Featured Post

FrontPage صفحہ اول

Salaam Pakistan  is one of projects of  "SalaamOne Network" , to provide information and intellectual resource with a view to...

Terrorism - Regional & Religious solutions

The monster of extremism and terrorism has domestic roots but it is equally fed and sustained by transnational and trans-border networks of individuals, groups and movements in Pakistan. It is not just private persons and entities within the broader Middle Eastern region giving support to religious and secular organisations, but the secret and not-so-secret involvement of states in support of their objectives and interest that makes the challenge of terrorism so messy and complex. Another very important dimension of this challenge is the scale and the long time over which it has grown with the usual apathy of our ruling groups. No political leader has ever stood firmly with a resolve to take the extremism challenge as one of the key priorities; it was as if his challenge was for others to address. In times of intense political rivalry between the two major political parties in a decade-long confrontation, each one of them showed no hesitation in courting the support of groups and individuals with ties to extremist organisations.
The challenge of extremism that has transformed itself into sectarian terrorism is a national problem first, but at the same time, it is a regional problem. The rise of the Islamic State (IS) in parts of strife-stricken Iraq, Libya, Syria and Yemen and its chronicles of atrocities against anyone branded or even suspected as ‘enemy’ has shocked the whole world, but most importantly, it has pushed a number of regional states to cooperate and coordinate their intelligence and military operations against the IS. A good number of regional countries have very courageously opted to be part of an international coalition to defeat the IS. The groups associated with the IS in the Middle East may also find support in Afghanistan and Pakistan among similar groups and movements that might share their world view and the ‘ideal’ state they are trying to establish. There are indications that some groups have already aligned with the IS in this region as well. Not doing so, will run counter to logic and the history of transnational links between the militants in Afghanistan and Pakistan, and the Middle East.
For decades, Afghanistan and Pakistan have witnessed a big informal flow of funds, militants and dangerous ideas from the extended Middle East. The problem is that rivalry between Iran and Saudi Arabia, which is secular in its ends but essentially sectarian in its means, within the Middle East has always found its expression through similar instruments and organisations in our region. Focusing overly on the cycles of the Afghan wars and weakening of the state there and the nominal presence of the Pakistani state in the frontier regions, we tend to look at the pull factors and the vacuum that militant organisations have filled. No less important is the Middle Eastern push factor that comes with the funds, ideas and organisational support in many forms.
While Pakistan and its society struggles to face the challenge of extremism through its fresh resolve and under a consensual, multi-pronged National Action Plan, we need to think of broader response with essential regional and international ingredients. Regionally, close relations with Afghanistan hold the key to our success against extremism and terrorism. Employing of proxies by either side for decades in troubled times of the other has not worked and will never work. Hopefully, we are moving towards that realisation — this holds the key to cultivating a climate of a strong relationship between the two.
It is equally important, though difficult, to plug the holes through which Middle Eastern money and the sectarian divide enter our society. The traditional state apathy towards this issue has greatly contributed to the strength of sectarian forces. A multipronged counterterrorism strategy at home and cooperation with Afghanistan and other regional states will give Pakistan a better handle on the extremism challenge.
Published in The Express Tribune, February 18th, 2015.
Like Opinion & Editorial on Facebook, follow @ETOpEd on Twitter to receive all updates on all our daily pieces.

Defeat religious terrorism with power of Islam:
هزيمة الإرهاب الديني مع قوة الإسلام:
Please analyse , consider all aspects, reject or accept with logic, improve & propose alternate if disagree. Take your time
http://goo.gl/owS18Z
انتہا پسندی کے مسائل اور علاقائی طاقتیں
دہشت گردی اور انتہا پسندی کے عفریت کے وجود میں آنے کی وجوہ یقینی طور پر مقامی ہیں لیکن اسے پالنے اور تقویت دینے میں دیگر ممالک میں موجود گروہوں اور افراد کی معاونت بھی حاصل ہے۔ پاکستان میں کام کرنے والی مختلف تنظیمیں اور تحریکیں بھی اس میں اپنا اپنا حصہ ڈالتی ہیں۔ صرف مشرق ِ وسطیٰ کے ممالک سے تعلق رکھنے والے افراد یا نجی تنظیمیں ہی نہیں بلکہ کچھ ریاستیں بھی خفیہ طور پر(جو دراصل اتنی خفیہ بھی نہیں ہوتیں) ایسے گروہوں کی مدد کرتی ہیں جو ان کے مقاصد کے حصول میں معاون ثابت ہوتے ہیں۔ اس وجہ سے دہشت گردی کا مسئلہ انتہائی پیچیدہ ہوجاتا ہے کیونکہ پاکستان کھل کر ان ریاستوںسے بات نہیں کرتا۔
اس چیلنج کا ایک اور اہم پہلو اس کا وسیع سکیل اور وہ مدت ہے جس میں حکمران طبقوں کی روایتی غفلت اور بے حسی کی وجہ سے اسے پھلنے پھولنے اور اپنی جڑیں مزید گہری کرنے کا موقع مل گیا۔ پشاور واقعے سے پہلے حکومتوں میں شامل کسی قابل ِ ذکرگروہ یا سیاسی رہنما نے انتہا پسندی کو کچلنے کے لیے سنجیدگی کا مظاہرہ نہیں کیا تھا۔ اس معاملے سے اغماض کی پالیسی برتی گئی یہاں تک کہ اس نے ہماری سلامتی کو چیلنج کرنا شروع کردیا۔ دوبڑی سیاسی جماعتوں کے درمیان ہونے والی ایک عشرے پر محیط رسہ کشی کے دوران، دونوں نے اپنے اپنے دور میں انتہاپسندوں کو ناراض نہ کرنے میں ہی عافیت گردانی۔ بلکہ بعض نے تو سیاسی مفاد کے لیے انتہا پسند تنظیموں سے تعاون بھی طلب کیا۔اس کے بعد ظاہر ہے کہ ان کے خلاف کارروائی کی گنجائش نہیں نکلتی تھی۔
انتہا پسندی کا چیلنج فرقہ واریت اور دہشت گردی کو فروغ دیتا ہے۔ یہ ہمارا قومی مسئلہ تو ہے لیکن اس کے ساتھ ساتھ یہ علاقائی مسئلہ بھی ہے۔ عراق، شام، لیبیا اور یمن میں داعش کا سراٹھانا کوئی اچنبھے کی بات نہیں ۔ یہ دراصل مختلف ریاستوں کی دیرینہ پالیسیوں کا شاخسانہ ہے۔ اس کی جڑیں عقیدے کی غلط تشریح کے ساتھ ساتھ مسلک اور مذہبی منافرت میں گڑی ہیں۔ آج صورت ِحال یہ ہے کہ داعش کی سفاکیت سے وہ ریاستیں بھی خطرہ محسوس کررہی ہیںجو اس کی پیداوار کی ذمہ دار تھیں۔ چنانچہ آج بہت سی علاقائی ریاستیں اپنے انٹیلی جنس اور فوجی ذرائع یک جان کرتے ہوئے داعش کے خلاف کارروائی کرتی دکھائی دیتی ہیں۔ کچھ علاقائی ریاستوں نے ایک قدم آگے بڑھتے ہوئے داعش کے خلاف بننے والے عالمی اتحاد میں بھی شمولیت اختیار کی ہے تاکہ اس فتنے کوجلد از جلد کچلا جاسکے۔
داعش سے الحاق رکھنے والے گروہوں کو افغانستان اور پاکستان سے بھی حمایت مل سکتی ہے کیونکہ یہاںموجود انتہا پسندگروہ بھی انہی نظریات کے حامل ہیں جو داعش کے ہیں۔ ان سب کا مقصد ایک اسلامی خلافت کا قیام ہے۔ پاکستان میں کچھ عرصے سے اس کے لیے فکری طور پر زمین تیار کی جارہی تھی۔ کچھ ایسے اشارے ملتے ہیں کہ یہاں کے کچھ مقامی گروہ داعش کے ساتھ روابط قائم کرچکے ہیں ۔داعش کے حق میں ملک کے کچھ مخصوص حصوں میں کی جانے والی وال چاکنگ کی خبریں بھی آتی رہتی ہیں۔کسی کو اس کا مقامی امیر مقرر کیے جانے کی بازگشت بھی سنائی دیتی ہے۔ خدامعلوم ان خبروں میں کتنی صداقت ہے لیکن ایک بات پورے وثوق سے کہی جاسکتی ہے کہ پاکستان اور افغانستان میںکام کرنے والے انتہا پسندگروہوں کے مشرق ِ وسطیٰ کے روابط کی تاریخ موجود رہی ہے۔ اس سے انکار کرنا حقیقت سے آنکھیں چرانے کے مترادف ہوگا۔
کئی عشروں سے پاکستان اور افغانستان میں مشرق ِ وسطیٰ سے فنڈز کا بھاری بہائو جاری ہے۔ اس کازیادہ تر رخ انتہا پسند گروہوں کی طرف ہے کیونکہ وہ مسلک اور نظریات کے اعتبار سے مشرق ِ وسطیٰ کی ریاستوں کے قریب ہیں۔ ایک طرح سے پاکستان متحارب مسالک کا میدان ِ جنگ بن چکا ہے۔ اس کی وجہ دو ممالک کی نظریاتی دشمنی ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ اس نظریاتی کشمکش کی بنیادی وجہ مذہب نہیں بلکہ کمرشل تصورات ہیں ،تاہم ان کے لیے فرقہ وارانہ تنائو کا ہتھیار استعمال کیا جاتا ہے۔ افغان جنگوں کی وجہ سے پاکستانی ریاست کے شمالی مغربی سرحدی علاقوں میں حکومت کی عملداری برائے نام رہ گئی۔ ان علاقوں میں انتہا پسند جمع ہوگئے۔ اس کو فنڈز فراہم کرنے میں مشرق ِ وسطیٰ کے کردار کو نظرانداز نہیں کیا جاسکتا۔ اگرچہ ایسا سوویت یونین اور کمیونزم کے خلاف جہاد کے لیے کیا گیا تھا لیکن فنڈز کی فراہمی کے لیے ہم مسلک گروہوں کا ہی انتخاب کیا گیا اوریہ محض اتفاق نہیں تھا۔
جس دوران پاکستان اور اس کا معاشرہ انتہا پسندی کے چیلنج سے نبردآزما ہونے کے لیے ہاتھ پائوں ماررہا ہے، ہمیں اس کے خلاف ایک تازہ بیانیے کی ضرورت ہے۔ نیشنل ایکشن پلان پر عمل کیا جارہا ہے اور یہ اچھی پیش رفت ہے لیکن ہمیں وسیع تر خطوط پر سوچنے کی ضرورت ہے کہ یہ مسئلہ علاقائی جہت رکھتا ہے۔ اس لیے علاقائی طاقتوں کو اس میں شامل نہ کرنا غلطی ہوگی۔ سب سے پہلے ہمیں افغانستان کے ساتھ اچھے اور قریبی تعلقات درکار ہیں ۔ اس کے بعد ہی ہم انتہا پسندی اور دہشت گردی کے خلاف کامیابی کی امید کرسکتے ہیں۔ اس کے علاوہ بھارت کے ساتھ اچھے تعلقات بھی ضروری ہیں کیونکہ دشمنی اور تنائو کی وجہ سے پراکسی جنگ کا تصور ابھرتا ہے۔ اس کے لیے انتہا پسند گروہ ناگزیر ہوجاتے ہیں۔ اس وقت ، جبکہ فوجی آپریشن کامیابی سے جارہی ہے، سفارتی محاذ سے بھی کچھ اچھی خبریں آرہی ہیں۔ تاہم مشکل لیکن اہم قدم مشرق ِوسطیٰ کی طرف سے آنے والے نظریات اور فنڈز کو روکنا ہے۔ اگر ریاست نے اس طرف چشم پوشی کی پالیسی جاری رکھی تو بہت دیر ہوجائے گی اور فرقہ وارانہ طاقتیں مزید مضبوط ہوجائیں گی۔اگر افغانستان اور دیگر ریاستوں کا تعاون شامل رہے تو ان طاقتوں کی حوصلہ شکنی ہوگی اوراُنہیں شکست دینا آسان ہوجائے گا۔ تاہم اس وقت جبکہ فوج اپنا کام کررہی ہے، حکومت کے کرنے کے بھی بہت سے کام ہیں۔ کیا آنے والے دنوں میں ہم حکومت کو یہ مشکل لیکن ضروری کام سرانجام دیتے دیکھیں گے؟

اسلام کے نام پر فسادی جنگ کا خاتمہ صرف اسلام سے:

اسلام ، جہاد کے نام پر فساد کا خاتمہ کرنے کے لءیے محض مذمتی قراردادیں، کمیٹاں،دھواںدار تقریریں، بیانات، کانفرسیں، قوانین، فوجی  کاروائیاں، فوجی عدالتیں   وغیرہ کافی نہیں. یہ ایک مکمل قومی، مذھبی جنگ ہے(Total War).
  مسلمان حکمران علماء کرام کی مدد سے  تکفیری فسادیوں اور ان کے ھمدردوں کے خلاف خالی فتووں کے علاوہ کھلم کھلا اعلان جہاد کریں جس میں ہر مسلمان جان، مال، قلم یا کسی اور متفقہ طریقے سے  حکومت کی مدد (غیر سرکاری طور پر نہیں)  سے حصہ لے .

انشا ء اللہ امت مسلمہ اس سازش کو تباہ کر کہ امن قاءم  کر لیں گے. یہ کوءی سیاسی جزباتی نعرہ نہیں ایک ممکن سنجیدہ حل ہے اہل دانش اس معاملہ پر ٹھنڈےدل و دماغ سے غور و فکرکریں اور  ممکن عملی اقدام تجویز کریں. پیغام پھیلاءیں پر امن دباءو ڈالیں.

مَّن يَشْفَعْ شَفَاعَةً حَسَنَةً يَكُن لَّهُ نَصِيبٌ مِّنْهَا ۖ وَمَن يَشْفَعْ شَفَاعَةً سَيِّئَةً يَكُن لَّهُ كِفْلٌ مِّنْهَا ۗ وَكَانَ اللَّـهُ عَلَىٰ كُلِّ شَيْءٍ مُّقِيتًا
جو بھلائی کی سفارش کریگا وہ اس میں سے حصہ پائے گا اور جو برائی کی سفارش کرے گا وہ اس میں سے حصہ پائے گا، اور اللہ ہر چیز پر نظر رکھنے والا ہے(قرآن:4:85)
Takfiri Khawarji Terrorism :
http://peace-forum.blogspot.com/2015/02/defeat-religious-terrorism-with-power.html?m=1
http://flip.it/kiJqd
http://Takfiritaliban.blogspot.com