.
Let's charge sheet Pakistan!...ذراہٹ کے…یاسر پیر زادہ | ||
فی زمانہ سب سے آسان کام پاکستان کو گالی دینا ہے۔ وجہ اس کی بہت سادہ ہے ،پاکستان کو دی گئی گالی مارکیٹ میں بہت بکتی ہے ،اس حرکت کے رد عمل میں کوئی کسی کے خلاف پرچہ نہیں کٹاتا،کبھی کسی شخص نے محفل میں کسی دوسرے کا گریبان اس بات پر نہیں پکڑا کہ تم نے میرے ملک کو گالی کیوں دی؟ آپ نے کبھی یہ بھی نہیں سنا ہو گا کہ کسی نے پاکستان کے خلاف گالی سن کر غیرت میں آکر گالی بکنے والے کو قتل کر دیاہو،کوئی خود کش بمبار بھی اتنا غیرت مند نہیں ہوتا کہ ایسی گالی کے خلاف کہیں جا کر پھٹ مرے ۔اسی طرح پاکستان کو دی گئی گالی فیشن بھی سمجھی جاتی ہے کیونکہ بہرحال اس ملک میں خرابیاں تو بے شمار ہیں لہذا ان خرابیوں کو نئے رنگ ڈھنگ سے بیان کرنا ایک آرٹ ہے۔ اسکے برعکس کسی ایسے آدمی کو اس کی خامیاں گنوانے کی ہماری ہمت نہیں ہوتی جس کے ڈولے ہم سے زیادہ ہوں یا جس کے آگے سربسجود ہونے میں ہی ہماری عافیت ہو۔ آج کل پاکستان میں کیڑے نقص نکالنے کا بیڑہ ہمارے نام نہاد نوجوانوں نے اٹھایا ہوا ہے جو اپنے تئیں بہت ٹیلنٹڈ ہیں اور جنہیں پاکستان میں صرف اس لئے کامیاب ہونے کا چانس نہیں ملتا کیونکہ یہاں لا قانونیت ہے ،رشوت ہے ،لوٹ مار ہے ،میرٹ نہیں ہے ۔یہاں صرف پیسے والے کا بول بالا ہے ،یہاں غریب کی کوئی عزت نہیں ،یہاں ایجنسیاں لوگوں کو اٹھا لے جاتی ہیں ،یہاں ملاوٹ ہے اوراخلاقی گراوٹ ہے۔یہاں چوری بھی ہے اور سینہ زوری بھی اور بھتہ خوری تو ایسی کہ جس کے خلاف بھتہ خوری کرنے والے بھی احتجاج پر مجبور ہو جائیں۔یہ نوجوان اٹھتے بیٹھتے یہی راگ الاپتے رہتے ہیں اورملک سے باہر جانے کے لئے بیتاب رہتے ہیں۔ انہیں پاکستان کے علاوہ کوئی بھی ملک قبول ہے اوروہاں ہر طرح کا ”گھٹیا“ کام کرنا بھی وارے میں ہے جبکہ یہاں انہیں ایسی ملازمت چاہئے جس میں صرف دو کام ہوں ،اول، حکم چلانا ،دوم،ا پہلی تاریخ کو تنخواہ لینا۔ جن نوجوانوں کو ملک میں تمام برائیاں superlative formمیں دکھائی دیتی ہیں ان سے گذارش ہے کہ ایک مرتبہ وہی عینک لگا کر اپنی محبوبہ کو بھی دیکھیں جس عینک سے وہ اس ملک کو دیکھتے ہیں ،یقین کریں کہ دوسری مرتبہ دیکھنے کو دل نہیں کرے گا(محبوبہ کو)۔جس لڑکی پر یہ نوجوان فریفتہ ہوتے ہیں اس کیلئے یہ آسمان سے تارے بھی توڑ کر لا سکتے ہیں جبکہ ملک کیلئے ان کے منہ سے کلمہ خیر نہیں نکلتا۔ ان نوجوانوں کو اس ملک میں ایک بھی خوبی نظر نہیں آتی جبکہ اس لڑکی میں دنیا جہان کی خوبیاں نظر آتی ہیں جس کی شکل فاقہ زدہ ماڈل سے ملتی ہے ۔ایسے نوجوان جب اپنا سی وی بناتے ہیں تو اپنی ذات کی جملہ خوبیوں کو کچھ اس انداز میں بڑھا چڑھا کر بیان کرتے ہیں جن کے بارے میں ان کی والدہ ماجدہ کو بھی چنداں علم نہیں ہوتا۔ البتہ جہاں پاکستان کی بات آتی ہے وہاں یہ فارمولا الٹ جاتا ہے ،وہاں پاکستان کی ایک ایسی چارج شیٹ تیار کی جاتی ہے جو شائد اسرائیل یا بھارت بھی ہمارے خلاف تیار نہیں کر سکتے! پاکستان کے بارے میں ایسی چارج شیٹ پڑھنے کے بعدہمارے پاس کیا آپشن باقی رہ جاتے ہیں …شائد کچھ اس قسم کے…پہلا،اٹھارہ کروڑ عوام کوچاہئے کہ بحیرہ عرب میں چھلانگ لگا دیں ۔دوسرا،ملک چھوڑ کر باہر جا بسیں۔تیسرا،اسی ملک میں رہ کر اس کو گالیاں دیں اور اس کے سسٹم کا حصہ بن کر اس میں سے اپنا حصہ نکالیں ۔چوتھا،اس ملک میں رہ کر موجودہ نظام کی بہتری کے لئے کچھ ایسا کام کریں جس سے کم از کم یہ اطمینان ہو کہ ہم نے شکوہ ظلمت شب ہی نہیں کیا بلکہ اپنے حصے کا انرجی سیور بھی جلایاہے ۔پہلا آپشن تو قابل عمل نہیں ہے اس لئے فی الحال بحیرہ عر ب میں چھلانگ لگانے سے میری معذرت قبول فرمائیں ۔دوسرا آپشن خاصا پاپولر ہے تاہم جو لوگ پاکستان کی تمام تر برائیوں سے تنگ آکر باہر جا بسے ہیں ان سے دست بدستہ گذارش ہے کہ باہر سکونت اختیار کرنے کے بعد پاکستان جیسے گھٹیا ملک کی شہریت رکھنا آپ کے شایان شان نہیں لہذا اسے کوڑے کے ڈبے میں ڈال دیجئے ،ویسے بھی آپ یہاں کی گندگی سے تنگ آ کر باہر گئے تھے ۔پاکستان جیسے ملک میں پلاٹ خریدنا یا جائیداد بنانا بھی کچھ عجیب سا لگتا ہے ،یہ ملک تو (خاکم بدہن) ٹوٹنے کے قریب ہے اور اسی لئے آپ نے اپنے اور اپنے بچوں کے محفوظ مستقبل کی خاطر باہر سکونت اختیار کی ہے لہذا یہاں جائیداد بناناپرلے درجے کی حماقت ہوگی،یوں بھی یہاں قبضہ گروپ بھرے ہوئے ہیں ،آپ کی چارج شیٹ میں ان قبضہ گروپوں کا حوالہ بھی ہوتا ہے ۔یہاں ایک بات کی وضاحت ضروری ہے کہ باہر سیٹل ہونے والوں سے مجھے کوئی خاص اختلاف نہیں کیونکہ بہتر زندگی گذارنا ہر شخص کا بنیادی حق ہے ،مجھے شکایت صرف ان سے ہے جو پاکستان کے خلاف ہر برائی کو محدب عدسہ لگا کر دیکھتے ہیں بھلے وہ یہاں رہیں یا بیرون ملک۔ تیسرا آپشن وہ ہے جو زیادہ تر لوگ استعمال کر رہے ہیں یعنی پاکستان میں رہ کر پاکستان کو گالی دینا اوراس سسٹم میں رہ کر اس نظام کی کمزوری سے فائدہ اٹھاناکہ زمانے میں جینے کا یہی ڈھنگ ہے۔چوتھا اور آخری آپشن سب سے مشکل ہے اور یہی وجہ ہے کہ یہ نوجوان ملک میں رہ کر نظام کی بہتری میں معاون ثابت ہونے کی بجائے اپنی تمام تر ناکامیوں کا جواز سسٹم کی خرابی میں تلاش کرکے بری الذمہ ہونا چاہتے ہیں۔مجھے آج تک کوئی ایسا نوجوان نہیں ملا جو حقیقتا بہت ٹیلنٹڈ ہو اور نوکری کی خاطر مارا مارا پھر رہا ہو،کمپنیاں تو ایسے لوگوں کی تلاش میں ہوتی ہیں،ٹیلنٹ کو تو سونے میں تولا جاتا ہے۔اگر کوئی ٹیلنٹڈ نوجوان یہ دعوی کرے کہ وہ اپنے شعبے کا ماہر ہے اور ویلا ہے ،ناقابل یقین بات ہے۔اس سرمایہ دارانہ نظام میں ہزار خرابیاں ہوں گی مگر ایک خوبی یہ ہے کہ cut throat competitionمیں اسے منہ مانگی قیمت ملتی ہے جس میں کچھ ہنر ہوتا ہے۔جس میں ٹیلنٹ ہوتا ہے وہ ٹاٹ سکول میں پڑھ کے بھی سیکریٹری یا جرنیل بن جاتا ہے، سٹیشن ماسٹر کا بیٹا سپریم کورٹ کا جج(جسٹس انوار الحق) بن جاتا ہے،سنٹرل ماڈل سکول کے ہیڈ ماسٹر کا بیٹا وزیر خزانہ (ڈاکٹر محبوب الحق) بن جاتا ہے اور دس ڈبل روٹیوں اور آٹھ درجن انڈوں سے کاروبار شروع کرنے والاکروڑ پتی بن جاتا ہے ۔ جو نوجوان دن رات پاکستان میں برائیاں تلاش کرنے کا کاروبار کر رہے ہیں کیا انہوں نے کبھی ایک دفعہ بھی انتخابات میں ووٹ ڈالنے کی زحمت گوارا کی ؟ کیا انہوں نے اس ملک کا نظام درست کرنے میں اپنا کوئی حصہ ڈالا جو ملک انہیں سکالر شپ پر باہر پڑھنے کا موقع دیتا ہے،سبسڈائزڈ فیسوں پر ڈاکٹر ،انجینئر،وکیل بناتا ہے ،وہ ملک گالی کا مستحق ٹھہرا ،اس ملک کے بارے میں ہر منفی بات پھیلانا کار خیر ہوا …سبحان اللہ ۔انگریزی کا مقولہ ہے If you are not part of the solution, you are part of the problem!چنانچہ جو نوجوان مسئلے کے حل کا حصہ بننا چاہتے ہیں در حقیقت وہی پاکستان کا مستقبل ہیں،باقی سب ہیر پھیر ہے! |
Please visit: http://aftabkhan.blog.com