چین کے ساتھ کل 45ارب ڈالر کے انیس معاہدوں پر دستخط ہوئے۔ ان میں سے 34ارب ڈالر توانائی جبکہ 11ارب ڈالر ترقیاتی منصوبوں سے متعلق ہیں۔ توانائی کے معاہدوں میں کوئلے ‘ ہوا اور شمسی توانائی کے منصوبے شامل ہیں۔
معاہدوں کے بعد وزیراعظم کاکہنا تھا کہ بجلی آ گئی تو سمجھو سب کچھ آ گیا‘
یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ معاہدے تو ہو گئے‘ لیکن اس کے بعد کیا ہو گا؟ فرض کریں ان معاہدوں پر من و عن عمل بھی ہو جاتا ہے‘ مظفر گڑھ میں 660میگا واٹ کا پلانٹ لگ اور چل جاتا ہے‘
قائداعظم سولر پارک 900میگا واٹ بجلی دینا شروع کر دیتا ہے ‘
اسی طرح تھر کول فیلڈ میں 330میگا واٹ بجلی کا پلانٹ اپنے وقت پر پیداوار شروع کر دیتا ہے تب کیا ہو گا؟
کیا وزیراعظم کے تمام دعوے پورے ہو جائیں گے؟
اگر آپ اس کا جواب جاننا چاہتے ہیں تو آپ بجلی کی موجودہ پیداوار ‘ اسے چلانے والے سسٹم اور افسران کا جائزہ لے لیجئے‘ حقیقت واضح ہو جائے گی۔
آج چین کے ساتھ جو معاہدے ہوئے‘ یہ کوئی نئے معاہدے نہ تھے‘ ایسے ہی درجنوں معاہدے گزشتہ ادوار حکومت میں بھی ہوتے رہے لیکن ہوا کیا؟
جتنی بجلی سسٹم میں آئی ‘ اس وقت تک اتنی ہی ڈیمانڈ بڑھ گئی اور اس سے بھی زیادہ بجلی چوری‘ لائن لاسز اور کرپشن بڑھ گئی۔
گھروں میں بجلی کے میٹر لگانے سے لے کر رینٹل پاور منصوبوں تک میں کرپشن ہونے لگی۔ واپڈا‘ این ٹی ڈی سی اور بجلی کی ضلعی ڈسٹری بیوشن کمپنیوں میں نیچے سے اوپر تک ہر کوئی اپنے ہی اداروں کو نوچنے میں لگ گیا۔
نیلم جہلم پراجیکٹ جو 130ارب میں مکمل کیا جانا تھا‘ اس کی لاگت 276ارب روپے تک پہنچ گئی۔ اسی طرح نندی پور پراجیکٹ کی لاگت 27ارب سے بڑھ کر 84ارب تک جا پہنچی۔
وزیراعظم نے اس بارے میں تحقیقات کا حکم بھی دیا‘ لیکن ہوا کیا؟
جس معاملے میں بھی ہاتھ ڈالا گیا‘ سامنے سے پیپلزپارٹی نکل آئی۔ اب مسئلہ یہ تھا کہ معاملے کو کسی پار لگایا جاتا تو پیپلزپارٹی نون لیگ کے
خلاف کرپشن کی فائلیں کھول دیتی‘ دونوں جماعتیں ایک دوسرے کی ''کانی‘‘ تھیں‘ چنانچہ کسی بھی مسئلے میں کوئی بھی ایکشن نہ لیا گیا۔
نتیجہ ملک اور اس کے عوام کو بھگتنا پڑا۔ کبھی اووربلنگ کے 70ارب کے ڈاکے کی صورت میں تو کبھی آئے دن بجلی کی بڑھتی ہوئی قیمتوں کی صورت میں ۔
آپ چین کے ساتھ پاکستان کے حالیہ معاہدے کو یہ ساری صورتحال سامنے رکھ کر دیکھیں اور دل پر ہاتھ رکھ کر بتائیں کہ جو لوگ سسٹم میں موجود بجلی کو نہیں سنبھال پا رہے‘ جو لائن لاسز اور بجلی چوری کو اس وقت کنٹرول نہیں کر رہے اور جو بجلی کے محکمے چلانے والے ہزاروں افسران اور اہلکاروں کا قبلہ درست نہیں کر سکے‘ وہ چین کے ساتھ حالیہ معاہدوں سے کیا تیر مار لیں گے؟
مزید بجلی سسٹم میں لے بھی آئے تو کیا بجلی کے ان محکموں کو بھی چینی آ کر کنٹرول کریں گے؟
بجلی چوری کے چھاپے چینی وزیر اعظم ماریں گے؟
ہمارے وزیراعظم ہائوس سے لے کر پوش مارکیٹوں میں بجلی کی بچت چینی حکومت آ کر کروائے گی؟
یہ جو بجلی کے میٹر پینتیس فیصد تیز چل رہے ہیں ‘ انہیں چینی وزرا آ کر ٹھیک کریں گے؟
اووربلنگ کے ڈاکوں کی تحقیقات چین کرے گا؟
جب یہ سب کچھ ایسے ہی چلتا رہے گا تو پھر آپ چین کے ساتھ 19چھوڑ کے 19ہزار معاہدے بھی کر لیں‘ یہاں بجلی نہیں آئے گی‘ اور بجلی نہ آئی اور وہ بھی سستی بجلی‘ تو پھر کچھ بھی ٹھیک نہیں ہو گا۔خالی ڈھکوسلوںسے کام نہیں چلنے والا‘ کاش حکمرانوں کو سمجھ آ سکت
عمار چودھری dunya. Com