داعش، القاعدہ ، تکفیری طالبان ، بوکو حرام اور اس طرح کی تکفیری دہشت گرد تنظیموں کا مقصد مذہبی بنیاد پر سیاسی طاقت کا حصول ہے تاکہ عالمی حکومت (ان کے مطابق اسلامی خلافت) قائم کی جائے- ایرانی 'ولایت فقہ' کا بھی اسی طرح کا بین الاقوامی نظریہ ہے، وہ سنی اصطلاح 'خلافت' کی بجایے شیعہ اصطلاحات (امامت ،ولایت فقہ وغیرہ) استعمال کرتے ہیں- (بہت سے عالمی شیعہ علماء ایرانی نقطہ نظر سے متفق نہیں)- اگر ایرانی ولایت فقیہ ایران تک محدود رہے توکسی کو اعتراض نہیں ہو سکتا، کہ یہ ایران کا اندرونی معاملہ ہے مگر جب اس نظریہ کو دوسرے ممالک تک پھیلا دیا جائے تو پھرفکری اور عملی طور پرایرانی اورداعش جیسی دشت گرد تنظیموں میں تفریق مشکل ہو جاتی ہے ، کیونکہ ان کے مقاصد ایک طرح کے ہو جاتے ہیں جس میں طاقت اسلام کے نام پر حاصل کی جاتی ہے- عراق ، شام کی مثال سامنے ہےجہاں داعش اپنے طور پر اور ایران روس سے مل کر جہاں داعش سے لڑ رہا ہے وہاں روس اور ایران ، شام کے ظالم ڈکٹیٹر بشارت الاسد کی علوی شیعہ اقلیتی حکومت کو بچانے کے لیے سنی اکثریت معصوم عوام پر ظلم اور قتل و غارت گری میں مشغول ہیں-
وَاعْتَصِمُواْ بِحَبْلِ اللّهِ جَمِيعًا وَلاَ تَفَرَّقُواْ
’’اور تم سب مل کر اللہ کی رسی (قرآن) کو مضبوطی سے تھام لو اور تفرقہ مت ڈالو۔‘‘( آل عمران،3 :103)
مگر مسلمان اس لعنت میں گرفتار ہیں- مزید پڑھیں: انسداد فرقہ واریت: مختصر تاریخ اورعملی اقدامات >>>>
جنگ تیس سالہ:
جنگ سی سالہ یا جنگ تیس سالہ 1618ء سے 1648ء تک جاری رہنے والی مذہبی مقاصد (فرقہ وارانہ ) کیلئے لڑی گئی ایک جنگ ہے۔ زیادہ تر جنگ یورپی ملک جرمنی میں لڑی گئی۔ اس جنگ میں براعظم یورپ کے کئی طاقتور ممالک نے حصہ لیا۔ عیسائیوں کے دو فرقوں پروٹسٹنٹ اور کیتھولک کے اختلافات اس جنگ کا سب سے بڑا محرک تھے۔ ہیسبرگ خاندان اور دیگر قوتوں نے جنگ سے زیادہ طاقت حاصل کرنے کی کوشش کی اور اس کی سب سے بڑی مثال یہ ہے کہ کیتھولک فرانس نے کیتھولک فرقے کی بجائے پروٹسٹنٹ فرقے کے حق میں جنگ میں حصہ لیا اور اس وجہ سے فرانسیسی ہیسبرگ دشمنی میں مزید بھڑک اٹھے۔ یہ تیس سالہ جنگ بھوک اور بیماریوں کا سبب بنی اور اس سے حالات اور زیادہ خراب ہو گئے۔ یہ جنگ تیس سال تک جاری رہی، لیکن اس جنگ سے جو مسائل پیدا ہوئے ان پر جنگ ختم ہونے کے بعد بھی طویل عرصے تک قابو نہ پایا جا سکا۔ بالآخر یہ جنگ ویسٹ فالن معاہدۂ امن کے بعد ختم ہوئی۔ (آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے).... امت مسلمہ کو یورپی فرقہ واریت کے تجربہ سے سبق سیکھنے کی ضرورت ہے
In the ongoing 4-year-long civil war, the Islamic Republic- one of the major bank-rollers for the Syrian government- has approximately spent between $6 and $35 billion a year in order to keep its staunchest regional ally, Bashar Al Assad in power.This amount of spending is significant considering Iran’s military budget is roughly $15 billion a year. Iran’s economic assistance to the Syrian government comes in different avenues including oil subsidies (approximately 60,000 barrels of oil per day), credit lines, and military assistance. (Read more).
Export of Iran's revolution enters 'new chapter': Iran's top general said his country has reached "a new chapter" towards its declared aim of exporting revolution, in reference to Tehran's growing regional influence. The comments by Major General Mohammad Ali Jafari, commander of the nation's powerful Revolutionary Guards Corps, come amid concern among some of Shiite Iran's neighbours about Tehran's role. "The Islamic revolution is advancing with good speed, its example being the ever-increasing export of the revolution," he said, according to the ISNA news agency. "Today, not only Palestine and Lebanon acknowledge the influential role of the Islamic republic but so do the people of Iraq and Syria. They appreciate the nation of Iran." He made references to military action against Islamic State (IS) jihadists in Iraq and Syria, where the Guards have deployed advisers in support of Baghdad and Damascus. "The phase of the export of the revolution has entered a new chapter," he added, referring to an aim of Iran's 1979 Islamic revolution.>> http://www.dailymail.co.uk/wires/afp/article-2990005/Export-Irans-revolution-enters-new-chapter-general.html --- http://peace-forum.blogspot.com/2016/03/exporting-iranian-revolution-to-arabs.html
Export of Iran's revolution enters 'new chapter': Iran's top general said his country has reached "a new chapter" towards its declared aim of exporting revolution, in reference to Tehran's growing regional influence. The comments by Major General Mohammad Ali Jafari, commander of the nation's powerful Revolutionary Guards Corps, come amid concern among some of Shiite Iran's neighbours about Tehran's role. "The Islamic revolution is advancing with good speed, its example being the ever-increasing export of the revolution," he said, according to the ISNA news agency. "Today, not only Palestine and Lebanon acknowledge the influential role of the Islamic republic but so do the people of Iraq and Syria. They appreciate the nation of Iran." He made references to military action against Islamic State (IS) jihadists in Iraq and Syria, where the Guards have deployed advisers in support of Baghdad and Damascus. "The phase of the export of the revolution has entered a new chapter," he added, referring to an aim of Iran's 1979 Islamic revolution.>> http://www.dailymail.co.uk/wires/afp/article-2990005/Export-Irans-revolution-enters-new-chapter-general.html --- http://peace-forum.blogspot.com/2016/03/exporting-iranian-revolution-to-arabs.html
........................................................
فرقہ واریت سنگین گناہ ہے، الله کا فرمان ہے:وَاعْتَصِمُواْ بِحَبْلِ اللّهِ جَمِيعًا وَلاَ تَفَرَّقُواْ
’’اور تم سب مل کر اللہ کی رسی (قرآن) کو مضبوطی سے تھام لو اور تفرقہ مت ڈالو۔‘‘( آل عمران،3 :103)
مگر مسلمان اس لعنت میں گرفتار ہیں- مزید پڑھیں: انسداد فرقہ واریت: مختصر تاریخ اورعملی اقدامات >>>>
جنگ تیس سالہ:
جنگ سی سالہ یا جنگ تیس سالہ 1618ء سے 1648ء تک جاری رہنے والی مذہبی مقاصد (فرقہ وارانہ ) کیلئے لڑی گئی ایک جنگ ہے۔ زیادہ تر جنگ یورپی ملک جرمنی میں لڑی گئی۔ اس جنگ میں براعظم یورپ کے کئی طاقتور ممالک نے حصہ لیا۔ عیسائیوں کے دو فرقوں پروٹسٹنٹ اور کیتھولک کے اختلافات اس جنگ کا سب سے بڑا محرک تھے۔ ہیسبرگ خاندان اور دیگر قوتوں نے جنگ سے زیادہ طاقت حاصل کرنے کی کوشش کی اور اس کی سب سے بڑی مثال یہ ہے کہ کیتھولک فرانس نے کیتھولک فرقے کی بجائے پروٹسٹنٹ فرقے کے حق میں جنگ میں حصہ لیا اور اس وجہ سے فرانسیسی ہیسبرگ دشمنی میں مزید بھڑک اٹھے۔ یہ تیس سالہ جنگ بھوک اور بیماریوں کا سبب بنی اور اس سے حالات اور زیادہ خراب ہو گئے۔ یہ جنگ تیس سال تک جاری رہی، لیکن اس جنگ سے جو مسائل پیدا ہوئے ان پر جنگ ختم ہونے کے بعد بھی طویل عرصے تک قابو نہ پایا جا سکا۔ بالآخر یہ جنگ ویسٹ فالن معاہدۂ امن کے بعد ختم ہوئی۔ (آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے).... امت مسلمہ کو یورپی فرقہ واریت کے تجربہ سے سبق سیکھنے کی ضرورت ہے
..............................................................
ایران اور اسلامی دنیا:
ایران ایک شیعہ اسلامک ریپبلک ہے جہاں ایک ملایت حکومت ہے، سعودیہ ایک وھابی بادشاہت مگرپاکستان صرف اسلامک ریپبلک ہے جہاں شیعہ سنی کو برابر آیئنی حقوق حاصل ہیں- ایران میں شیعہ کو آیئنی ترجیح ہے مگر پاکستان میں صدر ، وزیر اعظم ، سپیکر ، آرمی ، سروسس چیف اوراعلی عھدوں پر شیعہ مسلمان ، اقلیت کے باوجود appoint ہوتے ھیں ایک طویل فہرست ہے- ایران میں سخت قسم کی مللایت قائم ہےاور سعودیہ میں وھابیت کا زور ہے- ملا کسی مکتبہ فکر ہو وہ سخت متصب ہوتا ہے، اپنے علاوہ سب کو غلط حتی کہ کافر کہنا عام بات ہیے-
ایران ایک بین الاقوامی ریاست ہے جو اقوام متحدہ کا رکن ہے- انقلاب ١٩٧٩ کے بعد انٹرنیشنل مخالفت کی وجہ سے انقلاب کو وقتی طور پر ایران تک محدود کردیا گیا، لیکن، عراق ، شام . لبنان ، یمن اور دوسرے خلیجی ممالک میں شیعہ آبادی کو بغاوت کی طرف مائل کرنے اور ان کی سیاسی، فوجی و مالی مدد کے بعد ایران کا توسیع پسندی کا منصوبہ واضح ہے- ایران ایک اندازہ کے مطابق سالانہ ٦ بلین ڈالر شام اور ان جنگوں پر خرچ کر رہا ہے- آخر کیوں؟ کسی ملک نے اب ایران پر حملہ نہیں کیا! یہ ایرانی imperialism سامراجیت کا پلان آشکار unfold ہو رہا ہے-
پاک ایران تعلقات:
ایران کے پاکستان سے تاریخی دوستانہ تعلقات ہیں- مگر ایران نے کسی بھی آزاد ملک کی طرح ہمیشہ اپنے مفادات کو ترجیح دی- یہی معاملہ پاکستان کا رہا ہے- مفادات کے تضاد کے باوجود دوستانہ ہمسایہ تعلقات قائم رھے- ایران کی انڈیا سے قربت کوئی سیکرٹ نہیں- افغانستان میں ایران انڈیا کے مشترکہ مفادات اور باہمی محبت ایک حقیققت ہے-پاکستان کے سعودی عرب اور گلف ریاستوں سے اچھے تعلقات ہیں- عراق ، ایران جنگ میں پاکستان نے توازن رکھا- اب بھی سعودیہ کے ساتھ اچھے تعلقات اور جنرل راحیل شریف کو مشترکہ اسلامی فوج کی سربراہی قبول کرنے کے باوجود ایران کو یقین دلایا ہے کہ پاکستان ایران کے خلاف کروائی کا حصہ نہ بنے گا اگرچہ ایران کو شک ہے- ایران کی عراق ، شام ، لبنان ، یمن میں سیاسی اور فوجی عمل دخل کو پاکستان کی اکثریت (سنی) درست نہیں سمجھتی، اگرچہ شیعہ اقلیت ایران کے لیے نرم گوشہ رکھتی ہے- کوئی جمہوری حکومت عوامی رد عمل کے خلاف نہیں جا سکتی نہ ہی ایسا کرنے کا حق ہے-
پاکستان کی شیعہ آبادی کو اس معاملہ کی حساسیت کا خیال رکھنا چاہیے اور اپنے وطن اور حکومت سے وفادری پر حرف نہیں آنے دینا چاہیے-ایران سے ہمدردی اپنی جگہ مگر پاکستان ان کا وطن پہلی ترجیح ہونا چاہیے- ولایت فقہ کا نظریہ انقلاب ایران کی پیداوار ہے، جس پر شیعہ علماء میں اختلاف ہے- اسی طرح داعیش، القاعدہ، تکفیری طالبان اور اس جیسی دہشت گرد تنظیموں کے "نظریہ خلافت" سے مسلمانوں کی اکثریت کو اختلاف ہے- کسی کا کوئی بھی مذھب یا فقہ ہو، اپنے وطن پاکستان سے وفاداری پہلی ترجیح ہونا چاہیے-
ایرانی توسیع پسندی:
ایران کو ایک شہری ریاست ہونا چاہیے جو بین الاقوامی کرداروں کا احترام کرے۔ دوسرے ممالک کے داخلی امور میں عدم مداخلت کا پختہ وعدہ کرے اور ان کی خود مختاری کو نقصان نہ پہنچائے۔ اگر ایران اس کا وعدہ کرتا ہے تو اس کے ہمسایہ ممالک کے ساتھ بیشتر مسائل خود بخود ہی ختم ہوجائیں گے۔ ایران کو ایک سول ریاست یا بدستور ایک انقلابی ریاست جو اپنا انقلاب دوسرے ممالک کوexport برآمد کرتی ہو، ان میں سے ایک کا انتخاب کرنا ہوگا کیونکہ ایک شہری ریاست سے تو باہمی مفادات اور سیکولر اصولوں کی بنیاد پر کسی فریم ورک پر کوئی اتفاق رائے کیا جاسکتا ہے لیکن شدت پسند انقلابی ریاست سے ایسا معاملہ کرنا ناممکن ہوتا ہے۔
ایرانی آیین اور حکومت کے اقدامات سے نظرآتا ہے کہ ایران کی شیعہ ملّائیت تمام مشرق وسطی پر اپنی حکمرانی چاہتی ہے۔ جہاں تک القاعدہ اور داعش کا معاملہ ہے تو وہ سخت گیرسنی خلافت کا قیام چاہتے ہیں۔ ایران اورتکفیری جہادی (جو غلط طور پرسنی کہلاتے ہیں) دونوں ہی اسلام کے مقدس شہروں مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ کا کنٹرول حاصل کرنے کے خواب دیکھ رہے ہیں۔ وہ سعودی عرب کے تیل کے کنووں پر بھی قابض ہونا چاہتے ہیں۔ یہ ایک ایسا تحفہ ہوگا جو انھیں اسلامی دنیا اور اس سے ماورا اثرورسو خ دلا دے گا۔
پاکستان کا کردار:
ان حالات میں پاکستان خاموش تماشائی بنا رہے تاکہ ایران مشرق وسطی سے فارغ ہو کریا باهم simultaniously پاکستان میں فرقہ وارانہ بنیادوں پر خانہ جنگی سے کمزور کرکہ انڈیا اورافغانستان کے ساتھ مل کراس کے ٹکڑے کرکہ قریبی پاکستانی علاقوں کو ہڑپ کرنا چاہتا ہے- ایران پاکستانی میڈیا پر بہت انویسٹ کر رہا ہے، میڈیا ایرانی نقطہ نظر پروموٹ کر تا ہے، جو مخصوص لابی کے زیراثرہے-
پاکستان کو علاقہ کے دوسرے اسلامی ممالک کے ساتھ مل کراپنی حفاظت کرتے ہوے، ایران کو توسیع پسندانہ اقدامات سے باز رکھنے میں اپنا پر امن کردار ادا کرنا ہے-
یہ غیر جانبداری neutrality ، منافقت کا آپشن نہیں، اللہ کا فرمان ہے:
"اور اگر مومنوں میں سے کوئی دو فریق آپس میں لڑ پڑیں تو ان میں صلح کرا دو۔ اور اگر ایک فریق دوسرے پر زیادتی کرے تو زیادتی کرنے والے سے لڑو یہاں تک کہ وہ خدا کے حکم کی طرف رجوع لائے۔ پس جب وہ رجوع لائے تو وہ دونوں فریق میں مساوات کے ساتھ صلح کرا دو اور انصاف سے کام لو۔ کہ خدا انصاف کرنے والوں کو پسند کرتا ہے(9) مومن تو آپس میں بھائی بھائی ہیں۔ تو اپنے دو بھائیوں میں صلح کرادیا کرو۔ اور خدا سے ڈرتے رہو تاکہ تم پر رحمت کی جائے(49:10الحجرات)
پاکستان کی شیعہ اقلیت:
پاکستان ایک اسلامی جمہوریت ہے، سنی اکثریت کے باوجود شیعہ اقلیت کو دوسرے مسلمان شہریوں کی طرح برابرآئینی حقوق حاصل ہیں- پاکستانی شیعہ پر امن شہری اورملک کے وفادار ہیں اور پاکستان کے لیے اپنی جانیں قربان کرتے ہیں، معاشرہ میں مل جل کر پیارومحبت سے رہتے ہیں- ان کا ایران کی طرف جھکاؤ فطری ہے- شیعہ، سنی کا فرق سوشل انٹریکشن اورباہم دوستی میں آڑے نہیں آتا-
پاکستان میں سرکاری اور عوامی سطح پر شیعہ سنی کشمکش کا وجود نہیں۔ افراد متعصب ہو سکتے ہیں مگر پاکستانی حکومت‘ فوج اور افسر شاہی بڑی حد تک اس سے پاک رہی بانی پاکستان، قائد اعظم فرقہ واریت سے بالاتر تھے- ممنوں حسین ، سکندر مرزا اور یحییٰ خان‘ذولفقار بھٹو ، بے نظیر بھٹو اور آصف علی زرداریاقتدار میں رہے۔ محصف میر ایئر چیف ، موسیٰ، یحییٰ خان آرمی چیف تھے- شیعہ سیاست دانوں پر کوئی بھی دوسرا اعتراض کیا گیا مگر مکتب فکر کا کبھی نہیں۔
پچھلی تین دہایوں سے ایران اور سعودی عرب پاکستان میں پراکسی جنگ چلا رہے ہیں- تکفیری طالبان اوراب داعیش بھی فرقہ وارانہ تنظیموں کے ساتھ مل کر پرامن عوام اورخاص طور پرشیعہ کمیونٹی، ان کی امام بارگاہوں کو دہشت گردی کا نشانہ بنایا جا رہا ہے جو قابل افسوس ہے-ایران پر شیعہ دہشت گرد تنظیموں کو مدد فراہم کرنے کا الزام ہے- جو مخالف مذہبی رہنماؤں کو نشانہ بناتے ہیں-
پاکستانی شیعہ اور ایران:
پاکستانی شیعہ کمیونٹی کا ایران سے فقہی تعلق اور زیارات کی وجہ سے محبت و احترام کوئی قبل اعتراض بات نہیں- متنازعہ ایرانی ولایت فقہ سے مذہبی حد تک تعلق پربھی کسی کو اعترض نہ ہو گا- پاکستانی کیتھولک مسیحی رومن پوپ سے مذہبی عقیدت رکھتے ہیں مگریہ عقیدت ان کی پاکستان سے سیاسی وفاداری پراثر انداز نہیں ہوتی- وہ پاکستان پر اپنی جان بھی قربان کرتے ہیں- ان کی پاکستان سے وفاداری کسی شک و شبہ سے بالا تر ہے اگرچہ وہ ایئنی طور پر اعلی ترین اقتدار کے عھدے (صدر ، وزیر اعظم) حاصل نہیں کر سکتے مگر شیعہ کر سکتے ہیں اور کر رہے ہیں-
ایرانی ولایت فقہ (Iranian Guardian Council) اور پاکستانی شیعہ:
ولایت فقہ ایرانی ریاست کا ایک خالصآیینی ادارہ ہےاس سے کسی قسم کی سیاسی وابستگی، پاکستانی شہری کے کردارپر سوالیہ نشان ہے- ہو سکتا ہے کہ عام شیعہ شہریوں کو ولایت فقہ کی تفصیلات کا علم نہ ہو مگر ان کے مذہبی لیڈروں اور علماء جو ایرانی ولایت فقه سے وفاداری کا اظھار کرتے ہیں، ان کو بخوبی علم ہو گا- لہٰذا اپنی سوچ اور عقیدہ کو مشکوک نہیں بلکہ واضح کرنا چاہیے-
اگر پاکستانی شیعہ، ایرانی ولایت فقہ سے سیاسی وفاداری رکھتے ہیں تویہ دوہری وفاداری یا دوہری شہریت کا معاملہ بن جاتا ہے- اس صورت میں ان کیاخلاقی اور قانونی پوزیشن ہو سکتی ہے :
1.بیرون ملک پاکستانیوں کی طرح دوہری شہریت dual citizenship اختیار کریں,مگر یہ تبھی ممکن ہے اگر ایران ان کو ایرانی شہریت دے-
2.دوہری وفاداری یا شہریت dual citizenship کی صورت میں، قانونی طور پر ممبر پارلیمنٹ بھی نہیں بن سکتے، سوچ سمجھ کر فیصلہ کریں-
3.اگر ایران ان کو شہریت نہ دے تو پھر یہ ایرانی ولایت فقہ سے صرف مذہبی تعلق رکھیں، مکمل سیاسی وفاداری پاکستان سے اور موجودہ برابری کے سٹیٹس کے شہری کے حقوق سے فائدہ اٹھائیں-
پاکستان کی سیاسی خاص طور پر مذہبی سیاسی جماعتوں کو یہ اہم قومی سلامتی کا معاملہ پارلیمنٹ ، میڈیا اور ہر فورم پر اٹھانا چاہیے اور مناسب قانونی اور آیئنی تقاضے پورے کیے جائیں- ابهام خطرناک ہے-
Related:
http://salaamforum.blogspot.com/2016/04/blog-post.html
یران کا پاکستان پر مداخلت کا الزام ۔ حقیقت کیا -1ا
http://roznama92news.com-2
http://rejectionists.blogspot.com/2017/04/wilayat-e-faqih-doctrine-fifth-column.html
http://wilayatefaqih.blogfa.com/post/335
http://www.dw.com/ur/36810161
http://salaamforum.blogspot.com/2016/04/blog-post.html
یران کا پاکستان پر مداخلت کا الزام ۔ حقیقت کیا -1ا
http://roznama92news.com-2
http://rejectionists.blogspot.com/2017/04/wilayat-e-faqih-doctrine-fifth-column.html
http://wilayatefaqih.blogfa.com/post/335
http://www.dw.com/ur/36810161
فقیہ کی ولایت: یہاں پرحضرت امام خمینی رضوان اللہ تعالی کاوہ قول غور طلب ہے جس میں وہ فرماتے ہیں: "ولایت فقیہ ایسےموضوعات میں سے ہے کہ جن کا تصور ہی ان کی تصدیق کرتا ہے اور کسی دلیل کی ضرورت نہیں ہے یعنی جو بھی اسلام کے احکام اور عقاید کو اجمالی طور پر جانتا ہو توجونہی وہ ولایت فقیہ پر پہنچے گا اور اس کا تصور کرے گا تو فوراً ہی اس کی تصدیق کرے گا اور اس کو ضروری اور بدیہی قراردے گا- http://wilayatefaqih.blogfa.com/post/321
مجلس وحدت مسلمین پاکستان کے مرکزی سیکرٹری جنرل علامہ ناصر عباس جعفری نے اپنے خطاب میں طلاب کو عید قربان کے حوالے سے خصوصی مبارک باد دی اور کہا کہ عید کا دن ہمیں حضرت ابراہیم (ع) کی عظیم قربانی کی یاد دلاتا ہے اور ہمیں اس دن سے یہ سبق حاصل ہوتا ہے کہ اپنی قوم، ملت اور خدا کی خاطر اپنی عزیز ترین چیز بھی قربان کرنی پڑے تو قربان کر دینی چاہیئے۔ انہوں نے ولایت فقیہ کو زمین پر خدا کا نظام حکومت قرار دیا اور کہا کہ جو لوگ ولایت فقیہ کے نظام کے بارے میں شکوک اور شبہات رکھتے ہیں وہ عملاً سیکولر، فاشسٹ، استکباری اور غیر اسلامی نظاموں کو اپنی زندگیوں میں قبول کر لیتے ہیں، لیکن ایک فقیہ دین اور باعمل شجاع رہبر کے نظام کے بارے میں مشکوک رہتے ہیں، ان کا کہنا تھا کہ نظام ولایت فقیہ عقل اور نقل دونوں طریقوں سے ثابت ہے اور صرف جن کے پاس عقل نہیں ہے، ان کو اس بارے میں شک رہتا ہے۔
مجلس وحدت مسلمین پاکستان کے مرکزی سیکرٹری جنرل علامہ ناصر عباس جعفری نے اپنے خطاب میں طلاب کو عید قربان کے حوالے سے خصوصی مبارک باد دی اور کہا کہ عید کا دن ہمیں حضرت ابراہیم (ع) کی عظیم قربانی کی یاد دلاتا ہے اور ہمیں اس دن سے یہ سبق حاصل ہوتا ہے کہ اپنی قوم، ملت اور خدا کی خاطر اپنی عزیز ترین چیز بھی قربان کرنی پڑے تو قربان کر دینی چاہیئے۔ انہوں نے ولایت فقیہ کو زمین پر خدا کا نظام حکومت قرار دیا اور کہا کہ جو لوگ ولایت فقیہ کے نظام کے بارے میں شکوک اور شبہات رکھتے ہیں وہ عملاً سیکولر، فاشسٹ، استکباری اور غیر اسلامی نظاموں کو اپنی زندگیوں میں قبول کر لیتے ہیں، لیکن ایک فقیہ دین اور باعمل شجاع رہبر کے نظام کے بارے میں مشکوک رہتے ہیں، ان کا کہنا تھا کہ نظام ولایت فقیہ عقل اور نقل دونوں طریقوں سے ثابت ہے اور صرف جن کے پاس عقل نہیں ہے، ان کو اس بارے میں شک رہتا ہے۔
http://mwmpak.org/2015-04-23-09-10-57/2015-04-23-09-14-41/ولایت-فقیہ-کا-نظام-زمین-پر-خدا-کی-حکومت-کا-نظام-ہے،-علامہ-ناصر-عباس-جعفری
لبنان کے ایک ممتاز شیعہ مذہبی پیشوا السید علی الامنین نے کہا ہے کہ ایران کے ولایت فقیہ کا تعلق کسی مخصوص سیاسی مکتب فکر سے نہیں ہے۔ میں نہیں سمجھتا کہ ولایت فقیہ کے نظام کو ایران سے باہر کسی دوسرے ملک میں بھی نافذ کرنے کی کوشش کی جانی چاہیے۔ بہتر یہی ہے کہ اس نظام کو ایران کے اندر تک ہی محدود رکھا جائے۔
https://urdu.alarabiya.net/ur/editor-selection/2015/04/27/
داعش اور حزب اللہ ایک سکے کے دو رُخ!
ایک دوسرے کے نظریاتی دشمنوں میں گہری مماثلتیں:لبنان کی ایران نواز شیعہ ملیشیا حزب اللہ اور شام وعراق میں سرگرم ’داعش‘ اگرچہ ایک دوسرے کے خلاف بھی نبرد آزما ہیں مگر دونوں دہشت گرد تنظیموں کے درمیان کئی ایک گہری مماثلتیں بھی پائی جاتی ہیں۔ داعش اور حزب اللہ کے درمیان ان مشترکہ قدروں کی نشاندہی کی ہے جو ان دونوں شدت پسند گروپوں کا خاصہ سمجھی جاتی ہیں۔ یوں دونوں تنظیمیں اپنے طریقہ واردات، جنگی حربوں، ذرائع ابلاغ کے استعمال سمیت کئی دوسرے پہلوؤں سے ایک دوسرے سے مشابہت رکھتی ہیں۔
مخالفین کے قتل عام کی ویڈیوز بنا کر دوسروں پر رعب طاری کرنے کے لیے انہیں مشتہر کرنا صرف داعش ہی کی جانب سے نہیں بلکہ حزب اللہ کی طرف سے بھی یہ حربہ آزمایا جاتا رہا ہے۔ دونوں گروپ خوفناک مناظر کی تصاویر اور ویڈیوز تیار کرکے اپنی مجرمانہ عسکری گرمیوں کو فروغ دینے کے لیے کوشاں دکھائی دیتی ہیں۔
انسانی حقوق کی عالمی تنظیموں اور اقوام متحدہ کے فراہم کردہ اعدادو شمار کے مطابق انسانی حقوق کی سنگین پامالیوں کے معاملے میں بھی حزب اللہ اور داعش ایک دوسرے پر سبقت لے جانے کی کوشش کرتی ہیں۔ شام میں صدر بشار الاسد کی وفاداری میں جنگ کے دوران جتنے عام شہری حزب اللہ کے دہشت گردوں نے قتل کیے ہیں مخالفت میں داعش نے شاید اتنے نہ کیے ہوں۔ مگر دونوں گروپ عام شہریوں کے وحشیانہ قتل عام میں ایک ہی راستے پر چلتے دکھائی دیتے ہیں۔
دونوں میں ایک قدرے مشترک یہ ہے کہ دونوں ہی دوسرے ملکوں میں جنگجوں کے لیے غیرملکی جنگجوؤں کا سہارا لیتے ہیں۔ داعش شام اور عراق میں جنگ کے لیے بیرون ملک سے جنگجو بھرتی کرتی ہے جب کہ حزب اللہ بھی لبنان اور شام کے علاوہ دیگر ممالک سے اپنے حامیوں کو اس جنگ میں جھونک رہی ہے۔
نظریاتی اعتبار سے بھی دونوں ایک ہی ڈگرپر چلنے والے گروپ ہیں۔ داعش حزب اللہ کو اور حزب اللہ داعش کی تکفیر کرتی ہے۔ حزب اللہ کے نظریاتی بنیادوں کا پس منظر ایران کا ولایت فقیہ کا نظام ہے جب کہ داعش ابو بکر البغدادی اور القاعدہ کے نظریات کو اپنائے ہوئے ہے۔ دونوں اپنے تئیں اسلام کی ’خدمت گار‘ ہونے کا دعویٰ کرتی ہیں مگر ان کے ہاتھوں سب سے زیادہ مسلمان ہی ہلاک ہو رہے ہیں۔ http://ara.tv/zhb7b
...........................................
ایران نواز پاکستانی شیعوں کے نظریات کا تجزیہ – عامر حسینی
پاکستان میں شیعہ کمیونٹی کے دائیں بازو کے مولویوں کے تین بڑے گروپ ہیں جن کو ہم ایران میں اسلامی انقلاب کے قائد حوزہ علمیہ قم کے سید روح اللہ خمینی اور ان کے دیگر حامیوں پر مشتمل مذهبی پیشوائیت کے بطن سے جنم لینے والے نظریہ ولایت فقیہ کے حامیوں کے گروپ کہہ سکتے ہیں اور یہ پاکستان کے اندر بهی ولایت فقیہ کے ایرانی نظریہ کو روشنی میں اسلامی انقلاب لانے کے داعی ہیں ،ان میں سے ایک گروپ کی سربراہی اس وقت علامہ جواد نقوی کررہے ہیں جبکہ دوسرے گروپ کی قیادت ایم ڈبلیو ایم کے علامہ راجہ ناصر عباس جعفری کے پاس ہے اور تیسرے گروپ کی قیادت علامہ ساجد علی نقوی کے پاس ہے
شیعہ کمیونٹی کے دائیں بازو کے ایک اس حصے نے جو ایران کے اندر انقلاب کے خمینی شیعی ماڈل سے متاثر ہوچکنے کے بعد پاکستان میں زمینی حقائق کے برعکس اس ماڈل کا نفاز کرنا چاہتا تها ایرانی کیمپ جوائن کرلیا
پاک و ہند کی شیعہ کمیونٹی کے لیےیہ فیصلے انتہائی تباہ کن اور ایک طرح سے پاکستان ، سعودی عرب و دیگر گلف ریاستوں کی جانب سے پاکستان کو اپنی سٹریٹیجک پالیسیوں کے لیے میدان جنگ بنانے کے فیصلے کو موثر ثابت کرنے کے مترادف تھے
پاکستان میں ایران کے آیت اللہ سید روح اللہ خمینی کے نظریہ ولایت فقیہ جوکہ ایران کے آئین کا بنیادی جزو بهی ہے کی بنیاد پر سیاسی عمارت کهڑے کرنے والے ان تین مذکورہ بالا پاکستانی گروپوں کے اپنے اپنے خیال کے مطابق سید جواد نقوی یا سید ساجد علی نقوی یا راجہ ناصر عباس پاکستان میں امام منتظر قائم آل محمد مهدی علیہ السلام کے نائب ایرانی ولی فقیہ کے نائب ہیں ویسے تو سید حامد علی موسوی کا گروپ بهی سید حامد موسوی کو نائب امام پاکستان کے اندر خیال کرتا ہے
علمائے اہل تشیع میں نوآبادیاتی نظام سے قبل اور نوآبادیاتی دور و بعد از نوآبادیاتی دور میں غیبت امام زمان کے بعد سے یہ تصور رہا کہ امام زمانہ غیوبت میں بهی ملت اہل تشیع کی رہنمائی فرماتے ہیں اور ان کے معاملات فقہی و شرعی میں ان کی طرف سے یہ فریضہ علمائے شیعہ کے پاس ہے لیکن یہ کوئی کسی کو باقاعدہ نیابت امام سونپے جانے والی بات نہیں تهی جو بهی مجتهد فی المذهب کی شرط پر پورا اترے وہ نیابت امام کا اہل ہے لیکن اس سے مراد اس مجتهد کا سیاسی انقلاب برپا کرنا نہیں تها بلکہ علمائے اہل تشیع کی اکثریت نے ظہور امام غائب تک اپنے آپ کو سیاسی معاملات مین رہنمائی و مشاورت تک وہ بهی اگر کوئی چاہے تو محدود کرلیا تها
لیکن سید روح اللہ خمینی سمیت کئی ایک علمائے ایران نے ولائت فقیہ کے نام سے ایک نیا تصور نیابت امام پیدا کیا اور اگر بغور دیکها جائے تو اپنے مواد اور هئیت کے اعتبار سے سارے کے سارے دلائل وہ تهے جو ہم اسی زمانے میں عراق کے علامہ باقرالصدر، مصر میں تشدد پرست تحریک کے قائد سید قطب اور پاکستان میں جماعت اسلامی کے سید مودودی کے ہاں پاتے ہیں
آیت الله خمینی کا نظریہ ولایت فقیہ ایک طرح سے امام زمانہ کے کلی سیاسی اختیارات کی منتقلی نیابت کے نام پر کسی ایک شیعہ عالم کو کرنے کا نام ہے اور بعض مخالفین ولایت فقیہ کے ہاں یہ اپنے جوہر کے اعتبار سے صفت معصومیت کو اہلیت حکمرانی و ولایت روحانی و سیاسی کی شرط قرار دینے سے انحراف کا نام بهی ٹهہر جاتی ہے
کس طرح پاکستانی شیعہ کمیونٹی کے لوگوں کو پاکستان کے زمینی حقائق کے برعکس ان ایرانی شیعی انقلاب سے مستعار لئے گئے تصورات کے تحت پاکستان کے سیاسی نظام کو بدل ڈالنے کے فریب کن نعروں کے تحت گمراہ کرنے کی کوشش ہوئی اور اس تکفیری دیوبندی و سلفی فریق کو بالواسطہ طاقتور کیا گیا جو یہ دعوے کرتا ہے کہ پاکستان کو ایک شیعہ ریاست بنانے کی کوشش کی جارہی ہے اور وہ اپنے دعوے کے ثبوت میں انهی تنظیموں کے نام اور ان کے جلسوں میں ایرانی علما کی تصویریں پیش کرتا ہے
ولایت فقیہ کے ایرانی نظریہ کا پاکستان میں ایران نواز پاکستانی شیعوں پر کچھ ایسا اثر ہوا ہے کہ وہ ایرانی آیت الله اور ولی فقیہ کو امام معصوم کے درجے پر بٹھا دیتے ہیں جن پر تنقید نہیں ہو سکتی اور اگر کوئی تنقید کرے تو اس پر تکفیری الزامات کی بوچھاڑ کر دی جاتی ہے-
ایرانی عوام بتدریج اپنے قانونی حقوق کے حصول کی کوشش کررہے ہیں۔ یہ بات روز اوّل سے واضح ہے کہ ولایت فقیہ کا نظام اور اس کے مختلف حلقے عوام کی جانب سے منتخب کردہ نہیں اور وہ کسی بھی لمحے تمام قوانین کو نظرانداز کرسکتے ہیں۔ یہ نظام کسی کو بھی کسی قسم کی تبدیلی کی اجازت نہیں دیتا ہے۔ ایرانی نظام اپنے مفادات کے تحفظ کے لیے ایک جانب عوام کے خلاف کریک ڈاؤن کرتا ہے تو دوسری جانب اپنے انقلابی نظریے کو پھیلانے کے ذریعے پورے خطے پر دباؤ ڈالتا ہے۔ یمن، عراق، لبنان اور شام میں جو کچھ ہورہا ہے وہ ہمارے سامنے ہے۔
آخری انتخابات میں ہم نے دیکھ لیا کہ عوام کی شرکت کا تناسب کم ترین سطح پر تھا۔ میں نے لوگوں پر زور دیا کہ وہ اس بات کو سمجھیں کہ اس طرح کے نظام میں ووٹنگ اس نظام کو قانونی حیثیت دینے کے سوا کچھ نہیں۔ ووٹنگ کے عمل کا لوگوں کے انجام کار کو متعین کرنے میں کوئی کردار نہیں۔
دوسروں کے امور میں مداخلت کے لیے تہران کو بحران تخلیق کرنے کی اشد ضرورت :
ایرانی نظام کے کئی مقاصد ہیں جن میں ایک مقصد اپنے نظریے کو پھیلانا ہے تاکہ نظام باقی رہ سکے۔ اس کا علاقائی رسوخ اور دوسروں کے امور میں مداخلت صرف بحران زدہ اور غیرمستحکم فضاؤں میں ہی ممکن ہے۔ اس نظام کی سوچ عصری خلیفہ کے پرچم تلے علاقائی کنٹرول حاصل کرنے پر مبنی ہے۔ اس کے نیوکلیئر ہتھیار حاصل کرنے کی کوشش کا مطلب ضروری نہیں کہ وہ اسرائیل پر حملے کا ارادہ رکھتا ہے بلکہ یہ اس لیے ہے تاکہ نیوکلیئر دھمکی کے ذریعے وہ روایتی عسکری محاذ قائم کرسکے جس کا کوئی مقابلہ نہ کرپائے۔
...........................................
ایران نواز پاکستانی شیعوں کے نظریات کا تجزیہ – عامر حسینی
پاکستان میں شیعہ کمیونٹی کے دائیں بازو کے مولویوں کے تین بڑے گروپ ہیں جن کو ہم ایران میں اسلامی انقلاب کے قائد حوزہ علمیہ قم کے سید روح اللہ خمینی اور ان کے دیگر حامیوں پر مشتمل مذهبی پیشوائیت کے بطن سے جنم لینے والے نظریہ ولایت فقیہ کے حامیوں کے گروپ کہہ سکتے ہیں اور یہ پاکستان کے اندر بهی ولایت فقیہ کے ایرانی نظریہ کو روشنی میں اسلامی انقلاب لانے کے داعی ہیں ،ان میں سے ایک گروپ کی سربراہی اس وقت علامہ جواد نقوی کررہے ہیں جبکہ دوسرے گروپ کی قیادت ایم ڈبلیو ایم کے علامہ راجہ ناصر عباس جعفری کے پاس ہے اور تیسرے گروپ کی قیادت علامہ ساجد علی نقوی کے پاس ہے
شیعہ کمیونٹی کے دائیں بازو کے ایک اس حصے نے جو ایران کے اندر انقلاب کے خمینی شیعی ماڈل سے متاثر ہوچکنے کے بعد پاکستان میں زمینی حقائق کے برعکس اس ماڈل کا نفاز کرنا چاہتا تها ایرانی کیمپ جوائن کرلیا
پاک و ہند کی شیعہ کمیونٹی کے لیےیہ فیصلے انتہائی تباہ کن اور ایک طرح سے پاکستان ، سعودی عرب و دیگر گلف ریاستوں کی جانب سے پاکستان کو اپنی سٹریٹیجک پالیسیوں کے لیے میدان جنگ بنانے کے فیصلے کو موثر ثابت کرنے کے مترادف تھے
پاکستان میں ایران کے آیت اللہ سید روح اللہ خمینی کے نظریہ ولایت فقیہ جوکہ ایران کے آئین کا بنیادی جزو بهی ہے کی بنیاد پر سیاسی عمارت کهڑے کرنے والے ان تین مذکورہ بالا پاکستانی گروپوں کے اپنے اپنے خیال کے مطابق سید جواد نقوی یا سید ساجد علی نقوی یا راجہ ناصر عباس پاکستان میں امام منتظر قائم آل محمد مهدی علیہ السلام کے نائب ایرانی ولی فقیہ کے نائب ہیں ویسے تو سید حامد علی موسوی کا گروپ بهی سید حامد موسوی کو نائب امام پاکستان کے اندر خیال کرتا ہے
علمائے اہل تشیع میں نوآبادیاتی نظام سے قبل اور نوآبادیاتی دور و بعد از نوآبادیاتی دور میں غیبت امام زمان کے بعد سے یہ تصور رہا کہ امام زمانہ غیوبت میں بهی ملت اہل تشیع کی رہنمائی فرماتے ہیں اور ان کے معاملات فقہی و شرعی میں ان کی طرف سے یہ فریضہ علمائے شیعہ کے پاس ہے لیکن یہ کوئی کسی کو باقاعدہ نیابت امام سونپے جانے والی بات نہیں تهی جو بهی مجتهد فی المذهب کی شرط پر پورا اترے وہ نیابت امام کا اہل ہے لیکن اس سے مراد اس مجتهد کا سیاسی انقلاب برپا کرنا نہیں تها بلکہ علمائے اہل تشیع کی اکثریت نے ظہور امام غائب تک اپنے آپ کو سیاسی معاملات مین رہنمائی و مشاورت تک وہ بهی اگر کوئی چاہے تو محدود کرلیا تها
لیکن سید روح اللہ خمینی سمیت کئی ایک علمائے ایران نے ولائت فقیہ کے نام سے ایک نیا تصور نیابت امام پیدا کیا اور اگر بغور دیکها جائے تو اپنے مواد اور هئیت کے اعتبار سے سارے کے سارے دلائل وہ تهے جو ہم اسی زمانے میں عراق کے علامہ باقرالصدر، مصر میں تشدد پرست تحریک کے قائد سید قطب اور پاکستان میں جماعت اسلامی کے سید مودودی کے ہاں پاتے ہیں
آیت الله خمینی کا نظریہ ولایت فقیہ ایک طرح سے امام زمانہ کے کلی سیاسی اختیارات کی منتقلی نیابت کے نام پر کسی ایک شیعہ عالم کو کرنے کا نام ہے اور بعض مخالفین ولایت فقیہ کے ہاں یہ اپنے جوہر کے اعتبار سے صفت معصومیت کو اہلیت حکمرانی و ولایت روحانی و سیاسی کی شرط قرار دینے سے انحراف کا نام بهی ٹهہر جاتی ہے
کس طرح پاکستانی شیعہ کمیونٹی کے لوگوں کو پاکستان کے زمینی حقائق کے برعکس ان ایرانی شیعی انقلاب سے مستعار لئے گئے تصورات کے تحت پاکستان کے سیاسی نظام کو بدل ڈالنے کے فریب کن نعروں کے تحت گمراہ کرنے کی کوشش ہوئی اور اس تکفیری دیوبندی و سلفی فریق کو بالواسطہ طاقتور کیا گیا جو یہ دعوے کرتا ہے کہ پاکستان کو ایک شیعہ ریاست بنانے کی کوشش کی جارہی ہے اور وہ اپنے دعوے کے ثبوت میں انهی تنظیموں کے نام اور ان کے جلسوں میں ایرانی علما کی تصویریں پیش کرتا ہے
ولایت فقیہ کے ایرانی نظریہ کا پاکستان میں ایران نواز پاکستانی شیعوں پر کچھ ایسا اثر ہوا ہے کہ وہ ایرانی آیت الله اور ولی فقیہ کو امام معصوم کے درجے پر بٹھا دیتے ہیں جن پر تنقید نہیں ہو سکتی اور اگر کوئی تنقید کرے تو اس پر تکفیری الزامات کی بوچھاڑ کر دی جاتی ہے-
..............................................
"ولایت فقیہ کا نظام اصلاحات کے نام پر ایرانیوں کو مسلسل دھوکا دے رہا ہے۔ اس نظام کے سائے تلے کوئی بھی تبدیلی یا اصلاح ناممکن ہے۔ تہران کا موجودہ نظام محض نعروں کا نظام رہے گا۔ اس میں بدعنوانی شدت اختیار کرتی جا رہی ہے اور اس پر انٹیلی جنس مافیا کا پوری طرح کنٹرول ہے۔ معاشی مسائل حدوں کو پار کرچکے ہیں جس کا نتیجہ غربت، فحاشی اور خودکشی کی صورت میں سامنے آرہا ہے۔ قوم کے بہترین اور باصلاحیت دماغ پوری دنیا میں ہجرت کرچکے ہیں۔ایرانی عوام بتدریج اپنے قانونی حقوق کے حصول کی کوشش کررہے ہیں۔ یہ بات روز اوّل سے واضح ہے کہ ولایت فقیہ کا نظام اور اس کے مختلف حلقے عوام کی جانب سے منتخب کردہ نہیں اور وہ کسی بھی لمحے تمام قوانین کو نظرانداز کرسکتے ہیں۔ یہ نظام کسی کو بھی کسی قسم کی تبدیلی کی اجازت نہیں دیتا ہے۔ ایرانی نظام اپنے مفادات کے تحفظ کے لیے ایک جانب عوام کے خلاف کریک ڈاؤن کرتا ہے تو دوسری جانب اپنے انقلابی نظریے کو پھیلانے کے ذریعے پورے خطے پر دباؤ ڈالتا ہے۔ یمن، عراق، لبنان اور شام میں جو کچھ ہورہا ہے وہ ہمارے سامنے ہے۔
آخری انتخابات میں ہم نے دیکھ لیا کہ عوام کی شرکت کا تناسب کم ترین سطح پر تھا۔ میں نے لوگوں پر زور دیا کہ وہ اس بات کو سمجھیں کہ اس طرح کے نظام میں ووٹنگ اس نظام کو قانونی حیثیت دینے کے سوا کچھ نہیں۔ ووٹنگ کے عمل کا لوگوں کے انجام کار کو متعین کرنے میں کوئی کردار نہیں۔
دوسروں کے امور میں مداخلت کے لیے تہران کو بحران تخلیق کرنے کی اشد ضرورت :
ایرانی نظام کے کئی مقاصد ہیں جن میں ایک مقصد اپنے نظریے کو پھیلانا ہے تاکہ نظام باقی رہ سکے۔ اس کا علاقائی رسوخ اور دوسروں کے امور میں مداخلت صرف بحران زدہ اور غیرمستحکم فضاؤں میں ہی ممکن ہے۔ اس نظام کی سوچ عصری خلیفہ کے پرچم تلے علاقائی کنٹرول حاصل کرنے پر مبنی ہے۔ اس کے نیوکلیئر ہتھیار حاصل کرنے کی کوشش کا مطلب ضروری نہیں کہ وہ اسرائیل پر حملے کا ارادہ رکھتا ہے بلکہ یہ اس لیے ہے تاکہ نیوکلیئر دھمکی کے ذریعے وہ روایتی عسکری محاذ قائم کرسکے جس کا کوئی مقابلہ نہ کرپائے۔
.................................................
Iran has spent up to $100 billion in the past five years financing operations in Syria that were instrumental in keeping President Bashar Assad in power, according to a book on the hard-line Islamic theocracy’s vast business holdings and wealth.
The e-book “Iran: The Rise of the Revolutionary Guards’ Financial Empire” estimates that the Islamic republic has paid nearly $100 million a year in salaries to a grab bag of mercenaries it sent to Syria under the direction of the notorious Quds force.
Iran is meddling in Syria as the Shiite-dominated regime directs the largest arms buildup in its history, focusing on new missiles and ways to deploy forces into regional conflicts, such as Syria’s civil war.
The e-book was released Wednesday by the Islamic republic’s largest internal dissident group — the National Council of Resistance of Iran, which includes the operational People’s Mujahedeen of Iran (MEK).
The study has two purposes. The first is to document a major corporate and money grab by Iran’s supreme leader, Ayatollah Ali Khamenei, and the Islamic Revolutionary Guard Corps, a military branch that exports terrorism and tenaciously protects all aspects of the mullahs’ rule over 79 million people.
Second, the book is a warning to the West. Investments in the post-Joint Comprehensive Plan of Action, the 2015 nuclear deal hammered out by the Obama administration, will not enliven the private sector but will increase the holdings of the ayatollah and the IRGC — a tandem that the U.S. calls the largest state sponsor of terrorism in the world.
“The book is intended to show that behind the veneer of the official banks and seemingly benign companies lies a web of institutions controlled by the supreme leader, Ali Khamenei, and his ideological terrorist arm, the Revolutionary Guard Corps,” said Alireza Jafarzadeh, deputy director of the dissident group’s Washington office. \
The ayatollah has consolidated his real estate and corporate empire, everything from gas and oil to bread and chickens, into his headquarters, the Sedat. His net wealth, Reuters estimated in 2013, stood at nearly $100 billion. Since 2005, Ayatollah Khamenei and the IRGC accomplished this confiscation by transferring assets into euphemistically named “cooperatives,” which are nothing more than state-owned. IRGC’s cooperative is in the form of a foundation that controls automobile factories, construction firms and other assets. The IRGC has its own domestic enforcer, the Bassij, which also controls a large business and land portfolio.
“The implications of this stunning power grab are better grasped in light of the fact that these institutions exercise virtually absolute control of all decision-making processes, legislative mechanisms, intelligence gathering and access to significant budgetary commitments,” the dissidents write.
“Foreign investors cannot in practical terms avoid entanglement by affiliation in the Iranian regime’s behavior, including its support for terrorism, continued aggressive policies towards regional countries, manufacture and testing of ballistic missiles, and systematic egregious human rights violations inside Iran,” the e-book argues.
In reality, it says, “the back-breaking control of the regime over the entire economic system and the astonishing growth of extremely disruptive and obstructive rules and regulations severely limit freedom of action, leaving little or no room for genuine free-market competition in Iran.”
Dissidents say the Joint Comprehensive Plan of Action has further emboldened Iran, as opposed to moderating its expansion-minded leaders. Crackdowns and hangings of opposition figures have increased.
Iran’s adventures abroad have expanded. The regime has built an army of 100,000 Shiite militiamen to fight the Islamic State but also can be called upon to keep the Iraqi government in line with Tehran’s priorities. The MEK blames the Quds force for many of the atrocities in and around the Syrian city of Aleppo, which now lies in rubble.
All the while, Iran has remained in perpetual recession, with double-digit inflation and unemployment. The World Bank says its poverty rate is 9 percent based on a poverty line of $5.50 a day. The U.S. poverty rate is $24,250 for a family of four.
The World Bank is predicting 4 percent economic growth this year as a result of new foreign investment.
The e-book says the West is falling for Iran’s argument that sanctions stifled its state-directed economy.
“International sanctions were never the cause of Iran’s economic ills, which is why their lifting has not provided the cure,” it says. “There are systemic, entrenched forces at play that have to do with the nature and sociopolitical roots of the political system in power today.”
The comments by Major General Mohammad Ali Jafari, commander of the nation's powerful Revolutionary Guards Corps, come amid concern among some of Shiite Iran's neighbours about Tehran's role. "The Islamic revolution is advancing with good speed, its example being the ever-increasing export of the revolution," he said, according to the ISNA news agency. Keep reading >>>Export of Iran's revolution enters 'new chapter': general
http://www.washingtontimes.com/news/2017/mar/8/iranian-leader-military-use-billions-of-dollars-fo/More .....
...........................Wilayat-e-Faqih doctrine, a fifth column strategy, has propagated sectarianism in the Muslim world The Arab world came into th... Keep reading >>Wilayat-e-Faqih ولایت فقه (شیعہ عالمی خلافت ) کا ایرانی نظریہ
Exporting Iranian revolution to Arabs: After the Iranian Revolution the foreign policy of Iran changed dramatically. In many cases diplomatically inimical Arab nations.Ruhollah Khomeini, leader of the revolution and founder of the Islamic Republic of Iran and its first Supreme Leader declared that, "The concept of monarchy totally contradicts Islam." Therefore, Arab leaders developed a hostile attitude towards the Islamic Republic of Iran. Khomeini's idea of supporting the mustazafeen (those who are wronged or oppressed) as opposed to the mustakbareen (those who are arrogant) led to many problems with neighboring countries due to some Arab regimes being judged by Iranian jurists to be among the mustakbareen. Ayatollah Khomeini was open about his intention to export the revolution to other parts of the Muslim world. Thus, during the early 1980s, Iran was isolated regionally and internationally. This diplomatic and economic isolation intensified during the Iran–Iraq War in which almost all neighboring Arab states, except Syria, supported Iraq logistically and economically. According to some observers,Saddam Hussein fought on behalf of other Arab states that viewed Iran as a potential threat to their stability. ... keep reading>>> Exporting Iranian revolution to ArabsIran has used the Syrian civil war to expand its influence over the Shi'ite communities in the broader Middle East and advance the clerical regime's strategic and ideological goals. Iran's support for the regime of Syrian dictator Bashar Al Assad is well-documented. But Smyth's study goes in-depth on how Iran framed the conflict as a theological struggle from almost the very beginning, an effort aided through heavy doses of anti-American rhetoric and sectarian fear-mongering. At the same time, Iran mobilized a vast network of Iraqi and Lebanese militant groups, along with assorted other foreign elements to backstop the Assad regime and deepen Tehran's regional clout. Keep reading >>>>>Iran recruits Pakistani Shias for combat in Syria - The Express Tribune
For years, websites linked to Iran's Revolutionary Guard have posted articles eulogizing Shia fighters who die in Syria. But two men heralded last month for dying to defend a shrine near Damascus were different from most martyrs given such treatment in the past: they werePakistanis. The men ... >>>>
Thousands of Shiites from Afghanistan and Pakistan are being recruited by Iran to fight with President Bashar al-Assad's forces in Syria, lured by promises of housing, a monthly salary of up to $600 and the possibility of employment in Iran when they return, Daily mail reported om Saturday.
These fighters, who have received public praise from Iran's supreme leader Ayatollah Ali Khamenei, even have their own brigades, but counterterrorism officials in both countries worry about the mayhem they might cause when they return home to countries already wrestling with a major militant problem. >>>>>Iran and state-sponsored terrorism: Since the Iranian Revolution in 1979, the government of Iran has been accused by members of the international community of funding, providing equipment, weapons, training and giving sanctuary to terrorists. The United States State Department describes Iran as an “active state sponsor of terrorism.” Former US Secretary of State Condoleezza Rice elaborated stating, "Iran has been the country that has been in many ways a kind of central banker for terrorism in important regions like Lebanon through Hezbollah in the Middle East, in the Palestinian Territories, and we have deep concerns about what Iran is doing in the south of Iraq." Iranian sponsorship of terror is significant, but not dominant. According to the Global Terrorism Database, the majority of deaths, more than 94% attributed to Islamic terrorism since 2001, were perpetrated by Sunni jihadists of the Islamic State, al-Qaeda and others. Iran supports Shia militias and militant groups as well as some allied Sunni militan groups that engage in insurgencies or terrorist acts, including the Iraqi Shia in Iraq, Hezbollah in Lebanon, Islamic Jihad (PIJ), the Popular Front for the Liberation of Palestine-General Command (PFLP-GC), and, to a lesser extent, Hamas in Gaza and the Houthis in Yemen, among others.Keep reading >>>>
http://edition.cnn.com/2017/07/19/politics/state-country-terror-report/index.html
Iranian support of Assad regime in Syria amounts to billions
ایران سے عرب ممالک میں 'انقلاب کی برآمد': تقریبا چار دہائیوں سے جاری اس انبار سازی کی اہمیت گزشتہ پانچ سالوں میں ایران کے لیے بہت نمایاں ہوگئی.. اس کی وجوہات میں عرب دنیا میں انقلابی لہر کا بیدار ہونا اور خطے کی پیش رفت میں حزب اللہ کا براہ راست داخل ہونا شامل ہیں۔ اس طرح حزب اللہ کا یمن، عراق، بحرین اور یہاں تک کہ مصر اور نائیجیریا میں... اور سب سے زیادہ خطرناک کردار شام میں نمایاں ہوگیا جو ایرانی دائرہ کار میں موجود قوتوں کی سرگرمیوں اور ان کے درمیان رابطے کے محور میں تبدیل ہوگیا... اور یہ ایرانی توسیع پسندی کے بڑے منصوبے کے سلسلے کی ایک اہم کڑی ہے۔ >>> ایران سے عرب ممالک میں 'انقلاب کی برآمد'ایران سنی اکثریتی ملک سے کٹر شیعہ ملک کیسے بنا؟
شاید بہت سے افراد کے لئے یہ بات تحیر خیز ہو کہ سنہ 651 عیسوی میں حضرت عثمانؓ کے دور میں ایران کی فتح مکمل ہونے سے لے کر سنہ 1510 تک تقریباً ساڑھے آٹھ سو سال تک ایران ایک سنی اکثریتی ملک تھا۔ شیعہ موجود تھے مگر ان کی تعداد کم تھی۔ اور پھر 1487 میں شاہ اسماعیل صفوی پیدا ہو گیا۔ >>>>>>
خلافت اور امامت کے نام پر فتنہ و فساد Terrorism for Khilafat or Imamat
گن پوانٹ پر انٹرنیشنل خلافت یا امامت: داعش، القاعدہ ، تکفیری طالبان ، بوکو حرام اور اس طرح کی تکفیری دہشت گرد تنظیموں کا مقصد مذہبی بنیاد پر سیاسی طاقت کا حصول ہے تاکہ عالمی حکومت (ان کے مطابق اسلامی خلافت) قائم کی جائے- ایرانی 'ولایت فقہ' کا بھی اسی طرح کا بین الاقوامی نظریہ ہے، وہ سنی اصطلاح 'خلافت' کی بجایے شیعہ اصطلاحات (امامت ،ولایت فقہ وغیرہ) استعمال کرتے ہیں- (بہت سے عالمی شیعہ علماء ایرانی نقطہ نظر سے متفق نہیں)- اگر ایرانی ولایت فقیہ ایران تک محدود رہے توکسی کو اعتراض نہیں ہو سکتا، کہ یہ ایران کا اندرونی معاملہ ہے مگر جب اس نظریہ کو دوسرے ممالک تک پھیلا دیا جائے تو پھرفکری اور عملی طور پرایرانی اورداعش جیسی دشت گرد تنظیموں میں تفریق مشکل ہو جاتی ہے ، کیونکہ ان کے مقاصد ایک طرح کے ہو جاتے ہیں جس میں طاقت اسلام کے نام پر حاصل کی جاتی ہے- عراق ، شام کی مثال سامنے ہےجہاں داعش اپنے طور پر اور ایران روس سے مل کر جہاں داعش سے لڑ رہا ہے وہاں روس اور ایران ، شام کے ظالم ڈکٹیٹر بشارت الاسد کی علوی شیعہ اقلیتی حکومت کو بچانے کے لیے سنی اکثریت معصوم عوام پر ظلم اور قتل و غارت گری میں مشغول ہیں- >>>>>>>>
$6-$35 Billions Annually to Assad: Stronger Iran, Mightier Assad ...
www.huffingtonpost.com/majid-rafizadeh/6-35-billions-annually-to_b_7890164.html
This amount of spending is significant considering Iran's military budget is roughly $15 billion a year.Iran's economic assistance to the Syrian government ...Iran Spends Billions to Prop Up Assad - Bloomberg
https://www.bloomberg.com/view/articles/...06.../iran-spends-billions-to-prop-up-assa...
Jun 9, 2015 - Iran is spending billions of dollars a year to prop up the Syrian dictator Bashar al-Why has Iran wrecked its economy to fund war in Syria? | Asia Times
www.atimes.com/article/iran-wrecked-economy-fund-war-syria/
Mar 14, 2017 - Estimates of Iran's military expenditure in Syria vary from US$6 billion a year to US$15-US$20 billion a year. That includes US$4 billion of ...Iranian leader, military use billions of dollars for terror ops, weapons ...
www.washingtontimes.com/news/.../iranian-leader-military-use-billions-of-dollars-fo/
Mar 8, 2017 - Iran has spent up to $100 billion the last five years financing operations in Syria, says a new ebook by Iranian dissidents.Iran spending billions to back Assad - Middle East - Jerusalem Post
www.jpost.com/Middle-East/Iran-spending-billions-to-back-Assad-405684
Jun 11, 2015 - An estimated $6 billion is spent annually by the Shi'ite regime on supporting its Syrianally.Iranian support of Assad regime in Syria amounts to billions
www.irishtimes.com/.../iranian-support-of-assad-regime-in-syria-amounts-to-billions-...
Jun 11, 2015 - UN special envoy Staffan de Mistura estimates that Iran spends $6 billion (€5.3billion) a year to sustain the Syrian regime. This figure ...The facts behind Iran's involvement in Syria - Iran News Update
irannewsupdate.com/news/.../3430-the-facts-behind-iran-s-involvement-in-syria-2.ht...
Jan 24, 2017 - INU - Since the start of the Syrian uprising in 2011, which trailed ... Iran has spent billions of dollars and sent thousands of troops to Syria to ...Iran's Forces Outnumber Assad's in Syria - Gatestone Institute
https://www.gatestoneinstitute.org/9406/iran-soldiers-syria
Nov 24, 2016 - Iran's military forces and operations in Syria are significantly more than ... Iran hasspent approximately USD $100 billion on the Syrian war.Iranian involvement in the Syrian Civil War - Wikipedia
https://en.wikipedia.org/wiki/Iranian_involvement_in_the_Syrian_Civil_War
Iran and Syria are close strategic allies, and Iran has provided significant support for the Syrian ... According to the United Nations envoy to Syria, Staffan de Mistura, the Iranian government spends at least $6 billion annually on maintaining ...
You've visited this page 2 times. Last visit: 4/6/17
Iran spending $6 bln annually to support Assad regime: report - Al ...
english.alarabiya.net/.../Iran-spending-6-bln-annually-to-support-Assad-regime-report...
Jun 10, 2015 - The Iranian government is reportedly spending billions of dollars yearly to prop up theSyrian regime, according to a spokeswoman for the U.N. ...