رمضان اور تصورِ مذہب
رمضان کا آغاز ہو چکا۔اس کے مظاہر ہمیں مساجد میں نظر آئیں گے یا پھرکچوریوں اور سموسوں کے لیے، دکانوں کے سامنے لگی لمبی قطاروں میں۔اس کا ظہور ہو گا مگر صرف کلچر کی سطح پر۔روزے کا مقصود تقویٰ ہے۔ کیا تقویٰ یہی کچھ ہے؟
رمضان کی دستک سنائی دیتی ہے تو گرانی بازاروں کو اپنی گرفت میں لے لیتی ہے۔عام آ دمی اس طرف کا رخ کرتے ہوئے گھبرا تا ہے۔جیسے جیسے رمضان کے دن قریب آتے ہیں،کھانے پینے کی اشیاء عوام کی پہنچ سے دور بھاگنے لگتی ہیں۔قیمتیں جیسے آ سمان کو چھوناچاہتی ہیں۔جوتاجر اس کا ذمہ دار ہے، نماز ِ تراویح کے لیے سب سے پہلی صف میں بیٹھا ہو تا ہے۔مسجد کے لیے چندہ بھی وہی سب سے زیادہ دیتا ہے۔ مدارس اسی کے دم سے آ باد ہیں۔وہ جب مسجد سے نکلتا ہے تواس کا رخ دین سے دنیا کی طرف ہو تا ہے۔وہ دکان میں بیٹھتا ہے تو اس کی نظر صرف منافع پر ہو تی ہے۔اس کی خواہش ہوتی ہے کہ سال بھر کی آ مدن اس ایک مہینے میں ہو جا ئے۔کبھی آپ نے سوچا ایسا کیوں ہو تا ہے؟
اس کا تعلق ہمارے تصور مذہب سے ہے۔اہلِ مذہب نے اس تاجر کو کچھ مصدقہ کچھ غیر مصدقہ باتیںیاد کرا دی ہیں۔ان سے وہ یہ سیکھتاہے کہ نجات کے لیے یہ لازم نہیں کہ انسان زندگی کے ہر روپ میں اور ہر دن مسلمان ہو۔وہ اگرتمام عمر میںنیکی کا کوئی ایک کام کر دیتا ہے تو یہ اس کی بخشش کے لیے کا فی ہے۔مثال کے طور پر اگراس نے اپنے ایک بچے کو قرآن مجید حفظ کرا دیا تو قیامت کے روز نہ صرف اس کی نجات ہو جا ئے گی بلکہ اسے سونے کا تاج بھی پہنا یا جا ئے گا۔یا جس نے مسجد میں ایک اینٹ لگائی، جنت میں اس کا محل بن جا ئے گا۔یہ سب باتیں، اسے مسجد کا امام اور مدرسے کا مہتمم سنا تا ہے۔اس طرح وہ یہ سمجھ لیتا ہے اس کے بعد اب وہ آزاد ہے، چاہے تو نا جائز منا فع کمائے چاہے توگناہ کا کوئی اور کام کرے۔اب وہ ایک بچہ مدرسے کے حوالے کر دیتا اور یہ خیال کرتاہے کہ بخشش کا سامان ہو گیا۔اس کا دوہرا فائدہ ہے۔ مدرسے اور تاجر کا کاروبار دن دگنی اور رات چوگنی ترقی کر رہے ہیں اور اس کے ساتھ تاجر مطمئن ہے کہ اس نے اپنی نجات کا اہتمام کر لیا۔اس وقت اگر ہمارے مدارس کا نظام قائم ہے تو اسی تاجر کے دم سے۔
مسجد کی تعمیر میں حصہ لینا بلا شبہ نیکی ہے اور اس کا اجر بھی ہے۔اسی طرح بچوں کو حافظِ قرآن بنا نا بھی نیکی ہے۔لیکن یہ نیکی کرنے کے بعد بھی،ایک انسان اپنے اعمال کے لیے اسی طرح جواب دہ رہتا ہے جس طرح وہ آدمی جس نے اپنے بیٹے کو حافظ نہیں بنا یا۔اگر وہ ناجائز منافع کماتا ہے تو اسے اس جرم کی سزا بھگتنی ہے۔قر آن مجید اس بارے میں دو اور دو چار کی طرح واضح ہے۔ اللہ کے آ خری رسول ﷺ نے بھی یہ بات سمجھا نے میںکوئی کمی نہیں چھوڑی۔ہمارے محدثین نے روایت کو پرکھنے کے باب میں یہ اصول بتا دیا کہ اگر کسی روایت میں ایک چھوٹی نیکی کا بڑا اجر یا کسی چھوٹے جرم کی بڑی سزا بتائی گئی ہے تو وہ مو ضوع ہے۔یعنی گھڑی ہوئی ہے۔ نیکیوں کے درجات ہیں اور برائیوں کے بھی۔ ایک بات البتہ واضح ہے۔اللہ تعالیٰ یہ چاہتے ہیںکہ انسان تادمِ مرگ اللہ کا بندہ بن کر جئے۔ اس کے ذمہ کچھ فرائض ہیں جو اس نے بہر صورت ادا کرنے ہیں، جیسے نماز۔یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ ایک آ دمی نماز نہ پڑھے اور یہ خیال کرے کہ چو نکہ اس نے بیٹے کو حافظ بنا دیا ہے، اس لیے قیامت کے روز سونے کا تاج اس کا حق ہو گیا۔ ایک شخص ایک کاروبار کرتے وقت کسی اخلاقی ضابطے کو کام میں نہ لائے۔یہ کیسے ممکن ہے کہ اس طر ح حا صل کی گئی دولت سے وہ رمضان دستر خوان سجا دے تو اس کی بخشش کا سامان ہو جا ئے گا۔ وہ ناجائز طریقے سے پانچ کروڑ کمائے اور پھر ایک کروڑ غریبوں پر خرچ کر کے یہ گمان کرے کہ یہ ناجائز کمائی اب جائز ہو گئی ہے۔اس نے انسانوں پر جو ظلم کیا، اس کی تلافی ہوگئی ہے۔
بد قسمتی سے اس وقت غالب تصورِ دین یہی ہے۔ایک تاجر رمضان کے مہینے میں ناجائز منافع خوری سے دو لاکھ کماتا اور پھر مسجد میں دینی تقریب کے لیے دو ہزار دے کر یہ خیال کرتا ہے کہ اس نے لوگوں کو لوٹنے کا جو جرم کیا تھا، اب معاف ہو جا ئے گا۔افسو س لوگ اس دینی بصیرت سے صرفِ نظر کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کے حقوق کے معاملے میں بہت حساس ہے۔ اللہ کی شریعت حقوق اللہ کی پامالی کو گناہ کہتی ہے لیکن جرم نہیں‘ کہ دنیا کے نظامِ تعزیرات میں اس کے لیے کوئی سزا لکھ دی گئی ہو۔ حقوق العباد کا معاملہ یہ نہیں ہے۔ اگر کسی انسان کا حق پامال ہوا تو وہ گناہ بھی ہے اور جرم بھی۔ گویادنیا میں سزا ملے گی اور آ خرت میں بھی۔پھر یہ بھی ہے کہ حقوق اللہ کی ادائیگی میں کوئی کوتاہی ہو جا ئے تو اس کی تلافی اللہ کے بندوں کے ساتھ نیکی ہے۔روزہ اللہ کا حق ہے۔ اگر چھوٹ جا ئے تو اللہ کا حکم ہے کہ ساٹھ غریبوں کو کھا نا کھلا دیا جائے۔جب غلامی کا نظام مو جود تھا تو اللہ تعالیٰ نے غلام کو آ زاد کرانے کو بہت سی کوتاہیوں کے لیے تلافی بنا دیا۔
ہم نے دین کے باب میں ترتیب کو الٹ دیا۔قرآن مجید کو روایت اور فقہ پر حاکم ہوناچاہیے تھا۔ ہم نے روایت اور فقہ کوقرآن پر حاکم بنا دیا۔ حقوق اللہ کی تلافی بندوں کی خدمت میں تھی، ہم نے حقوق العباد کی تلافی دوسری نیکیوں میں تلاش کر نا چاہی۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ مذہب اپنی روح سے خالی ہو گیا۔اکثریت کے لیے وہ چند رسوم کا مجموعہ ہے یا چند غلط فہمیوں کا۔ایک بڑی غلط فہمی کا میں نے ذکر کر دیا جو رمضان کے ساتھ ہے۔غور کیجیے تو ایسی کئی غلط فہمیاں ہیں جو ہماری زندگی کا احاطہ کئے ہو ئے ہیں۔لوگ مذہب سے الگ نہیں ہو نا چاہتے لیکن خواہش یہ رکھتے ہیں کہ وہ ان کی ضروریات، تعصبات یا خواہشات کے تابع ہو جائے۔یوں مذہب کے نام پر ایسی ایسی تعبیرات معاشرے میں مقبول ہونے لگتی ہیں جن میں سب کچھ ہو تاہے لیکن مذہب نہیں۔' ،مذہبی شخصیت‘ ہر چیز کا سراغ دیتی ہے لیکن نہیں دیتی تو پروردگار کا۔
یہ صرف پاکستان کا معاملہ نہیں، ہم مسلمانوں کا عالمگیر مسئلہ ہے۔شریعت و طریقت سے لے کرشریعت و آئین کی بحث تک،تصورِ جہاد سے تصورِ عبادت تک،مذہب تفہیمِ نو کا متقاضی ہے۔ وہ تفہیم جو قرآن مجید اور اسوۂ پیغمبر کی گہری بصیرت سے پھو ٹتی اور روحِ عصر کے مطالبات کو جانتی ہو۔رمضان میں دینی درس کے حلقے متحرک ہو جا تے ہیں۔کاش اس کا اہتمام ہو کہ یہ غورو فکر کے حلقے بن جا ئیںاوردین کے باب میں پھیلی غلط فہمیوں کا کسی حد تک ازالہ ہو۔رمضان میں لوگ یہی جان لیں کہ ناجائز منافع کمانا جرم ہے۔ یہ اللہ کے بندوں کے ساتھ ظلم ہے۔اس کی تلافی مدرسے کو چندہ دینے سے نہیں ہو سکتی۔
Khursheed Nadeem dunya.com.pk
Pages
- Home
- FrontPage
- FB
- Delusions
- Save Pakistan
- نظریہ پاکستان
- Electoral Reforms
- ووٹ کی شرعی حیثیت
- Kashmir
- Importance of Pakistan
- Love Pakistan
- Ideology of Pakistan نظریہ پاکستان
- Our Dilemma & Options
- Pak-Pedia
- One God
- Why Religion?
- Why Islam?
- Peace Forum
- Anti Islam FAQs
- Democracy, Shari'a & Khlafah
- Free eBooks
- Faith Forum
- خلافت
- Corruption
- Role of Ulema in Quran
- Reconstruction of Religious Thought
- Tolerance
- Altaf Qamar
- صرف مسلمان Muslim Only
- Free Books
- Islam & Pakistan
- Special Picks
- سلام انڈکس
Featured Post
FrontPage صفحہ اول
Salaam Pakistan is one of projects of "SalaamOne Network" , to provide information and intellectual resource with a view to...
Misunderstood Concept of sin & forgiveness
Imran Khan Speech Bahawalpur 27 June 2014 - Last Warning or Million March 14 August 2014
عمران خان کی حکومت کو ایک ماہ کی ڈیڈ لائن, 14 اگست کو لانگ مارچ کا اعلان
پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان نے الیکشن کے نتائج قبول کرنے سے انکار کر دیا، کہتے ہیں میاں صاحب! اب چار حلقے کھولنے کا وقت بھی گزر چکا ہے۔ مسلم لیگ (ن) کی حکومت کو ایک ماہ کی مہلت دیتا ہوں۔ اگر ہمارے مطالبات تسلیم نہ کئے تو 14 اگست کو اسلام آباد میں لانگ مارچ ہوگا۔بہاولپور: (دنیا نیوز) بہاولپور میں جلسہ عام سے خطاب میں پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان کا کہنا تھا ہمیں عام انتخابات کے نتائج قبول نہیں ہیں۔ انہوں نے حکومت کو ایک ماہ کی مہلت دیتے ہوئے حکومت کے سامنے اپنے مطالبات پیش کر دیئے ہیں۔ عمران خان کا کہنا تھا کہ ہماری حکومت سے پہلی ڈیمانڈ یہ ہے کہ 11 مئی کو کس نے فتح کی تقریر کروائی؟ دوسری ڈیمانڈ یہ ہے کہ الیکشن میں سابق چیف جسٹس افتخار محمد چودھری کا کیا کردار تھا؟ ہماری تیسری ڈیمانڈ یہ ہے کہ ہمیں بتایا جائے کہ 2013ء کے عام انتخابات میں نگران حکومت کا کیا کردار تھا۔ ہماری چوتھی ڈیمانڈ یہ ہے کہ ہمیں بتایا جائے کہ 35 حلقوں میں نتائج کس نے تبدیل کروائے. عمران خان نے الیکشن کمشن سے مستعفی ہونے کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا کہ اگر حکومت نے ہمارے مطالبات تسلیم نہ کئے تو تحریک انصاف کا سونامی 14 اگست کو اسلام آباد کا رُخ کرے گا۔ عمران خان کا کہنا تھا کہ مجھے اور خیبر پختونخوا حکومت کو شمالی وزیرستان میں آپریشن کے فیصلے کے بارے میں اعتماد میں نہیں لیا گیا۔ ہمیں ٹیلی ویژین کے ذریعے آپریشن ضرب عضب کا پتا چلا۔ آج دہشتگردوں کیخلاف جنگ کے باعث شمالی وزیرستان سے 5 لاکھ افراد نقل مکانی پر مجور ہیں۔ شمالی وزیرستان کے عوام پاکستان میں امن کے قیام کیلئے اپنا گھر بار چھوڑ رہے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے ہم پر ذمہ داری ڈال دی ہے کہ ہم ان مجبور اور بے سہارا بہن بھائیوں کی مدد کریں کیونکہ وہ اس وقت بڑے مشکل دور سے گزر رہے ہیں۔ آئی ڈی پیز کی مدد کرنا ہر پاکستانی کا فرض ہے۔ خیبر پختونخوا کی حکومت اور تحریک انصاف آخری دم تک شمالی وزیرستان کے آئی ڈی پیز کی مدد کرے گی۔ عمران خان کا کہنا تھا کہ وزیراعظم میاں نواز شریف شمالی وزیرستان کے مجبور عوام کے نام پر سیاست نہ کریں۔ لوگوں کی تکلیفوں پر اپنی سیاست نہ چمکائی جائے۔ میرے ساتھ وہاں تصاویر کھینچوانے کا کوئی فائدہ نہیں ہے۔ میں وزیراعظم نواز شریف کو بنوں آنے کی دعوت دوں گا۔ سانحہ ماڈل ٹائون پر بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ ماڈل ٹائون میں پولیس نے نہتے شہریوں پر گولیاں چلائیں۔ لوٹ مار کرنے والی پولیس عوام کی حفاظت کیسے کرے گی۔ جب تک پولیس غیر سیاسی نہیں ہوتی، جرم کرتی رہے گی۔ وہ وقت دور نہیں جب پنجاب پولیس کو ٹھیک کرکے دکھائوں گا۔ جلسے سے خطاب کرتے ہوئے تحریک انصاف کے رہنما شاہ محمود قریشی نے کہا کہ جلسے کے لئے سوچ سمجھ کر بہاولپور کا انتخاب کیا تھا۔ جب نوجوانوں کا جنون ہو تو کیوں نہ حکومت پریشان ہو۔ انہوں نے کہا ملک میں آج بھی مُک مُکا کی حکومت ہے. سرائیکی صوبے کے نام پر ووٹ لینے والے گیلانی دعویٰ کرتا تھا کہ سرائیکی صوبہ بنے گا. شہباز شریف کہتے تھے بہاولپور کا پرانا تشخص بحال کرائیں گے لیکن ہم بہاولپور والوں سے فریب کرنے نہیں آئے ۔ شاہ محمود قریشی نے کہا پنجاب کے کوٹے میں شمالی اور جنوبی پنجاب کا کوٹہ ہونا چاہیئے۔ ان کا یہ بھی کہنا تھا تحریک انصاف حکومت میں آئے گی تو جنوبی پنجاب کی محرومیاں دور کریں گے۔ جاوید ہاشمی نے جلسے سے خطاب کرتے ہوئے کہا بہاولپور کے عوام نے دل نکال کر عمران خان کے قدموں میں رکھ دیا۔ ان کا یہ بھی کہنا تھا ن لیگ اور پیپلز پارٹی نے خطے کو 50 سال تک دھوکہ دیا۔ جاوید ہاشمی نے کہا عمران خان جنوبی پنجاب کی امیدوں کے چراغ ہیں۔
http://AftabKhan.blog.com
* * * * * * * * * * * * * * * * * * *...
Political stability & Pakistan
http://AftabKhan.blog.com
* * * * * * * * * * * * * * * * * * *...
Revolution Pakistani style. ہمارے بھی انقلاب
ہمارے بھی انقلاب
نئی صدی میں انقلاب کا تحفہ قدرت کی مہربانیوں کی نشانی ہے۔ گزشتہ پوری صدی میں‘ اتنے انقلابات نہیں آئے‘ جتنے چودہ سال کے اندر پاکستان میں متعارف ہو چکے ہیں۔ ماضی میں دیکھیں تو گزشتہ پوری صدی کے انقلابات انگلیوں پر گنے جا سکتے ہیں‘ انقلاب روس‘ انقلاب چین۔ کچھ ننھے منے انقلاب‘ جیسے انقلاب ویت نام‘ انقلاب کیوبا۔ باقی ملکوں میں انقلاب انقلاب کھیلے ضرور گئے لیکن یہ سیاسی نابالغوں کا شوق تھا۔ جس جنرل نے اقتدار پر قبضہ کیا‘ اس نے اپنے فعل کو انقلاب قرار دے دیا۔ ایک انقلاب کرنل ناصر کا تھا‘ ایک صدام حسین کا‘ ایک کرنل قذافی کا‘ جو مائوزے تنگ کو اپنے سامنے طفل مکتب سمجھا کرتے تھے۔ مائو کی ریڈ بک کے مقابلے میں قذافی صاحب نے اپنی گرین بک شائع کی۔ وہ بڑے فخر سے لوگوں کو بتایا کرتے تھے کہ ''فلسفہ انقلاب پڑھنا ہو تو اس کتاب میں ملے گا‘‘۔ گزشتہ صدی میں پاکستان بھی انقلابات سے محروم نہیں رہا۔ یہاں جنرل ایوب خان نے آئین ختم کر کے‘ ایک انقلاب برپا کر دیا تھا۔ انہی کی زندگی میں ذوالفقار علی بھٹو نے اپنے انقلاب کا آغاز کیا اور آخر جیل میں بیٹھ کر لکھی گئی کتاب میں‘ اعتراف کیا کہ وہ اپنے انقلاب کے راستے سے بھٹک گئے تھے‘ جو ان کی ناکامی کی وجہ بنا۔ باقی ننھے منے انقلاب تو گلی گلی ناچتے گاتے نظر آیا کرتے تھے۔ بیشتر کا تعلق‘ ترقی پسند تحریک سے تھا۔ بہت سے نیک دل اور پُرجوش نوجوانوں نے انقلابات کی خدمت کی۔ ان میں ایک حبیب جالب تھے۔ انہیں اُمی انقلابی کہا جا سکتا ہے۔ سارا انقلابی لٹریچر‘ جس کا نوے فیصد حصہ انگریزی میں تھا‘ جالب صاحب نے پڑھنے کی کبھی زحمت نہ کی اور جو اردو میں ترجمہ ہو چکا تھا‘ اسے پڑھنے کا بے کار مشغلہ بھی دوسروں پر چھوڑ دیا۔ سیاسی و ادبی محفلوں اور چائے خانوں میں‘ جتنا انقلاب دستیاب تھا اسی پر اکتفا کرتے ہوئے‘ حضرت نے شاعری فرما دی۔ عام پاکستانیوں کا گزارہ اسی انقلابی شاعری پر ہو رہا ہے۔ مشرقی پاکستان میں انقلاب‘ مولانا بھاشانی کے گائوں پر مہربان ہوا۔ انہوں نے بہت کوشش کی کہ اپنے انقلاب سے پورے ملک کو فیض یاب فرمائیں لیکن بنگالی ٹائپ کی شارٹ سوتی دھوتی‘ مغربی پاکستان والوں کو بالکل ہی نہ بھائی۔ مشرقی پاکستان میں بھی شہریوں نے اس پر خاص توجہ نہ دی۔ یہ ہے گزشتہ صدی کے انقلابات کی ادھوری کہانی۔ جو انقلابات کامیاب ہوئے‘ وہ بھی اپنی صدی کے دوران ہی اپنے اپنے انجام کو پہنچ کر رخصت ہو گئے۔
نئی صدی کے پاکستانی انقلاب کی ادائیں ہی اور ہیں۔ بیشتر حالات میں یہ ایسے افراد اور خاندانوں میں جنم لیتا ہے‘ جنہیں انقلاب کی ضرورت نہیں رہتی۔ ایک انقلاب ہمارے پنجاب کے وزیر اعلیٰ شہباز شریف کا ہے‘ جس کا استعمال وہ صرف تقریروں میں کرتے ہیں۔ تقریروں کے سوا‘ انقلاب کو گھاس تک نہیں ڈالتے۔ نہ اپنی سیاست میں جگہ دیتے ہیں‘ نہ رہن سہن میں‘ نہ سماجی زندگی میں اور نہ ہی انتظامی امور میں۔ تقریروں کے علاوہ شہباز شریف کی زندگی میں انقلاب کا اگر کوئی دخل ہے تو اسے نجی زندگی کا معاملہ تصور کر کے نظر انداز کر دینا چاہیے۔ نئی صدی کے دوسرے عظیم انقلابی نے بھی میاں شریف مرحوم و مغفور کے زیر سایہ جنم لیا اور کینیڈا جا کر آنکھیں کھولیں۔ یہ ہے پروفیسر ڈاکٹر طاہرالقادری کا انقلاب۔ اس انقلاب نے وعظ اور خطبات کی گھن گرج میں جنم لیا۔ یہ انقلاب کنٹینر کلچر میں پروان چڑھ رہا ہے۔ اس میں انقلابی نہیں ہوتے۔ ملازمین ہوتے ہیں یا مریدین۔ جہاں بھی عوامی طاقت کا مظاہرہ کرنا ہو‘ وہاں قیادت کنٹینر کے اندر ہوتی ہے اور انقلابی عوام‘ کنٹینر کے باہر۔ جس طرح لینن نے انقلابی فلسفے کی تشکیل و تدوین اپنے وطن روس سے باہر‘ بیٹھ کر کی تھی‘ اسی طرح بانی انقلاب حضرت پروفیسر ڈاکٹر طاہرالقادری نے‘ کینیڈا میں بیٹھ کر ''دیوان انقلاب‘‘ تخلیق کیا۔ اب لینن ہی کی طرح‘ واپس وطن آ کر ‘انقلاب کو مضبوط کرنا چاہتے ہیں۔ اس انقلاب نے پچاس لاکھ ڈالر کے محل میں‘ رئیس خاندان کے اندر جنم لیا۔ یہ انقلاب شدید گرمی کے دوران‘ پاکستان کا رخ نہیں کرتا‘ البتہ جب کینیڈا میں موسم یخ بستہ ہو جاتا ہے اور سارے دانت اور کان بجنے لگتے ہیں تو یہ فوراً پاکستان کا رخ کرتا ہے۔ اس کے بانی نے عوام سے عہد کیا ہے کہ اس بار‘ وہ خالی ہاتھ نہیں جائیں گے۔ پاکستان میں انقلاب کا پودا اپنے ہاتھوں سے لگا کر پروان چڑھائیں گے اور جب اس کے ٹہنے مضبوط ہو جائیں گے تو انقلاب کے مخالفین کو انہی پر اپنے دست مبارک سے پھانسیوں پر لٹکائیں گے اور جب تک وطن عزیز‘ کرپٹ سیاست دانوں سے پاک نہیں ہو جاتا‘ کشتوں کے پشتے لگاتے رہیں گے۔ پاکستان میں جو آخری جوڑا بچ رہے گا‘ اسے انقلاب کا پرچم تھما کر واپس پرواز کر جائیں گے۔ یہ جوڑا خالص انقلاب کو پروان چڑھائے گا۔ بے داغ۔ معصوم۔ بھولا بھالا۔ ہنستا کھیلتا۔ معصو م سا خالص انقلاب۔آپ سوچیں گے ایسا ہونا تو ممکن ہی نہیں۔ میں بھی یہی سمجھتا ہوں لیکن جتنے دوسرے انقلاب‘ امیروں اور سرمایہ داروں کے گھروں میں پالے جا رہے ہیں‘ کیا حقیقی زندگی میں ان کا برپا ہونا ممکن ہے؟
بلوچستان کے سنگلاخ پہاڑوں میں‘ بہادر اور سرفروش بلوچوں کے ہاں تو درجنوں انقلاب ہاتھوں میں ہاتھ ڈالے اچھلتے کودتے پھر رہے ہیں۔ ان میں سے کئی انقلابوں کو تو مخلص نوجوانوں نے اپنا خون دے کر میدان میں اتارا ہے لیکن یہ سارے انقلاب ایک دوسرے کے ہاتھوں میں ہاتھ ڈال کر نہیں چلتے۔ وہی قبائلی عادات‘ اکڑ بازی اور خودداری۔ الگ الگ لڑ رہے ہیں۔ الگ الگ قربانیاں دے رہے ہیں اور الگ الگ مشکلیں اٹھاتے ہوئے جی رہے ہیں مگر اکٹھے نہیں ہوتے۔ جو انقلاب علاقے کی زندگی بدلنے کا عزم رکھتے ہیں‘ ابھی تک پہاڑوں میں بھٹک رہے ہیں اور جن انقلابیوں نے اپنی زندگی بدلنے کا فیصلہ کیا‘ وہ اقتدار میں آ کر اکٹھے ہو گئے ہیں۔ یہ انوکھے انقلابی ہیں جو قبائلی رسم و رواج کے مطابق‘ انقلابی حکومت چلاتے ہوئے تاریخ میں سرخرو ہو رہے ہیں۔ ان سے ہمارے الطاف بھائی اچھے‘ جن کا انقلاب منظم بھی ہے‘ جمہوری بھی ہے۔ کولیشن حکومتیں بنانے والوں کو حسب ضرورت خدمات بھی مہیا کرتا ہے۔ نظام بدلنے کے وعدے کرتا ہے لیکن رائج الوقت نظام کا حصہ بن کر‘ ایوان اقتدار کے اندر‘ زمین پر سوئے پرولتاریوں سے رشتہ برقرار رکھتا ہے۔ قائد انقلاب کی نگاہیں‘ ہر وقت اپنے انقلابیوں پر گڑی رہتی ہیں‘ جس نے بھی زمین سے اوپر اٹھ کر سونے کی کوشش کی‘ اسے لندن ہی سے ایسی لات پڑتی ہے کہ وہ دوبارہ انقلاب سے منہ موڑنے کی جرات نہیں کرتا۔ بھٹو صاحب کا ذکر کر کے میں ان کی پارٹی کو بھول گیا۔ وہ دنیا سے رخصت ہوئے تو جو پارٹی وہ چھوڑ کر گئے تھے‘ اس نے بڑی مشکلوں کے ساتھ انقلاب سے پیچھا چھڑایا۔ اب کسی میں مجال نہیں کہ وہ پارٹی کے اندر رہ کر انقلاب کا نام بھی لے۔ صرف بھٹو صاحب کا نام لیا جاتا ہے۔ بھٹو صاحب کیا تھے؟ اس کا ذکر کرنا بھی کارکن کو منہ کے بل گرا دیتا ہے۔ اب پارٹی کا نعرہ یہ ہے۔
انقلاب کا جو یار ہے
وہ لات کا حق دار ہے
لاہور پر اللہ کا بڑا فضل ہے۔ یہاں جگہ جگہ انقلاب خانے کھلے ہیں۔ کرکٹ کے چیمپئن عمران خان نے انقلاب کے دیسی نام کو مسترد کرتے ہوئے امریکی نام استعمال کرنے کو ترجیح دی۔ امریکی صدر اوباما نے انقلاب کا نام ''تبدیلی‘‘ رکھ کر ایوان صدر میں پہنچنے کا راستہ نکالا۔ عمران خان بھی پاکستان میں انقلاب کا امریکی نام استعمال کر کے اقتدار کی طرف یوں دوڑ رہے ہیں جیسے کرکٹ میں گیند کرنے کے لیے بیٹسمین کی طرف دوڑا کرتے تھے مگر ان کے ساتھ ایک حادثہ ہو گیا۔ وہ اتنا تیز دوڑے کہ بیٹسمین کو پیچھے چھوڑتے ہوئے آگے کی طرف دوڑتے رہے۔ دوڑتے دوڑتے اٹھارہ سال ہو گئے‘ وکٹوں تک نہیں پہنچ پائے۔ باہمت آدمی ہیں۔ دوڑتے چلے جا رہے ہیں۔ ایک نہ ایک دن‘ رائیونڈ پہنچ کر وکٹیں اڑا دینے کی امید رکھتے ہیں۔ امید پہ دنیا قائم ہے۔
ہمارے چوہدری برادران نے‘ دیسی قسم کا سادہ لوح سا‘ بھولا بھالا انقلاب‘ متعارف کرانے کا عزم کیا ہے۔ وہ انقلاب تک اس وقت پہنچے جب کئی بار اسمبلیوں میں آ چکے ہیں۔ اعلیٰ ترین حکومتی مناصب پر فائز رہ چکے ہیں۔ خاندان کے لیے روٹی‘ کپڑے اور مکان کے مسائل آنے والی درجنوں صدیوں کے لیے حل کر چکے ہیں۔ اب انہیں انقلاب کی ضرورت کیوں آ پڑی؟ ظاہر ہے ان کی منزل وہ زندگی تو ہو نہیں سکتی جہاں سے بانی خاندان چوہدری ظہور الٰہی مرحوم نے اپنا سیاسی کیریئر شروع کیا تھا۔ ان کی نظر میں یقیناً شہباز شریف کا انقلاب ہے‘ جسے وہ اپنی تقریروں کے اندر سے سر نکال کر باہر کی طرف جھانکنے تک نہیں دیتے۔ میاں صاحبان اور چوہدری برادران کے خاندانوں میں پردے کا بہت خیال رکھا جاتا ہے۔ دونوں کے انقلابی نظریات بھی ایک جیسے ہوں گے۔ انقلاب ضرور لائیں گے مگر لا کر عزت و احترام کے ساتھ گھروں میں رکھ لیں گے۔ اغیار کی نگاہوں سے محفوظ۔
محمودخان اچکزئی اور مالکی کا انقلاب !
محمودخان اچکزئی کی پہلی تقریر 2002ء کی قومی اسمبلی میں سنی تھی، وہی تقریر اتنی بار سنی کہ اب یاد ہوگئی ہے۔ میں کبھی ان سے متاثر تھا کیونکہ سمجھتا تھا انہیںکوئی خرید نہیںسکتا ۔ وقت کے ساتھ ساتھ میری یہ خوش فہمی ختم ہوگئی اور ان کی سیاست اور شخصیت سے جڑا رومانس بھی دم توڑگیا ۔اب محمود خان نے اپنی تقریر میں ایک نئی بات کہی ہے کہ ڈاکٹرطاہر القادری کوگرفتارکر لیا جائے یا ملک بدر کر دیا جائے توجمہوریت بچ جائے گی۔
حیران ہوں، یہ بات وہی محمود خان اچکزئی کہہ رہے ہیں جو جنرل مشرف کے مارشل لا کے بعد بننے والی اسمبلی میں مجھ جیسے صحافیوں کے لئے رول ماڈل کے طور پر ابھرے تھے۔ ان کی تقریریں سن کر اور انداز دیکھ کرخیال آتا تھاکہ کبھی سیاستدان بنا تو محمود خان اچکزئی کی طرح کا سیاستدان بنوںگا ۔ آج وہ ڈاکٹرطاہر القادری کی گرفتاری کی بات کرتے ہیں تو بھول جاتے ہیں کہ انہوں نے خود ہمیں بتایا تھاکہ ان کے والد عبدالصمد خان اچکزئی کو پاکستان بننے کے فوراً بعداس لئے گرفتارکر لیاگیا تھا کہ وہ آل انڈیا کانگریس کے ممبر تھے۔ ان کے خیال میں جمہوری پاکستان میں ان کے والدکوگرفتارکرکے بلوچستان میں نفرت کی بنیادیں رکھ دی گئی تھیں ۔ وہ ہرملاقات میںاپنے والدکی گرفتاری کا ذکر ضرورکرتے تھے۔ سوال یہ ہے کہ اگرمحمود خان کانگریس کا ممبر ہونے کی وجہ سے اپنے والد کی گرفتا ری کوغلط سمجھتے ہیں تو وہ آج طاہر القادری کے کینیڈا کا شہری ہونے پران کی گرفتاری کوکیسے جائز سمجھتے ہیں؟
ہو سکتا ہے جن لوگوں نے عبدالصمد خان اچکزئی کوگرفتارکیا تھا، ان کے ذہن میں بھی پاکستان کو بچانے کے لئے ان کی گرفتاری اسی طرح ضروری ہو جیسے آج محمود خان کے نزدیک طاہر القادری کوگرفتارکرنا پاکستان اور جمہوریت کو بچانے کے لئے ناگزیر ہے۔ ہو سکتا ہے جیسا مشورہ آج وہ نواز شریف کو دے رہے ہیں ویسامشورہ اس وقت پاکستان کے گورنر جنرل کو دیاگیا ہو۔اسی طرح کا ایک مشورہ جنرل مشرف کو بھی دیا گیا تھا جس پرعمل کرتے ہوئے انہوں نے میاں نواز شریف کو دس برس کے لیے ملک سے باہر بھیج دیاتھا، لیکن پھر بھی انہیں تیسری باروزیراعظم بننے سے نہ روک سکے۔
کبھی محمودخان اچکزئی نے سوچا ہے کہ ڈاکٹر طاہر القادری کی ذات پر ہم سب مل کر جوہزاروں اعتراضات اٹھا تے رہتے ہیں اور شاید اٹھ بھی سکتے ہیں لیکن کیا جو باتیں وہ (طاہرالقادری)کررہے ہیں وہ غلط ہیں؟ آپ اس ملک کو چار صوبوں کے ساتھ کب تک چلا سکتے ہیں؟ نئے صوبے کیوں نہیں بناتے؟ طاہر القادری سے پہلے خود محمود خان نئے صوبوں کی بات کرتے رہے ہیں‘ آج وہ کس بنیادپر اس مطالبے کے دشمن بن گئے؟ کیا اس لئے کہ ان کاایک بھائی گورنر بلوچستان اور دوسراوزیر بن گیا ہے؟ وہ اب یہ تقریرکیوں نہیں کرتے کہ ضلعی حکومتیں نہ ہونے کی وجہ سے پاکستان میں جمہوریت کمزور ہورہی ہے۔ وہ یہ مطالبہ کیوں نہیں کرتے کہ پورے ملک میں ضلعی حکومتیں ہونی چاہئیںاورنیشنل فنانس کمیشن سے براہ راست انہیں ترقیاتی فنڈزملنے چاہئیں؟
صوبوں کو اس سال این ایف سی سے 1700ارب روپے دیئے گئے جوغالباً زیادہ تر لاہور، کراچی، کوئٹہ اور پشاور میں خرچ ہوںگے،آخر مرکز اضلاع کو براہ راست فنڈزکیوں نہیں دے سکتا؟اس کا ایک فائدہ یہ ہوگا کہ درمیان سے کرپٹ صوبائی بیوروکریسی اور سیاستدانوں کاکردارختم ہوجائے گاجو ہرکنٹریکٹ سے مال کماتے ہیں۔
محمود خان ہمیں یہ تو بتاتے رہتے ہیں کہ پاکستان اس صورت میں بچ سکتا ہے جب وہ بھارت اور افغانستان میں آئی ایس آئی کی مداخلت بندکرد ے ۔ میں ان کی اس بات سے اتفاق کرتا ہوں، لیکن وہ یہ کیوں نہیں بتاتے کہ پاکستان پر جمہوریت کے نام پر جو خاندانی بادشاہت مسلط کی گئی ہے اس سے پاکستان کمزور ہورہا ہے، اسے ختم کرنا چاہئے۔ شاید محمود خان یہ بات اس لیے نہیں کہتے کہ ان کے نزدیک جمہوریت کا مطلب یہی ہے کہ ان کا ایک بھائی گورنراور دوسرا وزیر ہو۔ میاں نوازشریف بھی جمہوریت کی یہی تعریف کرتے ہیں کہ ان کے خاندان کے بعد ان کی برادری کے افراد ہی سیاستدان، جج اور سرکاری افسرہوں۔ پیپلز پارٹی کوکچھ بھی کہیں لیکن بھٹو؍زرداری خاندن نے گیلانی اور راجہ پرویز اشرف کو موقع دے کر اپنے اوپرعائد اس الزام کوکسی حد تک دورکردیا ہے کہ وہ اپنے سواکسی کو بڑے عہدے پر فائز ہوتا نہیں دیکھ سکتے۔
جب ہم خاموشی سے محمود خان کو سنتے تھے تو اقتدار ان سے دور ہوتا تھا لیکن شایدانہوں نے پنجاب اور سندھ کے حکمرانوں سے سیکھ لیا ہے کہ موقع ملے تو اپنے خاندان کی قسمت بدل لو، ملک کی قسمت بدلتی رہے گی ۔ اچکزئی خاندان سدھرگیا،اب کوئی اورملک میں 'اسٹیٹس کو‘ توڑنے کی بات کرے تو محمود خان کو جمہوریت خطرے میں نظرآتی ہے۔
شاید محمود خان کو احساس نہیں ہے کہ انہوں نے ہم جیسے خواب دیکھنے والوں کے ساتھ کیا ظلم کیا ہے؟ بعض لیڈر ایسے ہوتے ہیں جن سے عام لیڈروں جیسے رویے کی توقع نہیں کی جاتی۔ مجھے پہلا دھچکا اس وقت لگا جب محمود خان نے وزیراعظم یوسف رضا گیلانی سے کروڑوں روپے کا ترقیاتی فنڈلیا تھا‘ حالانکہ وہ قومی اسمبلی کے ممبر بھی نہیں تھے۔ نوازشریف وزیراعظم بنے تو ان سے بھی جمہوریت کی حمایت کرنے کی قیمت دوبڑے عہدے لے کروصول کرلی۔کاش میں وہ گفتگو یہاں دہرا سکتاکہ وہ 2008 ء کے الیکشن میں دھوکا کرنے پرمیاں نوازشریف کو کن کن القابات سے نوازتے تھے۔ توگویا محمود خان بھی دوسروں کی طرح محض اقتدارکی سیاست کررہے تھے اور ہم سمجھتے تھے کہ وہ اکیلا لیڈر ہے جسے عہدے کی کوئی پروا نہیں اور جس کا دل اس ملک اور اپنے پختونوں کے لیے دھڑکتا ہے۔
واشنگٹن پوسٹ میں عراق پر ایک مضمون شائع ہوا ہے جس میں کہا گیا ہے کہ عراق کے لوگ صدام حسین اور اس کے خاندان کی آمریت سے تنگ تھے اور اب مالکی بھی اپنی ذات میں صدام حسین بن چکے ہیں ۔ وہ دو بار وزیراعظم بن چکے ہیں اوراب تیسری بار بھی اسی عہدے پر متمکن ہونے کے لئے کوشاں ہیں۔اس سے لوگوںکو جمہوریت کے نام پر آمریت طاری ہوتی نظر آرہی ہے۔ اخبار کے مطابق عراق کے لوگ محسوس کرتے ہیں کہ صدام حسین بندوق کے زور پر ان پر حکومت کرتا تھااور مالکی جمہوریت کے نام پر ان پر مسلط ہے ۔مالکی نے بھی جمہوریت اور حکومت میں اپنے خاندان کوحصے دار بنادیا ہے یعنی جمہوریت کا سارا فائدہ مالکی اوراس کے خاندان کو ہورہا ہے۔ مالکی کو علم تھا کہ عراق میں سنی مسلک اورکردنسل کے لوگ بڑی تعداد میں آباد ہیں،اس لئے انہیں چاہیے تھاکہ وہ اپنا وزیردفاع کرد اور وزیر داخلہ سنی مسلک کے فردکو بناتے تاکہ سب کو محسوس ہوتا کہ وہ بھی عراق کی نئی حکومت میں شریک ہیں، لیکن انہوں نے تمام اہم عہدوں پر شیعہ مسلک کے لوگوں کو تعینات کردیا اورایران پرانحصار بڑھادیا۔ یوں آہستہ آہستہ لوگوں میں یہ خیال پختہ ہوگیا کہ صدام حسین اور مالکی میں کوئی فرق نہیں رہ گیا !
پاکستان میں جمہوریت کو خطرہ طاہرالقادری سے زیادہ ایسے سیاستدانوں سے ہے جن کے نزدیک جمہوریت کا مطلب یہ ہے کہ ہر بڑے عہدے پر ان کا باپ، بھائی، بھتیجا، سمدھی، بھانجا، داماد، بیٹی اوراپنی ہی قوم یا برادری کافرد بیٹھا ہو۔ میرے پختون دوست ! موجودہ کرپٹ اسٹیٹس کو ٹوٹنے دیں، نئے صوبے بننے دیں، ضلعی حکومتیں بننے دیں، این ایف سی کے 1700 ارب روپے صوبوں کے بجائے ضلعی حکومتوں تک جانے دیں، جمہوریت کو گراس روٹ لیول پر شفٹ ہونے دیں، ضلعی حکومتوں کے انتخابات میں نوے ہزار منتخب کونسلرزکی شکل میں نئی لیڈرشپ پیدا ہونے دیں تاکہ سب کو محسوس ہوکہ وہ اقتدارمیں شریک ہیں۔پاکستان اسی طرح بچے گا وگرنہ پارلیمنٹ میں بیٹھے آپ جیسے اقتدارکے کھلاڑی تو خاندان اور رشتہ داروں کو اقتدار میں حصہ دلاتے دلاتے ملک کو اس حال تک لے آئے ہیں!
-
While some prefer to emphasise the economic independence within secular Pakistan, others dream of theocracy like Iran. They try to su...
-
شیعہ سنی اختلاف کاامکانی حل بقائمی ہوش وحواس یہ دعویٰ نہیں کیا جا سکتا کہ میرے پاس ایک ایسے مسئلے کاکوئی حل موجود ہے جسے صدیوں سے...
-
"ہم ایک ایسے اسلامی تصور کا تعاقب کر رہے ہیں جو انسانیت، جمالیات، دانش اور روحانی عقیدت سے خالی ہے … جس کا تعلق طاقت سے ہے...
-
WebpageTranslator With a PPP coalition with the dying and discredited PML-Q now almost ready for a takeoff, the brilliance, or some say ...
-
In the elite’s quest to put an end to the unwritten private school ‘policy’ of draining parents’ bank accounts, many arguments — for and aga...
-
آج کی دنیا میں اسمبلیوں، کونسلوں، میونسپل وارڈوں اور دوسری مجالس اور جماعتوں کے انتخابات میں جمہوریت کے نام پر ج...
-
دو قومی نظریہ (انگریزی: Two Nation Theory) بر صغیر کے مسلمانوں کےہندوؤں سے علاحدہ تشخص کا نظریہ ہے۔ Read...