دہشت گردی، شدت پسندی۔۔ علاج
انصاف کی عدم فراہمی اور امنِ عامہ کی خرابی نے اس ملک میں شدت پسندی اور دہشت گردی کو سات دہائیوں تک بنیادیں فراہم کیں۔ لوگوں کا اعتماد حکومت سے اٹھا تو ریاست پر بھی ان کا ایمان متزلزل ہو گیا۔ یوں تو اس خطے میں لوگوں نے خواب دیکھے تھے کہ یہاں ایک اسلامی فلاحی مملکت وجود میں آئے گی جہاں امن، انصاف اور خوشحالی ہو گی۔ خواب دیکھنے والوں کو اسلامی تو دور کی بات ہے ایسی ریاست بھی نہ مل سکی جو ان کی جان کی ضمانت دے سکے اور ان کے درمیان انصاف کر سکے۔ اس کا براہِ راست نتیجہ یہ نکلا کہ عام آدمی کی اکثریت مایوس بلکہ متنفر ہو گئی۔ ریاست میں لوگوں کو ضروریات زندگی تو خریدنا ہی ہوتی ہیں، لیکن اگر انہیں انصاف اور امن بھی خریدنا پڑ جائے تو ریاست محبت کا مرکز نہیں رہتی۔ ان حالات میں اکثریت ناراض، لاتعلق اور بے بس ہوتی ہے۔ مایوسی کے اس عالم میں ہر گلی، محلے، شہر اور علاقے میں ایسے لوگ ضرور پیدا ہو جاتے ہیں جو غم و غصے سے ابل رہے ہوتے ہیں‘ جو بسا اوقات انہیں شدت پسندی کی جانب دھکیل دیتا ہے۔ غصے سے کھولتے ہوئے لوگ جس طرح کا بھی نقطۂ نظر رکھیں، انہیں دہشت گردی کی طرف مائل کرنے والے رہنما مل جاتے ہیں۔ یہ کسی قوم پرست گروہ کا ساتھ دیں یا کسی مذہبی رہنما کی شعلہ بیانی کے گرویدہ ہو جائیں، ہر صورت میں مخالفین کا خون بہانے پر اتر آتے ہیں۔ شدت اور نفرت کا لاوا انہیں ایسے گروہوں کا آلہ کار بنا دیتا ہے۔ ان گروہوں میں گھسنے کے بعد نکلنا مشکل ہوتا ہے، تہہ در تہہ جرم، حکومت کی طاقت کا خوف، گناہ گار اور بے گناہ کے درمیان تمیز کا فقدان، حکومت کے انصاف سے عاری رویے ان میں مزید ناراضگی، غصہ اور شدت پیدا کر دیتے ہیں اور یوں ایک ایسا چکر چلنے لگتا ہے جس کو توڑنا ناممکن ہو جاتا ہے۔ ریاست انصاف اور امن فراہم نہ کرے تو وہ کمزور ہو جاتی ہے، جب ریاست کمزور ہو تو وہ جھنجھلاہٹ میں انتقام پر اُتر آتی ہے اور اسے حکومت کی رٹ سمجھتی ہے۔
یہ سب کچھ گزشتہ ساٹھ برسوں سے چل رہا تھا لیکن جلتی پر تیل کا کام اس فحش اخلاقیات نے کیا جو پرویز مشرف کے دور سے اس ملک پر زبردستی نافذ کرنے کی کوشش کی گئی۔ گوادر سے گلگت تک اس ملک کی اکثریت بلکہ واضح اکثریت اپنے گھروں میں صدیوں سے شرم و حیا اور غیرت و شرافت کے ماحول میں زندگی گزار رہی تھی۔ مادر پدر آزاد میڈیا گھروں کی چاردیواری میں ایسا گھسا کہ جس کسی نے خبروں کے درمیان نیم عریاں ڈانس دیکھا، شادی شدہ مردوں اور عورتوں کو عشق کی پینگیں بڑھاتے ہوئے ڈراموں کی بھرمار ملاحظہ کی، اس کی پہلے تو شرم سے آنکھیں جھکیں اور پھر اس کا خون غصے سے کھولنے لگا۔ انصاف کی عدم فراہمی، امن و امان کی خرابی کے ساتھ جب ریاست کی سرپرستی میں لوگوں کے سروں سے حیا کی چادر بھی چھینی جانے لگی تو عام آدمی میں غصہ تو آنا ہی تھا۔ ردّ عمل کے طور پر نو جوانوں کی بڑی تعداد ایسی بھی پیدا ہو گئی جن کے سینے غصے کی شدت سے کھول رہے تھے۔ مغربی نظام تعلیم اور اسی ماحول میں ڈوبے ہوئے نصاب تعلیم نے پڑھے لکھے طبقے کو دو واضح گروہوں میں تقسیم کر دیا۔ ستر کی دہائی‘ جس میں کالجوں اور یونیورسٹیوں میں اسلامی جمعیت طلبہ کامیاب ہوتی تھی، میں بھی یونیورسٹیوں میں اکا دکا لڑکی ہی حجاب پہنتی تھی اور چند ایک لڑکے داڑھی رکھتے تھے۔ آج یونیورسٹیوں میں حجاب پہننے والی لڑکیوں کی ایک کثیر تعداد ہے اور داڑھی رکھے ہوئے لڑکے بھی کافی بڑی تعداد میں نظر آتے ہیں۔ یہ ہے وہ ردّ عمل جو ایک پڑھے لکھے طبقے میں نظر آتا ہے۔ یہ ردّ عمل گیارہ ستمبر کے واقعے سے پہلے موجود نہ تھا۔ اگر پڑھے لکھے طبقے میں شدت کا یہ عالم ہے، لاوا اس قدر شدید ہے تو عام آدمی جو روایت پسند اور روایت پرست ہوتا ہے، اس میں شدت کس قدر زیادہ ہو گی۔ اس ساری شدت نے لوگوں کی نفرت جہاں حکومت اور ریاست کی جانب موڑی‘ وہیں اس کا رخ براہِ راست امریکہ کی جانب بھی کر دیا۔
آج اس ملک کے شدت پسند گروہوں کو تین حصوں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے۔ ایک وہ جو امریکہ کے استعمار اور اس کے ایجنڈے پر عمل کرنے والی حکومت کے خلاف ہیں۔ انہیں شریعت کے نفاذ کا خوش کن نعرہ دستیاب ہے۔ دوسرے وہ جو اس غصے کو مسلکی اختلاف کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ تیسرے وہ جو لسانی اور قومی بنیاد پر محرومیوں کو اپنا نعرہ بنا کر دوسری قوم کو غاصب اور ظالم ثابت کرتے ہیں اور پھر قتل و خون کا کھیل شروع ہو جاتا ہے۔ یہ ہے اس مملکتِ خداداد پاکستان کی موجودہ حالت جس میں حکومت اور ریاست کے پاس اپنے آپ کو ٹھیک کرنے کے لیے نہ کوئی لائحہ عمل موجود ہے اور نہ عزم۔ جہاں ایسی شدت پسندی یا دہشت گردی ہو وہاں دو ہی راستے اختیار کئے جا سکتے ہیں۔۔۔۔۔ مذاکرات سے مسئلہ حل کر دو یا ایکشن سے مسئلہ دبا دو۔ لیکن یہ دونوں راستے عارضی اور ناکام ہیں، نہ ایکشن ان مسئلوں کو ختم کر سکتا ہے اور نہ ہی مذاکرات پائیدار امن لا سکتے ہیں۔ اگر ملک میں بنیادی و جوہ برقرار رہیں تو شدت پسندی کسی دوسری جگہ کسی اور صورت میں دوبارہ سر اٹھا سکتی ہے۔
اس کا حل کیا ہے؟
1: پاکستان کے آئین کا ایک غیر نافذ شدہ ایجنڈا ہے اور وہ ہے اس کی اسلامی دفعات پر مکمل عملدرآمد۔ یہ عمل وہ ہے جو کسی بھی شدت پسند سے اس کا نعرہ چھین سکتا ہے۔ وہ ہوا جو شدت کے غبارے میں بھری جا چکی ہے، بہت کم ہو سکتی ہے۔ میڈیا کا ایک مہذب اور ثقافت سے ہم آہنگ ضابطۂ اخلاق ماحول سے وہ اثرات ختم کر سکتا ہے جن سے خون کھولتا اور لاوا ابلتا ہے۔ آئین کی اسلامی شقوں پر قانون سازی کے عمل کا آغاز کر کے کسی بھی ایسے اقدام کی شرمندگی سے بچا سکتا ہے جو مذاکرات کی کامیابی کے بعد مجبوراً اٹھانا پڑیں۔
2: پاکستان کے عدالتی نظام کے تفصیلی جائزے اور اسے موجودہ حالات کے مطابق ترتیب دینے کی ضرورت ہے۔ یہ نظام ایک تھانیدار کی کاٹی ہوئی ایف آئی آر اور چالان کے گرد گھومتا ہے۔ سپریم کورٹ تک اسی کی ترتیب دی ہوئی گواہوں کی فہرست اور کہانی زیر بحث آتی ہے۔ ایس ایچ او کی غلط ایف آئی آر کا توڑ ہائی کورٹ کی رٹ پٹیشن ہے یا سوئو موٹو ایکشن۔ دنیا بھر میں دس ایسے عدالتی نظام چل رہے ہیں جہاں جج بھی تفتیش کرتا ہے جو اسلام کی روح سے مطابقت رکھتی ہے۔ لیکن ہم اسی اٹھارویں صدی کے قانون میں پھنسے ہوئے ہیں۔
3: ہمارا جمہوری نظام اور طریقِ انتخاب اس طرح وضع کیا گیا ہے کہ اس میں صرف دھونس دھاندلی اور مخصوص گروہوں کی بالادستی سے ہی جیت ممکن ہوتی ہے۔ یہ پورے کا پورے نظام بددیانت انتظامیہ کو جنم دیتا ہے اور انصاف کی فراہمی کا خاتمہ کرتا ہے۔ دنیا میں بہت سے ایسے ملک ہیں بلکہ تقریباً تمام ملکوں نے اپنے حالات کے مطابق اپنا نظام وضع کر رکھا ہے۔ ایک ہم ہیں کہ ابھی تک ویسٹ منسٹر جمہوریت کی کاربن کاپی کو یہاں نافذ کیے بیٹھے ہیں۔
4: مسلکی اختلاف کے خاتمے کا واحد راستہ قرآنی عربی کی ہر کسی کو تعلیم ہے تا کہ وہ قرآن کو ویسے ہی سمجھے جیسے وارث شاہ کی ہیر یا غالب کے دیوان کو سمجھتا ہے۔ اس شاعری کا کوئی کسی سے مطلب پوچھنے نہیں جاتا اور نہ کسی کو ان کے ترجمے کا مزا آتا ہے۔ قرآن کو ہم نے ترجمے پر چھوڑا اور اس کو سمجھنے کے لیے ایک طبقہ تخلیق کر لیا۔ اسی طبقے نے مسلکی اختلاف سے پورا ملک تقسیم کر دیا۔
5: مغربی نصاب تعلیم کے مطابق چند طلبا پڑھتے ہیں، یعنی او اور اے لیول جس میں صرف ایک لاکھ بچے زیر تعلیم ہیں۔ ان طلبہ نے باقی ان لاکھوں بچوں کے دلوں میں احساس کمتری، نفرت اور غصہ پیدا کیا ہے جو عام سکولوں میں زیر تعلیم ہیں۔ آگے چل کر صرف یہی ایک لاکھ افراد اس ملک کی پالیسی، حکومت، میڈیا اور دیگر اداروں پر غلبہ حاصل کر لیتے ہیں جہاں عام آدمی کو اپنی اخلاقیات نظرآتی ہے اور نہ اپنا ماحول۔ دنیا کا کوئی ملک یہ دوغلا پن اپنا کر چین سے نہیں بیٹھ سکتا۔
یہ ہیں وہ چند بنیادی اقدامات جن کا راستہ سب کو مل کر تلاش کرنا ہے، ورنہ اگلے سو سال ایسی جمہوریت اور یہی نظام چلتا رہے گا، روز مذاکرات بھی ہوں گے اور ایکشن بھی لیکن نہ چین میسر آئے گا نہ آرام۔
By Or ya Maqbool Jan
Dunya.com.pk
* * * * * * * * * * * * * * * * * * *
Humanity, Religion, Culture, Ethics, Science, Spirituality & Peace
Peace Forum Network
Humanity, Religion, Culture, Ethics, Science, Spirituality & Peace
Peace Forum Network