Featured Post

FrontPage صفحہ اول

Salaam Pakistan  is one of projects of  "SalaamOne Network" , to provide information and intellectual resource with a view to...

Democracy is the best Revenge? جمہوریت کا انتقام


 سلطنتِ روما کی داستانِ زوال میں ہرقوم کے لیے عبرت کا وافر سامان موجود ہے۔ ایک طرف 
عوام ناقابلِ برداشت مصائب و آلام میں گرفتار تھے اور دوسری طرف حکمران غفلت، بے وفائی، مفاد پرستی، ذاتی عیش و عشرت اور نام و نمود میں ایسے منہمک تھے، جیسے ملک و قوم کے اصل مسائل، مصائب اور مشکلات سے ان کو کوئی دل چسپی ہی نہ ہو۔ اس المیے کو ایک ضرب المثل میں اس طرح سمو دیا گیا ہے کہ ’’روم جل رہا تھا اور نیرو بانسری بجا رہا تھا‘‘۔
قائداعظمؒ کی ولولہ انگیز اور بے داغ قیادت میں اور ملت اسلامیہ پاک و ہند کی بیش بہا قربانیوں کے نتیجے میں قائم ہونے والے پاکستان کو صرف ۶۵سال کے عرصے میں خودغرض اور ناکام قیادتوں کے طفیل آج ایسی ہی کرب ناک صورت حال سے سابقہ ہے۔ ۲۰۰۸ء میں جمہوریت کے نام پر وجود میں آنے والی حکومت تو پاکستان پیپلزپارٹی کی ہے۔ لیکن اس کو سہارا دینے اور بیساکھیاں فراہم کرنے والوں میں عوامی نیشنل پارٹی، متحدہ قومی محاذ اور مسلم لیگ (ق) کا کردار بھی کچھ کم مجرمانہ نہیں۔ ستم ظریفی ہے کہ پاکستان مسلم لیگ (ن) بڑی حزبِ اختلاف ہونے کے باوجود محض ’جمہوریت کے تسلسل‘ کے نام پر حقیقی اور جان دار حزبِ اختلاف کا کردار ادا نہ کرسکی اور عوام کے حقوق کے دفاع، دستور اور قانون کی حکمرانی کے سلسلے میں اپنی ذمہ داریاں پوری کرنے سے قاصر رہی۔ پھر ایسی دینی قوتیں بھی ذمہ داری سے بری قرار نہیں دی جاسکتیں جو کبھی اندر اور کبھی باہر، اور جب مرکز سے باہر ہوں تب بھی صوبے میں شریکِ کار اور جہاں ممکن ہوسکے وہاں اقتدار کی کرسیوں پر براجمان۔
یہ منظر نامہ بڑا دل خراش اور عوام کو سیاسی قیادت سے مایوس کرنے والا ہے لیکن قوموں کی زندگی میں یہی وہ فیصلہ کن لمحہ ہوتا ہے جب مایوسی اور بے عملی، جو دراصل تباہی اور موت کا راستہ ہے، کے بادلوں کو چھانٹ کر تبدیلی، نئی زندگی اور مقصد کے حصول کے لیے نئی پُرعزم جدوجہد وقت کی ضرورت بن جاتے ہیں۔ مایوسی اور بے عملی تباہی کے گڑھے میں لے جاتے ہیں اور بیداری اور جدوجہد نئی صبح کا سامان فراہم کرتے ہیں۔ پاکستانی قوم اس وقت ایک ایسے ہی فیصلہ کن دوراہے پر کھڑی ہے۔
موجودہ حکومت کو بڑا تاریخی موقع ملا تھا۔ فوج کی قیادت نے ماضی کے تلخ تجربات اور فوجی مداخلت کے بار بار کے تجربات کی ناکامی کی روشنی میں بڑی حد تک اپنی دل چسپیوں کو اپنے ہی دستور میں طے کردہ اور منصبی دائروں تک محدود رکھا۔ اعلیٰ عدلیہ جو جسٹس محمد منیر کے چیف جسٹس بن جانے کے دور سے ہرآمر اور ظالم حکمران کی پشت پناہی کرتی رہی تھی، پہلی بار بڑی حد تک آزاد ہوئی اور اس نے دستور اور قانون کی بالادستی کے قیام کے بارے میں اپنی ذمہ داری کو ایک حد تک ادا کرنے کی کوشش مستعدی اور تسلسل کے ساتھ انجام دی جس پر اسے عدالتی فعالیت (Judicial activism)، حتیٰ کہ دوسرے اداروں کے معاملات میں مداخلت تک کا نام دیا گیا اور ان حلقوں کی طرف سے دیا گیا جنھیں اپنے لبرل اور جمہوری ہونے کا اِدعا ہے۔ ان میں سے کچھ بائیں بازوسے وابستہ اورترقی پسند ہونے کے بھی مدعی ہیں، حالانکہ اہلِ علم جانتے ہیں کہ بنیادی حقوق اور دستور پر عمل درآمد، دونوں کی آخری ذمہ داری عدلیہ پر ہے۔ دستور میں دفعہ ۱۸۴شامل ہی اس لیے کی گئی ہے کہ جب دستوری حقوق کو پامال کیا جائے تو عدالت مداخلت کرے، خواہ یہ مداخلت اسے کسی ستم زدہ کی فریاد پر کرنی پڑے یا ازخود توجہ کی بنیاد پر اسے انجام دیا جائے۔یہ وہ نازک مقام ہے جہاں ایک سیاسی مسئلہ دستور کے طے کردہ اصول کے نتیجے میں بنیادی حقوق کا مسئلہ بن جاتا ہے اور عدالت کے دائرۂ کار میں آجاتا ہے۔ اسی طرح پریس کی جزوی آزادی بھی ایک نعمت تھی جس کے نتیجے میں عوام کے مسائل اور مشکلات کے اخفا میں رہنے کے امکانات کم ہوگئے اور وہ سیاسی منظرنامے میں ایک مرکزی حیثیت اختیار کرگئے۔
ان سارے مثبت پہلوؤں کو اس حکومت نے خیر اور اصلاح احوال کے لیے مددگار عناصر سمجھنے کے بجاے اپنا مخالف اور ان دونوں ہی اداروں کو عملاً گردن زدنی سمجھا، اور ایک منفی رویہ اختیار کیا جسے مزید تباہ کاری کا ذریعہ بنانے میں بڑا دخل خود ان کی اپنی ٹیم کی نااہلی (جس کی بڑی وجہ دوست نوازی، اقربا پروری اور جیالا پرستی تھی)، وسیع تر پیمانے پر بدعنوانی (corruption) اور مفاد پرستی کی بلاروک ٹوک پرستش کا رہا جس کے نتیجے میں ملک تباہی کے دہانے پر لاکھڑا کیا گیا ہے۔ سپریم کورٹ کے ۵۰سے زیادہ احکام کی کھلی کھلی خلاف ورزی کی گئی ہے اور توہین عدالت کی باربار کی وارننگ اور چند مواقع پر سزاؤں کے باوجود اسی روش کو جاری رکھا گیا ہے۔ انتظامی مشینری کو سیاسی اور ذاتی مقاصد کے لیے بے دریغ استعمال کیا جا رہا ہے۔ معیشت کو اگر ایک طرف لوٹ کھسوٹ کے ذریعے تباہ کردیا گیا ہے تو دوسری طرف غلط پالیسیاں، توانائی کا فقدان، پیداوار میں کمی، تجارتی اور ادایگیوں کے خسارے میں بیش بہا اضافہ، مہنگائی کا طوفان، بے روزگاری کا سیلاب اور اس پر مستزاد حکمرانوں کی شاہ خرچیاں اور دل پسند عناصر کو لُوٹ مار کی کھلی چھوٹ نے کہیں کا نہیں چھوڑا۔ خود نیب کے سربراہ کے بقول روزانہ کرپشن ۱۰سے ۱۲؍ارب روپے کی ہورہی ہے جس کے معنی یہ ہیں کہ ملک کے سالانہ بجٹ سے بھی کچھ زیادہ قومی دولت کرپشن کی نذر ہورہی ہے۔ ملک کے عوام اپنی ہی دولت سے محروم کیے جارہے ہیں اور اس کا نتیجہ یہ ہے کہ ملک دیوالیہ ہونے کے کنارے پر کھڑا ہے۔ سارا کاروبارِ حکومت قرضوں پر چل رہا ہے جن کا حال یہ ہے کہ قیامِ      
 6 پاکستان سے ۲۰۰۸ء تک ملکی اور بیرونی قرضوں کا جو مجموعی بوجھ ملک و قوم پر تھا وہ ۶ٹریلین روپے کے لگ بھگ تھا جو ان پونے پانچ سالوں میں بڑھ کر اب 14  ۱۴ٹریلین کی حدیں چھو رہا ہے۔
ملک میں امن و امان کی زبوں حالی ہے اور جان، مال اور آبرو کا تحفظ کسی بھی علاقے میں حاصل نہیں لیکن سب سے زیادہ بُرا حال صوبہ خیبرپختونخوا، فاٹا، بلوچستان اور عروس البلاد کراچی کا ہے، جو پاکستانی معیشت کی ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتا ہے۔ کراچی کا عالم یہ ہے کہ کوئی دن نہیں جاتا کہ دسیوں افراد لقمۂ اجل نہ بن جاتے ہوں۔ کروڑوں روپے کا روزانہ بھتہ وصول کیا جاتا ہے اور اربوں کا روزانہ نقصان معیشت کو پہنچ رہا ہے۔ Conflict Monitoring Centreکی تازہ ترین رپورٹ کے مطابق صرف ۲۰۱۲ء میں ملک میں تشدد اور دہشت گردی کے ۱۳۴۶واقعات میں ۲۴۹۳؍افراد ہلاک ہوئے ہیں۔ نیز صرف اس سال میں امریکی ڈرون حملوں سے جاں بحق ہونے والوں کی تعداد ۳۸۸ہے (دی نیوز، ۲۸دسمبر ۲۰۱۲ء)۔ ایک اور آزاد ادارہ (FAFEEN) حالات کو باقاعدگی سے مانٹیر کر رہا ہے۔ اس کی تازہ ترین رپورٹ بتاتی ہے کہ صرف دسمبر ۲۰۱۲ء کے تیسرے ہفتے میں ملک میں لاقانونیت کے رپورٹ ہونے والے واقعات ۲۴۱ہیں جن میں ۷۵؍افراد ہلاک ہوئے اور ۱۶۶زخمی (ایکسپریس ٹربیون، ۲۶دسمبر ۲۰۱۲ء)۔ اناللّٰہ وانا الیہ راجعون۔
ان تمام ناگفتہ بہ حالات کے ساتھ ملک کی سیاسی آزادی کی مخدوش صورت حال، ملک کے اندرونی معاملات میں امریکا کی بڑھتی ہوئی مداخلت اور پالیسی سازی پر فیصلہ کن اثراندازی نے محکومی اور غلامی کی ایک نئی مصیبت میں ملک کو جھونک دیا ہے۔ جمہوری حکومت کے کرنے کا پہلا کام مشرف دور میں اختیار کی جانے والی امریکی دہشت گردی کی جنگ سے نکلنا تھا، اور پارلیمنٹ نے اکتوبر ۲۰۰۸ء میں حکومت کے قیام کے چھے مہینے کے اندر واضح قرار داد کے ذریعے جنگ سے نکلنے، آزاد خارجہ پالیسی اختیار کرنے اور سیاسی مسائل کے سیاسی حل کے راستے کو اختیار کرنا کا حکم دیا تھا، لیکن حکومت نے پارلیمنٹ کے فیصلے اور عوام کے مطالبے کو درخور اعتنا نہ سمجھا اور امریکی غلامی کے جال میں اور بھی پھنستی چلی گئی۔ آج یہ کیفیت ہے کہ ۴۵ہزار سے زیادہ جانوں کی قربانی دینے ، ایک لاکھ سے زیادہ کے زخمی ہونے اور ۳۰لاکھ کے اپنے ملک میں بے گھر ہوجانے اور ۱۰۰؍ارب ڈالر سے زیادہ کے نقصانات اُٹھانے کے باوجود پاکستان امریکا کا ناقابلِ اعتماد دوست اورعلاقے کے دگرگوں حالات کے باب میں اس کا شمار بطور ’مسئلہ‘ (problem) کیا جارہا ہے، ’حل‘ (solution) میں معاون کے طور پر نہیں ۔ جس طرح خارجہ پالیسی ناکام ہے اسی طرح دہشت گردی کو ختم کرنے کے لیے عسکری حکمت عملی بھی بُری طرح ناکام رہی ہے اور عالم یہ ہے کہ مرض بڑھتا گیا جوں جوں دوا کی!
یہ وہ حالات ہیں جن کا تقاضا ہے کہ کسی تاخیر کے بغیر عوام کو نئی قیادت منتخب کرنے کا موقع دیا جائے تاکہ دلدل سے نکلنے کی کوئی راہ ہو اور جمہوری عمل آگے بڑھ سکے۔ ان حالات میں پانچ سال کی مدت پوری کرنے کی رَٹ ناقابلِ فہم ہے۔ دستور میں پانچ سال کی مدت محض مدت پوری کرنے کے لیے نہیں ہوتی، اچھی حکمرانی کے لیے ہوتی ہے۔ دنیا کے جمہوری ممالک کی تاریخ گواہ ہے کہ اصل مسئلہ اچھی حکمرانی ہے، مدت پوری کرنا نہیں۔ یہ کوئی ’عدت‘ کا مسئلہ نہیں ہے کہ شرعی اور قانونی اعتبار سے دن پورے کیے جائیں۔ دستور ہی میں لکھا ہے کہ وزیراعظم یا وزیراعلیٰ جب چاہیں نیا انتخاب کراسکتے ہیں۔ اسی طرح اگر ایوان اس پوزیشن میں نہ ہو کہ اکثریت سے قائد منتخب کرسکے تو اسمبلی تحلیل ہوجاتی ہے۔ برطانیہ میں گذشتہ ۶۵برس میں نو مواقع ایسے ہیں جب پارلیمنٹ کا انتخاب دستوری مدت پوری کرنے سے پہلے کیا گیا ہے۔ اٹلی اور یونان میں اس وقت بھی یہ مسئلہ درپیش ہے۔ خود بھارت میں آزادی کے بعد سے اب تک ۱۱بار میعاد سے پہلے انتخابات ہوئے ہیں اور ہمارے ملک میں تو اب پونے پانچ سال ہوچکے ہیں۔ ۱۶مارچ ۲۰۱۳ء کو یہ مدت بھی ختم ہونے والی ہے جس کے بعد ۶۰دن میں انتخاب لازمی ہیں۔ مئی کا مہینہ موسم کے اعتبار سے انتخاب کے لیے ناموزوں ہے۔ سیاسی اور معاشی اعتبار سے بھی یہ وقت اس لیے نامناسب ہے کہ ملک کا بجٹ ۳۰جون سے پہلے منظور ہوجانا چاہیے اور اگر مئی میں انتخابات ہوتے ہیں تو جون کے وسط تک حکومت بنے گی۔ اتنے کم وقت میں بجٹ سازی ممکن نہیں۔ اس لیے وقت کی ضرورت ہے کہ جنوری میں اسمبلیاں تحلیل کرکے ۶۰دن کے اندر 
انتخابات کا انعقاد کیا جائے۔ اس کے سوا کوئی راستہ نہیں۔

  پاکستان کا موجودہ سیاسی بحران 

پروفیسر خورشید احمد: http://tarjumanulquran.org/site/publication_detail/325

تبصرہ 
ایسا معلوم ہوتا ہے کہ ملک پر حکومت کرنے والے یا تو پاگل ہیں یا ملک کے دشمن جو کے عوام سے انتقام لے رہے ہیں جمہوریت بہترین انتقام ہے