بظاھر ڈان لیک کا مسلہ ھل ہوگیا ، لیکن عوام نے اس کو تسلیم کرنے سے انکار کر دیا اور اس کو کسی ڈیل کا نام دیا جارہا ہے- حقیقت واضح ہو جا یے گی ، مگر ایک آسان حل اپر موجود ہے-
DAWN LEAKS- A SOLUTION
Dawn leaks is an important National Security issue. PM house is involved in this security breach. In Westminster style parliamentary democracy PM and his cabinet are are collectively responsible for the the important matters. PM cannot be absolved for his role and responsibility in this matter. All indicators point to his daughter acting as de-facto deputy PM/ PM House Chief of Staff without any official designation. This is itself breach and violation of rule of business and constitution. She does not bear responsibility for any misdeeds while exercising control upon government officials. In Dawn leaks, she is reported behind the anti Army campaign, with tacit approval of her father the PM. [Though himself, a product of a dictator Zial ul Haq, his malice towards military is well known after 1999 coup.His pro India tilt is an open secret] The other staff members just seem to be following her orders, their motive in such an activity bears no benefit to them except pleasure of PM / daughter of PM, yet they failed to refuse to be part of such an illegal, anti state plot. They are being sacrificed as scapegoats.
It was disclosed by Mr.Haroon Rasheed, a credible senior journalist that Army had already granted maximum concession by exonerating Maryam Nawaz from this heinous crime. So far it has not been denied by Army. If true this is outrageous. She is being groomed/projected as future heiress to the throne (in sham democracy). If PM or she is a security threat, sparing them now will be greatest disfavour to Pakistan. Next time they will do it cleverly, not to be caught. Sparing them would be betrayal with the blood of martyrs, sacrificing their lives to save the people of Pakistan from the enemies.
Keeping in view the seriousness of the matter following is proposed:
1. There are two powerful parties; (a) Army, the accuser. (b) The accused - PM and his aides, including his daughter. There has to be a 3rd independent party/forum to conduct independent investigations and fair trial. Supreme Court is the only such institution which can do it as as being done in Panama Case.[Either the matter is taken up officially by government/army or else supreme court takes suo moto action.]
2. PM and all the accused be suspended (by supreme court) till completion of investigations.
3.All responsible persons, irrespective of their status be awarded strict, highest punishment, no leniency, it will be deterrent for future leaders.
4.System of security be developed so that in future, persons with dubious or doubtful loyalties are not allowed to occupy highest state offices. .
~ ~ ~ ~ ~ ~ ~ ~ ~ ~ ~ ~ ~ ~ ~ ~ ~ ~ ~ ~ ~
ایک ہی راستہ
کیا یہ بہتر نہیں کہ ڈان لیکس کے معاملے کو فوج یا وزیر اعظم ہائوس کے سپرد کرنے کی بجائے قومی سلامتی کا معاملہ سمجھتے ہوئے سپریم کورٹ آف پاکستان اس کا فوری نوٹس لے۔ اس کام میں جتنی بھی تاخیر ہو گی ،ملک و قوم کیلئے نقصان دہ ثابت ہو سکتی ہے کیونکہ دشمن اس وقت سر چڑھ کر بول نہیں رہا بلکہ کسی خطرناک قسم کی کارروائی کیلئے پر تول رہا ہے ۔ سرحد پر وہ شرارتیں کرنے سے باز نہیں آ رہا۔ کشمیر میں ظلم ڈھانے کا اس نے نیا سلسلہ شروع کیا ہوا ہے۔ ایسے میں داخلی مسائل جلد از جلد حل کئے جانے چاہئیں۔
یہ ایسا معاملہ ہے جس میں افواج پاکستان بطور مدعی اور وزیر اعظم ہائوس مدعا علیہ ہیں۔ جہاں بھی پارلیمانی طرز حکومت ہوتا ہے وہاں معاملات حل کرنا کسی ایک ادارے یا شخص کی نہیں بلکہ اجتماعی ذمہ داری ہوتی ہے ۔اس لئے بہتر تو یہی محسوس ہوتا ہے کہ سپریم کورٹ ایک لمحہ ضائع کئے بغیر ڈان لیکس کا تمام ریکارڈ اپنے قبضے میں لیتے ہوئے سات دن کے اندر اندر ا سکی بلا تعطل سماعت شروع کر دے۔اس معاملے کی ثانوی رپورٹ کے ساتھ ساتھ سپریم کورٹ کو ابتدائی رپورٹ بھی سامنے رکھتے ہوئے اپنی کارروائی شروع کرنی ہو گی جس کیلئے پندرہ دن کی مدت بھی بہت زیا دہ ہے۔
اگر سپریم کورٹ ایسا نہیں کرتی کہ خود ہی اس پر سو موٹو لے توپھر کیا یہ بہتر نہیں ہو گا کہ فوج یا وزیر اعظم ہائوس دونوں میں سے کوئی ایک اسے سپریم کورٹ لے جائے یا سپریم کورٹ جیسا کہ پہلے کہا ہے ،اس پر سوموٹو ایکشن لیتے ہوئے پانامہ کی روایات سے ہٹ کر تحقیقات کرے اور یہی وہ آخری طریقہ ہے جس سے یہ معاملہ اپنے منطقی انجام تک پہنچایا جا سکتاہے۔
دنیا میں کسی بھی مظلوم کی فریاد سننے والے تمام دروازے جب بند ہوجاتے ہیں تو پھر ایک ہی دروازہ نظر آتا ہے اور وہ ہے اﷲ کی ذات کا دروازہ جو کبھی بھی کسی کیلئے بند نہیں ہوتا ،جہاں ہر کسی کو انصاف ہی ملتا ہے صرف انصاف۔۔۔ اسی طرح زمینی عدالتوں میں سب سے محترم اور معتبر سپریم کورٹ ہے جہاں ایسے لوگ موجود ہوتے ہیں جن کے دلوں میں خوف خدا موجود ہوتا ہے اور وہ انصاف کی کرسی پر بیٹھ کر یہ کبھی بھی نہیں بھولتے کہ اگر کسی سائل کوعدالت سے انصاف نہ ملا تو پھر ایک دن ایسا آنے والا ہے جب اس کا یہی مقدمہ اﷲ کی عدالت میں پیش ہو گا ، جہاں دنیا میں اس کے ساتھ انصاف نہ کرنے والے ایک ایک شخص کو مجرم گردانتے ہوئے اس کے ہر عمل کی سزا دی جائے گی ۔ فرمان الٰہی ہے کہ'' تم جو کچھ ابھی اپنے دلوں میں سوچ رہے ہوتے ہو اﷲ اس سے بھی واقف ہوتا ہے‘‘...ایسے ہی لوگوں کو دنیا میں خبردار کرتے ہوئے اﷲ تعالیٰ سورۃ الانبیا کی آیت اٹھارہ میں فرماتا ہے ''ہم حق کو باطل پر کھینچ مارتے ہیں تو وہ باطل کا سر توڑدیتا ہے اور جھوٹ اسی وقت مٹ جاتا ہے‘‘۔
ڈان لیکس پر زیا دہ بحث کی ضرورت ہی نہیں صرف ایک نکتہ ہی سامنے رکھنا ہو گا صرف ایک سوال کا جواب ہی دینا ہو گا'' سیرل المیڈا کی دی جانے والی یہ خبر کس نے اور کیوں پلانٹ کی ؟اس میں جس کا بھی ہاتھ ہے اسے سامنے لایا جانا چاہئے اور اگر جیسا کہ اب سوشل میڈیا پر پلانٹ کیا جا رہا ہے کہ اس خبر میں کوئی بھی وطن دشمنی والی بات نہیں، اس خبر سے کسی بھی قسم کے ملکی مفادات کو نقصان نہیں پہنچا تو پھر...جو کوئی بھی ہے اسے کھل کر سامنے آ جا نا چاہئے اور اخلاقی جرأت کا مظاہرہ کرتے ہوئے کہنا چاہئے ''ہاں اس خبر کو میں نے پلانٹ کیا ہے یا کرایا ہے اور میں نے ہی المیڈا کو کہہ کراسے شائع کرایا ہے‘‘... خوف کس بات کا ؟
اداروں میں بڑھتی ہوئی دوریوں سے حالات ایک بار پھر12 اکتوبر1999 کی جانب بڑھتے ہوئے دکھائی دے رہے ہیں۔نتیجہ کیا نکلا تھا ،جنرل مشرف کی صورت میں سب کے سامنے ہے ۔ اﷲ نہ کرے کہ ایک بار پھر میڈیا پرکہا جانے لگے کہ لو جناب قاعدے قانون اور جمہوریت کے سب سے بڑے حامی جرنیل کے ساتھ بھی نباہ نہیں ہو سکا۔
اس و قت سوشل میڈیا پر درجنوں کی تعداد میں '' مراعات یافتہ اور ہدایت یافتہ‘‘ گروپ اداروں کو بے نقط سنانے میں دن رات ایک کئے ہوئے ہیں۔ ان کے اصلی اور فرضی نام اس طرح از بر ہوچکے ہیں ، ایک ایک چہرے کے پیچھے کئی کئی چہرے دکھائی دے رہے ہیں۔ وہ سول حکومت کی فوج پر بالا دستی کے نام پر جمہوری اور آئینی حق غصب کرنے کے الزامات کی سنگباری کر رہے ہیں۔
وزیر اعظم ہائوس کیلئے سب سے بہتر آپشن ایک ہی ہے کہ ڈان لیکس کمیشن کی رپورٹ کی روشنی میں، اس کے تمام ذمہ داروں کو مروجہ قانون کے شکنجے میں لائے اور اگر یہ لوگ سمجھتے ہیں کہ اس میں وہ خود یا ان کی کوئی قریبی اہم شخصیت ملوث ہے تو وہ قوم سے معافی مانگتے ہوئے اپنے عہدے سے فوری طور پر مستعفی ہو جائیں بصورت دیگراس معاملے کو سپریم کورٹ کے سپرد کر دیا جائے تاکہ سچ اور جھوٹ سامنے آ سکے!!
منیر بلوچ ، دنیا ، 4 میئ 2017
..............................................................
ڈان لیکس کا ایشو اپنے فطری انجام تک پہنچے گا
عامر خاکوانی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ڈان لیکس کا معاملہ بگڑتا چلا جا رہا ہے۔ حکومت نے اسے ایزی لینے کی کوشش کی،خفت مقدر بنی۔حیرت ہے کہ حکمران جماعت کے تھنک ٹینک کو ابھی تک یہ اندازہ نہیں ہوسکا کہ اس طرح کے معاملات مٹی پاﺅ ٹائپ سٹائل میں نمٹائے نہیں جاتے۔یہ انتہائی سنجیدہ اور گمبھیر مسئلہ ہے۔ کسی شخصیت کے جانے یا آنے سے اس کی حساسیت اور گمبھیرتامیں فرق نہیں پڑتا۔ ڈان لیکس کے ایشو کواپنے فطری انجام تک پہنچانا ہوگا۔ اس کے بغیر یہ ختم نہیں کیا جا سکتا۔ مصنوعی کوششیں مزید بگاڑ پیدا کریں گی۔
حکمران جماعت کے حامیوں اور ہم خیال اخبارنویسوں کویہ کریڈٹ دینا بنتا ہے کہ انہوںنے اپنی تقریروں ، تحریروں کے ذریعے اس قدر گرد اڑائی کہ اصل نکتہ اس کے تلے دب گیا۔ سوشل میڈیا پر مسلم لیگ ن کے حامی بڑے منظم انداز میں حرکت کرتے اورضرورت پڑنے پر ایک بھرپور مہم چلادیتے ہیں۔ حقیقت سے توجہ ہٹانے کے لئے غیر متعلق سوالات اٹھائے جاتے ، بحث کو دانستہ اس قدر پھیلا دیا جاتا ہے کہ وہ نتیجہ خیز نہ رہے۔مثلاً ڈان لیکس کے معاملے پر آج کل یہ حلقے بڑی معصومیت سے دو تین سوالات اٹھارہے ہیں۔ یہ کہا جاتاہے کہ ڈان لیکس میں غلط کیا تھا؟ کون سی غلط خبر لیک ہوئی، یا پھر اس پر زیادہ زور دیا جارہا ہے کہ آخر اس معاملے میں کیا کیا جائے، وزیروں کو ہٹانے سے زیادہ کیا ہوسکتا ہے؟ وغیرہ وغیرہ ۔
بات بڑی سادہ ہے، اسے سمجھنا مشکل نہیں۔اس خبر کے دو زاویے ہیں۔ ایک کا تعلق ڈان اخبار اور صحافتی اقدار سے ہے۔ایشو کا دوسرا زاویہ حکومت اور کابینہ سے متعلق ہے۔پہلے اخبار کے معاملے کو دیکھتے ہیں۔
ڈان میں چھپنے والی سرل المےیڈا کی سٹوری غلط تھی یا درست ۔ اگر غلط تھی جیسا کہ حکومت اور ادارے کہتے رہے ہیںاور منطقی طور پر بھی یہ غلط لگتی ہے تو یہ نہایت سنگین ایشو ہے۔ کسی بھی اخبار یا چینل میں ایسی حساس نوعیت کے معاملات پر غیر ذمہ دارانہ رپورٹنگ نہیں ہونی چاہیے۔ صحافت کی وادی پرخار میں دوعشروں سے زائد عرصہ گزارنے کے بعد اس کا اچھی طرح سے اندازہ ہے کہ جہاں کچھ خبریں میڈیا سے چھپانے کی کوشش کی جاتی ہے، وہاں بہت سی خبریں میڈیا پر چھپوانے یا چلانے کے لئے ہر ممکن کوشش کی جاتی ہے۔کوئی صحافی ہو یا میڈیا ہاﺅس، ہر کوئی استعمال ہونے سے بچنے کی کوشش کرتا ہے۔آزادی صحافت کو زیادہ نقصان غیرذمہ دارانہ صحافتی طرز عمل سے پہنچتا ہے۔
ایک منٹ کے لئے فرض کر لیں کہ یہ خبردرست تھی ، تب بھی اس قسم کی نیشنل سکیورٹی سے متعلق خبریں نہایت احتیاط سے ڈیل کی جاتی ہیں۔ جس انداز میں اسے چھاپا گیا وہ درست نہیں تھا۔ سٹوری کی کنسٹرکشن ٹھیک نہیں تھی، ایسی قطعیت کے ساتھ ایسی خبریں نہیں دی جاتیں، جس
میں نام بھی واضح ہوں اور ان کے مکالمے بھی، گویا رپورٹر نے میٹنگ میں بیٹھ کر اسے رپورٹ کیا ہو۔ ہم نے اپنے سینئرز سے دو باتیں
سیکھیں، ایک ایسے انداز میں خبر دی جائے یا لکھا جائے کہ ابلاغ بین السطور(Between The Lines)ہوجائے اور کوئی اعتراض بھی نہ کر پائے، دوسرا یہ کہ وہ نہ چھاپا جائے، جسے بعد میں ثابت نہ کیا جا سکے۔ ایسی خبر جس میں رپورٹر خود یہ لکھ رہا ہے کہ جس کسی سے رابطہ
کیا گیا، اس نے تصدیق نہیں کی۔ جب کوئی کنفرم کرنے پر تیار ہی نہیں تو بھیا پھر خبر کیوں دے رہے ہو؟ یہ آزادی صحافت کا ایشو ہے ہی نہیں بلکہ یہ بے لگام ، بے مہار صحافت اور خواہشات سے مغلوب ایکOver-ambitious صحافی کی انفرادی کارروائی ہے۔ اس معاملے کو انتہائی سنجیدگی سے لینا بنتا تھا۔ کل کو کسی اخبار یا چینل میں پاکستانی نیوکلیئر پروگرام کے حوالے سے کوئی بے بنیاد سٹوری چل جائے اور پھر معلوم ہو کہ اس کی بنیاد پردنیا میں پاکستان کے خلاف ایک نئی چارج شیٹ بن گئی ۔
اس معاملے کا دوسرا زاویہ حکومت اور کابینہ سے ہے۔ ڈان لیکس کے معاملے پر بنیادی سوال یہ تھا کہ ایک ٹاپ سکیورٹی اجلاس کی خبر کس نے باہر لیک کی؟ یہ اہم ترین نکتہ تھا۔ خبر بھی اس قدر تفصیلی اور جامع کہ یوں لگے جیسے اجلاس کے منٹس فراہم کئے گئے ہیں۔ ڈان لیکس کے انکوائری بورڈ کو تمام تر تحقیق اسی نکتے کے گرد کرنی چاہیے تھی کہ آخر وہ کون تھا جس نے خبر لیک کی؟اگلا سوال یہ تھا کہ جو خبر لیک ہوئی ، وہ درست تھی یا غلط ؟ وزیراعظم نواز شریف سے لے کر مختلف وزراءنے واضح الفاظ میں یہ کہا ہے کہ خبر غلط تھی اور ایسی کوئی بات اس اجلاس میں نہیں ہوئی۔ یہی موقف ہمارے سکیورٹی اداروں کا بھی ہے۔ ایسی صورت میں تواس کی اہمیت مزید بڑھ جاتی ہے کہ اس سازشی شخص کو پکڑا جائے جس نے یہ خبر توڑ مروڑ کر ڈس انفارمیشن کے انداز میں لیک کی۔
انکوائری بورڈ کی سفارشات سامنے آنے کے بعد ہی معلوم ہوسکے گا کہ یہ انکوائری بورڈ اپنے اہم ترین ایجنڈے میں کس حد تک کامیاب رہا۔ سردست جو کچھ سامنے آیا ، وہ بظاہر ایک نوٹیفکیشن کی صورت میں تھا، نہایت کمزور ، مٹی پاﺅ سٹائل میں دی جانے والی سفارشات۔ جس میں انتہائی سادگی اور معصومیت سے اخبار والا معاملہ تو اے پی این ایس کے سپرد کرنے کا کہا گیا ۔ گویا یہ سفارش کرنے والے واقعی یہ سمجھتے ہیں کہ اخباری مالکان کی یہ نمائندہ تنظیم اپنے ایک اہم ترین ممبر اخبار کے خلاف کوئی کارروائی کر سکے گی؟دیگر سفارشات میں طارق فاطمی اور راﺅ تحسین کو ہٹانے کا کہا گیا۔ اصل نکتہ اس میں تھا ہی نہیں کہ وہ خبر کس نے لیک کی اور اس کے خلاف کیا کارروائی عمل میں لائی جا رہی ہے؟ اس پر احتجاج تو بنتا تھا ، کیا بھی گیا۔ اگرچہ ضرورت سے زیادہ سخت الفاظ میں اورخاص کر” مسترد“ کا لفظ غیر ضروری طور پر استعمال کیا گیا۔اس سے منفی تاثر پیدا ہوا اورسوشل میڈیا پر ایک طوفان کھڑا ہوگیا۔ اگر وہ ٹویٹ نہ کیا جاتا یا زیادہ سلیقے سے الفاظ منتخب کئے جاتے تو اس منفی ردعمل کی نوبت ہی نہ آتی ۔یہ بات مگر سمجھ سے بالاتر ہے کہ وہ نوٹیفیکیشن یا جو کچھ بھی تھا، وہ کس لئے جاری کیا گیا؟ وزیرداخلہ کا فرمان ہے کہ یہ نوٹی فکیشن تھا ہی نہیں اور دراصل مزید کارروائی کے لئے یہ وزارت داخلہ کو بھیجا گیا۔ سوال تو یہ ہے کہ چاہے وزارت داخلہ ہی کو بھیجا گیا ،کیا انکوائری بورڈ کی تمام تر سفارشات یہی تھیں یا نہیں؟ اگر نہیں تو پھر باقی سفارشات مزید کارروائی کے لئے کیا وزارت تعلیم کو بھیجی گئی ؟ یا پھر وزارت ماحولیات وغیرہ سے رائے مانگی گئی تھی؟اگر کوئی یہ رائے قائم کر لے تو غلط نہیں ہوگا کہ یہی اصل نوٹیفکیشن تھا اور شدید ردعمل کے پیش نظر بعد میں پسپائی اختیار کی گئی۔
ایک اور اہم بات سمجھنا ضروری ہے کہ جس کسی نے یہ خبر لیک کی، اس نے بڑے منظم انداز میں پلاننگ کی۔ ہر کوئی جانتا ہے کہ کسی بھی صحافی کو اس قدر اہم خبر ملے گی تو وہ چھاپنے سے پہلے اسے کنفرم کرنے کی کوشش ضرور کرے گا۔ یہ ممکن ہی نہیں کہ ٹاپ سکیورٹی سے متعلق خبرمتعلقہ حکام سے چیک کئے بغیر شائع کی جائے۔اس لئے یہ تو یقینی تھا کہ رپورٹر اس خبر کو کنفرم کرنے کے لئے وزیراطلاعات، پرنسپل انفارمیشن آفیسر اور دیگر اہم حکام سے فون یا ٹیکسٹ کی صورت میں رابطہ ضرور کرے گا۔ انکوائری بورڈ کی تحقیقاتی رپورٹ سامنے آنے سے حتمی بات کی جاسکتی ہے، مگر بظاہر یہ معلوم ہوتا ہے کہ اس معاملے میں نہایت ہوشیاری سے کام لیا گیا۔رپورٹر یا اخبار نے ایک سے زیادہ بار متعلقہ حکام سے رابطہ کیا ،مگر انہوں نے خبر کی تصدیق تو نہیں کی(ظاہر ہے ایسی تباہ کن غلطی تو وہ نہیں کر سکتے تھے کہ پھر یہ تصدیق ریکارڈ پر آ جاتی)، مگر اس کی پرزور تردید بھی نہیں کی۔ لگتا ہے بعض لوگوں نے اس میسج یا ای میل کا جواب نہیں دیا ، یعنی نظر انداز کر دیا ۔ ڈان لیکس کے بعد جو بھی کارروائی ہوئی، وہ اسی بنیاد پر ہوئی کہ ان لوگوں نے علم ہوجانے کے بعد بھی خبر رکوانے کی کوشش نہیں کی۔ حالانکہ خبر کی حساسیت اور اہمیت کو جانتے ہوئے انہیں اسے رکوانے کی کوشش کرنا چاہیے تھی۔ کوئی چاہے تو اسے دانستہ خاموشی یا عدم فعالیت قرار دے سکتا ہے۔
ویسے بھی جس جس کے خلاف کارروائی کی گئی، اس کا کیا فائدہ ہوا؟ایک صاحب نے عدالت میں جانے کا اعلان کیا اور خبریں شائع ہو رہی ہیں کہ اس کا مشورہ خود حکومت نے دیا۔ ایک صاحب نے وزارت خارجہ کے افسران کے نام ایک جذباتی خط لکھا جس میں اپنی خدمات کے گیت گائے اور برطرفی کو ظلم قرار دیا۔ پرویز رشید صاحب جن سے وزارت لی گئی، وہ خود کو عظیم جمہوری شہید کے طور پر پیش کر رہے ہیں۔گزشتہ روزآنجناب نے ازراہ تمسخر فرمایا کہ خبر رکوانا وزیر اطلاعات کا کام نہیں ،اگر ایسا ہے تو اس کے لئے یونیورسٹیوں کو نیا کورس شروع کرنا چاہیے۔ جناب پرویز رشید کی حس مزاح قابل رشک ہے، مگر صحافی اداروں میں کام کرنے والے بخوبی جانتے ہیں کہ کس جنونی انداز سے روزانہ محکمہ اطلاعات کے افسران اور وزراءمختلف خبریں رکواتے اورحکومت کے حق میں جانے والی خبریں نمایاں کرنے کی سفارش کرتے ہیں۔ پرویز رشید صاحب کا دور بھی سب کے سامنے ہے، وہ جو جو کچھ کرتے رہے، کسی سے چھپا ہوا نہیں ، اتنی معصومیت اوربھولپن انہیں زیب نہیں دیتا۔
بات صاف ہے، انکوائری بورڈ کابنیادی کام اس اصل مجرم کی نشاندہی کرنا تھاجس نے خبر لیک کی۔ اگر بورڈ یہ معلوم کرنے میں ناکام رہا تو افسوسناک ہے۔اس کی باقی سفارشات پھر ازخود صفر ہوجاتی ہیں، ان کی کوئی اہمیت نہیں۔ ڈان لیکس کے ایشو کواپنے فطری انجام تک پہنچانا ہوگا۔ اس کے بغیر یہ ختم نہیں کیا جا سکتا۔ مصنوعی کوششیں مزید بگاڑ پیدا کریں گی۔
عامر خاکوانی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ڈان لیکس کا معاملہ بگڑتا چلا جا رہا ہے۔ حکومت نے اسے ایزی لینے کی کوشش کی،خفت مقدر بنی۔حیرت ہے کہ حکمران جماعت کے تھنک ٹینک کو ابھی تک یہ اندازہ نہیں ہوسکا کہ اس طرح کے معاملات مٹی پاﺅ ٹائپ سٹائل میں نمٹائے نہیں جاتے۔یہ انتہائی سنجیدہ اور گمبھیر مسئلہ ہے۔ کسی شخصیت کے جانے یا آنے سے اس کی حساسیت اور گمبھیرتامیں فرق نہیں پڑتا۔ ڈان لیکس کے ایشو کواپنے فطری انجام تک پہنچانا ہوگا۔ اس کے بغیر یہ ختم نہیں کیا جا سکتا۔ مصنوعی کوششیں مزید بگاڑ پیدا کریں گی۔
حکمران جماعت کے حامیوں اور ہم خیال اخبارنویسوں کویہ کریڈٹ دینا بنتا ہے کہ انہوںنے اپنی تقریروں ، تحریروں کے ذریعے اس قدر گرد اڑائی کہ اصل نکتہ اس کے تلے دب گیا۔ سوشل میڈیا پر مسلم لیگ ن کے حامی بڑے منظم انداز میں حرکت کرتے اورضرورت پڑنے پر ایک بھرپور مہم چلادیتے ہیں۔ حقیقت سے توجہ ہٹانے کے لئے غیر متعلق سوالات اٹھائے جاتے ، بحث کو دانستہ اس قدر پھیلا دیا جاتا ہے کہ وہ نتیجہ خیز نہ رہے۔مثلاً ڈان لیکس کے معاملے پر آج کل یہ حلقے بڑی معصومیت سے دو تین سوالات اٹھارہے ہیں۔ یہ کہا جاتاہے کہ ڈان لیکس میں غلط کیا تھا؟ کون سی غلط خبر لیک ہوئی، یا پھر اس پر زیادہ زور دیا جارہا ہے کہ آخر اس معاملے میں کیا کیا جائے، وزیروں کو ہٹانے سے زیادہ کیا ہوسکتا ہے؟ وغیرہ وغیرہ ۔
بات بڑی سادہ ہے، اسے سمجھنا مشکل نہیں۔اس خبر کے دو زاویے ہیں۔ ایک کا تعلق ڈان اخبار اور صحافتی اقدار سے ہے۔ایشو کا دوسرا زاویہ حکومت اور کابینہ سے متعلق ہے۔پہلے اخبار کے معاملے کو دیکھتے ہیں۔
ڈان میں چھپنے والی سرل المےیڈا کی سٹوری غلط تھی یا درست ۔ اگر غلط تھی جیسا کہ حکومت اور ادارے کہتے رہے ہیںاور منطقی طور پر بھی یہ غلط لگتی ہے تو یہ نہایت سنگین ایشو ہے۔ کسی بھی اخبار یا چینل میں ایسی حساس نوعیت کے معاملات پر غیر ذمہ دارانہ رپورٹنگ نہیں ہونی چاہیے۔ صحافت کی وادی پرخار میں دوعشروں سے زائد عرصہ گزارنے کے بعد اس کا اچھی طرح سے اندازہ ہے کہ جہاں کچھ خبریں میڈیا سے چھپانے کی کوشش کی جاتی ہے، وہاں بہت سی خبریں میڈیا پر چھپوانے یا چلانے کے لئے ہر ممکن کوشش کی جاتی ہے۔کوئی صحافی ہو یا میڈیا ہاﺅس، ہر کوئی استعمال ہونے سے بچنے کی کوشش کرتا ہے۔آزادی صحافت کو زیادہ نقصان غیرذمہ دارانہ صحافتی طرز عمل سے پہنچتا ہے۔
ایک منٹ کے لئے فرض کر لیں کہ یہ خبردرست تھی ، تب بھی اس قسم کی نیشنل سکیورٹی سے متعلق خبریں نہایت احتیاط سے ڈیل کی جاتی ہیں۔ جس انداز میں اسے چھاپا گیا وہ درست نہیں تھا۔ سٹوری کی کنسٹرکشن ٹھیک نہیں تھی، ایسی قطعیت کے ساتھ ایسی خبریں نہیں دی جاتیں، جس
میں نام بھی واضح ہوں اور ان کے مکالمے بھی، گویا رپورٹر نے میٹنگ میں بیٹھ کر اسے رپورٹ کیا ہو۔ ہم نے اپنے سینئرز سے دو باتیں
سیکھیں، ایک ایسے انداز میں خبر دی جائے یا لکھا جائے کہ ابلاغ بین السطور(Between The Lines)ہوجائے اور کوئی اعتراض بھی نہ کر پائے، دوسرا یہ کہ وہ نہ چھاپا جائے، جسے بعد میں ثابت نہ کیا جا سکے۔ ایسی خبر جس میں رپورٹر خود یہ لکھ رہا ہے کہ جس کسی سے رابطہ
کیا گیا، اس نے تصدیق نہیں کی۔ جب کوئی کنفرم کرنے پر تیار ہی نہیں تو بھیا پھر خبر کیوں دے رہے ہو؟ یہ آزادی صحافت کا ایشو ہے ہی نہیں بلکہ یہ بے لگام ، بے مہار صحافت اور خواہشات سے مغلوب ایکOver-ambitious صحافی کی انفرادی کارروائی ہے۔ اس معاملے کو انتہائی سنجیدگی سے لینا بنتا تھا۔ کل کو کسی اخبار یا چینل میں پاکستانی نیوکلیئر پروگرام کے حوالے سے کوئی بے بنیاد سٹوری چل جائے اور پھر معلوم ہو کہ اس کی بنیاد پردنیا میں پاکستان کے خلاف ایک نئی چارج شیٹ بن گئی ۔
اس معاملے کا دوسرا زاویہ حکومت اور کابینہ سے ہے۔ ڈان لیکس کے معاملے پر بنیادی سوال یہ تھا کہ ایک ٹاپ سکیورٹی اجلاس کی خبر کس نے باہر لیک کی؟ یہ اہم ترین نکتہ تھا۔ خبر بھی اس قدر تفصیلی اور جامع کہ یوں لگے جیسے اجلاس کے منٹس فراہم کئے گئے ہیں۔ ڈان لیکس کے انکوائری بورڈ کو تمام تر تحقیق اسی نکتے کے گرد کرنی چاہیے تھی کہ آخر وہ کون تھا جس نے خبر لیک کی؟اگلا سوال یہ تھا کہ جو خبر لیک ہوئی ، وہ درست تھی یا غلط ؟ وزیراعظم نواز شریف سے لے کر مختلف وزراءنے واضح الفاظ میں یہ کہا ہے کہ خبر غلط تھی اور ایسی کوئی بات اس اجلاس میں نہیں ہوئی۔ یہی موقف ہمارے سکیورٹی اداروں کا بھی ہے۔ ایسی صورت میں تواس کی اہمیت مزید بڑھ جاتی ہے کہ اس سازشی شخص کو پکڑا جائے جس نے یہ خبر توڑ مروڑ کر ڈس انفارمیشن کے انداز میں لیک کی۔
انکوائری بورڈ کی سفارشات سامنے آنے کے بعد ہی معلوم ہوسکے گا کہ یہ انکوائری بورڈ اپنے اہم ترین ایجنڈے میں کس حد تک کامیاب رہا۔ سردست جو کچھ سامنے آیا ، وہ بظاہر ایک نوٹیفکیشن کی صورت میں تھا، نہایت کمزور ، مٹی پاﺅ سٹائل میں دی جانے والی سفارشات۔ جس میں انتہائی سادگی اور معصومیت سے اخبار والا معاملہ تو اے پی این ایس کے سپرد کرنے کا کہا گیا ۔ گویا یہ سفارش کرنے والے واقعی یہ سمجھتے ہیں کہ اخباری مالکان کی یہ نمائندہ تنظیم اپنے ایک اہم ترین ممبر اخبار کے خلاف کوئی کارروائی کر سکے گی؟دیگر سفارشات میں طارق فاطمی اور راﺅ تحسین کو ہٹانے کا کہا گیا۔ اصل نکتہ اس میں تھا ہی نہیں کہ وہ خبر کس نے لیک کی اور اس کے خلاف کیا کارروائی عمل میں لائی جا رہی ہے؟ اس پر احتجاج تو بنتا تھا ، کیا بھی گیا۔ اگرچہ ضرورت سے زیادہ سخت الفاظ میں اورخاص کر” مسترد“ کا لفظ غیر ضروری طور پر استعمال کیا گیا۔اس سے منفی تاثر پیدا ہوا اورسوشل میڈیا پر ایک طوفان کھڑا ہوگیا۔ اگر وہ ٹویٹ نہ کیا جاتا یا زیادہ سلیقے سے الفاظ منتخب کئے جاتے تو اس منفی ردعمل کی نوبت ہی نہ آتی ۔یہ بات مگر سمجھ سے بالاتر ہے کہ وہ نوٹیفیکیشن یا جو کچھ بھی تھا، وہ کس لئے جاری کیا گیا؟ وزیرداخلہ کا فرمان ہے کہ یہ نوٹی فکیشن تھا ہی نہیں اور دراصل مزید کارروائی کے لئے یہ وزارت داخلہ کو بھیجا گیا۔ سوال تو یہ ہے کہ چاہے وزارت داخلہ ہی کو بھیجا گیا ،کیا انکوائری بورڈ کی تمام تر سفارشات یہی تھیں یا نہیں؟ اگر نہیں تو پھر باقی سفارشات مزید کارروائی کے لئے کیا وزارت تعلیم کو بھیجی گئی ؟ یا پھر وزارت ماحولیات وغیرہ سے رائے مانگی گئی تھی؟اگر کوئی یہ رائے قائم کر لے تو غلط نہیں ہوگا کہ یہی اصل نوٹیفکیشن تھا اور شدید ردعمل کے پیش نظر بعد میں پسپائی اختیار کی گئی۔
ایک اور اہم بات سمجھنا ضروری ہے کہ جس کسی نے یہ خبر لیک کی، اس نے بڑے منظم انداز میں پلاننگ کی۔ ہر کوئی جانتا ہے کہ کسی بھی صحافی کو اس قدر اہم خبر ملے گی تو وہ چھاپنے سے پہلے اسے کنفرم کرنے کی کوشش ضرور کرے گا۔ یہ ممکن ہی نہیں کہ ٹاپ سکیورٹی سے متعلق خبرمتعلقہ حکام سے چیک کئے بغیر شائع کی جائے۔اس لئے یہ تو یقینی تھا کہ رپورٹر اس خبر کو کنفرم کرنے کے لئے وزیراطلاعات، پرنسپل انفارمیشن آفیسر اور دیگر اہم حکام سے فون یا ٹیکسٹ کی صورت میں رابطہ ضرور کرے گا۔ انکوائری بورڈ کی تحقیقاتی رپورٹ سامنے آنے سے حتمی بات کی جاسکتی ہے، مگر بظاہر یہ معلوم ہوتا ہے کہ اس معاملے میں نہایت ہوشیاری سے کام لیا گیا۔رپورٹر یا اخبار نے ایک سے زیادہ بار متعلقہ حکام سے رابطہ کیا ،مگر انہوں نے خبر کی تصدیق تو نہیں کی(ظاہر ہے ایسی تباہ کن غلطی تو وہ نہیں کر سکتے تھے کہ پھر یہ تصدیق ریکارڈ پر آ جاتی)، مگر اس کی پرزور تردید بھی نہیں کی۔ لگتا ہے بعض لوگوں نے اس میسج یا ای میل کا جواب نہیں دیا ، یعنی نظر انداز کر دیا ۔ ڈان لیکس کے بعد جو بھی کارروائی ہوئی، وہ اسی بنیاد پر ہوئی کہ ان لوگوں نے علم ہوجانے کے بعد بھی خبر رکوانے کی کوشش نہیں کی۔ حالانکہ خبر کی حساسیت اور اہمیت کو جانتے ہوئے انہیں اسے رکوانے کی کوشش کرنا چاہیے تھی۔ کوئی چاہے تو اسے دانستہ خاموشی یا عدم فعالیت قرار دے سکتا ہے۔
ویسے بھی جس جس کے خلاف کارروائی کی گئی، اس کا کیا فائدہ ہوا؟ایک صاحب نے عدالت میں جانے کا اعلان کیا اور خبریں شائع ہو رہی ہیں کہ اس کا مشورہ خود حکومت نے دیا۔ ایک صاحب نے وزارت خارجہ کے افسران کے نام ایک جذباتی خط لکھا جس میں اپنی خدمات کے گیت گائے اور برطرفی کو ظلم قرار دیا۔ پرویز رشید صاحب جن سے وزارت لی گئی، وہ خود کو عظیم جمہوری شہید کے طور پر پیش کر رہے ہیں۔گزشتہ روزآنجناب نے ازراہ تمسخر فرمایا کہ خبر رکوانا وزیر اطلاعات کا کام نہیں ،اگر ایسا ہے تو اس کے لئے یونیورسٹیوں کو نیا کورس شروع کرنا چاہیے۔ جناب پرویز رشید کی حس مزاح قابل رشک ہے، مگر صحافی اداروں میں کام کرنے والے بخوبی جانتے ہیں کہ کس جنونی انداز سے روزانہ محکمہ اطلاعات کے افسران اور وزراءمختلف خبریں رکواتے اورحکومت کے حق میں جانے والی خبریں نمایاں کرنے کی سفارش کرتے ہیں۔ پرویز رشید صاحب کا دور بھی سب کے سامنے ہے، وہ جو جو کچھ کرتے رہے، کسی سے چھپا ہوا نہیں ، اتنی معصومیت اوربھولپن انہیں زیب نہیں دیتا۔
بات صاف ہے، انکوائری بورڈ کابنیادی کام اس اصل مجرم کی نشاندہی کرنا تھاجس نے خبر لیک کی۔ اگر بورڈ یہ معلوم کرنے میں ناکام رہا تو افسوسناک ہے۔اس کی باقی سفارشات پھر ازخود صفر ہوجاتی ہیں، ان کی کوئی اہمیت نہیں۔ ڈان لیکس کے ایشو کواپنے فطری انجام تک پہنچانا ہوگا۔ اس کے بغیر یہ ختم نہیں کیا جا سکتا۔ مصنوعی کوششیں مزید بگاڑ پیدا کریں گی۔
Aamir Hashim Khakwani, News92
~ ~ ~ ~ ~ ~ ~ ~~ ~ ~ ~ ~ ~ ~ ~ ~ ~
Humanity, Knowledge, Religion, Culture, Tolerance, Peace
انسانیت ، علم ، اسلام ،معاشرہ ، برداشت ، سلامتی
سلام فورم نیٹ ورک Peace Forum Network
Books, Articles, Blogs, Magazines, Videos, Social Media
بلاگز، ویب سائٹس،سوشل میڈیا، میگزین، ویڈیوز,کتبJoin Millions of visitors: لاکھوں وزٹرز میں شامل ہوں
Salaamforum.blogspot.com
Twitter: @AftabKhanNet
Facebook: fb.me/AftabKhan.page
سوشل میڈیا پر جوائین کریں یا اپنا نام ، موبائل نمر923004443470+ پر"وہٹس اپپ"یا SMS کریں
Join 'Peace-Forum' at Social Media, WhatsApp/SMS Name,Cell#at +923004443470Twitter: @AftabKhanNet