عرب، افغان اور پاکستان
سینئرصحافی رحیم اللہ یوسف زئی نے لکھا :اسّی کی دہائی میں پاکستان اور افغانستان کے سرحدی علاقے میں عرب مجاہدین کے ایک تربیتی کیمپ پر سفید جھنڈا لہراتادیکھا توتعجب ہوا۔چند دن بعد کیمپ پر سوویت یونین کی فورسز نے فضائی حملہ کیا اور کافی لوگ مارے گئے۔ تحقیق کی تو معلو م ہوا کہ عرب مجاہدین نے جان بوجھ کر اپنے کیمپ پر سفید جھنڈا لہرایاتھا تاکہ ان پر حملہ ہو اور وہ شہید ہوسکیں۔
پاکستان کو قبائلی علاقہ جات میں ایسے ہی سخت گیر لوگوں کا مقابلہ کرنا پڑرہاہے جو خوشی سے موت کو گلے لگاتے ہیں۔آج پاکستان جن مسائل اور بحرانوں کا شکار ہے وہ محض اس کے اپنے پیدا کردہ نہیں بلکہ اس کے دوستوں اور دشمنوں نے بھی حصہ بقدرجثہ ڈالا ہے۔خاص کر امریکیوں اور عرب ممالک نے سوویت یونین کی شکست وریخت کو یقینی بنانے کی خاطر خطے میں شدت پسندوں کے گروہ کے گروہ پالے ۔ان پر مالی وسائل کی بارش کی گئی ۔جدید جنگی ٹیکنالوجی فراہم کی گئی ۔عرب افغان کے نام سے قبائلی علاقہ جات میں بستیاں بسائی گئیں۔ان کی مقامی لوگوں سے رشتہ داریاں کرائی گئیں تاکہ یہ لوگ مستقل طور پر یہاں آباد ہوکر سوویت یونین کے خلاف بھرپور جنگ کریں۔
شیخ عبداللہ یوسف عزام وہ پہلے عرب سکالر تھے جنہوں نے افغان جہاد کو عرب دنیا میں متعارف کرایا۔انہوں نے فتویٰ دیا کہ ایمان لانے کے بعد ہر مسلمان کا فرض ہے کہ وہ مسلمانوں کی سرزمین کے تحفظ کے لیے اپنی جان ومال اللہ تعالیٰ کی راہ میں لٹائے۔فلسطین کی آزادی کے لیے لڑنا مسلمانوں کا پہلا فرض ہے ،چونکہ افغانستان میں باقاعدہ نفیرِعام ہوچکی ہے لہٰذا پہلے مسلمانوں کو اس میں حصہ لینا چاہیے۔سعودی عرب کے مفتی اعظم عبدالعزیزبن باز نے بھی فتویٰ جاری کیا کہ افغانستان کے جہاد میں حصہ لینا مسلمان پر فرض ہوچکاہے۔ابتدائی طور پرعبداللہ عزام نے اسلام آباد کی انٹرنیشنل اسلامی یونیورسٹی کو اپنا مستقر بنایا ۔بعد میں وہ پشاور منتقل ہوگئے جہاں وہ ایک بم دھماکے میں جاں بحق ہونے تک مقیم رہے۔
1981ء میں مصری صد انور سادات کے قتل کے بعد ہزاروں شہریوں کو حراست میں لیا گیااور انہیں سخت اذیتیں دی گئیں۔سرکار کے عتاب سے بچنے کی خاطر نوجوانوں کی بڑی تعداد نے افغانستان کا رخ کیا۔پشاور میں بن لادن خاندان کے نوجوان چشم وچراغ بے پناہ خاندانی مالی وسائل اور شخصی وجاہت کے ساتھ ان کے لیے استقبال کے لیے موجود تھے۔ اسامہ نے مکتبہ الخدمت کے نام سے ایک ادارہ قائم کیا جو عرب مجاہدین کے ویزے ،ٹکٹ اور رہائش کا انتظام کرتا۔پشاور پہنچ جاتے تو انہیں کچھ دن آرام کے بعد افغانستان کے اندر قائم کیمپوں میں پہنچادیاجاتا۔جہاں انہیں گوریلا جنگ کے ماہرین حربی تربیت دیتے۔اس طرح یہ عالمی جہاد بن گیا۔
قارئین کو یہ جان کر حیرت ہوگی کہ اسّی کی دہائی میں عبداللہ عزام نے مالی وسائل جمع کرنے اور امریکی نوجوانوں کو جہاد کی طرف مائل کرنے کی خاطر پچاس امریکی شہروں کا دورہ کیا۔وہ یورپ اور مسلم ممالک میں گئے ۔ان دوروں میں وہ مجاہدین کی کامیابی اور غائبی نصرت کے محیر العقول واقعات بیان کرتے۔امریکہ میں کی جانے والی ایک تقریر میں انہوں نے بتایاکہ ایک معرکہ میں روسی فوجوں نے مجاہدین کے اوپر ٹینک چڑھا ئے لیکن اس کے باوجود وہ سلامت رہے۔ مجاہدین نے فرشتوں کو گھوڑوں پر بیٹھا ان کی مدد کو آتے دیکھا ۔ پرندوں نے روسی جنگی جہازوںکے بموں کو فضامیں بے اثر کیا۔ مجاہدین کی کامیابیوں کے ان واقعات نے نہ صرف نوجوانوں کو متاثرکیابلکہ انہیں جان اور مال سمیت مجاہدین کی صفوں میں شامل ہونے کی ترغیب دی۔
عبداللہ عزام کی کوششوں اور عرب حکمرانوں کے تعاون سے 35000غیر ملکی مجاہدین نے افغانستان کی جنگ میں حصہ لیا۔بیرونی ممالک سے ایک لاکھ کے قریب نوجوان افغانستان کی جنگ میں حصہ لینے ،خیراتی سرگرمیوں میں شریک ہونے یا تعلیم حاصل کرنے کی غرض سے پاکستان آئے۔ایک اندازے کے مطابق دوہزار کے لگ بھگ عرب مجاہدین بیک وقت لڑاکا گروہوں میں شامل رہتے تھے۔ افغان مجاہدین کی تعداد ڈھائی لاکھ کے لگ بھگ تھی۔ روسی افواج کی تعداد ایک لاکھ پچیس ہزار تک تھی۔عملی معرکہ آرائی سے ہٹ کر عرب مجاہدین زیادہ تر مہاجرین کی دیکھ بھال کی سرگرمیوں میں شریک ہوتے۔ پشاور اور کوئٹہ میں درجنوں خیراتی ادارے قائم کیے گئے جو عربوں کے مالی تعاون اور انتظامی نگرانی میں چلتے تھے۔
امریکیوں نے بھی عالمی جہادی نیٹ ورک قائم کرانے میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔سی آئی اے کے مالی تعاون سے دنیا کے بڑے بڑے اخبارات میں مجاہدین کی بھرتی اور ان کی مالی امداد کے لیے اشتہارات چھپوائے گئے ۔ امریکی یونیورسٹیوں نے ایسی کتابیں شائع کیں جن میں بچوں کو جہاد کی تعلیم اور کمیونسٹو ں کو قتل کرنے کی ترغیب دی جاتی۔ یوایس ایڈ نے یونیورسٹی آف نبراسکا کو اس کام کے لیے پچاس ملین ڈالر کی خطیر رقم فراہم کی ۔اسی یونیورسٹی کی شائع شدہ ایک کتاب میں ایک افغان بچہ روسی فوجی کی آنکھیں نکالتے اور ٹانگیں کاٹتے دکھایاگیاہے۔ طالبان کے دور میں بھی سکولوں اور مدارس میں سی آئی اے کی چھپی ہوئی کتابیں پڑھائی جاتی رہی ہیں۔ آج بھی ایسی کتابیں راولپنڈی اور پشاور کے پرانے کتاب گھروں سے مل جاتی ہیں۔جدہ میں امریکی ویزا کونسلر کی خدمات سرانجام دینے والے مائیکل سپرنگ مین نے ایک امریکی اخبار کو بتایا کہ سی آئی اے کی ہدایت پر جدہ میں افغان باشندوں کو بلاروک ٹوک ویزے جاری کیے جاتے تھے۔ امریکہ میں گوریلا جنگ کی تربیت دے کر انہیں واپس افغانستان روانہ کردیا جاتا۔ آج بھی پشاور کی تاریخی مسجد مہابت خان کے امام اپنے ملنے والوں کو اعلیٰ امریکی حکام کے ساتھ اپنی تصویریں دکھاتے ہیں۔
سوویت افواج کے افغانستان سے انخلاء کا آغاز ہوا تو امریکی رویہ میں سردمہری آنا شروع ہوگئی ۔ گرم جوشی لاتعلقی میں بدل گئی۔ محمد حنیف کے شہرہ آفاق ناول A Case of Exploding Mangoesمیں بڑے مزاحیہ انداز میں امریکیوں کی بے رخی، پاکستانی حکام کی بے بسی اور مایوسی کی تصویر کشی کی گئی ہے۔امریکی اپنا بوریا بستر سمیٹ کر واپس چلے گئے۔ہزاروں عرب مجاہدین کے لیے واپسی کے دروازے بند ہوچکے تھے۔جنہوں نے واپس گھروں کو لوٹنے کی جسارت کی انہیں عرب حکومتوں نے نہ صرف حراست میں لیا بلکہ عقوبت خانوں میں بدترین تشدد کا نشانہ بنایا۔ردعمل میں انہوں نے پاکستان میں مصری سفارت خانے پر خودکش حملہ کیااور دنیا بھر میں امریکی مفادات کو ہدف بنانے لگے۔پاکستانی ریاست اس چیلنج سے نبردآزما ہوسکی اور نہ اسے امکانی خطرات کا کوئی ادراک تھا۔
نائن الیون کے بعد ایک بار پھر میدان سجا۔سابق مجاہدین تازہ دم کمک کے ہمراہ امریکہ اور اس کے اتحادی پاکستان کے ساتھ معرکہ آرائی فرمانے لگے۔یہ وہ جن ہے جس کو بوتل میں بند کرنے کی ذمہ داری صرف پاکستان کی نہیں بلکہ امریکہ سمیت عرب ممالک کی بھی ہے کیونکہ شدت پسندی کو فروغ دینے کے کارخانے پاکستان نے ان ممالک کے اشتراک سے لگائے تھے۔اب ان کے بھرپور تعاون کے بغیر اس عفریت پر قابو پانا ممکن نظر نہیں آتا۔شدت پسندی کے مقابلے کے لیے پاکستان کو علاقائی حکمت عملی اختیار کرنا ہوگی جس میں تمام ممالک ایک صفحے پر ہوں۔ابھی صورت حال یہ ہے کہ ایک ملک مذاکرات کا ڈھول ڈالتاہے تو دوسرا اسے سبوتاژ کرادیتاہے۔ عربوں اور افغانون کے تعاون کے بغیر اس خطے میں امن کا قیام ممکن نظر نہیں آتا۔
Dunya.com.pk