قدرت اللہ شہاب
خواب میں سروردوعالم صلی اللہ علیہ وسلم کی جانماز کاکونہ اپنے ہاتھ سے چھو لینے کے بعد مجھے یہ فکر دا من گیر ہوگئی کہ اب اگر میں نے خود نماز کی پابندی اختیار نہ کی تو یہ ایک بیٹھے بٹھائے ملی ہوئی نعمت عظیم کا کفران ہوگا۔ پابندی کا لفظ استعمال کرکے میں نے مبالغہ سے کام لیا ہے۔ جوں توں کرکے لشتم پشتم میں نے نماز ادا کرنے کی کوشش تو ضرور کی ہے لیکن سچی بات یہ ہے کہ میں ’’اقیموالصلوٰۃ‘‘ کا اصلی حق کبھی ادا نہ کرسکا۔ نماز کے ساتھ کسی قدروابستگی پیدا کرنا میرے لئے کافی کٹھن مرحلہ ثابت ہوا۔ یہ بات تو آسانی سے میری سمجھ میں آگئی کہ مختلف نوعیت کے دنیاوی کلبوں کی طرح اسلام بھی ایک طرح کا عالمگیر کلب ہے، دوسرے کلبوں کی رکنیت حاصل کرنے کے لئے طرح طرح کے پاپڑبیلنے پڑتے ہیں جو شخص کسی سماجی کلب کا ممبر منتخب ہونے میں کامیاب ہوجائے، اسے کلب کے تمام قواعد وضوابط پر سختی سے عمل کرنا پڑتا ہے۔ ماہانہ بل اور سالانہ چندہ پابندی سے ادا کیا جاتا ہے اور اپنے اعمال وکردار کو کلب کی روایات کے ساتھ شعور ی طورپر ہم آہنگ رکھنا پڑتا ہے۔ ان شرائط کی خلاف ورزی ہوجائے تو کلب کی کمیٹی بلیک بال Black Ballکرکے کسی بھی ممبر کو بیک بینی ودوگوش کلب کی رکنیت سے خارج کردیتی ہے۔ اس کے برعکس اسلام کچھ اور ہی طرح کا کلب ہے جوکوئی مسلمان ہو کر ایک بار اس کلب میں داخل ہوگیا، اس کی رکنیت تاحیات ہی نہیں بلکہ بعدازممات بھی مستحکم طورپر قائم رہتی ہے ۔ کلب کے قوانین کے مطابق وہ نماز پڑھے یا نہ پڑھے۔ سالانہ چندہ (زکوٰۃ) ادا کرے یا نہ کرے، یا کئی دوسری شرائط پر پورا اترے یا نہ اترے۔ یہ اس کے ذاتی افعال ہوتے ہیں جن کا معاملہ فقط اس کے اور اس کے خالق کے درمیان رہتا ہے کسی دوسرے شخص کو یہ اختیار حاصل نہیں کہ وہ ان کمزوریوں ،خامیوں اور بدنظمیوں کی بناپر کسی ممبر کو اسلام کے کلب سے خارج کرسکے۔ اس کے علاوہ نماز کی ایک اور دلنواز صفت بھی میرے ذہن میں پوری طرح سماگئی دنیاوی حکمرانوں کے علاوہ چھوٹے موٹے رئیسوں ، نوابوں اور سرکاری افسروں تک رسائی حاصل کرنے کیلئے جو دوڑ بھاگ، منت خوشامد ،سفارش اور دوسرے ہتھکنڈے استعمال میں لائے جاتے ہیں ان کی فہرست طویل ہے لیکن رب العالمین اور احکم الحاکمین کے دربار میں حاضر ہونے کے لیے صرف باوضو ہونے کی شرط ہے۔ اس کے علاوہ نماز کی نیت باندھنے میں نہ کسی پیر فقیر سے اجازت حاصل کرنے کی ضرورت ہے نہ کسی حکومت کے قانون کی پابندی میں لازمی ہے نہ کسی دفتر سے پرمٹ بنوانا پڑتا ہے۔ نہ کوئی ٹکٹ خریدنے کی شرط ہے۔ نہ کوئی شناختی کارڈ دکھانا پڑتا ہے۔ نہ کسی خاص جگہ یا مقام کو تلاش کرنے کی ضرورت ہے نہ کوئی پی اے راستے میں حائل ہے نہ کوئی دربان روکتا ٹوکتا ہے، انسان کے اپنے نفس کے علاوہ عبداور معبود کے اس رازونیاز میں کوئی حجاب بیچ میں نہیں آتا۔ یہ تو دکاندار پیروں فقیروں کی من گھڑت ہے کہ بیعت کے بغیر وہ خاص اسرار نہ بتائیں گے۔ وہ اسرار ہی کون سے ہیں جن کو وہ نہ بتائیں گے؟جن اسرار کی ضرورت تھی ان کو تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے گلیوں اور بازاروں میں گھوم پھر کر اور پہاڑیوں اور منبروں پر چڑھ کر علی الاعلان بیان کردیا ہے۔ ان کے علاوہ دین میں کوئی راز ہیں نہ اسرار البتہ اشرار ضرور ہیں جن کی بدولت لوگوں کو جال میں پھنسا جاتا ہے۔ ایسے جعلی پیر اکثر جاہل ہوتے ہیں یوں منجملہ اسرار کے پانچ فن ہیں کیمیا، لیمیا ، ہیمیا ،سیمیااور رمیا ان میں کسی کا تعلق سونا بنانے سے ہے، کسی کا حبس دم سے، کسی کا روح منتقل کرنے کا تصرف حاصل کرنے سے، یہ سب دنیا دار شعبدہ بازوں، عاملوں اور جوگیوں کے استدراجی کرتب ہیں۔ دین سے ان کا دور کا بھی واسطہ نہیں اور نہ ہی تصوف کے حقیقی جوہر سے ان کا کوئی تعلق ہے۔ عقلی طورپر تو میں نے نماز کی آسائش سہولت اور افادیت کو کشادہ دلی سے تسلیم کرلیا لیکن عملی طورپر بڑی حد تک محرومی کا شکاررہا۔ نماز کا وقت آتے ہی میرے اعصاب پر کاہلی ، سستی اور کسل مندی کاایسا شدید حملہ ہوتا تھا کہ میں مایوس ہوکر یہ سمجھ بیٹھا تھا کہ ایسی نماز کا فائدہ ہی کیا جو رغبت اور شوق سے ادانہ کی جائے لیکن ایک روز قرآن کریم کی تلاوت کے دوران سورۃ النسا کی آیت نمبر142 نے اچانک میری آنکھیں کھول دیں۔ اس آیت کا ترجمہ یہ ہے:’’… اور جب نماز کو کھڑے ہوتے ہیں تو بہت ہی کاہلی سے کھڑے ہوتے ہیں، صرف آدمیوں کو دکھلاتے ہیں…‘‘ ٭٭٭٭
http://dunya.com.pk/index.php?key=bklEPTgyNSZjYXRlSUQ9c3BlY2lhbF9hcmM=#.UL8Pv-SxVR0