مولانا مودودی اور جمعیت علماء
مولانا فضل الرحمن جمعیت علماء اسلام (ف) کے کرتا دھرتا ہیں۔ ان کے بارے میں تاثر یہی ہے کہ وہ 1920ء میں بننے والی جمعیت علماء ہند کے پاکستانی وارث ہیں۔ ویسے تو اس جماعت کی تشکیل کے حوالہ سے اس جماعت کے بانی اراکین یعنی مولانا احمد سعید دہلوی، عبدالباری فرنگی محلی اور ثناء اللہ امرتسری الگ الگ نقطہ نظر رکھتے ہیں تاہم اس بارے سب کا اتفاق رہا کہ اس جماعت کے پہلے صدر مفتی کفایت اللہ اور جنرل سیکرٹری مولانا احمد سعید تھے جو 1919 ء سے 1939ء تک اپنے عہدوں پر برقرار رہے۔ ان کے بعد مولاناحسین احمد مدنی اور مولانا حفظ الرحمن سیوہاروی نے عہدے سنبھالے۔ اس کے بعد نہ صرف جمعیت علماء ہند اور مسلم لیگ میں غیرضروری تکرار کی سیاست پروان چڑھی بلکہ خود جمعیت علماء ہند منقسم ہوئی اور پاکستان بننے سے قبل ہی جمعیت علماء ہند سے الگ ہو کر کچھ علماء نے جمعیت علماء اسلام بنائی۔ یہی وہ دور ہے جب مولانا ابواعلی مودودی نے بھی کچھ علماء کے ساتھ مل کر جماعت اسلامی کی بنیاد رکھی۔ یوں 1940ء کی دہائی جمعیت علماء ہند پر خاصی بھاری ثابت ہوئی۔ خیر اس جماعت کی تاریخ پھر کبھی بیان کی جائے گی کہ یہاں تو اس جماعت سے مولانا مودی کے تعلق بارے بات کرنی ہے۔ ویسے تو آج لگتا ہے کہ جماعت اسلامی اور جمعیت علماء اسلام یا ہند کے درمیان ہمیشہ ’’یدھ‘‘ ہی رہا ہوگا اور ایسی کتب بھی با آسانی مل جاتی ہیں جن میں دونوں طرف کے مستند دانشوروں نے ایک دوسرے کے خلاف قلم کا بھرپور ’’جہاد‘‘ کیا تھا۔ مگر کبھی ایسے بھی حالات تھے جب دونوں کے اکابرین یعنی مفتی کفایت اللہ، احمد سعید اور مولانا ابو اعلیٰ مودودی میں گہری چھنتی تھی۔ یہ وقوعہ 20 ویں صدی کی تیسری دہائی کے ابتدائی سالوں کا ہے کہ مفتی کفایت اللہ، صدر جمعیت علماء ہند نے نومبر 1921ء میں اپنا ہفتہ وار رسالہ ’’مسلم‘‘ نکالنے کا فیصلہ کیا۔ پہلے تو وہ خود ہی اس رسالہ کے ایڈیٹر رہے مگر جلد انھیں اک نیا اور نوجوان ایڈیٹر دستیاب ہو گیا۔ اس ایڈیٹر کو اک رسالہ ’’تاج‘‘ میں کام کرنے کا تجربہ بھی تھا۔ یہ صاحب کوئی اور نہیں بلکہ مولانا ابو اعلیٰ مودودی تھے۔ یہ بات ایچ بی خان نے اپنی کتاب ’’برصغیر پاک و ہند کی جنگ آزادی میں علماء ہند کا سیاسی کردار‘‘ میں لکھی ہے۔ ہفتہ وار ’’مسلم‘‘ زیادہ دیر نہ چل سکا اور اس کے بند ہونے کی تاریخ اپریل 1923 ء ہے۔جمعیت علماء ہند نے دو سال بعد فروری 1925ء میں ایک پندرہ روزہ رسالہ ’’الجمعیت‘‘ جاری کیا تو اس کی ادارت کا ذمہ بھی مولانا ابو اعلی مودودی پر رہا۔ بقول ایچ بی خان مولانا مودودی جون 1925 ء سے مئی 1928 ء تک اس رسالہ کی ادارت کے فرائض سرانجام دیتے رہے۔ خود مولانا نے اپنی کتاب ’’تصوف اور تعمیرسیرت‘‘ میں بھی اس بارے تصدیق کی ہے۔ مولانا مودودی کے بقول اس رسالہ کی ادارت تو میرے ہی ذمہ تھی مگر شروع میں رسالہ پر مولانا محمد عرفان ہی کا نام چھپتا تھا۔ بعدازاں میرا نام بھی چھپنے لگا۔یہ سب لکھنے کا مطلب یہی ہے کہ انسانوں اور جماعتوں کی تاریخ میں بہت سے موڑ آتے ہیں کہ ان میں تکرار، عداوت، ملاپ اور حمایت کے پہلو بدلتے بھی رہتے ہیں۔ محبت اور سیاست کے راستہ میں لاتعداد منزلیں آتی ہیں کہ کل کے دوست آج کے دشمن بھی بن جاتے ہیں اور کبھی پشت ہاپشت سے برسرپیکار شیروشکر بھی ہو جاتے ہیں۔ ایسے میں کچھ کارکن یا رہنما تکرار کو ـ’’جن چھپا ‘‘ڈالتے ہوے حمایت یا مخالفت کو ضد بنا لیتے ہیں۔ جو تکرار کے عہد میں جماعتوں سے وابستہ ہوتے ہیں ان کا محاورہ بھی تکرار و اختلاف ہی کے اردگرد گھومتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہر جماعت میں اعتدال پسندوں کی اہمیت کو خوب محسوس کیا جاتا ہے۔ آج کل اعتدال پسندی کو زیادہ اچھا نہیں سمجھا جاتا کہ یہی رویہ خصوصاً مذہبی سیاسی جماعتوں کے تنزل کی ایک بڑی وجہ ہے۔ اعتدال پسند تو جانتے ہیں کہ سیاسی موقف وقت کے ساتھ سیاسی ترجیحات کے تحت بدل سکتے ہیں۔ ٭…٭
عامر ریاض
Dunya.com.pk
~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~
علماء کا کام قرآن کریم کے مطابق کیا ہے ؟
لوگوں کی دینی تعلیم و تربیت یا حکومت و سیاست ؟
<<Clck Here>>
* * * * * * * * * * * * * * * * * * *
Humanity, Religion, Culture, Ethics, Science, Spirituality & Peace
Peace Forum Network
علماء کا کام قرآن کریم کے مطابق کیا ہے ؟
لوگوں کی دینی تعلیم و تربیت یا حکومت و سیاست ؟
<<Clck Here>>
* * * * * * * * * * * * * * * * * * *
Humanity, Religion, Culture, Ethics, Science, Spirituality & Peace
Peace Forum Network