Featured Post

FrontPage صفحہ اول

Salaam Pakistan  is one of projects of  "SalaamOne Network" , to provide information and intellectual resource with a view to...

Islamic or secular constitution of Pakistan آیین پاکستان سیکولر ہے یا اسلامی ؟



.ووٹرز کو نااہل شخص کے انتخاب کا اختیار حاصل ہے: 
لاہور ہائی کورٹ کے چیف جسٹس سید منصور علی شاہ کا کہنا ہے کہ ووٹرز کو اختیار ہے کہ وہ انتخابات میں حق رائے دہی کے تحت کسی بھی نااہل اور نادہندہ شخص کو منتخب کر سکتے ہیں۔
خیال رہے کہ پاکستان عوامی تحریک (پی اے ٹی) اور دیگر افراد کی جانب سے لاہور ہائی کورٹ میں درخواست جمع کرائی گئی تھی جس میں استدعا کی گئی تھی کہ الیکشن ایکٹ 2017 کی شق نمبر 203 اور 232 کو ختم کیا جائے اور الیکشن کمیشن آف پاکستان (ای سی پی) کو نواز شریف کے پارٹی صدر بننے کا نوٹیفکیشن جاری کرنے سے روکا جائے۔
عدالت عالیہ کے چیف جسٹس سید منصور علی شاہ نے الیکشن ایکٹ 2017 کے خلاف دائر ان مختلف درخواستوں پر سماعت کی۔
سماعت کے دوران ایک درخواست گزار کے وکیل نے سوال اٹھایا کہ الیکشن ایکٹ 2017، سپریم کورٹ کی جانب سے پاناما پیپرز کیس میں نااہل ہونے کے باوجود نواز شریف کے لیے اپنی پارٹی کا سربراہ بننے کی راہ ہموار کر رہا ہے جس کے جواب میں جسٹس سید منصور نے کہا کہ کسی بھی جمہوری نظام میں عوامی رائے کا فیصلہ سب سے بڑا ہوتا ہے۔
جسٹس منصور علی شاہ کا مزید کہنا تھا کہ آئین پاکستان تمام شہریوں کو بااختیار بناتا ہے کہ وہ اپنی مرضی کے تحت کسی بھی شخص کو منتخب کر سکتے ہیں، چاہے وہ کسی بھی طرح کا نادہندہ ہو یا پھر نااہل درخواست گزار کے وکیل اشتیاق احمد چوہدری نے عدالت میں دلائل دیتے ہوئے کہا کہ الیکشن ایکٹ کی یہ شقیں بد نیتی پر مشتمل ہیں جو ایک نااہل شخص کو فائدہ فراہم کرتی ہیں تاہم عدالت اپنے اختیارات کا استعمال کرتے ہوئے ان ترامیم پر نظر ثانی کرے اور انہیں ختم کرائے۔
جس پر چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ آئین کا آرٹیکل 17 تمام شہریوں کو ملکی سالمیت کے مفادات میں قانون کی جانب سے لگائی گئی مناسب پابندیوں سے مشروط ایسوسی ایشنز یا یونین بنانے کا حق فراہم کرتا ہے اور آئین یا الیکشن ایکٹ میں یہ نہیں لکھا ہوا کہ ایک نادہندہ اور نااہل شخص کوئی سیاسی جماعت نہیں بنا سکتا۔
درخواست گزار کے وکیل نے عدالت کے سامنے کہا کہ انتہائی تعجب کی بات ہے کہ ایک شخص کو کرپشن کیسز میں ملک کی اعلیٰ عدالت نے نااہل قرار دے دیا لیکن وہ پھر بھی اپنی پارٹی کا سربراہ بنا ہوا ہے۔
جس پر جسٹس سید منصور علی شاہ کا کہنا تھا کہ یہ غیر اخلاقی ہو سکتا ہے تاہم اس کا فیصلہ عدالت کرے گی، لہٰذا عدالت کو قانونی بنیاد کے بجائے اخلاقی بنیادوں پر فیصلہ کرنے پر مجبور نہ کیا جائے۔
اپنے موقف پر قائم رہتے ہوئے ایڈووکیٹ اشتیاق احمد چوہدری کا کہنا تھا کہ پارلیمنٹ کے ایسے اقدامات کو عدالتوں سے ہو کر گزرنا چاہیے ورنہ کوئی بھی دہشت گرد یا پھر مجرم اپنی پارٹی قائم کرلے گا جس پر چیف جسٹس نے وکیل کو تجویز پیش کرتے ہوئے کہا کہ اس معاملے کو پارلیمنٹ میں لے جائیں جبکہ اخلاقی اقدار کے نام پر اس معاملے میں عدالتوں کو نہ گھسیٹیں۔
ڈپٹی اٹارنی جنرل نصر مرزا وفاقی حکومت کی نمائندگی کر رہے تھے، جنہوں نے عدالت سے استدعا کی کہ اسی طرح کی ایک پٹیشن سپریم کورٹ میں بھی زیرِ سماعت ہے لہٰذا اسے خارج کیا جائے۔
تاہم چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ نے وکلاء کو دیگر ممالک کے الیکشن قوانین کا مطالعہ کرنے کا حکم دیتے ہوئے سماعت کو 14 نومبر تک ملتوی کردیا۔
https://www.dawnnews.tv/news/1066722/
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
پاکستان کا 1973؁ کا آئین اسلامی ہے لیکن صرف دکھاوے کی حد تک؛ کیونکہ اس کی اہم ترین اسلامی شقوں کی خلاف ورزی کی جاتی ہے یا پھر ان پر محدود حد تک عمل درآمد کیا جا رہا ہے۔

اسلامی شقوں کا نفاذ کبھی نہیں کیا گیا بلکہ ان کی مسلسل خلاف ورزی کی جاتی رہی ہے۔

آئین کے آرٹیکل ایک کے مطابق ملک کا نام ’’اسلامی جمہوریہ پاکستان‘‘ ہے۔ آرٹیکل 2؍ کے مطابق اسلام پاکستان کا مملکتی مذہب ہوگا۔ 

آرٹیکل 2؍ اے کے تحت قرارداد مقاصد کو آئین کا اہم ترین حصہ بنایا گیا ہے۔ یہی قرارداد مقاصد آئین کے ابتدائیہ میں شامل ہے۔ اس میں کہا گیا ہے کہ چونکہ اللہ تبارک و تعالیٰ ہی پوری کائنات کا بلا شرکت غیرے حاکم مطلق ہے اور یہ بھی عزم ظاہر کیا گیا ہے کہ مسلمانوں کو انفرادی اور اجتماعی حلقہ ہائے عمل میں اس قابل بنایا جائے گا کہ وہ اپنی زندگی کو اسلامی تعلیمات کے مطابق، جس طرح قرآن اور سنت میں ان کا تعین کیا گیا ہے، ترتیب دے سکیں-

آئین کے آرٹیکل 31؍ کا تعلق ’’اسلامی طریق زندگی کے متعلق ہے۔ اس میں اسلامی طرز زندگی کے متعلق بتایا گیا ہے:

(ا) پاکستان کے مسلمانوں کو، انفرادی اور اجتماعی طور پر، اپنی زندگی اسلام کے بنیادی اصولوں اور اساسی تصورات کے مطابق مرتب کرنے کے قابل بنانے کیلئے اور انہیں ایسی سہولتیں مہیا کرنے کیلئے اقدامات کیے جائیں گے جن کی مدد سے وہ قرآن پاک اور سنت کے مطابق زندگی کا مفہوم سمجھ سکیں۔
۲) پاکستان کے مسلمانوں کے بارے میں مملکت مندرجہ ذیل کیلئے کوشش کرے گی: 

(الف) قرآن پاک اور اسلامیات کی تعلیم کو لازمی قرار دینا، عربی زبان سیکھنے کی حوصلہ افزائی کرنا اور اس کیلئے سہولت بہم پہنچانا اور قرآن پاک کی صحیح اور من و عن طباعت اور اشاعت کا اہمتام کرنا؛ 

(ب) اتحاد اور اسلامی اخلاقی معیاروں کی پابندی کو فروغ دینا اور

(ج) زکواۃ [عشر] اوقاف اور مساجد کی باقاعدہ تنظیم کا اہتمام کرنا۔ آرٹیکل 37 

(ز) میں وعدہ کیا گیا ہے کہ سماجی سطح پر انصاف فراہم کیا جائے گا اور معاشرے سے برائیاں ختم کی جائیں گی اور عصمت فروشی، قمار بازی، ضرر رساں ادویات کے استعمال، فحش ادب اور اشتہارات کی طباعت، نشر و اشاعت کی روک تھام کی جائے گی۔ 

آرٹیکل 37 (ح) میں کہا گیا ہے کہ نشہ آور مشروبات کے استعمال کی، سوائے اس کے کہ وہ طبی اغراض کیلئے یا غیر مسلموں کی صورت میں مذہبی اغراض کیلئے ہو، روک تھام کرے گی۔

آرٹیکل 38 (و) میں لکھا ہے کہ ربائ کو جتنی جلد ممکن ہو ریاست اسے ختم کرے گی۔ 

آرٹیکل 42 (ب) میں کہا گیا ہے کہ ملک کا صدر مملکت مسلمان ہوگا۔

آرٹیکل 62؍ میں سینیٹ اور قومی اسمبلی کے ارکان اور صوبائی اسمبلی کے ارکان کے طور پرمنتخب ہونے کیلئے شرائط بتائی گئی ہیں۔ 62(د) میں بتایا گیا ہے کہ ایسا شخص اچھے کردار کا حامل ہو اور عام طور پر احکام اسلام سے انحراف کیلئے مشہور نہ ہو۔ (ہ) وہ اسلامی تعلقات کا خاطر خواہ علم رکھتا ہو اور اسلام کے مقرر کردہ فرائض کا پابند نیز کبیرہ گناہوں سے مجتنب ہو۔ (و) وہ سمجھدار اور پارسا ہو اور فاسق نہ ہو اور ایماندار اور امین ہو ، کسی اخلاقی پستی میں ملوث ہونے یا جھوٹی گواہی دینے کے جرم میں سزا یافتہ نہ ہو، اس نے قیام پاکستان کے بعد ملک کی سالمیت کے خلاف کام نہ کیا ہو یا نظریہ پاکستان کی مخالفت نہ کی ہو۔

آرٹیکل 91 (۳) میں لکھا ہے کہ وزیراعظم کو قومی اسمبلی کا مسلم رکن ہونا چاہئے۔ آرٹیکل 203 (۳) میں وفاقی شریعت کورٹ کے قیام کی بات کی گئی ہے۔ 

آرٹیکل 227؍ میں یقین دہانی کرائی گئی ہے کہ تمام موجودہ قوانین کو قرآن پاک اور سنت کے منضبط اسلامی احکام کے مطابق بنایا جائے گا اور ایسا کوئی قانون وضع نہیں کیا جائے گا جو مذکورہ احکام کے منافی ہو۔ 

آرٹیکل 228؍ میں اسلامی نظریاتی کونسل کے قیام کی بات کی گئی ہے جس کا کام موجودہ قوانین میں تبدیلی لا کر انہیں اسلامی بنانا ہوگا اور پارلیمنٹ اور صوبائی اسمبلیوں سے ایسے ذرائع اور وسائل کی سفارش کرنا وہگا جن سے پاکستان کے مسلمانوں کو اپنی زندگیاں انفرادی اور اجتماعی طور پر ہر لحاظ سے اسلام کے ان اصولوں اور تصوارت کے مطابق ڈھالنے کی ترغیب ملے جن کا قرآن پاک اور سنت میں تعین کیا گیا ہے۔

آرٹیکل 260 (۳) اے میں بتایا گیا ہے کہ ’’مسلم‘‘ سے مراد کوئی ایسا شخص جو وحدت اور توحید قادر مطلق اللہ تبارک و تعالیٰ، خاتم النبین حضرت محمد ﷺ کی ختم نبوت پر مکمل اور غیر مشروط طور پر ایمان رکھتا ہو اور پیغمبر یا مذہبی مصلح کے طور پر کسی ایسے شخص پر نہ ایمان رکھتا ہو نہ اسے مانتا ہو جس نے حضرت محمد ﷺ کے بعد اس لفظ کے کسی بھی مفہوم یا کسی بھی تشریح کے لحاظ سے پیغمبر ہونے کا دعویٰ کیا ہو یا جو دعویٰ کرے۔ 

260 (ب) میں قادیانی اور لاہور گروپ یا پھر کوئی بھی ایسا گروپ جو خود کو احمدی کہلواتا ہے، اسے غیر مسلم قرار دیا گیا ہے۔ جدول نمبر سوم میں صدر مملکت اور وزیراعظم کے عہدوں کا حلف پیش کیا گیا ہے جس کے تحت وہ وعدہ کرتے ہیں کہ وہ مسلمان ہیں اور وحد و توحید قادر مطلق اللہ تبارک و تعالیٰ، کتب الٰہیہ، جن میں قرآن پاک خاتم الکتب ہے، نبوت حضرت محمد ﷺ بحیثیت خاتم النبین، جن کے بعد کوئی نبی نہیں ہوسکتا، روز قیامت اور قرآن پاک و سنت کی جملہ تعلیمات پر ایمان رکھتے ہیں۔ وفاقی وزراء، وزرائے مملکت، ارکان پارلیمنٹ، چیئرمین اور ڈپٹی چیئرمین سینیٹ، اسپیکر و ڈپٹی اسپیکر قومی اسمبلی، گورنر صاحبان، وزرائے اعلیٰ صاحبان اور صوبائی ارکان کابینہ بشمول غیر مسلم پر لازم ہے کہ وہ حلف اٹھائیں کہ وہ اسلامی نظریات کے تحفظ کیلئے کام کریں گے جو پاکستان کے قیام کی بنیاد ہے۔ اس میں یہ بھی وعدہ پیش کیا گیا ہے کہ اسلامی اتحاد کے فروغ کیلئے مسلم دنیا کے ساتھ تعلقات کو مضبوط بنایا جائے گا۔ آئین میں یہ بھی وعدہ کیا گیا ہے کہ اقلیتوں کیلئے مناسب قانون سازی کی جائے گی تاکہ وہ اپنے مذاہب پر عمل کرسکیں اور اپنی ثقافت کے مطابق زندگی بسر کرسکیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
قابل غور بات: 
آئین پاکستان سیکولر ہے؟ جس میں اسلام کا نام صرف عوام اور مذہبی طبقہ کو دھوکہ دینے کے لئیے استعمال کیا گیا ہے؟  اگر بد دیانت ، خائین شخص جو پارلیمنٹ کا ممبر نہیں بن سکتا مگر سیاسی پارٹی کا صدر بن کہ پارٹی اور حکومت کو کنٹرول کر سکتا ہے۔ کیا یہ قرآن و سنت اور اسلام کے مطابق ہے ؟
(آفتاب خان)

   
~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~
SalaamOneسلام  is a nonprofit e-Forum to promote peace among humanity, through understanding and tolerance of religions, cultures & other human values. The collection is available in the form of e-Books. articles, magazines, videos, posts at social media, blogs & video channels. .Explore the site English and Urdu sections at Index
علم اور افہام و تفہیم کے لئے ایک غیر منافع بخش ای فورم ہے. علم،انسانیت، مذہب، سائنس، سماج، ثقافت، اخلاقیات اورروحانیت امن کے لئے.اس فورم کو آفتاب خان،  آزاد محقق اور مصنف نے منظم کیا ہے. تحقیقی کام بلاگز، ویب سائٹ، سوشل میڈیا، میگزین، ویڈیو چننل اور برقی کتابوں کی صورت میں دستیاب ہے.اس  نیٹ ورک  کو اب تک لاکھوں افراد وزٹ کر چکے ہیں, مزید تفصیلات>>>  Page Index - Salaam One 
 ..........................................................................
 مزید پڑھیں: 
  1. مسلما نوں اور علماء کے نام کھلا خط : آج کے حالات میں مسلم معاشرہ نظریاتی  ابتری اور انحطاط کا شکار ہے. مادہ پرستی، دہشت گردی، عدم برداشت، اور جہالت انسانیت، امن اور مذھب کے لیے خطرہ بن چکے ہیں- ان حالات میں صاحب علم و ذی فہم حضرات سے ممکنہ حل کی توقع کی جا سکتی ہے. ہمارا مقصد ہے کہ آپ کی توجہ ضروری حل پذیر مسائل کی طرف مبذول کرنا ہے تاکہ جلد حل تلاش کیا جا سکے- آپ کی توجہ اور مدد سے ہم کوشش کر سکتے ہیں کہ معاشرہ کو اس  گہری دلدل سے نکال سکیں. مکمل خط اس <<< لنک پر پڑھیں>>
  2. نظریاتی اور فکری کنفیوژن اور ممکنہ حل

  3. خطبات اقبال - اسلام میں تفکر کا انداز جدید Reconstruction of Religious Thought in Islam-  http://goo.gl/lqxYuw
~ ~ ~ ~ ~ ~ ~ ~ ~ ~ ~ ~ ~ ~ ~ ~ ~  ~ ~ ~  ~
* * * * * * * * * * * * * * * * * * *

Secular or Islamic Pakistan- Jinnah & Muhammad Asad اسلامی یا سیکولر پاکستان - جناح اور محممد اسد



.محمد اسد ۔۔۔ عظیم اسلامی سکالر، مفسر قرآن ۔۔۔   علامہ اقبال کے ساتھی ، قائداعظم کا چوائس اور پاکستان کے UNO میں پہلے سفیر ,اسلامی آئین پاکستان اور قرارداد مقاصد کے محرک :

یہودیت چھوڑ کو اسلام قبول کرنے والے محمد اسد(سابق نام: لیوپولڈ ویز) جولائی 1900ء میں موجودہ یوکرین کے شہر لیویو میں پیدا ہوئے جو اس وقت آسٹرو۔ ہنگرین سلطنت کا حصہ تھا۔ بیسویں صدی میں امت اسلامیہ کے علمی افق کو جن ستاروں نے تابناک کیا ان میں جرمن نو مسلم محمد اسد کو ایک منفرد مقام حاصل ہے۔ اسد کی پیدائش ایک یہودی گھرانے میں ہوئی۔ 23 سال کی عمر میں ایک نو عمر صحافی کی حیثیت سے عرب دنیا میں تین سال گذارے اور اس تاریخی علاقے کے بدلتے ہوئے حالات کی عکاسی کے ذریعے بڑا نام پایا لیکن اس سے بڑا انعام ایمان کی دولت کی با‌زیافت کی شکل میں اس کی زندگی کا حاصل بن گیا۔ستمبر 1926ء میں جرمنی کے مشہور خیری برادران میں سے بڑے بھائی عبدالجبار خیری کے دست شفقت پر قبول اسلام کی بیعت کی اور پھر آخری سانس تک اللہ سے وفا کا رشتہ نبھاتے ہوئے اسلامی فکر کی تشکیل اور دعوت میں 66 سال صرف کرکے بالآخر 1992ء میں خالق حقیقی سے جا ملے۔
1932ء میں وہ ہندوستان آگئے اور شاعر مشرق علامہ محمد اقبال سے ملاقات کی۔ 1939ء میں وہ اس وقت شدید مسائل کا شکار ہوگئے جب برطانیہ نے انہیں دشمن کا کارندہ قرار دیتے ہوئے گرفتار کرلیا۔ محمد اسد کو 6 سال بعد، 1945ء میں رہائی ملی۔

1947ء میں قیام پاکستان کے بعد وہ پاکستان آگئے اور نئی ریاست کی نظریاتی بنیادوں کی تشکیل میں اہم کردار ادا کیا۔( قرارداد مقاصد Objective Resolution,  جو آئین پاکستان کی بنیاد بنا ، اس کے خدوخال میں آپ کی کاوش شامل ہے).

One of the first steps taken by Quaid-e-Azam Mohammad Ali Jinnah, within days of Pakistan's creation, was to establish the Department of Islamic Reconstruction (DIR) in Lahore in August 1947, with the ultimate objective “to help our community to reconstruct its life on Islamic lines.” In this regard, Jinnah appointed Asad as the DIR's first Director. The DIR was tasked by Jinnah with four primary objectives: (i) drafting of Pakistan's first Constitution; (ii) proposing the framework of Pakistan's economic system; (iii) proposing the framework of Pakistan's education system and (iv) proposing the framework of Pakistan's social system, all along Islamic lines. Asad's work at DIR, within the first months of its establishment, is famously reflected in the Objectives Resolution, which was adopted by the Constituent Assembly of Pakistan on 12 March 1949. 

Soon after the death of Quaid-e-Azam on 11 September 1948, the then Foreign Minister of Pakistan, Sir Zafarullah Khan (Qadiani)  got Asad transferred to the Foreign Ministry of Pakistan. The DIR never recovered from Asad's sudden and unexpected departure, and it was abolished not long after Asad left. Most of the DIR's record was destroyed in a mysterious fire in October 1948, only a month after Jinnah's death. Its only legacy being the Objectives Resolution.
http://www.unsecularjinnah.com/jinnah-asad-and-the-department-of-islamic-reconstruction.html
 انہیں پہلا پاکستانی پاسپورٹ جاری کیا گیا۔ بعد ازاں انہیں پاکستان کی وزارت خارجہ کے شعبہ مشرق وسطی میں منتقل کردیا گیا جہاں انہوں نے دیگر مسلم ممالک سے پاکستان کے تعلقات مضبوط کرنے کا کام بخوبی انجام دیا۔ انہوں نے 1952ء تک اقوام متحدہ میں پاکستان کے پہلے سفیر کی حیثیت سے بھی خدمات انجام دیں۔
حج بیت اللہ؛ بیت اللہ پر پہلی نظر پڑنے کے 9 دن بعد اسد کی زندگی ایک نئے موڑ پر آگئی، ایلسا خالق حقیقی سے جا ملیں۔ بعد ازاں اسد نے مکہ میں قیام کے دورانشاہ فیصل سے ملاقات کی جو اس وقت ولی عہدتھے اور بعد ازاں سعودی مملکت کے بانی شاہعبدالعزیز السعود سے ملاقات کی۔ انہوں نے مکہ ومدینہ میں 6 سال گذارے اور عربی، قرآن، حدیثاور اسلامی تاریخ کی تعلیم حاصل کی۔

محمد اسد: قیمتی ہیرا: ایک دوسرے جرمن نو مسلم ولفریڈ ہوفمین نے ان کے لئے کہا تھا کہ محمد اسد اسلام کے لئے یورپ کا تحفہ ہیں۔ جبکہ جماعت اسلامی کے بانی مولانا سید ابو الاعلی مودودی نے 1936ء میں محمد اسد کے بارے میں تاریخی جملہ لکھا تھا کہ "میرا خیال یہ ہے کہ دور جدید میں اسلام کو جتنے غنائم یورپ سے ملے ہیں ان میں یہ سب سے زیادہ قیمتی ہیرا ہے"۔

نظریات، افکار، کارنامے: محمد اسد کوئی سرگرم کارکن نہ تھے لیکن فکری اعتبار سے ان کا کارنامہ بڑا واضح ہے اور اس میں چار چیزیں نمایاں ہیں:

1۔پہلی چیز مغربی تہذیب اور یہود عیسائی روایت (Judeo-Christian Tradition) کے بارے میں ان کا واضح اور مبنی برحق تبصرہ و تجزیہ ہے۔ مغرب کی قابل قدر چیزوں کے کھلے دل سے اعتراف کے ساتھ مغربی تہذیب اور عیسائی تہذیبی روایت کی جو بنیادی خامی اور کمزوری ہے اس کا نہایت واضح ادراک اور دو ٹوک اظہار ان کا بڑا علمی کارنامہ ہے۔ مغرب کے تصور کائنات، انسان، تاریخ اور معاشرے پر ان کی گہری نظر تھی اور اسلام سے اس کے تصادم کا انہیں پورا پورا شعور اور ادراک تھا۔ وہ کسی تہذیبی تصادم کے قائل نہ تھے مگر تہذیبوں کے اساسی فرق کے بارے میں انہوں نے کبھی سمجھوتہ نہیں کیا۔

2۔وہ اسلام کے ایک مکمل دین ہونے اور اس دین کی بنیاد پر اس کی تہذیب کے منفرد اظہار کو یقینی بنانے اور دور حاضر میں اسلام کی بنیاد پر صرف انفرادی کردار ہی نہیں بلکہ وہ اجتماعی نظام کی تشکیل نو کے داعی تھے اور اپنے اس مؤقف کو دلیل اور یقین کے ساتھ پیش کرتے تھے۔ اسلام کا یہ جامع تصور ان کے فکر اور کارنامے کا دوسرا نمایاں پہلو تھا۔
3۔ان کا تیسرا کارنامہ یہ ہے کہ انہوں نے امت کے زوال کے اسباب کا گہری نظر سے مطالعہ کیا اور اس سلسلے میں جن بنیادی کمزوریوں کی نشاندہی کی ان میں تصور دین کے غبار آلود ہوجانے کے ساتھ سیرت و کردار کے فقدان، دین و دنیا کی عملی تقسیم، اجتہاد سے غفلت اور رسوم و رواج کی محکومی اور سب سے بڑھ کر قرآن و سنت سے بلاواسطہ تعلق اور استفادے کی جگہ ثانوی مآخذ پر ضرورت سے زیادہ انحصار بلکہ ان کی اندھی تقلید بھی شامل ہے۔ ان کی دعوت کا خلاصہ قرآن و سنت سے رجوع اور ان کی بنیاد پر مستقل کی تعمیر و تشکیل تھی۔
4۔محمد اسد کے کام کی اہمیت کا چوتھا پہلو دور جدید میں اسلام کے اطلاق اور نفاذ کے سلسلے میں ان کی حکمت عملی اور اس سلسلے میں تحریک پاکستان سے ان کی وابستگی اور پاکستان کے بارے میں ان کا وژن اور عملی کوششیں ہیں جو قومی تعمیر نو کے ادارے "عرفات" کے سربراہ کی حیثیت سے ان کی نگارشات، ان کی تقاریر اور پھر ان کی دو کتب Islam at the Crossroads اور Road to Mecca ہیں۔ عرفات کے زمانے میں یہ مضامین دور حاضر میں نفاذ اسلام کا وژن اور اس کے لئے واضح حکمت عملی پیش کرتے ہیں۔ چند امور پر اختلاف کے باوجود محمد اسد کی فکر اور دور جدید کی اسلامی تحریکات کی فکر میں بڑی مناسبت اور یکسانی ہے حالانکہ وہ ان تحریکوں سے کبھی بھی عملا وابستہ نہیں رہے۔
قرآن محمد اسد کی فکر کا محور رہا اور حدیث و سنت کو وہ اسلامی نشاۃ ثانیہ کی اساس سمجھتے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ اپنے تمام بڑے قیمتی مضامین کے باوصف ان کا اصل علمی کارنامہ قرآن پاک ترجمہ و تفسیر اور صحیح بخاری کے چند ابواب کا ترجمہ و تشریح ہے۔ ان کی معروف کتب میں Islam at the Crossroads، Road to Mecca اور The Principles of State and Government in Islam شامل ہیں۔
Road to Mecca علمی، ادبی اور تہذیبی ہر اعتبار سے ایک منفرد کارنامہ اور صدیوں زندہ رہنے والی سوغات ہے۔ اس کے علاوہ انہوں نے ایک کتاب This Law of Ours بھی تحریر کی۔
The Message of Quran: by Muhammad Asad : Download/ Read 
http://freebookpark.blogspot.com/2012/12/the-message-of-quran-by-muhammad-asad.html

محمد اسد۔۔"بندہ صحرائی" ۔۔ خود نوشت سوانح عمری : 
http://kitabosunnat.com/kutub-library/mohammad-asad-banda-e-sehrai

https://en.m.wikipedia.org/wiki/Muhammad_Asad
Those who declare QaideAzam to be secular are distorting history.... 
One of the first steps taken by Quaid-e-Azam Mohammad Ali Jinnah, within days of Pakistan's creation, was to establish the Department of Islamic Reconstruction (DIR) in Lahore in August 1947, with the ultimate objective “to help our community to reconstruct its life on Islamic lines.” In this regard, Jinnah appointed Asad as the DIR's first Director. The DIR was tasked by Jinnah with four primary objectives: (i) drafting of Pakistan's first Constitution; (ii) proposing the framework of Pakistan's economic system; (iii) proposing the framework of Pakistan's education system and (iv) proposing the framework of Pakistan's social system, all along Islamic lines. Asad's work at DIR, within the first months of its establishment, is famously reflected in the Objectives Resolution, which was adopted by the Constituent Assembly of Pakistan on 12 March 1949. 

Soon after the death of Quaid-e-Azam on 11 September 1948, the then Foreign Minister of Pakistan, Sir Zafarullah Khan, got Asad transferred to the Foreign Ministry of Pakistan. The DIR never recovered from Asad's sudden and unexpected departure, and it was abolished not long after Asad left. Most of the DIR's record was destroyed in a mysterious fire in October 1948, only a month after Jinnah's death. Its only legacy being the Objectives Resolution.

However, a few documents of the DIR survived and are in possession of the Government of the Punjab's Archives. One of these documents, revealed to the media by the Secretary, Archives Wing, Government of the Punjab, on 25 December 2013, is the document titled "Aims & Objects of the Department of Islamic Reconstruction by Muhammad Asad, Director, Department of Islamic Reconstruction". Here are some excerpts from the document: 

http://www.unsecularjinnah.com/jinnah-asad-and-the-department-of-islamic-reconstruction.html
~ ~ ~ ~ ~ ~ ~ ~ ~ ~ ~~ ~ ~  ~ ~ ~  ~





~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~
SalaamOneسلام  is a nonprofit e-Forum to promote peace among humanity, through understanding and tolerance of religions, cultures & other human values. The collection is available in the form of e-Books. articles, magazines, videos, posts at social media, blogs & video channels. .Explore the site English and Urdu sections at Index
علم اور افہام و تفہیم کے لئے ایک غیر منافع بخش ای فورم ہے. علم،انسانیت، مذہب، سائنس، سماج، ثقافت، اخلاقیات اورروحانیت امن کے لئے.اس فورم کو آفتاب خان،  آزاد محقق اور مصنف نے منظم کیا ہے. تحقیقی کام بلاگز، ویب سائٹ، سوشل میڈیا، میگزین، ویڈیو چننل اور برقی کتابوں کی صورت میں دستیاب ہے.اس  نیٹ ورک  کو اب تک لاکھوں افراد وزٹ کر چکے ہیں, مزید تفصیلات>>>  Page Index - Salaam One 
 ..........................................................................
 مزید پڑھیں: 
  1. مسلما نوں اور علماء کے نام کھلا خط : آج کے حالات میں مسلم معاشرہ نظریاتی  ابتری اور انحطاط کا شکار ہے. مادہ پرستی، دہشت گردی، عدم برداشت، اور جہالت انسانیت، امن اور مذھب کے لیے خطرہ بن چکے ہیں- ان حالات میں صاحب علم و ذی فہم حضرات سے ممکنہ حل کی توقع کی جا سکتی ہے. ہمارا مقصد ہے کہ آپ کی توجہ ضروری حل پذیر مسائل کی طرف مبذول کرنا ہے تاکہ جلد حل تلاش کیا جا سکے- آپ کی توجہ اور مدد سے ہم کوشش کر سکتے ہیں کہ معاشرہ کو اس  گہری دلدل سے نکال سکیں. مکمل خط اس <<< لنک پر پڑھیں>>
  2. نظریاتی اور فکری کنفیوژن اور ممکنہ حل

  3. خطبات اقبال - اسلام میں تفکر کا انداز جدید Reconstruction of Religious Thought in Islam-  http://goo.gl/lqxYuw
~ ~ ~ ~ ~ ~ ~ ~ ~ ~ ~ ~ ~ ~ ~ ~ ~  ~ ~ ~  ~
* * * * * * * * * * * * * * * * * * *