آخری امید...صبح بخیر…ڈاکٹر صفدر محمود | ||
عالمی شہرت یافتہ امریکی دانشور اور End of Historyکے مصنف فوکو یاما نے اپنی کتاب میں دنیا بھر کے سیاسی نظاموں کا جائزہ لینے کے بعد نتیجہ یہ نکالا ہے کہ جمہوریت کوئی مکمل ترین اور آئیڈیل نظام حکومت نہیں لیکن دریں حالات اس سے بہتر سیاسی نظام بھی موجود نہیں اس لئے جمہوریت کو آخری چارہ کار کے طور پر قبول کیا گیا ہے۔ ہمارے ہاں عام تصور یہ ہے کہ علامہ اقبال جمہوریت کے مخالف تھے۔ چنانچہ جمہوری نظام کے خلاف دلائل دیتے ہوئے اکثر ان کا وہ شعر پڑھا جاتا ہے کہ جمہوریت ایک ایسا طرز حکومت جس میں بندوں کو گنا کرتے ہیں تولا نہیں کرتے۔ بلاشبہ جمہوریت کی بنیاد ہی ”تعداد“ یعنی اقلیت و اکثریت پر ہے، چاہے وہ اکثریت صحیح انتخاب کی اہل ہو یا نہ ہو۔ برا نہ منائیں کیونکہ میں نہ سیاستدان ہوں اور نہ ہی میرا کوئی سیاسی ایجنڈا ہے۔ میرا اول و آخر ایجنڈا پاکستان ہے۔ اس حوالے سے مجھے جب یہ خیال آتا ہے کہ ہمارے سادہ لوح نیم خواندہ عوام جذبات کی ر و میں بہہ کر اور سیاسی طلسمات کا شکار ہو کر ایسے لوگوں کو منتخب کرلیتے ہیں جن پرلوٹ کھسوٹ اور خزانہ چوری یا بیرون ملک دولت کی منتقلی کے ناقابل تردید ثبوت موجود ہیں میرے دل کو ٹھیس لگتی ہے اورمیں جمہوریت کے مستقبل کے بارے میں شاکی ہو جاتا ہوں۔ ہر پاکستانی کو علم ہے کہ جناب صدر زرداری کے چھ کروڑ ڈالر سوئٹزرلینڈ کے بینک میں محفوظ تھے اوریہ رقم کمیشن کے طورپر وصول کی گئی تھی لیکن اسکے باوجود ”ایک زرداری سب پہ بھاری“ کا نعرہ لگانے والے اودھم مچاتے ہیں اور اس خزانہ چوری کا دفاع کرنے والے صاحبان ضمیر بھی موجودہیں۔ سچ، اصول اورایمانداری سے یہ انحراف ہی دراصل جمہوریت کے لئے سب سے بڑا خطرہ رہا ہے اور آج بھی ہے۔ میں کئی بار مختلف ٹی وی چینلوں پر یہ ذکر سن چکا ہوں کہ وزیراعظم صاحب کی بیگم صاحبہ نے لندن کے مہنگے ترین سٹور ”ھیرارڈز“ سے اتنی شاپنگ کی کہ سامان کی منتقلی کے لئے ٹرک کرائے پر لینے پڑے چند روز قبل محترم انصار عباسی صاحب نے لکھا تھا کہ وزیراعظم صاحب کے صاحبزادے پندرہ پندرہ لاکھ کے موبائل دکھاتے پھرتے ہیں اور ان میں وہ صاحبزادہ بھی شامل ہے جسے لاہور کی ایک پرائیویٹ یونیورسٹی نے فیس کی عدم ادائیگی کی بنیاد پر نکال دیا تھا لیکن یہ اس وقت کی بات ہے جب وزیراعظم صاحب جنرل مشرف کی جیل میں پابند سلاسل تھے اور انہیں گھریلو اخراجات پورے کرنے کے لئے اپنی قیمتی گھڑی فروخت کرنا پڑی تھی۔ اب توخیر ماشا اللہ ان کے لشکارے مارتے سوٹ اٹلی سے آتے اور انہیں دولہوں کی مانند چمکاتے ہیں۔ میں کئی روز تک ان خبروں یا الزامات کی تردید کا انتظار کرتارہا کہ آخر وزیراعظم صاحب نے ایک پریس سیکرٹری بھی رکھا ہوا ہے لیکن جب ان کے کان پر جوں تک نہ رینگی تو میں نے مجبوراً ان خبروں پر یقین کرلیا۔ سوال یہ ہے کہ جو عوام کھلم کھلا خزانہ چوروں کو ووٹ دیں، ان کے حق میں نعرے لگائیں اور ان کے لئے قالین بن جائیں، کیا وہ عوام کرپشن سے نجات چاہتے ہیں؟ کیا وہ جمہوریت کی کامیابی کی ضمانت دے سکتے ہیں کیونکہ جمہوریت کی روح ہی احتساب اور جوابدہی ہے۔ وزیراعظم صاحب نے سپریم کورٹ کے الزام کے جواب میں کیا خوب کہا کہ کرپٹ کون ہے اس کا فیصلہ عوام کریں گے ۔ یہ بات ہر کرپٹ حاکم بڑے اعتماد سے کہتا ہے کیونکہ اسے علم ہے کہ ہمارے عوام کرپشن کا برا نہیں مناتے۔ اگر برا مناتے ہوں تو پھر اسے یا اسکی پارٹی کوووٹ کیوں دیں؟ جن عوام نے آج تک کسی کو محض اس لئے مسترد نہیں کیا کہ وہ کرپٹ تھا خزانہ چور تھا، میرٹ کو پامال کرتا تھا، اقتدار سے فائدہ اٹھا کر دولت کے انبار لگاتا تھا، اقربا پروری اور دوست نوازی کا مرتکب تھا کیا وہ عوام محتسب ہوسکتے ہیں اور کیا ان کے احتساب پر بھروسہ کیا جاسکتا تھا؟ اگر آپ بغور حالات کا جائزہ لیں تو محسوس ہوگا کہ ہمارا سارا جمہوری نظام ہی دولت کی ریل پیل، جھوٹ اور بہتان، قانون و میرٹ کی پامالی، بے انصافی، اقرباء پروری اور لوٹ کھسوٹ پر مبنی ہے جس میں انسانی استحصال ہوتا ہے اور جس میں غریب، ایماندار، اہل اور بے وسیلہ انسان کے لئے کوئی جگہ نہیں ۔ یہی وہ بیماریاں تھیں جن کے سبب علامہ اقبال جمہوریت سے بیزار تھے کیونکہ وہ مغرب میں رہ کر اپنی آنکھوں سے مغربی جمہوریت کو ان امراض کا مریض دیکھ کرآ ئے تھے۔ سچ یہ ہے کہ علامہ اقبال ہرگز جمہوریت کے فلسفہ یا انتخاب کے اصول کے خلاف نہیں تھے بلکہ وہ اس کے مداح تھے اور وہ اپنے لیکچرز اورتحریروں میں جا بجا جمہوریت، روحانی جمہوریت اور اسلامی جمہوریت کی تعریف میں رطب للسان پائے جاتے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ علامہ اقبال کی روحانی جمہوریت کیا تھی؟ اس کی وضاحت ممتاز مصنف اور ریسرچ سکالر جناب قیوم نظامی نے اپنی تحقیقی، عام فہم اور معیاری کتاب ”زندہ اقبال“میں اس طرح کی ہے۔ ”اقبال جمہوری نظام کو اسلام کی اخلاقی اقدار، دیانت، صداقت، اخوت اور مساوات کے تابع رکھنا چاہتے تھے اور ایسی شیطانی جمہوریت کے خلاف تھے جو کرپشن، مفاد پرستی، موقع پرستی، اقربا پروری اور استحصال کو جنم دے… اقبالکے نزدیک انسان اور خدا کے درمیان پختہ تعلق روحانی جمہوریت کی بنیاد ہے۔کمیونزم اور کیپٹل ازم انسان کی روحانی اور مادی تسکین کا سبب نہیں بن سکتے۔ مذہب اور جمہوریت کے اشتراک سے ہی روحانی جمہوریت وجود میں آتی ہے… اقبال ایک ایسی روحانی جمہوریت پر مبنی سیاسی نظام قائم کرنا چاہتے تھے جس میں ارکان اسمبلی کا انتخاب سرمایہ اور جاگیر کی بنیادپر نہیں بلکہ اہلیت اور دیانت کی بنیاد پر ہو۔ ایسا جمہوری نظام جس میں قانون کی حکمرانی ہو اور حاکم بھی قانون کے تابع ہو“۔ اس بحث کو نتیجہ خیز بناتے ہوئے محترم قیوم نظامی صاحب نے لکھا ہے ”پاکستان کا موجودہ جمہوری نظام اقبال کے روحانی جمہوری تصور کے مطابق نہیں کیونکہ یہ ایک ایسا شیطانی جمہوری نظام ہے جس کی بنیاد ہی کرپشن اور مفاد پرستی پر رکھی گئی ہے۔ سیاسی جماعتیں جمہوریت کی بجائے شخصیت پرستی کو پروان چڑھاتی ہیں۔ اس نظام میں اخلاقی اقدار کی کوئی اہمیت نہیں اور قانون صرف کمزور افراد پرلاگو ہوتا ہے بااثر اشرافیہ قانون سے بالاتر ہے“ حقیقت یہ ہے کہ اس اصول کے تحت آج صدر مملکت کے لئے استثنیٰ مانگا جا رہا ہے ورنہ اسلامی جمہوری نظام میں تو خلیفہ کو کوئی استثنیٰ حاصل نہیں تھا اور حضرت عمر جیسا سخت گیر خلیفہ بھی عام شہری کی طرح قاضی کے سامنے پیش ہوتا تھا۔ یہی بات پروفیسر افتخار احمد نے اپنی کتاب عروج اقبال میں کہی ہے کہ اقبال جمہوری فلسفہ یا جمہوریت کے خلاف نہیں تھے بلکہ وہ جمہوریت کے نام پر انسانی استحصال، دولت کے استعمال اور موروثیت کے خلاف تھے۔ دیکھا جائے تو پاکستان کی موجودہ جمہوریت انہی امراض کی مریض ہے اور اگر آپ اس میں کرپشن، خزانہ چوری، لوٹ کھسوٹ اور اقتدار کے ذریعے دولت بنانے کا اضافہ کرلیں تو پاکستانی جمہوریت کا نقشہ مکمل ہو جاتا ہے۔ مغربی ممالک نے جمہوریت کے طویل سفر میں تعلیم کو فروغ دے کر، عوام کے سیاسی شعور کوپختہ کرکے، سیاسی جماعتوں کو منظم کرکے اور احتساب کے نظام کو موثر بنا کران کمزوریوں یاامراض پرخاصی حد تک قابو پا لیا ہے لیکن پاکستانی جمہوریت ابھی تک دولت، جاگیر، موروثیت، شخصیت پرستی، انسانی استحصال، میرٹ اور قانون کی پامالی اورلوٹ کھسوٹ کی اسیر ہے۔ میں خلوص نیت سے محسوس کرتا ہوں کہ ان امراض سے چھٹکارا حاصل کئے بغیر جمہوریت کا ثمر حاصل ہوسکتا ہے نہ عام آدمی جمہوریت کے ثمر سے مستفید ہوسکتا ہے۔ اس سارے منظر نامے میں میرے لئے حسن ظن اور خوش فہمی کی ایک ہی وجہ اور علامت ہے اور وہ علامت یہ ہے کہ عوام میں ان امراض کا شعور جنم لے رہا ہے، شاید آہستہ آہستہ پروان بھی چڑھ رہا ہے اور وہ ماضی کی سیاست سے مایوس ہو کر تبدیلی کی آرزو پالنے لگے ہیں۔ تبدیلی کی آرزو ہی میری آخری امید ہے۔ میرے نزدیک علامہ اقبال کی روحانی جمہوریت ہماری منزل ہے اور اسے شرمندہ تعبیر کئے بغیر پاکستان صحیح معنوں میں قائد اور اقبال کا پاکستان نہیں بن سکتا۔ |
Two aspects needs immediate attention, firstly the quality of politicians or the elected representatives, secondly the prevalent democratic political system. Both are complimentary hence should be viewed together rather than in ...
The Muslim world has the unique distinction of being ruled by the corrupt dictators and kings .The wave of people uprising for change, freedom, democracy and justice has swept across the Middle East. Pakistanis are however ...
Please visit: http://aftabkhan.blog.com