مَیں اے ایس پی گوجر خان تعینات تھا۔ محکمہ پولیس میں خدمت کا چھٹا سال تھا ۔محکمانہ قواعد وضوابط کے مطابق اب تک میری اگلے رینک میں ترقی ہو جانا چاہئے تھی ، لیکن نہیں ہوئی تھی ۔ بالآخر دسمبر 1982ء کے آخری ہفتے میں اسٹیبلشمنٹ ڈویژن نے ہم پچیس اے ایس پیز کے بیچ (batch) میں سے پہلے پندرہ کو بطور ایس پی ترقی کے لئے کلیئر کردیا، جن میں ایک میں بھی تھا۔ ہم تمام پندرہ اے ایس پی صوبہ پنجاب میں تعینات تھے۔ اب صوبائی حکومت کو ہمیں بطور ایس پی کسی جگہ تعینات کرناتھا۔حکومت نے وقفے وقفے سے ایک ایک دو دو افسران کو ایس پی تعینات کرنا شروع کر دیا، لیکن رفتار بہت کم تھی ۔ہمیں خوشی اور اطمینان اس بات پر تھا کہ اسٹیبلشمنٹ ڈویژن نے ہم سب کو پنجاب میں ہی رہنے دیا تھا،چنانچہ تعیناتی میں قدرے تاخیر کو ہم خوش دلی سے برداشت کررہے تھے۔
پہلے چھ ماہ میں حکومت پنجاب نے صرف پانچ چھ افسران کوتعینات کیا ۔ اسی اثنا میں اسٹیبلشمنٹ ڈویژن نے بیچ کے بقیہ دس افسران کو بھی ترقی کے لئے کلیئر کردیا۔ یہ تمام دو دو تین تین کی تعداد میں صوبہ سرحد، سندھ اور بلوچستان میں تعینات تھے۔ اِن سب کی اپنے اپنے صوبوں میں بہت جلد بطور ایس پی تعیناتیاں ہوگئیں، لیکن صوبہ پنجاب میں 1983ء کے آخر تک یعنی پورا ایک سال گزرنے کے باوجود صرف آٹھ نوافسران کو ہی اگلے درجہ میں ترقی دی جا سکی،جس سے مجھ سمیت باقی رہ جانے والے افسران میں بے چینی پیدا ہونا شروع ہوگئی ۔ بس ایک بات ڈھارس بندھاتی تھی کہ اپنے صوبے میں بیٹھے ہیں، کچھ دیر اور انتظار سہی۔ اسی انتظار میں ڈیڑھ سال گزر گیا۔ اُدھر اسٹیبلشمنٹ ڈویژن کو ہمارے بعد والے بیچ کوترقی دیناتھی۔ انہوں نے حکومتِ پنجاب کو لکھا کہ اِن باقی ماندہ افسران کو ایس پی کی پوسٹوں پر تعینات کریں یا پھر ہمیں واپس بھیج دیں تا کہ اِن کو دوسرے صوبوں یا محکموں میں کھپا کر اگلے بیچ کو ترقی دی جاسکے،کیونکہ جب تک ہم سینئر بیٹھے تھے اگلے بیچ کو ترقی نہیں دی جاسکتی تھی۔ اس دباؤ پر ایک آدھ اور افسر کو تعیناتی مل گئی، لیکن بالآخر جون 1984ء میں حکومتِ پنجاب نے باقی ماندہ چار اے ایس پیزریاض نعیم، جاوید نور، پرویز اختر اور مجھے پنجاب سے سرنڈر کر دیا۔
اسٹیبلشمنٹ ڈویژن نے فوراً ہم چاروں افسران کو ترقی دے کر ایف آئی اے میں بھیج دیا۔ اس فیصلے سے بہت مایوسی ہوئی کہ ڈیڑھ سال انتظار کے بعد بھی بالآخر پنجا ب سے نکلنا ہی پڑا ۔اس اثناء میں ہمارے کئی ساتھی بطور ایس پی دوسری تعیناتی پر جاچکے تھے۔ بہر حال قہر درویش بر جان درویش، ہم چاروں افسران نے جون 1984ء میں ایف آئی اے ہیڈکوارٹرز جو اُن دنوں اسلام آبادمیں سپر مارکیٹ کے قریب چائنہ چوک میں واقع تھا رپورٹ کردی۔ پولیس سروس آف پاکستان کے 1951ء بیچ کے جناب محمد اعظم قاضی اس وقت ڈائریکٹر جنرل ایف آئی اے تھے۔ڈی جی صاحب نے ہم چاروں کو ایف آئی اے ہیڈکوارٹر ز میں ہی تعینات کر دیا۔ ریاض نعیم کو ڈپٹی ڈائریکٹر کرائمز ونگ، جاوید نور کو اپنا پی ایس او(PSO)،پرویز اختر کو ڈپٹی ڈائریکٹر اکنامک انکوائری ونگ اور مجھے ڈپٹی ڈائریکٹر امیگریشن ۔ جناب خاور زمان ڈی آئی جی (بعد میں آئی جی اسلام آباداور سندھ) میرے ڈائریکٹر تھے ۔ ان جیسے قابل افسر اب ڈھونڈے سے نہیں ملتے۔ اُ ن کی انگریزی تحریر اور تقریر لاجواب تھی۔ فائلوں پر صفحوں کے صفحے اپنی خوبصورت ہینڈ رائٹنگ میں لکھتے اور کیاخوب لکھتے۔ میں نے ان کی کچھ تحریروں کی فوٹو کاپیاں کرواکر مدت تک بطور نمونہ اور راہنمائی اپنے پاس رکھیں۔ مَیں جناب خاور زمان کی شفیق اور تجربہ کار رہنمائی میں ایک بالکل نئی قسم کی ذمہ داریاں خوش اسلوبی سے نبھاتارہا۔ میں اُن کا پرنسپل سٹاف آفیسرہونے کے ساتھ ساتھ اسلام آباد، راولپنڈی ڈویژن ، آزاد کشمیر اور شمالی علاقہ جات پر مشتمل امیگریشن وِنگ کے شمالی زون کا انچارج بھی تھا۔پاکستان بھر کی امیگریشن چیک پوسٹز، گلگت، طورخم ،چمن، تفتان، کراچی، کھوکھراپار، واہگہ اور تمام انٹرنیشنل ائیرپورٹس سے صرف جائز اور قانونی دستاویزات کے حامل افراد کو مُلک میں آنے اور مُلک سے جانے کی اجازت دینا،اور خاص طور پر جن افراد کے پاکستان میں آنے یا پاکستان سے نکلنے پر پابندی ہے اُن پر خاص نظر رکھنا کہ کہیں جُل دے کر نکل نہ جائیں یا داخل نہ ہوجائیں، اور جولوگ اس کی خلاف ورزی کرتے پکڑے جائیں اُن کے خلاف متعلقہ قوانین کے تحت کارروائی کرنا ہمارے فرائض منصبی میں شامل تھا۔
اس کے ساتھ ساتھ مُلک بھر کی تمام ریکروٹنگ ایجنسیوں پر نظر رکھناکہ وہ صرف جائز اور قانونی دستاویزات پر تمام قانونی تقاضے پورے کرکے بندوں کو باہر بھجوائیں۔ خلاف ورزی پرخلاف ورزی کرنے والوں اور اُن کے سہولت کاروں کو قانون کی گرفت میں لانا بھی ہمارے فرائض میں شامل تھا۔ میری اِس پوسٹنگ کے دوران حکومتِ پاکستان نے ایک اہم فیصلہ کیا کہ پاکستان سے چین آنے جانے والوں کی امیگریشن جو گلگت کے قریب ہوتی ہے،درۂ خنجراب جو پاکستان اور چین کی سرحد ہے کے کہیں آس پاس ہونی چاہئے ،ناکہ سرحد سے دواڑھائی سوکلومیٹر اندر آکر گلگت کے قریب ۔یہ کام میرے ذمہ لگاکہ میں علاقے کا سروے کرکے تجویز کروں کہ درہ خنجراب (سرحد) کے قریب ترین کس جگہ پر یہ چیک پوسٹ قائم کی جائے اور پھر منظوری کے بعد قائم بھی کروں۔ اس مقصد کے لئے میں دوبار گلگت اور پھر آگے درہ خنجراب تک گیا، لیکن صورت حال یہ تھی کہ درہ خنجراب سے نیچے مِیل ہامِیل تک نہ کوئی بندہ بشر نظر آتا تھااورنہ سڑک کے کنارے کوئی آبادی کہ جس کے قریب چیک پوسٹ قائم کی جاسکے کہ جہاں چیک پوسٹ کے ملازمین کو رہنے سہنے اور کھانے پینے کی سہولتیں میسر آسکیں۔ بہرحال میں نے پورے علاقہ کا سروے کیا اور بالآخر درہ خنجراب ،جو کہ ساڑھے پندرہ ہزار فٹ کی بلندی پر واقع ہے اور شاہراہ ریشم کا بلند ترین مقام ہے اورجسے دُنیاکی چھت بھی کہتے ہیں اورجہاں سے پاکستان اور چین دونوں طرف اُترائی شروع ہوجاتی ہے، سے بیس پچیس کلومیٹر نیچے جہاں اُترائی کے پیچ وخَم کے بعد قدرے ہموار زمین شروع ہوتی ہے چند گھروں پر مشتمل ایک چھوٹے سے گاؤں سوست (Sust)کو امیگریشن کی چیک پوسٹ کے لئے منتخب کرلیا۔ اس وقت وہاں اِ س پوسٹ کو قائم کرنے کے لئے کوئی کمرہ یامکان سڑک کے کنارے دستیاب نہ تھا، چنانچہ فیصلہ کیاگیاکہ جب تک پختہ دفتر تعمیر نہیں ہوتا یہ چیک پوسٹ خیموں میں قائم کی جائے گی۔ امیگریشن کی چیک پوسٹ کے ساتھ ہی کسٹمز والوں کی بھی چیک پوسٹ قائم ہوناتھی۔ اس کے بارے میں بھی یہی فیصلہ ہوا۔ میں واپس آیا۔ اور پھر اس چیک پوسٹ کے لئے تمام سازوسامان اور سٹاف راولپنڈی سے بھجوایا گیا اور غالباً مئی 1986ء میں اس چیک پوسٹ نے سڑک کے کنارے لگائے گئے دو خیموں میں اپنا کام شروع کردیا۔2002ء میں میرا اس علاقے میں دوبارہ جانے کا اتفاق ہوا تو میں یہ دیکھ کر حیران رہ گیا کہ وہاں اب ایک پورا شہر آباد تھا ۔
ایف آئی اے ،کسٹمز ، پولیس اور کئی دوسرے سرکاری اداروں کے باقاعدہ پختہ دفاتر، ریسٹ ہاؤسز، بینک، ہوٹل، ریسٹورنٹ، نجی دفاتر و ادارے ،ہر قسم کے ملکی اور غیر ملکی سامان سے لدے پڑے بازار اور بے شمار گھر۔ میری اس پوسٹنگ کے دنوں میں افغانستان میں روس کی پروردہ حکومتوں کے خلاف مجاہدین کی مزاحمت شروع ہو چکی تھی۔بارڈر کھلے پڑے تھے،مجاہدین بلا روک وٹوک اِدھر سے اُدھر اور اُدھر سے اِدھر آ جا رہے تھے اور افغانستان کی اِس خانہ جنگی کی کیفیت میں افغان مہاجرین کثرت سے پاکستان کا رُخ کررہے تھے۔ زیادہ تر تو قبائلی علاقوں اور صوبہ سرحد میں ہی کیمپوں میں رہ رہے تھے، لیکن بے شمار پاکستان بھر کے مختلف شہروں میں بکھر گئے، مختلف کاروبار کرنے لگے، جائیدادیں خرید لیں اور یہیں رہنے بسنے لگے۔ لگتا تھا کہ یہ اب کبھی واپس نہیں جائیں گے، لیکن ابھی عوام الناس میں اس صورتِ حال اور اس کے متوقع اثرات کا زیادہ شعور پیدا نہ ہوا تھا۔مَیں نے اِن دنوں ایک انکوائری رپورٹ لکھتے ہوئے واضح طور پراپنے خدشات کا اظہار کر دیا کہ حالات جس ڈگر پر جارہے ہیں اِسے دیکھ کر لگتاہے کہ جلد پاکستان میں منشیات اور اسلحہ کا طوفان آئے گا اور یہ ایک نئے سماجی اور فوجداری کلچر کو جنم دے گا، اور اس کے جلُو میں روس اور انڈیا پاکستان میں دہشت گردی کا تانا بانا بُنیں گے۔ یہ بات بعد میں حرف بہ حرف صحیح ثابت ہوئی۔
میری تعیناتی کے تقریباً ایک سال بعد میرے ڈائریکٹر جناب خاور زمان بطور انسپکٹر جنرل ترقی یاب ہو کر ایف آئی اے سے رُخصت ہوگئے۔ ان کے جانے کے بعد میں کوئی آٹھ نو ماہ بطور قائم مقام ڈائریکٹر امیگریشن کام کرتارہا۔ اب میرا نیچے پاکستان بھر میں پھیلے ہوئے امیگریشن ونگ کے ذیلی یونٹوں اور اوپر ڈائریکٹر جنرل سے براہ راست رابطہ رہتاتھا۔ اِس دوران ایک دو ڈی آئی جی صاحبان ایف آئی اے میں نئے تعینات ہوئے ۔ڈی جی صاحب نے اُن کو دوسری خالی جگہوں پر تعینات کردیا، لیکن امیگریشن جیسا اہم ترین وِنگ میرے ہی زیرِ کنٹرول رہنے دیا۔یہ اُن کا مجھ پر اور میرے کام پر اعتماد کا مظہر تھا،جس کا بظاہر اُنہوں نے کبھی اظہار نہ کیا۔ ڈی جی صاحب بظاہر ایک بہت سخت گیر انسان تھے۔ اکثر ڈائریکٹر صاحبان اُ ن کے سامنے جانے اور بات کرنے سے کتراتے تھے، لیکن جب میرا اُن سے براہ راست رابطہ شروع ہواتو میں نے اُنہیں بہت شفیق اور درگذرکرنے والا پایا۔حد درجہ دیانتدار ،بے حد محنتی، بااصول اور اپنے کام کے ماہر۔ ہماری موجودگی میں ہی ریٹائرہوگئے۔اس موقع پر ہم نے ایک عجیب منظر دیکھا۔ ڈی جی صاحب کی ملازمت کا آخری دن تھا۔ تمام افسر اور پورا ایف آئی اے ہیڈ کوارٹرزاپنے معمول کے مطابق کام کر رہا تھا۔روٹین کی فائلیں ڈی جی صاحب کے پاس جا رہی تھیں اور روٹین کے احکامات لے کر واپس آ رہی تھیں۔ ڈی جی صاحب اس طرح کام کر رہے تھے جیسے ابھی اُنہوں نے مہینوں اور رہنا ہے۔ شام چار بجے کے قریب وہ معمول کے مطابق تنِ تنہا اپنے دفتر سے نکلے ،گاڑی میں بیٹھے اور گھر روانہ ہو گئے۔تمام سٹاف کو منع کردیاگیا تھا کہ کوئی ان کو الوداع کہنے کے لئے باہر نہ آئے۔
ڈائریکٹر صاحبان نے غالباً دن کو ہی اُن کے دفتر میں اُن سے الوداعی ملاقاتیں کرلی تھیں۔ ہم نے اپنے کمروں کی کھڑکیوں سے اُن کو ہر روز کی طرح اپنے دفتر سے نکلتے اور گاڑی میں بیٹھ کر جاتے دیکھا۔ معمول کے مطابق پندرہ منٹ کے بعد گاڑی اُن کو اُن کے گھر چھوڑ کر واپس آ گئی اور پھر کبھی اُن کے پاس واپس نہ گئی۔اُن دنوں ڈائریکٹر جنرل ایف آئی اے کے پاس گھر اور دفتر کے لئے صرف یہی ایک گاڑی ہوتی تھی۔ سرکاری گھر بھی وہ ریٹائرمنٹ سے چند ہفتے قبل ہی چھوڑ کر اپنے نوتعمیر شدہ گھر میں شفٹ ہوچکے تھے۔ ہم چاروں بیچ میٹس کو ایف آئی اے میں کام کرتے تقریباً دو سال ہونے کو تھے۔ جب ہم بجھے دل کے ساتھ ایف آئی اے میں رپورٹ کرنے آئے تھے تو میں سوچا کرتاتھا کہ دیکھیں ہم میں سے کون سب سے پہلے پولیس میں واپس جاتاہے۔ ریاض نعیم ایک بہت سینئر ڈی آئی جی مرزا نعیم الدین کے بیٹے ہیں۔ ہمارے ڈی جی صاحب بطور اے ایس پی جناب مرزا نعیم الدین کے ماتحت کام کرچکے تھے۔ جاوید نور(اب مرحوم) ایک کھاتے پیتے گھرانے سے تعلق رکھتے تھے، جس میں کچھ اعلیٰ فوجی افسران بھی تھے۔ پر ویز اخترایک ایس ایس پی منظور احمد خان کے داماد اور اُن کے چچا سسر جناب مشکور احمد خان اُن دنوں ایڈیشنل سیکرٹری اسٹیبلشمنٹ ڈویژن تھے ،جبکہ میرے خاندان میں دُور دُور تک نہ کوئی سرکاری ملازم تھا اور نہ کوئی سیاست دان ۔ میں خیال کرتا تھا کہ یہ سب لوگ اپنے اپنے تعلقات اور اثرورسوخ کی بناء پر جلد ایف آئی اے سے نکل جائیں گے، میں اکیلا رہ جاؤں گا ۔تاہم دوسال ہونے کو آئے تھے اور ہم میں سے کوئی بھی اپنی پوری خواہش کے باوجود ایف آئی اے سے نہ نکل سکا۔
پنجا ب میں ہمارے وقتوں کے آئی جی جناب لئیق احمد خان کی جگہ جناب صباح الدین جامی آچکے تھے ،جن کو دیکھنا اور ملنا تو کُجا ہم جیسے جونیئر افسروں نے اُن کا کبھی نام بھی نہ سُنا تھا۔ خود انہوں نے سترہ سال کے بعد پولیس کی وردی دوبارہ پہنی تھی۔سوکسی طرف سے اُمید کی کوئی کرن نظر نہ آتی تھی۔ اِنہی دِنوں ایک روز میں اپنے دفتر میں بیٹھا تھا کہ ایکسچینج کے آپریٹر نے بزر دے کر کہا ’’سر!آئی جی پنجاب آپ سے بات کرنا چاہتے ہیں‘‘۔مَیں نے حیرت اور بے یقینی کی ملی جلی کیفیت میں پوچھا ’’آئی جی پنجاب ؟‘‘ اس نے کہا،جی ہاں، آئی جی پنجاب‘‘۔ مَیں نے پھر پوچھا ’’مجھ سے ،یعنی الطاف قمر سے؟‘‘ اُ س نے کہا ’’جی ہاں سر!آپ سے۔ ‘‘ میں گڑ بڑا گیا ۔آئی جی پنجاب نے مجھ سے کیا بات کرنی ہے؟ اگر ایف آئی اے سے متعلق کوئی بات ہے تو وہ ڈی جی یا میرے ڈائریکٹر سے بات کرتے۔بہرحال مَیں نے تُھوک نگلتے ہوئے کہا ’’ملائیں‘‘۔ہمارے آپریٹر نے آئی جی صاحب کے آپریٹر کو لائن دے دی ۔ اُس نے میرا نام کنفرم کرکے لائن آئی جی صاحب کو دے دی۔ ’’ہیلو قمر! کیا حال ہے؟میں جامی بول رہاہوں۔‘‘ میں اضطراری اور اضطرابی کیفیت میں بولا ’’سر! السلام علیکم۔ میں ٹھیک ہوں سر!‘‘بولے ’’ایف آئی اے میں ہی دل لگالیاہے۔ پنجاب نہیں آنا؟‘‘ میرے سر پر حیرتوں کا پہاڑ ٹوٹ پڑا۔مَیں نے اپنے آپ پر قابو پاتے ہوئے کہا ’’سر!اس سے زیادہ خوشی کی بات میرے لئے کیا ہو سکتی ہے‘‘۔وہ بولے ’’اچھا! باقی سب ٹھیک ہے ؟‘‘ مَیں نے کہا’’سر! سب ٹھیک ہے۔ اللہ کا شکر ہے‘‘۔ آئی جی صاحب نے فون بندکردیا۔مَیں کتنی ہی دیر شدتِ جذبات سے گُم سُم بیٹھا رہا ۔یہ سب کیا ہوا ؟ حقیقت ہے یا وہم؟ مجھے نارمل ہونے میں کچھ دیر لگی۔ دوچار دن گزرگئے ۔مَیں سوچتا رہا کہ مَیں کس سے پوچھوں کہ اس کے بعد کیا ہوا؟ آئی جی کے پرسنل سٹاف میں اُن کا پی ایس، پی ایس او ، اور ڈی آئی جی ہیڈکوارٹرز ہوتے ہیں۔ کس سے پوچھوں اور کس طرح پوچھوں! بات تو آپریٹروں کے ذریعے براہِ راست ہوئی تھی! اسی سوچ بچار میں ایک ہفتہ گذر گیا کہ اچانک ایف آئی اے ہیڈکوارٹرز میں خبر اُڑی کہ الطاف قمر کے پنجاب کے آرڈر ہوگئے ہیں۔حیرت پر حیرت! ابھی آرڈر کی کاپی کی تلاش میں ہی تھا کہ پتہ چلا کہ حکومتِ پنجاب نے میری تعیناتی بطورایڈیشنل ایس پی(ایس پی سیکورٹی اینڈ ٹریفک) راولپنڈی کردی ہے۔یہ اللہ تعالیٰ کاخاص کرم اور آئی جی صاحب کی خاص مہربانی تھی کہ بیٹھے بٹھائے ذرا سی بھی تگ ودو کے بغیر میری پنجاب پولیس میں واپسی ہوگئی۔ اورپھر پورے دوسال ایف آئی اے میں گزار کر اپنے ساتھیوں کو وہیں حیران وششدر چھوڑ کرمیں نے جولائی 1986ء میں براہ راست راولپنڈی میں ایس پی سیکیورٹی اینڈ ٹریفک کا چارج سنبھال لیا۔
dailypakistan.com.pk
http://dailypakistan.com.pk/E-Paper/Lahore/2017-08-06/page-16/detail-2