سیاست علما کے لیے ممنوع نہیں لیکن یہ ان کا حقیقی میدان نہیں۔ سیاست اس امت کی تاریخ میں کبھی علماکا اصل تعارف نہیں رہا۔ ان کی سیاست بس اتنی تھی کہ حکمرانوں کو انذار کیا جائے، جب اس کی ضرورت ہو۔ ہمارے ہاں جب سیاست علما کی دل چسپی کااصل میدان بنی تو ان کی صفوں سے باصلاحیت لوگ اس طرف کا رخ کرنے لگے۔ یوں مسندِ دعوت وارشاد ان کے حوالے کر دی گئی جو درحقیقت اس کے مستحق نہیں تھے۔ انہوں نے اپنے ذوق کے مطابق مذہبی اداروں کی تشکیل کی۔ یوں یہ مسلکی اورگروہی مفادات کے تابع ہوگئے۔ ان میں اکثریت ان کی تھی جن کی شہرت رسوخ فی العلم نہیں، شعلہ فشانی تھی۔ انہوں نے مذہبی اداروں کو مسلکی انتہا پسندی کے مراکز میں بدل دیا۔
دوسری طرف افغانستان میں سوویت یونین کا قبضہ ہوا تو ریاست ِ پاکستان نے امریکی تائیدو نصرت کے ساتھ،اس
معرکے کو مذہبی بنیادوں پر لڑنے کا فیصلہ کیا۔ ریاست کی سرپرستی میں تصورِجہاد کی تفہیم ِ نوسامنے لائی گئی اوراسے نجی شعبے کے حوالے کر دیا گیا۔ یوں جہادی گروہ وجود میں آئے۔ سوویت یونین ختم ہوا تو ریاست نے ان گروہوں کو نیامحاذ دینے کی کوشش کی۔ سب کے لیے یہ اہتمام نہیں ہو سکا۔ یوں ان کے نئے گروہ وجود میں آئے جو ہدف اور حکمتِ عملی، دونوں کے تعین میں خود مختار تھے۔ دوسری طرف امریکہ کا مفاد ختم ہوا تو وہ اس سارے عمل سے لاتعلق ہو گیا، یہاں تک کہ تاریخ نے کروٹ لی اوریہ لوگ خود اس کے لیے چیلنج بن گئے۔ ریاست ِ پاکستان نے پالیسی تبدیل کی اور امریکہ کا ساتھ دینے کا فیصلہ کیا تو ان گروہوں نے انہیں قبول کرنے سے انکار کر دیا۔ یوں ریاست پاکستان اور جہادی گروہوں کے مابین ایک نیا معرکہ شروع ہوا۔ اس معرکے میں جہادی گروہوں نے ریاست کے ساتھ پاکستانی سماج کو اپنا ہدف بنا لیا۔ ایک مرحلے پر یہ جہاد اور مسلکی انتہا پسندی ہم آہنگ ہوگئے۔ اب معاملات ریاست کے ہاتھ سے نکل گئے اور مذہبی قیادت بھی بے بس ہوگئی۔ یوں مساجد اور شاہراہیں مقتل بن گئے۔
یہ وہ مر حلہ تھا جب علما کو بروئیِ کار آ نا چاہیے تھا۔ وہ علما جنہوں نے خود کو اس ہنگامہ آرائی سے دور رکھا اور سیاست کو اپنی پہلی ترجیح نہیں بنا یا۔ جنہوں نے اشاعتِ دین کی کوششوں کے ساتھ ،اپنے تئیں نئے فتنوں کے خلاف علمی جہاد کو جاری رکھا۔ انہوں نے جہاد سے متعلق اس نئی تعبیرکو نظرا ندازکیا جس نے جہاد کو ریاست کے بجائے نجی شعبے کے حوالے کردیا۔ جب مختلف لوگوں نے جہادکا فریضہ اپنے ہاتھ میں لیا توہدف کے ساتھ،حکمت عملی کا تعین بھی ان کی صواب دید بن گیا۔ اب کسی کے نزدیک دوسرے مسلک کے لوگوں کومارنا جہاد قرار پایا اورکسی کے اجتہاد میں مو لا نا حسن جان واجب القتل ٹھہرے۔ علما نے اس اہم تبدیلی کو نظر انداز کیا اور یوں پاکستان فسادکاگھر بن گیا۔ اس سے دوسری قوتوں کو مو قع ملا جو پاکستان کی سلامتی کے درپے رہتی ہیں۔ ان کے لیے آسانی ہوگئی کہ وہ اس معاشرے کو مسلکی بنیادوں پر تقسیم کریں اوراسے کمزور کریں۔ پاکستان اس وقت عالمی سیاست کے ساتھ ساتھ مشرقِ وسطیٰ کی سیاست کا بھی مرکز بن چکا
More: