گوجرانوالہ سے حالات کے جبر کا شکار ہو کر نکلے اور اسٹیبلشمنٹ ڈویژن میں بطور ایک’’ مجرم ‘‘رپورٹ کیے تقریباً تین ہفتے ہو چلے تھے۔ میں یہ تمام عرصہ لاہور میں اپنے گھر گوشہ نشین رہا اور مسلسل سوچتا رہا کہ وفاقی حکومت میرے ساتھ کیا سلوک کرے گی ۔جواب ملتا کہ اگر معاملات دفتر کے لگے بندھے معمول کے مطابق چلے (جس کا امکان بہت کم تھا)تو حکومت مجھے صوبہ سندھ، بلوچستان یا سرحد میں سے کسی ایک میں بھیج دے گی۔ نامہرباں ہوئی تو ایف آئی اے، اِنٹیلجنس بیورو یا پولیس اکیڈمی بھیج دے گی۔ زیادہ نامہربان ہوئی تو مجھے کسی وفاقی دفتر میں سیکشن افسر لگادے گی۔ اگر غصے میں ہوئی تو اوایس ڈی بناکر بٹھا چھوڑے گی۔ اگرزیادہ غصے میں ہوئی تو غیر معینہ مدت کے لئے بغیر کسی پوسٹنگ کے یونہی معلق رکھے گی(جیسا کہ میں اُس وقت تھا) اور پھر بھول جائیگی، اور اس دوران میں تنخواہ سے بھی محروم رہوں گاکیونکہ اس کے لئے کسی نہ کسی پوسٹ پر تعینات ہونا ضروری ہوتا ہے، خواہ وہ اوایس ڈی کی ہی ہو۔اور اگر بہت ہی زیادہ غصے میں ہوئی تو انضباطی کارروائی کا آغاز بھی کرسکتی ہے۔ میں اس موضوع پر جتنا سوچتا اُتنا ہی اُلجھتا چلاجاتا۔ اور پھر ایک دن میں نے فیصلہ کیا کہ گھر بیٹھے رہنے سے یہ معاملہ حل نہیں ہوگا ۔مجھے باہر نکلنااور اپنا راستہ بناناہوگا۔
مجھے اس بات کا اچھی طرح ادراک ہوچکاتھا کہ ہمارے سارے ملازمتی معاملات وزیراعظم کے مشیر برائے اسٹیبلشمنٹ راؤ عبدالرشید خاں کے ہاتھ میں ہیں اور ان تک پہنچے بغیر بات نہیں بنے گی۔ میں نے اُن سے براہ راست ملنے کا فیصلہ کرلیا ۔میرے یہ فیصلہ کرنے میں ہمارے ایک سینئر پولیس افسر جناب خالد لطیف کی ایک موقع پر ہم جونیئر افسران کو کی گئی ایک نصیحت کو بہت دخل تھا ۔ آپ نے کہا تھا کہ ’’یادرکھیں ! افسر اپنی سفارش خود ہوتاہے۔ جب کبھی کوئی ایساموقع پیش آئے ، متعلقہ بندے سے خود بات کریں۔ ادھر اُدھر سے مت کہلوائیں۔‘‘ راؤ عبدالرشید خاں صاحب سے میرا بالواسطہ یا بلاواسطہ کوئی تعارف نہ تھا ۔ میں نے کبھی اُن کو دیکھا تک نہ تھا۔ 1978میں جب ہم پولیس کالج سہالہ میں پولیس کی ابتدائی تربیت حاصل کررہے تھے وہ جنرل ضیاء الحق کے ہاتھوں ذوالفقار علی بھٹوکے خصوصی ساتھی اور معاون ہونے کے’’ الزام‘‘ میں جبری ریٹائرکئے جاچکے تھے۔ میرا ان سے کُل تعارف مشہور صحافی منیر احمد منیر کو دیئے گئے ان کے ایک طویل انٹرویو پر مبنی کتاب ’’جومیں نے دیکھا‘‘ کے توسط سے تھا ۔ میں نے پیپلز پارٹی کے ایک پرانے رہنماکے ذریعے راؤ صاحب سے ملاقات کا وقت لیا اور وقت مقررہ پر اسلام آباد اُن کے دفتر جاپہنچا ۔
راؤ عبدالرشید خاں صاحب بہت دبنگ، اکھڑ ، سخت گیر اور بڑے بڑوں کو خاطر میں نہ لانے کی شہرت رکھتے تھے ۔ جس کی چند جھلکیاں میں گوجرانوالہ میں دیکھ چکا تھا۔ خلاف توقع بڑی شفقت اور ملائمت سے ملے ۔میں نے حوصلہ پاکر انہیں گوجرانوالہ کی ساری صورتحال تفصیل سے بتائی اور کہا کہ آپ لوگوں کو یہاں مرکز میں صورت حال کی بہت غلط رپورٹنگ ہوتی رہی ہے۔ میں نے انہیں بتایا کہ ضمنی انتخابات کے دوران اول تو کسی قسم کی کوئی دھاندلی ہوئی ہی نہیں ، لیکن اگر آپ سمجھتے ہیں کہ ہوئی تھی تو بتائیں کیا اس میں کسی بھی اعتبار سے پولیس ملوث تھی؟ کیا الیکشن والے دن دھاندلی کی کوئی ایک بھی شکایت کسی بھی فریق کی طرف سے کی گئی؟ کوئی ایک بھی جعلی ووٹر یا ووٹ پکڑ ا گیا؟پوری انتخابی مہم کے دوران کسی بھی جگہ پولیس نے پیپلز پارٹی کے خلاف یا مسلم لیگ کے حق میں کوئی کام کیا؟ میں نے شناختی کارڈ والے واقعہ کی بھی تفصیل اور اس ضمن میں پولیس کی مثبت کارروائی کاذکرکیا ۔ میں نہ جانے کیاکچھ بولتاچلاگیا اور وہ سنتے چلے گئی۔ آخر میں میں نے بالکل کھلے الفاظ میں شکایتاً یہ بھی کہہ دیا کہ وفاقی حکومت نے ہم دونوں (مجھے اور میرے ڈی آئی جی ) کو انتہائی نیک نیتی اور غیرجانبداری سے کام کرنے کے باوجود جانبداری کا الزام لگاکر بطور ملزم واپس بلاکر ہمارے ساتھ بہت زیادتی کی ہے۔ راؤ صاحب خاموشی اور انہماک کے ساتھ سب کچھ سنتے اور اگلی نسل کے ایک نوجوان پی ایس پی افسر کو اپنے بے کراں تجربہ کی روشنی میں کھنگالتے، ٹٹولتے اور تولتے رہے ۔اور پھرشاید اُنہیں اگلی نسل کے اس جونیئر افسر کی صاف گوئی ، سچائی اور بے باکی بھاگئی۔ جب میں چُپ ہوا تو قدرے مسکرا کر نہایت متانت اور نرمی سے بولے ’’تو پھر اب کیاہوسکتاہے؟میں آپ کو اب پنجاب تو واپس نہیں بھیج سکتا۔‘‘ میں نے کہا ’’سر!میں بھی سمجھتاہو ں کہ اب یہ ممکن نہیں۔ اگر آپ بھیج بھی دیں تو اب پنجاب والے ہمیں قبول نہیں کریں گے۔ میری اب آپ سے صرف اتنی درخواست ہے کہ میں چونکہ لاہور کا رہنے والا ہوں ، مجھے کہیں دُور دراز بھیجنے کی بجائے کہیں قریب ہی تعینات کر دیں ۔ اس لحاظ سے صوبہ سرحدہی قریب ترین ہے۔
‘‘ انہوں نے اثبات میں سرہلادیا اور میں سلام اور شکریہ اداکرکے باہر نکل آیا۔ اُسی روز میری خدمات حکومتِ سرحد کے سپرد کردی گئیں۔ میں نے صوبہ سرحد میں کبھی نوکری نہیں کی تھی اور نہ وہاں کسی کو جانتاتھا۔ مجھے صرف یہ علم تھا کہ وہاں کے آئی جی محمد عباس خان ہیں(جو بعد میں آئی جی پنجاب بھی رہے۔ پولیس سروس آ ف پاکستان کا ایک بہت بڑا نام۔) اوراُن کی شہرت بہت اچھی ہے، اور بس۔ میرا اُن سے کوئی تعارف یا ملاقات نہیں تھی ۔ خود اُنہوں نے تو شاید کبھی میرا نام بھی نہ سُنا ہوگا ۔نوٹیفیکیشن جاری ہونے کے ایک دوروز بعد میں ایک شام پشاور پہنچا ۔ فرنٹیئ کانسٹیبلری کے ریسٹ ہاؤس میں قیام کیا ۔ اگلی صبح لوگوں سے پوچھتا پوچھاتا چیف سیکرٹری کے دفتر پہنچا ۔ چیف سیکرٹری جناب عمر آفریدی دفتر میں موجود نہ تھے ۔ میں نے ڈپٹی سیکرٹری سروسز کے پاس اپنی حاضر ی کی رپورٹ کی ، اپنا لاہور کا ایڈریس اور رابطہ نمبر دیا اور درخواست کی کہ پوسٹنگ کی کوئی تجویز بنے یا پوسٹنگ آرڈر نکلے تو براہ کرم اطلاع کردیں ۔ وہاں سے آئی جی آفس آیا ۔ آئی جی صاحب موجود تھے۔ سرسری سی ملاقات ہوئی۔ میں نے اُنہیں مختصراًبتایاکہ میں پنجاب سے ٹرانسفر ہوکر آیاہوں۔چیف سیکرٹری آفس میں حاضری کردی ہے ۔ کسی مناسب جگہ پر تعیناتی کرادیجئے۔ آئی جی صاحب سے ملاقات کے بعد میں نے وہیں سے گاڑی کا رُخ موڑا اور رات تک لاہور لوٹ آیا۔ پشاور رپورٹ کئے جب ایک ماہ گذر گیا اور وہاں سے کوئی خیر خبر نہ آئی تو میں نے فیصلہ کیا کہ مجھے ایک بار پھر پشاور جاناچاہیے اور آئی جی صاحب سے دوبارہ درخواست کرنی چاہیے کہ وہ مجھے کسی مناسب جگہ تعینات کردیں۔ چنانچہ یونیورسٹی ٹاؤن میں زرعی یونیورسٹی کا ریسٹ ہاؤس بُک کروایا، فیملی کو ساتھ لیا اور پشاور کی راہ لی۔ ارادہ یہ تھا کہ آٹھ دس دن رہیں گے۔ پہلے آئی جی صاحب سے ملاقات ہوگی اور اس کے بعد پشاور اور آس پاس کو خوب اچھی طرح گھوم پھر کر دیکھیں گے اور اگر اِس دوران پوسٹنگ ہوگئی تو اس کے مطابق نیا لائحہ عمل تیار کریں گے، ورنہ واپس لوٹ آئیں گے۔ شام پشاور پہنچ کر اگلی صبح امید وبیم کی کیفیت میں آئی جی صاحب سے ملنے روانہ ہوا۔ میں صوبہ میں نووارد تھا، نہ کوئی کام اور ماحول کاتجربہ اور نہ کسی سے کوئی تعلق وتعارف ۔ اس لئے میری زیادہ سے زیادہ توقع یہ تھی کہ جب کبھی مجھے لگانا ہوا توکسی دفتری پوسٹ پر لگادیاجائے گا۔بہرحال دفتر پہنچا ۔آئی جی صاحب تشریف رکھتے تھے۔ اطلاع کروائی ۔
آئی جی صاحب نے فوراً بلالیا ۔ وہ اکیلے تھے۔ میں سلام کرکے سامنے کرسی پر بیٹھ گیا۔وہ فائلیں دیکھنے اور ڈاک نکالنے میں مصروف تھے ۔ میں کافی دیر خاموش بیٹھا رہا۔ انہوں نے میری طرف آنکھ اُٹھا کر بھی نہ دیکھااور نہ کوئی بات کی۔ میں اس سردمہری سے مایوس ہوکر اُٹھ کھڑا ہوا اور اجازت چاہی ۔ آئی جی صاحب نے اشارے سے بیٹھنے کیلئے کہااور خود بدستور ڈاک نکالنے میں مصروف رہے۔ مزید کچھ دیر میں انہوں نے اپنا کام مکمل کیا ، آخری فولڈر بند کیا اور میری طرف متوجہ ہوئے ۔ رسمی علیک سلیک کے بعد حرفِ مدعازبان پرلانے کیلئے میں ابھی مناسب الفاظ ہی سوچ رہاتھا کہ خود ہی بولے ’’میں آپ کو ایس ایس پی ایبٹ آباد لگارہاہوں‘‘ اور پھر ساتھ ہی مجھے ایبٹ آباد کے بارے میں ضروری معلومات اور ہدایات دینا شروع کردیں۔ حیرت سے میری زبان گُنگ ہوگئی۔ ایس ایس پی ایبٹ آباد صوبہ خیبر پختونخوا کی ایک اہم اور پرائز پوسٹ سمجھی جاتی ہے جہاں کسی تجربہ کار اور علاقائی سیاست کی اونچ نیچ او ر اہل علاقہ کو سمجھنے والے، یا اہلِ اقتدار کے کسی قریبی عزیز ،یاپھر کسی چہیتے افسر کو لگایاجاتاہے۔عالمِ حیرت میں اضطراری طور پر میرے منہ سے نکلاکہ’’سر! آرڈر ہوگئے ہیں‘‘ کہنے لگے’’نہیں! ابھی ہوجاتے ہیں۔میں چیف سیکرٹر ی کو کہتاہوں۔‘‘ اس کے ساتھ ہی انہوں نے انٹر کام اُٹھا یا اور چیف سیکرٹری کو میرا نام بتاکر کہا کہ اس کے ایس ایس پی ایبٹ آباد کے آرڈر کردیں۔ حیرت پر حیرت، کیا یوں بھی ہوتاہے! میں آئی جی صاحب کا ٹھیک طرح سے شکریہ بھی ادانہ کرسکا اور بھیگی آنکھوں سے سلام کرکے باہر نکل آیا۔کچھ دیر تک اپنے حواس بحال کئے اورپھر ڈپٹی سیکرٹری سروسز کے پاس پہنچا۔ وہاں اطلاع پہنچ چکی تھی اور پھر ایک آدھ گھنٹے میں میرے بیٹھے بیٹھے محکمہ سروسز سے میرے ایس ایس پی ایبٹ آباد کے آرڈر جاری ہو گئے۔ اگلے روز میں نے ایس ایس پی ایبٹ آباد جناب فیاض احمد طو روکو جو مجھ سے ایک بیچ سینئر تھے فون کیا اور پوچھا کہ میں کب آؤں۔ انہوں نے کہا وہ آئی جی صاحب سے بات کرکے جواب دیں گے ۔(آج جناب فیاض احمد طورو کا شمار پولیس سروس آف پاکستان کے چند بہترین اور نیک نام افسروں میں ہوتاہے)شام تک مجھے آئی جی آفس سے مطلع کیاگیا کہ چونکہ ان دنوں ایبٹ آبادمیں سرحد اسمبلی کا بجٹ اجلاس ہورہاہے ،ساری صوبائی اسمبلی ،گورنر ،وزیراعلیٰ اور پوری صوبائی کابینہ وہیں موجود ہے۔سکیورٹی اورپروٹوکول کے علاوہ اِن لوگوں سے ذاتی جان پہچان اورواقفیت بھی بہت ضروری ہے ، لہذا فیصلہ کیاگیا ہے کہ موجود ہ ایس ایس پی اسمبلی کے موجود ہ سیشن کے اختتام تک بدستور اپنے فرائض انجام دیتے رہیں۔ آپ جولائی کے پہلے ہفتے میں آ پس میں طے کرکے چارج لیں۔ میں نے کہا کہ بہت اچھا! میں نے اس وقت کو غنیمت جانااور اپنے مجوزہ پروگرام کے مطابق پہلے پشاور کو اچھی طرح گھوم پھرکر دیکھااور پھر سوات، بحرین اور کالام کا رُخ کیا۔ پچھلے چند ماہ کی موسم اورحالات وو اقعات کی حدت اورتپش نے میرے جسم اور رُوح دونوں کو جُھلسا کر رکھ دیا تھا۔اِن حالات میں یہ سیروتفریح میری اور میری فیملی کیلئے قدرت کی طرف سے جھونکاء جانفزاء اور جنت نظیر وادیوں پر مشتمل پاکستان کے سب سے خوبصورت صوبے کی طرف سے ایک خیرمقدمی تحفہ تھا۔ہفتہ بھر کی بھرپور سیروسیاحت کے بعدہم تازہ دم ہوکر لاہور لوٹ آئے۔ بالآخر 4جولائی 1989کو میں لاہور سے سیدھا ایبٹ آباد پہنچا۔ اگلی صبح جناب فیاض احمد طورو نے اپنے دفتر میں میرا استقبال کیااور انتہائی پُروقار انداز میں ایس ایس پی ایبٹ آباد کا چارج میرے حوالے کرکے خود ایس ایس پی پشاور کا چارج سنبھالنے کیلئے پشاور روانہ ہوگئے
http://dailypakistan.com.pk/E-Paper/Lahore/2017-06-20/page-16/detail-6
~ ~ ~ ~ ~ ~ ~ ~~ ~ ~ ~ ~ ~ ~ ~ ~ ~
Humanity, Knowledge, Religion, Culture, Tolerance, Peace
انسانیت ، علم ، اسلام ،معاشرہ ، برداشت ، سلامتی
سلام فورم نیٹ ورک Peace Forum Network
Books, Articles, Blogs, Magazines, Videos, Social Media
بلاگز، ویب سائٹس،سوشل میڈیا، میگزین، ویڈیوز,کتبJoin Millions of visitors: لاکھوں وزٹرز میں شامل ہوں
Salaamforum.blogspot.com
Twitter: @AftabKhanNet
Facebook: fb.me/AftabKhan.page
سوشل میڈیا پر جوائین کریں یا اپنا نام ، موبائل نمر923004443470+ پر"وہٹس اپپ"یا SMS کریں
Join 'Peace-Forum' at Social Media, WhatsApp/SMS Name,Cell#at +923004443470Twitter: @AftabKhanNet