لاہور ہائی کورٹ کے چیف جسٹس سید منصور علی شاہ کا کہنا ہے کہ ووٹرز کو اختیار ہے کہ وہ انتخابات میں حق رائے دہی کے تحت کسی بھی نااہل اور نادہندہ شخص کو منتخب کر سکتے ہیں۔
خیال رہے کہ پاکستان عوامی تحریک (پی اے ٹی) اور دیگر افراد کی جانب سے لاہور ہائی کورٹ میں درخواست جمع کرائی گئی تھی جس میں استدعا کی گئی تھی کہ الیکشن ایکٹ 2017 کی شق نمبر 203 اور 232 کو ختم کیا جائے اور الیکشن کمیشن آف پاکستان (ای سی پی) کو نواز شریف کے پارٹی صدر بننے کا نوٹیفکیشن جاری کرنے سے روکا جائے۔
عدالت عالیہ کے چیف جسٹس سید منصور علی شاہ نے الیکشن ایکٹ 2017 کے خلاف دائر ان مختلف درخواستوں پر سماعت کی۔
سماعت کے دوران ایک درخواست گزار کے وکیل نے سوال اٹھایا کہ الیکشن ایکٹ 2017، سپریم کورٹ کی جانب سے پاناما پیپرز کیس میں نااہل ہونے کے باوجود نواز شریف کے لیے اپنی پارٹی کا سربراہ بننے کی راہ ہموار کر رہا ہے جس کے جواب میں جسٹس سید منصور نے کہا کہ کسی بھی جمہوری نظام میں عوامی رائے کا فیصلہ سب سے بڑا ہوتا ہے۔
جسٹس منصور علی شاہ کا مزید کہنا تھا کہ آئین پاکستان تمام شہریوں کو بااختیار بناتا ہے کہ وہ اپنی مرضی کے تحت کسی بھی شخص کو منتخب کر سکتے ہیں، چاہے وہ کسی بھی طرح کا نادہندہ ہو یا پھر نااہل درخواست گزار کے وکیل اشتیاق احمد چوہدری نے عدالت میں دلائل دیتے ہوئے کہا کہ الیکشن ایکٹ کی یہ شقیں بد نیتی پر مشتمل ہیں جو ایک نااہل شخص کو فائدہ فراہم کرتی ہیں تاہم عدالت اپنے اختیارات کا استعمال کرتے ہوئے ان ترامیم پر نظر ثانی کرے اور انہیں ختم کرائے۔
جس پر چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ آئین کا آرٹیکل 17 تمام شہریوں کو ملکی سالمیت کے مفادات میں قانون کی جانب سے لگائی گئی مناسب پابندیوں سے مشروط ایسوسی ایشنز یا یونین بنانے کا حق فراہم کرتا ہے اور آئین یا الیکشن ایکٹ میں یہ نہیں لکھا ہوا کہ ایک نادہندہ اور نااہل شخص کوئی سیاسی جماعت نہیں بنا سکتا۔
درخواست گزار کے وکیل نے عدالت کے سامنے کہا کہ انتہائی تعجب کی بات ہے کہ ایک شخص کو کرپشن کیسز میں ملک کی اعلیٰ عدالت نے نااہل قرار دے دیا لیکن وہ پھر بھی اپنی پارٹی کا سربراہ بنا ہوا ہے۔
جس پر جسٹس سید منصور علی شاہ کا کہنا تھا کہ یہ غیر اخلاقی ہو سکتا ہے تاہم اس کا فیصلہ عدالت کرے گی، لہٰذا عدالت کو قانونی بنیاد کے بجائے اخلاقی بنیادوں پر فیصلہ کرنے پر مجبور نہ کیا جائے۔
اپنے موقف پر قائم رہتے ہوئے ایڈووکیٹ اشتیاق احمد چوہدری کا کہنا تھا کہ پارلیمنٹ کے ایسے اقدامات کو عدالتوں سے ہو کر گزرنا چاہیے ورنہ کوئی بھی دہشت گرد یا پھر مجرم اپنی پارٹی قائم کرلے گا جس پر چیف جسٹس نے وکیل کو تجویز پیش کرتے ہوئے کہا کہ اس معاملے کو پارلیمنٹ میں لے جائیں جبکہ اخلاقی اقدار کے نام پر اس معاملے میں عدالتوں کو نہ گھسیٹیں۔
ڈپٹی اٹارنی جنرل نصر مرزا وفاقی حکومت کی نمائندگی کر رہے تھے، جنہوں نے عدالت سے استدعا کی کہ اسی طرح کی ایک پٹیشن سپریم کورٹ میں بھی زیرِ سماعت ہے لہٰذا اسے خارج کیا جائے۔
تاہم چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ نے وکلاء کو دیگر ممالک کے الیکشن قوانین کا مطالعہ کرنے کا حکم دیتے ہوئے سماعت کو 14 نومبر تک ملتوی کردیا۔
https://www.dawnnews.tv/news/1066722/
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
پاکستان کا 1973 کا آئین اسلامی ہے لیکن صرف دکھاوے کی حد تک؛ کیونکہ اس کی اہم ترین اسلامی شقوں کی خلاف ورزی کی جاتی ہے یا پھر ان پر محدود حد تک عمل درآمد کیا جا رہا ہے۔
اسلامی شقوں کا نفاذ کبھی نہیں کیا گیا بلکہ ان کی مسلسل خلاف ورزی کی جاتی رہی ہے۔
آئین کے آرٹیکل ایک کے مطابق ملک کا نام ’’اسلامی جمہوریہ پاکستان‘‘ ہے۔ آرٹیکل 2؍ کے مطابق اسلام پاکستان کا مملکتی مذہب ہوگا۔
آرٹیکل 2؍ اے کے تحت قرارداد مقاصد کو آئین کا اہم ترین حصہ بنایا گیا ہے۔ یہی قرارداد مقاصد آئین کے ابتدائیہ میں شامل ہے۔ اس میں کہا گیا ہے کہ چونکہ اللہ تبارک و تعالیٰ ہی پوری کائنات کا بلا شرکت غیرے حاکم مطلق ہے اور یہ بھی عزم ظاہر کیا گیا ہے کہ مسلمانوں کو انفرادی اور اجتماعی حلقہ ہائے عمل میں اس قابل بنایا جائے گا کہ وہ اپنی زندگی کو اسلامی تعلیمات کے مطابق، جس طرح قرآن اور سنت میں ان کا تعین کیا گیا ہے، ترتیب دے سکیں-
آئین کے آرٹیکل 31؍ کا تعلق ’’اسلامی طریق زندگی کے متعلق ہے۔ اس میں اسلامی طرز زندگی کے متعلق بتایا گیا ہے:
(ا) پاکستان کے مسلمانوں کو، انفرادی اور اجتماعی طور پر، اپنی زندگی اسلام کے بنیادی اصولوں اور اساسی تصورات کے مطابق مرتب کرنے کے قابل بنانے کیلئے اور انہیں ایسی سہولتیں مہیا کرنے کیلئے اقدامات کیے جائیں گے جن کی مدد سے وہ قرآن پاک اور سنت کے مطابق زندگی کا مفہوم سمجھ سکیں۔
۲) پاکستان کے مسلمانوں کے بارے میں مملکت مندرجہ ذیل کیلئے کوشش کرے گی:
(الف) قرآن پاک اور اسلامیات کی تعلیم کو لازمی قرار دینا، عربی زبان سیکھنے کی حوصلہ افزائی کرنا اور اس کیلئے سہولت بہم پہنچانا اور قرآن پاک کی صحیح اور من و عن طباعت اور اشاعت کا اہمتام کرنا؛
(ب) اتحاد اور اسلامی اخلاقی معیاروں کی پابندی کو فروغ دینا اور
(ج) زکواۃ [عشر] اوقاف اور مساجد کی باقاعدہ تنظیم کا اہتمام کرنا۔ آرٹیکل 37
(ز) میں وعدہ کیا گیا ہے کہ سماجی سطح پر انصاف فراہم کیا جائے گا اور معاشرے سے برائیاں ختم کی جائیں گی اور عصمت فروشی، قمار بازی، ضرر رساں ادویات کے استعمال، فحش ادب اور اشتہارات کی طباعت، نشر و اشاعت کی روک تھام کی جائے گی۔
آرٹیکل 37 (ح) میں کہا گیا ہے کہ نشہ آور مشروبات کے استعمال کی، سوائے اس کے کہ وہ طبی اغراض کیلئے یا غیر مسلموں کی صورت میں مذہبی اغراض کیلئے ہو، روک تھام کرے گی۔
آرٹیکل 38 (و) میں لکھا ہے کہ ربائ کو جتنی جلد ممکن ہو ریاست اسے ختم کرے گی۔
آرٹیکل 42 (ب) میں کہا گیا ہے کہ ملک کا صدر مملکت مسلمان ہوگا۔
آرٹیکل 62؍ میں سینیٹ اور قومی اسمبلی کے ارکان اور صوبائی اسمبلی کے ارکان کے طور پرمنتخب ہونے کیلئے شرائط بتائی گئی ہیں۔ 62(د) میں بتایا گیا ہے کہ ایسا شخص اچھے کردار کا حامل ہو اور عام طور پر احکام اسلام سے انحراف کیلئے مشہور نہ ہو۔ (ہ) وہ اسلامی تعلقات کا خاطر خواہ علم رکھتا ہو اور اسلام کے مقرر کردہ فرائض کا پابند نیز کبیرہ گناہوں سے مجتنب ہو۔ (و) وہ سمجھدار اور پارسا ہو اور فاسق نہ ہو اور ایماندار اور امین ہو ، کسی اخلاقی پستی میں ملوث ہونے یا جھوٹی گواہی دینے کے جرم میں سزا یافتہ نہ ہو، اس نے قیام پاکستان کے بعد ملک کی سالمیت کے خلاف کام نہ کیا ہو یا نظریہ پاکستان کی مخالفت نہ کی ہو۔
آرٹیکل 91 (۳) میں لکھا ہے کہ وزیراعظم کو قومی اسمبلی کا مسلم رکن ہونا چاہئے۔ آرٹیکل 203 (۳) میں وفاقی شریعت کورٹ کے قیام کی بات کی گئی ہے۔
آرٹیکل 227؍ میں یقین دہانی کرائی گئی ہے کہ تمام موجودہ قوانین کو قرآن پاک اور سنت کے منضبط اسلامی احکام کے مطابق بنایا جائے گا اور ایسا کوئی قانون وضع نہیں کیا جائے گا جو مذکورہ احکام کے منافی ہو۔
آرٹیکل 228؍ میں اسلامی نظریاتی کونسل کے قیام کی بات کی گئی ہے جس کا کام موجودہ قوانین میں تبدیلی لا کر انہیں اسلامی بنانا ہوگا اور پارلیمنٹ اور صوبائی اسمبلیوں سے ایسے ذرائع اور وسائل کی سفارش کرنا وہگا جن سے پاکستان کے مسلمانوں کو اپنی زندگیاں انفرادی اور اجتماعی طور پر ہر لحاظ سے اسلام کے ان اصولوں اور تصوارت کے مطابق ڈھالنے کی ترغیب ملے جن کا قرآن پاک اور سنت میں تعین کیا گیا ہے۔
آرٹیکل 260 (۳) اے میں بتایا گیا ہے کہ ’’مسلم‘‘ سے مراد کوئی ایسا شخص جو وحدت اور توحید قادر مطلق اللہ تبارک و تعالیٰ، خاتم النبین حضرت محمد ﷺ کی ختم نبوت پر مکمل اور غیر مشروط طور پر ایمان رکھتا ہو اور پیغمبر یا مذہبی مصلح کے طور پر کسی ایسے شخص پر نہ ایمان رکھتا ہو نہ اسے مانتا ہو جس نے حضرت محمد ﷺ کے بعد اس لفظ کے کسی بھی مفہوم یا کسی بھی تشریح کے لحاظ سے پیغمبر ہونے کا دعویٰ کیا ہو یا جو دعویٰ کرے۔
260 (ب) میں قادیانی اور لاہور گروپ یا پھر کوئی بھی ایسا گروپ جو خود کو احمدی کہلواتا ہے، اسے غیر مسلم قرار دیا گیا ہے۔ جدول نمبر سوم میں صدر مملکت اور وزیراعظم کے عہدوں کا حلف پیش کیا گیا ہے جس کے تحت وہ وعدہ کرتے ہیں کہ وہ مسلمان ہیں اور وحد و توحید قادر مطلق اللہ تبارک و تعالیٰ، کتب الٰہیہ، جن میں قرآن پاک خاتم الکتب ہے، نبوت حضرت محمد ﷺ بحیثیت خاتم النبین، جن کے بعد کوئی نبی نہیں ہوسکتا، روز قیامت اور قرآن پاک و سنت کی جملہ تعلیمات پر ایمان رکھتے ہیں۔ وفاقی وزراء، وزرائے مملکت، ارکان پارلیمنٹ، چیئرمین اور ڈپٹی چیئرمین سینیٹ، اسپیکر و ڈپٹی اسپیکر قومی اسمبلی، گورنر صاحبان، وزرائے اعلیٰ صاحبان اور صوبائی ارکان کابینہ بشمول غیر مسلم پر لازم ہے کہ وہ حلف اٹھائیں کہ وہ اسلامی نظریات کے تحفظ کیلئے کام کریں گے جو پاکستان کے قیام کی بنیاد ہے۔ اس میں یہ بھی وعدہ پیش کیا گیا ہے کہ اسلامی اتحاد کے فروغ کیلئے مسلم دنیا کے ساتھ تعلقات کو مضبوط بنایا جائے گا۔ آئین میں یہ بھی وعدہ کیا گیا ہے کہ اقلیتوں کیلئے مناسب قانون سازی کی جائے گی تاکہ وہ اپنے مذاہب پر عمل کرسکیں اور اپنی ثقافت کے مطابق زندگی بسر کرسکیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
قابل غور بات:
آئین پاکستان سیکولر ہے؟ جس میں اسلام کا نام صرف عوام اور مذہبی طبقہ کو دھوکہ دینے کے لئیے استعمال کیا گیا ہے؟ اگر بد دیانت ، خائین شخص جو پارلیمنٹ کا ممبر نہیں بن سکتا مگر سیاسی پارٹی کا صدر بن کہ پارٹی اور حکومت کو کنٹرول کر سکتا ہے۔ کیا یہ قرآن و سنت اور اسلام کے مطابق ہے ؟
(آفتاب خان)
~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~
SalaamOne, سلام is a nonprofit e-Forum to promote peace among humanity, through understanding and tolerance of religions, cultures & other human values. The collection is available in the form of e-Books. articles, magazines, videos, posts at social media, blogs & video channels. .Explore the site English and Urdu sections at Indexعلم اور افہام و تفہیم کے لئے ایک غیر منافع بخش ای فورم ہے. علم،انسانیت، مذہب، سائنس، سماج، ثقافت، اخلاقیات اورروحانیت امن کے لئے.اس فورم کو آفتاب خان، آزاد محقق اور مصنف نے منظم کیا ہے. تحقیقی کام بلاگز، ویب سائٹ، سوشل میڈیا، میگزین، ویڈیو چننل اور برقی کتابوں کی صورت میں دستیاب ہے.اس نیٹ ورک کو اب تک لاکھوں افراد وزٹ کر چکے ہیں, مزید تفصیلات>>> Page Index - Salaam One
..........................................................................
مزید پڑھیں:
-
مسلما نوں اور علماء کے نام کھلا خط : آج کے حالات میں مسلم معاشرہ نظریاتی ابتری اور انحطاط کا شکار ہے. مادہ پرستی، دہشت گردی، عدم برداشت، اور جہالت انسانیت، امن اور مذھب کے لیے خطرہ بن چکے ہیں- ان حالات میں صاحب علم و ذی فہم حضرات سے ممکنہ حل کی توقع کی جا سکتی ہے. ہمارا مقصد ہے کہ آپ کی توجہ ضروری حل پذیر مسائل کی طرف مبذول کرنا ہے تاکہ جلد حل تلاش کیا جا سکے- آپ کی توجہ اور مدد سے ہم کوشش کر سکتے ہیں کہ معاشرہ کو اس گہری دلدل سے نکال سکیں. مکمل خط اس <<< لنک پر پڑھیں>>
-
نظریاتی اور فکری کنفیوژن اور ممکنہ حل
- خطبات اقبال - اسلام میں تفکر کا انداز جدید Reconstruction of Religious Thought in Islam- http://goo.gl/lqxYuw
~ ~ ~ ~ ~ ~ ~ ~ ~ ~ ~ ~ ~ ~ ~ ~ ~ ~ ~ ~ ~
* * * * * * * * * * * * * * * * * * *