ایبٹ آباد خوبصورت لوگوں کا خوبصورت اور ایک پُرامن ضلع ہے۔ میرے وقت تک یہاں جرائم بہت کم تھے۔ یہاں سال بھر میں اتنے سنگین جرائم (ڈکیتی، راہزنی، قتل، اغوا، اغوا برائے تاوان وغیرہ) وقوع پذیر نہیں ہوتے تھے جتنے میری پچھلی تعیناتی کے ضلع گوجرانوالہ میں غالباً ہفتہ دس دن میں ہوجاتے تھے۔ یہاں کی پولیس شرافت، دیانت ، وضعداری اورعزت نفس کی پاسداری میں پنجاب پولیس سے بہت بہتر تھی ۔ مشتبہ افراد یا ملزمان پر بلاوجہ یا غیرضروری تشدد کا یہاں رواج نہ ہونے کے برابر تھا، تاہم تجربے ، پیشہ ورانہ استعداد کار، انسداد جرائم، امن وامان کے متوقع اور غیرمتوقع چیلنجوں سے نمٹنے اور تفتیشی صلاحیتوں میں پنجاب پولیس اس سے بہت آگے تھی۔ میں نے چارج سنبھالتے ہی ایبٹ آباد پولیس کو پنجاب پولیس کی خوبیوں کی طرف لانے اور اِسے زیادہ سے زیادہ متحرک اورمستعدبنانے کی کوششیں شروع کردیں۔دن اور رات کی گشتوں اورناکہ بندیوں کو نئے سرے سے منظم کیا۔ پولیس سٹیشن کے ریکارڈ کی درستگی اور اسے بروقت اور ہر وقت مکمل رکھنے پر خصوصی توجہ دی۔متوقع اور غیرمتوقع ہنگامی صورتِ حال سے نمٹنے کے لئے ایک ہر دم تیار فورس تیارکی اور اس کی تربیت اور عملی کارروائی کے لئے سٹینڈنگ آپریٹنگ پروسیجر (SOP)بنائے۔ جرائم کی تفتیش ، عدالتوں میں مقدمات کی پراسیکیویشن اور پیروی کے طریق کار میں ضروری ترامیم واصلاحات اور مانیٹرنگ کا جامع نظام ترتیب دیا۔میں نے کوشش کی کہ پنجاب پولیس کی ہر اچھی چیز یہاں متعارف ہوجائے۔
ان سب اصلاحات کے بہت اچھے نتائج برآمد ہوئے اور بہت دیر تک قائم رہے، تاہم میرے دور میں ایبٹ آباد میں کوئی ایسا غیر معمولی یا سنگین واقعہ رونمانہ ہواجو مجھے یا ایبٹ آباد پولیس کی پیشہ ورانہ صلاحیتوں کوآزمائش میں ڈالتا، جس طرح کہ گوجرانوالہ میں (میں بعد میں آرپی او گوجرانوالہ بھی تعینات رہا) تب بھی اور اب بھی ہر دوسرے دن اس قسم کا کوئی نہ کوئی واقعہ رونما ہوجاتاہے۔ پروٹوکول اور وی آئی پی سیکیورٹی کے چیلنج، البتہ یہاں بہت تھے، لیکن چونکہ میری اُس وقت تک کی تقریباً ساری سروس راولپنڈی اور لاہور کی تھی، جہاں اس قسم کی ڈیوٹیاں روزمرہ کا معمول ہیں، اس لئے میں اِن کی ادائیگی میں بہت طاق تھا اور میرے لئے اس میں کوئی نئی اور پریشانی والی بات نہیں تھی، بلکہ میں نے اس ڈیوٹی کی انجام دہی کو بھی پنجاب پولیس کے معیار پر اُٹھایا اور تمام سیکیورٹی پلان از سرِنو ترتیب دیئے اور ان پر عمل درآمد بھی کروایا۔ خیبرپختونخوامیں ہزارہ ڈویژن ،خصوصاً ضلع ایبٹ آباد، سیاسی طور پر بہت زرخیز اور فیصلہ کن حیثیت رکھتا ہے۔ تب تو اس کی اہمیت اوربھی زیادہ تھی، کیونکہ 1988ء کے انتخابات میں ،جس کے نتیجے میں مرکز میں پیپلز پارٹی کی حکومت بنی تھی، پورے ہزارہ ڈویژن میں ایک دو قومی اور صوبائی اسمبلی کی نشستوں کو چھوڑ کر تقریباً تمام سیٹیں مسلم لیگ نے جیت لی تھیں۔ یہ خطہ شروع سے ہی مسلم لیگی رہاہے، لیکن پیپلز پارٹی کی مرکزی اور صوبائی قیادت نے جوڑ توڑ کرکے اس خطے کے تقریباً تمام مسلم لیگی ارکان صوبائی اسمبلی کامسلم لیگ کے اندر ہی ایک فارورڈ بلاک بنواکر اسے اپنے ساتھ ملالیا اور انہی کی بدولت صوبہ سرحد میں پیپلز پارٹی کی حکومت قائم تھی۔ اِس فارور ڈ بلاک کو بہت سی وزارتیں دی گئیں اور اُن کی ہر طرح خاطر داری کی جاتی تھی، لیکن حیرت انگیز طور پر اس سارے عمل میں پولیس کوقطعاً استعمال نہ کیاگیا۔
مجھے ایبٹ آباد کی اپنی پوری تعیناتی کے دوران حکومت یا خود اس فارورڈ بلاک کے ممبران کی طرف سے اس قسم کی کوئی ہدایت،اشارہ یاترغیب نہ دی گئی کہ ان لوگو ں کا خصوصی خیال رکھاجائے۔مجھ پرحکومت یا اِن ممبران کی طرف سے یاکسی بھی طرف سے کسی قسم کا کوئی سیاسی یامحکمانہ دباؤ نہیں تھا، جس پر مجھے حیرت ہوتی تھی۔ ایبٹ آباد چونکہ ایک خوبصورت سیاحتی مقام ہے، اس لئے یہاں سارا سال عوام وخواص اور سیاحوں کی آمدورفت جاری رہتی ہے۔ حکومتی شخصیات اور ادارے بھی اس شہر میں، خصوصاً گرمیوں میں، آنے کے موقع کی تاک، بلکہ تراش میں رہتے ہیں۔ میرے دور میں بھی گورنر، وزیراعلیٰ، مرکزی اور صوبائی وزراء ،قومی اورصوبائی اسمبلیوں کے اراکین اورسینئرو جونیئر افسران کا آناجانا، بلکہ بار بار آنا جانا، لگارہا۔بہت سے سیاستدانوں اور افسران کے نتھیاگلی میں اپنے ذاتی بنگلے تھے ۔ دوبار صدرپاکستان جناب غلام اسحاق خان سرکاری دورے پر ایبٹ آباد آئے ۔ وزیراعظم محترمہ بے نظیر بھٹو نے تو تربیلا کے مقام پر دو روزہ کیبنٹ میٹنگ رکھ لی، جس میں تمام وفاقی وزراء کے ساتھ ساتھ تمام وفاقی سیکرٹری بھی شریک ہوئے۔ وزیراعلیٰ صوبہ سرحد اور چند دیگر اعلیٰ صوبائی حکام کو تو بہرحال موجود ہوناہی تھا۔ فوجی اداروں میں سارا سال مختلف تقاریب جاری رہتی تھیں۔ سال میں دوبار تو پاکستان ملٹری اکیڈمی کاکول کی پاسنگ آؤٹ ہوتی تھی جو ایک بہت بڑ ا ایونٹ ہوتاتھا۔دوست احباب اور عزیزواقارب کا تانتا بندھا رہتا تھا ۔ مجھے ہمیشہ یہ فخر رہے گا کہ مجھے جاننے والے کئی ریٹائرڈ او ر حاضر سروس آئی جی صاحبان اور دیگر سینئر افسران نے محض میرے ایبٹ آباد میں تعینات ہونے کی وجہ سے یہاں کی سیرکا پروگرام بنایا اورمجھے شرفِ میزبانی بخشا۔ چند ماہ قبل آئی جی صاحب اور ایس ایس پی ایبٹ آباد نے بے پنا ہ دلچسپی اور خرچ کے ساتھ نتھیا گلی اور ایبٹ آباد کے پولیس ریسٹ ہاؤسز کی تعمیروتزئینِ نوکی تھی، جوکوئی ان میں ٹھہرتا باغ باغ ہوجاتا۔ میری ایبٹ آباد تعیناتی کے پہلے سال ڈاکٹر عارف مشتاق اے ایس پی ،جو 2017میں آئی جی کے عہدے تک پہنچ کر ریٹائرہوچکے ہیں ،کوپولیس اکیڈمی کی تربیت سے فراغت پر عملی ٹریننگ کے لئے ایبٹ آباد بھجوایاگیا۔ اگلے سال میجر مبشراللہ ایس پی(بعد میں ڈی آئی جی) جن کا حال ہی میں لاہور میں انتقال ہوا ہے اور علی ذوالنورین اے ایس پی( آج ایڈیشنل آئی جی ) کو بھجوایا گیا۔میں ان کی کس حد تک اور کس معیار کی ٹریننگ کرسکا، اس کا صحیح جواب تو یہ افسران خود ہی دے سکتے ہیں، لیکن ان کی میرے پاس موجودگی میرے لئے بہت خوشی اور تقویت کاباعث تھی۔ان تینوں کا تعلق صوبہ پنجاب سے تھا۔ انہی دنوں ہمسایہ ضلع مانسہر ہ میں شعیب دستگیر (آج ایڈیشنل آئی جی ) اور خواجہ شمائیل (آج ایڈیشنل چیف سیکرٹری پنجاب) بطور اے ایس پی اور اے سی عملی تربیت حاصل کررہے تھے اور صوبہ پنجاب سے تعلق رکھنے کے ناطے موقع بہ موقع ملتے رہتے تھے ۔
میرے ڈی آئی جی جناب میجر(ر) فقیر ضیاء معصوم ،بڑے مستعداورمتحرک افسر تھے۔مجھ پر بہت شفقت اور اعتماد کرتے تھے۔ کمشنر جناب عبدالحمید خان کا معاملہ بھی ایساہی تھا ۔ڈپٹی کمشنر عطاء اللہ خان جو سروس اور عمر میں مجھ سے چند سال جونیئر تھے، کے سا تھ تعلقات بے تکلف دوستی میں ڈھل گئے تھے۔ یہ اُس وقت صوبہ سرحد کی بہترین ٹیم شمار ہوتی تھی، جسے دوسرے ڈویژنوں اور اضلاع کے افسران رشک کی نظر سے دیکھتے تھے۔ ایبٹ آباد میں تعینات ہوئے تقریباً چودہ ماہ ہوچلے تھے ۔میری پوری سروس، تب سے اب تک ، کا یہ سب سے خوبصورت دور تھا اور اللہ تعالیٰ کے اس فرمان کی عملی تفسیرکہ ’’ہر تنگی کے بعد راحت ہے‘‘۔نہ کام کا بوجھ، نہ جرائم کاخوف ۔ نہ سیاستدانوں کی طرف سے جائز وناجائز کام کرنے کا دباؤ،نہ افسران بالا کی طرف سے بلاوجہ کی نکتہ آرائیاں۔ میں اپنے فرائضِ منصبی کی کما حقہٌ ادائیگی کے ساتھ ساتھ ایبٹ آباد کی دلکشیوں اور رعنائیوں سے خوب خوب لطف اندوز ہورہاتھا۔ راوی ہر طرف چین ہی چین لکھتاتھا، پھر اگست 1990ء میں ایک دن اچانک صدرپاکستان جناب غلام اسحاق خان نے مرکزی اور تمام صوبائی حکومتوں کو چلتا کیا اور مرکز اور صوبوں میں نگران حکومتیں قائم کردیں۔ مرکز میں جناب غلام مصطفی جتوئی اور صوبہ سرحد میں جناب میر افضل خان کو بالترتیب نگران وزیراعظم اور نگران وزیراعلیٰ مقررکر دیا گیا، اس کے ساتھ ہی مرکز اور صوبوں میں تعینات افسران کی اُکھاڑ پچھاڑ شروع ہوگئی۔ صوبہ سرحد میں بھی ایسے ہی ہوا۔ کوئی ایک افسر بھی اپنی جگہ پر قائم نہ رہا۔ تمام فیلڈ افسران، دفتر ی پوسٹوں پر اور دفتر ی پوسٹوں پر تعینات تمام افسران، فیلڈ پوسٹوں پر تعینات کردیئے گئے۔ پورے صوبے کی انتظامیہ بدل گئی۔ اس اکھاڑ پچھاڑ میں صوبہ سرحد سے صرف تین افسران کو صوبے سے باہر، یعنی واپس اسٹیبلشمنٹ ڈویژن بھیجاگیا ۔چیف سیکرٹری جناب عمرخان آفریدی اور آئی جی جناب محمد عباس خان کو، کہ ان جیسے مرتبے اور مقام کے افسر کو صوبے میں کسی اورجگہ نہیں کھپایا جاسکتاتھا ،لیکن ان کے ساتھ ساتھ مجھ غریب الدیار ایس ایس پی ایبٹ آباد کو بھی۔ جناب محمد اعظم خان کو نیا چیف سیکرٹری اور جناب سید مسعو د شاہ (بعد میں آئی جی پنجاب بھی) کو نیا آئی جی صوبہ سرحد تعینات کردیاگیا۔ میری جگہ جناب عبداللطیف خان گنڈا پور تعینات ہوئے۔ ایک بار پھر اندھیری اور اَن دیکھی راہوں پر آبلہ پا روانہ ہونے سے پہلے میں نے کوشش کی کہ کسی طرح صوبہ سرحد میں ہی رہ جاؤں ،خواہ مجھے کسی بھی دفتر ی پوسٹ پر لگادیاجائے ۔
اس سلسلے میں نئے آئی جی صاحب سے ملا بھی، لیکن اس وقت حالات کا جبر کچھ ایسا تھا کہ جناب سید مسعود شاہ جیسی انتہائی نفیس،شفیق اور سراپا اِخلاق واخلاص شخصیت (جیسا کہ بعد میں جب وہ آئی جی پنجاب تعینات ہوئے تو میں نے اُن کے ماتحت بطور آرپی او فیصل آباد اور گوجرانوالہ کام کرتے ہوئے انہیں پایا ) چاہتے ہوئے بھی میرے لئے کچھ نہ کرسکے۔ پورے ایک سال اور دو ماہ ایس ایس پی ایبٹ آباد رہنے کے بعد میں نے 5ستمبر 1989ء کو اپنے عہدے کا چارج چھوڑ دیا اور تیاری کا مقررہ وقت گذار کر 15ستمبر 1989ء کو اسٹیبلشمنٹ ڈویژن میں رپورٹ کردی۔ بعد میں ملنے والی مصدقہ وغیر مصدقہ معلومات کے مطابق میرے صوبہ سرحد میں نہ رہ سکنے کی وجہ یہ بنی کہ جب افسران کی اکھاڑ پچھاڑ کا عمل شروع ہوا اور اس دوران ایک ایک افسر پر غورہورہاتھا تو بار بار میرے نام پر ایک دوسرے سے پوچھا جاتا کہ یہ الطاف قمر کون ہے؟ کدھر سے آیاتھا؟ کس نے بھیجاتھا؟ اس افسر کی کیا بیک گراؤنڈ ہے؟ فیصلے کرنے والے یہ سب لوگ نئے تھے ۔اِن میں سے مجھے کوئی نہیں جانتاتھا، اس لئے اِن میں سے ہر کوئی میرے بارے میں کوئی کلمہ خیر کہنے یا میری’’ نیک چلنی ‘‘ کی ضمانت دینے کے بارے میں محتاط تھا، لہٰذا اتفاق اس بات پر ہوا کہ یہ ضرور پیپلز پارٹی کا کوئی خاص بندہ ہے، جسے پنجاب سے لاکر سیدھا ایبٹ آباد کی اہم اور پرائز پوسٹ پر بٹھا دیاگیاتھا، لہٰذا اسے وہیں بھیج دیاجائے، جہاں سے آیاتھا۔نیرنگئ زمانہ دیکھئے کہ گوجرانوالہ سے پیپلز پارٹی کی مرکزی حکومت نے مجھے مسلم لیگ کا وفادارسمجھ کر بطور سزا واپس بلایا، اور صوبہ سرحد بھیج دیا۔وقت بدلا ،اور سرحد سے مجھے پیپلز پارٹی کا وفادار سمجھ کر واپس بھیج دیاگیا،حالانکہ میں زمانہ طالبعلمی سے ہی نہ کبھی مسلم لیگ کا ووٹرسپورٹررہا اور نہ پیپلز پارٹی کا۔ یکے بعد دیگرے، بہاولنگر، گوجرانوالہ اور اب ایبٹ آباد سے غیرروائتی انداز میں ہونے والی یہ میری تیسری ٹرانسفر تھی جس میں انتہائی غیر سیاسی اور غیر جانبداری سے اپنے فرائض کی بجاآوری کرنے کے باوجود میں دوبڑی سیاسی جماعتوں کی باہمی چپقلش اور رسہ کشی کی بھینٹ چڑھا۔یارب!یہ تیرے سادہ لوح بندے کدھر جائیں؟
dailypakistan.com.pk