Featured Post

FrontPage صفحہ اول

Salaam Pakistan  is one of projects of  "SalaamOne Network" , to provide information and intellectual resource with a view to...

سزا یافتہ مجرم… !! Convicted Primeminister

.سید یوسف رضا گیلانی کو سزا سنادی گئی۔ سات رکنی بینچ نے اُنہیں توہین عدالت کا مرتکب پایا۔ حکم جاری ہوا کہ وہ عدالت کے برخاست ہونے تک قید میں رہیں گے۔ ایسا ہی ہوا۔ عدالت عظمیٰ کے عزت مآب جج صاحبان فیصلہ سنانے کے بعد اپنے چیمبرز کو رخصت ہوئے۔ اس کے ساتھ ہی وزیراعظم کو ملنے والی سزا تمام ہوگئی۔ لیکن اب یوسف رضا گیلانی وہ نہ تھے جو کمرہ عدالت میں داخل ہوتے وقت تھے۔ تب ان پر ایک الزام تھا۔ یہ الزام کہ بطور چیف ایگزیکٹو انہوں نے عدالت کا ایک واضح فیصلہ ماننے میں کوتاہی کی۔ یہ کہ انہوں نے شعوری طور پر عدالت کا مضحکہ اڑایا۔ یہ کہ بار بار کی تلقین کے باوجود انہوں نے عدلیہ کے سامنے سرتسلیم خم کرنے سے انکار کردیا۔ آج صبح عدالت کے کمرے میں قدم دھرنے تک وہ محض ملزم ہی تھے لیکن چند لمحوں بعد، اس کمرے کی دہلیز سے باہر قدم رکھتے ہوئے وہ ملزم نہیں، ایک سزا یافتہ مجرم تھے۔ وہ طویل عرصے تک عدالت عظمیٰ کے فیصلے سے گلی ڈنڈا کھیلتے رہے۔ ان کی کابینہ کے وزراء اُن کے ایما پر عدلیہ کے خلاف جا بجا سرکس لگاتے رہے۔ جس دن نظر ثانی کی درخواست مسترد ہوئی اس دن پی آئی دی کے اندر ایک شعلہ فشاں پریس کانفرنس کا اہتمام ہوا۔ گز گز بھر لمبی زبانیں رکھنے والوں نے جج صاحبان کے شجرہ ہائے نسب بھی ادھیڑ ڈالے۔ اس نوع کی دشنام طرازی ہوئی کہ زمیں و آسمان لرز اٹھے۔ 16/جنوری سے توہین عدالت کے مقدمے کا دفتر کھلا تو الف لیلیٰ کی ایک اور کہانی شروع ہوگئی۔ ”خط تو لکھنا ہی پڑے گا“ کے جملے سے آئینی دانش کی نئی رفعتیں پانے والے چوہدری اعتزاز احسن نے قلابازیوں کا ایسا تماشا لگایا کہ بڑے بڑے بازیگر دانتوں میں انگلیاں دابے رہ گئے۔ مجھے لگتا ہے کہ یہ آئینی سقراط کی عمروکالت کا سب سے کم مایہ دور تھا جب اُنہیں خود پتہ نہیں تھا کہ اُن کی زبان سے کیسے پھول جھڑ رہے ہیں اور انتہائے جنون میں وہ ستاروں پہ کمندڈالنے کے لئے کس طرح ایڑیاں اٹھا اٹھا کر لپک رہے ہیں۔ اٹارنی جنرل مولوی انوارالحق نے، استغاثہ کا معاون ہونے کی حیثیت سے ایک متوازن رویہ اختیار کیا، تو ایک سابق پی سی او جج کو‘ اٹارنی جنرل کا منصب سونپ کر عدالت میں لاکھڑا کیا گیا۔ اخباری رپورٹس سے اندازہ ہوتا ہے کہ انہوں نے سات رکنی بینچ کو مشتعل کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی اور تضحیک و تمسخر کی آخری حدوں تک پہنچ گئے۔ بلاشبہ 16/مارچ 2009ء سے لے کر اب تک اگر اس حکومت کے عدلیہ کے بارے میں طرزعمل کا مشاہدہ کیا جائے تو ہماری تاریخ کی ایک ایسی فرد سیاہ تیار ہوتی ہے جو کسی بھی جمہوریت کے لئے سرمایہ اعزاز نہیں ہوسکتی۔

وزیراعظم نے ایک حلف اٹھا رکھا تھا۔ لیکن انہوں نے اپنے حلف سے استواری کے بجائے‘ اپنی سیاسی قیادت سے وفاداری کو ترجیح دی۔ یہ اُن کے اپنے حلف کی واضح خلاف ورزی تھی۔ اُن کے حلف میں کسی قبر یا کسی شخصیت سے وفاداری نباہنے کے بارے میں ایک لفظ تک نہیں۔ لیکن وہ آئین، اپنی منصبی ذمہ داریوں، اپنے حلف اور عدالتی احترام کے تقاضوں کو بالائے طاق رکھ کر پارٹی قیادت کی چوکھٹ پرسجدہ ریز ہوگئے۔ انہیں زعم باطل یہ رہا کہ جنس کوچہ وبازار جیسی یہ سوچ اور سطحی قسم کا یہ جیالاپن اُن کا قد کاٹھ بڑھارہا ہے لیکن عملاً وہ ایک خودشکن شخص کی طرح مسلسل اپنے وجود کی قاشیں کاٹ رہے تھے۔ دراصل مسئلہ یہ آن پڑا تھا کہ اگر وہ سوئس حکام کو خط لکھتے تو اُسی دن منصب سے فارغ کردیئے جاتے اور صدر زرداری کا نامزد کردہ نیا شخص حلف اٹھالیتا۔ اپنے عہدے پر قائم رہنے کے لئے لازم تھا کہ وہ عدالت کا نہیں، زرداری صاحب کا حکم مانیں۔ یہی وہ لمحہ تھا جب کوئی بڑا شخص ایک بڑا فیصلہ کرتا ہے اور نتائج و عواقب سے بے نیاز ہوکر تاریخ کے معطر نگارخانے میں اپنی تصویر آویزاں کرنے کے لئے حد سودوزیاں سے بہت آگے نکل جاتا ہے۔ اگر سید زادہ ملتان عہدے کے لالچ اور اپنی بے کراں کرپشن کے تحفظ کے سبب صدر زرداری سے وفاداری کی بکل مارلینے کی بجائے پارلیمنٹ میں کھڑے ہوکر کہتے کہ میں نے عدالتی فیصلے پر عمل درآمد کا فیصلہ کرلیا ہے اور ملک کی سب سے بڑی عدالت کے حکم کے عین مطابق سوئس حکام کو خط لکھ رہا ہوں تو پارٹی کے عتاب کا نشانہ بننے اور منصب سے محروم ہوجانے کے باوجود تاریخ انہیں اپنی آغوش میں لے لیتی۔ ایک راستہ اور بھی تھا۔ وہ فرماتے کہ ایک طرف اپنی سیاسی قیادت سے اٹوٹ وفاداری کا سوال ہے اور دوسری طرف عدالت عظمیٰ کے فیصلے کی تابعداری کا مسئلہ۔ پی پی پی کا سپاہی ہونے کے ناتے میں سوئس حکام کو خط لکھنے سے قاصر ہوں۔ لیکن اسلامی جمہوریہ پاکستان کا وزیراعظم ہوتے ہوئے اپنے حلف کی پاسداری بھی مجھ پہ لازم ہے۔ میں نہیں چاہتا کہ توہین عدالت کا ارتکاب کرنے والی بے توقیر فہرست کا حصہ بنوں۔ سو اپنی قیادت سے بے وفائی اور عدلیہ کی توہین، دونوں سے بچنے کے لئے میرے پاس واحد راستہ یہی ہے کہ اپنے عہدے سے مستعفی ہوکر، عام بینچوں پہ بیٹھ جاؤں۔ سید زادہ ملتان نے یہ راستہ اختیار نہ کیا۔ انہوں نے ایک بے ننگ و نام اور روز اول ہی سے ہاری ہوئی جنگ لڑنے کا فیصلہ کیا۔ اور آج وہ سزا یافتہ مجرم ہیں۔عدالت سے نکلتے ہوئے انہوں نے ہاتھ لہرانے کی کوشش کی جوڈوبتے جہاز کے بادبانوں کی طرح لرز رہے تھے۔ ان کے ہونٹوں پہ ایک خزاں رسیدہ مسکراہٹ تھی اور چہرہ تیز دھوپ میں جھلسی ہوئی پت جھڑ کی طرح پیلا پڑرہا تھا۔ اُن کی بدن بولی ایسی شکست کا نوحہ تھی جس میں تسکین قلب و جاں کا ذرا ساسامان بھی نہیں ہوتا۔ 

بڑے خطرے میں ہے حسن گلستان ہم نہ کہتے تھے

چمن تک آگئی دیوار زنداں، ہم نہ کہتے تھے 

یوسف رضا گیلانی کی گٹھڑی میں اب کچھ نہیں کہ وہ عوام میں جاکر سراونچا کرکے کھڑے ہوسکیں۔ وہ ہزار جتن کریں، ہیرو بن سکتے ہیں، نہ شہید۔ اپنی اور اپنے خاندان کی لامحدود کرپشن کے تحفظ کے لئے عہدے سے چمٹے رہنے کے لئے آئین کی حرمت، قانون کی تکریم اور منصب کی تعظیم کو خاک میں ملا دینے والے کسی شخص کے لئے تاریخ کی معتبر کتاب میں کوئی جگہ نہیں۔ اچھا ہوتا کہ سزایافتہ مجرم کے طور پر سپریم کورٹ کی عمارت کی پہلی سیڑھی اترتے وقت وہ میڈیا سے کہہ دیتے کہ ”میں مستعفی ہورہا ہوں“۔ لیکن اُن کی زبانوں سے ایسے جملے چھین لئے جاتے ہیں جن کے مقدر میں رسوائیاں لکھ دی گئی ہوں۔

پیپلزپارٹی کا نامہٴ اعمال بانجھ ہے۔ وہ انتخابات کے لئے کسی شہادت کی آرزومند تھی۔ یوسف رضا گیلانی بھینٹ چڑھ گئے۔ اسلام آباد کے باخبر صحافی جانتے ہیں کہ نہ پارٹی میں گیلانی صاحب کا کوئی مضبوط حلقہ ہے نہ ایوان صدر کے کسی طاق میں اُن کی محبوبیت کا کوئی چراغ روشن ہے۔ صدر زرداری کی حکمت عملی یہ ہے کہ قربان گاہ میں پڑا بکرا ذبح ہو جانے کے بعد بھی تڑپتا پھڑکتا رہے، اس کا لہو ہولے ہولے بہتا رہے اور وہ اس فضا کو پارٹی کی انتخابی حکمت عملی میں ڈھالتے رہیں۔ ”وہی ذبح بھی کرے ہے وہی لے ثواب اُلٹا“ کے مصداق ذبح ہوجانے والے وزیراعظم کی قربانی کا سارا ثواب صدر زرداری سمیٹنا چاہتے ہیں۔ سو اس معاملے کو لٹکایا جائے گا۔ بال کی کھال اتاری جائے گی۔ قانونی موشگافیوں اور آئینی نزاکتوں کا ایک دور چلے گا۔ سڑکیں آباد کرنے کے جتن کئے جائیں گے۔ ایک بحران اٹھانے کا اہتمام ہوگا لیکن خلاصہ کلام یہی ہے کہ لاش کو ممی بناکر محفوظ بھی کرلیا جائے تو وہ لاش ہی ہوتی ہے۔ ایک سزا یافتہ مجرم، اگر وزیراعظم کے منصب سے چمٹا رہتا ہے تو شاید آئینی شاطر اور قانونی جادوگر اس کا جواز ڈھونڈھ لیں، لیکن ہماری کم نصیب تاریخ اگر ایک سزا یافتہ مجرم کی وزارت عظمیٰ کے داغ ندامت سے بچ سکے تو اچھا ہوگا۔

سزا یافتہ مجرم… !!...نقش خیال…عرفان صدیقی

http://jang.net/urdu/details.asp?nid=616026
ایک تاریخ کا فیصلہ ہے اور ایک حکمران طبقے کا ۔ تاریخ کا فیصلہ یہ ہے کہ وہی معاشرے نشوونما پاتے ہیں جہاں عدل کی حکمرانی ہوتی ہے ، جہاں کمزور انصاف کی امید کر سکتا ہے اور طاقتور سزا کے خوف سے دوچار ہوتا ہے ۔ حکمران طبقے کا  ....
پنجاب میں ہی کیا سارے پاکستان میں”جمعرات“ کو پیروں فقیروں کا دن سمجھا جاتا ہے اوراس روز عام طور پر لوگ مزاروں پرحاضری دیتے او ر نوافل ادا کرکے دعائیں یا منتیں مانگتے ہیں۔ جمعرات کے دن ہی پاکستان کے پیر اور گدی نشین اور وزیراعظم کو توہین عدالت کی  ....
کارنویل کے ”لانگ پارلیمنٹ “ سے خطاب کے الفاظ وزیر ِ اعظم پاکستان کے لیے بھی موزوں ہیں۔ چند ایک تقاریر سننے کے بعد کارنویل اکتا گیا اور کہا․․․” تم لوگ اپنے کسی فائدے کے لیے کافی دیر سے یہاں براجمان تھے۔ اب یہاں سے چلے جائیں․․․خدا کے لیے  ....





The Bewildering Violence of Partition

ILYAS Chattha’s book, Partition and Locality: Violence, Migration, and Development in Gujranwala and Sialkot, 1947–1961, aims to “further the study of the impact of Partition and its aftermath in the Pakistani Punjab.” (page 252) On that score at least, it has succeeded; and then some.
By its own modest admission, this book is the latest offering to the vast corpus of literature that already exists on Partition. That in itself is reflective of Partition’s enduring legacy (enough for it to become a proper noun). Not only is it a wound that has yet to completely heal but it is also an event, or as some would argue, a process, that has yet to be fully understood. Indeed, Chattha too, as with virtually everyone who has ever worked on Partition, tries to grapple with how communities living relatively harmoniously over generations could turn on one another so viciously. As he suggests, there certainly were societal divisions and conflicts, religious and otherwise, but none that would warrant the sheer barbarity and visceral hatred that characterised Partition.

To make sense of this, Chattha looks at the cities of Sialkot and Gujranwala and their experiences of Partition-related violence, resettlement, and recovery. This focus on localities is a welcome approach and one that is a distinguishing feature of the recent writings on Partition. Even in those instances, however, Lahore and Amritsar have predictably attracted greater attention in relation to other districts and towns. In contrast to its regional and national variants, this approach highlights the differentiated nature of violence and recovery across various localities.

Despite this variation, both Sialkot and Gujranwala have much in common. According to the author, both were plagued by intense violence and the consequent migration of Hindus and Sikhs. Both also played host to large numbers of Muslim refugees and managed to recover and develop following the chaos of Partition. That said, much the same could be said about any other district in central and northern Punjab. What marks them out though, are their contrasting local and industrial profiles. Gujranwala’s position in central Punjab distinguished its pattern of violence, resettlement, and recovery from Sialkot which was a thriving industrial city, remade into a border town by a callously drawn line which divided the subcontinent in August, 1947.

In the first of the three parts to the book, Chattha examines the pre-Partition history of both cities. Starting from pre-colonial times through to 1947, he sketches a brief history of their differentiated patterns of urban settlement and economic activities. The “colonial inheritance” of both cities is also examined in detail, which makes for interesting reading in its own right.

Gujranwala and its satellite towns were important sites within the railway network while their artisan castes, especially the Muslim Lohars and Tarkhans, were renowned for their skills in metalworking and carpentry. Sialkot, on the other hand, became a thriving export-led industrial centre for surgical and sports goods.

Having introduced us to both cities, Chattha then embarks on the second section of his book which looks at the patterns of violence and displacement that began in March, 1947. This is where the book gets really interesting. While recognising the “spontaneity” of Partition violence, he also emphasises its organised nature. This is a very important argument. While other historians have also looked at the meticulous planning and organisation that went into massacres and forced evictions, Chattha masterfully locates the agents that were
involved in violence and examines the local specificities that led to violence in both Sialkot and Gujranwala.

The case of Gujranwala is particularly interesting. In this instance, violence against Hindus and Sikhs was orchestrated by the Lohars who drew on an ample stockpile of weapons — knives, daggers, swords, carbines et al. — which they were famous for producing. Among many incidents, this group, in connivance with individual railway drivers who were at times drawn from the same caste, ambushed trains carrying Hindu and Sikh refugees to India. What followed was a systematic slaughter of non-Muslims and the looting of their possessions.

In both cases, violence accompanied and was often encouraged by the rapid breakdown of state authority. This in turn was further worsened by the active participation of policemen and state functionaries whose job it was to ensure law and order. For a visual depiction of this trend, look no further then the scene in the movie Earth in which Amir Khan expresses his satisfaction at the firemen pouring fuel onto the flames consuming the houses of non-Muslims in Lahore. As with Amir Khan’s character, the actual protagonists involved in massacres, rapes, forced conversions and looting justified their actions in terms of seeking revenge for their hapless co-religionists who were being put to the sword in
East Punjab. As should be obvious, the killing teams in East Punjab used exactly the same justifications for their actions.

Having established that, the author then leads us into the third part of his book which examines the post-Partition period and the challenges of resettlement and economic recovery in both cities. Both localities were demographically transformed by the en-masse migration of non-Muslims and the influx of Muslim refugees from East Punjab. Chattha makes the interesting point that this displacement created opportunities for both locals and refugees in different sectors of the economy. In this sense, both cities also ‘gained’ from Partition.

Also intriguing is his analysis of the state’s role in refugee resettlement and economic development.

The real strength of this book though, is in the source material that Chattha has collected. Amongst the many materials this book is based on, are FIRs that he has collected from thanas. As someone who has had the distinct privilege (sarcasm intended) of working in Pakistani archives and record offices, I can only admire Chattha for his perseverance in getting hold of these records. He also supplements these sources with his use of interviews with both the perpetrators and victims of Partition. Particularly poignant are the accounts of “dindars” who chose conversion to Islam over certain death and dispossession.

One only wishes, though, that more space could have been devoted to what is undoubtedly the strength of this book: its superb analysis of localised violence. That in itself would have made a great monograph. But in dwelling on the pre- and post-Partition period this book reads more like a collection of distinct (though well-argued) sections rather then a harmonious whole.

Returning to one of his important arguments in relation to organised violence, Chattha suggests that “violence was politically, rather then religiously or culturally motivated. The political aims were not so much tied into the wider All-India issues but were to attain local power and territorial control.” (page 255) Like others, I am also sympathetic to this view.

Yet, (and this is a general comment, not a criticism of this book) these explanations often betray an eagerness to understand violence in largely functionalist or materialist terms.

Clearly, barbarity is more comprehendible when wrapped up in motives considered to be ‘rational’ and ‘calculated.’ And yet, there remains the uneasy ‘irrationality’ of violence to contend with, which invokes the abstract (read incomprehensible) notions of ‘community’ and ‘faith.’

Both can’t be easily reconciled, especially by those who despair at the sheer ‘irrationality’ or ‘madness’ of Partition violence. And so we end from where we began. Does this book advance our understanding of Partition? The answer to that is unequivocally yes. And yet, as any historian would acknowledge, there are no easy answers. This is where writers like Saadat Hasan Manto and poets like Amrita Pritam step in; for they evocatively capture the sense of bewilderment that lies behind any work on Partition. And therefore, even after all is said and done, Partition continues to defy comprehension. For the moment though, Ilyas Chattha’s book is as good.

Reviewed by Ali Raza: The reviewer has a PhD in South Asian History from Oxford University
Partition and Locality: Violence, Migration, and Development in Gujranwala and Sialkot, 1947–1961, (HISTORY), By Ilyas Chattha, Oxford University Press, Karachi, ISBN 9780199061723, 322pp.
http://dawn.com/2012/04/15/cover-story-the-bewildering-violence-of-partition/

Corruption Cobra: کرپشن کا شیش ناگ



Was Pakistan created after lot of efforts and blood of millions for these corrupt cobras? 

If no, what have you done so far?
Least should express your opinion to people around, create awareness to go out to vote for genuinely good people in next elections....


کرپشن کا شیش ناگ!نقش خیال…عرفان صدیقی
بات خاصی تلخ ہے لیکن در و دیوار پر کندہ ہو جانے والی اس حقیقت سے آنکھیں چرانا بھی خود فریبی ہے۔ موجودہ حکومت کے چار سالہ دور میں کرپشن کا ناسور اس تیزی سے پھیلا ہے کہ انتظامیہ کا شاید ہی کوئی عضو اس کی ہلاکت آفریں زہر ناکی سے محفوظ رہا ہو۔ کبھی کبھی تو یوں لگتا ہے کہ بد عنوانی سکہ رائج الوقت بن چکی ہے اور ریاستی نظام ایسے سانچے میں ڈھل گیا ہے کہ کرپشن سے گریز کرنے والے سرکاری اہلکار کیلئے آبرومندی کے ساتھ نوکری کرنا بھی ممکن نہیں رہا۔ جو کرپشن کے ہنر میں جتنا طاق ہے، اتنا ہی نہال ہے۔ جو بد عنوانی کی فنی نزاکتوں پر جتنی دسترس رکھتا ہے، حکمرانوں کے اتنے ہی قریب ہے۔ جس کے دامن پر جتنے زیادہ داغ دھبے ہیں، دربار خاص میں اسے اتنا ہی بلند مقام حاصل ہے۔ کہا جاتا ہے کہ نوعیت اور شدت کی کمی بیشی کے ساتھ کرپشن کا مرض دنیا کے ہر ملک میں موجود ہے۔ بھارت میں بھی کرپشن کی بڑی بڑی وارداتوں کی کہانیاں سامنے آتی رہتی ہیں اور اس وقت بھی وہاں داستان گوئی عروج پر ہے۔ یورپ، امریکہ اور دنیا کے بیشتر ترقی یافتہ ممالک کو بھی بد عنوانی سے پاک قرار نہیں دیا جا سکتا لیکن ہمارے جیسی ”لت پت“ اور ”شرابور“ کی کیفیت شاید ہی کسی دوسرے ملک میں نظر آئے۔

مسئلہ یہ آن پڑا ہے کہ ہمارے حکمران، ان کے اہل خاندان، ان کے دوست احباب اور ان کے سیاسی دست و بازو بد عنوانی کی اس گنگا میں اشنان کر رہے ہیں۔ جوں جوں پانچ سالہ عہد کی تکمیل کا وقت قریب آ رہا ہے، توں توں کرپشن کی میراتھن میں شریک لوگوں کی گرمیٴ رفتار بھی بڑھتی جا رہی ہے۔ ہمارے ہاں ساون کی ہریالی کی طرح پھلتی پھولتی کرپشن کا المناک پہلو یہ ہے کہ حکمران خود اس میں ملوث ہیں اور اس کا انتہائی مکروہ زاویہ یہ ہے کہ انتظامیہ نے ان تمام اداروں کو کرپٹ لوگوں کی معاونت، ان کے تحفظ اور ان کی ہر ممکن سرپرستی پر لگا دیا ہے جن کا بنیادی وظیفہ ایسے افراد کو گرفت میں لینا، ان کے خلاف ٹھوس شواہد اکٹھے کرنا اور انہیں کیفر کردار تک پہنچانا تھا۔ اسے کہتے ہیں کہ جب باڑ خود ہی کھیت کھانے پر آ جائے تو اسے کون بچائے گا۔ یہ ہے وہ کیفیت جو پاکستان کو دوسرے ممالک سے منفرد، ایک ایسے ملک کے طور پر ابھا رہی ہے جہاں کرپشن طرئہ امتیاز ہے، جہاں انتظامیہ خود کرپٹ ہونے کے ساتھ ساتھ کرپشن کی معاون و مددگار ہے اور جہاں کرپٹ عناصر کو ریاستی تحفظ حاصل ہے۔
آج کے ”جنگ“ میں دو خبریں اسی آب و ہوا کی عکاسی کر رہی ہیں جس نے پاکستان کو کرپشن کے گھنے جنگل میں بدل دیا ہے۔ پہلی خبر یہ ہے کہ سپریم کورٹ نے 21/ارب روپے کے ممنوعہ کیمیکل کوٹہ الاٹمنٹ اسکینڈل کیس میں مبینہ طور پر ملوث، وزیراعظم کے بیٹے علی موسیٰ گیلانی سمیت دیگر افراد کو نوٹس جاری کر دیا ہے جبکہ حکومت کی جانب سے اے این ایف میں حال ہی میں کئے گئے تبادلے منسوخ کرتے ہوئے حکومت کو ہدایت کی ہے کہ وہ عدالت کے بغیر کسی افسر کو تبدیل نہ کرے۔ عدالت نے مقدمے کے تفتیشی افسر، بریگیڈیئر فہیم اور ڈپٹی ڈائریکٹر عابد ذوالفقار کو ہدایت کی ہے کہ وہ اپنے عہدے کا چارج نہ چھوڑیں اور مقدمہ کی تفتیش کسی بھی دباؤ کو قبول کئے بغیر جاری رکھیں۔ بریگیڈیئر فہیم نے عدالت کو بتایا کہ ان کا اور تفتیشی افسر عابد ذوالفقار کا 9/اپریل کو تبادلہ کر دیا گیا۔ اس سے قبل اے این ایف کے ڈائریکٹر جنرل، میجر جنرل شکیل حسین کا تبادلہ کر کے عبوری چارج موجودہ قائم مقام سیکرٹری ظفر عباس کو دے دیا گیا۔ بریگیڈیئر فہیم نے عدالت عظمیٰ کو آگاہ کیا کہ ”موسیٰ گیلانی اور ان کے سیکرٹری توقیر کو تین بار سمن جاری کئے گئے لیکن وہ ایک بار بھی پیش نہیں ہوئے۔ انہوں نے کسی سمن کا جواب دینا بھی ضروری نہیں سمجھا۔ سیکرٹری اے این ایف ظفر عباس نے سارا ریکارڈ اپنے پاس منگوا لیا ہے۔ وزیراعظم کے پرنسپل سیکرٹری خوشنود لاشاری نے مجھ سے کہا کہ موسیٰ گیلانی کو الگ کر دو۔ وہ بڑے باپ کا بیٹا ہے۔ میں نے کہا کوئی وزیراعظم کا بیٹا ہے یا کسی بادشاہ کا، تفتیش شفاف ہو گی۔ اس پر تمام ریاستی مشینری، تفتیشی ٹیم کے خلاف سرگرم ہو گئی۔ وفاقی سیکرٹری وزیراعظم کے بیٹے کے خلاف تفتیش کو نقصان پہنچانے پر کمربستہ ہیں“۔
دوسری خبر ہمارے دوست، انصار عباسی کی کرید ہے۔ خبر میں بتایا گیا ہے کہ کرپشن کے انسداد اور بد عنوان عناصر کو گرفت میں لینے کیلئے قائم ادارے، قومی احتساب بیورو (نیب) کے چیئرمین، عزت مآب ایڈمرل (ر) فصیح بخاری کو اسلام آباد کے ایک عالی مرتبت سیکٹر میں 1066 مربع میٹر کا ایک پلاٹ الاٹ کیا گیا ہے جس کی قیمت، اندازاً دس کروڑ روپے ہے۔ کرید کے دوران نیب کے ترجمان نے وضاحت کی کہ ایڈمرل بخاری جب ریٹائر ہوئے تو انہیں استحقاق کے مطابق وہ پلاٹ الاٹ نہیں کیا گیا تھا جو مسلح افواج کے سربراہوں کو ریٹائرمنٹ پر ملتا تھا۔ اس زیادتی کی تلافی اب کی جا رہی ہے لہٰذا اسے کسی طرح کی رشوت یا نوازش بے جا نہیں سمجھنا چاہئے۔ انصار عباسی اور جنگ کے سینئر رپورٹر رانا غلام قادر کی تحقیق یہ بتاتی ہے کہ جب بخاری صاحب ریٹائر ہوئے تو وزیراعظم نواز شریف نے سروسز چیفس کو ریٹائرمنٹ پر ملنے والی بیشتر مراعات ختم کر دی تھیں جن میں اسلام آباد میں پلاٹ اور ڈیوٹی فری گاڑی درآمد کرنے کی سہولت بھی شامل تھی۔ ایڈمرل (ر) عزیز مرزا نے، جو خود نیول چیف رہے، اس امر کی تصدیق کی اور بتایا کہ نئی حکومتی پالیسی کے تحت انہیں بھی کوئی پلاٹ الاٹ نہیں ہوا۔
یہ ہے وہ ماحول جس میں اس وقت پاکستان سانس لے رہا ہے۔ وزیراعظم صاحب کے صاحبزادے پر یہ پہلا الزام نہیں۔ حج اسکینڈل اور کچھ دوسرے معاملات میں بھی ان کا نام آتا ہے۔ الزام کی بنیاد پر کسی کو مطعون کرنا قرین انصاف نہیں۔ لیکن جب الزام کی زد میں آیا ہوا کوئی فرد، اپنے رشتہ و تعلق، اپنے اثر و رسوخ، اپنے مضبوط دست و بازو اور اپنی سماجی حیثیت کے بل بوتے پر قانون کو جوتی کی نوک پر رکھ لے، تحقیق و تفتیش کا مضحکہ اڑانے لگے، کھوج پر مامور اہلکاروں سے گلی ڈنڈا کھیلنے لگے اور احتساب کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر کہے کہ کر لو جو کرنا ہے تو اس کا واضح مفہوم یہی لیا جا سکتا ہے کہ ریاست مفلوج ہو چکی ہے اور قانون کی فرمانروائی کا وہ تصور سنولا گیا ہے جو کسی بھی مہذب معاشرے کی اساس خیال کیا جاتا ہے۔ اسلامی جمہوریہ پاکستان کے وزیراعظم کے طور پر، اپنے حلف اور اپنے منصب کی حرمت کو مدنظر رکھتے ہوئے، سید زادئہ ملتان پر لازم تھا کہ وہ اپنے صاحبزادے پر حرف آتے دیکھ کر جناب چیف جسٹس کو خط لکھتے کہ میں اپنی ذات اور اپنے بچوں پر کرپشن کا کوئی داغ نہیں دیکھنا چاہتا، لہٰذا جناب چیف جسٹس خود اس معاملے کی تحقیقات کا اہتمام کریں۔ اس کے برعکس جو راستہ انہوں نے اپنایا اور جس طرح تحقیقاتی افسروں کو آزادانہ تحقیقات سے روکنے کیلئے نشانے پر دھر لیا، اس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ ہم کیسی دلدل میں دھنس چکے ہیں اور باڑ کی ہوس کا نشانہ بننے والے اس کھیت کو کیسے بچایا جا سکتا ہے؟ یہ پہلا معاملہ نہیں۔ اس سے قبل بھی انسداد بد عنوانی پر مامور سارے عقاب ان دیانتدار اور بے خوف سرکاری اہلکاروں پر ہی جھپٹتے رہے جو کرپشن کی آزادانہ تحقیقات پر بضد تھے۔
اور عزت مآب ایڈمرل (ر) فصیح بخاری کے بارے میں کیا کہا جائے؟ وہ ایک ایسے منصب پر ہیں جسے کسی بھی گوشے سے ملنے والی کسی بھی رعایت یا نوازش کو ایک لمحہ توقف کئے بغیر یہ کہہ کر ٹھکرا دینا چاہیے کہ میں محتسب کی مسند پر بیٹھا ہوں اور یہ نوازش، بے لاگ احتساب کے تقاضوں پر اثر انداز ہو سکتی ہے۔ اس کے بجائے انہوں نے کرپشن کے الزامات میں لت پت حکومت کے نام عرضی گزاری کہ مجھے پلاٹ عنایت فرمایا جائے جس پر علی موسیٰ گیلانی کے والد گرامی، سید یوسف رضا گیلانی نے انہیں دس کروڑ کا پلاٹ عطیہ کر دیا۔ اب وہ اس عطیے کی توجیہات تراش رہے ہیں۔
سو وطن عزیز ہمہ رنگ بد عنوانی کے سیل بلا کی زد میں ہے۔ المیہ محض شیش ناگ کی طرح پھنکارتی کرپشن نہیں، یہ روش ہے کہ حکومت اس شیش ناگ کے سامنے بیٹھی بین بجا رہی ہے تاکہ وہ اسی طرح پھن پھیلائے جھومتا رہے اور انسداد بد عنوانی پر مامور عناصر بچہ جمورا بنے آس پاس جھومر ڈالتے رہیں۔ 
The Muslim world has the unique distinction of being ruled by the corrupt dictators and kings .The wave of people uprising for change, freedom, democracy and justice has swept across the Middle East. Pakistanis are however ...
In all civilised societies mlitary is subservient to the civilian political authority for the defence of country [not in private control to support their corrupt practices]. If 'Memogate' is true, then its a nasty effort by corrupt and ...
While discussing corruption, it was pointed out that there are about 1200 politicians in the assemblies, why corruption by these 1200 people is discussed? Are there only 1200 politicians who are corrupt and no one else?
The news that Imran Khan launched an anti-corruption manifesto at a rally of over 100000 in Karachi yesterday, as a lead up to campaigning for the 2013 elections, filled me with a sense of hope. But a last hope, as Pakistan ...
Corruption in Pakistan is widespread and growing. In the latest Corruption Perception Index, the country is ranked the 34th most corrupt country in the world, up from 42nd last year. Recent polls reveal a pervasive culture of .
While he did not mention the word corruption in his speech, the SC has to give its final verdict on many of his cases and the judges have hinted that there has to be a limit to their patience. Once it runs out, either Zardari has to ...
Every possible corruption discovered in these corporations or in the canal water thefts has to be prosecuted. It simply requires the rule of law. Common Pakistanis are being kidnapped by gangs, who are patronised by ...
There are around 1200 elected members at federal and provincial houses in Pakistan , who are perceived to be corrupt. The figure of 1200 corrupt out of total population of 180000000 is very small, rather insignificant fraction ...

The Quest For Lasting Peace!

“Of course, you are an adult and you will have to make your own decisions from now on. But let me share something with you that I consider important: we are a community-oriented people and our faith is our culture. Drinking is against our values. I hope you will not do something that is considered inappropriate in our society.”
The above quote was my father’s advice at the time of my departure for studies abroad. My late father was a student in England from 1933 to 1936. He said that his father (my grandfather) said precisely the same words to him when he was leaving home to go overseas.
My personal belief is that the majority of Pakistanis and Muslims all over the world, for generations, have remained steadfast in observing the cultural norms of their societal values. The point is that culture is a sacred trust. It is an identity of a people, a society, a nation, and cultural violations or assaults on a community’s sacrosanct values, be that from within or externally organized, lead to societal conflicts on a micro level, and at a macro level, cause antagonism and strife amongst nations. Externally planned cultural interventions, as are being organized on a massive scale all over the world by the US-led Western establishments, are a major cause of present day global conflicts.      
In fact, in the historical context, colonialism was not only a physical occupation; it was an attempt at cultural oppression of the occupied people and societies. Only a decade ago, Pakistan was once again (in the aftermath of colonialism) a victim of precisely planned foreign cultural aggression – indeed, explicitly organized by a close collaboration between external and internal political actors – and this continues today.
Dog-loving, Havana cigar-puffing and Johnny Walker whiskey-sipping General Pervaiz Musharraf, in his conceptually flawed, completely ignorant, absolutely arrogant, self-centered and blatantly disrespectful attitude and mindset toward his native societal norms and values, romanticized an American-sponsored cultural assault against his own people and nation. Musharraf’s “Enlightened Moderation” doctrine was a meticulously prepared Bush-Blair cultural invasion of Pakistan. It was this nation that coined the term “Islamic extremism” and gave birth to the “war on terrorism.”  Musharraf’s doctrine of “Enlightened Moderation” was an unleashing of psychological warfare against the Pakistani people to make them “hate” themselves, their traditional norms and values, and reject their cultural imperatives as contradictory to contemporary concepts of “modernization” and as a basic cause of their backwardness.
Musharraf, with his ego-centric and personal cultural animosity towards common societal values, claimed that he was promoting a “modernization” agenda for his beleaguered and backward nation. But the point is that “modernization” and “westernization” are absolutely two different concepts. Modernization is a process of comprehending the dynamics of a contemporary technological civilization and using the knowledge in the service of human advancement and socio-cultural-economic enhancement. Rejection of a society’s cultural norms is not required for “modernization” to take place. On the other hand, “westernization” compels a rejection of one’s native values and a transformation of native culture by heavily influenced Western views and attitudes toward daily existence and socio-cultural-political-economic perspectives on life.
Little did Musharraf and his US-West geo-political and cultural patrons know (or even appreciate today) that they can bomb a country into the Stone Age, destroy its infrastructure, kill its people in millions, and yet a nation’s cultural subjugation, its cultural enslavement and its cultural subordination is not possible. It is precisely for this reason that US-Nato is at the verge of a military-political defeat in Afghanistan, as the US-West was defeated in Vietnam. The US has been politically frustrated in its own backyard in South and Latin America and elsewhere all over the world – and the US-West’s grand designs will continue to be thwarted everywhere.
When Musharraf staged the military coup, I wrote him several letters and warned him that the US would seek his help to destabilize and invade Afghanistan. It was pointed out that this course wouild be destructive for Pakistan’s future and it has been proven to be so. At the time, my view was that Pakistan had a golden opportunity to exert a transformational influence on the geo-political system and steer it towards giving political resolutions to political issues rather than to the US-West’s military adventurisms. But Musharraf had flawed judgment – and the rest is history being witnessed in today’s Pakistan.
Now, years later, Pakistan has a similar opportunity knocking at its door. With Obama’s re-election in sight, NATO supplies blocked, Taliban forces being militarily and politically undefeated in Afghanistan, US-Nato at the verge of a military-political defeat, and massive Pakistani public opinion against US-Nato’s presence in Afghanistan and American intervention in Pakistan’s affairs, there is a golden opening and space to re-adjust Pakistan’s traditional alliance with the West, most specifically with the US.
The ball is in Pakistan’s court now in shaping and transforming the present geo-political system largely dominated by the US and the West. In the process of a major foreign policy paradigm shift in Pakistan, it will have to distance itself from past alliances and take up new policy directives based on the convergence of shared common cultural heritage in neighboring nations. For a lasting national and regional peace, Pakistan will have to nurture and initiate an innovative and inventive foreign policy. Pakistan will have to go beyond the scope of its traditional and present foreign policy parameters and conceive a visionary and imaginative doctrine for its role in global political affairs. In this context, it needs to take prompt steps to call for a “Political Confederation” between Pakistan-Afghanistan-Iran and set up a regional organization to coordinate a three-nation defense and foreign policy strategy, foreign trade agreements, and domestic development programs. This could be later expected to extend to Central Asian Islamic nations.  Indeed, cultural imperatives and alliance amongst people of common heritage are bound to have mass support and liberate these nations from antagonism of foreign cultural and political domination.
In terms of immediate foreign policy readjustments and realignments, Pakistan needs to espouse a fresh foreign policy doctrine for a lasting peace in the region. Pakistan should cease being a partner in the US-Nato so-called “war on terrorism”. Pakistan should not open Nato routes for the supply of lethal military equipment to Afghanistan. Drone attacks will have to be stopped completely and immediately. US-Nato will have to pay appropriate compensation for damages to its infrastructure and pay taxes for the transportation of essential non-military supplies to its forces. Pakistan will have to be a participant in all peace negotiations with the Afghan Taliban and other political actors in the conflict.
In return, Pakistan will have to ensure the safe exit of the US-Nato forces from Afghanistan. It will have to provide logistic, strategic and political help in the final settlement of the Afghan conflict and assist in accelerating the peace process. Pakistan will have to organize confidence-building measures amongst all conflicting parties and help in the making of global coalition partners in the rebuilding of Afghanistan.
This is a revolutionary foreign policy agenda. The question is: Will Pakistan fail once again in its quest for a national lasting peace?
Developing a culturally-based foreign policy strategy is the only way to go forward now.

Dr Haider Mehdi: http://www.opinion-maker.org/2012/04/the-quest-for-lasting-peace/#