فتنہ کیا ہے؟جو بھی ہے، ہے بہت بُری شے۔ کوئی وجہ تو ہوگی کہ عالم کے پروردگار نے اسے قتل سے بھی سنگین تر قرار دیا ہے۔ [مزید اردو آخر میں ملاحضہ کریں ]
Fitna (or fitnah, pl. fitan; Arabic: فتنة , فتن: "temptation, trial; sedition, civil strife") is an Arabic word with extensive connotations of trial, affliction, or distress. A word freighted with important historical implications, it is also widely used in modern Arabic.
Persecution
Fitna as persecution appears in several of the verses commanding Muslims to fight the unbelievers (specifically referring to the Meccan polytheists who had persecuted Prophet Muhammad (pbuh) and his early followers, thus leading to the hijra). For example, in Qur'an 2:191, the command to fight is justified on the grounds that "persecution (al-fitnatu) is worse than slaying." Similarly, in Qur'an 2:193, Muslims are forbidden from fighting unbelievers around the Holy Mosque in Mecca unless the unbelievers attack first, in which case Muslims are to fight "until there is no persecution (fitnatun) and the religion is God's." The hijra is mentioned in Qur'an 16:110 as having occurred because of the persecution believers had suffered in Mecca. Other examples are Qur'an 85:10, which promises the chastisement of Hell for those who have persecuted Muslims, and Qur'an 4:101, which provides that one's daily required prayer may be shortened if, when on a journey, one fears that the unbelievers may attack if one remains in a place long enough to complete the full prayer.
Dissension/sedition
In Qur'an 3:7, the Qur'an itself is described as having "clear revelations – they are the substance of the Book – and others (which are) allegorical," and then the Qur'an characterizes those who are unsteady and who do not have firm faith as desiring dissension in the community through their pursuit of interpretations of the "allegorical" verses of the Qur'an. A set of occurrences of the root related to dissension or sedition occurs in Quran 9:47–49, where those who say they are believers, but show themselves reluctant to follow certain of God's commands, are described as seeking "sedition" among the community.
Trial
Many instances of the root as "trial" appear throughout the Qur'an. This sense of the root bears the further sense of a "tribulation" or "difficulty" in such verses as, for example: Qur'an 20:40, where Moses, after killing a man in Egypt, was "tried with a heavy trial" by being forced to flee and to live among the Midians for many years; and Qur'an 22:11, where some believers are characterized as worshipping God "upon a narrow marge," since they are happy so long as their life is relatively secure and easy, but as soon as they experience a trial, they turn away from God.
However, the root in other verses carries a sense of "trial" as simply a kind of test of a person's commitment to their faith (without necessarily implying that the testing results from something bad happening, as the sense of trial as "tribulation" might bear). For example, Qur'an 6:53 says, in part, "And even so do We try some of them by others." Things widely-recognized as good things in life may serve as trials, as Qur'an 8:28 and 64:15 make clear by describing one's own wealth and children as trials. Qur'an 39:49 also carries this sense of trial by something good; there, God's own "boon" (or "blessing") is described as a trial for certain people. Again, in Qur'an 72:14–15, God will give those idolaters who decide to "tread the right path" an abundance of good "that We may test them thereby," to see whether they will turn away from God once they have obtained his favor or whether they will be steadfast in faith.
Trials may also result from things revealed by God that some may find difficult to accept. For example, Qur'an 17:60 describes the revelation of the "Cursed Tree" as "an ordeal for mankind." Another example of this sense is Qur'an 74:31, where the number of the angels who guard the Fire has been "made a stumbling-block for those who disbelieve ... and that those in whose hearts there is disease, and disbelievers, may say: What meaneth Allah by this similitude?"
Temptation
The root also bears the sense of "temptation," as in Qur'an 57:14, where those who were hypocritical in their faith will be turned away and told by the steadfast believers, from whom they are separated, "ye tempted one another, and hesitated, and doubted, and vain desires beguiled you till the ordinance of Allah came to pass; and the deceiver deceived you concerning Allah." In Qur'an 20:90, Aaron is said to have warned the Israelites, when Moses had left them to meet with God for forty days, that the Golden Calf was only something they were being tempted by (or, in Pickthall's translation, "seduced with"). Harut and Marut warn the people of Babylon, in Qur'an 2:102, "We are only a temptation, therefore disbelieve not," although the warning proved to be ineffective for some.
Related Topics:
فتنہ کیا ہے؟جو بھی ہے، ہے بہت بُری شے۔ کوئی وجہ تو ہوگی کہ عالم کے پروردگار نے اسے قتل سے بھی سنگین تر قرار دیا ہے۔
بچپن سے علماء کی زبانی یہ سنتے آئے ہیں کہ وہ ہر فتنے کے خلاف سینہ سپر ہوگئے۔وہ اپنے اسلاف کے کارنامے بیان کرتے ہوئے فخرو انبساط کے ساتھ بتاتے ہیں کہ انہوں نے فلاں فلاں فتنوں کی سر کوبی کی۔بعض روایات ہیں جو بتاتی ہیں کہ قربِ قیامت میں فتنے اٹھ کھڑے ہوں گے۔آج بہت سے لوگ فتنے کی ٹوپی اٹھاتے اورحسب خواہش کسی کے سر پر رکھ دیتے ہیں۔اس کے بعد سارا زورِ قلم اور طاقتِ لسانی اس کی سر کوبی کے لیے وقف ہو جاتی ہے۔سوال یہ ہے کہ جس کے خلاف ساری دنیا اٹھ کھڑی ہوئی ہے، یہ فتنہ آ خر ہے کیا؟
جس اقدام سے زمین فساد سے بھر جائے‘ جو تقریر زندگی کو خطرات میں ڈا ل دے‘ جو تحریر سماج میں خوف بو دے ،جو لوگوں کے مابین فصیلیں کھڑی کر دے،وہ سب فتنہ ہیں۔یہ سر گرمیاں کسی عنوان سے بھی ہوسکتی ہیں۔تقریر کا بظاہرموضوع اصلاح ہو سکتا ہے۔تحریر ممکن ہے کہ امتِ مسلمہ کا درد لیے ہوئے ہو۔جلسہ جلوس ممکن ہے مذہبی حوالے کے ساتھ ہو،اگر اُس کا نتیجہ فساد ہے تو اسے فتنہ قرار دینے میں مجھے کوئی تردد نہیں۔آپ کی اجازت سے، میں اس فہرست میں مزیداضافہ کر تا ہوں۔ اقتدار اگر عوام میں اضطراب پید اکر رہا ہے اور ایک اعیانی طبقے کے مفادات کا محافظ ہے تو وہ بھی فتنہ ہے۔سیاسی جماعت اگر مال دار طبقے کو مواقع فراہم کر رہی ہے کہ وہ لوٹ کھسوٹ کا بازار گرم کیے رکھے اور اس طبقے کو احتساب سے محفوظ بناتی ہے تو بھی فتنہ ہے۔یہ نتیجہ ہے جو طے کرے گا کہ کیا کام فتنہ ہے اور کیا اصلاح کا سبب۔
چند سال ہوئے میرا فیصل آ بادجا نا ہوا۔ایک مجلس میں ایک صاحب ِ علم کی دینی خدمات کی تحسین ہوئی تو ایک مذہبی راہنما کو اچھا نہ لگا۔ان کی باری آئی تو انہوں نے اس شخصیت کو ایک فتنہ قرار دیا اور بطور ثبوت ان سے بعض ایسے خیالات منسوب کیے جو یقیناً فتنے کا سبب تھے۔میرے لیے یہ ایک انکشاف تھا کیونکہ میں اس صاحبِ علم کے خیالات سے پوری طرح آگاہ تھا۔سرِ مجلس میں نے ان سے گزارش کی کہ وہ میری مدد کریں اور مجھے بتائیں کہ یہ باتوں موصوف نے کہاں لکھیں یا بیان کیں جن کا انتساب،آپ نے ان کی طرف کیا۔میرے اصرار کے با وجود، وہ کوئی حوالہ نہیں دے سکے۔یہ خلوت کی کوئی مجلس نہیں تھی۔اس میں بہت سے لوگ شریک تھے۔میں آ ج تک سوچتا ہوں کہ جو لوگ اس سے پہلے اٹھ گئے اورانہوں نے مذہبی راہنماکی رائے پر اعتبار کرلیا، تو اس کذب اور اس کے نتیجے میں پیدا ہونے والے ممکنہ فتنے کا ذمہ دار کون ہے ؟ کیایہ طرزِ عمل خود فتنہ نہیں ہے؟بغیر تحقیق سنی سنائی بات کو پھیلانا اور جان بوجھ کر ایک بات کو غلط مفہوم دینا کیا فتنہ نہیں؟ان سے پوچھیے تو یہ بتائیں گے کہ وہ ایک فتنے کا تعاقب کر رہے ہیں۔ وہ اپنے ارد گرد نظر دوڑائیں تو انہیں معلوم ہو کہ فتنہ تو ان کے جلو میں چل رہا ہے۔
فتنے کا پہلا ہدف امن ہو تا ہے۔فتنہ سماج کو خوف میں مبتلا کر تا ہے۔دہشت اس کا حاصل ہے۔اصلاح کے نام پر کھڑے ہونے والوں کو سوچنا چاہیے کہ ان کانام اگر دہشت کی علامت ہے یا لوگ ان سے خوف کھانے لگے ہیں توپھر وہ صاحبانِ اصلاح میں سے نہیں۔لوگ کہتے ہیں : دنیا آج اسلام سے خوف زدہ ہے۔ میں سوچتا ہوں کیا انہوں نے کبھی اپنے اس جملے پر غور کیا؟ بطور مسلمان،یہ بات میرے لیے باعثِ تشویش ہو نی چاہیے کہ دنیا میرے مذہب سے خوف کھاتی ہے۔میری کا میابی یہ ہے کہ لوگ میرے مذہب سے امن کا پیغام لیں۔ایک مسلمان کا نام آئے تو لوگوں کو سلامتی کا احساس ہو۔ ہجرت کی شب تک،میرے رسول ﷺ تو مکہ میں امن اور سلامتی کی علامت تھے۔چند فتنہ پرورسردار تھے جو اپنے مفادات کے لیے لوگوں کو ان کے خلاف اکساتے تھے۔ورنہ ایک عام آ دمی تو ان سے محبت کرتا تھا۔وہ جانتا تھا کہ میرا مال اور میری جان اگر کسی کے پاس محفوظ ہے تو وہ یہی ہستی ہے۔آپﷺ کو اپنی سماجی ذمہ داریوں کا اتنا احساس تھا کہ تلواروں کے سائے میں رخصت ہوئے لیکن سیدنا علیؓ کو اپنے بستر پہ چھوڑا کہ بہت سی امانتیں آپ کے پاس رکھی تھیں۔ایسے رسول کی امت سے لوگ خوف کھانے لگیں تو یہ بات باعثِِ فخرنہیں، باعثِ تشویش ہو نی چاہیے۔
فتنہ ،میرا خیال ہے کہ نظریات سے نہیں، رویے سے پیدا ہوتا ہے‘ الاّ یہ کہ نظریہ تشدد کی دعوت دے۔جیسے ایک دور میں اشتراکی تحریک تھی۔ماؤ،لینن سب تشدد کو تبدیلی کے لیے ناگزیرقرار دیتے تھے۔مذہب کو بھی جب ایک انقلابی تحریک کے روپ میں پیش کیا گیا تو اس سے تشدد نے جنم لیا۔جب تک مذہب اپنے صحیح تناظر میں بیان ہو تا رہا ،اس سے امن وابستہ تھا۔بدھ مت کی مثال ہمارے سامنے ہے جس کی امن پسندی کے بارے میں دوسری رائے نہیں رہی۔اُس کے پیرو کاروں نے جب اسے حقوق کی ایک تحریک بنا یا تو برما سے تھائی لینڈ تک تشدد پھیل گیا۔تحریکیں جذبات سے کھیلتی ہیں۔اجتماعی امور میں تحریکیت نے ہمیشہ تشدد کو فروغ دیا۔ساری تحریکی شاعری دیکھ لیجیے،اشتراکیت کے نام پر ہو یااسلام کے نام پر،موت کو گلیمرائز کرتی سنائی دیتی ہے۔
پاکستانی سماج میں اقتدار، سیاست، مذہب،ہر شے فتنہ پرور ہاتھوں میں یرغمال بنتی جا رہی ہے۔یہ ایک دن میں نہیں ہوا۔اس کی ایک تاریخ ہے۔لوگوں کو ابھی تک اندازہ نہیں ہے کہ انہوں نے جو بیج بویا تھا، کیسے آج ایک تن آور درخت بن چکا جس کی جڑیں دور دور تک پھیل گئی ہیں۔گفتگو کا آہنگ تک بدل گیا ہے۔ لاؤڈ سپیکر کے با وجود ، خطیبِ شہر، معلوم ہو تا ہے کہ زبان سے نہیں پورے وجود سے کلام کر رہا ہے۔اس کے بعد تقریر میںکیسی حلاوت اور کیسی مٹھاس۔سچ یہ ہے کہ ایک مدت ہوگئی ایسی تقریر سنے جو کانوں کے لیے امن کاپیغام ہو۔ جو خطیب کانوں کو امن نہ دے سکے،وہ جانوں کو کیا امن دے گا؟اہلِ سیاست کا معاملہ بھی مختلف نہیں۔ٹی وی ٹاک شوز میں ایک دوسرے سے یوںہم کلام ہو تے ہیں کہ زبانیں ان کے قد سے لمبی ہو جا تی ہیں۔
یہ معاشرہ آج فتنے کی زد میں ہے۔فتنہ ہوگا تو امن نہیں ہو گا۔حکمران فتنہ جُو کوختم کر نا چاہتے ہیںلیکن ان عوامل کو نظر اندازکرتے ہیں جوفتنہ پیدا کرتے ہیں۔انسان مشین نہیں ہو تا۔آج چاہیں تووہ ایک معاملے میں عقل سے رجوع کرے اور دوسرے میں دل سے۔کشمیر کے معاملے میں دل سے سوچے اورجب طالبان کے بات آئے تو اپنی لگام عقل کے ہاتھ میں دے دے۔اس ملک میں بسنے والوں کوکوئی ایک راستہ دکھانا ہو گا۔سوچنے کا کام دماغ سے لینا ہے یا دل سے؟دل میں احساس پھوٹتا ہے۔ احساس قوتِ محرکہ ہے‘ لیکن حرکت کب کر نی ہے، اس کا فیصلہ دماغ نے کر نا ہے۔اس کے لیے ان لوگوں کو بدلنا ہوگا جو فتنہ پیدا کرتے ہیں۔اگر سیاست دان، خطیب ِشہر اور ادیب کا لہجہ نہیں بدلے گا توعوامی رویے کیسے بدلیں گے؟
آج یہ فتنہ آہستہ آہستہ سب کو اپنی لپیٹ میں لے چکا۔فتنہ پرور بھی اب اس کی زد میں ہیں۔آج خوف سے کوئی آزاد نہیں۔وہ بھی نہیں جو کل دوسروں کو خوف زدہ رکھتے تھے۔فساد خشکی اور تری پر پھیل چکا۔وقت ہے کہ اس فتنہ گری سے اجتماعی تو بہ کی جائے۔جب تک خطیب کے لہجے کی حلاوت نہیں لَوٹتی، فتنہ باقی رہے گا۔
By Khursheed Nadeemhttp://m.dunya.com.pk/index.php/author/khursheed-nadeem/2015-08-03