مدارس کی نگرانی سکیورٹی کا معاملہ بن چکا ہے
پاکستان کی خفیہ ایجنسیوں کی ایک رپورٹ کے مطابق دارالحکومت اسلام آباد اور اس کے گرد ونواح میں واقع دینی مدارس میں پڑھانے والے بیشتر معلم اور اُن مدارس میں پڑھنے والے اکثر طالب علم مقامی نہیں ہیں۔
یہ انکشاف خفیہ اداروں نے ایک رپورٹ میں کیا ہے اور اس بارے میں وزارتِ داخلہ کو بھی آگاہ کیا گیا ہے۔
اسی بارے میں
دینی مدارس میں نئے طلباء میں اضافہ
غیرقانونی مدرسوں کی روک تھام کی ہدایت
سندھ کا ’سیکیولر‘ مدرسہ
اس رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ان مدارس میں پڑھانے والے اساتذہ کا تعلق پاکستان کے زیرِ انتظام کشمیر کے مختلف علاقوں کے علاوہ گلگت بلتستان اور وفاق کے زیر انتظام قبائلی علاقوں سے ہے۔
ان مدارس میں تعلیم حاصل کرنے والے طالب علموں کا تعلق بھی انہی علاقوں سے ہے اور ان سب طالب علموں کا تعلق غریب گھرانوں سے ہے۔
وزارت داخلہ کے ذرائع نے بی بی سی کو بتایا کہ ’اس رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ اسلام آباد اور اُس کے گردونواح میں چار سو چوالیس ایسے مدارس ہیں‘۔
رپورٹ کے مطابق ان مدارس میں سے اکثریت دیوبند فرقے سے تعلق رکھنے والوں کی ہے جس کی تعداد ڈھائی سو سے زائد ہے۔ تعداد کے حساب سے دیو بند مدارس کے بعد سب سے زیادہ بریلوی پھر اہل حدیث اور سب سے آخر میں شعیہ فرقے سے تعلق رکھنے والے افراد نے اپنے مدرسے اور مساجد بنا رکھی ہیں۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ کالعدم تنظیمیں کے (جن میں تحریک طالبان پاکستان کے علاوہ لشکر جھنگوی، قاری نذیر گروپ اور غازی فورس شامل ہیں) لوگوں کے دیوبند فرقے سے قریبی تعلق ہے۔
دیوبند مدارس کی اکثریت
رپورٹ کے مطابق ان مدارس میں سے اکثریت دیوبند فرقے سے تعلق رکھنے والوں کی ہے جس کی تعداد ڈھائی سو سے زائد ہے۔ تعداد کے حساب سے دیو بند مدارس کے بعد سب سے زیادہ بریلوی پھر اہلحدیث اور سب سے آخر میں شیعہ فرقے سے تعلق رکھنے والے افراد نے اپنے مدرسے اور مساجد بنا رکھی ہیں۔
اس رپورٹ کے مطابق ان مدارس میں سے اکثریت کا الحاق وفاق المدارس سے ہے۔
یاد رہے کہ چند روز قبل خفیہ اداروں نے اسلام آباد کے علاقے جی سِکس سے ایک امام مسجد قاری عنایت کو گرفتار کرکے اُن کے قبضے سے ہینڈ گرینیڈز اور دیگر اسلحہ بھی برآمد کیا تھا۔
اس رپورٹ میں اس بات کا بھی انکشاف کیا گیا ہے کہ ’ہر ایک مدرسے میں پچاس سے لے کر دو ہزار تک طالب علم زیر تعلیم ہیں جبکہ ان افراد کی رہائش اور کھانے پینے کے ذمہ داری بھی ان مدارس کی انتظامیہ پر ہے‘۔
یاد رہے کہ سنہ دوہزار سات میں جب سابق فوجی صدر پرویز مشرف نے لال مسجد کے خلاف فوجی آپریشن کیا تھا تو اس آپریشن کے دوران ہلاک ہونے والے افراد کی اکثریت کا تعلق بھی وفاق کے زیر انتظام قبائلی علاقوں، کشمیر، گلگت اور دیگر علاقوں سے تھا۔
رپورٹ کے مطابق اگرچہ ان مدارس میں پرھنے والے طلباء کے بارے میں ایجنسیوں کو علم ہے کہ ان کا تعلق کس علاقے سے ہے لیکن ان طلباء کے خاندانوں کے بارے میں کوئی نہیں جانتا کہ آیا اُن کا تعلق کسی کالعدم تنظیم کے ساتھ بھی رہا ہے کہ نہیں۔
ذرائع کے مطابق اس رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ ان مدارس کی آمدنی سے متعلق جب بھی متعلقہ افراد سے دریافت کیا گیا ہے تو اُنہوں نے اس بات پر زور دیا کہ پہلے وفاق المدارس سے اس ضمن میں این او سی لے کر آئیں تو پھر سرکاری اہلکاروں کو اس مدرسے کی آمدنی اور طالب علموں کے بارے میں معلومات دی جائیں گی۔
"کسی بھی پاکستانی پر ایک علاقے سے دوسرے علاقے میں سفر کرنے یا رہائش رکھنے پر پابندی عائد نہیں کی جاسکتی۔ جن علاقوں میں یہ مدارس موجود ہیں وہاں کی پولیس کی ذمہ داری ہے کہ وہ ان مدارس کا روزانہ کی بنیاد پر دورہ کریں اور اس ضمن میں رپورٹ تیارکر متعلقہ حکام کو بھجوائیں۔ "
کمشنر اسلام آباد
سویلین خفیہ ایجنسیوں کے اہلکاروں نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بی بی سی کو بتایا کہ ’اُنہوں نے جب وزارت داخلہ اور اسلام آباد کی ضلعی انتظامیہ کے متعلقہ حکام کو وفاق المدارس کو خط لکھنے کے بارے میں کہا جاتا ہے تو وہ حامی تو بھر لیتے ہیں لیکن خط نہیں لکھتے‘۔
اُنہوں نے الزام عائد کیا کہ متعلقہ حکام کی طرف سے ان رپورٹس پر موثر کارروائی نہ ہونے کی وجہ سے ’اُن کی اور اُن کے اہلخانہ کے زندگیوں کو شدید خطرات لاحق ہوگئے ہیں‘۔
اسلام آباد کے چیف کمشنر خالد پیرزادہ کا کہنا ہے کہ کسی بھی پاکستانی پر ایک علاقے سے دوسرے علاقے میں سفر کرنے یا رہائش رکھنے پر پابندی عائد نہیں کی جاسکتی۔
اُنہوں نے مزید کہا کہ ’جن علاقوں میں یہ مدارس موجود ہیں وہاں کی پولیس کی ذمہ داری ہے کہ وہ ان مدارس کا روزانہ کی بنیاد پر دورہ کریں اور اس ضمن میں رپورٹ تیارکر متعلقہ حکام کو بھجوائیں‘۔
Please visit: http://aftabkhan.blog.com