Featured Post

FrontPage صفحہ اول

Salaam Pakistan  is one of projects of  "SalaamOne Network" , to provide information and intellectual resource with a view to...

Return of Pink Panther in 12


پرویز مشرف اول و آخر پاکستانی ہیں۔ پاکستان ان کا وطن ہے اور کسی کو یہ اختیار حاصل نہیں کہ انہیں وطن آنے سے روکے۔ انہوں نے
 اگر اپنے عہد آمریت میں نواز شریف اور بے نظیر کو وطن آنے سے روک رکھا تھا تو غیر آئینی ہی نہیں غیر انسانی اور غیراخلاقی اقدام تھا۔ پہلے شہباز شریف، ڈکٹیٹر کی رعونت کا سامنا کرنے اور نتائج بھگتنے کے لئے وطن آئے تو ان کے طیارے کا رُخ جدہ کی طرف موڑ دیا گیا۔ پھر نواز شریف اسلام آباد کے ہوائی اڈے پر اترے تو ان سے انتہائی ناروا سلوک کرتے ہوئے دوسرے طیارے پر بٹھا کر جدہ بھیج دیا گیا۔ یہ اس وقت ہوا جب نواز شریف کی درخواست پر سپریم کورٹ قرار دے چکی تھی کہ کسی پاکستانی کو پاکستان آنے کے حق سے محروم نہیں رکھا جاسکتا۔ شہباز شریف کو اپنی بیٹیوں کی رخصتی کے وقت سر پر ہاتھ رکھنے کی اجازت نہ دی گئی۔ ان کے اہل خانہ کو جس بے توقیری کے ساتھ پاکستان سے نکالا گیا، وہ ایک الگ کہانی ہے۔ نواز ، شہباز کے والد، میاں محمد شریف کا انتقال ہوا تو بیٹوں کو اجازت نہ ملی کہ وہ باپ کی میت لے کر پاکستان آئیں اور اسے اپنے ہاتھوں لحد میں اتاریں۔ محترمہ بے نظیر بھٹو کا عرصہ جلاوطنی، نواز شریف سے کہیں زیادہ رہا۔ این آر او کے باوجود پرویز مشرف نے انہیں انتخابات سے قبل وطن آنے کی اجازت نہ دی بلکہ دھمکی دیتے ہوئے کہا…”اس کے باوجود آپ آئیں تو میں آپ کے تحفظ کی ضمانت نہیں دے سکتا“۔ وہ آئیں اور کراچی میں ان کا استقبالی جلوس خون میں 

نہلا دیا گیا۔ دو سو کے لگ بھگ افراد بھسم ہوگئے اور پھر 27دسمبر کی سرد شام بے نظیر کو بھی قتل کردیا گیا۔
مشرف کے اس غیر انسانی طرز عمل کے باوجود، اسے پاکستان آنے سے ہرگز نہیں روکنا چاہئے۔ اس کو دھکے دیتے ہوئے کسی دوسرے طیارے میں بٹھا کر، کسی دوسرے ملک کو روانہ نہیں کرنا چاہئے۔ اسے ایک پاکستانی شہری کے طور پر پوری تکریم ملنی چاہئے تاکہ اسے اندازہ ہو کہ آمریت اور جمہوریت میں کیا فرق ہے۔ کوئی پہرہ نہ لگے۔ کوئی رکاوٹ کھڑی نہ کی جائے اور کوئی ناکے نہ لگائے جائیں۔ سپریم کورٹ کے جس فیصلے کو اس نے ڈھٹائی کے ساتھ پاؤں تلے روند دیا تھا، اس فیصلے پر پورا عمل ہونا چاہئے کہ ”کسی پاکستانی کو پاکستان آنے سے نہیں روکا جاسکتا“۔
لیکن کیا مشرف پر عائد الزامات کا بے لاگ جائزہ بھی نہیں لیا جانا چاہئے؟ کیا وہ پاکستان کے آئین و قانون سے ماوریٰ کوئی دیومالائی مخلوق ہے؟ کیا اسے انصاف کے کٹہرے میں نہیں لایاجاسکتا؟ کیا صرف اس لئے اس سے کسی طرح کی بازپرس نہیں کی جاسکتی کہ وہ ایک ریٹائرڈ جرنیل ہے؟ کیا اس کے محاسبے کے معنی یہ ہیں کہ فوج کا احتساب کیا جارہا ہے؟ کیا اس سے اکبر بگٹی کے قتل کے بارے میں کوئی سوال نہیں کیا جانا چاہئے؟ کیا اس سے نہیں پوچھا جانا چاہئے کہ لال مسجد اور جامعہ حفصہ پر بہیمانہ یلغار کی نوبت کیوں آئی؟ کیا اس سے کوئی سوال نہیں کیا جانا چاہئے کہ اس نے پاکستان کس قیمت پر امریکہ کے ہاتھوں فروخت کیا تھا؟ کیا اس سے نہیں پوچھا جانا چاہئے کہ عافیہ صدیقی اور اس کے بچوں کو کیونکر امریکیوں کے حوالے کیا گیا؟ کیا اس سے دریافت نہ کیا جائے کہ کتنے افراد امریکیوں کو بیچے گئے، ان کے عوض کتنے ڈالر ملے اور وہ ڈالر کہاں ہیں؟ کیا اس سے کارگل کی بے ثمر مہم جوئی کے بارے میں کوئی سوال نہ کیا جائے؟ کیا اس سے نومبر 2007ء کی ایمرجنسی کے بارے میں کچھ نہ پوچھا جائے جس کی توثیق کسی پارلیمینٹ نے نہیں کی اور جسے سپریم کورٹ ایک طرح کی بغاوت قرار دے چکی ہے؟ کیا اس سے ججوں کی معزولی اور حراست کے بارے میں کوئی سوال نہ کیا جائے؟ کیا اس سے محترمہ بے نظیر بھٹو کے قتل کے حوالے سے کوئی استفسار نہ کیا جائے اور اس حقیقت کو پس پشت ڈال دیا جائے کہ محترمہ اپنے قتل سے پہلے خود اسے نامزد کر گئی تھیں؟ کیا توہین عدالت کا وہ مقدمہ نہ کھولا جائے جو نواز شریف کو جدہ روانہ کردینے کے بعد شروع ہوا تھا؟ کیا اس سے نہ پوچھا جائے کہ 12مئی 2007ء کو کراچی کا قتل عام کس کے حکم پر ہوا تھا اور کیونکر اسے عوامی قوت کا مظاہرہ قرار دیا گیا تھا؟ کیا اس سے کوئی سوال نہ کیا جائے کہ اس نے ڈرون حملوں کی اجازت کیونکر دی تھی؟ کیا اس نے نہ پوچھا جائے کہ ایک منتخب صدر کو نکال کر اس نے منصب صدارت کس طرح سنبھال لیا تھا؟ کیا اس سے کوئی سوال نہ کیا جائے کہ اس کے اثاثے کس طرح افق تا افق پھیلتے چلے گئے؟ کیا اس سے دریافت نہ کیا جائے کہ اس کے ہاتھ پر بیعت کرلینے والے پارساؤں کی کرپشن کی فائلیں کہاں پڑی ہیں؟
سوالات ہیں اور لاتعداد ہیں۔ پرویز مشرف نامی شخص سے پوچھے جانے چاہئیں اور ضرور پوچھے جانے چاہئیں۔ اگر پاکستان ایک باضابطہ ریاست ہے، اگر یہاں کوئی آئین کار فرما ہے، اگر یہاں کوئی نظام قانون و انصاف موجود ہے اور اگر ہم نے جمہوریت کو تہذیب کے روایتی دھاروں کے ساتھ ہم آہنگ رکھنا ہے تو مشرف کے تمام تر حقوق کا احترام کرتے ہوئے، اس کا احتساب ہونا چاہئے۔ اور اگر خارجی ضمانتوں اور داخلی مصلحتوں کے سبب ، حکومت، پرویزمشرف کو چھونے کا حوصلہ نہیں رکھتی تو پھر اسے آئین و قانون کا محافظ کہلانے بلکہ ہمارے سروں پر مسلط رہنے کا بھی کوئی حق حاصل نہیں۔
ہم جانتے ہیں کہ این آر او کے تحت جہاں مقدمات کی معافی ہوئی وہاں پرویز مشرف نے بھی کچھ ضمانتیں حاصل کیں۔ جناب آصف زرداری کی صدارت کا چشمہ بھی انہی مصلحتوں کے نخلستان سے پھوٹا۔ اسی کا ایک پہلو تھا کہ آصف زرداری، اپنے اتحادیوں کے ہمراہ یہ پیغام لے کر نواز شریف کے پاس گئے کہ پرویزمشرف کے تمام اقدامات کو انڈیمنٹی دینی ہے۔ انہی مصلحتوں کے تحت مشرف کو گارڈ آف آنر دے کر رخصت کیا گیا اور سید زادہ ملتان کی یہ ممیاہٹ بھی انہی مصلحتوں کے احساس بے چارگی سے پھوٹی تھی کہ ”مشرف کا محاسبہ ڈو ایبل نہیں“۔
ادارتی صفحہ

علم پر مبنی معاشی تشکیل ...ڈاکٹر عطاء الرحمن
ایشیا میں کئی ایسے ممالک کی مثالیں موجود ہیں جو ہماری طرح کے حالات سے دو چار رہے، لیکن ایماندار قیادت کے باعث جلد دنیا میں اپنا مقام بنانے میں کامیاب ہوئے۔سنگاپور 1960 میں سولہ لاکھ کی آبادی والا ایک چھوٹا سا ملک تھا، جس کے پاس قدرتی وسائل کا بھی فقدان تھا۔Lee Kwan Yew نے 5 جون 1959ء میں سنگاپور کی قیادت سنبھالی اور عمدہ حکومتی بنیادی ڈھانچہ تشکیل دیا۔ جس کے نتیجے میں یہ ملک 1964کی درآمدی پالیسی رکھنے والے ملک سے 1978تک ایک برآمدی پالیسی والے ملک میں تبدیل ہو گیا اور1978تک سنگاپور کے صنعتی شعبے کا حصہ GDPکا 14 فی صد سے بڑھ کر24 فی صد تک ہو گیا۔ شرح نمود بڑھ کر 10فی صد سالانہ اور بیروزگاری 10فی صد سے کم ہو کر3.6 رہ گیا 1978 سے 1985کے دوران ہنر مند افراد کا معاشی ترقی میں حصہ 11فی صد سے بڑ کر22 فی صد تک پہنچ چکا تھا۔تنخواہوں کا اوسط 1979 کے18400 سے بڑھ کر1985ء تک 000،27 ڈالرکے اوسط تک پہنچ گیا۔
1986 سے 1997 کے دوران سنگا پور کی قیادت نے انجینئرنگ، پیٹروکیمکل اور الیکٹرونکس جیسی صنعتوں کو خصوصی اہمیت دی۔ اِس خصوصی توجہ کے نتیجے میں سائنسی تحقیق میں مصروف سانئسدانوں کی تعداد 3361 سے بڑ ھ کر 1997ء تک 302،11 ہو گئی۔ سنگاپور کا GDP 1980 میں12کھرب ڈالر تھا جو 2010 میں بڑھ کر 251 کھرب ڈالر ہو گیا۔اِس ملک میں بین الاقوامی کمپنیوں کی تعداد غیر ملکی سرمایہ کاری کی بدولت تین ہزار تک جا پہنچی ہے۔Biotechnology سے متعلق صنعتیں سنگا پور میں اب خصوصی اہمیت کی حامل ہیں، اور اِسی وجہ سے بڑی بڑی دوا ساز کمپنیاں یہاں اپنی شاخیں کھول رہی ہیں۔سنگا پور آج بھی بڑی برق رفتاری سے ترقی کی راہ پر گامزن ہے۔اس کا شمار دنیا کی مضبوط ترین معیشت رکھنے والے ممالک میں ہوتا ہے۔جس کا اندازہ اس کی موجودہ پیداواری شرح سے لگایا جا سکتا ہے۔جو 2010کی ابتدائی ششماہی میں 17.91کی سطح پر پہنچ گیا ہے۔
کچھ اسی طرح کے اہداف ڈاکٹر مہاتیر محمد کی قیادت میں ملائشیا نے بھی حاصل کیے ہیں۔ 1970 تک ملائشیا کی معیشت کا دارومدار معدنیاتی وسائل اور کھیتی باڑی پر تھا۔ حکومتی سطح پر معیشت کو نئے صنعتی خطوط پر ڈھالنے کی سنجیدہ کوششوں کے نتیجے میں اس ملک کا GD 36 ملین امریکن ڈالر سے بڑھ کر1980تک 414 بلین امریکن ڈالر تک جا پہنچا۔ آج ملائشیا کی High Technology برآمدات جن میں مائیکرو چپ اور سیمی کنڈکٹر شامل ہیں تمام اسلامی ملکوں کی مجموعی برآمدات کا 86.57ہے، اور یہ کامیابی انہیں ایک ایماندار قیادت کی بدولت حاصل ہوئی۔ آج اس ملک میں (pre capita income)سالانہ شرح آمدنی 14,700 امریکن ڈالر ہے۔
ایک اور مثال کوریا کی ہے، جو ابتداََء اپنی کرپٹ اور نااہل قیادت کے باعث موجودہ پاکستان سے کچھ زیادہ مختلف نہیں تھا۔لیکن یہ ملک اب اپنے آپ کو ترقی پذیر ممالک کی صف سے نکال کر ایک اقتصادی اور انتہائی ترقی یافتہ صنعتی ملک کی حیثیت سے منوا چکا ہے۔ 1961 سے پہلے یہ ملک انتہا درجہ کی رشوت کا شکار تھا ، اور مکمل ناکامی کی نہج پر پہنچ چکا تھا۔ لیکن جنرل پارک کی دُور رس اور جہاندیدہ قیادت میں اس ملک نے بہت زیادہ ترقی کی۔ جنرل پارک نے 1961میں اس ملک کی باگ ڈور سنبھالی اور اپنے دورِ حکومت میں اسے صنعتی اور معاشی اعتبار سے حیرت انگیز کامیابیوں سے دو چار کیا۔
آج اس ملک کی سالانہ شرح آمدنی 72 امریکن ڈالر سے بڑھ کر 30,200ا مریکن ڈالر ہو گئی ہے۔اور ملک کا خالص داخلی پیداوار(GDP) 1.423 ٹریلین امریکن ڈالر تک پہنچ چکا ہے۔ان کامیابیوں کی بڑی وجہ ہمسایہ ممالک خصوصاََ جاپان سے اچھے تعلقات اسطوار کرنا تھا، جس کے نتیجے میں جاپان نے ایک بڑے سرمایہ کار کی حیثیت سے اس ملک میں خاصی سرمایہ کاری کی، اور ساتھ ہی نئی ٹیکنالوجی متعارف کروائی۔
ان تمام مثالوں سے جو نتیجہ اخذ کیا جا سکتا ہے ان میں سرِ فہرست اور بنیادی بات یہ ہے کہ کرپٹ حکمران دراصل ملک کی تباہی میں پہلی سیڑھی ثابت ہوتے ہیں۔ پاکستان اپنی64سالہ آزاد حیثیت میں ملٹری اور سویلین حکومتوں کے ادوار دیکھ چکا ہے۔ یہ بات قابلِ توجہ ہے کہ پاکستان میں ملٹری دورِ حکومت میں سویلین حکومت کی نسبت زیادہ ترقی ہوئی۔ یہ بات حیرت انگیز ضرور ہے مگر اس کی حقیقت سے انکار نہیں کیا جا سکتا۔اس صورتِ حال کی وجوہات تلاش کریں تو یہ بات واضح ہوتی ہے کہ ہمارا موجودہ طرز حکومت جو برطانوی طریقہء حکومت کی بھونڈی شکل ہے، ہمارے لیے کسی طرح بھی موزوں نہیں۔
برطانوی پارلیمانی نظامِ حکومت ہی ہمارے ملک میں فیوڈل سسٹم کو فرغ دینے اور شرح ناخواندگی میں کوئی تبدیلی نہ لانے کا سبب ہے۔ ہمارا جاگیردارانہ نظام تعلیم دشمن ہے۔ نیز ٹیکنولوجی اور جدید طرز سوچ کے فروغ میں بھی بہت حد تک مانع ہے۔ اس طرزِ حکومت نے ہمیشہ اس ملک کو کرپٹ حکمران اور انہی جیسے وزراء دئیے۔ان کی ذ ہنی پسماندگی کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ انہوں نے الیکشن کمیشن کے سامنے اپنی اہلیت ثابت کرنے کی لیے جعلی ڈگریاں استعمال کیں۔موجودہ پارلیمنٹ کے ارکان میں سے 51 فی صد نے جعلی ڈگریوں کی بنیاد پر الیکشن میں حصہ لے کر کامیابی حاصل کی، جبکہ مزید 250 ارکانِ اسمبلی کی ڈگریاں اس بنیاد پر مشکوک تصور کی جا سکتی ہیں کہ انہوں نے عدالت کے حکم کے باوجود اپنی دستاویزات HEC کو جمع ہی نہیں کروائیں۔ان ارکانِ اسمبلی نے کروڑوں روپے خرچ کر کے الیکشن میں کامیابی اور حکومت میں شمولیت اختیار کی۔اس پیسے کو وہ کرپشن کی سیاست اور لوٹ مار کا بازار گرم کر کے کئی گنااضافے کے ساتھ وصول کرچکے اور نتیجتاً ملک کو مہنگائی کے اس عذاب تک پہنچا دیا گیاکہ غریب اپنی ضرورتوں کو پورا کرنے کے لیے جرم کا راستہ اختیار کرے یا ان سے چھٹکارا پانے کے لیے خود کشی کرنے پر مجبور ہے۔
حکومت کا حصہ بن کر یہ وزراء قانون کو دھوکا دینے اور ٹیکسوں کی چوری کرنے میں کوئی عار محسوس نہیں کرتے، اور ان ذرائع سے کروڑوں روپے کماتے ہیں۔چینی کی قیمتوں میں اضافہ اسی سلسلہ کی کڑی ہے، جو 32 روپے کلو سے بڑھ کر 80 روپے کلو تک جا پہنچی ہے۔اس کا براہ راست فائدہ انہی کرپٹ سیاستدانوں کی جیبوں میں ہی پہنچا ہے۔
فوجی حکومت عموماََ ٹیکنوکریٹس کو وزراء کے عہدوں پر فائز کرتی رہی ہے جو اُن کی مہارت کی بدولت عمدہ کارکردگی کی بڑی وجہ ہوتی ہے۔ لیکن فوجی حکومت ہماری مشکلات کا مستقل حل نہیں۔ اپنے ملک کو کامیابی کی منزل پر گامزن کرنے کے لیے ہمیں اپنے طرزِ حکومت کر بدلنا ہو گا۔موجودہ صورتِ حال میں صدارتی پارلیمانی نظام ایک بہتر متبادل نظام ہے، جس میں وزیرِ اعظم اپنی کابینہ کا انتخاب خود اہلیت کی بنیاد پر ٹیکنوکریٹس میں سے کر سکتا ہے۔ اور ایسے ادارے جو ملک کی معیشت میں کلیدی کردار ادا کر تے ہیں جیسے اسٹیٹ بینک، اسٹیل مل، پی آئی اے، ریلوے وغیرہ کرپٹ ملازمین سے پاک ہو سکیں، اور آزادانہ طور پر ترقی کر سکیں۔
پاکستان تباہی کے دہانے تک پہنچ چکا ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ فوری اقدام کیے جائیں۔ ایسا نہ ہو کہ مزید تاخیر اس ملک کے لیے واپسی کا ہر راستہ مسدود کر دے۔