پنجاب اور بیرونی حملہ آور
''ہماری درسی کتابوں میں برصغیر پر حملہ آورہونے والی شخصیات کی تصویر کشی خلاف ِ حقیقت، رومانوی اور بعض اوقات تعصب پر مبنی انداز میں کی جاتی ہے۔اِن حملہ آورو ں کو خواہ غیر مسلم ہوں یا مسلمان،مخصوص ،سماجی و تاریخی سیاق و سباق میں رکھ کر ان کے بارے میں رائے زنی نہیں کی جاتی ۔ اورنہ ان کی فتوحات کے پسِ پشت موجود حقیقی اسباب و اغراض کو ہی زیر ِبحث لایا جاتا ہے۔بلکہ انہیں قابلِ تعریف و تقلید عظیم شخصیات کے روپ میں پیش کرنا مناسب سمجھا جاتا ہے۔انہیں ہیرو بنایا جاتا ہے۔پھر ان پر مبنی اسلامی تاریخی ناول تخلیق ہوتے ہیںاور ٹیلی ویژن پر سیریز چلتے ہیں...‘‘
یہ اقتباس عزیز الدین احمد کی کتاب '' پنجاب اور بیرونی حملہ آور‘‘ سے لیا گیا ہے جو حال ہی میں شائع ہوئی ہے۔عزیز الدین احمد کا خیال ہے کہ پنجاب پر جتنے بھی حملہ آوروں نے چڑھائی کی ان میں زیادہ تر کا مقصد اسلام کی اشاعت ہرگز نہ تھابلکہ ان کے مقاصدمیں اہم ترین مال و دولت اکٹھا کرنا تھا۔یعنی یونانیوں سے لے کر انگریزوں تک، جتنے بھی حملہ آور پنجاب آئے ،ان سب کا مقصد ، مفتوحہ علاقوں کے وسائل کی لوٹ ماراور ان پر قبضہ کرنا تھا۔ عزیز الدین احمد کے بقول ان بیرونی حملہ آوروں کے آنے کا مقصد اس خطّے میں عوام کی فلاح و بہبود اور سماجی ترقی نہ تھی۔لوٹ مارکرنے والوں کی ایک قسم وہ تھی جو مختصر وقت کے لیے آئی ،پنجاب
کو تاخت و تاراج کرتے ہوئے یہاں سے سونا چاندی، مال مویشی اور غلاموں کی کھیپ لے کر واپس چلی گئی۔اس میں ہن،منگول اور یونانی شامل ہیں۔ترک، مغل اور پٹھان حکمران یہاں آباد ہو گئے۔انہوں نے بھی مقامی آبادی سے بالعموم وہی سلوک کیا جو فاتح اقوام شکست کھانے والوں سے کرتی ہیں،لیکن افسوس کی بات یہ ہے کہ تاریخ لکھنے والوں نے ہر حملہ آور کو ہمارا ہیرو بنا دیا...خواہ وہ سکندر ہو یا چنگیز، تیمور ہو بابر یا احمد شاہ ابدالی ...سکندر کا نام تو ہمارے ہاں لوگوں میں اتنا متعارف ہوا کہ وہ برصغیر کے مسلمانوں میں سب سے زیادہ مقبول غیر مسلم، عظیم انسان کا رتبہ اختیار کر گیا۔کلاسیکی فارسی شاعروںنے خضر اور سکندر کے قصے ایجاد کیے اور ان قصوں سے تلمیحات کا وسیع سلسلہ جس طرح سے نکالا، اس سے سکندر کا نام مسلمانوں میں معروف نام کے طور پر استعمال ہونے لگا۔یونان کا یہ حملہ آور اس طرح ایک گھریلونام کے طور پر مقبول ہوا کہ جیسے وہ بھی مسلمانوں کا کوئی ہیروہو۔یہ تو غیر مسلم فاتحین کا معاملہ ہے۔مسلمان فاتحین کے حوالے سے بھی ہماری درسی کتب کے لکھاریوں کا رویہ تاریخ کے مسلّم تقاضوں کے مطابق
نہیںہے۔حملہ آور کا مسلمان ہونا اُس کے تمام عیوب کی پردہ پوشی کرنے ،اُس کی قتل و غارت گری سے صرفِ نظر کرنے کے لیے کافی سمجھا جاتا ہے۔یہ حقیقت بھلا دی جاتی ہے کہ بعض حملہ آوروں کی زندگی میں مذہب فی الحقیقت کوئی زیادہ اہمیت نہ رکھتا تھا۔کئی حملہ آوروں کے پیش ِنظر کبھی اسلام کی تبلیغ کا مقصد نہیں رہا ۔ باہر سے آکر برصغیر کے تخت شاہی پر متمکن ہو جانے والوں نے تبلیغ اسلام کی خاطر کبھی کوئی واضح اور ٹھوس اقدامات نہیں کیے۔ اگر انہوں نے صرف اسلام پھیلانے کے لیے برصغیر پر حملے کیے ہوتے تو وہ اپنے ساتھ مبلغین کی جماعتیں بھی ہندوستان لاتے،تبلیغ اسلام کے لیے سرکاری محکمے قائم کرتے، اسلام کی حمایت اور ہندو عقائد کی تکذیب کے لیے کتابیں لکھواتے،ہندوستان میں اسلام کی حقانیت ثابت کرنے کے لیے مذہبی مباحثوںکا اہتمام کرتے لیکن تاریخ گواہ ہے کہ انہوں نے اس قسم کی کوئی کوشش نہیں کی ۔
سوال یہ ہے کہ کیا پنجاب میں اسلام حملہ آوروں کی وجہ سے پھیلا؟تاریخ کے مطابق پنجاب ہو یا برصغیر کا کوئی دیگر علاقہ، یہاں اسلام کی اشاعت کا سہرا مسلمان صوفیاء کے سر ہے جومذہبی انتہا پسندی، ذات پات اور نسلی تعصب کے خلاف تھے اور اپنی تعلیمات میں ہمیشہ انسان دوستی کا پر چارکرتے تھے۔اصل بات یہ تھی کہ صوفیا کا اٹھنا بیٹھنا، جینا مرنا عوام کے ساتھ تھا اور وہ دربار یا بادشاہوں سے تعلق کو خود پر حرام سمجھتے تھے۔صوفیا نے مقامی زبانوں میں لوگوں کی تربیت کرنے کی عملی کوششیں کیں۔پنجابی زبان ہو یا سندھی اس کے سب بڑے شعرایہی صوفیا تھے۔ صوفیا کی کوششوں سے مقبول ہوا اور پھیلتا چلا گیا۔اِس سلسلے میں جن مشہور صوفیا کے نام آتے ہیںان میں حضرت خواجہ معین الدین چشتی اجمیریؒ، بہائو الدین زکریا ملتانیؒ،شیخ رکن عالمؒ،سید جلال الدین سرخ بخاریؒ،سید احمد سلطان سخی سرورؒ،بابا فریدؒ،امیر کبیر سید ہمدانیؒ اور نور قطب العالمؒ شامل ہیں۔ صوفیا ہمیشہ انسانیت کا درس دیتے۔وہ امن و آشتی اور صلح پسندی کا پرچار کرتے ۔کسی بھی مذہب کے برگزیدہ افراد کی برائی نہ کرتے۔ہمیشہ نیکی کی تلقین کرتے۔اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ لاکھوں کی تعداد میں لوگ ان کے ہاتھوں پر اسلام لائے۔صوفی شعراء نے تواپنے کلام میں امن، محبت ،رواداری اور ہمدردی کا پرچار کیا۔بابا فریدؒ ،شاہ حسینؒ ہوںیاسلطان باہوؒ، وارث شاہ،بلھے شاہ ہوںیا میاں محمد بخش سبھی نے اپنے عارفانہ کلام میں انسانوں کو ایک لڑی میں پرونے کی کوشش کی۔ان صوفیا نے اسلام کی حقیقی روح پیش کرنے کے ساتھ ساتھ ملّا اور اس کی ظاہرپرستی کی کھل کر مخالفت کی ۔ کیونکہ ملّاہمیشہ وہی اسلام پیش کرتا تھا جو حاکم کا دربار چاہتا تھا۔
عمل اور کردار کے بغیر صرف نام کا مسلماں ہونا کوئی اہم بات نہیںہے،ہمیں صرف حُلیے سے مسلمان نہیں بننا بلکہ اپنے رہن سہن، کھانے پینے سے لے کر روز مّرہ طرزِ زندگی سے یہ ثابت کرنا ہے کہ ہم اللہ اور اس کے رسولﷺ کی اطاعت کرنے والے ہیں مگر آج اپنے ارد گرد نگاہ ڈالیں تو ہم ناکوں ناک حرص و ہوس میں ڈوبے ہوئے ہیں۔ ہمیں اسلام سے محبت ہے مگر بے گناہ نہتے اور معصوم شہریوں کو دھماکوں میں اُڑاتے ہیں ۔ایک دوسرے کو برداشت کرنے سے قاصر ہیں۔ بات عزیز الدین احمد کی کتاب ''پنجاب اور بیرونی حملہ آور‘‘ سے شروع ہوئی تھی، واقعتاً یہ ایک چشم کشا کتاب ہے جسے پڑھنے سے کئی مغالطے دور ہو سکتے ہیں۔
http://dunya.com.pk/index.php/author/doctor-akhtar-shumar/2014-02-08/5989/21595786#tab2