اوجِ کمال بھی اس کے لیے چھوٹا لفظ ہے ، وہ کمال جو سوشل میڈیا نے کر دکھایا۔ آج پاکستان ہی کے نہیں بڑے بڑے عالمی تجزیہ کار اور سیاسی فتویٰ باز بھی سوشل میڈیا کے نام سے کانپ اٹھتے ہیں۔ سوشل میڈیا نے مغرب میں اپنی تاریخ کا سب سے بڑا معجزہ بھی اسی سال برپا کیا جس کے سامنے وکی لیکس بھی ہیچ ہیں ، میری مراد اسرائیل کی غزہ پر حالیہ بربریت سے ہے ۔ سکائی نیوز، فاکس، بی بی سی اور سی این این سمیت مغرب کے بڑے میڈیا ہاؤسز نے ہمیشہ اسرائیل کے جنگی جرائم کو سینسر کیا۔ سوشل میڈیا کے دلیرانہ کردار سے پہلے فلسطینیوں پر ہر حملے میں اسرائیل جو واردات چاہتاکرگزرتا،اسے پوچھنے والا کوئی نہیں تھا۔ مجھے برطانیہ کے عالمی شہرت یافتہ تجزیہ نگار نے بتایا، اگر اسرائیل کے موقف کے خلاف ہلکی سی خبر یا کوئی بے ضرر تصویر چل جاتی تو پوری دنیا کے یہودی فون ، تار(hate mail) کے ذریعینفرت انگیز ردِ عمل کا اظہار کر کے عالمی میڈیا منیجروں کے گھٹنے ٹکواکر ناک سے لکیریں کھچواتے تھے۔
غزہ کے شہیدوں کا خونِ مسلسل رنگ لایا۔ سوشل میڈیا نے اس جنگ میں پروپیگنڈے اور ہمدردی کے عالمی محاذ پر اسرائیل کو شکست دے دی ۔ ثبوت یہ ہیں:
1۔ سویڈش وزیراعظم نے پارلیمنٹ سے خطاب کرتے ہوئے ایسا اعلان کیا جس نے اسرائیل کے مغربی حامیوں کے چھکے چھڑا دیے۔ Stephon Lofve نے کہا: فلسطین کامسئلہ حل کرنے کے لیے سویڈن بہت جلد خودمختار فلسطینی ریاست کو تسلیم کر لے گا۔ سوشل میڈیا کی سینسر شپ ماورا دنیا کی ایجاد سے پہلے کسی گورے ملک کے گورے وزیراعظم کی گوری پارلیمنٹ میں ایسے اعلان کا خواب بھی نہیں دیکھاجاسکتا تھا۔
2۔ سوشل میڈیا کی بدولت آج دنیا کے بہت سے ملکوں میں اسرائیل کے جنگی جرائم کو عالمی فوجداری عدالت میں اٹھانے کے لیے با اثر آوازیں بلند ہو رہی ہیں۔
3۔ غزہ جارحیت کے بعد کرہ ارض کے گورے براعظموں میں فلسطینیوںکی حمایت میں تاریخی جلوس نکلے۔ ان میں مغربی رائے عامہ کے لیڈروں ،انسانی حقوق کی تنظیموں اور نوجوان شرکاء کی تعداد عرب و عجم کے مسلمانوں سے ہزاروں نہیں لاکھوں گُنا زیادہ رہی۔
4 ۔ پوری دنیا کے صہیونی جَتھے اکٹھے ہوکر بھی اسرائیل کی ننگی جارحیت کے حق میں قابلِ ذکر دباؤ پیدا کر سکے نہ انہیںکہیں پذیرائی ملی۔
سوشل میڈیا نے دنیا بھر میں سرمایہ داری نظامِ کے خلاف احتجاج کی دیوارِ چین کھڑی کی۔ ہمارے بادشاہوں اور ان کے میر منشیوں کے لیے مائی باپ کا درجہ رکھنے والے آئی ایم ایف کے ہر اجلاس کا گھیراؤ ہوتا ہے۔ غریب ملکوںکا خون چوسنے والی اس عالمی ادارے کی جونکیں جہاں جاتی ہیں سوشل میڈیا وہاں احتجاج منظم کردیتا ہے۔ مغرب میں جوتے مہنگے ہونے کے باوجود اکثر احتجاجوں میں آئی ایم ایف سے'اظہارِ اُلفت‘ کے لیے ان کا استعمال عام ہے۔ عالمی بینک کی کہانی بھی اس سے مختلف نہیں ۔ اس کے ما لیاتی اوراخلاقی سکینڈل ایک طرف، دنیا کے ایسے معاشرے جہاں رائے عامہ منظم ہے وہاں آمروں، بادشاہوں اور شہزادوںکے اس پسندیدہ بینک کی دُرگت بنانے والے رضاکار ہر جگہ پہنچ جاتے ہیں، جو لاٹھی گولی کی عالمی سرکار سے یوں کہتے ہیں:
اے خاک نشینو اُٹھ بیٹھو ، وہ وقت قریب آ پہنچا ہے
جب تحت گرائے جائیں گے، جب تاج اچھالے جائیں گے
کٹتے بھی چلو، بڑھتے بھی چلو، بازو بھی بہت ہیں، سر بھی بہت
چلتے بھی چلو کہ اب ڈیرے منزل ہی پہ ڈالے جائیں گے
دنیامیں تبدیلی کی دو تازہ لہریں اٹھیں۔۔۔۔۔ پہلی Transformation کہلا سکتی ہے، یہ مسلح جدوجہد ہے۔ اس کا آغاز تیونس کی میونسپل کمیٹی کے اہلکاروں نے کیا۔ جن رشوت خوروں نے غریب کے پڑھے لکھے بچے کو سڑک پر چھابڑی لگانے سے روکا‘ ظالم سماج میں تبدیلی کی آگ سے بھر ے اس نوجوان نے پٹرول چھڑک کر خودکو نذرِ آتش کر دیا۔ پھر یہ لہر مصر سے ہوتی ہوئی لیبیااور شام پہنچی ۔اس کا تازہ چہرہ داعش ہے۔ دوسری لہر Transition سوسائٹی کا ارتقاء ہے۔ مسلم ممالک کے اقتدار پر قابض دولت کے پجاری بزدل اور لا لچی حکمران اور ٹوڈی بادشاہ اس تبدیلی سے لرز رہے ہیں۔
آہنی دیوار میں قید معاشروںمیں سوشل میڈیا نے نئی نسل میں تبدیلی کے شعلے بلند کیے۔ خلیج کے کچھ ملکوں میں عورت گاڑی نہیں چلا سکتی۔ سعودی یونیورسٹی کے دو طلباء نے 70 ء کی انقلاب آفرین دہائی میں bell fast,one way ticket to the moon ,respoteen والے بینڈ بیٹل کی ایک دھن کی پیروڈی کی ہے۔گانا تھاNo women ,No cry۔ دنیا بھر میں مشہورگانا عورتوں کے خلاف پابندی پہ یوں جوڑا گیا:No women ,No drive۔اس امیچوردُھن نے آٹھ بادشاہتوں میں تھرتھلی مچادی۔ سوشل میڈیا نہ ہوتا تو یہ جوان اپنی پچھلی دو نسلوں کی طرح غلا می کا کلچہ، پابندیوں کے دہی کے ساتھ کھا کھاکر پھولتے رہتے۔
مشرقِ وسطیٰ میں جاری ایک کے بعد دوسری اور پھر تیسری نہ ختم ہونے والی جنگ میں ہر بادشاہ سلامت کلاشنکوف، پیٹرو ڈالر اور جہاز تک جھونک چکے ہیں۔ یہ واردات بھی سوشل میڈیا پر بیٹھے نوجوانوں نے پکڑ لی؛ چنانچہ آج مڈل ایسٹ کا سب سے مقبول ترین تبصرہ یہ ہے: جنگ کے تاجر اپنی خاندانی حکمرانی بچانے کے لیے آگ اور بارود کا کھیل کھیل رہے ہیں تاکہ بڑی طاقتیں اسرائیل کے تحفظ کے نام پر خلیج میں موجود رہیں۔
آئیے،کچھ گھر کی خبر لیں! آج کاپاکستان تبدیلی کا آتش فشاں ہے۔ ایک بات کہتا چلوں، فیصلہ اب بھی ہمارے ہاتھوں میں ہے۔ تبدیلی ارتقاء والی ہو یا فنا (Destruction) والی، تبدیلی بس تبدیلی ہے۔ سٹیٹس کوکے کارندے کوئی کام نہیں کرتے۔ ان کی تعلیم بھی واجبی۔ یہ اپنے گوشواروں اور کاغذاتِ نامزدگی میں روزگارکے خانے میں ''سیاست‘‘ لکھتے ہیں ۔ وہ جلوس کو شر پسندی، نعروں کو بغاوت، جلسے کو جمہوریت دشمنی، ریلی کو آئین شکنی اور دھرنے کو غداری سمجھتے ہیں۔ ان کے چمچوں اورکڑچھوںکا حال مرزا کی صاحباں جیسا ہے جو چاہتی ہے فقیرکی وہ کٹیا جل جائے جس میں دیا روشن رہتا ہے۔گلیاں ویران اور سنسان ہو جائیں تاکہ اس میں ایک طرف صاحباں اور دوسری طرف اس کا یار مرزا گھومتا نظر آئے۔کئی خواتین و حضرات اس ذلت آمیز ندامت کو جمہوری مفاہمت کہتے ہیں۔کچھ بے روزگار بابے 80,80 سال کی عمرکے بعد بھی پاکستان کو مضبوط کرنے کے لیے اس نظام کے ذریعے غریبوں سے ویسی ہی محبت کرتے ہیں جیسا عشق دیمک لکڑی کے ساتھ کرتی ہے۔ ظاہر ہے دیمک کی معشوق لکڑی عشق کی تکمیل پر مٹی بن جاتی ہے۔ زمینی حقیقت تو یہ ہے پاکستان ایک نہیں دو ہیں۔ اب یہ مشرقی اور مغربی پاکستان نہیں بلکہ رعایا کا پاکستان اورمافیازکا پاکستان ہیں۔ رعایا کے لیے ہر روز نیا ٹیکس ہے۔ جگّا اور بھتّہ سے لے کر چولہے اور تعلیم تک ، ہر روز مزید مہنگائی ہے۔پیاز، ٹماٹر ،دھنیا اور شلجم سے لے کر دال اور جوار باجرے تک بڑے کارخانہ دار اور کاروباری مافیاز جو بجلی اورگیس سرکاری اہلکاروں کی مدد سے چوری کرتے ہیں، بل اس کا رعایا ادا کرتی ہے۔ تھانیدار،کوتوال اور چوکیدارکی تنخواہ کے کوڑے رعایاکی پیٹھ پر پڑتے ہیں جبکہ حفاظت مافیازکی ہوتی ہے۔ ہر شہرکی ہر سڑک کا کچھ نہ کچھ حصہ بند ہے۔ جہاںکوئی نہ کوئی زمینی خدا کالے ناگ کے طور پر ناکہ لگا کر بیٹھا ہے۔ ہرگلی میں نوگو ایریا ہے جہاں داخل ہونے والے خوش قسمت ہوں تو انہیں جوتے پڑتے ہیں‘ بدبخت ہوں توگولیاں ۔ ہر شاہراہ پر بڑی گاڑیاں دندناتی ہیں جو موٹر سائیکل والے کو مکھی اور چھوٹی کار والے کوکیڑا سمجھتے ہیں۔ بارش کے موسم میں یہ اپنی شان اور طاقت کے اظہارکے لیے پانی کے جوہڑ سے فراٹے بھرکرگزرتے ہیں۔ سکول کے بچے اورکالج کی لڑکیاں جب کیچڑ اورگند سے منہ صاف کرتے ہیں تو انہیں گاڑی چلانے کا مزہ آ جاتا ہے۔ زیادہ زمین کی ملکیت چند خاندانوں کے پاس ہے۔کچھ جاگیردار کئی کئی لاکھ مربع زمین کے مالک بھی ہیں۔ ایک مربع میں دو سوکنال ہوتی ہے، ایک کنال میں بیس مرلے ۔ بے زمین کاشتکار ، بے گھر ہاری ، سڑکوں پر سونے والے مزدور اور کچی آبادیوں کے مکین جانتے ہی نہیں کہ زمین یا پلاٹ کی الا ٹمنٹ کا مطلب کیا ہے؟ سوشل میڈیا بغاوت کا نام ہے، بغاوت کے بغیر سماج کبھی نہیں بدلا۔
Babar Awan