Featured Post

FrontPage صفحہ اول

Salaam Pakistan  is one of projects of  "SalaamOne Network" , to provide information and intellectual resource with a view to...

Bad Governance and Anarchy



Illustration by Abro

On ‘Anthropology and Politics’ seminar, one of the speakers said about anarchy. The anecdote that my colleague shared was about his father. He said that back in 1971, just days after the country lost its eastern wing (East Pakistan), someone stole the back tyre of his father’s motorbike. His father visited a nearby police station to report the incident but found the station extremely quiet. He said the cops were just loitering around, doing nothing. What’s more, the SHO refused to register a complaint against the tyre theft.

The SHO told his father that even if he did pen his complaint, it will remain on his table because “there is no government left.” My colleague was told by his father that everything seemed to have ground to a halt. Yet, there were no riots or looting. This little piece of information reminded me of the German anthropologist’s lecture during which he had explained that when a state collapses, and it seems there is no government left, a country does not immediately fall into anarchy. He added that it may actually take months for a collapsing country to slide into total social, economic and political chaos.

According to the anthropologist, this occurs because even though governance and the state itself have collapsed, the perception (in people’s minds) of their being strong institutions and in control remains ingrained for months. It is when this perception begins to erode that the country plunges into anarchy. The anthropologist had given examples of Bosnia and Somalia, saying that in these countries the state and government’s writ had begun to corrode and evaporate months before these realms eventually plunged into complete anarchy.

When there seems to be no government left, a country does not immediately fall into anarchy

I had initially not thought much about what my colleague had related to me. But after recalling the German professor’s lecture, I did wonder, what the SHO had meant when he told my colleague’s father, “There is no government left.” When did that happen in Pakistan?


I could not pinpoint such a claim anywhere when I looked through old newspapers from December 1971 or in books written about the immediate aftermath of the East Pakistan debacle. But only last week, while going through Hamid Khan’s excellent book Constitutional and Political History of Pakistan, I was taken aback when (in a chapter on the East Pakistan civil war) he writes that between December 18 and 20, 1971, “The country was virtually without a government.” Had this situation triggered riots and violence, I am sure it would have been more robustly documented, but the country had remained calm. This can also be explained by the German professor’s theory and observation that even when a government or state collapses (thus creating a huge political and social void) society does not immediately fall into this void. The mind takes some time to register the collapse because it is initially conditioned to believe that there is always someone on top in control.
By Farid Piracha ... Dawn.com

~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~
SalaamOneسلام  is a nonprofit e-Forum to promote peace among humanity, through understanding and tolerance of religions, cultures & other human values. The collection is available in the form of e-Books. articles, magazines, videos, posts at social media, blogs & video channels. .Explore the site English and Urdu sections at Index
علم اور افہام و تفہیم کے لئے ایک غیر منافع بخش ای فورم ہے. علم،انسانیت، مذہب، سائنس، سماج، ثقافت، اخلاقیات اورروحانیت امن کے لئے.اس فورم کو آفتاب خان،  آزاد محقق اور مصنف نے منظم کیا ہے. تحقیقی کام بلاگز، ویب سائٹ، سوشل میڈیا، میگزین، ویڈیو چننل اور برقی کتابوں کی صورت میں دستیاب ہے.اس  نیٹ ورک  کو اب تک لاکھوں افراد وزٹ کر چکے ہیں, مزید تفصیلات>>>  Page Index - Salaam One 
 ..........................................................................
 مزید پڑھیں: 
  1. مسلما نوں اور علماء کے نام کھلا خط : آج کے حالات میں مسلم معاشرہ نظریاتی  ابتری اور انحطاط کا شکار ہے. مادہ پرستی، دہشت گردی، عدم برداشت، اور جہالت انسانیت، امن اور مذھب کے لیے خطرہ بن چکے ہیں- ان حالات میں صاحب علم و ذی فہم حضرات سے ممکنہ حل کی توقع کی جا سکتی ہے. ہمارا مقصد ہے کہ آپ کی توجہ ضروری حل پذیر مسائل کی طرف مبذول کرنا ہے تاکہ جلد حل تلاش کیا جا سکے- آپ کی توجہ اور مدد سے ہم کوشش کر سکتے ہیں کہ معاشرہ کو اس  گہری دلدل سے نکال سکیں. مکمل خط اس <<< لنک پر پڑھیں>>
  2. نظریاتی اور فکری کنفیوژن اور ممکنہ حل

  3. خطبات اقبال - اسلام میں تفکر کا انداز جدید Reconstruction of Religious Thought in Islam-  http://goo.gl/lqxYuw
~ ~ ~ ~ ~ ~ ~ ~ ~ ~ ~ ~ ~ ~ ~ ~ ~  ~ ~ ~  ~
* * * * * * * * * * * * * * * * * * *

Critics of Democracy جمہوریت کے ناقدین

جمہوریت کے ناقدین
جمہوریت کے جن ناقدین سے ہمیں پالا پڑا ہے، ان کے ساتھ دو بڑے مسائل ہیں۔
ایک یہ کہ وہ دلیل کا جواب جذبات سے دیتے ہیں۔ سب سے آسان مذہبی جذبات کا استعمال ہے۔اس عمل میں یہ خود کومذہب کے تنہاماخذ کے طور پر پیش کرتے ہیں۔یہ اس بے باکی کے ساتھ شارع کے منصب پر فائز ہوجاتے ہیں کہ اس جسارت پر خوف آنے لگتا ہے۔ایک منظرتخلیق کیاجاتا ہے جیسے پارلیمان ،معاذاللہ ،خدا ور رسول کے مقابلے میں آ کھڑی ہوئی ہے۔اللہ تعالیٰ کا حکم تویہ ہے کہ گمان سے گریز کیا جائے کہ اکثر گمان گناہ ہوتے ہیں۔یہاں معاملات تہمت کی حد تک پہنچ جاتے ہیں اور مذہب کے علم بردار بے پروا رہتے ہیں۔اس فضا میں حسنِ ظن کا تصور ہی محال ہے جو تعلقات کے باب میںاسلامی اخلاقیات کا پہلا درس ہے۔
دوسرا مسئلہ خلطِ مبحث ہے۔ کہیں کی اینٹ اور کہیں کا پتھر جمع کر کے ،بزعمِ خویش ایک تنقیدی عمارت کھڑی کی جاتی ہے۔اس مشقت کے بعد،سنگ وخشت کا ایک پہاڑ تو استادہ ہو جاتا ہے مگر اس کو عمارت کہنا مشکل ہوتا ہے۔ نہ دروازے کا پتہ چلتا ہے نہ کھڑکی کا۔ پنجابی میں اس صورت ِ حال کے بیان کے لیے ایک لفظ ہے ''کھِلار‘‘۔'فکری پراگندگی‘کسی حد تک اس کا ترجمہ تو ہو سکتا ہے،متبادل نہیں۔مثالوں سے میرا مقدمہ واضح ہو جائے گا۔
اسلام میںشادی کی عمر کیا ہے؟ماہ وسال کے پیمانے سے قرآن وسنت نے اس کا کوئی متعین جواب نہیں دیا۔ فطرت میں اس کی راہنمائی موجود ہے اوروہ ہے بلوغت۔اسلام نے اسی کو قبول کیا۔نکاح کا ادارہ پہلے سے مو جود تھاجسے اسلام نے نئی تحدیدات کے ساتھ باقی رکھا۔اسلام میں نکاح ایک سماجی معاہدہ ہے۔یہ کچھ معاشی و سماجی ذمہ داریاں قبول کرنے کا نام ہے۔اس کے لیے لازم ہے کہ بلوغت کا تعین محض جسمانی پہلو ہی سے نہ ہو۔اس کے لیے ذہنی اور نفسیاتی بلوغت کابھی لحاظ رکھا جائے۔ان ذمہ داریوں کا تعین سماجی سیاق و سباق میں ہوتا ہے۔یہ شارع کی حکمت ہے کہ اس نے شادی کے لیے عمر کا واضح تعین نہیں کیا؛تاہم اس نے پسند کیا ہے کہ اس معاملے میں غیر ضروری تاخیر نہ کی جائے۔
آج دنیا کا ہر اجتماعی نظم نکاح کی عمر کا تعین اپنے سماجی سیاق و سباق میں کر رہا ہے۔اس میں مسلمان معاشرے بھی شامل ہیں۔یوں مختلف مسلمان معاشروں میں شادی کی عمر مختلف ہے۔پاکستان کے قانون میں بھی اس کا تعین کیا گیا جس میں ایک تبدیلی ان دنوں پارلیمان بھی زیرِ بحث ہے۔اسے یوں پیش کیا جا رہا ہے کہ جیسے پارلیمان کے 'مکار اراکین ‘قرآن و سنت کے خلاف قانون سازی کر رہے ہیں۔اس سے جہاں جمہوریت کو اسلام کے مخالف نظام کے طور پر پیش کیا جا رہا ہے وہاں لوگوں کے مذہبی جذبات سے بھی کھیلاجا رہا ہے۔
یہی معاملہ سود کا بھی ہے۔سب جانتے ہیں کہ اس باب میں اہلِ علم مختلف الخیال ہیں۔ صرف ایک مسلک کے علما میں دو متصادم آرا مو جود ہیں۔لازماً ان میں سے ایک رائے غلط ہے۔میںاس سے صرفِ نظر کرتے ہوئے آگے بڑھتا ہوں کہ پارلیمان کی اکثریت اسے ایک ناگزیر برائی سمجھتے ہوئے قبول کیے ہوئے ہے۔پارلیمان نے کبھی یہ نہیں کہا کہ ہمیںقرآن و سنت کے احکام کی کوئی پروا نہیں۔ البتہ اس کا کوئی ٹھوس متبادل نہ ہونے کی وجہ سے یہ اسے بادلِ نخواستہ بر داشت کر رہی ہے۔
یہ پارلیمان پر تہمت ہے کہ کوئی نص ِقطعی بھی قانون نہیں بن سکتی جب تک یہ ''اراکین حکم ِالٰہی پر اپنی مہرِتصدیق ثبت نہیں کرتے‘‘ یا''روزانہ ایسے قوانین منظور ہوتے ہیں جن کے خلاف اللہ اور رسول نے واضح احکامات دیے ہیں‘‘۔پارلیمان آئین کے تحت ایک ادارہ ہے ا ورآئین اسے پابند کرتا ہے کہ وہ قرآن وسنت کے خلاف قانون سازی نہیں کر سکتی۔ لوگ جانتے ہیں کہ نص کے مفہوم کے تعین میں اختلاف ہوتا ہے۔پارلیمان صرف اس پر بحث کر تی ہے کہ وہ کس رائے کو ترجیح دے۔اسی طرح کل کی پارلیمان یہ حق رکھتی ہے کہ وہ آج کی پارلیمان کا فیصلہ بدل دے یا اس میں ترمیم کر دے۔دوسرے لفظوں میں نص کی کسی دوسری تعبیر کو قبول کر لے۔
اب اگر دوسرے مسلمانوں کے بارے میں ہم رتی برابربھی حسنِ ظن کواپنے دل میں جگہ دیں تویہ کہنے کی جسارت نہیں کر سکتے ہیں کہ وہ اللہ اور رسول کے مقابلے میں کھڑے ہو گئے ہیں۔لیکن چو نکہ ہم نے جمہوریت کو باطل قرار دینا ہے،اس لیے لازم ہے کہ مسلمان ارکانِ پارلیمان کے اسلام کو مشتبہ بنا دیں۔ معلوم نہیں لوگ اتنا حوصلہ کہاں سے لاتے ہیں۔ہمارے اسلاف کی احتیاط کا عالم تو یہ تھاکہ ننانوے تاویلات کفر کو مستلزم ہوں اور ایک اسلام کی تو وہ اس واحدتاویل کو ترجیح دیتے ہیں۔
ا ب آئیے فکری پراگندگی کی طرف۔پارلیمانی جمہویت کے خلاف ایک دلیل یہ دی جاتی ہے کہ سیاسی جماعتیں حلقے میں جیتنے کی اہلیت رکھنے والے امیدوار کے ہاتھوں یرغمال بن جا تی ہیں۔اس لیے اگر متناسب نمائندگی کا طریقہ اختیار کر لیا جائے تو یہ بہتر ہے۔کیاان ناقدین کو اندازہ ہے کہ متناسب نمائندگی بھی جمہوریت ہی کی ایک قسم ہے؟ یہ جمہوریت کی ایک صورت کو دوسری پر ترجیح دینا ہے۔میں خودبھی یہی رائے رکھتا ہوں۔میں نے انتخابات کے دنوں میں اسے مو ضوع بنایا ہے۔میں نے لکھا تھا کہ یہ طریقہ جماعت اسلامی اور تحریکِ انصاف کے فائدے میں ہے۔انہیں آ گے بڑ ھ کر یہ مطالبہ کر نا چاہیے۔ جماعت اسلامی ایک عرصے میں اس کی حامی رہی ہے۔
اسی پراگندگی کا ایک اور مظہر یہ ہے کہ دنیا کی تاریخ سے جمہوری حکمرانوں کی بد اعمالیوں کو جمع کر کے پیش کیا جا تا ہے اور پھر یہ کہا جاتا ہے کہ ''دیکھا! ہم نہ کہتے تھے۔جمہوریت ہے ہی بری‘‘! اب ذرا اس دلیل کی اوقات دیکھیے! یہ مشق کسی بھی طرح کے حکمرانوں کے ساتھ کی جا سکتی ہے۔اگر ہم خلافتِ راشدہ کے استثنا کے ساتھ خلفا کے اعمال کی ایک فہرست مرتب کریں توایسے ہوش ربا واقعات سامنے آئیں کہ انسانیت منہ چھپا تی پھرے۔کیا اس کے بعد یہ مقدمہ قائم کر نا درست ہو گا کہ ''خلافت ہے ہی قابلِ مذمت۔‘‘
اصل بات بالکل سادہ ہے۔ انسانوں میں ہمیشہ یہ مسئلہ باعثِ نزاع رہا ہے کہ حقِ اقتدارکس کو حاصل ہے۔ آج تک چار ہی طریقے سامنے آ سکے ہیں۔ ایک الہامی کہ کوئی آسمان سے پروانہ لے کر آ جائے۔ دوسرا بادشاہت۔ کسی شخص کا حقِ اقتدار اس بنیاد پر مانا جائے کہ اس کا باپ حکمران تھا۔ تیسرایہ کہ کوئی بندوق اور تلوار کے ز ور پر قبضہ کر لے۔چوتھا یہ کہ یہ حق عوام کو دے دیا جا ئے کہ وہ موجود لوگوں میں سے حکمران کا انتخاب کریں۔ختمِ نبوت کے بعد پہلا امکان ختم ہو گیا۔انسانی تجربے نے بتایا کہ بادشاہت اور آمریت انسانی سماج کے لیے زہرِ قاتل ہیں۔اب پرامن انتقال ِ اقتدار کا یک ہی طریقہ ہے کہ یہ حق عوام کو دے دیا جائے۔
اسلام کا معاملہ یہ ہے کہ اس نے ایک اصول بتا دیا کہ ''مسلمانوں کے معاملات ان کے مشورے سے چلتے ہیں‘‘۔ جمہوریت مشورے ہی کا نام ہے۔یہ بات ایک بار پھر واضح کر رہا ہوں کہ جمہوریت حق و باطل کا فیصلہ نہیں کرتی۔ جمہوریت صرف یہ طے کرتی ہے کہ اقتدار کس کو ملے۔ یوں وہ ایک معاشرے کو اس فساد سے بچا لیتی ہے جوانسانی تاریخ میں انتقال ِاقتدار کے نتیجے میں ہمیشہ بر پا رہا ہے۔
جمہوریت کے نا قدین کے پاس ایک ہی راستہ کہ وہ اپنے تضادات پر غور کریں اورانتشارِ فکر پیدا کرنے کے بجائے، جمہوریت کا متبادل سامنے لائیں۔اگر وہ ان چار طریقوں کے علاوہ کوئی ایسا طریقہ دریافت کر سکیں جو مشورے کے اصول پر قائم ہو اور وہ مروجہ جمہوریت سے بہتر ہو تو میں سب سے پہلے اسے قبول کروں گا۔
خورشید ندیم ۔
Dunya.com.pk. ..12/10/17

Sadiq Ameen صادق اور امین اور نا اہل وزیر اعظم

سپریم کورٹ نے 28 جولائی 2017 ء کو پاکستان کے وزیر اعظم میاں محمد نواز شریف کواس فیصلہ کی بنا پر اپنے عہدے سے معزول کردیا کہ وہ آئین پاکستان کی دفعہ 62 کے مطابق صادق اور امین نہیں رہے:

’’نواز شریف نے متحدہ عرب امارات میں قائم کمپنی ایف زیڈ ای میں اپنے اثاثوں کو 2013ء میں اپنے کاغذاتِ نامزدگی میں ظاہر نہ کر کے قانون کی خلاف ورزی کی ہے اور وہ اب پیپلز ایکٹ 1976 ءکی سیکشن 99 کی روشنی میں ایماندار نہیں رہے لہٰذا وہ پیپلز ایکٹ 1976 کی سیکشن 99 اور آرٹیکل 62 (اے) کی روشی میں پارلیمنٹ کے ممبر کے طور نااہل ہیں۔     الیکشن کمیشن نواز شریف کی نااہلی کا فوری نوٹیفکیشن جاری کرے۔‘‘

سپریم کورٹ کے فیصلے کے اہم نقاط:
سپریم کورٹ کے پانچ رکنی بینچ نے اپنے متفقہ فیصلے میں نواز شریف کو نااہل اور ان کے خاندان کے ارکان کے خلاف مقدمے درج کے احکامات جاری کیے۔ سپریم کورٹ کے فیصلے کے چیدہ چیدہ نکات۔
1.قومی احتساب بیورو سپریم کورٹ کے فیصلے کی تاریخ 28 جولائی 2017 سے چھ ہفتے کے اندر جے آئی ٹی، فیڈرل انویسٹی گشن اور نیب کے پاس پہلے سے موجود مواد کی بنیاد پر نواز شریف، مریم نواز، حسین نواز، حسن نواز، کیپٹن ریٹائرڈ صفدر کے خلاف ریفرنس دائر کرے۔
2.نیب نواز شریف اور اس کے خاندان کے خلاف عدالتی کارروائی میں شیخ سعید، موسیٰ غنی، جاوید کیانی اور سعید احمد کو بھی شامل کرے۔ نیب ان افراد کے خلاف سپلیمنٹری ریفرنس بھی دائر کر سکتا ہے اگر ان کی دولت ان کے ذرائع آمدن سے مطابقت نہیں رکھتی۔
3.احتساب عدالت نیب کے جانب سے ریفرنس فائل کیے جانے کی تاریخ کے چھ ماہ کے اندر ان ریفرنسز کا فیصلہ کرے۔
4.اگر مدعا علیہان کی جانب سے عدالت میں دائر کی گئی دستاویزات جھوٹی، جعلی اور من گھڑت ثابت ہوں تو ان کے خلاف قانون کے مطابق کارروائی کی جائے۔
5.نواز شریف نے متحدہ عرب امارات میں قائم کمپنی ایف زیڈ ای میں اپنے اثاثوں کو 2013 میں اپنے کاعذات نامزدگی میں ظاہر نہ کر کے قانون کی خلاف ورزی کی ہے اور وہ اب پیپلز ایکٹ 1976 کی سیکشن 99 کی روشنی میں ایماندار نہیں رہے لہذا وہ پیلز ایکٹ 1976 کی سیکشن 99 اور آرٹیکل 62 (اے) کی روشی میں پارلیمنٹ کے ممبر کے طور نااہل ہیں۔
6.الیکشن کمیشن نواز شریف کی نااہلی کا فوری نوٹیفکیشن جاری کرے۔
7.صدر مملکت ملک میں جمہوری نظام کے تسلسل کو یقینی بنائیں۔
8.چیف جسٹس سے درخواست کی جاتی ہے کہ وہ سپریم کے ایک جج کو اس عدالتی فیصلے پر عمل درآمد کی نگرانی کے لیے تعینات کیا جائے۔


قراردادِ مقاصد کے تحت پاکستان کے آئین میں حاکمیتِ اعلیٰ صرف اور صرف اللہ کی ہے اور پاکستان میں کوئی بھی ایسا قانون اور ترمیم پاس نہیں ہو سکتی جو قران اور سنت کے منافی ہو۔ اس لحاظ سے ترمیمی بل نہ صرف آئینِ پاکستان سے غداری کے زمرے میں آتا ہے بلکہ کتاب و سنت کے خلاف بھی کھلی جنگ ہے۔
Image result for ‫قرآن‬‎
قران و سنت صادق اور امین کا تصور دیتے ہیں۔ پیارے نبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی حیاتِ طیبہ صادق اور امین کی مجسم صورت تھی۔ آپ نے جب ان خوبیوں کو ہی آئینِ پاکستان سے نکال دیا تو اس کا صاف مطلب ہوا کہ کوئی بھی جھوٹا، کذاب اور خائن پاکستان کی سیاسی جماعت کو ہیڈ کر سکتا ہے یعنی صفاتِ محمدیہ (صادق اور امین) کے خلاف کھلی جنگ چھیڑ دی۔

قومی دولت لوٹنے والے، ٹیکس نادہندہ، بجلی چور، قاتل، قرض نادہندہ، جعلی ڈگری ہولڈر، کرپٹ اور رشوت خور ، بددیانت اور فاسق افراد آئین توڑتے ہوئے پارلیمنٹ میں پہنچ جاتے ہیں۔ عدلیہ اور الیکشن کمشن خاموش تماشائی بنے رہتے ہیں۔ عدلیہ کا آئینی فرض ہے کہ وہ اس امر کو یقینی بنائے کہ اراکین اسمبلی آئین کے آرٹیکل 62 اور نمبر 63 پر پورے اُترتے ہوں۔ افسوس کہ درجنوں انتخابات ہوئے جھوٹے اور بددیانت افراد منتخب ہوتے رہے مگر عدلیہ نے صادق اور امین کی تشریح ہی نہ کی۔

فاسق اور بددیانت سیاستدانوں نے پاکستان کو انحطاط پذیر کردیا ہے اور اب پاکستانی قوم ان سیاستدانوں کے خلاف اُٹھ کھڑی ہوئی ہے۔خرابیٔ بسیار کے بعد سپریم کورٹ نے آئین کے آرٹیکل 62 اور 63 کی تشریح کرنے کا فیصلہ کیا ہے کہ جھوٹا شخص عوام کی نمائندگی نہیں کرسکتا-

دستورِ پاکستان کے آرٹیکل 62 (1) کا مستند متن یہ ہے :
’’کوئی [مسلم] شخص مجلس شوری( پارلیمنٹ) کا رکن منتخب ہونے یا چنے جانے کا اہل نہیں ہوگا، اگر
(د) وہ اچھے کردار کا حامل نہ ہو اور عام طور پر احکام اسلام سے انحراف میں مشہور ہو۔
(ھ) وہ اسلامی تعلیمات کا خاطر خواہ علم Adequate knowledge of Islamic teachings نہ رکھتا ہو اوراسلام کے مقرر کردہ فرائض کا پابند ، نیز کبیرہ گناہوں سے مجتنب نہ ہو۔
(و)وہ سمجھ دار، پارسا نہ ہو اور فاسق ہو۔ اور ایمانداورامین Honest and Ameen نہ ہو۔ عدالت نے اس کے برعکس قرار نہ دیا ہو۔‘‘ [ اٹھارویں ترمیم 2010ء، نمبر 10 کی دفعہ 20 کی رو سے آرٹیکل 62 کو اس متن سے تبدیل کردیا گیا۔]
سپریم کورٹ نے اپنے حالیہ فیصلے میں آرٹیکل 62 کا اطلاق کرتے ہوئے لکھا کہ:
’’ کاغذات نامزدگی اپنے اثاثوں کا ذکر نہ کرنا غلط بیانی ہے اور عوامی نمائندگی کے قانون کی خلاف ورزی ہے اور اس لیے وہ [وزیر اعظم]’صادق نہیں‘ ۔
جب سپریم کورٹ آئین کے آرٹیکل 62 اور 63 کی تشریح کردے گی تو ریٹرننگ افسر کا عدلیہ کی تشریح کی روشنی میں کاغذات نامزدگی کی جانچ پڑتال کا کام آسان ہوجائے گا۔ عدلیہ کا فیصلہ چھلنی کا کام دے گا جس میں اسمبلی کے اُمیدواروں کو چھانا جائے گا اور اس طرح نیک نام دیانتدار افراد پارلیمنٹ میں پہنچ سکیں گے اور جمہوریت کا چہرہ خوبصورت ہوجائے گا۔ عوام کا اعتماد جمہوری نظام پر بحال ہوگا۔ سچ بولنے والے دیانتدار افراد ہی حقیقی جمہوریت قائم کرسکتے ہیں۔ عدلیہ کو صادق اور امین کے ساتھ ساتھ آرٹیکل 62 کی شق ڈی اور ای کی تشریح بھی کرنی پڑے گی جس میں درج ہے ’’وہ شخص بھی نا اہل ہوگا جو اچھے کردار کا حامل نہ ہو۔ عام طور پر احکام اسلام سے انحراف میں مشہور ہو۔ وہ اسلامی تعلیمات کا خاطرخواہ علم نہ رکھتا ہو اور اسلام کے مقررکردہ فرائض کا پابند نیز کبیرہ گناہوں سے مجتنب نہ ہو‘‘۔
نواز شریف نے اپنی پارلیمنٹ میں عددی برتری اور چالاکی و مہارت اور حزب اختلاف کی ناہلی یا خاموش حمایت سے قانون پاس کروا لیا کہ اب نااہل شخص سیاسی پا رٹی کا صدر بن سکتا ہے- اب وہ ایک نااہل شخص جو خود پارلیمنٹ کا ممبر نہیں بن سکتا مگر وہ پارلیمنٹ میں اپنی پارٹی ممبران پر مکمل اختیار رکھتا ہے- یہ قانون ،اسلامی اقدار اور اخلاقیات کا مذاق ہے-

نوازشریف  نے نون لیگ کا صدر بننے کے لیے جو ترمیم پاس کی اس سے دو پیغام واضح ہو گئے کہ اول تو پاکستان میں اللہ کی حاکمیت کا تصور محض آئین کی کتاب تک محدود رہ گیا ہے ورنہ پالیمنٹ میں حاکمیت کا منبع صرف اور صرف ایک طاقتور لیکن نااہل شخص ہے اور دوم انصاف اور قانون کے خلاف اعلانِ جنگ کر کے یہ تاثر دیا کہ آپ بے شک جتنے مرضی بڑے چور ہوں، قاتل ہوں، ڈاکو ہوں، قوم کا مال لوٹنے والے ہوں، پیشہ ور مجرم یا فیملی مافیا ہوں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ لیکن اگر آپ کے پاس پارلیمنٹ میں اکثریت ہے تو آپ ناصرف قانون کو بدل کر اپنے آپ کو بچا سکتے ہیں بلکہ آج کے بعد کوئی چور چور نہیں رہے گا، کوئی قاتل قاتل نہیں رہے گا، کوئی پیشہ ور مجرم بدنام نہں ہو گا بلکہ کوئی بھی پیشہ ور مجرم پارلیمنٹ کے منتخب نمائندگان کا سرپرست بن کر اپنے آپ کو قانون و انصاف سے بالا تر کر سکتا ہے۔

آئین کی 63،62دفعات کے خاتمے کارجحان نہایت خطرناک ہے، اس کامطلب تویہ ہوگاکہ اسلام کے جس حکم پربھی ہم عمل کرنا نہ چاہیں یاہمیں اس پرعمل کرنامشکل نظرآئے توہم یہ مطالبہ کریں کہ اس کو سرے سے ختم ہی کردیاجائے۔ نہ رہے بانس نہ بجے بانسری!!
زیربحث دفعات اسلامی احکام پرمبنی ہیں اوراسلام کاکوئی حکم ایسا نہیں ہے کہ انسانوں کے لیے ان پر عمل کر ناممکن نہ ہو۔جس وقت 62،63 دفعات کو دستور کا حصہ بنایا گیا، صورتِ حال یکسر تبدیل ہو چکی تھی، سیاست دان یا غیر سیاسی لوگ سب دولت کی ہوس کا شکار تھے اور کرپشن کی داستانیں عام تھیں، اس کے سدباب کے لئے مذکورہ دفعات نافذ کی گئیں جو فی الواقع اخلاص پر مبنی تھیں، نہ کہ بدنیتی پر۔ اب کرپشن کی صورت حال پہلے سے کہیں زیادہ خراب ہے ، اس لئے یہ دفعات نہایت ضروری ہیں، تاکہ کرپٹ لوگ سیاست میں نہ آ سکیں اور اگر آ جائیں تو ان کا محاسبہ کیا جا سکے۔ اس لئے ان دفعات کی اہمیت، افادیت و ضرورت، بلکہ ناگزیریت مسلم ہے۔‘‘    


سیاسی لیڈروں کے بت اور پوجا:
عوام ناسمجھی اور جہالت کی وجہ سے نا اہل کو سپورٹ کرتے ہیں- پاکستان کے لوگوں نے سیاسی لیڈروں کے بت بنا لیئے ہیں اور ان کی پوجا اس طرح کرتے ہیں کہ وہ نعوز بااللہ خدا ہیں یا پیغمبرکہ وہ کوئی غلط کا م نہیں کرسکتے؟ (استغفر اللہ)-
یہودیوں  اور عیسائیوں نے اپنے علماء اور درویشوں کو یہ درجہ دیا تھا:
اتَّخَذُوا أَحْبَارَهُمْ وَرُهْبَانَهُمْ أَرْبَابًا مِّن دُونِ اللَّـهِ (٩:٣١ التوبہ)
انہوں نے اپنے علماء اور درویشوں کو اللہ کے سوا اپنا رب بنا لیا ہے (٩:٣١ التوبہ)
حضرت عَدِی بن حاتِم، جو پہلے عیسائی تھے، جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس حاضر ہو کر مشرف با اسلام ہوئے تو انہوں منجملہ اور سوالات کے ایک یہ سوال بھی کیا تھا کہ اس آیت میں ہم پر اپنے علماء اور درویشوں کو خد ا بنا لینے  کا جو الزام عائد کیا گیا ہے اس کی اصلیت کیا ہے۔ جواب میں حضور نے فرمایا کہ یہ واقعہ نہیں ہے کہ جو کچھ یہ لوگ حرام قرار دیتے ہیں اسے تم حرام مان لیتے ہو اور جو کچھ یہ حلال قرار دیتے ہیں اسے حلال مان لیتے ہو؟ انہوں نے عرض کیا کہ یہ تو ضرور  ہم کرتے رہے ہیں۔ فرمایا بس یہی  ان کو خد ا بنا لینا ہے[ابن کثیر،حسن ترمزی ، کتاب تفسیر القرآن باب و من سوره التوبہ( ٣.٩٥)، البانی حسن ، ترمزی صحیح]
اس سے معلوم ہوا کہ کتاب اللہ کی سند کے بغیر جو لوگ انسانی زندگی کے لیے جائز و ناجائز کی حدود مقرر کرتے ہیں وہ دراصل خدائی کے مقام پر بزعمِ خود متمکن ہوتے ہیں اور جو ان کے اس حقِ شریعت سازی کو تسلیم کرتے ہیں وہ انہیں خدابناتے ہیں۔
 اگر عوام غلام نہ بنیں اور اپنے پسندیدہ لیڈر کی غلطی پر تنقید کریں تو وہ اپنا رویہ بدلنے پر مجبور ہو گا۔ کرپٹ کا ساتھ دینا اس کے گناہ میں حصہ دار بننا ہے۔ نا اہل کو سیاست میں رکھنا  بلکل غلط ہے اسلام، آئین اور اخلاقیات میں ناجائز ہے۔
~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~
ووٹرز کو نااہل شخص کے انتخاب کا اختیار حاصل':
لاہور ہائی کورٹ کے چیف جسٹس سید منصور علی شاہ کا کہنا ہے کہ ووٹرز کو اختیار ہے کہ وہ انتخابات میں حق رائے دہی کے تحت کسی بھی نااہل اور نادہندہ شخص کو منتخب کر سکتے ہیں۔
پاکستان کا 1973؁ کا آئین اسلامی ہے لیکن اسلامی شقوں کا نفاذ کبھی نہیں کیا گیا بلکہ ان کی مسلسل خلاف ورزی کی جاتی رہی ہے۔ آرٹیکل 2؍ اے کے تحت قرارداد مقاصد کو آئین کا اہم ترین حصہ بنایا گیا ہے۔

آرٹیکل 227؍ میں یقین دہانی کرائی گئی ہے کہ تمام موجودہ قوانین کو قرآن پاک اور سنت کے منضبط اسلامی احکام کے مطابق بنایا جائے گا اور ایسا کوئی قانون وضع نہیں کیا جائے گا جو مذکورہ احکام کے منافی ہو۔

آرٹیکل 62؍ میں سینیٹ اور قومی اسمبلی کے ارکان اور صوبائی اسمبلی کے ارکان کے طور پرمنتخب ہونے کیلئے شرائط بتائی گئی ہیں۔ 62(د) میں بتایا گیا ہے کہ ایسا شخص اچھے کردار کا حامل ہو اور عام طور پر احکام اسلام سے انحراف کیلئے مشہور نہ ہو۔ (ہ) وہ اسلامی تعلقات کا خاطر خواہ علم رکھتا ہو اور اسلام کے مقرر کردہ فرائض کا پابند نیز کبیرہ گناہوں سے مجتنب ہو۔ (و) وہ سمجھدار اور پارسا ہو اور فاسق نہ ہو اور ایماندار اور امین ہو ، کسی اخلاقی پستی میں ملوث ہونے یا جھوٹی گواہی دینے کے جرم میں سزا یافتہ نہ ہو، اس نے قیام پاکستان کے بعد ملک کی سالمیت کے خلاف کام نہ کیا ہو یا نظریہ پاکستان کی مخالفت نہ کی ہو۔

اسمبلی، گورنر صاحبان، وزرائے اعلیٰ صاحبان اور صوبائی ارکان کابینہ بشمول غیر مسلم پر لازم ہے کہ وہ حلف اٹھائیں کہ وہ اسلامی نظریات کے تحفظ کیلئے کام کریں گے جو پاکستان کے قیام کی بنیاد ہے۔ اس میں یہ بھی وعدہ پیش کیا گیا ہے کہ اسلامی اتحاد کے فروغ کیلئے مسلم دنیا کے ساتھ تعلقات کو مضبوط بنایا جائے گا۔ آئین میں یہ بھی وعدہ کیا گیا ہے کہ اقلیتوں کیلئے مناسب قانون سازی کی جائے گی تاکہ وہ اپنے مذاہب پر عمل کرسکیں اور اپنی ثقافت کے مطابق زندگی بسر کرسکیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
قابل غور بات:
آئین پاکستان سیکولر ہے؟ جس میں اسلام کا نام صرف عوام اور مذہبی طبقہ کو دھوکہ دینے کے لئیے استعمال کیا گیا ہے؟  اگر بد دیانت ، خائین شخص جو پارلیمنٹ کا ممبر نہیں بن سکتا مگر سیاسی پارٹی کا صدر بن کہ پارٹی اور حکومت کو کنٹرول کر سکتا ہے۔ کیا یہ قرآن و سنت اور اسلام کے مطابق ہے ؟
(آفتاب خان)



~ ~ ~ ~ ~ ~ ~ ~ ~ ~ ~ ~ ~ ~ ~ ~ ~  ~ ~ ~  ~


~ ~ ~ ~ ~ ~ ~ ~~ ~ ~ ~ ~ ~  ~ ~ ~  ~
Humanity, Knowledge, Religion, Culture, Tolerance, Peace
انسانیت ، علم ، اسلام ،معاشرہ ، برداشت ، سلامتی 
Books, Articles, Blogs, Magazines,  Videos, Social Media
بلاگز، ویب سائٹس،سوشل میڈیا، میگزین، ویڈیوز,کتب
سلام فورم نیٹ ورک  Peace Forum Network 
Join Millions of visitors: لاکھوں وزٹرز میں شامل ہوں 
Salaamforum.blogspot.com 
سوشل میڈیا پر جوائین کریں یا اپنا نام ، موبائل نمر923004443470+ پر"وہٹس اپپ"یا SMS کریں   
Join 'Peace-Forum' at Social Media, WhatsApp/SMS Name,Cell#at +923004443470
     
  
Facebook: fb.me/AftabKhan.page