اللہ کے آخری رسولؐ نے ارشاد فرمایا: اللہ نے عقل کو پیدا کیا تو اس سے کہا کہ چل پھر کے دکھا۔ پھر اس پہ ناز فرمایا اور یہ ارشاد کیا کہ کسی کو جو کچھ بھی دوں گا‘ تیرے طفیل دوں گا اور جو بھی لوں گا‘ تیری وجہ سے لوں گا۔ قرآن کریم کی اس آیت کریمہ کا بار بار ناچیز حوالہ دیتا ہے: جو ہلاک ہوا‘ وہ دلیل سے ہلاک ہوا‘ جو جیا وہ دلیل سے جیا۔
جانور اور آدمی کا بنیادی فرق کیا ہے؟ عقل و شعور۔ غوروفکر کی استعداد اور علم۔ روزِ ازل فرشتوں نے جب آدمی کو اللہ کا خلیفہ بنانے پر تعجب کیا تو ان کے درمیان ایک مقابلے کا اہتمام کیا گیا۔ قرآن کریم کہتا ہے کہ آدم علیہ السلام نے تو سوالوں کے جوابات فرفر دیئے۔ فرشتوں نے یہ کہا: تو پاک ہے‘ ہم صرف اتنا ہی جانتے ہیں‘ جو تو نے ہمیں عطا کیا۔
فرد یا قوم‘ تخلیقی اندازِ فکر کے بل پر آدمی آگے بڑھتا ہے۔ روایتی مذہبی طبقے کا مسئلہ یہ ہے کہ وہ ماضی میں زندہ رہتا ہے اور ہیجان کا شکار ہوتا ہے۔ دنیا بدل گئی۔ صنعتی انقلاب اور سائنس نے زندگی کو یکسر تبدیل کردیا۔ ہمارا مذہبی آدمی مگر قبائلی عہد میں جیتا ہے۔ خود دین کو بھی وہ پچھلی دو صدیوں میں جنم لینے والے مکاتبِ فکر کے ذریعے سمجھنے کی کوشش کرتا ہے۔ قرآن و حدیث‘ سیرت اور تاریخ کے براہِ راست مطالعے سے نہیں۔ اکثر وہ غلط نتائج اخذ کرتا ہے۔ ایک صاحب کو دیر تک میں سمجھاتا رہا کہ مسواک سنت نہیں بلکہ دانتوں کی صفائی۔ اگر کراچی کے دو کروڑ شہری صبح سویرے مسواک ڈھونڈنے نکلیں تو کیا ہوگا۔ بولے: کمال کرتے ہیں آپ‘ یہ مولانا انور شاہ کاشمیری کا فتویٰ ہے۔ ایک ذرا سا غور کیا ہوتا‘ مولانا کاشمیری کے زمانے میں ٹوتھ پیسٹ نہیں تھی‘ مسواک کا حصول آسان تھا‘ اب تقریباً ناممکن۔ بجا طور پر امام ابو حنیفہؒ کو اہلِ علم کا امام کہا گیا۔ آج ان کے فتوے پر مگر نظرثانی کی ضرورت ہے کہ سفر کی نماز 29 کلو میٹر کے بعد روا ہے۔ بارہ سو برس پہلے جیٹ طیارے نہیں تھے۔ اب نیویارک جانے والا‘ ہوائی اڈے پر سفر کے دبائو کا شکار ہو جاتا ہے۔
ہم اپنے عصر میں جیتے ہیں۔ سرکارؐ سے منسوب یہ ہے کہ دانا وہ ہے جو اپنے زمانے کو جانتا ہے۔ ابدی چیز‘ اقدار اور اصول ہیں‘ طرزِ حیات کے ظاہری عنوانات اور مظاہر نہیں۔ ہم طالبان کی شریعت کے تحت کیسے زندگی گزار سکتے ہیں‘ جو داڑھیاں ماپتے ہیں اور جن کا فرمان ہے کہ وہ ریڈیو‘ ٹیلی ویژن اور بینک کو بروئے کار رہنے کی اجازت نہیں دے سکتے۔ دین کی روح سے وہ بے خبر ہیں‘ ایک انتہا پسند مذہبی مکتب فکر کے اسیر‘ فرقہ پرست۔ جو نہیں جانتے کہ رحمۃ اللعالمینؐ نے فروغِ علم سے معاشرے کو بدلا تھا‘ طاقت کے بل پر نہیں۔ ابوجہل تک کے دروازے پر آپؐ تشریف لے گئے۔ خیرخواہی‘ نرمی اور محبت کا درس دیا۔ ریاست قائم کی تو مشرکین اور یہودیوں کے ساتھ‘ مسلمانوں کو ایک امت قرار دیا‘ قوانین کا اطلاق جن پہ یکساں تھا‘ حقوق و فرائض بھی یکساں۔ مسلمان کی ذاتی زندگی الگ ہے اور ریاست ایک دوسری چیز۔ عمرؓ فاروق اعظم کی فوج میں دس ہزار یہودی موجود تھے۔ وہی کیا‘ بعد کے ادوار میں بھی مسلمان حکومتوں میں یہودی محفوظ و مامون رہے۔
سید منور حسن نے سچ کہا‘ نہ بمباری سے فساد ختم کیا جا سکتا ہے اور نہ بندوق کے بل پر شریعت نافذ کی جا سکتی ہے۔ امریکہ سے نجات حاصل کرنے کے لیے ملک کو طاقتور ہونا چاہیے‘ مستحکم! اور یہ نفاذِ قانون سے ممکن ہے۔ ایسی پولیس اور ایسی عدالت‘ جو طاقتوروں کو سزا دے سکے۔ قبائلی علاقوں کا ذکر کیا‘ جمعہ کو خرم دستگیر کے حامیوں نے کیا کیا؟ بالکل وہی اندازِ فکر۔ گوجرانوالہ شہر میں کشمیری برادری کے غلبے کا اعلان۔ یہ میاں محمد نوازشریف کی عنایت کے طفیل ہے‘ جن کی آدھی کابینہ نسلی بنیاد پر چُنی گئی۔ کشمیری خوب ہیں‘ مگر دوسرے؟
تقریباً تمام کی تمام قومی توانائی انتشار کی نذر ہے۔ غور کیجیے کہ فقط ٹیکس وصولی‘ بھارت کے برابر‘ 16 فیصد ہو جائے تو امریکہ کے ہم محتاج نہ رہیں گے۔ حقیقی امن اگر قائم ہو سکے اور انصاف میسر ہو تو چند برس میں پاکستانی شہری چھ ہزار ا رب سالانہ ٹیکس ادا کر سکتے ہیں۔
عفریت دو ہیں‘ ایک افغانستان میں در آنے والا امریکہ اور دوسرے ریاست کو ادھیڑ دینے پر تلے ہوئے طالبان۔ کیسا ظلم ہے کہ کچھ لوگ امریکہ کے خلاف زبان ہی نہیں کھولتے‘ جو عالمِ اسلام کی تباہی کے در پے ہے‘ اسرائیل اور بھارت کا پشتیبان۔ کچھ دوسرے مساجد‘ مزارات اور مارکیٹوں میں قتلِ عام کرنے والوں کے لیے جواز ڈھونڈتے پھرتے ہیں۔ ایک استعمار سے مرعوب اور ایک اس فرقہ پرست مولوی سے۔ جدید زندگی کیا‘ جو مذہب سے آشنا بھی نہیں۔ اقبال نے سچ کہا‘ فرانزز فینن نے سچ کہا‘ غلامی عقل و خرد کو چاٹ جاتی ہے۔
بھروسہ کر نہیں سکتے غلاموں کی بصیرت پ
~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~
آپ اور پاکستان : http://pakistan-posts.blogspot.com/2013/11/pakistan-basic-issues-need-immediate.html
~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~
آپ اور پاکستان : http://pakistan-posts.blogspot.com/2013/11/pakistan-basic-issues-need-immediate.html
~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~