سپریم کورٹ نے 28 جولائی 2017 ء کو پاکستان کے وزیر اعظم میاں محمد نواز شریف کواس فیصلہ کی بنا پر اپنے عہدے سے معزول کردیا کہ وہ آئین پاکستان کی دفعہ 62 کے مطابق صادق اور امین نہیں رہے:
’’نواز شریف نے متحدہ عرب امارات میں قائم کمپنی ایف زیڈ ای میں اپنے اثاثوں کو 2013ء میں اپنے کاغذاتِ نامزدگی میں ظاہر نہ کر کے قانون کی خلاف ورزی کی ہے اور وہ اب پیپلز ایکٹ 1976 ءکی سیکشن 99 کی روشنی میں ایماندار نہیں رہے لہٰذا وہ پیپلز ایکٹ 1976 کی سیکشن 99 اور آرٹیکل 62 (اے) کی روشی میں پارلیمنٹ کے ممبر کے طور نااہل ہیں۔ الیکشن کمیشن نواز شریف کی نااہلی کا فوری نوٹیفکیشن جاری کرے۔‘‘
سپریم کورٹ کے فیصلے کے اہم نقاط:
سپریم کورٹ کے پانچ رکنی بینچ نے اپنے متفقہ فیصلے میں نواز شریف کو نااہل اور ان کے خاندان کے ارکان کے خلاف مقدمے درج کے احکامات جاری کیے۔ سپریم کورٹ کے فیصلے کے چیدہ چیدہ نکات۔
1.قومی احتساب بیورو سپریم کورٹ کے فیصلے کی تاریخ 28 جولائی 2017 سے چھ ہفتے کے اندر جے آئی ٹی، فیڈرل انویسٹی گشن اور نیب کے پاس پہلے سے موجود مواد کی بنیاد پر نواز شریف، مریم نواز، حسین نواز، حسن نواز، کیپٹن ریٹائرڈ صفدر کے خلاف ریفرنس دائر کرے۔
2.نیب نواز شریف اور اس کے خاندان کے خلاف عدالتی کارروائی میں شیخ سعید، موسیٰ غنی، جاوید کیانی اور سعید احمد کو بھی شامل کرے۔ نیب ان افراد کے خلاف سپلیمنٹری ریفرنس بھی دائر کر سکتا ہے اگر ان کی دولت ان کے ذرائع آمدن سے مطابقت نہیں رکھتی۔
3.احتساب عدالت نیب کے جانب سے ریفرنس فائل کیے جانے کی تاریخ کے چھ ماہ کے اندر ان ریفرنسز کا فیصلہ کرے۔
4.اگر مدعا علیہان کی جانب سے عدالت میں دائر کی گئی دستاویزات جھوٹی، جعلی اور من گھڑت ثابت ہوں تو ان کے خلاف قانون کے مطابق کارروائی کی جائے۔
5.نواز شریف نے متحدہ عرب امارات میں قائم کمپنی ایف زیڈ ای میں اپنے اثاثوں کو 2013 میں اپنے کاعذات نامزدگی میں ظاہر نہ کر کے قانون کی خلاف ورزی کی ہے اور وہ اب پیپلز ایکٹ 1976 کی سیکشن 99 کی روشنی میں ایماندار نہیں رہے لہذا وہ پیلز ایکٹ 1976 کی سیکشن 99 اور آرٹیکل 62 (اے) کی روشی میں پارلیمنٹ کے ممبر کے طور نااہل ہیں۔
6.الیکشن کمیشن نواز شریف کی نااہلی کا فوری نوٹیفکیشن جاری کرے۔
7.صدر مملکت ملک میں جمہوری نظام کے تسلسل کو یقینی بنائیں۔
8.چیف جسٹس سے درخواست کی جاتی ہے کہ وہ سپریم کے ایک جج کو اس عدالتی فیصلے پر عمل درآمد کی نگرانی کے لیے تعینات کیا جائے۔
قراردادِ مقاصد کے تحت پاکستان کے آئین میں حاکمیتِ اعلیٰ صرف اور صرف اللہ کی ہے اور پاکستان میں کوئی بھی ایسا قانون اور ترمیم پاس نہیں ہو سکتی جو قران اور سنت کے منافی ہو۔ اس لحاظ سے ترمیمی بل نہ صرف آئینِ پاکستان سے غداری کے زمرے میں آتا ہے بلکہ کتاب و سنت کے خلاف بھی کھلی جنگ ہے۔
قران و سنت صادق اور امین کا تصور دیتے ہیں۔ پیارے نبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی حیاتِ طیبہ صادق اور امین کی مجسم صورت تھی۔ آپ نے جب ان خوبیوں کو ہی آئینِ پاکستان سے نکال دیا تو اس کا صاف مطلب ہوا کہ کوئی بھی جھوٹا، کذاب اور خائن پاکستان کی سیاسی جماعت کو ہیڈ کر سکتا ہے یعنی صفاتِ محمدیہ (صادق اور امین) کے خلاف کھلی جنگ چھیڑ دی۔
قومی دولت لوٹنے والے، ٹیکس نادہندہ، بجلی چور، قاتل، قرض نادہندہ، جعلی ڈگری ہولڈر، کرپٹ اور رشوت خور ، بددیانت اور فاسق افراد آئین توڑتے ہوئے پارلیمنٹ میں پہنچ جاتے ہیں۔ عدلیہ اور الیکشن کمشن خاموش تماشائی بنے رہتے ہیں۔ عدلیہ کا آئینی فرض ہے کہ وہ اس امر کو یقینی بنائے کہ اراکین اسمبلی آئین کے آرٹیکل 62 اور نمبر 63 پر پورے اُترتے ہوں۔ افسوس کہ درجنوں انتخابات ہوئے جھوٹے اور بددیانت افراد منتخب ہوتے رہے مگر عدلیہ نے صادق اور امین کی تشریح ہی نہ کی۔
فاسق اور بددیانت سیاستدانوں نے پاکستان کو انحطاط پذیر کردیا ہے اور اب پاکستانی قوم ان سیاستدانوں کے خلاف اُٹھ کھڑی ہوئی ہے۔خرابیٔ بسیار کے بعد سپریم کورٹ نے آئین کے آرٹیکل 62 اور 63 کی تشریح کرنے کا فیصلہ کیا ہے کہ جھوٹا شخص عوام کی نمائندگی نہیں کرسکتا-
دستورِ پاکستان کے آرٹیکل 62 (1) کا مستند متن یہ ہے :
’’کوئی [مسلم] شخص مجلس شوری( پارلیمنٹ) کا رکن منتخب ہونے یا چنے جانے کا اہل نہیں ہوگا، اگر
(د) وہ اچھے کردار کا حامل نہ ہو اور عام طور پر احکام اسلام سے انحراف میں مشہور ہو۔
(ھ) وہ اسلامی تعلیمات کا خاطر خواہ علم Adequate knowledge of Islamic teachings نہ رکھتا ہو اوراسلام کے مقرر کردہ فرائض کا پابند ، نیز کبیرہ گناہوں سے مجتنب نہ ہو۔
(و)وہ سمجھ دار، پارسا نہ ہو اور فاسق ہو۔ اور ایمانداورامین Honest and Ameen نہ ہو۔ عدالت نے اس کے برعکس قرار نہ دیا ہو۔‘‘ [ اٹھارویں ترمیم 2010ء، نمبر 10 کی دفعہ 20 کی رو سے آرٹیکل 62 کو اس متن سے تبدیل کردیا گیا۔]
سپریم کورٹ نے اپنے حالیہ فیصلے میں آرٹیکل 62 کا اطلاق کرتے ہوئے لکھا کہ:
’’ کاغذات نامزدگی اپنے اثاثوں کا ذکر نہ کرنا غلط بیانی ہے اور عوامی نمائندگی کے قانون کی خلاف ورزی ہے اور اس لیے وہ [وزیر اعظم]’صادق نہیں‘ ۔
جب سپریم کورٹ آئین کے آرٹیکل 62 اور 63 کی تشریح کردے گی تو ریٹرننگ افسر کا عدلیہ کی تشریح کی روشنی میں کاغذات نامزدگی کی جانچ پڑتال کا کام آسان ہوجائے گا۔ عدلیہ کا فیصلہ چھلنی کا کام دے گا جس میں اسمبلی کے اُمیدواروں کو چھانا جائے گا اور اس طرح نیک نام دیانتدار افراد پارلیمنٹ میں پہنچ سکیں گے اور جمہوریت کا چہرہ خوبصورت ہوجائے گا۔ عوام کا اعتماد جمہوری نظام پر بحال ہوگا۔ سچ بولنے والے دیانتدار افراد ہی حقیقی جمہوریت قائم کرسکتے ہیں۔ عدلیہ کو صادق اور امین کے ساتھ ساتھ آرٹیکل 62 کی شق ڈی اور ای کی تشریح بھی کرنی پڑے گی جس میں درج ہے ’’وہ شخص بھی نا اہل ہوگا جو اچھے کردار کا حامل نہ ہو۔ عام طور پر احکام اسلام سے انحراف میں مشہور ہو۔ وہ اسلامی تعلیمات کا خاطرخواہ علم نہ رکھتا ہو اور اسلام کے مقررکردہ فرائض کا پابند نیز کبیرہ گناہوں سے مجتنب نہ ہو‘‘۔
نواز شریف نے اپنی پارلیمنٹ میں عددی برتری اور چالاکی و مہارت اور حزب اختلاف کی ناہلی یا خاموش حمایت سے قانون پاس کروا لیا کہ اب نااہل شخص سیاسی پا رٹی کا صدر بن سکتا ہے- اب وہ ایک نااہل شخص جو خود پارلیمنٹ کا ممبر نہیں بن سکتا مگر وہ پارلیمنٹ میں اپنی پارٹی ممبران پر مکمل اختیار رکھتا ہے- یہ قانون ،اسلامی اقدار اور اخلاقیات کا مذاق ہے-
نواز شریف نے اپنی پارلیمنٹ میں عددی برتری اور چالاکی و مہارت اور حزب اختلاف کی ناہلی یا خاموش حمایت سے قانون پاس کروا لیا کہ اب نااہل شخص سیاسی پا رٹی کا صدر بن سکتا ہے- اب وہ ایک نااہل شخص جو خود پارلیمنٹ کا ممبر نہیں بن سکتا مگر وہ پارلیمنٹ میں اپنی پارٹی ممبران پر مکمل اختیار رکھتا ہے- یہ قانون ،اسلامی اقدار اور اخلاقیات کا مذاق ہے-
نوازشریف نے نون لیگ کا صدر بننے کے لیے جو ترمیم پاس کی اس سے دو پیغام واضح ہو گئے کہ اول تو پاکستان میں اللہ کی حاکمیت کا تصور محض آئین کی کتاب تک محدود رہ گیا ہے ورنہ پالیمنٹ میں حاکمیت کا منبع صرف اور صرف ایک طاقتور لیکن نااہل شخص ہے اور دوم انصاف اور قانون کے خلاف اعلانِ جنگ کر کے یہ تاثر دیا کہ آپ بے شک جتنے مرضی بڑے چور ہوں، قاتل ہوں، ڈاکو ہوں، قوم کا مال لوٹنے والے ہوں، پیشہ ور مجرم یا فیملی مافیا ہوں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ لیکن اگر آپ کے پاس پارلیمنٹ میں اکثریت ہے تو آپ ناصرف قانون کو بدل کر اپنے آپ کو بچا سکتے ہیں بلکہ آج کے بعد کوئی چور چور نہیں رہے گا، کوئی قاتل قاتل نہیں رہے گا، کوئی پیشہ ور مجرم بدنام نہں ہو گا بلکہ کوئی بھی پیشہ ور مجرم پارلیمنٹ کے منتخب نمائندگان کا سرپرست بن کر اپنے آپ کو قانون و انصاف سے بالا تر کر سکتا ہے۔
آئین کی 63،62دفعات کے خاتمے کارجحان نہایت خطرناک ہے، اس کامطلب تویہ ہوگاکہ اسلام کے جس حکم پربھی ہم عمل کرنا نہ چاہیں یاہمیں اس پرعمل کرنامشکل نظرآئے توہم یہ مطالبہ کریں کہ اس کو سرے سے ختم ہی کردیاجائے۔ نہ رہے بانس نہ بجے بانسری!!
زیربحث دفعات اسلامی احکام پرمبنی ہیں اوراسلام کاکوئی حکم ایسا نہیں ہے کہ انسانوں کے لیے ان پر عمل کر ناممکن نہ ہو۔جس وقت 62،63 دفعات کو دستور کا حصہ بنایا گیا، صورتِ حال یکسر تبدیل ہو چکی تھی، سیاست دان یا غیر سیاسی لوگ سب دولت کی ہوس کا شکار تھے اور کرپشن کی داستانیں عام تھیں، اس کے سدباب کے لئے مذکورہ دفعات نافذ کی گئیں جو فی الواقع اخلاص پر مبنی تھیں، نہ کہ بدنیتی پر۔ اب کرپشن کی صورت حال پہلے سے کہیں زیادہ خراب ہے ، اس لئے یہ دفعات نہایت ضروری ہیں، تاکہ کرپٹ لوگ سیاست میں نہ آ سکیں اور اگر آ جائیں تو ان کا محاسبہ کیا جا سکے۔ اس لئے ان دفعات کی اہمیت، افادیت و ضرورت، بلکہ ناگزیریت مسلم ہے۔‘‘
سیاسی لیڈروں کے بت اور پوجا:
عوام ناسمجھی اور جہالت کی وجہ سے نا اہل کو سپورٹ کرتے ہیں- پاکستان کے لوگوں نے سیاسی لیڈروں کے بت بنا لیئے ہیں اور ان کی پوجا اس طرح کرتے ہیں کہ وہ نعوز بااللہ خدا ہیں یا پیغمبرکہ وہ کوئی غلط کا م نہیں کرسکتے؟ (استغفر اللہ)-
یہودیوں اور عیسائیوں نے اپنے علماء اور درویشوں کو یہ درجہ دیا تھا:
اتَّخَذُوا أَحْبَارَهُمْ وَرُهْبَانَهُمْ أَرْبَابًا مِّن دُونِ اللَّـهِ (٩:٣١ التوبہ)
انہوں نے اپنے علماء اور درویشوں کو اللہ کے سوا اپنا رب بنا لیا ہے (٩:٣١ التوبہ)
حضرت عَدِی بن حاتِم، جو پہلے عیسائی تھے، جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس حاضر ہو کر مشرف با اسلام ہوئے تو انہوں منجملہ اور سوالات کے ایک یہ سوال بھی کیا تھا کہ اس آیت میں ہم پر اپنے علماء اور درویشوں کو خد ا بنا لینے کا جو الزام عائد کیا گیا ہے اس کی اصلیت کیا ہے۔ جواب میں حضور نے فرمایا کہ یہ واقعہ نہیں ہے کہ جو کچھ یہ لوگ حرام قرار دیتے ہیں اسے تم حرام مان لیتے ہو اور جو کچھ یہ حلال قرار دیتے ہیں اسے حلال مان لیتے ہو؟ انہوں نے عرض کیا کہ یہ تو ضرور ہم کرتے رہے ہیں۔ فرمایا بس یہی ان کو خد ا بنا لینا ہے[ابن کثیر،حسن ترمزی ، کتاب تفسیر القرآن باب و من سوره التوبہ( ٣.٩٥)، البانی حسن ، ترمزی صحیح]
اس سے معلوم ہوا کہ کتاب اللہ کی سند کے بغیر جو لوگ انسانی زندگی کے لیے جائز و ناجائز کی حدود مقرر کرتے ہیں وہ دراصل خدائی کے مقام پر بزعمِ خود متمکن ہوتے ہیں اور جو ان کے اس حقِ شریعت سازی کو تسلیم کرتے ہیں وہ انہیں خدابناتے ہیں۔
اگر عوام غلام نہ بنیں اور اپنے پسندیدہ لیڈر کی غلطی پر تنقید کریں تو وہ اپنا رویہ بدلنے پر مجبور ہو گا۔ کرپٹ کا ساتھ دینا اس کے گناہ میں حصہ دار بننا ہے۔ نا اہل کو سیاست میں رکھنا بلکل غلط ہے اسلام، آئین اور اخلاقیات میں ناجائز ہے۔
~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~
ووٹرز کو نااہل شخص کے انتخاب کا اختیار حاصل':
لاہور ہائی کورٹ کے چیف جسٹس سید منصور علی شاہ کا کہنا ہے کہ ووٹرز کو اختیار ہے کہ وہ انتخابات میں حق رائے دہی کے تحت کسی بھی نااہل اور نادہندہ شخص کو منتخب کر سکتے ہیں۔
لاہور ہائی کورٹ کے چیف جسٹس سید منصور علی شاہ کا کہنا ہے کہ ووٹرز کو اختیار ہے کہ وہ انتخابات میں حق رائے دہی کے تحت کسی بھی نااہل اور نادہندہ شخص کو منتخب کر سکتے ہیں۔
پاکستان کا 1973 کا آئین اسلامی ہے لیکن اسلامی شقوں کا نفاذ کبھی نہیں کیا گیا بلکہ ان کی مسلسل خلاف ورزی کی جاتی رہی ہے۔ آرٹیکل 2؍ اے کے تحت قرارداد مقاصد کو آئین کا اہم ترین حصہ بنایا گیا ہے۔
آرٹیکل 227؍ میں یقین دہانی کرائی گئی ہے کہ تمام موجودہ قوانین کو قرآن پاک اور سنت کے منضبط اسلامی احکام کے مطابق بنایا جائے گا اور ایسا کوئی قانون وضع نہیں کیا جائے گا جو مذکورہ احکام کے منافی ہو۔
آرٹیکل 62؍ میں سینیٹ اور قومی اسمبلی کے ارکان اور صوبائی اسمبلی کے ارکان کے طور پرمنتخب ہونے کیلئے شرائط بتائی گئی ہیں۔ 62(د) میں بتایا گیا ہے کہ ایسا شخص اچھے کردار کا حامل ہو اور عام طور پر احکام اسلام سے انحراف کیلئے مشہور نہ ہو۔ (ہ) وہ اسلامی تعلقات کا خاطر خواہ علم رکھتا ہو اور اسلام کے مقرر کردہ فرائض کا پابند نیز کبیرہ گناہوں سے مجتنب ہو۔ (و) وہ سمجھدار اور پارسا ہو اور فاسق نہ ہو اور ایماندار اور امین ہو ، کسی اخلاقی پستی میں ملوث ہونے یا جھوٹی گواہی دینے کے جرم میں سزا یافتہ نہ ہو، اس نے قیام پاکستان کے بعد ملک کی سالمیت کے خلاف کام نہ کیا ہو یا نظریہ پاکستان کی مخالفت نہ کی ہو۔
اسمبلی، گورنر صاحبان، وزرائے اعلیٰ صاحبان اور صوبائی ارکان کابینہ بشمول غیر مسلم پر لازم ہے کہ وہ حلف اٹھائیں کہ وہ اسلامی نظریات کے تحفظ کیلئے کام کریں گے جو پاکستان کے قیام کی بنیاد ہے۔ اس میں یہ بھی وعدہ پیش کیا گیا ہے کہ اسلامی اتحاد کے فروغ کیلئے مسلم دنیا کے ساتھ تعلقات کو مضبوط بنایا جائے گا۔ آئین میں یہ بھی وعدہ کیا گیا ہے کہ اقلیتوں کیلئے مناسب قانون سازی کی جائے گی تاکہ وہ اپنے مذاہب پر عمل کرسکیں اور اپنی ثقافت کے مطابق زندگی بسر کرسکیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
قابل غور بات:
آئین پاکستان سیکولر ہے؟ جس میں اسلام کا نام صرف عوام اور مذہبی طبقہ کو دھوکہ دینے کے لئیے استعمال کیا گیا ہے؟ اگر بد دیانت ، خائین شخص جو پارلیمنٹ کا ممبر نہیں بن سکتا مگر سیاسی پارٹی کا صدر بن کہ پارٹی اور حکومت کو کنٹرول کر سکتا ہے۔ کیا یہ قرآن و سنت اور اسلام کے مطابق ہے ؟
(آفتاب خان)
آئین پاکستان سیکولر ہے؟ جس میں اسلام کا نام صرف عوام اور مذہبی طبقہ کو دھوکہ دینے کے لئیے استعمال کیا گیا ہے؟ اگر بد دیانت ، خائین شخص جو پارلیمنٹ کا ممبر نہیں بن سکتا مگر سیاسی پارٹی کا صدر بن کہ پارٹی اور حکومت کو کنٹرول کر سکتا ہے۔ کیا یہ قرآن و سنت اور اسلام کے مطابق ہے ؟
(آفتاب خان)
www.Facebook.com/AftabKhan.page
http://pakistan-posts.blogspot.com/2017/10/islamic-or-secular-constitution-of.html
~ ~ ~ ~ ~ ~ ~ ~ ~ ~ ~ ~ ~ ~ ~ ~ ~ ~ ~ ~ ~
~ ~ ~ ~ ~ ~ ~ ~~ ~ ~ ~ ~ ~ ~ ~ ~ ~
Humanity, Knowledge, Religion, Culture, Tolerance, Peace
انسانیت ، علم ، اسلام ،معاشرہ ، برداشت ، سلامتی
سلام فورم نیٹ ورک Peace Forum Network
Books, Articles, Blogs, Magazines, Videos, Social Media
بلاگز، ویب سائٹس،سوشل میڈیا، میگزین، ویڈیوز,کتبJoin Millions of visitors: لاکھوں وزٹرز میں شامل ہوں
Salaamforum.blogspot.com
Twitter: @AftabKhanNet
Facebook: fb.me/AftabKhan.page
سوشل میڈیا پر جوائین کریں یا اپنا نام ، موبائل نمر923004443470+ پر"وہٹس اپپ"یا SMS کریں
Join 'Peace-Forum' at Social Media, WhatsApp/SMS Name,Cell#at +923004443470Twitter: @AftabKhanNet