.
خاکروب، چوکیدار اور استاد... ایک اور ایک…منیراحمد بلوچ | ||
ضلع میانوالی میں UNHCR کے تحت ایک کیمپ میں اسکول ٹیچر، خاکروب اور چوکیدار کی ایک ایک خالی آسامی کی بھرتی کیلئے اشتہار شائع ہوا ہے اس اشتہار میں اسکول ٹیچر کی خالی آسامی کیلئے تعلیمی قابلیت بی اے بی ایڈ اور ساتھ ہی کم از کم دو سال کے تدریسی تجربہ کی شرط عائد کی گئی ہے جبکہ اس کیلئے کل ماہانہ مشاہرہ8712/- رکھا گیا ہے اس اشتہار میں خاکروب اور چوکیدار کی علیحدہ علیحدہ دو خالی آسامیوں کیلئے تعلیمی قابلیت کی جو شرط رکھی گئی ہے اس کے مطابق ” امیدوار پڑھنا لکھنا جانتا ہو“ اور خاکروب اور سویپر کی ماہانہ تنخواہ8,712/- جبکہ چوکیدار کی آسامی کیلئے ماہانہ تنخواہ 8,865/- روپے رکھی گئی ہے۔ جس ملک اور معاشرے میں چودہ سالہ تعلیمی قابلیت رکھنے والے گریجویٹ اور بی ایڈ کی ایک سال کی اضافی تعلیمی قابلیت کے علا وہ مزیددو سال کا تدریسی تجربہ رکھنے والے استاد کے احترام کی یہ حالت ہو کہ اس کا ماہانہ مشاہرہ چوکیدار اور خاکروب سے کم ہو۔کیا یہ معلم کی توہین نہیں؟ جس معاشرہ میں تعلیم اور تدریس سے منسلک استادکا ماہانہ مشاہرہ ایک خاکروب کے برابر اور چوکیدار سے کم ہواس معاشرے میں وہی کچھ ہو گا جو ہورہا ہے کچھ عرصہ قبل نیشنل پولیس اکیڈیمی اسلام آباد کی طرف سے خالی آسامیوں پر بھرتی کیلئے ملکی اخبارات میں ایسا ہی ایک اشتہار دیا گیا تھا جس میں دوسری آسامیوں کیساتھ ساتھ امام مسجد/خطیب کی ایک آسامی کیلئے بھی درخواستیں مانگی گئیں اسی اشتہار میں سٹینو ٹائپسٹ کی آسامی کی تنخواہ کیلئے حکومت کا اسکیل12 مقرر کیا گیا جبکہ تعلیمی قابلیت ایف اے بمع ٹائپنگ اور شارٹ ہینڈ رکھی گئی جبکہ امام مسجد/خطیب کیلئے پے سکیل11 مقرر کیا گیا اور اس کیلئے تعلیمی قابلیت کم از کم ایم اے اسلامیات کے علاوہ کسی مستند ادارے سے فاضل درس نظامی، فاضل عربی ،شہادة القراة والتجوید اور کسی بھی سرکاری یا نیم سرکاری ادارے میں امامت اور خطابت کا ایک سالہ لازمی تجربہ مانگا گیا۔ اسٹینو گرافر کے گریڈ بارہ پر کوئی اعتراض نہیں ہے بلکہ اسے دوسرے سرکاری ملازمین کے ساتھ اور بہتر بنایا جائے اعتراض یہ ہے کہ انگریزی کی مختصر تشریح کرنے والے کو سکیل بارہ اور اسلامیات میں ایم اے کرنے والا جو قران پاک کی تشریح کرے گا اسے ایک درجہ کم رکھا گیا ؟۔ آج ہمارے معاشرے میں جو مذہبی تنگ نظری اور معاشرتی زبوں حالی نظرآرہی ہے اس کی بنیادی وجہ دینی اور دنیاوی تعلیم دینے والے کو ہم نے فقط”ملاء اور ماسٹر“ بنا کر رکھا ہوا ہے دین اسلام کی تعلیم اور تبلیغ دینے والے کو عیسائی ، یہودی اور بدھ مت کے مبلغوں کی طرح با عزت مقام نہ دیئے جانے کی وجہ سے ہمارے ملک میں روائتی ملا ازم نے فروغ پایا جس کا نتیجہ ہم سب من حیث القوم بھگت رہے ہیں آج کی مذہبی انتہا پسندی، بنیا دپرستی اور لا علمی کی اصل وجہ یہی ہے اگر استاد کو بہتر مراعات دی جاتیں تو یہ لوگ خود کو معاشرے میں کم تر ہونے کے احساس کا شکار نہ ہوتے اور ”ملاء یا ماسٹر“کی بجاے ایک بہترین عالم دین اور سکالر بن کر نوجوان نسل کو روشنی دکھاتے ۔کسی کالج یا تعلیمی ادارے میں لیکچرر اسلامیات کی تقرری کیلئے بھی کم از کم تعلیمی قابلیت ایم اے اسلامیات مقرر ہے اور تعلیمی اداروں کے یہ لیکچرار جو طلباء کو اسلامیات کی تعلیم دیتے ہیں ان کیلئے حکومت نے قومی پے اسکیل17مقرر کیا ہوا ہے کیا یہ بات عجیب سی نہیں لگتی کہ پاکستان کی نیشنل پولیس اکیڈیمی کی مسجد کا امام جس نے اکیڈیمی میں زیر تربیت پولیس افسران اور وہاں کام کرنے والے دوسرے افراد کو مذہبی تعلیم دینی ہے اس کا رتبہ سولہ سالہ تعلیمی ریکارڈ فاضل عربی سمیت دوسرے مدارس کی تعلیم کے علا وہ ایک سالہ تجربہ رکھنے کے با وجود ایک عام کلرک کے بر ابر رکھا جائے اسلام آباد کی اس پولیس اکیڈیمی میں رینجرز اور دوسرے قانون نا فذ کرنے والے اداروں سے متعلق افسران کو گاہے بگاہے وہاں کورس کیلئے بھی بلا یا جاتا ہے اس لیئے ایسی اکیڈیمی میں امامت اور دینی تعلیم دینے والا مرتبے میں کم نہیں ہونا چاہیئے ․․․ایک ایسا شخص جو اسلام آباد جیسے بڑے شہر میں تعینات ہو وہ دس بارہ ہزار روپے میں کس طرح گزارہ کرے گا اوراگروہ شادی شدہ ہے تو وہ خود اور بچوں کو کیا کھلائے گا اور ہمارا معاشرہ جو ابھی تک اپنے بزرگوں کو کسی اولڈ ہوم یا بورڈنگ ہاؤس میں داخل کرانے کی بجائے اپنے بوڑھے والدین کی خدمت کرنا اور انہیں اپنے ساتھ رکھنا خوش قسمتی اور عبا دت سمجھتا ہے وہ اسلام آباد جیسے مہنگے ترین شہر میں خاندان سمیت اس قلیل تنخواہ میں کیا کرے گا؟ ایک استاد یا داعی حق کے کام کی صحیح مثال ایک دہقان کے کام سے دی جا سکتی ہے جس طرح اس کا مقصد صرف اتنی سی بات سے حا صل نہیں ہو سکتا کہ کچھ بیج کسی زمین میں ڈال کر فارغ ہو بیٹھے اسی طرح ایک استاد یا داعی حق کا کام بھی صرف اسی سے انجام نہیں پا سکتا کہ وہ بچوں کو روائتی تعلیم دے انہیں رٹا لگانے کا عادی بناتے ہوئے کسی بھی طریقے سے پاس ہونے کی ترغیب دے یا داعی حق بن کر لوگوں کو کچھ وعظ سنا کر یا نماز پڑھا کرسمجھے کہ ڈیوٹی پوری ہوگئی بلکہ اصلاح اور نیکی کی تعلیم کیلئے ضروری ہے کہ اس کے دل کے اندر اپنی دی گئی تعلیم اور وعظ کے ساتھ وہی لگاؤ ہو جو ایک فرض شناس کسان کو اپنے بوئے ہوئے بیج کے ساتھ ہوتا ہے ۔ لگاتا رمحنت اور مسلسل نگہداشت کرتا ہے تب کہیں جا کر اپنی محنت کا پھل پاتا ہے اسی طرح ایک استاد اور خطیب کو بھی اسی صورت میں اپنی دعوت کو پھولتے دیکھنا نصیب ہوتا ہے جب وہ دعوت کے ساتھ ساتھ تربیت کی جانکاہیوں کے ایک طویل سلسلے کو جھیلنے کی قابلیت اور ہمت رکھتا ہو اور اگر اس میں قابلیت تو کوٹ کوٹ کر بھری ہو لیکن دو وقت کی روٹی کی سختیوں اور ہمارے معاشرے کے رسم ورواج میں جکڑے ہوئے وسائل نے اسے مفلوج کر رکھا ہو تو وہ اپنے فرائض پر مکمل توجہ نہیں دے سکتا۔افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ امریکہ برطانیہ اور یورپی ممالک کے فادر ، یہودیوں کے ربی کی ماہانہ تنخواہیں ہمارے سرکاری اور تعلیمی اداروں کے امام مسجدوں اور خطیبوں کی دس سال کی تنخواہ کے برا بر ہیں اور ہمارے بی اے بی ایڈ سکول ٹیچر اور ا یم اے اسلامیات خطیب کی ما ہانہ تنخواہ پادری، ربی کی آدھے دن کی تنخواہ کے برابر تو کجا ایک ان پڑھ خاکروب اور چوکیدار کے برابر بھی نہیں ؟ |
Please visit: http://aftabkhan.blog.com