پاکستان کے لئے بہت اچھی تجویز جامع حل.
پاکستان کے تمام تر مسائل کا حل صرف جمہوریت میں ہی پوشیدہ ہے۔یہ بات بہت اہم ہے اور تاریخ کے اس موڑ پر ہمیں اس حقیقت کو اچھی طرح سے سمجھ لینا چاہیئے۔ ان افراد کے لئے جنہیں میں گروہ ملامتی کہوں گا ،ہر چیز میں کچھ نہ کچھ موقع ملامت موجود ہوتا ہے ،یہ وہ گروہ ہے جو صرف مسائل کی نشاندہی کرنا جانتا ہے ،لیکن اگر انہیں کسی بھی موقع پران مسائل کا حل تجویز کرنے کیلئے کہا جائے تو یہ کنی کترا جاتے ہیں،اس کی وجہ شاید یہ ہے کہ وطن عزیز کی روایا ت میں مسائل کا ڈھنڈورا پیٹنا ہی اصل جہاد تصور کیا گیا ہے،اسی لئے بہت سی برائیوں کے بارے میں بات صرف ان کی نشاندہی تک رہتی ہے ،چاہے وہ برائیاں معاشرتی ہو یا معاشی۔ سیاست کی ہی مثال لیجئے ،جتنا کچھ اس ملک میں سیاستدانوں اور سیاسی عمل میں موجود برائیوں کے بارے میں لکھا گیا شاید ہی کسی اور ملک میں لکھا گیا ہو،لیکن سیاسی عمل کی ان برائیوں سے چھٹکارا پانے کے لئے کبھی کسی نے کوئی خاطر خواہ یا ٹھوس قدم نہیں اٹھایا۔جمہوری عمل جس کی بدولت ملک میں عوام کی حکمرانی قائم ہوتی ہے ،اس میں موجود برائیوں سے نبرد آزما ہونا اتنا بھی مشکل نہیں۔ایک نسخہ جو میری جوانی کے دنوں میں ڈاکٹر مبشر حسن نے بلیک بورڈ پر لکھ کر ہمیں سمجھا یا تھا،آج میں عوام کی نذر کئے دیتاہوں۔یہ وہی نسخہ ہے جس کی بدولت ،70کی دہائی کے انتخابات میں شیخ رشید صاحب اور ان جیسے اور بہت سے غریب افراد کو ہم عوام نے اپنی قسمت کا فیصلہ کرنے قومی اسمبلی میں بھیج دیا تھا،اگر طاقت صرف دولت کی ہوتی ،تو ایسا کبھی ممکن نہ ہوتا ،شیخ رشید صاحب تو اپنے پیسوں سے ایک پولنگ اسٹیشن کا خرچہ بھی نہیں اٹھا سکتے تھے،ایک قومی اسمبلی کے اخراجات برداشت کرنا تو دور کی بات تھا۔ یہ فلسفہ ہے عوام کے سیاسی عمل میں بھرپور حصہ لینے کا ،سیاسی جماعت چاہے کوئی بھی ہو،نظریہ کوئی بھی،سیاسی عمل میں عوام کی شمولیت کا مطلب ملک کی 6600یونین کونسلز کی سطح پر پارٹیوں کی تنظیم سازی کا عمل ہے۔سیاسی جماعت اگر یونین کونسل کی سطح پر پوری طرح منظم ہوگی تو پھر اسے نہ صرف عوام تک اپنا پیغام پہنچانے میں آسانی رہے گی بلکہ عوامی شمولیت کے باعث انتخابات کے دنوں میں بہت سے غیر ضروری اخراجات بچانے میں بھی کامیابی ہوگی۔ اگر ایک یونین کونسل میں کسی سیاسی جماعت کی تنظیم میں 100منظم افراد ہوں تو پھر پارٹی کے پاس ملک بھر میں اپنے فلسفے سے وابستگی رکھنے والے 6لاکھ افراد ہونگے،اور اگر ملک میں تین یا چار بڑی سیاسی جماعتیں ایسے تنظیمی مقابلے میں آجائیں تو 25لاکھ کے قریب ایسے افراد، گلیوں اور محلوں میں فعال ہوجائیں گے جن کے پاس پاکستان کے مسائل کے حل کے لئے کہنے اور کرنے کو بہت کچھ ہوگا۔ان لاکھوں کارکنوں کے درمیان مسائل کے حل کے لیے ہونے والا مباحثہ ہی تو اس ملک کے مسائل حقیقی معنوں میں حل کرنے کی طرف ایسا قدم ہوگا جس کے نتیجے میں ایسا نظام جنم لے گا جسے عوام کی تائید حاصل ہوگی۔ جب انہیں احساس ہوگا کہ آپ بھی کامیابی اور ناکامی میں اسٹیک ہولڈر ہیں تو پھر پولنگ سٹیشنوں پر انتظام انہی عوام کے ہاتھوں میں ہوگا جو کہ وہاں کے رہنے والے ہیں ،پھر نہ تو کوئی کسی سے روٹی کے پیسے لے گا ، نہ اسٹیشنری اور نہ ہی قناتوں کے ، نہ کوئی گھی اور چینی کے ڈبے کے لئے ووٹ فروخت کرے گا نہ ہی سرکاری نوکری کے لئے۔ اگر وہ چاہیں تو اپنی پارٹی کو اپنی قوت سے مجبور کرسکتے ہیں کہ کس کو ٹکٹ ملنا چاہییے کس کو نہیں،شاید فوری طور پر اس حد تک کامیابی حاصل نہ ہوسکے جس کا خواب میں دیکھتاہوں ،لیکن دس پندرہ سال کے عرصے اور چار پانچ مقامی حکومتوں کے انتخابات کے بعد میں سمجھتاہوں کہ میرا خواب شرمندہ تعبیر ہوسکتا ہے ،اور پھر حقیقتاََ اقتدار عوام کا ،عوام سے اورعوام کے لئے، کاعمل مکمل ہوسکتا ہے۔قومی اسمبلی کی ایک سیٹ کے لئے ہونے والے انتخابات میں تقریباً 200سے زائد پولنگ اسٹیشن بنائے جاتے ہیں۔اگر ایک سیاسی جماعت کے نمائندے اور ممبر یونین کونسل کی سطح پر منظم ہوں تو قومی اسمبلی کے کسی حلقے میں عوامی امنگوں کے مطابق افراد کو منتخب کرنا ہر چند مشکل نہیں ،ہر پولنگ اسٹیشن پر سیاسی جماعت کے کارکن ووٹ کے تقدس کے تحفظ پر جب ڈٹ جائیں گے تو کسی کی جرات نہیں ہوگی کہ الیکشن چرا سکے،یا پھر کسی بنکر میں بیٹھ کر کمپیوٹر کی مدد سے اپنے مقاصد کو پورا کرسکے۔یہ لوگ ہر پولنگ اسٹیشن سے نتیجہ کی دستخط شدہ چٹ لے کر جائیں گے اور دھاندلی کے تمام ارادے دفن ہوجائیں گے۔ یہ سب کوئی الف لیلیٰ کی داستان نہیں ہے،پاکستان میں 1970ء کے انتخابی معرکے میں ایسا ہی ہوا تھا،چاہے وہ پارٹی پاکستان میں عوامی انقلاب کی داعی پیپلزپارٹی ہو ،یا پھران کی مخالف جماعت اسلامی۔1970ء کے انتخابات میں مقابلہ دولت اور شان وشوکت کا نہیں تھابلکہ کارکنوں اور ان کے اپنے اپنے پارٹی نظریات کا ، آمریت سے تھا ۔ سیاسی تاریخ اس بات کی گواہ ہے کہ عوام نے طاقت کے بڑے بڑے بتوں کو پاش پاش کر دیا۔اس وقت کی سیاسی جماعتیں بھرپور انداز میں منظم تھیں ،ساتھ ہی ساتھ نوجوانوں کے سیلاب نے بھی آمریت کی دیوار ڈھانے کا عزم کرلیا تھا اور اسی بناء پر وہ تاریخ رقم کرنے میں کامیاب ہوئے ۔آج پھر وطن کی فضاؤں میں نوجوانوں کی آوازیں گونج رہی ہیں،اگر یہ نوجوان خود کو سیاسی عمل میں شامل کرنے پر آمادہ ہوجائیں تو پھر ان کے سامنے موجود سیاسی گروہ بندیاں کوئی معنی نہیں رکھتیں۔منظم سیاسی افراد کے سامنے ذات ،برادری اور دولت کی دیواریں گر جاتی ہیں۔اگر یہ نوجوان آج اپنے اپنے علاقوں میں اپنی مرضی اور پسند کی سیاسی جماعت کی تنظیم سازی کا حصہ بن جائیں تو کوئی دنیاوی طاقت انہیں سیاست کے موجودہ گند کو صاف کرنے سے نہیں روک سکتی ۔ مجھے صرف نوجوانوں سے اتنا ہی کہنا ہے کہ زندگی کے کچھ لمحات ملک میں تبدیلی کے لیے دے دو ،صرف تنقید کرنے سے کام نہیں چلے گا،تحمل کرنا ہوگا،جھنڈا لگانا ہوگا،نعرہ سیکھنا ہوگا ،ووٹ بنوانا ہوگا ،ووٹ کا حق استعمال کرنا ہوگا ۔جو ووٹ نہیں بنواسکتے ان کی رہنمائی کرنا ہوگی کیونکہ تم دوسرں کے مقامی رہنما بن سکتے ہو۔محلوں،گلیوں کے رہنما مل کر ،قصبوں ،تحصیلوں ،شہروں اور پھر ملک کے رہنما بن جاتے ہیں ۔صرف اپنے گرد ہر چیز کو برا کہنے والوں کے شر سے بچے رہو، تبدیلی کے لئے کسی کا انتظار کرنے کی بجائے خود تبدیلی بن جاؤ۔ http://search.jang.com.pk/NewsDetail.aspx?ID=26145 |