5جولائی 1989ء کو مَیں نے ایس ایس پی ایبٹ آباد کا چارج سنبھالا۔صوبہ خیبرپختونخوا کے خوبصورت ترین خطوں میں سے ایک خطہ ہزارہ، اور ہزارہ کی خوبصورت ترین وادیوں میں سے ایک وادی، ایبٹ آباد وفاقی دارالحکومت اسلام آباد سے براستہ ریحانہ (صدر ایوب خان کا آبائی گاؤں) 110 کلومیٹر، براستہ حسن ابدال 143 کلو میٹر، صوبائی دارالحکومت پشاور سے 155 کلومیٹر اور جی ٹی روڈ پر واقع حسن ابدال کیڈٹ کالج سے تقریباً 70کلومیٹر کے فاصلے پر شاہراہِ قراقرم(KKH) جسے شاہراہِ ریشم (Silk Route)بھی کہتے ہیں پر واقع ہے۔ شاہراہِ قراقرم اب چین پاکستان اقتصادی راہداری (CPEC) کا حصہ بن گئی ہے۔ یہی وہ شہر ہے، جہاں سے کچھ سال قبل اسامہ بن لادن پکڑا اور ماراگیا۔ پہلے صرف برصغیر پاک و ہند کے عوام اور سیر وسیاحت کے شوقین غیر ملکی باشندے ہی اس شہر کو اپنی خوبصورتی اور پُرفضا سیاحتی مقام ہونے کے ناطے سے جانتے تھے، لیکن اسامہ بن لادن والے واقعہ کے بعد تو اب ساری دنیا اس شہر کے نام اور محلِ وقوع سے واقف ہوگئی ہے۔
1849ء میں خطہ ہزارہ کے سکھوں کے قبضے سے نکل کر انگریزوں کے قبضے میں آنے کے بعد کیپٹن جیمز ایبٹ اس خطے کا پہلا نگرانِ اعلیٰ اور ڈپٹی کمشنر مقرر ہوا۔ اُس وقت ہری پور اس خطے کا صدر مقام ہواکرتا تھا ۔ جیمز ایبٹ نے سب سے پہلے موجودہ ایبٹ آباد کے مقام پر ایک فوجی چھاؤنی بنائی اور پھر اس کے ساتھ ہی ایک شہر کی بنیاد رکھی۔ جیمز ایبٹ کے بعد آنے والے ڈپٹی کمشنر نے 1853ء میں اس نئے شہر کے خدوخال نکل آنے پر اسے (تب)میجر جیمز ایبٹ کے نام سے موسوم کرکے اِسے ضلع ہزارہ کا ہیڈ کوارٹر بنالیا۔ یہ شہر چارو ں طرف سے سربن اورشملہ کی خوبصورت پہاڑیوں کے درمیان ایک پیالہ نما قطعہ زمین پرواقع ہے۔کہتے ہیں کہ زمانہ قبل از تاریخ میں یہ پیالہ ایک جھیل تھی جو رفتہ رفتہ خشک ہوکر ایک خوبصورت واد ی میں تبدیل ہوگئی۔ سواسوسال تک پورا خطہ ہزارہ ایک ضلع اور پشاور ڈویژن کا حصہ رہا۔
1976ء میں ضلع ہزارہ کو ڈویژن کا درجہ دے کر اسے تین اضلاع ایبٹ آباد، مانسہرہ اور کوہستان میں تقسیم کردیاگیا۔ ایبٹ آباد کاشہر ہزارہ ڈویژن اور ضلع ایبٹ آباد دونوں کا ہیڈکوارٹرز قرار پایا۔1991ء میں ایبٹ آباد کی تحصیل ہری پور کو ضلع کا درجہ دے دیاگیا۔اسی طرح 1993ء میں تحصیل بٹگرام کو ضلع مانسہرہ سے الگ کرکے ضلع بنادیاگیا۔ 2012ء میں ضلع مانسہرہ ہی سے کالا ڈھاکہ اور اس کے گردونواح کے علاقے کو کاٹ کر طورغر کے نام سے ایک مزید ضلع بنادیاگیا۔ 2017ء میں ضلع کوہستان کو بھی لوئر کوہستان اور اَپر کوہستان کے نام سے دواضلاع میں تقسیم کردیاگیا۔ یوں یہ خطہ ہزارہ جو 1976ء تک ایک ضلع تھا ،آج سات اضلاع پر مشتمل ایک ڈویژن ہے اور لطف کی بات یہ ہے کہ ہزارہ نا م کا کوئی ضلع اس ہزارہ ڈویژن میں وجود نہیں رکھتا۔ میرے وقت تک ہری پور ضلع ایبٹ آباد کا ہی حصہ تھا۔ میرے بعد یہ الگ ضلع بنا۔ یوں میں متحدہ ایبٹ آباد کا آخری ایس ایس پی تھا۔ ایبٹ آباد شہر کو گھوم پھر کر دیکھیں تو یہ فوجی اور تعلیمی اداروں کا ایک بہت بڑا کیمپس دکھائی دیتاہے۔
اس شہر کی آب وہوا اس قدر عمدہ ہے کہ انگریز کے وقت سے ہی اِسے رہائشی (boarding) تربیتی اور تعلیمی اداروں کے لئے موزوں ترین سمجھاجاتاہے۔ ایبٹ شہر میں واقع پاکستان ملٹری اکیڈمی،بلوچ رجمنٹ، فرنٹیئر فورس رجمنٹ اور آرمی میڈیکل کور کی مرکزی تربیت گاہیں اورنتھیا گلی کے قریب کالا باغ کے مقام پر ائیر فورس کی تربیت گاہ میری تعیناتی سے بہت پہلے سے یہاں قائم تھیں۔ تعلیمی اداروں میں پاکستان بھرمیں اپنی منفرد شناخت رکھنے والے ادارے آرمی برن ہال سکول اور ایبٹ آباد پبلک سکول بھی مجھ سے پہلے موجود تھے۔ ایوب میڈیکل کالج میرے سامنے تعمیر اور فعال ہوا، جبکہ فرنٹیئر میڈیکل کالج، یونیورسٹی آف انجینئرنگ اینڈ ٹیکنالوجی، کامسٹ یونیورسٹی آف سائنس اینڈ ٹیکنالوجی، پاکستان انٹرنیشنل پبلک سکول اینڈ کالج میرے بعد قائم ہوئے۔ ان کے علاوہ درجنوں دیگر سرکاری اوراعلیٰ معیارکی پرائیویٹ درسگاہیں ایبٹ آباد میں علم کی روشنی پھیلارہی ہیں۔ اِن تعلیمی اداروں کی بدولت ایبٹ آبادکی شرح خواندگی ملک بھر میں سب سے زیادہ (87فیصد)ہے۔ نتھیاگلی، ڈونگا گلی، چھانگلہ گلی، خیرہ گلی،ایوبیہ، ٹھنڈیانی اور میراں جانی ضلع ایبٹ آباد کی خوبصورت پہاڑی چوٹیاں اور سیرگاہیں ہیں۔ خانپور ڈیم، تربیلا ڈیم اور حطار انڈسٹریل اسٹیٹ بھی میرے وقت تک ضلع ایبٹ آباد کا حصہ تھی۔
مجھ سے پہلے پولیس سروس آ ف پاکستان کے بڑے بڑے نامور سپوت ضلع ہزارہ یا ایبٹ آباد کے ایس ایس پی رہے۔ اِن میں سے بہت سے بعد ازاں کسی نہ کسی صوبے کے آئی جی تعینات ہوئے۔بعض دودواور تین تین صوبوں کے بھی آئی جی رہے۔ جب میں نے ضلع ایبٹ آباد کا چارج سنبھالا اُس وقت جناب بریگیڈئیر (ر) امیر گلستان جنجوعہ صوبہ سرحد کے گورنر، جناب آفتاب احمد خان شیرپاؤ اس کے وزیر اعلیٰ، جناب عمر آفریدی اس کے چیف سیکرٹری اور جناب محمد عباس خان اس کے انسپکٹر جنرل پولیس تھے۔ جناب عبدالحمید خان ہزارہ ڈویژن کے کمشنر، جناب میجر (ر) فقیر ضیاء معصوم اس کے ڈی آئی جی (بعد میں آئی جی بلوچستان )اور جناب عطاء اللہ خان ضلع ایبٹ آباد کے ڈپٹی کمشنر (بعد میں وفاقی سیکرٹری)تھے۔ ایک رینکر افسر عبدالحمید خان ایبٹ آباد کے ایس پی ہیڈکوارٹرز اور موجودہ کمانڈنٹ فرنٹیئر کانسٹیبلری لیاقت علی خان اے ایس پی سٹی ایبٹ آباد تھے جو چند ماہ بعدمیرے دور میں ہی ترقی یاب ہوکریہیں ایس پی ہیڈکوارٹرز تعینات ہوگئے۔ائیر مارشل اصغر خان، گوہرایوب خان(بعد میں سپیکر قومی اسمبلی اور وزیرِخارجہ) ،سردار مہتاب احمد خان عباسی(بعد میں وزیراعلیٰ سرحد اور گورنر خیبرپختونخوا)، جاوید الرحمن عباسی (موجودہ ڈپٹی سپیکرقومی اسمبلی مرتضیٰ جاوید عباسی کے والد)،امان اللہ جدون، بابا حیدرزمان(تب چیئرمین ڈسٹرکٹ کونسل ایبٹ آباد)،راجہ سکندر زمان (بعد میں نگران وزیرِاعلیٰ)، یوسف ایوب (تب صوبائی وزیر)، پیر صابر شاہ(بعد میں وزیراعلیٰ سرحد)،محمد ایوب تنولی(تب صوبائی وزیر)اور حبیب الرحمن تنولی وغیرہم اُن دنوں ضلع ایبٹ آباد کے سرکردہ سیاستدان تھے۔ ایبٹ آباد کا چارج سنبھالنے کے بعد میں نے نہایت توجہ اور دلجمعی کے ساتھ اپنے فرائض کی بجاآوری شروع کر دی، تاہم میرے دماغ میں ایک اُلجھن موجود تھی کہ میری طرف سے کسی توقع ، کوشش یاسفارش کے بغیر اور حکومت کی طرف سے کوئی اشارہ دیئے ، مشورہ کئے یا رضامندی جانے بغیر مجھ جیسے نووارداور اجنبی کی صوبے کی اس اہم پوسٹ پر تعیناتی کیسے اور کس بنیاد پر کی گئی ؟ تاہم کچھ دنوں بعد ایک باوثوق ذریعے سے ملنے والی معلومات سے یہ عُقدہ کسی حد تک حل ہوگیا۔ ہوا درحقیقت یوں تھاکہ جن دنوں میں نے صوبہ سرحد میں حاضری کررکھی تھی، لیکن ابھی میری کسی جگہ پوسٹنگ نہیں ہوئی تھی، ایبٹ آباد میں ایک بہت اہم واقعہ ہوگیا۔ ہزارہ ڈویژن کے ڈی آئی جی جناب مظہر شیرخان بہت یارباش قسم کے آدمی تھے۔ ہری پور کی ترین فیملی کے کچھ لوگوں سے ان کی دوستیاں تھیں ۔ یہ بے تکلف دوست تقریباً ہر روز شام کو ڈی آئی جی ہاؤس میں محفل جماتے ، تاش شطرنج کھیلتے، کھاتے پیتے اور خوش گپیاں کرتے۔
ایک دن نہ جانے کیاہوا کہ ڈی آئی جی مظہر شیر خان او ر اشر ف ترین اور امان اللہ ترین (تب سپیکر سرحد اسمبلی) کے درمیان کسی بات پر تلخی ہوگئی۔ اشرف ترین نے غصے میں ریوالور نکالا اور ڈی آئی جی صاحب کو وہیں اُن کے اپنے گھر میں قتل کردیا اور بھاگ نکلا۔ اس اندوہناک واقعہ پر صوبے بھر میں ایک کہرام مچ گیا، لیکن اس سے زیادہ بُرا یہ ہوا کہ یہ قتل ایبٹ آباد میں پختون بمقابلہ ہزارہ وال مخاصمت کا رنگ اختیار کرگیا ۔لسانی اور علاقائی عصبیتیں جاگ اُٹھیں۔ دونوں اقوام خم ٹھونک کر ایک دوسرے کے مقابل آکھڑی ہوئیں۔ یہاں تک کہ (جیساکہ مجھے بتایاگیا) ہزارہ سے تعلق رکھنے والے عوام وخواص پرکیا موقوف ، پولیس کے ہزارہ سے تعلق رکھنے والے ملازمین کی اکثر یت نے مقتول ڈی آئی جی کاجنازہ نہ پڑھا۔ قتل کے اس افسوس ناک واقعہ اور اس کے نتیجے میں پیدا ہونے والے لسانی اور علاقائی تعصب ،اوراس کے عملی مظاہرے نے صوبائی حکومت کو ہلاکر رکھ دیا۔ صوبائی حکومت ایبٹ آباد کی انتظامیہ سے سخت نالاں ہوئی ۔ اندریں حالات فیصلہ کیا گیا کہ ایبٹ آباد کی پوری انتظامیہ کو تبدیل کردیاجائے۔ مقتول ڈی آئی جی کی جگہ فوری طور پر جناب میجر (ر) فقیر ضیاء معصوم کو نیا ڈی آئی جی، جبکہ جناب عبدالحمید خان اور جناب عطاء اللہ خان طورو کو بالترتیب نیا کمشنر ہزارہ ڈویژن اور ڈپٹی کمشنر ایبٹ آباد تعینات کردیاگیا۔ اسسٹنٹ کمشنر اور سب ڈویژنل پولیس افسرایبٹ آباد بھی تبدیل کردیئے گئے۔ ایس ایس پی کو بھی بدلنے کا فیصلہ ہوچکاتھا ،لیکن چونکہ امن وامان کی صورت حال کو کنٹرول کرنا تھا، خصوصاً اِس قتل کیس کی تفتیش ،ملزمان کی گرفتاری اور مقدمے کو چالان عدالت کرنے جیسے بہت سے اہم مراحل ابھی طے ہوناباقی تھے ،نیز کچھ دنوں کے بعد پہلے سے طے شدہ پروگرام کے تحت صوبائی اسمبلی کے بجٹ سیشن کوپہلی بارایبٹ آباد میں منعقد ہونا تھااورصوبائی حکومت اِسے منسوخ کرکے کسی قسم کی کمزوری کا کوئی تاثر نہیں دینا چاہتی تھی، چنانچہ ایک تجربہ کار ،تمام حالات وواقعات اور لوگوں سے بخوبی واقف اوراعلیٰ پیشہ ورانہ صلاحیتوں کے حامل ایس ایس پی جناب فیاض طورو کو ان امور کی تکمیل تک روک لیا گیا۔ اس دوران نئے ایس ایس پی کا تقرر زیرِ غور رہا۔ صوبے کے بڑوں نے دیگر ناموں کے ساتھ ساتھ میرے نام پر بھی غور کیا۔ اُن معروضی حالات میں انہیں کو ئی غیر متنازعہ ،غیر جانبدار، ترجیحاً صوبہ غیر کا اور مناسب سینیارٹی کا کوئی افسر درکارتھا۔ میں نہ پختون تھا ،نہ ہزارہ وال۔ میں نے صوبہ سرحد میں اس سے پہلے کہیں کام نہیں کیا تھا۔ میرا صوبے کی کسی علاقائی، لسانی، مذہبی یاسیاسی شخصیت، گروہ، گروپ یا پارٹی سے کوئی تعلق یا تعارف نہیں تھا۔ میری سنیارٹی بھی مطلوبہ معیار کے مطابق تھی اور میری آخری پوسٹنگ بھی ایبٹ آباد سے ہر اعتبار سے کہیں زیادہ مشکل ضلع گوجرانوالہ کے ایس ایس پی کی تھی، لہٰذا بڑوں نے اس موقع پر مجھے ا س پوسٹ کے لئے موزوں سمجھا اور فیصلہ ہوا کہ متذکرہ بالا ضروری امور کی تکمیل کے بعد مجھے ایس ایس پی ایبٹ آباد لگادیاجائے، لیکن میں ان تمام حالات اورسوچ سے بے خبر اپنی پوسٹنگ کے لئے یاددہانی اور درخواست کرنے کی غرض سے وقت سے ذرا پہلے ہی آئی جی صاحب کے سامنے جاپیش ہوا ۔ انہوں نے مجھے ٹالنے یا مزید انتظار کرنے کا کہنے کی بجائے کمال مہربانی کرتے ہوئے اسی دن میری ایبٹ آباد تقرری کا پروانہ جاری کروا دیا، تاہم پہلے سے طے شدہ پروگرام کے مطابق چارج بیس روز بعد بجٹ سیشن کے اختتام پر میرے حوالے کیا گیا۔ یہ سب ایک اندرونی انتظامی حکمت عملی تھی جس کا وزیراعلیٰ ،آئی جی اور چیف سیکرٹری کے سوا شاید کسی اور کو علم نہ تھا۔ بہرحال جو بھی ہوا اور جس طرح بھی ہوا،اب مجھے اپنے انتخاب کو درست ثابت کرناتھا۔
~ ~ ~ ~ ~ ~ ~ ~~ ~ ~ ~ ~ ~ ~ ~ ~ ~
Humanity, Knowledge, Religion, Culture, Tolerance, Peace
انسانیت ، علم ، اسلام ،معاشرہ ، برداشت ، سلامتی
سلام فورم نیٹ ورک Peace Forum Network
Books, Articles, Blogs, Magazines, Videos, Social Media
بلاگز، ویب سائٹس،سوشل میڈیا، میگزین، ویڈیوز,کتبJoin Millions of visitors: لاکھوں وزٹرز میں شامل ہوں
Salaamforum.blogspot.com
Twitter: @AftabKhanNet
Facebook: fb.me/AftabKhan.page
سوشل میڈیا پر جوائین کریں یا اپنا نام ، موبائل نمر923004443470+ پر"وہٹس اپپ"یا SMS کریں
Join 'Peace-Forum' at Social Media, WhatsApp/SMS Name,Cell#at +923004443470Twitter: @AftabKhanNet