافذ کیا گیا ۔ ان تینوں کارناموں نے ہماری تاریخ پر گہرے اثرات مرتب کئے اور قومی زندگی کے دھارے کا رخ متعین کرنے میں اہم کردار سرانجام دیا ۔
عام طور پر قرارداد پاکستان کو 23مارچ سے منسوب کیا جاتا ہے لیکن میں روزنامہ جنگ میں 1987ء 89ء اور 1988ء میں چھپنے والے مضامین میں کئی بار وضاحت کر چکا ہوں کہ قرارداد پاکستان اگرچہ 23مارچ کو مسلم لیگ کے اجلاس منعقدہ لاہور میں پیش کی گئی لیکن اسے منظوری 24مارچ کو ملی۔ اگر مسلم لیگ کے لیڈران اور قائد اعظم  چاہتے تو 24مارچ کو قرار داد پاکستان کا دن قرار دے دیتے لیکن یہ انہی کا فیصلہ تھا کہ اسے 23مارچ سے منسوب کیا جائے۔پاکستان پندرہ اگست 1947ء کو وجود میں آیا لیکن ہماری قیادت کا فیصلہ تھا کہ یوم آزادی 14/اگست کو منایا جائے ۔ظاہر ہے کہ قرار داد لاہور قائد اعظم  اور مسلم لیگ کی اعلیٰ ترین قیادت کی نگرانی میں ڈرافٹ ہوئی ،تشکیل پائی اور انہی کی نگرانی میں مسلم لیگ کے اجلاس میں شیر بنگال مولوی فضل الحق نے پیش کی اور انہی کے سامنے 24مارچ کو منظور ہوئی اس لئے اس فیصلے کا اختیار بھی انہی کے پاس تھا کہ اسے پیش ہونے والے دن یا منظور ہونے والے دن سے منسوب کریں ۔ ظاہر ہے کہ اتنی ذہین، بصیرت مند اور تجربہ کار قیادت کے پیش نظر کچھ وجوہ ہوں گی جن کی بنیاد پر قرار داد لاہور کے لئے 23مارچ کا دن مخصوص کیا گیا ۔ آپ کو اس پر حیرت نہیں ہونی چاہئے کہ خود مسلم لیگ کی ورکنگ کمیٹی نے 22فروری 1941ء کو یہ فیصلہ کیا تھا کہ اس قرارداد کو جسے قرارداد پاکستان کے نام سے پکارا جاتا ہے ہر سال 23مارچ کو منایا جائے گا اور اس روز اس قرارداد کی وضاحت اور تشہیر کی جائے گی۔ اسی سال جب مسلم لیگ کا سالانہ اجلاس 12-15/اپریل 1941ء مدراس میں منعقد ہوا تو قرار داد لاہور کو ایک ریزولیشن کے ذریعے مسلم لیگ کے مقاصد کا حصہ بنا لیا گیا ( فاؤنڈیشن آف پاکستان شریف الدین پیر زادہ ۔جلد دوم صفحہ 371-72)اسی اجلاس میں 14/اپریل کو اپنے صدارتی خطبے میں قائد اعظم نے بار بار زور دیا کہ وہ پاکستان حاصل کئے بغیر چین سے نہیں بیٹھیں گے ۔ اور یہ کہ قرارداد پاکستان لینڈ مارک ہے۔ انہوں نے کہا کہ ”پاکستان ہمارے لئے زندگی موت کا مسئلہ ہے (ص 388) اسے برطانوی حکومت کو تسلیم کر لینا چاہئے ۔ ہم کسی قیمت پر بھی فلسطین کی تاریخ کو دہرانے کی اجازت نہیں دیں گے “ ۔لطف کی بات یہ ہے کہ ہمارے ملک میں دانشوروں کا ایک گروہ مسلسل پراپیگنڈہ کر رہا ہے کہ قائد اعظم نے کبھی اپنی تقریروں میں آئیڈیالوجی کا لفظ استعمال نہیں کیا۔ اس جھوٹ کو رد کرنے کے لئے صرف اس اجلاس میں قائد اعظم کا صدارتی خطبہ پڑھ لیں جس میں انہوں نے صرف ایک پیرا گراف میں مسلم لیگ کی آئیڈیالوجی اور آئیڈیالوجی برائے آزاد مملکت کے الفاظ دو بار استعمال کئے ۔ یہ کہنا کہ نظریہ پاکستان کی اصطلاح قیام پاکستان کے بعد کی ایجاد ہے تاریخ کو مسخ کرنے اور اپنے مقاصد کے لئے استعمال کرنے کے مترادف ہے ۔ اس کے بعد قیام پاکستان تک قائد اعظم آئیڈیالوجی آف پاکستان یا مسلم قومیت کے تصور کا ذکر بار بار کرتے رہے ۔


قیام پاکستان کے بعد قرار داد پاکستان خاص بحث اور اختلاف کا موضوع رہی ہے اور جی ایم سید کی جئے سندھ سے لیکر شیخ مجیب الرحمن، مولوی فضل الحق اور مولانا بھاشانی اور کبھی کبھی پختونستان کا نعرہ بلند کرنے والے عام طور پر اسی قرار داد کا سہارا لیتے ہیں کیونکہ ان کے نزدیک اس قرار داد کے مطابق صوبوں کو آزاد مملکتیں ہونا تھا جبکہ ان کے مخالفین کا موقف تھا کہ 1945-46ء کے انتخابات کے بعد مسلم لیگ کے منتخب اراکین اسمبلیاں نے 1946ء کے دہلی کنونشن میں آزاد مملکتوں (STATES) کو دفن کر دیا تھا اور مشرقی و مغربی پاکستان پر مشتمل ایک ریاست کا مطالبہ کیا تھا ۔ بلاشبہ اگر قرارداد لاہور کے متن کا مطالعہ کیا جائے تو اس میں آزاد ریاستوں کاتصور ملتا ہے اور اگر اسے بنظر غائر پڑھا جائے تو مسلم اکثریتی علاقوں پر مشتمل دو آزاد ریاستوں کا تصور ابھرتا ہے یعنی بنگال اور وہ صوبے جو مغربی پاکستان کا حصہ بنے، ان دونوں یونٹوں کو مقتدر (SOVEREIGN)اور آزاد ہونا تھا اور صوبوں کو اٹانومی حاصل ہونا تھی لیکن جہاں تک قائد اعظم کا تعلق ہے وہ واضح طور پر قرار داد لاہور کو ایک ریاست کا مطالبہ اور منشور سمجھتے تھے ۔ لگتا ہے جب مسلم لیگ ورکنگ کمیٹی نے کئی ڈرافٹوں یعنی مسودوں کو ایک قرار داد میں یکجا کرنے کی کوششیں کی تو اس میں کنفیوژن پیدا ہوا ۔ آج ہم ریاست (STATE)کو مکمل طور پر آزاد ملک سمجھتے ہیں لیکن اس دور میں یہ لفظ خودمختار صوبوں کے لئے بھی استعمال ہوتا تھا۔ مسلم لیگ کے ممتاز لیڈر حسین امام کے بقول کہ اس وقت کی مسلم لیگی قیادت ریاست ہائے متحدہ امریکہ کے دستور سے متاثر تھی جس میں ریاستوں کو داخلی معاملات میں مکمل آزادی حاصل ہے۔ لیکن امریکہ کی پچاس ریاستیں فیڈریشن کی لڑی میں پروئی ہوئی ہیں ۔ شیر بنگال ورکنگ کمیٹی کے اس اجلاس میں شامل نہیں تھے جس نے یہ قرار داد ڈرافٹ کی لیکن وہ دوسرے دن سیدھے مسلم لیگ کے اجلاس میں پہنچے اور قرار داد پیش کرنے کا تاریخی اعزاز حاصل کیا۔ ان کے متعدد بیانات سے پتہ چلتا ہے کہ فضل الحق کے ذہن میں اس قرار داد کا مطلب دو آزاد ریاستیں تھیں لیکن قائد اعظم نے اسی دن اخباری رپورٹروں سے گفتگو میں یہ بیان دے کر قرار داد کے مقدر کا فیصلہ کر دیا کہ ہم صرف ایک ملک کا مطالبہ کر رہے ہیں ( بحوالہ جناح آف پاکستان ازسٹینلے والپرٹ صفحہ نمبر 185)مارچ کے حوالے سے دوسرا اہم واقعہ قرارداد مقاصد کی منظور تھی جسے پاکستان کی پہلی دستور ساز اسمبلی نے 12مارچ 1949ء کو منظور کیا اسی پس منظر میں اسے دستور کی بنیاد قرار دیا جاتا ہے ۔ اسمبلی میں چند ایک غیر مسلم نمائندوں نے اس قرار داد پر کڑی تنقید کی انہیں اعتراض اس بات پر تھا کہ اس قرار داد میں اقتدار اعلیٰ کو اللہ تعالیٰ کی حاکمیت قرار دیا گیا ہے جس کا سادہ سا مفہوم یہ ہے کہ پاکستان میں قرآن و سنت کے خلاف قانون نہیں بن سکے گا۔ عام طور پر مغربی جمہوریتوں میں جنہیں ہم سیکولر جمہورتیں کہتے ہیں عوام کو ”اقتدار اعلیٰ“ قرار دیا جاتا ہے اور اس حوالے سے ان کے منتخب کردہ نمائندوں کو ہر قسم کا قانون بنانے کی مکمل آزاد ی ہوتی ہے ۔ اسی آزادی کا سہارا لیکر بعض ممالک میں ہم جنس پرستی پر بھی قانونی مہر لگا دی گئی ہے ۔ظاہر ہے کہ اسلام کی بنیاد پر بننے والے مسلمان اکثریتی ملک میں پارلیمینٹ کو مادر پدر آزادی نہیں دی جا سکتی ۔ مجھے یاد پڑتا ہے کہ قیام پاکستان سے قبل جب قائد اعظم پیر آف مانکی شریف سے ملنے صوبہ سرحد گئے تو پیر صاحب کے سوال کے جواب میں قائد اعظم نے زور دے کر کہا کہ پاکستان میں کبھی بھی قرآن و سنت کے خلاف قانون سازی نہیں ہو سکے گی ۔قیام پاکستان سے قبل قائد اعظم نے لاتعداد بار وضاحت کی کہ ہمارا آئین قرآن ہے اور پاکستان کے آئین کی بنیاد اسلامی اصولوں پر رکھی جائے گی ۔ آج اگر آپ ان حضرات کے بیانات پڑھیں جو قرار داد مقاصد کی مخالفت میں ہلکان ہو رہے ہیں تو آپ کو ان میں وہی دلائل نظر آئیں گے جو دستور ساز اسمبلی میں غیر مسلم اراکین نے دیئے تھے ۔ لطف کی بات یہ ہے کہ یہ روشن خیال دانشور دعویٰ کرتے ہیں کہ اس وقت کی کابینہ کے رکن جو گندر ناتھ منڈل قرارداد منظور ہوتے ہی ہندوستان بھاگ گئے حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ قرار داد مقاصد 12مارچ 1949ء کو منظور ہوئی اور جوگندر ناتھ منڈل نے 16ستمبر 1950ء کے دن ہندوستان ہجرت کی یعنی وہ قرار داد کے منظور ہونے کے ڈیڑھ برس بعد تک کابینہ کے رکن رہے ۔

مارچ کو تیسرا اعزازیہ حاصل ہے کہ ہمارا پہلا دستور 23مارچ 1956ء کو نافذ کیا گیا ۔ اگرچہ دستور سازی میں تقریباً 9برس ضائع کر دینا ناقابل معافی جرم تھا لیکن بہرحال یہ ایک بہت بڑا کارنامہ تھا جس میں متحدہ، جمہوری اور اسلامی پاکستان کی ضمانت موجود تھی ۔ اس دستور میں پاکستان کو اسلامی جمہوریہ قرار داد دیا گیا تھا اور اسے مشرقی و مغربی پاکستان کے منتخب اراکین نے منظور کیا تھا ۔ میری سوچی سمجھی رائے ہے کہ اگر اکتوبر 1958ء میں سکندر مرزا اور ایوب خان مارشل لاء لگا کر اس دستور کو منسوخ نہ کرتے اور عام انتخابات ہو جاتے تو مشرقی پاکستان کبھی بھی علیحدگی کی راہ پر نہ چلتا۔ اس مارشل لاء نے دونوں صوبوں کی منظوری سے بننے والے آئین کو منسوخ کرکے وہ بنیاد ہی ختم کر دی جس پر پاکستان کھڑا تھا۔ باقی انشاء اللہ پھر کبھی ۔

http://jang.net/urdu/details.asp?nid=607205 



تاريخي مغالطے..…ڈاکٹر صفدر محمود


آج ارادہ تو کسي اورموضوع پرلکھنے کاتھا ليکن محترم سعيد صديقي صاحب کے کالم نے يادوں کي بارات سجادي اورواقعات کے ہجوم نے شہنائياں بجانا شروع کرديں? ايثار و خلوص کي ان شہنائيوں کے نغمے سنانے سے قبل ميں ايک وضاحت کرني ضروري سمجھتا ہوں جو ميرا طالب علمانہ نقطہ نظر ہے? محترم سعيد صديقي صاحب کا گزشتہ کالم پڑھ کر اندازہ ہوا کہ انہوں نے پاکستان بنتے ديکھا اور قائداعظم? کو بھي ديکھا جبکہ ميرا تعلق اس نسل سے ہے جس نے پاکستان بنا بنايا پايا اور قائداعظم? کو ديکھنے کا شرف کبھي حاصل نہ ہوا? قيام پاکستان کے وقت ميں کمسن تھا اور مغربي پنجاب ميں تھا اس لئے نہ ہي تقسيم کے خون اور آگ سے گزرا اور نہ ہي ان واقعات کا شاہد ہوں? تحريک ِ پاکستان اور قائداعظم? ميرے پسنديدہ موضوعات ہيں اس لئے انہيں طالب علمانہ اندازميں پڑھتا اور سمجھنے کي کوشش کرتا رہا ہوں?
گزشتہ کالم ميں محترم سعيد صديقي صاحب نے لکھا تھا کہ قائداعظم? پاکستان نہيں بنانا چاہتے تھے ?انہوں نے کابينہ مشن پلان کابھي حوالہ ديا جس کي قبوليت سے اکثر لوگ يہي نتيجہ نکالتے ہيں? نہ جانے کيوں مجھے يہ قائداعظم? سے زيادتي لگتي ہے اور يہ تاثر سطحيت کا شکار محسوس ہوتاہے? ميں نے کابينہ مشن پلان، قائداعظم? کے موقف اور ان کي اس حوالے سے مسلم ليگ کونسل ميں تقارير اور کانگريسي ليڈروں کے ردعمل کو باربارپڑھاہے اور آزاد ذہن کے ساتھ اس نتيجے پر پہنچاہوں کہ قائداعظم? نہ کبھي قيام پاکستان کے موقف اور مشن سے تائب ہوئے، نہ کبھي انہوں نے اميد کادامن چھوڑااور نہ ہي حصول پاکستان کي منزل کوترک کيا? غور سے پڑھنے کے بعد مجھے يہ محض حکمت عملي کي تبديلي لگتي ہے جس کا بالآخر مقصد حصول پاکستان تھا? تاريخ کے صفحات کھنگاليں تو اس حوالے سے بہت سے شواہد ملتے ہيں جو قائداعظم کي سوچ اور حکمت عملي پر روشني ڈالتے ہيں?
پہلي بات تو يہ ذہن ميں رکھيں کہ 1945-46 کے انتخابات ”پاکستان“ کے ايشو پر لڑے گئے? قائداعظم? نے انتخابي تقارير ميں بار بار کہا کہ اگر تم پاکستان حاصل کرناچاہتے ہو تو مسلم ليگ کو ووٹ دو? ان انتخابات ميں مسلم ليگ نے کاميابي کا ريکارڈ قائم کيا اور مرکزي اسمبلي کي تمام مسلمان نشستيں جيت ليں? قائداعظم ? ايک ديانتدار شخص تھے اور ان کا اپنا کوئي ذاتي ايجنڈا نہيں تھا? سوال يہ ہے کہ کيا مسلمانوں کي نوے فيصد سے زيادہ حمايت حاصل کرکے اور پاکستان کے نام پر ووٹ لے کر وہ اپنے مينڈيٹ سے ہٹ سکتے تھے؟ ميرے نزديک ايسا ممکن نہيں تھا? ياد رہے کہ مسلم ليگ کے اسمبليوں ميں منتخب اراکين کے کنونشن نے دہلي ميں پاکستان کے حصول کا حلف اٹھا ليا تھا? مسلمان عوام کو ايثار، جذبات اورحصول پاکستان کے خواب کي بلندترين چوٹي پر پہنچا کر قائداعظم? پاکستان کے تصور سے انحراف کرتے تو تاريخ انہيں کيا کہتي؟ يہ بات قائداعظم? کي فطرت، کردار اور کيمسٹري ہي کے منافي تھي?
دوستو! صرف اتني زحمت کريں کہ ان کي تقارير کو بين السطور پڑھو، محض سطحي اور سني سنائي پر مت جاؤ? کابينہ مشن پلان کو مسلم ليگ کونسل کے اجلاس ميں پيش کرتے ہوئے انہوں نے دوباتيں کيں اور مسلم ليگ کوپلان قبول کرنے کا مشورہ ديا? يہ ويژن، يہ نظرايک عظيم ليڈر کي تھي جو جذبات سے ہٹ کر طويل المدتي Long Range بصيرت رکھتا تھا? قائداعظم? نے يہ عنديہ بالکل نہيں ديا کہ وہ پاکستان کے تصور سے ہٹ رہے ہيں انہوں نے زور دے کر کہاکہ مجھے کابينہ مشن پلان ميں پاکستان کے بيج نظر آتے ہيں? مطلب يہ تھا کہ يہ بيج چند برسوں ميں ثمربار ہوں گے تو تم اپنا مقصد حاصل کرلو گے? دوسري بات انہوں نے يہ کہي کہ ميں نے مسلمان قوم کو پٹڑي پر چڑھا ديا ہے اب يہ پاکستان حاصل کئے بغير نہيں رہے گي? يہ الفاظ اس شخص کے تھے جس کي انگلياں عوام کي نبض پر تھيں? کابينہ مشن پلان ميں پاکستان کے بيج سے مراد وہ دس سال کا عرصہ تھا جس کے بعد صوبے گروپ سے نکل کر پاکستان بنانے ميں آزاد تھے? آپ کو علم ہوگا کہ کابينہ مشن پلان ميں مرکز يعني وفاق کو صرف تين محکمے Subjects ديئے تھے اور مالي امور (فنانس) صوبوں کے پاس تھے گويا وفاق فنانس کے لئے صوبوں کادست نگر تھا? اسي حوالے سے قائداعظم? نے کہا تھا کہ ہم حکومت کو ناکام کرديں گے اور يہ دس سال کاعرصہ سکڑ کر چند سال ہي رہ جائے گا? مسلم ليگ کونسل اور مسلم ليگي زعماء نے اس ويژن کوقبول کرتے ہوئے کابينہ پلان تسليم کيا اور انہي مضمرات سے ڈر کر کانگريس نے اسے مسترد کيا? يہ ويژن تھا کيا؟ اسے غورو فکر کے ساتھ سمجھنے کي ضرورت ہے?
محترم سعيد صديقي صاحب نے قائداعظم ? کي ووڈرو وياٹ (Woodrow Wyatt) سے گفتگو کا حوالہ دياہے? وياٹ ليبر پارٹي کااہم ليڈر اور برطانوي پارليمينٹ کا رکن تھا? اس نے Spectator ميں اپنے مضمون مطبوعہ 13اگست 1997 ميں انکشاف کيا کہ ”جناح مشن پلان کو شک کي نظر سے ديکھتا تھا کيونکہ اس پلان نے فوري طور پر قيام پاکستان کو مسترد کرديا تھا“ ذرا غور کيجئے ”فوري طور پر“ کے الفاظ پر? گويا طويل المدت مستردنہيں کيا تھا? ”جب ميں نے اسے (جناح) تفصيل سے سمجھايا کہ کابينہ مشن پلان گريٹر مکمل پاکستان کے حصول کي شاہراہ پر پہلا قدم ہے تو جناح کا چہرہ چمک اٹھا اور اس نے ميز پر ہاتھ مارتے ہوئے کہا That is it you've got it “ان الفاظ پر غور کيجئے کہ قائداعظم? کے ذہن ميں کابينہ مشن پلان کے ذريعے گريٹر (Greater) پاکستان کے تصور کا منصوبہ تھا نہ کہ ترک پاکستان کا? ذہن ميں رکھيں يہ ويژن جو ايک بڑے ليڈر کا ويژن تھا جو دور کي بات سوچ رہا تھا? وہ لوگ جو قائداعظم? پر گورنر جنرل بننے کي آرزو کے تحت ادھور ا پاکستان حاصل کرنے کا الزام لگاتے ہيں، يہ الفاظ ان کے پروپيگنڈے کي نفي کرتے ہيں کيونکہ قائداعظم? کي حکمت عملي ہي اورتھي جو کانگريسي چالوں کے سبب کامياب نہ ہوسکي?
قائداعظم? کي اس حکمت عملي کو آپ اس تناظر ميں سمجھيں کہ کابينہ مشن پلان کے تحت تين گروپ بنائے گئے تھے? ايک گروپ ہندواکثريتي صوبوں پرمشتمل تھا? دوسرا مسلمان اکثريتي صوبوں پر اور تيسرا رياستوں پر مشتمل تھا? مرکز کے پاس صرف دفاع، امور خارجہ اور مواصلات تھے? ہر گروپ نے اپنا اپنا آئين تشکيل دينا تھا اور مرکزي اسمبلي کو گروپوں کي اسمبليوں کے فيصلوں ميں مداخلت کي اجازت نہيں تھي? يہ نظام دس سال کے لئے تھا جس کے بعد کوئي گروپ بھي اکثريتي رائے سے اس نظام سے آزاد ہو کر مکمل طور پر باہر نکل سکتا تھا? کرپس کے مسودے کے مطابق ہندوستان کے مسئلے کا پہلاحل يہ تھا اور دوسرا حل کٹا پھٹا پاکستان تھا جس کے تحت تقسيم کے اصول کي بناپر پنجاب اور بنگال کو تقسيم ہونا تھا? قائداعظم? کي مشن پلان قبول کرتے ہوئے حکمت عملي يہ تھي کہ اس کے تحت گروپ اکثريتي ووٹ سے آزاد ہوجائے گا اور گروپ بي ميں مسلمان بڑي اکثريت ميں ہيں اس طرح پنجاب اور بنگال تقسيم ہونے سے محفوظ رہيں گے? مسلم ليگ کونسل کے پورے ملک سے آئے ہوئے پانچ سو سے زائد زعماء نے بھي اس ويژن کے تحت کابينہ مشن پلان کو قبول کرنے کي منظوري دي? مسلم ليگ کونسل کے اراکين نہايت مخلص، سمجھدار، بابصيرت، ايثارکيش اورمنتخب اراکين تھے اور حصول پاکستان ان کے دلوں کي دھڑکن تھي? وہ کبھي بھي تصور ِ پاکستان کا سودا نہ کرتے? تفصيل کے لئے ميري کتاب ”اقبال? جناح? اور پاکستان“ ملاحظہ فرمائيں?
ميں کبھي کبھي اس بات سے محظوظ ہوتا ہوں کہ ہمارے سطحيت پسند دانشور کابينہ مشن پلان کو پاکستان کي نفي سمجھتے ہيں جبکہ ہندو ليڈران نے اس ميں بہت سے خطرات بھانپ کر اسے مسترد کيا? پٹيل کانگريس کا سينئر ليڈر تھا اور ہندوستان کاڈپٹي وزيراعظم بھي رہا? آل انڈيا کانگريس کميٹي ميں پٹيل نے کيا کہا اس کا ذکر وي پي ميمن نے اپني کتاب ٹرانسفرآف پاور کے صفحہ نمبر 386 ميں يوں کيا ہے:
"Had they (Congress) accepted (The cabinet mission plan) the whole of India would have gone the Pakistan way."
اگر کانگريس کابينہ مشن پلان قبول کرليتي تو سارا ہندوستان پاکستان کي راہ پر چل پڑتا? اسي پٹيل نے کہا تھا کہ مسلمانوں کو ادھورا پاکستان دے کر جان چھڑاؤ? اشارہ اس طرف تھا کہ اگر تيسرے گروپ نے بھي آزادي کے حق ميں ووٹ ديئے تو رياستيں بھي ہندوستان کا حصہ نہ بن سکيں گي? مختصر يہ کہ قائداعظم? کا کابينہ مشن پلان قبول کرنا پورا پاکستان حاصل کرنے کي حکمت عملي تھي جس ميں کچھ وقت لگنا تھا نہ کہ يہ حصول پاکستان سے انحراف تھا? ايک بارپھر وضاحت کردوں کہ جب گروپ بي ميں شامل مسلم اکثريتي صوبوں کو ووٹ کے ذريعے آزادي کا فيصلہ کرنا تھاتو وہ من حيث الصوبہ ہونا تھا اور اس طرح پنجاب اور بنگال کو تقسيم ہونے سے بچ جانا تھا? کانگريس نے پلان کو مسترد کرکے اور انگريزوں نے کانگريس کا ساتھ دے کر مسلم ليگ کي حکمت عملي کو ناکام بنا ديا? يہ ايک تاريخي مغالطہ ہے جس کي وضاحت ضروري ہے خاص طور پر نوجوان نسل کے لئے …!!!

http://search.jang.com.pk/details.asp?nid=8898

................................................................

کیا دو قومی نظریہ غلط ہے ؟

دو قومی نظریے کی بنیاد غیر منقسم ہندوستان میں سب سے پہلے البیرونی نے اپنی کتاب ”کتاب الہند“میں پیش کی۔ اس نے واضح طور پر لکھا کہ مسلمان اور ہندو دو الگ الگ قومیں ہیں بلکہ اس نے تو یہاں تک بتایا کہ ہندو مسلمانوں کو نیچ قوم قرار دیتے ہیں اور ان سے کراہیت کرتے ہیں۔
1193 ء میں شہاب الدین غوری نے اُس وقت کے راجہ پرتھوی راج چوہان کے سامنے دو قومی نظریہ پیش کیا اور پرتھوی راج چوہان کو جنگ سے بچنے کے لیے مشورہ دیا کہ دریائے سندھ کا اس طرف والا حصہ (جو اب پاکستان میں شامل ہے) غوری کو دے دیا جائے جبکہ دریائے سندھ کا دوسری طرف والا حصہ (جس میں آج کا بھارت شامل ہے) وہ رکھ لے مگر چوہان نے اس کی بات نہ مانی اور شرمناک شکست سے دوچار ہوا۔

اور بقول ہمارے قائد اعظم ؒ کے کہ برصغیر میں دو قومی نظریہ اسی دن پیدا ہوگیا تھا جب یہاں کے پہلے ہندو نے اسلام قبولکیا اور وہ اپنی برادری سے کٹ کر مسلم قوم کا حصہ بنا۔

یہ بات تو واضح ہے کہ ہندووں ، یہودیوں ، عیسائیوں ،سکھوں ، پارسیوں کی طرح ایک قوم ہیں۔ جن کی اپنی تۃذیب ، و روایات ، رسم و رواج ہیں یعنی قومی نظریہ تو مسلم ہے ۔ اب بحث یہ ہے کہ ہندو مسلم اکٹھے کیوں نہیں رہے ؟ جبکہ سینکڑوں سال سے وہ رہ رہے تھے ۔

بلا شبہ مسلمان اور ہندو سینکڑوں سال سے رہ رہے تھے مگر جیسا کہ البیرونی کی کتاب " کتاب الہند " میں ذکر ہے کہ ہندو مسلمانوں کو نیچ سمجھتے تھے ۔ مسلمان ایک نیچ قوم کی حیثیت سے ذہنی غلام تھے ۔ یا د رہے کہ یہ وہ مسلمان نہیں تھے جو ایران ، ترک یا عرب سے آئے تھے ان سیدوں ،شیرازیوں ، گیلانیوں ، برلاس ، قریشیوں بخاریوں کو مقام حاصل تھا یہ وہ مسلمان تھے جن کا نسلی تعلق ہندووں ہی کی مختلف برادریوں سے تھا جن میں بگٹی ، مینگل ، بھٹو ، بھٹی ، شیخ ، راو ، رانا ،کھوکھر، سبھی شاامل تھے ۔مگر ان کے قبول اسلام ہی سے وہ ہندو قوم سے جدا ہو کر امت مسلمہ میں شامل ہوگئے اور ہندووں کی نظر میں نیچ کہلائے ۔ہندوستان میں انگریزوں کی آمد سے ساڑھے پانچ سو سے زائد ریاستیں تھیں جن کے ماتحت جاگیریں تھٰن۔ 

تاریخ شاہد ہے کہ جن ریاستوں کے حکمران مسلمان تھے وہاں رواداری ، مساوات عام تھی ، مگر جن کے حکمران ہندو تھے وہاں تعصب عام تھا۔ ہو سکتا ہے مسلمان حکمران ہندووں کی اکثریت اور حیثیت کی وجہ سے مصلحتاً رواداری برتتے ہوں مگر بعض حالات میں ایسا نہیں تھا۔بے شک انگریزوں نے بزور شمشیر اور عیاری و مکاری سے برصغیر پر قبضہ کیا مگر انہوں نے عوامی مفاد کے لئے کام بھی بہت کئے جن میں تعلیمی اداروں ، ہسپتالوں کے قیام کے علاوہ سڑکوں اور ریلوے کا جال بچھانا انہیں کی وجہ سے ممکن ہو سکا ۔انگریزوں کی غلامی کا جو سب سے اہم فائدہ ہوا وہ جذبہ حریت کا پیدا ہونا تھا ۔ ورنہ انگریزوں کی آمد سے قبل یہ ہندو اور مسلمان اپنے جاگیردار یا نواب کی بیگار و خدمت گذاری کے علاوہ کچھ نہیں سوچ سکتے تھے۔

 سینکڑوں سال سے مقامی حکمران ان کے ساتھ انتہائی ناروا سلوک کرتے تھے ۔ یہ غلامی ہماری گھُٹی میں شامل تھی اور ہے آج بھی ہم اپنے محلے ، اپنی بستی کے غنڈے ، جابر و ظالم کے سامنے کھڑے ہونے کی جرات نہیں کرتے ۔بہر حال ہندو اور مسلامانوں نے امل کر انگریزوں سے آزادی کی جنگ لڑی جس میں اگر مینگل پانڈے ،بھگت سنگھ ، جیسے آزادی کے متوالے تھے تو دلا بھٹی ۔ رائے احمد خان کھرل ، عجب خان آفریدی جیسے بھی اس قافلے میں شامل تھے مگر اُس دور کے خوشامد یوں نے انہیں ڈاکو اور لٹیرے کی حیثیت سے متعارف کرایا ۔ آزادی کی جنگ دونوں قوموں نے لڑی ۔ اُس وقت معاشی اور معاشرتی طور پر ہندو مسلمانوں کے مقابل میں بہت مستحکم تھے ۔ مسلمانوں کی اکثریت مقامی طور پر ان کے تابع تھی ۔ جہاں ہندو کم تھے وہاں بھی معاشرتی اور سیاسی طور پر وہ غالب تھے اس لئے یہ یقین کامل تھا کہ مسلمان آزادی کے بعد پھر ماضی کی طرح ہندووں کی غلامی میں آجائیں گے ۔۔ اس موقع پر مسلمانوں کا ایک مفاد پرست طبقے نے جن میں پنجاب کی یونیسسٹ پارٹی اور خیبر پختون خواہ کی کانگریس مذہبی علما سے مل کر پاکستان اور دو قومی نظریہ کی مخالفت کی ۔ آج حالت یہ ہے کہ جو لوگ یا صوبے تحریک پاکستان کی مخالفت میں پیش پیش تھے، آج انہیں کی اولادیں مسندِ اقتدار پر جلوہ افروز ہیں -

پنجاب کی یونیسٹ پارٹی اور سر فضل حسین خضر حیات ٹوانہ کی قائداعظم اور ڈاکٹر محمد علامہ اقبال سے دشمنی کسی سے ڈھکی چھپی نہیں۔ پنجاب نے آخر دم تک پاکستان کی مخالفت کی اور کانگریس کی حمایت میں کوئی کسر اٹھا نہیں رکھی۔ یہی وجہ ہے کہ مسلم لیگ کو پنجاب میں کبھی کامیابی نہ ہو سکی 
بلوچستان کی بات جانے دیجیے کہ وہ تو خان آف قلات کی جاگیر تھی۔ آئیے خیبرپختونخواہ کی طرف چلتے ہیں۔ یہ سرزمین اُس شخص کی ہے جس نے پاکستان دشمنی کی مثال قائم کی اور کانگریس کی چاپلوسی میں کوئی کسر اٹھا نہیں رکھی خیبر پختون خوا میں ریفرنڈم کران پڑا جس میں انہیں منہ کی کھانی پڑی آج اے۔این۔پی جو درحقیقت خان عبدالغفار خان کا لگایا ہوا پودا ہے آج خیبرپختونخواہ کی سیاست پر راج کر رہا ہے۔ کیا یہ تاریخ کا مذاق نہیں؟
جن اسلامی جماعتوں نے قائداعظم کو کافر اعظم کہا۔ اقبال پر کفر کا فتویٰ عائد کیا اور پاکستان کو ایک حرافہ سے تشبیح دی۔ مگر آج وہی پاکستان کی ایک کثیر آبادی پر اپنا تسلط قائم رکھنا چاہتی ہیں کیا یہ تاریخ کا ظلم نہیں؟
محسن بھوپالی نے اسی لئے کہا تھا

نیرنگی سیاست دوراں تو دیکھئے
منزل انہیں ملی، جو شریک سفر نہ تھے

درباری ملاؤں اور مفاد پرست سیاست دانوں نے پاکستان کو جس قدر نقصان پہنچایا ہے اتنا دھچکا کسی نہیں پہنچایا۔ بازاری عورتیں ان سے افضل ہیں کہ جہاں وہ بے چاری اپنا جسم فروخت کرتی ہیں اور یہ یہ چند کھوٹے سکوں کے عوض اپنا ایمان فروخت کرتے ہیں یہ وہی ہیں۔جنہوں نے شیعہ کو سنی کے ہاتھوں اور سنیوں کو شیعوں کے ہاتھ شہید کروایا۔ انہوں ہی نے قوم کو علاقائی ، فرقوں اور مختلق قویتوں میں تقسیم کردیا خدا کی لعنت ہو ایسے لو گوں پر۔ خدا کی مار پڑے ایسے جہنمیوں پر۔وگرنہ میرے آقا محمد ﷺ نے تو سدا امن کا،پیار و محبت کا آشتی اور مذہبی رواداری کا پیغام دیا۔
تو عرض یہ ہے کہ یہ ارض پاکستان سازش کا تحفہ نہیں عطیہ خداوندی ہے جو 27 رمضان کو معرض وجود میں آیا ۔ہمارا نظریہ مستحکم ہے ، ہمارا عقیدہ و ایمان ہمیں باہم اور غیر مسلموں سے رواداری ، مساوات ، امن و سلامتی کا درس دیتا ہے ۔ مثبت سوچ سے ہمیں آگے بڑھنا ہے ۔
سید زبیر 
http://www.urduweb.org/mehfil/threads/کیا-دو-قومی-نظریہ-غلط-ہے-؟.72988

.............................................


دو قومی نظریہ محمد الرسول اللہ ﷺ نے اپنے اعلانِ نبوت کے ساتھ ہی عطا فرما دیا تھا۔ ہمارے آقا و مولا ﷺ کی تعلیمات کے مطابق اس دنیا میں صرف دو قومیں ہیں۔ ایک قوم کا نام مسلم اور دوسری کا نام قومِ کفار ہے۔ جی ہاں۔۔۔ ہندو، عیسائی، یہودی، بدھ مت، مجوسی، سورج، و آگ کے پجاری، یا پھر تصورِ الٰہ کے منکر۔۔۔ یہ سب ایک قوم ہے کیونکہ اللہ کے سچے رسول ﷺ کا فرمان ہے کفار ملتِ واحدہ ہیں، ان سب کا ایک ہی ہدف ہے اور وہ ملت اسلامیہ ہے۔ فلسطین میں مسلمان یہودیوں سے بر سرِ پیکار، افغانستان، عراق، بوسینیا، شام، چیچنیا، مصر اور دیگر کئی محاذوں پر عیسائی افواج و حکومتیں مسلمانوں کا خون بہا رہی ہیں، کشمیر میں ہندو اور برما میں بدھ مت کے پیروکار مسلمانوں کے دشمن۔ الغرض پوری ملتِ کفار کا مشترکہ اور واحد ہدف اسلام اور مسلمان۔

دو قومی نظریہ کو بنیادی قوت قرآنِ حکیم بخشتا ہے جہاں رب تعالٰی فرماتا ہے مشرکین پلید ہیں، اگر مسلم اور غیر مسلم ایک ہی معاشرہ میں رہ سکتے تو طائف کی گلیوں میں پتھر کھا کر لہولہان ہونے کی ضرورت نہیں تھی، کائنات کے سب سے حسین، صادق و امین انسان ﷺ کو جادو گر، کاہن، جھوٹا اور غدار کا طعنہ نہ سننا پڑتا، ا پنی جنم دھرتی مکہ چھوڑ کر مدینہ نہ جانا پڑتا۔ یہ طرزِ معاشرت، قوانین و شریعت، امور و احکام، تہذیب و ثقافت اور نظریات کا فرق ہی تھا جس نے بدر و حنین، احد و خندک میں کئی مقدس ہستیوں کا خون پیا۔ دو قومی نظریہ کی بنیاد پر قائم ہونے والی سلطنتِ اسلامیہ کے حاکم و شارع ﷺ کے ظاہری وصال کے بعد اٹھنے والے فتنوں نے اس نظریہ کو خطرہ میں ڈالنے کی کوشش کی تو پھر صدیق و عمر، عثمان و علی رضوان اللہ علیہم اجمعین نے کسی مصلحت کے بغیر سیفِ جلی کو لہرایا، ہر گندے کیڑے مکوڑے اور دجال کو کچل ڈالا، اسی دو قومی نظریہ نے کربلا میں بہتّر صالحین طیبین کا خون پیا اور اپنی بقا کو امر کر دیا۔ 

برصغیر میں دو قومی نظریہ اتنا ہی پرانا ہے جتنی تاریخِ اسلام پرانی ہے ۔ ملکِ ہند میں دو قومی نظریہ کے خلاف پہلی سازش اللہ اور اس کے رسول کے غدّار جلال الدین اکبر نے کی جسے اللہ کے ایک ولی سیدنا مجدد الف ثانی رحمۃ اللہ علیہ نے پوری استقامت و کرامت سے دفن کر دیا۔

دو قومی نظریہ کو فکری قوت دینے والے درویش ڈاکٹر علامہ محمد اقبال قومی نظریہ کا سچا محافظ تھا-

بظاہر ایک دنیا دار اور سیکولر خاندان سے تعلق رکھنے والے محمد علی جناح نے اس نظریہ کو ایک وجود بخشا، جب انگریز مسلم لیگ کے پلیٹ فارم پر متحد مسلم صوفیأ، علمأ اور عوام کی طاقت کے سامنے پٹنے لگا تو ایک سازش کے تحت پورے ہندوستان کو ہندو جماعت کانگریس کے حوالے کرنے کا منصوبہ تیار کیا گیا۔ عین اس وقت جب یہ کھچڑی پک رہی تھی دوسری طرف کانگریسی ٹوپیوں والے علمأ سؤ ملت کا سودا کرنے میں مصروف تھے، کسی نے پاکستان کو کافرستان کہا ( آج ان کی اولاد پاکستان کی سیاست کی ٹھیکیدار ہے اور ڈیزل سے لے کر کشمیر تک ہر معاملے پر اپنی باطنی خباثت کی وجہ سے بدنام ہے)، کسی نے قائدِ اعظم کو کافرِ اعظم قرار دیا، کوئی پاکستان کی پ تک نہ بننے کے خواب دیکھنے لگا تو کسی نے پاکستان کے وجود کو جہنم سے تعبیر کیا۔ اس وقت سید جماعت علی شاہ محدث علی پوری، پیر صاحب مانکی شریف، پیر آف زکوڑی شریف، پیر سید مہر علی شاہ، آستانہ عالیہ سیال شریف، درگاہ کچھوچھہ شریف اور تمام صوفی خانقاہوں نے دو قومی نظریہ کی تکمیل کے لئیے محمد علی جناح اور مسلم لیگ کی غیر مشروط حمایت کی۔ 

ان اولیائے کاملین کی روحانی و عملی مدد اور تاجدارِ مدینہ ﷺ کے فیضان سے 1947 میں پاکستان وجود میں آیا اور اللہ کے ایک ولی محمد علی جناح کو مسلمانانِ ہند کا قائدِ اعظم بننے کا شرف ملا۔ 

ہندوستان میں دو قومی نظریہ کے تحت پاکستان بنا کہ ہندو معاشرے کی گندی رسومات، رواجات اور ثقافت اسلام سے متصادم تھی اور ہے۔ جس معاشرے میں انسان کے درجات قبائل کی بنیاد پر ہوں، جہاں کا نظام طبقاتی ہو، جہاں شوہر کے مر جانے کی صورت میں اس کے بھائی کے ساتھ شادی کو مذہبی حیثیت حاصل ہو، سائنسی ترقی اور علمی عروج کے دور میں بھی اپنے ہاتھوں سے تراشے ہوئے بتوں کی پوجا کی جاتی ہو، گائے کا پیشاب برکت کا باعث ہو، مرتے وقت گاؤ موتر بطور شفأ و آسانیِ نزع کے لئیے استعمال ہو، گنگا جمنا میں مرد و زن کے مخلوط اجتماع میں نہایا جائے، جو اپنے مُردوں کو اس لئیے جلا دے کہ اسے بعدِ مرگ حساب نہ چکانا پڑے، جہاں درخت مقدسات میں شامل ہوں، جنم کنڈلیوں پر زندگی ترتیب دی جائے، کسی مخصوص جگہ رشتہ کرنا مقصود ہو تو اس کی نحوست زائل کرنے کے لئیے بندر، کتا اور درخت سے حفاظتی شادیا ں کی جائیں، جہاں مذہبی رسوم کے رہنما ننگے بیٹھے ہوئے پنڈت خوبرو خواتین پر جنسی غلاظت نکالیں اور جہاں زندگی کا ہر ہر کام وہم اور خیالات پر مبنی ہو وہاں اسلام اور مسلمان نہیں رہ سکتا۔

اسلام اپنے قوانین، شریعت اور ثقافت کے ساتھ دنیا میں موجود ہے۔ دو قومی نظریہ ایک آفاقی نظریہ ہے۔ اسلام دنیا کے ہر کونے میں پہنچ چکا ہے۔ اہل کتاب مشرکین ضرور ہیں مگر ان پر شریعتیں آئیں اور انبیأ بھی تشریف لائے، انہوں نے انبیأ کا انکار کیا، کتب میں ترمین کی مگر وہ اہلِ شریعت ضرور ٹھہرے۔ پوری دنیا میں ایک ہندوستان ایسا ملک ہے جہاں آج تک بتوّں کی پوجا ہو رہی ہے۔ وہ وقت دور نہیں جب اس خطے میں موجود ہر بت پاش پاش ہو جائے گا اور پھر کلہاڑی بڑے بت کے کندھے پر رکھ دی جائے گا۔۔۔۔ وہی دن دو قومی نظریہ کی تکمیل کا دن ہو گا۔۔۔ انشأ اللہ۔۔۔۔

دو قومی نظریہ ہر مسلمان کے دل و دماغ میں موجود ہے، کفر و شرک اور اور ان کی ثقافت سے بیزاری و نفرت اس نظریہ پر عمل کا بہترین ثبوت ہے۔ دو قومی نظریہ ہر اس جگہ موجود ہے جہاں مسلمان موجود ہے۔ آفاقی نظریہ پورے آفاق میں سفر کر ہا ہے ۔۔۔ مسلمان بد عمل ہو سکتا ہے۔۔۔ سست، غافل ہو سکتا ہے۔۔۔ مگر بے غیرت نہیں ہو سکتا ہے۔۔۔۔ کیونکہ اس نظریہ کی خاطر ہم نے مدینہِ اور حبشہ کی ہجرت کی۔۔۔ اس نظریہ کی خاطر تاریخِ انسانیت کی سب سے بڑی ہجرت ہندوستان سے پاکستان کی طرف ہوئی۔۔۔ اس نظریہ کی بقا کے لئیے آج تک لاکھوں ماؤں کی گود خالی ہوئی، سہاگ اجڑے، بچے یتیم ہوئے، املاک لٹ گئیں، پورے پورے خاندان اجڑ گئے۔۔۔اور۔۔۔۔ رسولِ رحمت ﷺ کے جگر پارے حسین ابن علی رضی اللہ عنہم نے کربلا پر ڈیرے ڈالے اور۔۔۔ آخر میں یہ بھی یاد رکھئیے کہ اسی نظریہ کو بچانے کے لئیے 1947 میں ہماری ماؤں اور بہنوں کی چھاتیاں کاٹی گئیں، انہیں زبردستی حاملہ کیا گیا اور آج ان عصمت و عزت والی ماؤں کے بطن سے پیدا ہونے والے سینکڑوں ہزاروں بچوں کے نام ہندو اور سکھ ولدیت کے ساتھ شنکر، رام، دیپک، کلونت، پرکاش، ونود، اتم اور سنگھ سے موسوم ہیں۔ اس دو قومی نظریہ پر مہر حق اس وقت ثبت ہو جاتی ہے جب ہم دنیا میں آنے والے اپنے ہر بچے کے کان میں محبت سے سرگوشی کرتے ہوئے اسے اشہد الا الٰہ الا اللہ و اشہد انّ محمد الرسول اللہ کا کلمہ حق سنا کر باطل کے سینے میں خنجر گھونپ دیتے ہیں۔ یہ نظریہ صبحِ قیامت تک زندہ رہے گا اور ہم اس نظریہ کی حفاظت کے لئیے سر بکفن ہیں۔ انشأللہ۔
افتخار الحسن رضوی

http://www.hamariweb.com/articles/article.aspx?id=36556

.........................................................

 دو قومی نظریہ -  سوالات:

  1. نظریے سے کیا مراد ہے اور سیاسی طاقت سے اس کے تعلق کی نوعیت کیا ہے؟
  2. ”قوم“ سے کیا مراد ہے اور جدید عہد میں اس کی سیاسی تشکیل کس طرح ہوتی ہے؟
  3. نظریے اور قوم کا باہمی تعلق کیا ہے اور کیا یہ وقتی ہوتا ہے یا مستقل؟
  4. نظریے اور مذہب کا باہمی تعلق کیا ہے؟
  5. برصغیر میں سیاسی سیکولرزم اور جغرافیائی نیشنلزم کی باہمی نسبتیں اور ان کی معنویت کیا ہے؟
  6. برصغیر میں سیکولرزم اور دو قومی نظریے کے مابین اصل تنازع کیا ہے؟
  7. جدید عہد میں نسل، رنگ اور زبان قوم اور نیشنلزم کی بنیاد ہیں، اور یہ مکمل طور پر نسل پرستانہ ہیں۔ ان سب کی خالص ترین داخلی شکل فسطائیت ہے اور خارجی شکل استعماریت ہے۔ انیسویں صدی کے تقریباً وسط سے طبقاتی تصورات نے سیاسی نظریہ بن کر ”قومیت“ کے تصور کی تشکیل کی اور یہ غیر نسل پرستانہ ہے۔ سوال یہ ہے مذہب سے جواز یافتہ نظریہ قوم سازی کیوں نہیں کر سکتا اور اسے قوم کی تشکیلی بنیاد قرار دینے پر کیا اعتراضات ہیں اور ان اعتراضات کی validity کیا ہے؟
  8. سیاسی شناخت سے کیا مراد ہے اور اسے کس طرح متعین کیا جاتا ہے اور کون کرتا ہے؟
  9. اگر اللہ تعالیٰ کی حاکمیت اعلیٰ متنازع ہے، تو کیا انسان کی ”حاکمیت اعلیٰ“ ایک متفق علیہ مسئلہ ہے؟
  10. بطور ایک سیاسی تصور ”حاکمیت اعلیٰ“ سے کیا مراد ہے؟ اور اس کی بنیاد میں کار فرما تہذیبی قدر کیا ہے؟
  11. ہمارے ہاں دو قومی نظریے پر ہونے والی گفتگو کا ہم عصر عالمی پس منظر کیا ہے اور اس میں عالمی سیاسی طاقت اور مہا سرمائے کی ترجیحات کو نظرانداز کرنا کیوں ضروری ہے؟
  12. اگر سیکولرزم کی بنیاد پر برصغیر کے باشندوں کو ایک ملک میں رہنا چاہیے تھا، تو اس اصول کا اطلاق یورپ کے باشندوں پر کیوں نہیں ہوتا اور وہ اس وعظ سے کیوں محروم رکھے جا رہے ہیں؟
  13. پاکستان کے سیاسی امور میں اسلام کی ”گنجائش“ اور اہمیت دو قومی نظریے کی وجہ سے ہے۔ اسلام اور سیاسی امور کو الگ الگ رکھنے کے لیے دو قومی نظریے پر عالمی ”داد تحقیق“ بھی شامل ہو گئی ہے۔ مذہب اور سیاسی امور کی علیحدگی کا مسئلہ یورپ نے مذہب کے رد سے حل کر لیا۔ ہمارے لیے یہ حل ماننا کیوں ضروری ہے؟
  14. مغربی استعمار نے بیسویں صدی کے تقریباً نصف اول میں دنیا بھر میں اپنی ترجیحات پر یا محکوم معاشروں کی داخلی حرکیات کی بنیاد پر سیاسی تقسیم کے عمل کو روا رکھا، اور دنیا بھر کو ”لکیروں“ سے بھر دیا۔ ظاہر ہے یہ ”لکیریں“ افریقہ، لاطینی امریکہ اور ایشیا میں میں ”غیرمعمولی امن“ اور ”غیرمعمولی ترقی“ کا پیش خیمہ ثابت ہوئیں۔ لیکن برصغیر میں پڑنے والی”لکیر“ ایسی ہے جو ”امن“ اور ”ترقی“ کے خلاف پڑی ہے۔ مغربی دنیا اور بھارت میں دو قومی نظریے پر علم اور تحقیق کے جو دریا بہائے جا رہے ہیں کیا ان کا مقصد ”امن“ اور ”ترقی“ کو سینچنا ہے یا کچھ اور؟
  15. اگر کوئی مسلم معاشرہ، مثال کے طور پر بنگلہ دیش، اپنی مذہبی شناخت کو رد کر کے نسلی یا لسانی شناخت پر اصرار کرتا ہے تو کیا اسلام یا ”مذہبی نیشنلزم“ کا جواز ختم ہو جاتا ہے؟ یعنی ہمیں مغربی فکر اور بنگلہ دیش کی فرمانبرداری کا درس بیک وقت کیوں دیا جاتا ہے؟
  16. کیا مذہب کی بنیاد پر قوم کی تشکیل کا نظریہ ارادی ہے یا ”سائنسی“؟ یعنی اگر پارسی، عیسائی، ہندو، سکھ یا بنٹو وغیرہ اپنے قوم ہونے کا فیصلہ مذہب کی بنیاد پر نہیں کرتے تو کیا یہ بات سائنسی اصول کی طرح مسلمانوں پر بھی وارد ہوتی ہے یا نہیں؟
  17. اگر کسی بھی سیاسی نظریے کا براہ راست تعلق قومی شناخت سے ہے، تو ظاہر ہے کہ قومی شناخت براہ راست قومی بقا سے متعلق ہو گئی۔ کیا دو قومی نظریے کا تعلق برصغیر میں مسلمان کی سیاسی بقا سے ہے یا نہیں؟
  18. موجودہ یورپ میں اقلیتوں کا مسئلہ ”حل“ ہو گیا ہے، اور اسرائیل میں سرے سے ”کوئی اقلیت“ موجود ہی نہیں ہے کیونکہ اسرائیل کا بنیادی دعویٰ land without people کا تھا، اور امریکہ میں ”نسلی اقلیت“ کا مسئلہ بھی موجود نہیں، بس ایک لا اینڈ آرڈر کا تھوڑا سا مسئلہ ہے جس میں کالوں کا روزمرہ قتل اقلیتوں کی ”حفاظت“ کے لیے ”قانون کی بالادستی اور پاسداری“ کا اظہار ہے، پھر کشمیر میں چونکہ سات لاکھ بھارتی فوج موجود ہے، تو یہ مسئلہ بھی حل ہی سمجھو، لیکن دنیا میں اگر اقلیتوں کا مسئلہ کہیں ہے تو وہ پاکستان میں ہے اور اس کی وجہ دو قومی نظریہ ہے، لہٰذا اسے ”پاکستان کے سیاسی ارتقا اور اجتماعی مکالمے کے تناظر“ میں زیر بحث لانا ضروری ہے۔ کیا یہ یک چشم، اور tailor-made تناظر مقدس ہے یا اس کو زیربحث لایا جا سکتا ہے؟
  19. پاکستان سمیت دنیا کا تقریباً ہر ملک اپنے آئین میں انسانی حقوق کو تسلیم کرتا ہے، اور اقلیتوں کی بلا امتیاز شہریت کا بھی اقرار کرتا ہے۔ عملی طور پر دنیا کا ہر ملک انسانی حقوق اور اقلیتوں کے حوالے سے افراط و تفریط کا شکار رہتا ہے۔ اگر وہاں معاشرے اور ریاست کی عملی نارسائیوں کا سبب نظریے کو نہیں بتایا جاتا تو یہ ”علمی“ طریقۂ کار دو قومی نظریے اور اسلام کے ساتھ کیوں مخصوص ہے؟
  20. دہشت گردی کا تعلق سیاسی طاقت سے یقینی ہے اور نظریے سے ممکن ہے۔ دو قومی نظریے اور اسلام کو دہشت گردی کے تناظر میں زیربحث لانے اور عالمی سیاسی حرکیات اور لبرل مہاسرمائے کے ایجنڈے کو نظر انداز کر دینے کا ”علمی تناظر“ کب اور کہاں دریافت ہوا؟ اگر یہ دریافت کی چیز نہیں تو ایجاد کی یقیناً ہے، تو اس کا موجد کون ہے؟
  21. چلیے، ہم اس تحقیر پر بھی خاموش رہتے ہیں کہ دو قومی نظریے کے حامیوں کا تاریخی تناظر ”مطالعہ پاکستان“ سے حاصل ہوا ہے اور وہ تاریخی شعور سے بھی عاری ہیں۔ ہماری رائے میں دو قومی نظریے کی بحث میں تاریخی تناظر اور تاریخی شعور بنیادی ترین اہمیت رکھتے ہیں، اور ساری بحث کا نقطۂ آغاز ہیں۔ گزارش ہے کہ متجددین، سیکولر اہل قلم اور لبرل مہا سرمائے کے حامی اہل دانش کا تاریخی تناظر کیا ہے اور اس کی تفصیلات کہاں دستیاب ہیں؟ ہمارے یہ اساطین تاریخی شعور سے تو یقیناً بہرہ ور ہیں، تو وہ تاریخی شعور کیا ہے؟ یہ تاریخی شعور کس فکر میں اور اہم تر یہ کہ کس اجتماعی عمل میں ظاہر ہوا ہے؟ یہ تاریخی شعور برصغیر کی مسلم تاریخ اور تہذیب کے بارے میں کیا اولیٰ موقف رکھتا ہے؟ اگر ہماری تاریخ پر دنیا کا ہر صاحب دانش رائے زنی کا حق رکھتا ہے تو ہمیں یہ حق کیوں حاصل نہیں ہے؟
http://www.humsub.com.pk/26917/md-jauhar/
-----------------
دو قومی نظریہ پر تحقیقی مقالہ 









کیا دو قومی نظریہ غلط ہے ؟
http://www.urduweb.org/mehfil/threads/کیا-دو-قومی-نظریہ-غلط-ہے-؟.72988
.
~ ~ ~ ~ ~ ~ ~ ~ ~ ~ ~ ~ ~ ~ ~ ~ ~  ~ ~ ~  ~


~ ~ ~ ~ ~ ~ ~ ~~ ~ ~ ~ ~ ~  ~ ~ ~  ~
Humanity, Knowledge, Religion, Culture, Tolerance, Peace
انسانیت ، علم ، اسلام ،معاشرہ ، برداشت ، سلامتی 
Books, Articles, Blogs, Magazines,  Videos, Social Media
بلاگز، ویب سائٹس،سوشل میڈیا، میگزین، ویڈیوز,کتب
سلام فورم نیٹ ورک  Peace Forum Network 
Join Millions of visitors: لاکھوں وزٹرز میں شامل ہوں