اب جبکہ براک اوباما دوسری مدت کے لیے صدر منتخب ہو گئے ہیں دیکھنا یہ ہے کہ ان کا دوسرا دور دنیا کے لیے کیا معنی رکھتا ہے؟
یورپ
بی بی سی کے کرس مورس برسلز سے لکھتے ہیں: یورپ آج عام طور پر یک گونہ اطمینان کی سانس لے کر جی رہا ہوگا۔ پورے براعظم میں رائے عامہ کے جائزوں میں ہمیشہ ہی براک اوبامہ کو مٹ رومنی کے مقابلے زیادہ مقبول رہنما کے طور پر پیش کیا گیا ہے۔ اس کے ساتھ ہی زیادہ تر حکومتیں بھی واشنگٹن میں تبدیلی کے بجائے تسلسل کی خواہش مند نظر آئی ہیں۔
امریکی وزیر خارجہ ٹم گیتھنر اور خود صدر اوباما یورو زون کے مباحثے میں قریب سے شامل رہے ہیں۔ یورپین یونین اپنے یورو زون بحران کے مباحثے میں اس قدر منہمک ہے کہ وہ کوئی بیرونی خلفشار نہیں چاہتا۔
اس کے علاوہ یورپین یونین اوباما انتظامیہ کے ساتھ خارجہ پالیسی کے متعدد معاملات میں مل کر کام کر رہا ہے جن میں بطور خاص ایران کا مسئلہ شامل ہے۔ اگرچہ چند اہم لوگوں میں تبدیلی ہو سکتی ہے لیکن اوباما کی جیت کا مطلب یہ ہے کہ یورپ کو اپنے معاملے میں ڈرامائی تبدیلی کی ضروت نہیں ہے۔
پاکستان"
ہمارے نامہ نگار ایم الیاس خان اسلام آباد سے لکھتے ہیں: پاکستان کی فوج جو ملک کی سلامتی کی پالیسی پر اختیار رکھتی ہے اس کے لیے روایتی طور پر ری پبلکن حکومت زیادہ اچھی رہی ہے۔ ڈیموکریٹک رہنما عام طور پر اپنی سول لبرٹی، جمہوریت اور جوہری ہتھیار کی پالیسی کی وجہ سے پاکستان کے تئیں سرد رویہ رکھتے ہیں۔
صدر اوباما کے پہلے صدارتی دور میں امریکہ اور پاکستان کا رشتہ سب سے نچلی سطح پر رہے ہیں۔ امریکہ شدت پسند گروہوں کو پاکستان کے مبینہ تعاون پر اپنے خدشات کا اظہار کرتا رہا ہے۔ پاکستان اپنی سرزمین پر ڈرون حملوں، ایک خفیہ آپریشن میں اسامہ بن لادن اور پاکستانی سرحدوں پر نیٹوں حملوں پر ناراض رہا ہے۔
لیکن اوباما کی جیت کا مطلب ہے افغانستان میں مجوزہ ’کھیل کا خاتمہ‘ اور اس کے تحت پاکستان کے تعلق کی ایک واضح صورت سامنے آئے گی۔ پاکستان کی یہ شکایت رہی ہے کہ افغانستان میں امریکہ کی حکمت عملی مبہم رہی ہے اور افغانستان میں قیام امن میں اس کے اہم کردار کو نظر انداز کیا گیا ہے۔
پاکستان کے تجزیہ نگاروں کا خیال ہے کہ اوباما کی جیت کا مطلب افغانستان میں امریکی اہداف کے حصول کے لیے پاکستان پر مزید دباؤ ہے
افغانستان
کابل سے ہمارے نامہ نگار کوانٹم سمرویل لکھتے ہیں: افغانستان میں ہر چیز اب امریکی قیادت میں جنگی مشن کے خاتمے کے عینک سے دیکھی جا رہی ہے اور کمانڈر ان چیف میں کوئی تبدیلی افغان کے تئیں امریکی پالیسی میں زیادہ تبدیلی کا باعث نہیں ہوتی کیونکہ دونوں امیدوار میں اس معاملے میں کوئی فرق نہیں تھا سوائے اس کے کہ مٹ رومنی نے کہا تھا کہ وہ میدان جنگ میں موجود جرنیلوں کی زیادہ سنتے۔
اوباما کے سامنے یہ سوال ہے کہ وہ کتنی جلدی فوج کو واپس بلاتے ہیں اور دوہزار چودہ کے بعد وہاں کتنی فوج رہے گی۔ ملٹری کمانڈر چاہیں گے کہ انخلاء رفتہ رفتہ ہو اور دس ہزار سے زیادہ تعداد میں فوج یہاں رہے۔ لیکن نئے انتخاب کے بعد وائٹ ہاؤس مزید سریع انخلاء پر زور دے گا اور دوہزار چودہ کے بعد وہاں کم فوجی رہ جائیں۔
ایران
بی بی سی کے محسن اصغری تہران سے لکھتے ہیں: ایران میں کئی لوگوں کو خدشہ تھا کہ ریپبلکن کی جیت کا مطلب جنگ ہے اور براک اوباما کی جیت کا مطلب ہے لوگوں کی جان کی حفاظت کیونکہ امریکہ ایران کے جوہری ارادوں کے بارے میں بات چیت کا ایک نیا دور شروع کرے گا۔
بہرحال چند ایرانی سیاسی کارکنوں کا کہنا ہے کہ اوباما کی جیت سے ایران پر زیادہ دباؤ بڑھے گا۔
تہران یونیورسٹی کے سیاسیات کے پروفیسر ناصر ہادیان نے کہا ’عالمی برادری میں براک اوباما کو زیادہ مقبولیت حاصل ہے جوکہ رومنی کو نہیں ہےاور بہ ایں سبب وہ ایران کے خلاف اتحاد کو مضبوط کر سکیں گے اور ایران پر زیادہ دباؤ ڈال سکیں گے‘۔
ایران کے لیے کون زیادہ قابل قبول ہوگا؟ یورنیم کی افزائش پر پابندی لگانے والا اسرائیل کا حلیف مٹ رومنی یا اوباما جو شاید ایران کو پرامن جوہری حق دے سکے؟ اس طرح ہم کہ سکتے ہیں کہ اوباما کو وائٹ ہاؤس میں دوبارہ دیکھ کر ایران کے لوگ زیادہ خوش ہیں۔۔