”شکوہ“ اقبال کے دل کی آواز ہے اس کا موثر ہونا یقینی تھا۔ اس سے اہل دل مسلمان تڑپ اُٹھے اور انہوں نے سوچنا شروع کیا کہ مسلمانوں کے حوصلہ شکن زوال کے اسباب کیا ہیں۔ آخر اللہ کے وہ بندے جن کی ضرب شمشیر اور نعرہ تکبیر سے بڑے بڑے قہار و جبار سلاطین کے دل لرز جاتے تھے کیوں اس ذلت و رسوائی کا شکار ہوئے
علامہ اقبال نے ”شکوہ میں ایسا انداز اختیار کیا ہے جس میں مسلمانوں کے عظیم الشان، حوصلہ افزا اور زندہ جاوید کارنامے پیش کیے گئے۔ لہٰذا اس نظم کے پڑھنے سے حوصلہ بلند ہوتا ہے قوت عمل میں تازگی آتی ہے۔ جو ش و ہمت کو تقویت پہنچتی ہے۔ عظیم الشان کارنامے اس حسن ترتیب سے جمع کر دیے گئے ہیں کہ موجودہ پست حالی کی بجائے صرف عظمت و برتری ہی سامنے رہتی ہے۔ گویا یہ شکوہ بھی ہے اور ساتھ ہی بہترین دعوت عمل بھی۔ اس لحاظ سے اردو زبان میں یہ اپنی نوعیت کی بالکل یگانہ نظم ہے۔ بقول تاثیر”شکوہ لکھا گیا تو اس انداز پر سینکڑوں نظمیں لکھی گئیں ملائوں نے تکفیر کے فتوے لگائے اور شاعروں نے شکوہ کے جواب لکھے لیکن شکوہ کا درست جواب خود اقبال ہی نے دیا۔“Read more »
یہ نظم دراصل مسلمانوں کے بے عملی، مذہب سے غفلت اور بیزاری پر طنز ہے۔
بانگ درا میں شامل کرتے وقت اقبال نے اس میں کئی مقامات پر تبدیلی کی۔ جبکہ بانگ درا میں اشاعت سے پہلے نظم مختلف رسالوں مثلاً مخزن، تمدن اور ادیب میں شائع ہوئی تھی۔ اس کے علاوہ کئی زبانوں میں اس کے تراجم بھی ہو چکے ہیں۔ یہ وہ شہر آفاق نظم ہے جو اپریل 1911ءکے جلسہ انجمن حمایت اسلام میں پڑھی گئی۔ لندن سے واپسی پر اقبال نے ریواز ہوسٹل کے صحن میں یہ نظم پڑھی۔ اقبال نے یہ نظم خلاف معمول تحت اللفظ میں پڑھی۔ مگر انداز بڑا دلا ویز تھا۔ اس نظم کی جو کاپی اقبال اپنے قلم سے لکھ کر لائے تھے اس کے لیے متعدد اصحاب نے مختلف رقوم پیش کیں اور نواب ذوالفقار علی خان نے ایک سوروپے کی پیشکش کی اور رقم ادا کرکے اصل انجمنِ پنجاب کو دے دی۔
اس نظم کا نام ”شکوہ“ اس لیے رکھا گیا ہے کہ موضوع کے اعتبار سے شکوہ بارگاہ الہٰی میں علامہ اقبال یا دور حاضر کے مسلمانوں کی ایک فریاد ہے۔ علامہ اقبال کہتے ہیں کہ ہم تیرے نام لیوا ہونے کے باوجود دنیا میں ذلیل و خوار ہیں۔ حالانکہ ہم تیرے رسول کے نام لیوا ہیں اور اس پر طرہ یہ ہے کہ تیرے انعامات اور نوازشات کے مستحق غیر مسلم ہیں۔ گویا علامہ اقبال نے شکوہ میں عام مسلمانوں کے لاشعوری احساسات کی ترجمانی کی ہے۔ بقول سلیم احمد ،
” ایک طرف ان کا یہ عقیدہ ہے کہ وہ خدا اور اس کے محبوب کی سب سے چہیتی امت ہیں اور اس لیے خدا کی ساری نعمتوں کے سزاوار اور دوسری طرف یہ ناقابل تردید حقیقت ہے کہ ان کا مکمل زوال ہو چکا ہے عقیدے اور حقیقت کے اس ٹکرائو سے مسلمانوں کا وہ مخصوص المیہ پیدا ہوتا ہے جو ”شکوہ “ کا موضوع ہے۔“
علامہ اقبال کے اپنے الفاظ میں
” وہی بات جو لوگوں کے دلوں میں تھی ظاہر کر دی گئی“
سلسلہ فکر و خیال کی ترتیب کے مطابق نظم کو ہم مندرجہ ذیل حصوں میں تقسیم کرسکتے ہیں،
اظہار شکوہ کی توجیہ
یہ حصہ نہایت مختصر اور صرف دو بندوں پر مشتمل ہے۔ یہ دو بند جن میں شکوہ کرنے کی وجہ بیان کی گئی ہے۔ اور یہ مسلمانوں کی موجودہ بدحالی اور پستی پر اقبال کے رد عمل کا اظہار ہے۔ اقبال کے خیال میں مسلمان اب زوال و انحطاط کی اس منزل کو پہنچ چکے ہیں کہ جہاں پر خاموش رہنا نہ صرف اپنی ذات بلکہ ملت اسلامیہ کے اجتماعی مفاد سے بھی غداری کے مترادف ہے۔ اس موقع پر قصہ درد سنانا اگرچہ خلاف ادب ہے اور نالہ و فریاد کا یہ انداز گستاخانہ ہے مگر ہم ایسا کہنے پر مجبور ہیں۔ اقبال کہتے ہیں کہ ای خدائے بزرگ و برتر ” اربابِ وفا“ کا شکوہ بھی سن لے۔ کسی لمبے چوڑے پس منظر یا غیر ضروری طویل تمہید کے بغیر اللہ تعالٰی سے ہم کلام ہونا اسلامی تصورات کے عین مطابق ہے۔ اسلام کو تمام مذاہب کے مقابلے میں یہ انفرادیت حاصل ہے کہ اس میں بندہ خدا سے بلا واسطہ ہم کلام ہو سکتا ہے۔ جبکہ دوسرے مذاہب میں میں ایسا نہیں۔ ان کے انداز تخاطب میں شوخی اور بے ادبی نہ تھی ہاں ایک طرح کی بے تکلفی ضرور تھی جو بعض لوگوں کو کھٹکتی ہے۔
لیکن اقبال نے دانستہ طور پر یہ طرز تخاطب اختیار کیا تھا۔ دراصل اقبال ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت پڑھنے والوں کو اس طرز تخاطب سے آشنا کرنا چاہتا ہے۔ گویا شکوہ کے اندازِ کلام کے لیے پڑھنے والوں کو مصنوعی طور پر تیار کر رہا ہے۔ اور یہ حقیقت ہے کہ اقبال نے شکوہ کے پہلے دو بندوں ہی میں بات یا موضوع سخن کو اس منزل تک پہنچا دیا ہے کہ بعد کی شکوہ سرائی اور گلہ مندی بالکل موزوں اور مناسب معلوم ہوتی ہے۔
امت مسلمہ کا کارنامہ
شکوے کا دوسرا حصہ گیارہ بندوں پر مشتمل ہے۔ تیسرے بند سے نظم کے اصل موضوع پر اظہار خیال کا آغاز ہوتا ہے۔ اس حصے کا آغاز اس مصرعے سے ہوتا ہے۔ ” تھی تو موجود ازل سے ہی تری ذات کریم
13ویں بند تک علامہ اقبال نے امت مسلمہ کے عظیم کارناموں کا تذکرہ کیا ہے۔ دنیا میں مسلمانوں کی حیثیت اور اہمیت کو اجاگر کر دیاہے۔ سب سے پہلے دنیا کی حالت اور تاریخ کا منظر پیش کرتے ہوئے بتاتے ہیں کہ یوں تو خدا کی ذات ازل سے اپنی سچائیوں سمیت موجود تھی۔ اور بڑی بڑی قومیں مثلاً سلجوق، تورانی، ساسانی، یونانی، یہودی، نصرانی آباد تھیں لیکن توحید کا وہ تصور جو تمام اقوام کے لیے نیا تھا اور جو اسلامی تعلیمات کا سرچشمہ تھا اس کی اشاعت و تبلیغ کے سلسلے میں جو کام امت مسلمہ نے کر کے دکھایا ہے وہ کام کسی سے بھی ممکن نہ تھا۔ یہاں اقبال مسلمان قوم کا ترجمان بن کر دعوی کرتا ہے کہ مسلمانوں نے بیمار اور جاہل امتوں اور مریض قوموں کے سامنے وہ علاج پیش کیا جو نکتہ توحید میں مضمر ہے۔
بس رہے تھے یہیں سلجوق بھی تورانی بھی
اہل چیں چین میں، ایران میں ساسانی بھی
اسی معمورے میں آباد تھے یونانی بھی
اسی دنیا میں یہودی بھی تھے، نصرانی بھی
پر ترے نام پہ تلوار اٹھائی کس نے؟
بات جوبگڑی ہوئی تھی، وہ بنائی کس نے؟
اقبال بتاتے ہیں کہ ساری دنیا میں مسلمانو ں کوہی صرف یہ شرف حاصل ہے کہ انہوں نے خدا کے پیغام کو دنیا کے دور دراز علاقوں یا کونوں تک پہنچا یا۔ روم اور ایران جیسے ملکوں کو فتح کرنا کسی حیرت انگیز کارنامے سے کم نہیں ہے۔ اُنہی کی بدولت دنیا میں حق کی صدا گونجی نظم کی اس حصے میں علامہ اقبال نے تاریخ اسلام کے جن ادوار اور واقعات کو مثال بنایا ہے اس کی مختصر اً وضاحت یوں ہے۔ ”دی اذانیں کبھی یورپ کے کلیسائوں میں “ کا اشارہ سلطنت عثمانیہ کی اس دور کی طرف ہے جب مسلمانوں کی سلطنت یونان، بلغاریہ، البانیہ، ہنگری اور آسٹریا تک پھیلی ہوئی تھی۔ سپین پر بھی مسلمانوں کی حکومت تھی۔ یورپ کے ان علاقوں میں جہاں آ ج کلیسائوں میں ناقوس بجتے ہیں کبھی مسلمانوں کی وہاں پر اذانیں گونجتی تھیں۔ اس طرح افریقہ کے تپتے ہوئے صحرائوں کا علاقہ مصر، لیبیا، تیونس، مراکش اور الجزائر وغیرہ بھی مسلم سلطنت میں شامل تھے۔
”شان آنکھوں میں نہ جچتی تھی جہانداروں کی“ کی عملی تفسیر اس واقعے سے ملتی ہے جب حضرت عمر فاروق کے دور میں مسلم وفد کے قائد ربعی ایرانی سپہ سالار رستم سے گفت و شنید کے لیے اس کے دربار میں گئے تو اپنے نیزے سے قیمتی قالین کو چھیدتے ہوئے بے پروائی سے تخت کے قریب پہنچے۔
تھے ہمیں ایک ترے معرکہ آرائوں میں !
خشکیوں میں کبھی لڑتے، کبھی دریائوں میں
دیں اذانیں کبھی یورپ کے کلیسائوں میں
کبھی افریقہ کے تپتے ہوئے صحرائو ں میں
شان آنکھوں میں نہ جچتی تھی جہانداروں کی
کلمہ پڑھتے تھے ہم چھاؤں میں تلواروں کی
ساتویں بند میں بت فروشی اور بت شکنی کی تلمیح اس حوالے سے ہے جب محمود غزنوی نے ہندو پجاریوں کی رشوت کو ٹھکراتے ہوئے سومنات کے بتوں کو پاش پاش کر دیا تھا۔ بحر ظلمات سے مراد بحر اوقیانوس ہے۔ ”بحر ظلمات میں دوڑا دیے گھوڑے ہم نے“ میں اشارہ ہے اس واقعے کی طرف جب ایک مسلمان مجاہد عقبہ بن نافع نے افریقہ کے آخری سرے تک پہنچ کر گھوڑا بحر اوقیانوس میں ڈال دیاتھا۔
دشت تو دشت ہیں دریابھی نہ چھوڑے ہم نے!
بحر ظلمات میں دوڑا دیے گھوڑے ہم نے!
مسلمانوں کی حالتِ زبوں
نظم کے اس حصے میں اقبال نے امت مسلمہ کے درخشاں ماضی کی جھلکیاں دکھاتے ہوئے نظم کا رخ مسلمانوں کی موجودہ حالت کی طرف موڑ دیا ہے۔ اقبال نے دوسری اقوام سے مسلمانوں کا موازنہ کرکے ان کی موجودہ زبوں حالی کو نمایاں کر دیا ہے۔ اقبال شکوہ کرتے ہیں کہ دنیا میں مسلمان جگہ جگہ غیر مسلموں کے مقابلے میں حقیر، ذلیل اور رسوا ہیں۔ جس کی وجہ سے دنیا کی دوسری اقوام ان پر خندہ زن ہیں۔ نظم کے اس حصے میں صحیح معنوں میں گلے شکوے کا رنگ پایا جاتا ہے اقبال نے مسلمانوں کی بے بسی و بے چارگی کا واسطہ دے کر خدا سے پوچھا ہے کہ توحید کے نام لیوائوں سے پہلے جیسا لطف و کرم کیوں نہیں؟ اس کے ساتھ ہی شاعر نے ایک طرح کی تنبیہ بھی کی ہے کہ اگر یہی سلسلہ جاری رہا تو دنیا توحید کے نام لیوائوں سے خالی ہو جائے گی۔ اور ڈھونڈنے سے بھی ایسے عُشاقانِ توحید کا سراغ نہیں ملے گا۔
امتیں اور بھی ہیں، اُن میں گنہگار بھی ہیں
عجز والے بھی ہیں، مستِ مئے پندار بھی ہیں
ان میں کاہل بھی ہیں، غافل بھی ہیں، ہشیار بھی ہیں
سینکڑوں ہیں کہ ترے نام سے بیزار بھی ہیں
رحمتیں ہیں تری اغیار کے کاشانوں پر
برق گرتی ہے تو بے چارے مسلمانوں پر
حالت زبوں کی وجہ کیاہے؟
بند20 کے آغاز میں اقبال اس حالت زبوں کا سبب دریافت کرتے ہیں۔ مسلمان آج بھی خدا کے نام لیو ا ہیں اور اُس کے رسول کے پیروکار ہیں۔ آج بھی اُن کے دلوں میں اسلام کے بارے میں ایک زبردست جوش و جذبہ اور کیفیت عشق موجود ہے۔ اقبال متاسف ہیں کہ اس کے باوجود عنایاتِ خدواندی سے محروم ہیں۔
آگے چل کر اقبال کا لہجہ ذرا تلخ ہو جاتا ہے اور محبوب حقیقی کے سامنے فریاد کی زبان کھولی ہے کیونکہ اس نے اپنے سچے عاشقوں کو فراموش کر دیا ہے اور غیروں سے راہ رسم آشنائی پیدا کر لی ہے۔
کبھی ہم سے کبھی غیروں سے شناسائی ہے
بات کہنے کی نہیں تو بھی تو ہر جائی ہے
نظم کے اس حصے میں اقبال نے بہت سی تلمیحات استعمال کی ہیں۔ لیلیٰ، قیس، دشت وجبل، شور سلاسل اور دیوانہ نظار ہ محمل کی تراکیب و تلمیحات وغیرہ۔
وادی نجد میں وہ شور ِ سلاسل نہ رہا
قیس دیوانہ نظارہ محمل نہ رہا
” سرفاراں پر کیا دین کو کامل تو نے“ سے مراد یہ ہے اے خدا تو نے دین اسلام کو فاران کی چوٹی پر مکمل کر دیا۔ جو قرآنی آیت کی طرف ایک اشارہ ہے۔
سر فاراں پر کیا دین کو کامل کیا تو نے
اک اشارے میں ہزاروں کے لیے دل تو نے
کیفیت یا س و بیم
اس حصے میں اقبال کا روئے سخن خاص طور پر ہندی مسلمانوں کی طرف ہے اور یہی بات اِسے دوسرے حصوں سے ممتاز کرتی ہے۔ یوں تو مسلمان دنیا کے ہرگوشے میں بدحالی مایوسی اور بے چارگی کا شکار ہیں مگر برصغیر پاک و ہند میں تو اس کا انتشار گویا نقطہ عروج کو پہنچ گیا ہے چونکہ اقبال ہندوستان میں رہتے ہیں اس لیے یہیں کے مسائل سے انہیں پہلے واسطہ پڑتا ہے۔
جنس نایاب محبت کو پھر ارزاں کر دے
ہند کے دیر نشینوں کو مسلماں کر دے
یہ بہت بلیغ شعر ہے کہ ہندوستان میں ہزاروں سال رہنے کے بعد ہند کے مسلمان بھی اسی طرح ہندی ثقافت اور فلسفے میں رنگے گئے ہیں۔ ان میں بت پرستوں ( ہندوئوں) کے ساتھ میل ملاپ کی وجہ سے ان ہی کی سی خصلتیں پیدا ہو گئی ہیں۔ اس لیے ان کو ”دیر نشین “ کہنا کوئی غلط بات نہیں۔ علامہ اقبال نے ہمیشہ اپنی گفتگو میں یہی خیال ظاہر کیا ہے کہ اگر ہندوستان کے سارے مسلمان حقیقی معنوں میں مسلمان بن جائیں تو وہ ساری دنیا کو فتح کرسکتے ہیں۔
نغمے بے تاب ہیں تاروں سے نکلنے کے لیے
طور مضطر ہے اسی آگ میں جلنے کے لیے
دعائیہ اختتام
علامہ اقبال کی خواہش تھی کہ ہندوستان کے سارے مسلمان حقیقی معنوں میں مسلمان ہو جائیں تووہ ساری دنیا کو فتح کر سکتے ہیں۔ نظم کے آخری حصے میں شاعر کی یہ آرزو ایک دعا کی شکل میں ڈھل جاتی ہے۔ اور دعا کا یہ سلسلہ نظم کے آخری شعر تک چلتا ہے۔ اُمت مسلمہ کو درپیش مسائل و مشکلات کے حل کے لیے اقبال دعا گو ہیں۔ ”امت مرحوم“ کی ترکیب بہت معنی خیز ہے۔ مراد یہ ہے کہ مسلمان بحیثیت ایک زندہ قوم کے ختم ہو کر مردہ ہو چکے ہیں اب ان کی حیثیت سلیمان کے مقابلے میں ”مور بے مایہ“ کی سی ہے۔ لیکن اقبال کی خواہش ہے کہ دور حاضر کے مسلمان پھر سے جوش و جذبہ سے لبریز ہو جائیں اور کوہ طور پر پہلے کی طرح تجلیات نازل ہوں۔
مشکلیں امت ِمرحوم کی آساں کر دے
مورِ بے مایہ کو ھمدوش ِ سلیماں کر دے
اقبال نے نظم کے آخری حصے میں یہ دعا ضرور کی ہے کہ مسلمانوں کا مستقبل روشن اور خوش آئند ہو اور ہونا چاہیے مگر یہ نہیں کہا کہ ”ہوگا“۔ کیونکہ وہ ایک ایسا پر آشوب دور تھا کہ مستقبل کے بارے میں حتمی طور پر کچھ بھی نہیں کہا جا سکتا تھا۔ ایک طرف تقسیم بنگال اور پھر اٹلی کا طرابلس پر حملہ جس نے اقبال پر بڑا اثر کیا اور اسی مایوسی کے پیش نظر اقبال کو خدا سے شکوہ کرنا پڑا۔ شکوہ دراصل اسے حصے میں ختم ہو جاتا ہے۔ اور باقی تین بند قوم کی پستی پر شاعر کی اپنی طبیعت کا الجھائو، جذبات، قوم سے ناراضی، نفرت اور بے اعتنائی کا آئینہ ہے۔ شاعر مایوس ہے اور مضطرب ہو کر پکار اُٹھا۔ لطف مرنے میں ہے باقی نہ مزاجینے میں
کچھ مزا ہے تو یہی خون جگر پینے میں
مایوسی کا ایک اور انداز کچھ یوں ہے کہ،
اس گلستاں میں مگر دیکھنے والے ہی نہیں
داغ جو سینے میں رکھتے ہوں وہ لالے ہی نہیں
آگے چل کر اقبال مایوسی کے عالم میں کہتے ہیں کہ مجھ سے دین کی جو خدمت ہو سکتی ہے اس کے بجالانے کے لیے کوشاں ہوں اگرچہ میں تنہا ہوں اور کوئی شخص میری آواز پر کان نہیں دھرتا۔
کاش گلشن میں سمجھتا کوئی فریاد اس کی
اس حصے میں اقبال نے صراحت سے یہ بات بیان کر دی ہے کہ میں اگرچہ عجمی طریقے پر شعر کہتا ہوں ایرانی شاعری کی روایات کا پابند ہوں ہندی الاصل ہوں لیکن ساتھ ساتھ اسلامی تعلیمات کی روح سے واقف ہوں اور اگر مسلمان مرے کلام کابغور مطالعہ کریں تو انہیں عجمی روایات کے پردے سے اسلام کے مطالب دقیق جھانکتے ہوئے نظر آئیں گے۔ یہ حصہ اور ”شکوہ “ اس بلیغ اور معنی افروز شعر پر ختم ہو جاتا ہے۔
عجمی خم ہے تو کیا، مے تو حجازی ہے مری
نغمہ ہندی ہے تو کیا، لے تو حجازی ہے مری
شکوہ ۔۔ جواب شکوہ ۔۔(مُکمّل) علامہ اقبال رحمۃ اللہ علیہ
کيوں زياں کار بنوں ، سود فراموش رہوں
فکر فردا نہ کروں محو غم دوش رہوں
نالے بلبل کے سنوں اور ہمہ تن گوش رہوں
ہم نوا ميں بھي کوئي گل ہوں کہ خاموش رہوں
جرات آموز مري تاب سخن ہے مجھ کو
شکوہ اللہ سے ، خاکم بدہن ، ہے مجھ کو
ہے بجا شيوہء تسليم ميں مشہور ہيں ہم
قصہ درد سناتے ہيں کہ مجبور ہيں ہم
ساز خاموش ہيں ، فرياد سے معمور ہيں ہم
نالہ آتا ہے اگر لب پہ تو معذور ہيں ہم
اے خدا! شکوہء ارباب وفا بھي سن لے
خوگر حمد سے تھوڑا سا گلا بھي سن لے
تھي تو موجود ازل سے ہي تري ذات قديم
پھول تھا زيب چمن پر نہ پريشاں تھي شميم
شرط انصاف ہے اے صاحب الطاف عميم
بوئے گل پھيلتي کس طرح جو ہوتي نہ نسيم
ہم کو جمعيت خاطر يہ پريشاني تھي
ورنہ امت ترے محبوب کي ديواني تھي؟
ہم سے پہلے تھا عجب تيرے جہاں کا منظر
کہيں مسجود تھے پتھر ، کہيں معبود شجر
خوگر پيکر محسوس تھي انساں کي نظر
مانتا پھر کوئي ان ديکھے خدا کو کيونکر
تجھ کو معلوم ہے ، ليتا تھا کوئي نام ترا؟
قوت بازوئے مسلم نے کيا کام ترا
بس رہے تھے يہيں سلجوق بھي، توراني بھي
اہل چيں چين ميں ، ايران ميں ساساني بھي
اسي معمورے ميں آباد تھے يوناني بھي
اسي دنيا ميں يہودي بھي تھے ، نصراني بھي
پر ترے نام پہ تلوار اٹھائي کس نے
بات جو بگڑي ہوئي تھي ، وہ بنائي کس نے
تھے ہميں ايک ترے معرکہ آراؤں ميں
خشکيوں ميں کبھي لڑتے ، کبھي درياؤں ميں
ديں اذانيں کبھي يورپ کے کليساؤں ميں
کبھي افريقہ کے تپتے ہوئے صحراؤں ميں
شان آنکھوں ميں نہ جچتي تھي جہاں داروں کي
کلمہ پڑھتے تھے ہم چھاؤں ميں تلواروں کي
ہم جو جيتے تھے تو جنگوں کے مصيبت کے ليے
اور مرتے تھے ترے نام کي عظمت کے ليے
تھي نہ کچھ تيغ زني اپني حکومت کے ليے
سربکف پھرتے تھے کيا دہر ميں دولت کے ليے؟
قوم اپني جو زر و مال جہاں پر مرتي
بت فروشي کے عوض بت شکني کيوں کرتي!
ٹل نہ سکتے تھے اگر جنگ ميں اڑ جاتے تھے
پاؤں شيروں کے بھي ميداں سے اکھڑ جاتے تھے
تجھ سے سرکش ہوا کوئي تو بگڑ جاتے تھے
تيغ کيا چيز ہے ، ہم توپ سے لڑ جاتے تھے
نقش توحيد کا ہر دل پہ بٹھايا ہم نے
زير خنجر بھي يہ پيغام سنايا ہم نے
تو ہي کہہ دے کہ اکھاڑا در خيبر کس نے
شہر قيصر کا جو تھا ، اس کو کيا سر کس نے
توڑے مخلوق خداوندوں کے پيکر کس نے
کاٹ کر رکھ ديے کفار کے لشکر کس نے
کس نے ٹھنڈا کيا آتشکدہ ايراں کو؟
کس نے پھر زندہ کيا تذکرہ يزداں کو؟
کون سي قوم فقط تيري طلب گار ہوئي
اور تيرے ليے زحمت کش پيکار ہوئي
کس کي شمشير جہاں گير ، جہاں دار ہوئي
کس کي تکبير سے دنيا تري بيدار ہوئي
کس کي ہيبت سے صنم سہمے ہوئے رہتے تھے
منہ کے بل گر کے ‘ھو اللہ احد’ کہتے تھے
آ گيا عين لڑائي ميں اگر وقت نماز
قبلہ رو ہو کے زميں بوس ہوئي قوم حجاز
ايک ہي صف ميں کھڑے ہو گئے محمود و اياز
نہ کوئي بندہ رہا اور نہ کوئي بندہ نواز
بندہ و صاحب و محتاج و غني ايک ہوئے
تيري سرکار ميں پہنچے تو سبھي ايک ہوئے
محفل کون و مکاں ميں سحر و شام پھرے
مے توحيد کو لے کر صفت جام پھرے
کوہ ميں ، دشت ميں لے کر ترا پيغام پھرے
اور معلوم ہے تجھ کو ، کبھي ناکام پھرے!
دشت تو دشت ہيں ، دريا بھي نہ چھوڑے ہم نے
بحر ظلمات ميں دوڑا ديے گھوڑے ہم نے
صفحہ دہر سے باطل کو مٹايا ہم نے
نوع انساں کو غلامي سے چھڑايا ہم نے
تيرے کعبے کو جبينوں سے بسايا ہم نے
تيرے قرآن کو سينوں سے لگايا ہم نے
پھر بھي ہم سے يہ گلہ ہے کہ وفادار نہيں
ہم وفادار نہيں ، تو بھي تو دلدار نہيں!
امتيں اور بھي ہيں ، ان ميں گنہ گار بھي ہيں
عجز والے بھي ہيں ، مست مےء پندار بھي ہيں
ان ميں کاہل بھي ہيں، غافل بھي ہيں، ہشيار بھي ہيں
سينکڑوں ہيں کہ ترے نام سے بيزار بھي ہيں
رحمتيں ہيں تري اغيار کے کاشانوں پر
برق گرتي ہے تو بيچارے مسلمانوں پر
بت صنم خانوں ميں کہتے ہيں ، مسلمان گئے
ہے خوشي ان کو کہ کعبے کے نگہبان گئے
منزل دہر سے اونٹوں کے حدي خوان گئے
اپني بغلوں ميں دبائے ہوئے قرآن گئے
خندہ زن کفر ہے ، احساس تجھے ہے کہ نہيں
اپني توحيد کا کچھ پاس تجھے ہے کہ نہيں
يہ شکايت نہيں ، ہيں ان کے خزانے معمور
نہيں محفل ميں جنھيں بات بھي کرنے کا شعور
قہر تو يہ ہے کہ کافر کو مليں حور و قصور
اور بيچارے مسلماں کو فقط وعدہ حور
اب وہ الطاف نہيں ، ہم پہ عنايات نہيں
بات يہ کيا ہے کہ پہلي سي مدارات نہيں
کيوں مسلمانوں ميں ہے دولت دنيا ناياب
تيري قدرت تو ہے وہ جس کي نہ حد ہے نہ حساب
تو جو چاہے تو اٹھے سينہء صحرا سے حباب
رہرو دشت ہو سيلي زدہء موج سراب
طعن اغيار ہے ، رسوائي ہے ، ناداري ہے
کيا ترے نام پہ مرنے کا عوض خواري ہے؟
بني اغيار کي اب چاہنے والي دنيا
رہ گئي اپنے ليے ايک خيالي دنيا
ہم تو رخصت ہوئے ، اوروں نے سنبھالي دنيا
پھر نہ کہنا ہوئي توحيد سے خالي دنيا
ہم تو جيتے ہيں کہ دنيا ميں ترا نام رہے
کہيں ممکن ہے کہ ساقي نہ رہے ، جام رہے!
تيري محفل بھي گئي ، چاہنے والے بھي گئے
شب کے آہيں بھي گئيں ، صبح کے نالے بھي گئے
دل تجھے دے بھي گئے ، اپنا صلا لے بھي گئے
آ کے بيٹھے بھي نہ تھے اور نکالے بھي گئے
آئے عشاق ، گئے وعدہء فردا لے کر
اب انھيں ڈھونڈ چراغ رخ زيبا لے کر
درد ليلي بھي وہي ، قيس کا پہلو بھي وہي
نجد کے دشت و جبل ميں رم آہو بھي وہي
عشق کا دل بھي وہي ، حسن کا جادو بھي وہي
امت احمد مرسل بھي وہي ، تو بھي وہي
پھر يہ آزردگي غير سبب کيا معني
اپنے شيداؤں پہ يہ چشم غضب کيا معني
تجھ کو چھوڑا کہ رسول عربي کو چھوڑا؟
بت گري پيشہ کيا ، بت شکني کو چھوڑا؟
عشق کو ، عشق کي آشفتہ سري کو چھوڑا؟
رسم سلمان و اويس قرني کو چھوڑا؟
آگ تکبير کي سينوں ميں دبي رکھتے ہيں
زندگي مثل بلال حبشي رکھتے ہيں
عشق کي خير وہ پہلي سي ادا بھي نہ سہي
جادہ پيمائي تسليم و رضا بھي نہ سہي
مضطرب دل صفت قبلہ نما بھي نہ سہي
اور پابندي آئين وفا بھي نہ سہي
کبھي ہم سے ، کبھي غيروں سے شناسائي ہے
بات کہنے کي نہيں ، تو بھي تو ہرجائي ہے !
سر فاراں پہ کيا دين کو کامل تو نے
اک اشارے ميں ہزاروں کے ليے دل تو نے
آتش اندوز کيا عشق کا حاصل تو نے
پھونک دي گرمي رخسار سے محفل تو نے
آج کيوں سينے ہمارے شرر آباد نہيں
ہم وہي سوختہ ساماں ہيں ، تجھے ياد نہيں؟
وادي نجد ميں وہ شور سلاسل نہ رہا
قيس ديوانہ نظارہ محمل نہ رہا
حوصلے وہ نہ رہے ، ہم نہ رہے ، دل نہ رہا
گھر يہ اجڑا ہے کہ تو رونق محفل نہ رہا
اے خوش آں روز کہ آئي و بصد ناز آئي
بے حجابانہ سوئے محفل ما باز آئي
بادہ کش غير ہيں گلشن ميں لب جو بيٹھے
سنتے ہيں جام بکف نغمہ کو کو بيٹھے
دور ہنگامہ گلزار سے يک سو بيٹھے
تيرے ديوانے بھي ہيں منتظر ‘ھو’ بيٹھے
اپنے پروانوں کو پھر ذوق خود افروزي دے
برق ديرينہ کو فرمان جگر سوزي دے
قوم آوارہ عناں تاب ہے پھر سوئے حجاز
لے اڑا بلبل بے پر کو مذاق پرواز
مضطرب باغ کے ہر غنچے ميں ہے بوئے نياز
تو ذرا چھيڑ تو دے، تشنہء مضراب ہے ساز
نغمے بے تاب ہيں تاروں سے نکلنے کے ليے
طور مضطر ہے اسي آگ ميں جلنے کے ليے
مشکليں امت مرحوم کي آساں کر دے
مور بے مايہ کو ہمدوش سليماں کر دے
جنس ناياب محبت کو پھر ارزاں کر دے
ہند کے دير نشينوں کو مسلماں کر دے
جوئے خوں مي چکد از حسرت ديرينہء ما
مي تپد نالہ بہ نشتر کدہ سينہ ما
بوئے گل لے گئي بيرون چمن راز چمن
کيا قيامت ہے کہ خود پھول ہيں غماز چمن !
عہد گل ختم ہوا ٹوٹ گيا ساز چمن
اڑ گئے ڈاليوں سے زمزمہ پرواز چمن
ايک بلبل ہے کہ ہے محو ترنم اب تک
اس کے سينے ميں ہے نغموں کا تلاطم اب تک
قمرياں شاخ صنوبر سے گريزاں بھي ہوئيں
پےتاں پھول کي جھڑ جھڑ کے پريشاں بھي ہوئيں
وہ پراني روشيں باغ کي ويراں بھي ہوئيں
ڈالياں پيرہن برگ سے عرياں بھي ہوئيں
قيد موسم سے طبيعت رہي آزاد اس کي
کاش گلشن ميں سمجھتا کوئي فرياد اس کي!
لطف مرنے ميں ہے باقي ، نہ مزا جينے ميں
کچھ مزا ہے تو يہي خون جگر پينے ميں
کتنے بے تاب ہيں جوہر مرے آئينے ميں
کس قدر جلوے تڑپتے ہيں مرے سينے ميں
اس گلستاں ميں مگر ديکھنے والے ہي نہيں
داغ جو سينے ميں رکھتے ہوں ، وہ لالے ہي نہيں
چاک اس بلبل تنہا کي نوا سے دل ہوں
جاگنے والے اسي بانگ درا سے دل ہوں
يعني پھر زندہ نئے عہد وفا سے دل ہوں
پھر اسي بادہء ديرينہ کے پياسے دل ہوں
عجمي خم ہے تو کيا ، مے تو حجازي ہے مري
نغمہ ہندي ہے تو کيا ، لے تو حجازي ہے مري!
~~~~~~~~~~~~
جواب شکوہ
دل سے جو بات نکلتی ہے اثر رکھتی ہے
پر نہيں' طاقت پرواز مگر رکھتی ہے
قدسی الاصل ہے' رفعت پہ نظر رکھتی ہے
خاک سے اٹھتی ہے ، گردوں پہ گزر رکھتی ہے
عشق تھا فتنہ گرو سرکش و چالاک مرا
آسماں چير گيا نالہ بے باک مرا
پير گردوں نے کہا سن کے' کہيں ہے کوئی
بولے سيارے' سر عرش بريں ہے کوئی
چاند کہتا تھا' نہيں! اہل زميں ہے کوئی
کہکشاں کہتی تھی' پوشيدہ يہيں ہے کوئی
کچھ جو سمجھا مرے شکوے کو تو رضواں سمجھا
مجھے جنت سے نکالا ہوا انساں سمجھا
تھی فرشتوں کو بھی حيرت کہ يہ آواز ہے کيا
عرش والوں پہ بھی کھلتا نہيں يہ راز ہے کيا
تا سر عرش بھی انساں کی تگ و تاز ہے کيا
آگئی خاک کی چٹکی کو بھی پرواز ہے کيا
غافل آداب سے سکان زميں کيسے ہيں
شوخ و گستاخ يہ پستی کے مکيں کيسے ہيں
اس قدر شوخ کہ اللہ سے بھی برہم ہے
تھا جو مسجود ملائک' يہ وہی آدم ہے
عالم کيف ہے' دانائے رموز کم ہے
ہاں مگر عجز کے اسرار سے نامحرم ہے
ناز ہے طاقت گفتار پہ انسانوں کو
بات کرنے کا سليقہ نہيں نادانوں کو
آئی آواز' غم انگيز ہے افسانہ ترا
اشک بے تاب سے لبريز ہے پيمانہ ترا
آسماں گير ہوا نعرئہ مستانہ ترا
کس قدر شوخ زباں ہے دل ديوانہ ترا
شکر شکوے کو کيا حسن ادا سے تو نے
ہم سخن کر ديا نبدوں کو خدا سے تو نے
ہم تو مائل بہ کرم ہيں' کوئی سائل ہی نہيں
راہ دکھلائيں کسے' رہر و منزل ہی نہيں
تربيت عام تو ہے' جوہر قابل ہی نہيں
جس سے تعمير ہو آدم کی' يہ وہ گل ہی نہيں
کوئی قابل ہو تو ہم شان کئی ديتے ہيں
ڈھونڈنے والوں کو دنيا بھی نئی ديتے ہيں
ہاتھ بے زور ہيں' الحاد سے دل خوگر ہيں
امتی باعث رسوائی پيغمبر ہيں
بت شکن اٹھ گئے' باقی جو رہے بت گر ہيں
تھا براہيم پدر اور پسر آزر ہيں
بادہ آشام نئے ، بادہ نيا' خم بھی نئے
حرم کعبہ نيا' بت بھی نئے' تم بھی نئے
وہ بھی دن تھے کہ يہی مايہ رعنائی تھا
نازش موسم گل لالہ صحرائی تھا
جو مسلمان تھا' اللہ کا سودائی تھا
کبھی محبوب تمھارا يہی ہرجائی تھا
کسی يکجائی سے اب عہد غلامی کر لو
ملت احمد مرسل کو مقامی کو لو
کس قدر تم پہ گراں صبح کی بيداری ہے
ہم سے کب پيار ہے! ہاں نيند تمھيں پياری ہے
طبع آزاد پہ قيد رمضاں بھاری ہے
تمھی کہہ دو يہی آئين و فاداری ہے؟
قوم مذہب سے ہے' مذہب جو نہيں' تم بھی نہيں
جذب باہم جو نہيں' محفل انجم بھی نہيں
جن کو آتا نہيں دنيا ميں کوئی فن' تم ہو
نہيں جس قوم کو پروائے نشيمن، تم ہو
بجلياں جس ميں ہوں آسودہ' وہ خرمن تم ہو
بيچ کھاتے ہيں جو اسلاف کے مدفن، تم ہو
ہو نکو نام جو قبروں کی تجارت کرکے
کيا نہ بيچو گے جو مل جائيں صنم پتھر کے
صفحہ دہرئے سے باطل کو مٹايا کس نے؟
نوع انساں کو غلامی سے چھڑايا کس نے؟
ميرے کعبے کو جبينوں سے بسايا کس نے؟
ميرے قرآن کو سينوں سے لگايا کس نے؟
تھے تو آبا وہ تھارے ہی' مگر تم کيا ہو
ہاتھ پر ہاتھ دھرے منتظر فردا ہو
کيا کہا ! بہر مسلماں ہے فقط وعدہ حور
شکوہ بے جا بھی کرے کوئی تو لازم ہے شعور
عدل ہے فاطر ہستی کا ازل سے دستور
مسلم آئيں ہوا کافر تو ملے حور و قصور
تم ميں حوروں کا کوئی چاہنے والا ہی نہيں
جلوئہ طور تو موجود ہے' موسی ہی نہيں
منفعت ايک ہے اس قوم کی' نقصان بھی ايک
ايک ہی سب کا نبی' دين بھی' ايمان بھی ايک
حرم پاک بھی' اللہ بھی' قرآن بھی ايک
کچھ بڑی بات تھی ہوتے جو مسلمان بھی ايک
فرقہ بندی ہے کہيں اور کہيں ذاتيں ہيں
کيا زمانے ميں پنپنے کی يہي باتيں ہيں
کون ہے تارک آئين رسول مختار؟
مصلحت وقت کی ہے کس کے عمل کا معيار؟
کس کی آنکھوں ميں سمايا ہے شعار اغيار؟
ہوگئی کس کی نگہ طرز سلف سے بيزار؟
قلب ميں سوز نہيں' روح ميں احساس نہيں
کچھ بھی پيغام محمد کا تمھيں پاس نہيں
جاکے ہوتے ہيں مساجد ميں صف آرا' تو غريب
زحمت روزہ جو کرتے ہيں گوارا ، تو غريب
نام ليتا ہے اگر کوئی ہمارا' تو غريب
پردہ رکھتا ہے اگر کوئی تمھارا' تو غريب
امرا نشہ دولت ميں ہيں غافل ہم سے
زندہ ہے ملت بيضا غربا کے دم سے
واعظ قوم کی وہ پختہ خيالی نہ رہی
برق طبعی نہ رہی، شعلہ مقالی نہ رہی
رہ گئی رسم اذاں روح بلالی نہ رہی
فلسفہ رہ گيا ، تلقين غزالی نہ رہی
مسجديں مرثيہ خواں ہيں کہ نمازی نہ رہے
يعنی وہ صاحب اوصاف حجازی نہ رہے
شور ہے، ہو گئے دنيا سے مسلماں نابود
ہم يہ کہتے ہيں کہ تھے بھی کہيں مسلم موجود
وضع ميں تم ہو نصاری تو تمدن ميں ہنود
يہ مسلماں ہيں! جنھيں ديکھ کے شرمائيں يہود
يوں تو سيد بھی ہو، مرزا بھی ہو، افغان بھی ہو
تم سبھی کچھ ہو ، بتائو تو مسلمان بھی ہو
دم تقرير تھی مسلم کی صداقت بے باک
عدل اس کا تھا قوی، لوث مراعات سے پاک
شجر فطرت مسلم تھا حيا سے نم ناک
تھا شجاعت ميں وہ اک ہستی فوق الادراک
خود گدازی نم کيفيت صہبايش بود
خالی از خويش شدن صورت مينايش بود
ہر مسلماں رگ باطل کے ليے نشتر تھا
اس کے آئينۂ ہستی ميں عمل جوہر تھا
جو بھروسا تھا اسے قوت بازو پر تھا
ہے تمھيں موت کا ڈر، اس کو خدا کا ڈر تھا
باپ کا علم نہ بيٹے کو اگر ازبر ہو
پھر پسر قابل ميراث پدر کيونکر ہو
ہر کوئی مست مے ذوق تن آسانی ہے
تم مسلماں ہو! يہ انداز مسلمانی ہے
حيدری فقر ہے نے دولت عثمانی ہے
تم کو اسلاف سے کيا نسبت روحانی ہے؟
وہ زمانے ميں معزز تھے مسلماں ہو کر
اور تم خوار ہوئے تارک قرآں ہو کر
تم ہو آپس ميں غضب ناک، وہ آپس ميں رحيم
تم خطاکار و خطابيں، وہ خطا پوش و کريم
چاہتے سب ہيں کہ ہوں اوج ثريا پہ مقيم
پہلے ويسا کوئی پيدا تو کرے قلب سليم
تخت فغفور بھی ان کا تھا، سرير کے بھی
يونہی باتيں ہيں کہ تم ميں وہ حميت ہے بھی؟
خودکشی شيوہ تمھارا، وہ غيور و خود دار
تم اخوت سے گريزاں، وہ اخوت پہ نثار
تم ہو گفتار سراپا، وہ سراپا کردار
تم ترستے ہو کلی کو، وہ گلستاں بہ کنار
اب تلک ياد ہے قوموں کو حکايت ان کی
نقش ہے صفحہ ہستی پہ صداقت ان کی
مثل انجم افق قوم پہ روشن بھی ہوئے
بت ہندی کی محبت ميں برہمن بھی ہوئے
شوق پرواز ميں مہجور نشيمن بھی ہوئے
بے عمل تھے ہی جواں ، دين سے بدظن بھی ہوئے
ان کو تہذيب نے ہر بند سے آزاد کيا
لا کے کعبے سے صنم خانے ميں آباد کيا
قيس زحمت کش تنہائی صحرا نہ رہے
شہر کی کھائے ہوا ، باديہ پيما نہ رہے
وہ تو ديوانہ ہے، بستی ميں رہے يا نہ رہے
يہ ضروری ہے حجاب رخ ليلا نہ رہے
گلہ جور نہ ہو ، شکوئہ بيداد نہ ہو
عشق آزاد ہے ، کيوں حسن بھی آزاد نہ ہو
عہد نو برق ہے ، آتش زن ہر خرمن ہے
ايمن اس سے کوئی صحرا نہ کوئی گلشن ہے
اس نئی آگ کا اقوام کہن ايندھن ہے
ملت ختم رسل شعلہ بہ پيراہن ہے
آج بھی ہو جو براہيم کا ايماں پيدا
آگ کر سکتی ہے انداز گلستاں پيدا
ديکھ کر رنگ چمن ہو نہ پريشاں مالی
کوکب غنچہ سے شاخيں ہيں چمکنے والی
خس و خاشاک سے ہوتا ہے گلستاں خالی
گل بر انداز ہے خون شہدا کی لالی
رنگ گردوں کا ذرا ديکھ تو عنابی ہے
يہ نکلتے ہوئے سورج کی افق تابی ہے
امتيں گلشن ہستی ميں ثمر چيدہ بھی ہيں
اور محروم ثمر بھی ہيں، خزاں ديدہ بھی ہيں
سينکڑوں نخل ہيں، کاہيدہ بھی، باليدہ بھی ہيں
سينکڑوں بطن چمن ميں ابھی پوشيدہ بھی ہيں
نخل اسلام نمونہ ہے برومندی کا
پھل ہے يہ سينکڑوں صديوں کی چمن بندی کا
پاک ہے گرد وطن سے سر داماں تيرا
تو وہ يوسف ہے کہ ہر مصر ہے کنعاں تيرا
قافلہ ہو نہ سکے گا کبھی ويراں تيرا
غير يک بانگ درا کچھ نہيں ساماں تيرا
نخل شمع استي و درشعلہ دود ريشہ تو
عاقبت سوز بود سايہ انديشہ تو
تو نہ مٹ جائے گا ايران کے مٹ جانے سے
نشہ مے کو تعلق نہيں پيمانے سے
ہے عياں يورش تاتار کے افسانے سے
پاسباں مل گئے کعبے کو صنم خانے سے
کشتی حق کا زمانے ميں سہارا تو ہے
عصر نو رات ہے، دھندلا سا ستارا تو ہے
ہے جو ہنگامہ بپا يورش بلغاری کا
غافلوں کے ليے پيغام ہے بيداری کا
تو سمجھتا ہے يہ ساماں ہے دل آزاری کا
امتحاں ہے ترے ايثار کا، خود داری کا
کيوں ہراساں ہے صہيل فرس اعدا سے
نور حق بجھ نہ سکے گا نفس اعدا سے
چشم اقوام سے مخفی ہے حقيقت تيری
ہے ابھی محفل ہستی کو ضرورت تيری
زندہ رکھتی ہے زمانے کو حرارت تيری
کوکب قسمت امکاں ہے خلافت تيری
وقت فرصت ہے کہاں، کام ابھی باقی ہے
نور توحيد کا اتمام ابھی باقی ہے
مثل بو قيد ہے غنچے ميں، پريشاں ہوجا
رخت بردوش ہوائے چمنستاں ہوجا
ہے تنک مايہ تو ذرے سے بياباں ہوجا
نغمہ موج سے ہنگامۂ طوفاں ہوجا
قوت عشق سے ہر پست کو بالا کر دے
دہر ميں اسم محمد سے اجالا کر دے
ہو نہ يہ پھول تو بلبل کا ترنم بھی نہ ہو
چمن دہر ميں کليوں کا تبسم بھی نہ ہو
يہ نہ ساقی ہو تو پھرمے بھی نہ ہو، خم بھی نہ ہو
بزم توحيد بھی دنيا ميں نہ ہو، تم بھی نہ ہو
خيمہ افلاک کا استادہ اسی نام سے ہے
نبض ہستی تپش آمادہ اسی نام سے ہے
دشت ميں، دامن کہسار ميں، ميدان ميں ہے
بحر ميں، موج کی آغوش ميں، طوفان ميں ہے
چين کے شہر، مراقش کے بيابان ميں ہے
اور پوشيدہ مسلمان کے ايمان ميں ہے
چشم اقوام يہ نظارہ ابد تک ديکھے
رفعت شان 'رفعنالک ذکرک' ديکھے
مردم چشم زميں يعني وہ کالی دنيا
وہ تمھارے شہدا پالنے والی دنيا
گرمی مہر کی پروردہ ہلالی دنيا
عشق والے جسے کہتے ہيں بلالی دنيا
تپش اندوز ہے اس نام سے پارے کی طرح
غوطہ زن نور ميں ہے آنکھ کے تارے کی طرح
عقل ہے تيری سپر، عشق ہے شمشير تری
مرے درويش! خلافت ہے جہاں گير تری
ماسوی اللہ کے ليے آگ ہے تکبير تری
تو مسلماں ہو تو تقدير ہے تدبير تری
کی محمد ﷺ سے وفا تو نے تو ہم تيرے ہيں
يہ جہاں چيز ہے کيا، لوح و قلم تيرے ہيں
Reconstruction of Religious Thought in Islam >>>>
روحانی تجربہ کے مکشوفات کی عقلی جانچ
تصور خدا اور عبادت کا مفہوم
اسانی نفس اس آزادی اور سرمدیت
اسلام میں اصول حرکت (اجتہاد)