It is an indisputable fact that the country is in deep political crisis that cannot be dismissed by the assertion that the government has a comfortable majority and that all the conventional political parties, except of course, the PTI, are supporting it. There is also a misplaced optimism in the ranks of the government and other parties with high stakes in the political order — from which they benefit immensely — that the protests will peter out. They also build their case on ‘popular mandate’, which means the right to rule on account of majority of seats in the National Assembly, and the constitutional legitimacy that entitles them to the positions they occupy. I am afraid that none of these arguments, nor the bonding together of the old political players in ‘defence’ of the system is going to work. The crisis is much deeper, and it is for real. All declining and dying political forces everywhere have used the system stability argument for their survival.
The crisis lies essentially in the formidable challenge that the Kaptaan has presented to what he rightly portrays the old forces or players. Since they have nothing or very little to show to the public in terms of anything good — rule of law and justice, development or governance — they, like any other political establishment, seek refuge in the procedures they have used to stay in power. Since narratives and political spins matter, they confuse attacks against them as attacks against the Constitution and democracy. They are not the same thing. The challenge is much bigger and more complex than the PML-N government and other political parties trying to defend the ‘system, would like us to believe. The Kaptaan has brought into the public debate, far and wide in Pakistan, for the first time, the real character of three critical institutions that have played a central role in the politics of Pakistan for decades. These are the electoral system, Parliament, and the political parties.
The Pakistani public since long has known the truth about what usually happens on election day and what the parties which come into power have done to reach their good. My own observation is that people at the grassroots level have grown cynical of politics and the political class that appears to be diverse but shares common interest in the status quo. In the absence of real democratic politics — participation and representation — the people have become inert and inactive. Their choice has been limited to two traditional rival parties or candidates affiliated with two political dynasties. For the first time after the rise of the PPP in the 1970s, there appears to be a realistic third choice that might be the first choice in any free and fair elections next time. The Kaptaan has not only given the people of Pakistan a choice but he is saying exactly what the public at large has known for decades about widespread official corruption, dysfunctional institutions and poor state of governance. More importantly, he has brought to public attention the curse of dynastic politics and why it conflicts with the spirit of democracy, corruption and stashing away of looted money in foreign banks and how the powerful sections of the political elites have escaped accountability.
Among all, he has very successfully challenged the credibility of the electoral process that theoretically gives the right to the current governments at the federal and provincial levels to rule. Though belated, he appears to be succeeding in throwing the 2013 elections in serious doubt. His optimism, perseverance and very effective use of media place him in driving political position. It looks, he is not going back without THE wicket.
Published in The Express Tribune, September 24th, 2014.حقیقی بحران
یہ ایک ناقابل ِ تردید حقیقت ہے کہ ملک اس وقت جس گہرے سیاسی بحران کی زد میں ہے، اسے صرف اس وجہ سے رد یا نظر انداز نہیں کیا جاسکتاکہ حکومت کو اکثریت حاصل ہے اور پی ٹی آئی کے سوا تمام اہم سیاسی جماعتیں اس کے ساتھ کھڑی ہیں۔ حکومت کے علاوہ سیاسی نظام کی شراکت دار دیگر جماعتوں، جو موجودہ نظام سے بے حد استفادہ کرتی ہیں، کی صفوں میں غلط فہمی پر مبنی رجائیت پائی جاتی ہے کہ یہ احتجاج رفتہ رفتہ خود ہی دم توڑ جائے گا ، دھرنے کے قائدین اور شرکا تھک ہار کر واپس اپنے اپنے گھروں کو لوٹ جائیں گے اور وہ جمہوریت کی فتح کے گن گانے کے لیے اپنی جگہ پر موجود رہیںگے۔ حکمرانوں اور ان کے 'اصول پرست اتحادیوں‘ کا یہ بھی کہنا ہے کہ چونکہ ان کے پاس عوام کا دیا ہوا مینڈیٹ ہے اور وہ قومی اسمبلی میں اکثریت میں ہیں، اس لیے وہ آئینی اور دستوری اعتبار سے حکومت کرنے کے حقدار ہیں۔ تاہم خدشہ یہ ہے کہ نہ تو ایسے دلائل اور نہ ہی روایتی سیاسی جماعتوں کا ''نظام کو بچانے ‘‘ کے عہدکا نسخہ کارگر ثابت ہونے جارہا ہے۔ اس بحران کی جڑیں کہیں زیادہ گہری ہیں اور اسے چائے کی پیالی میں طوفان ہر گز نہیں کہا جاسکتا۔ تمام ساکھ کھونے والی زوال پذیر سیاسی جماعتیں نظام کو بچانے کا دعویٰ کرتے ہوئے صرف اپنے بچائو کا سامان کررہی ہیں حالانکہ دل کی گہرائیوںسے وہ بھی جانتی ہیں کہ اب لفاظی اور اشک شوئی کا وقت گزر چکا ہے۔
اس بحران کے تانے بانے بننے والی چیز وہ خوفناک چیلنج ہے جوکپتان روایتی سیاسی قوتوں اور سیاسی کھلاڑیوں کے سامنے رکھتا ہے۔ چونکہ حکمرانوںکے پاس عوام کو دکھانے کے لیے اچھی طرز ِ حکمرانی، آئین اور قانون کی بالا دستی یا عوامی مسائل کا حل یا ترقی، نہیں ہے، اس لیے وہ کسی بھی سیاسی اسٹیبلشمنٹ کی طرح اقتدار میں رہنے کے لیے جمہوری طریق ِ کار( جو اکثریت کوحکومت کرنے کا حق دیتا ہے) کا سہارا لے رہے ہیں۔چونکہ بیانات اور سیاسی اتار چڑھائو کی ایک اپنی اہمیت ہوتی ہے، اس لیے وہ اپنے اوپر ہونے والے حملے کو آئین اور جمہوریت پر حملہ قرار دیتے ہیں۔ جب وہ کہتے ہیں کہ وہ جمہوریت کو پٹڑی سے اتارنے کی اجازت نہیں دیںگے تو دراصل وہ اپنی حکومت کا بچائو کرنے کی فکر میں ہوتے ہیں۔ تاہم یہ دونوں (جمہوریت اور جمہوری حکمران) مترادف نہیں۔ اس لیے حکمران جماعت، پی ایم ایل (ن)اور ان کا ساتھ دیتے ہوئے ''نظام کو بچانے‘‘ کی کوشش کرنے والی دیگر جماعتوں کے سامنے اُس سے کہیں زیادہ سنگین اور پیچیدہ چیلنج موجود ہے جتنا وہ ہمیں تاثر دیتے ہیں۔ بظاہر وہ ٹی وی پر بہت پراعتماد دکھائی دیتے ہیں لیکن اندر سے وہ ڈرے ہوئے ہیں کیونکہ ایک ماہ پہلے اُنہیں موجودہ حقائق کا ادراک نہ تھا۔ دراصل کوئی سیاسی مبصر بھی یہ اندازہ لگانے میں ناکام رہا تھا کہ یہ دھرنا ایک ماہ کے بعد بھی جاری رہے گا۔ یقینا اس کے شرکا کی تعداد میں کمی ضرور واقع ہوئی ہے ، اس کی شدت میں نہیں۔
درحقیقت عمران خان پہلی مرتبہ پاکستان کے طول و عرض میں جمہوری نظام کے تینوں اہم عناصر کا اصل کرداراجاگر کرنے میں کامیاب ہوگئے ہیں۔۔۔ وہ کردار جو یہ فیصلہ کن عناصر کئی دہائیوںسے پاکستان کی سیاست میں ادا کرتے چلے آرہے تھے۔ یہ عناصر انتخابی نظام، پارلیمنٹ اور سیاسی جماعتیں ہیں۔ بلاشبہ جو حقائق آج کھل رہے ہیں، پاکستانی عوام انہیں بہت پہلے سے ہی جانتے تھے کہ انتخابات والے دن کیا ہوتا ہے ،سیاسی جماعتیں ایک دوسرے کے ساتھ اتحاد کیسے اور کیونکر بناتی اور توڑتی ہیں اور ان جماعتوںنے اب تک ملک کو کیا دیا ہے۔ میرا اپنا مشاہدہ ہے کہ گراس روٹ لیول پر لوگ سیاست اورسیاسی طبقے سے بیزار ہورہے ہیں کیونکہ کہنے کو یہ روایتی جماعتیں اور رہنما الگ الگ نظریات اور نعرے رکھتے ہیںلیکن ان سب کا موجودہ نظام کے جاری رہنے میں مشترکہ مفاد ہوتا ہے۔ کپتان اس نظام کو عوامی زبان میں ''باریاں لینا‘‘ کہتا ہے۔ عوام کی نمائندگی اور شمولیت رکھنے والے حقیقی جمہوری نظام کی غیر موجودگی میں لوگ جمہوری عمل میں دلچسپی نہیں لیتے۔ زیادہ تر افراد کا موقف یہ ہوتا ہے کہ انتخابات اور سیاست سب ڈھونگ ہیں ، اس لیے ہمیں ان سے کیا لینا دینا۔
عوام کے سامنے انتخابی چوائس بھی دو روایتی سیاسی حریفوں تک محدود ہوتی ہے۔ دراصل یہ دو نظریاتی سیاسی جماعتوں کی نہیں، دوخاندانوں کی مسابقت ہوتی ہے جس کا نام ہم نے جمہوری عمل رکھا ہواہے۔ تاہم اب سیاسی معروضات تبدیل ہورہے ہیں۔ 1960ء کی دہائی میںپی پی پی کے وجود میں آنے کے بعد سے لے کر اب تک پہلی مرتبہ ایسا ہوا کہ لوگوں کے سامنے ایک حقیقی تیسری سیاسی قوت بھی آن موجود ہوئی۔اگر ملک میں آزاد اور غیر جانبدارانہ ماحول میں اگلے انتخابات کا انعقاد عمل میں آیا تو یہ تیسری قوت عوام کی پہلی چوائس بن کر بھی ابھر سکتی ہے۔ اس طرح کپتان نے نہ صرف پاکستانیوں کے سامنے ایک چوائس رکھی ہے بلکہ ان کی طرف سے روایتی سیاسی جماعتوں پر لگائے جانے والے الزامات وہی ہیں جو کئی عشروں سے زبان ِ زد ِخاص وعام ہیں۔ جب وہ بدعنوانی، اقرباپروری، رشوت ستانی، اداروں کی نااہلی اور بدانتظامی کی بات کرتے ہیں تو لوگوں کو یوں محسوس ہوتا ہے کہ وہ ان کے جذبات کی ترجمانی کررہے ہیں۔ وہ لوگ جن کی سیاسی حمایت عمران کے ساتھ نہیں، دل سے وہ بھی تسلیم کرتے ہیں کہ ان کی باتوں میں وزن ہے۔
عمران خان موروثی سیاست کے منفی پہلو کو بھی اجاگر کرنے میں کامیاب ہوگئے ہیں۔ اُنھوںنے عوام کو یہ بات تقریباً سمجھا دی ہے کہ جمہوریت اور نسل در نسل بادشاہت میں بہت فرق ہوتا ہے۔ اگر باپ کے بعد بیٹے نے ہی حکومت کرنی ہے تو جمہوریت کا بکھیڑا کرنے کا کیا فائدہ۔اس کے علاوہ جمہوریت حکمرانوں سے باز پرس کرتی ہے۔ اور اگر جمہوریت طاقتور حلقوں کا احتساب نہ کرسکے اور نہ ہی ریاست کے وسائل کو لوٹ کھسوٹ سے بچا سکے تو وہ جمہوریت نہیں، اس کے نام پر قوم سے کیا جانے والا ایک سنگین مذاق ہے۔ اسی طرح سیاسی حکمرانوں کو زیب نہیں دیتا کہ ان کی دولت غیر ملکی بینکوں میں پڑی رہے اور وہ حکومت یہاں کرتے رہیں۔
دیگر منفی معاملات کو منکشف کرنے کے علاوہ، عمران خان نے انتخابی نظام کی ساکھ کو بہت کامیابی سے چیلنج کیا ہے۔ یہ انتخابی نظام ہے جو تھیوری کے اعتبار سے کسی بھی وفاقی یا صوبائی حکومت کوحق ِ حکمرانی عطاکرتا ہے۔ اگرچہ قدرے تاخیر سے لیکن خان صاحب نے بہت شدومد سے 2013ء کے انتخابات پر سنگین سوالات اٹھا دیے ہیں۔ ان کے عزم وہمت، ان کی رجائیت اور میڈیا کے موثر استعمال نے اُنہیں اس وقت ملک کا اہم ترین سیاست دان بنا دیا ہے۔ ایسا لگتاہے کہ وہ اپنے رن اپ پر ہیں اور اب وہ وکٹ لیے بغیر نہیں ٹلیںگے۔ دوسری طرف حکومت کو سمجھ نہیں آرہی کہ وہ دھرنا دینے والوں کو ڈی چوک سے کیسے نکالیں۔ وہ نہ تو طاقت کا استعمال کرسکتے ہیں اور نہ ہی مذاکرات میں اب تک کوئی پیش رفت ہوئی ہے۔ حکومت کی تمام تر امیدوں کا مرکز دھرنے کے شرکا کی ناامیدہوکر اپنے اپنے گھروں کو واپسی ہے۔ لیکن اگر ایسا نہ ہوا تو کیا ہوگا؟ یہ اندازہ لگانا زیادہ مشکل نہیں۔
Rasul Buksh Raees