کیا نون لیگ کے چکاچوند منصوبے ترقی کی علامت ہیں؟
To answer the question posed in the headline, yes, there are changes, both good and bad, but mostly bad. With so much borrowing from national and international resources and a great deal of material and political interest in shiny projects with great visibility, like the metro bus, no one is spared the visuals. Undoubtedly, people will use public transport — it is convenient and cheap. Having an urban public transport system, however, is not the issue under question — we needed it, and will have to expand and build more rapidly than ever before. The issue is regarding which mode of transportation is sustainable, when work on it should be initiated and where.
For countries at the lower stage of economic development and productivity, like Pakistan, the model based on ‘import everything’ — when you are unable to pay for these imports considering the small export base — is not the right one. Except for the steel and gravel, nothing is ‘made in Pakistan’. The more intriguing part of the scheme is the ‘taxi-based’ payment to the Turkish company, meaning the government would pay for every seat, whether it is occupied or vacant, and would further subsidise the cost to make it attractive for commuters.
My point is, we are still far from reaching that stage and with a government at the helm that has a long history of surrendering to organised business interests, symbolised by the tax amnesty scheme, low tax rates, the widening gap between revenues and spending and giving more subsidies in the name of ‘the poor’, schemes like the Metro bus make little sense.
[Pakistan’s trade deficit amounts to $11.92 billion]
Isn’t it a joke that the country continues to beg from foreign countries, while those sections of society that are affluent, make big money and pay little or no taxes. Instead of netting tax cheats, the government makes laws to legalise their black monies. This has been done several times without there being any visible effect on broadening the tax base. This is a failed strategy of weak leaders, a visionless government and ineffective state institutions.
Another favourite project of the Sharif dynasty is distributing free laptops to students doing well in some examinations to “promote technology”. Is that the route advanced or developing countries have taken to develop information technology? Actually, in some schools in Punjab, I was amazed to see rows of computers in the labs. There is a lot of hardware on display without there being the software or skills to use them. The objective in every major development strategy of the Sharifs seems to be to create some political mileage, show ‘results’ and make people believe that the Sharif dynasty can do better than the Bhutto dynasty. The hired guns in the media and political mouthpieces with lots of connections and power to make illegal money, endlessly defend the dynasties, and when in the presence of chief oligarchs, indulge in flattery. Their mantra seems to be that ‘all is well and you are doing great work for the country’. This is an old song the professional flatterers have always sung.
You cannot escape all the loud announcements, with there being millions of rupees worth of advertisements in newspapers of mega projects that talk about ‘corridors’ and power plants. My humble submission is, how many of these mega projects have been initiated through our own national resources; are they clean, sustainable and economical; can they make Pakistan competitive? The answers to these questions will not paint a pretty picture.
The world is moving fast towards green technologies. That is where the future of mankind and the planet lies, while our ruling dynasties continue to look for softer, faster, expensive and unsustainable options. Mark my words — this government will leave the country in higher national debt than any other government in our history. This is because it neither has the credibility nor the competence to harness national resources.
Our failed model of populist politics offers no solution for complex national problems. The rulers lack the courage and wisdom to address foundational issues like education, health, governance, justice, energy and population growth.
By Rasul Bakhsh Rais: http://tribune.com.pk/story/1026365/has-anything-changed-under-the-pml-n/
کیا نون لیگ کے چکاچوند منصوبے ترقی کی علامت ہیں؟
یقینا ، بہت سی تبدیلیاں آئی ہیں۔ ان میں اچھی بھی ہیں اور بری بھی،لیکن کہنا پڑے گا کہ بری زیادہ ہیں۔ حکمران ملکی اور غیر ملکی اداروں سے بھاری قرضہ جات لیتے اور صحت ِعامہ اور تعلیمی منصوبوں کی بجائے چکاچوند منصوبے ،جیسا کہ میٹرو، بناتے ہوئے اپنے سیاسی وسائل کو تقویت دینے کی فکر میں ہیں۔ چونکہ یہ منصوبے واضح طور پر دکھائی دیتے ہیں اور عوام کو تاثر ملتا ہے کہ ملک میں بہت کام ہورہا ہے، لہٰذا ایسے منصوبے انتخابی کامیابی کا باعث بنتے ہیں۔ یہ بیانیہ آگے بڑھانا بھی آسان ہوتا ہے کہ عوام کو سفری سہولیات چاہییں۔ اس میں دو آراء نہیں ہوسکتیں کہ شہری علاقوں میں عوام کو سستی سفری سہولت درکار ہوتی ہے اور بڑھتی ہوئی آبادی کے تناسب اس میں اضافہ بھی ہونا چاہیے ،لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ہمارے جیسے ملک میں کس قسم کی سفری سہولیات کی ضرورت ہے۔ یہ سوال بھی اپنی جگہ پر موجود کہ کیا اتنے مہنگے منصوبے بنا نا اور میٹرو اور اورنج ٹرین اور اس طرح کے دیگر منصوبوں کو سبسڈی دے کر مستقبل بنیادوں پر چلانا اور ان کے معیار کو برقرار رکھنا ممکن ہے یا نہیں؟
دنیا کے دیگر ممالک کا جائزہ ظاہر کرتا ہے کہ پاکستان جیسے کم درجے کی ترقی اور پیدا واری صلاحیت رکھنے والے ممالک ، جن کی برآمدات کم اور درآمدی بل زیادہ ہو، آپ اتنے مہنگے منصوبے بنانے کے متحمل نہیں ہوسکتے۔ خاص طور پر اُس صورت میں تو ہرگز نہیں جب آپ بھاری غیر ملکی قرضوں تلے پہلے ہی دبے ہوئے ہوں۔ ان مہنگے سفری منصوبوں میں استعمال ہونے والے سٹیل اور پتھر کے علاوہ کچھ بھی ملکی سطح پر تیار نہیںہوتا ۔ اس منصوبے میں ترک کمپنی کے ساتھ''ٹیکسی کرائے‘‘ کی طرز پر رقم کی ادائیگی کی شرط ہے ۔ اس کا مطلب ہے کہ حکومت کو اس کی ہر نشست کا کرایہ ادا کرنا پڑے گا چاہے اس پر کوئی مسافر سفر کرے یا نہ کرے۔ اس کا مطلب ہے کہ اس کا بوجھ پر ٹیکس دہندگان پر پڑے گا یا کرائے میں اضافے کی صورت میں دیگر مسافروں پر۔
میرا موقف یہ ہے کہ ابھی ہم اس قابل نہیں ہوئے کہ یہ حکومت، جو کاروباری طبقے کی ناراضی سے ڈر کر اُس کے سامنے ہتھیار ڈالتے ہوئے ٹیکس میں چھوٹ دینے کی طویل تاریخ رکھتی ہے ، غریب مسافروں کو سہولت دینے کے لیے مزید سبسڈی دے۔ پہلے ہی ٹیکس کی کم شرح کی وجہ سے محصولات اوراخراجات میں فرق بڑھتا جارہا ہے۔ کیا یہ مذاق نہیں کہ یہ ملک غیر ملکی ذرائع سے رقم مانگ کرگزارہ کرتا ہے جبکہ اس کے معاشرے کے بہت سے دھڑے بے حد دولت مندہیں لیکن وہ ان سے ٹیکس وصول نہیں کرپاتا۔ٹیکس چوروں کو پکڑنے کی بجائے حکومت طاقتور حلقوں کے کالے دھن کو سفید بنانے کا موقع دینے کے لیے قوانین بنارہی ہے۔ اس نے پہلے بھی بارہار ٹیکس ایمنسٹی کی سکیمیں متعارف کرائی ہیں لیکن ان سے ٹیکس کے دائرے میں کبھی اضافہ دکھائی نہیں دیا۔ دراصل یہ کمزور حکمرانوں کی ناکام حکمت عملی ہوتی ہے جب وہ طاقتور حلقوں کو خوش کرتے ہوئے امید رکھتے ہیں کہ وہ کبھی رضا کارانہ طور پر ریاست کی طرف اپنے فرائض ادا کرنے کے لیے تیار ہوجائیں گے۔اگر انسان واقعی اتنے ''مہذب ‘‘ ہوں پھر ریاست قائم کرنے اور قوانین اور سکیورٹی ادارے بنانے کی ضرورت باقی نہ رہے۔
نواز شریف حکومت کا ایک اور پسندیدہ منصوبہ امتحانات میں اچھی کارکردگی دکھانے والے طلبہ کو مفت لیپ ٹاپ دینے کی سکیم تھی۔ ہمیں بتایا کہ اس کا مقصد ''جدید ٹیکنالوجی کا فروغ‘‘ ہے۔ کیا دنیا کے کسی اور ملک نے بھی ٹیکنالوجی کو ترقی دینے کے لیے ایسا قدم اٹھایا ؟ میں نے پنجاب کے سکولوں میں کیے گئے دوروں کے دوران بہت سے سکولوں میں قطار درقطار ، بے شمار کمپیوٹر دیکھے ہیں لیکن طلبہ نہ اُن کی مہارت رکھتے ہیں اور نہ ہی اُنہیں جدید علوم سے آگاہی ہے۔ کیا ہم یہ سمجھتے ہیں کہ میز پر کمپیوٹر کی موجودگی ''صارف‘‘ کو جدید علوم، جیسا کہ ریاضی، فزکس، کیمیا، انگریزی وغیرہ کا عالم بنا دیتی ہے؟ہمارے ملک کا اصل مسئلہ اشیا کی فراہمی نہیں ، فکری آبیاری ہے۔ دنیا کی بہت سی اقوام ہم سے بھی کم وسائل رکھتے ہوئے ترقی کے زینے پر چڑھنے میں کامیاب ہوگئی ہیں، لیکن ہم نے انگریزی محاورے کے مطابق گھوڑے کے آگے تانگہ باندھ رکھا ہے۔دراصل موجودہ حکمرانوں کی ہر سکیم کا مقصد سیاسی فائدہ حاصل کرنا ہے۔ ایک لڑکے کو جدید علوم حاصل کرنے اور اپنے ذہن کو جلا بخشنے میں وقت لگے گا لیکن اُس کے ہاتھ میں لیپ ٹاپ فوراً تھمادیا جاتا ہے۔ جب ایسی سکیمیں انتخابی نتائج میں ڈھلتی ہیں تو لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ نواز شریف حکومت بھٹو خاندان سے سیاسی مقبولیت میں کہیں بڑھ کر ہے ۔ کہاجاتا ہے کہ عوام نے ووٹ کی طاقت سے ناقص کاکردگی دکھانے والی حکومت کو گھر کی راہ دکھا دی۔ اس کے علاوہ میڈیا میں موجود حکومت کے جوشیلے ترجمان موروثی سیاست کی حمایت میں مختلف تاویلیں پیش کرتے نہیں تھکتے۔ خوشامدی ٹولوں کے سہانے گیت ہی ان حکمرانوں کی کارکردگی کا بہترین اظہار ہیں۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ اخبارات اور ٹی وی پر لاکھوں روپوں کے پرکشش اشتہارات کا فائدہ تو ہوتا ہے۔ تاہم دیکھنے کی بات یہ ہے کہ ان تشہیر کردہ منصوبوں میں سے کتنے شفاف طریقے سے مکمل ہوکر عوام کو فائدہ پہنچا رہے ہیں یا پہنچائیں گے؟ فی الحال ایسا کچھ دکھائی نہیں دیتا۔ جس دوران دنیا گرین ٹیکنالوجی کے نئے افق تلاش کررہی ہے تاکہ اس سیارے اور اس میں رہنے والوں کے لیے ماحول کو صاف ستھرا رکھا جاسکے، ہمارے موروثی سیاست دان اپنے وقتی فائدے لیے ریاست کے وسائل اجاڑ رہے ہیں۔ ہماری ہر حکومت آنے والی حکومت کے لیے ملک کو مزید مقروض چھوڑ کرجاتی ہے لیکن یہ موجودہ حکومت سابق تمام ریکارڈ توڑنے پر تلی ہوئی ہے۔ اس وقت مقبولیت حاصل کرنے کے لیے بنائے جانے والے منصوبے ہمارے سب سے بڑے مسائل ہیں۔ ہمارے حکمران تعلیم ، صحت، انصاف، توانائی اور بڑھتی ہوئی آبادی کو روکنے کے لیے کوئی منصوبہ نہیں رکھتے کیونکہ ان میں مطلوبہ 'کشش‘ کی کمی ہے۔ افسوس، کتابیں چاندی کی نہیں ، چمک سے محروم صفحات کی بنتی ہیں۔
Source:: http://dunya.com.pk/index.php/author/rasool-baksh/2016-01-13/13996/60194994#tab
Related:
Humanity, Religion, Culture, Science, Peace
A Project of
Peace Forum Network
Peace Forum Network Mags
Books, Articles, Blogs, Magazines, Videos, Social Media
Overall 2 Million visits/hits
Peace Forum Network
Peace Forum Network Mags
Books, Articles, Blogs, Magazines, Videos, Social Media
Overall 2 Million visits/hits