یمسلمانوں کی تقدیر ہے کہ ہر گمراہ کن سماجی یا سیاسی نظریہ‘اسلام کے نام پر مسلط کیا جائے؟
کبھی ہم نے سوچا ہے کہ جتنی سیاسی‘ سماجی ‘ ریاستی اور طرز حکومت پر مبنی تحریکیں‘ اسلام کے نام پر چلائی گئیں‘ ان کے نتائج کیا ہوئے؟
پاکستانی قوم جوایک قانون دان اور سیاسی شخصیت کی قیادت اور تصورات کے نتیجے میں ‘ اسلام کے نام پر اپنا آزاد ملک حاصل کرنے میں کامیاب ہوئی‘ آج پارہ پارہ کیوں ہے؟
ایک وہ لیڈر تھا‘ جس نے مسلمان قوم کو متحد اور منظم کر کے‘ ہندو اکثریت کے غلبے سے نجات دلائی اور انہیںایک آزاد اور خودمختار قوم کی حیثیت سے‘ دنیا میں اپنا مقام بنانے کا شاندارموقع فراہم کیا ، دوسری طرف مذہبی سیاستدان تھے‘ جو تحریک آزادی کے دوران بھی مسلمانوں کے اتحاد میں‘ رخنے ڈالنے کی کوشش کرتے رہے۔ ان کی اکثریت کی قیادت مذہبی شخصیتیں کر رہی تھیں۔ جن میں ایک قابل ذکر دیوبندی علما کی تحریک تھی، جس نے مسلمان قوم کے نظریئے کو مسترد کرتے ہوئے‘ کانگریس کا ساتھ دیا۔ ایک جماعت اسلامی تھی، جس کے بانی امیر نے قائداعظمؒ اور ان کے ساتھیوں کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے‘ اصرار کیا کہ قائداعظمؒ اور مسلم لیگیوں کی قیادت میں‘ اسلامی معاشرہ قائم ہی نہیں ہو سکتا اور جو پاکستان یہ بنائیں گے‘ وہ اصل میں ''ناپاکستان‘‘ ہو گا۔
قیام پاکستان کے بعد یہی لوگ‘ مختلف روپ دھار کے‘ مسلمانوں کے اتحاد میں رخنے ڈالتے رہے۔ مذہبی سیاستدانوں نے ‘پاکستانی قوم کو تقسیم کرنے کے لئے سب سے پہلا حملہ ‘ اسلامی تہذیب و ثقافت کے نام پر کیا۔ اس حملے کا اصل نشانہ مشرقی پاکستان کے عوام تھے۔
مشرقی پاکستان کی تہذیب و ثقافت میں‘ فنون لطیفہ کو خصوصی حیثیت حاصل تھی۔ وہاںموسیقی‘ رقص ‘ مصوری‘ فوک تھیٹر اور شعر و ادب ‘ روزمرہ کی زندگی میں رچے بسے تھے۔ یہاں تک کہ مشرقی پاکستان کے علما بھی اسی زندگی کے عادی تھے۔ مغربی پاکستان کے علما نے‘ اس تہذیب کو غیراسلامی قرار دینا شروع کر دیا۔
یہ مدرسے کی محدود فضا میں پروان چڑھے ہوئے وہ ملا تھے‘ جو اسلام کی حقیقی روح اور عظیم تہذیبی روایات سے بیگانہ تھے۔ وہ فنون لطیفہ کی حقیقت کا اعتراف ہی نہیں کرتے تھے اور آج بھی نہیں کرتے کہ اسلامی تاریخ کا عظیم اور سنہرا دور وہ تھا‘ جب ادب‘ سائنس‘ موسیقی‘ طب اور ریاضی کے علوم نے شاندار ترقی کی۔یہ مسلمان تہذیبیںہی تھیں‘ جنہوں نے دنیا کو مہذب زندگی کے آداب سے آشنا کیا۔ عباسیوں کے دور میں فنون لطیفہ کی شاندار ترقی ہوئی۔ جدید علوم کی بنیادیں بھی درحقیقت مسلم تہذیبوں نے ہی مضبوط کی تھیں۔
یہ مکتبی ملائوں کا طبقہ تھا‘ جس نے ایک ایسا تصور اسلام پیش کیا‘ جس میں تحقیق‘ جستجو‘ اجتہاداور ایجادات کی نفی کرتے ہوئے ‘ مسلمانوں کو غوروفکر کی روایت سے دور کر دیا۔ فقہ کے نام پر ہر نئے خیال اور نئے تصور کو مسترد کیا جانے لگا۔ اجتہاد کے دروازے بند کر کے‘ اسے کفر قرار دیا جانے لگا۔ مغربی دانشوروں اور مفکروں نے‘ جو اسلامی تہذیب کی علمی‘ سائنسی اور تہذیبی برتری سے خائف تھے‘ علم و سائنس کو رد کرنے والے علماء کی سرپرستی شروع کر دی اور باقاعدہ ایک منصوبے کے ذریعے‘ غیراجتہادی تصورات کو تاریخ‘ تہذیب اور مذہبی تشریحات و تعبیرات کو فروغ دیا اور ایسا لٹریچر تیار کر کے‘ مسلمان ملکوں میں پھیلایا کہ ان پر اجتہاد کے دروازے بند ہوتے چلے گئے۔
علامہ اقبالؒ نے جرأت رندانہ سے کام لیتے ہوئے‘ اجتہاد کے احیاء پر زور دیا، لیکن مکتبی ملائوں نے ‘ ان کے خلاف مہم شروع کر دی۔ ان کی کردارکشی کی گئی۔ ان کی ذاتی زندگی پر طرح طرح کی تہمتیں لگائی گئیں۔ یہاں تک کہ انہیں کافر قرار دے دیا گیا۔
اقبالؒ تو اپنی شاعرانہ عظمت کی وجہ سے علم و فکر کے میدان میں زندہ رہے، لیکن ان کی اجتہادی فکر سے متاثر ہونے کی روایت آگے نہ بڑھ سکی۔ آج حالت یہ ہے کہ مکتبی ملائوں نے ‘ اسلام میں تحقیق و جستجو کے دروازے پوری طرح سے بند کر کے‘ معاشرے کی تحقیقی اور تخلیقی قوتیں مفلوج کر دی ہیں اور ہمارا معاشرہ بانجھ بن کے رہ گیا ہے۔
قیام پاکستان کے بعد ہمارے معاشرے میں ملائیت نے جس تیزرفتاری سے فروغ پایا‘ اس کا انجام ہم آج تک بھگت رہے ہیں۔ مشرقی پاکستان‘ جسے اپنی منفرد تہذیب و ثقافت کی وجہ سے‘ ملائوں نے اپنا ہدف بنایا تھا‘ آخرکاراسے ہم سے الگ ہونے پر مجبور کر دیا۔ان پر مغربی پاکستانی ملائوں کے تصورات مسلط کئے گئے۔ اسلام کے نام پر ‘ ان کی علاقائی اور تہذیبی آزادیاں سلب کر لیں، حتیٰ کہ اسلامی اور جمہوری اصولوں کے تحت ‘ انہیں ایک فرد ایک ووٹ کی بنیاد پر‘ جو برتری حاصل تھی‘ اس سے بھی محروم کر دیا اور اسلامی جمہوری آئین کے نام پر‘ مشرقی پاکستان کی زیادہ اور مغربی پاکستان کی کم آبادی کو برابر قرار دے کر‘ انہیں جمہوریت کے اکثریتی حق سے محروم کر دیا۔
Nazir Naji dunya.com