Featured Post

FrontPage صفحہ اول

Salaam Pakistan  is one of projects of  "SalaamOne Network" , to provide information and intellectual resource with a view to...

Real Enemies of State & Thar Coal Power Project


یہ کالے چہرے...سویرے سویرے…نذیر ناجی
جہنم کا ایندھن ہیں وہ لوگ جو ڈاکٹر ثمرمبارک مند کو تھرکول سے بجلی پیدا کرنے سے روکنے کی خاطر قدم قدم پر رکاوٹیں کھڑی کر رہے ہیں۔ یہ ڈاکٹر صاحب کا کام نہیں‘جو ازخود اپنی خدمات پیش کر کے وہ انجام دے رہے ہیں۔ وہ ایٹمی سائنسدان ہیں اور ملک کی ترقی اور دفاع میں اتنا زیادہ حصہ ڈال چکے ہیں جس کی قیمت کو کسی بھی پیمانے سے ناپا نہیں جا سکتا۔ یورینیم کی افزودگی ایٹم بم کی ایک بنیادی ضرورت یقینا ہے لیکن محض افزودہ یورینیم سے ایٹم بم نہیں بنتا۔ بم بنانے کی اپنی ایک ٹیکنالوجی ہے جس میں ان گنت شعبے ہیں اور جب تک اس کے ہر پارٹ کو انتہائی باریک بینی اور انتہائی مہارت سے صحیح طور پر بنا کر نصب نہ کیا جا ئے‘ بم نہیں بنایا جا سکتا۔ یہ کام ڈاکٹر ثمرمبارک مند اور ان کے زیرقیادت کام کرنے والی ٹیم نے انجام دیا اور یہ سائنسدانوں کی وہ ٹیم ہے جسے نہ کسی نام ونمود سے غرض ہے۔ نہ شہرت سے اور نہ ہی وہ اہل وطن کو باربار اپنا احسان جتا کر صلہ وصول کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ یہ فرزندان وطن اپنی خاموش کارکردگی سے قوم کی عظیم خدمت انجام دے رہے ہیں اور یہی جذبہ خدمت ہے جس کے تحت انہوں نے تھرکول سے تیل اور گیس پیدا کرنے کے لئے صحراؤں میں جا کر موسمی شدتوں کا سامنا کرتے ہوئے‘ تاریخی کارنامہ انجام دیا۔ وہ کسی سے صلے کے طلبگار نہیں۔ وہ اپنی قوم کو توانائی کے قحط میں مبتلا دیکھ کر پریشان ہوئے اور یہ عہد کیا کہ وہ تھر کے کوئلے کے ذخیروں کو استعمال میں لاتے ہوئے قوم کو انرجی کے اس عظیم ذخیرے سے اس طرح مستفید کریں گے کہ اسے سستی گیس ‘بجلی اور ڈیزل فراہم کیاجا سکے گا ۔ اس وقت ہم بجلی کا جو یونٹ 20روپے میں پیدا کر رہے ہیں‘ تھر میں کول کی گیسیفکیشن کے ذریعے محض 4 روپے فی یونٹ پیدا کریں گے اور تخمینے کے مطابق توانائی کے اس عظیم ذخیرے سے 50 ہزار میگاواٹ بجلی پیداکی جا سکتی ہے اور اتنی مقدار میں پیداوار کا سلسلہ 500سال تک جاری رہ سکتا ہے۔ یہ ایک خواب ہے‘ جس کا پورا ہونا اب قریباً یقینی ہو چکا ہے اور جس دن تھرکول سے 10ہزار میگاواٹ بجلی پیدا ہونے لگی‘ اس دن ہم تمام بحرانوں کو خیرباد کہتے ہوئے ترقی اور استحکام کے راستے پر قدم رکھ دیں گے۔ لیکن کچھ بدبخت ‘ لالچی‘ عقل کے اندھے اور عالمی آئل مافیاؤں کے ایجنٹ‘ پاکستان کو اپنی خوش نصیبی تک پہنچنے سے روکنے کے لئے ہرطرح کا جتن کر رہے ہیں۔
ان لوگوں نے روایتی بابوگیری سے کام لیتے ہوئے ملک کے عظیم سائنسدانوں کو کاغذی کارروائیوں میں اس بری طرح سے الجھا رکھا ہے جیسے وہ کسی جرم کا ارتکاب کر رہے ہوں۔ کونسا سائنسدان ہے جو اپنی ایجاد کو حقیقت میں بدلنے کے لئے فائلیں بھرنے کی مشقت کرنے پر مجبور ہو؟ دنیا بھر کے سائنسدان جو اپنی اپنی لیبارٹریوں اور شعبوں میں تخلیق اور ایجادات کا کام کر رہے ہیں‘ انہیں اپنے شعبے میں کام کرنے کے سوا دوسری کسی چیز کا فکر نہیں ہوتا۔ نہ انہیں پیسے مانگنے کے لئے حساب پیش کرنا پڑتا ہے اور نہ پیسہ خرچ کرنے کا حساب دینا پڑتا ہے۔ اس کام کے لئے ان گنت منشی دستیاب ہوتے ہیں‘ جسے ہم بیورو کریسی کہتے ہیں۔ ان لوگوں کا کام ہوتا ہے کہ وہ سائنسدانوں کو ہر طرح کی سہولتیں مہیا کریں تاکہ وہ یکسوئی کے ساتھ اپنی تخلیقی کارکردگی جاری رکھ سکیں۔ مگر ہمارا ملک اتنا بدنصیب ہے کہ اس کے سائنسدان اپنی ڈیوٹی کے دائرے سے باہر جا کر‘ رضاکارانہ طور پر ملک کو توانائی کی دولت سے مالامال کرنا چاہتے ہیں اور بیوروکریسی ہے کہ قدم قدم پر ان کے راستے میں رکاوٹیں کھڑی کر رہی ہے اور ہمارے سائنسدانوں کی حب الوطنی اور اہل وطن کے ساتھ محبت ہے کہ وہ ان رکاوٹوں کا سامناکرتے ہوئے بھی قوم پر آسودگی‘ خوشحالی اور ترقی کے دروازے کھولنا چاہتے ہیں۔ ورنہ کوئی تک ہے کہ ڈاکٹر ثمرمبارک مند جتنا عظیم سائنسدان‘ جو ہمیں ایٹم بم کی طاقت سے مالامال کر کے دفاع وطن کو ناقابل تسخیر بنا چکا ہے۔ اسے کلرکوں کی خدمت میں پیش ہو کر اپنے منصوبے کی افادیت کا قائل کرنا پڑے۔ وہ اپنی جہالت اور کم عقلی پر مبنی اعتراضات اٹھائیں اور سائنسدان‘ احمقانہ اعتراضات کا جواب دینے کے لئے اپنی قیمتی صلاحتیں ضائع کریں۔ وزارت خزانہ کے بابوؤں کی حیثیت کیا ہے؟ کہ وہ سائنسدانوں کے کامیاب تجربے پر اعتراضات کرتے ہوئے ڈیزل‘ بجلی اور گیس پیدا کرنے کے اس منصوبے میں تعطل ڈالیں جو ہمارے لئے زندگی اور موت کا سوال بنا ہوا ہے۔ اس افسر پر تو مقدمہ قائم کر کے اسے سپریم کورٹ کے سامنے پیش کرنا چاہیے کہ اس نے مجرمانہ خیانت سے کام لیتے ہوئے جھوٹ اور بدنیتی پر مبنی اعتراضات کر کے منصوبے کی تکمیل میں رخنے ڈالے۔ ہم لوگ‘ جنہیں پاکستان کے مستقبل سے دلچسپی ہے بہت دن پہلے گیس کا وہ شعلہ دیکھ چکے ہیں‘ جو کوئلوں کے ذخیرے سے نکل رہا تھا اور جو اس بات کا ثبوت تھا کہ ہمارے سائنسدان زیرزمین کوئلے کو گیس میں بدل کر آلودگی سے پاک توانائی حاصل کرنے میں کامیاب ہو چکے ہیں۔ ڈاکٹر ثمرمبارک مند نے بالکل ٹھیک کہا کہ جب گیس کے شعلے فضاؤں میں لہرا رہے تھے‘ اس وقت مذکورہ افسر نے کیا آنکھیں بند کر رکھی تھیں؟ اس طرح کے افسروں کو عبرتناک انداز میں کیفرکردار تک پہنچا کر آئندہ کے لئے ایسی حرکات کا راستہ بند کر دینا چاہیے۔
اس طرح کے لوگ بیرونی کمپنیوں اور ملکوں کے ایجنٹ ہوتے ہیں۔ پاکستان تیل کمپنیوں کا بہت بڑا خریدار ہے۔ یہ کمپنیاں ہمارے ملک سے اربوں ڈالر توانائی کے شعبے میں بٹورتی ہیں۔ یہی کمپنیاں ہیں جو نہ ہمیں تیل اور گیس کے ذخیرے نکالنے دیتی ہیں۔ نہ ہمیں ہائیڈل پاور بنانے کے لئے بندوں کی تعمیر کرنے دیتی ہیں اور نہ ہی دستیاب وسائل سے فائدہ اٹھانے دیتی ہیں۔ ان کمپنیوں نے توانائی کے شعبے کے ہر کونے میں اپنے ایجنٹ بٹھا رکھے ہیں اور یہ سیاسی عناصر سے بھی حسب ضرورت کام لیتی رہتی ہیں۔ کالاباغ ڈیم کا منصوبہ کبھی متنازعہ نہیں تھا۔ اس پر تنازعہ ضیاالحق کے زمانے میں کھڑا کیا گیا۔ کالاباغ ڈیم پر اعتراضات اٹھانے والوں کو فنی مواد انہی کمپنیوں نے خفیہ طریقوں سے مہیا کیا۔ اس میں ڈیم کے خلاف جتنے بھی فنی اعتراضات پیش کئے گئے ہیں‘ وہ سب کے سب بے بنیاد اور جھوٹے ہیں۔ لیکن آئل کمپنیوں نے اپنا مذموم مقصد پورا کرنے کے لئے نہ صرف ڈیم کے مخالف عناصر کو مسلسل اپنے کام پر لگائے رکھا بلکہ اسے صوبائیت کا مسئلہ بنانے میں اتنی کامیابی حاصل کی کہ اب ڈیم کے مخالفین کوئی دلیل سننے کو تیار ہی نہیں ہوتے۔ فوراً اشتعال انگیز جذباتی نعرے لگانا شروع کر دیتے ہیں۔ یہاں تک کہ اب وہ آبیات کے عالمی ماہرین کا کمیشن قائم کر کے اس کی رپورٹ دیکھنے کو بھی تیار نہیں ہوتے۔ اصل بدنصیب وہ قوم ہوتی ہے‘ جس میں گندے عناصر ملک و قوم کو ترقی کی راہوں پر ڈالنے والے منصوبے سبوتاژ کرتے ہیں۔
ہمیں ہائیڈل پاور کی پیداوار سے 30سال قبل روک دیا گیا تھا اور اب بھی جو منصوبے ہم بنا رہے ہیں‘ مجھے یقین نہیں کہ وہ شیڈول کے مطابق پایہ تکمیل کو پہنچ پائیں گے۔ ہمیں اپنے گیس کے ذخیروں تک رسائی سے بھی اسی طرح سازشوں کے ذریعے روکا جا رہا ہے۔ حد یہ ہے کہ کئی مقامات پر گیس کے دریافت شدہ ذخیروں پر جو کنوئیں بنائے گئے‘ انہیں بھی کیپ کر کے رکھ دیا گیا ہے۔ ڈاکٹر ثمر مبارک مند نے تھرکول کی انرجی حاصل کرنے کا منصوبہ دے کر عالمی اجارہ داروں کی نیندیں اڑا دی ہیں۔ ان کا بس نہیں چل رہا کہ اس اچانک ابھر آنے والے خطرے کا مقابلہ کیسے کریں؟ ہمارے ملک میں بیٹھے ہوئے اپنے ایجنٹوں کو انہوں نے پوری طرح سے متحرک کر دیا ہے۔ افسوس کہ حکومت کو جس جارحانہ انداز میں قومی مفاد کا تحفظ کرنا چاہیے‘ وہ اس طرح سے نہیں کر رہی۔ بلکہ بالکل ہی نہیں کر رہی۔ ورنہ کسی افسر کی کیا مجال ہے کہ منظورشدہ فنڈز کو روک کر وہ کام کرتے ہوئے سائنسدانوں کو تنگ کرے۔ اس طرح کے افسروں کو اگر بیوروکریسی سے نکال کر باہر نہیں پھینکا نہیں جا سکتا تو کم از کم متعلقہ محکموں ہی سے دھکے دے کر نکال دیا جائے۔ انرجی ہمارے لئے زندگی اور موت کا مسئلہ بن چکی ہے۔ اس کے پائپ پر جو بھی پیر رکھنے کی کوشش کرے‘ اس کا پیر کاٹ دینا چاہیے۔

http://jang.net/urdu/details.asp?nid=620721
Pakistan Rich in Resources, Poor in Leadership- Japan keen on financing Thar coalfield transmission line

Coal
In a major development, Japan has shown interest to finance the much needed laying of the transmission line upto the Thar coalfield, which is needed to expedite power generation from the coalfield.

INTEREST EXPRESSED
An official source said that interest was recently expressed by the Japan International Cooperation Agency (JICA) in a meeting with the officials of the Thar Coal and Energy Board (TCEB). JICA asked TCEB officials to approach Japanese government through Foreign Office, for financing the project as the agency has the resource to finance the project. Japan has been historically averse to finance coal power projects due to environmental issues, but its stance has dramatically changed after the damage to the Fukushima Daiichi nuclear power plant, after it was hit by tsunami on March 11, 2011, the source said adding that now they were keen to finance coal power projects even in other provinces.

FEASIBILITY STUDY
Keeping in view possible evacuation of 10,000 MW from Thar coalfield within next 5-10 years National Transmission and Despatch Company with the support of Asian Development Bank, has initiated a feasibility study for laying 1300 km of transmission line to initially disperse upto 3000 MW from the Thar coal field to the national grid. The source said total estimated funding required for laying transmission line was estimated $1 billion, which could be only arranged through international donor agencies.

HUGE COAL RESERVES
Pakistan has huge coal reserves mainly in Sindh estimated at 186 billion tonnes, Punjab 235 billion tonnes, Balochistan 217 billion tonnes, Pukhtoonkhwa 90 billion tonnes and Azad Jammu Kashmir nine billion tonnes. These coal reserves can be used for affordable power generation for about 200 years.

COAL GASIFICATION PROJECT
Recently an underground coal gasification pilot project at the Thar coalfield managed by eminent scientist Dr Samar Mubarakmand has successfully started. He said requested the prime minister to arrange immediate funding of Rs2.4 billion and remaining 7.8 billion during the next financial year to complete power generation phase of the project to start providing 100 MW of electricity before the end of 2013.

CHINESE INTEREST
Sindh Engro Coal Mining Company (SECMC) has been formed and it has completed a bankable feasibility by engaging world renowned companies, including RWE of Germany and Sinocoal of China. The first mine and power plant is expected to be commissioned by 2015-16. The estimated cost for the project is $3.6 billion. Chinese companies have shown interest in the project.
~~~~~~~~~~~~~`
http://en.wikipedia.org/wiki/Thar_coalfield


The Thar coalfield is located in Thar Desert, Tharparkar District of Sindh province in Pakistan. The deposits - 134th largest coal reserves in the world, were discovered in 1991 by Geological Survey of Pakistan (GSP) and the United State Agency for International Development.
Pakistan has emerged as one of the leading country - seventh in the list of top 20 countries of the world after the discovery of huge lignite coal resources in Sindh. The economic coal deposits of Pakistan are restricted to Paleocene and Eocene rock sequences. It is one of the world’s largest lignite deposits discovered by GSP in 90’s, spread over more than 9,000 km2. comprise around 175 billion tonnes sufficient to meet country’s fuel requirements for centuries.