پاکستان کا قومی ترانہ: افسانہ اور حقیقت !
از محمد الطاف قمر(سابق انسپکٹر جنرل پولیس )
پاکستان کا قومی ترانہ ’ پاک سرزمین شاد باد کشور حسین شاد باد‘ خون کو گرما دینے والی دبنگ دُھن اور دل کی گہرائیوں کو چھُو لینے والی شاعری کاایک خوبصورت مرقع ہے ۔ یہ کب اور کن مراحل سے گذر کر معرض وجود میں آیا ،اس پرکچھ لکھنے سے پہلے ایک افسانوی روایت کی تردید ضروری ہے جس کا آج کل سوشل میڈیا پر چرچا ہے اوردرحقیقت اسی نے مجھے یہ مضمون لکھنے پر آمادہ کیا۔ اس روایت کے مطابق ’’حضرت قائد اعظمؒ نے قیام پاکستان سے قبل 9اگست 1947ء کو اپنے دوست جگن ناتھ آزاد کو بطور خاص بلایا اور کہا کہ 14اگست سے پہلے پہلے پاکستان کا قومی ترانہ لکھ کر دو ، جسے 14اگست کو ریڈیو پاکستان پر بجایاجائے گا۔ حکم کی تعمیل کرتے ہو ئے جگن ناتھ آزاد نے ایک ترانہ لکھ کر قائد اعظم ؒ کو پیش کردیا جو14/15اگست کی رات ریڈیوپاکستان پربجایاگیا اور پھر اس کے بعد 18ماہ تک پاکستان میں ہر جگہ بجتا رہا، لیکن پھر اسے اس بناپر ترک کردیاگیا کہ وہ ایک ہندوکا لکھا ہواتھا۔‘‘
برسوں قبل جب یہ خود ساختہ روایت سامنے آئی اوربار بار دُہرائی گئی تو پاکستان کے نامور مؤرخ اور محقق ڈاکٹر صفدر محمودنے ،جو تحریک پاکستان اور قائد اعظمؒ پر ایک اتھارٹی کی حیثیت رکھتے ہیں، ایک قومی ذمہ داری اور چیلنج سمجھتے ہوئے اس روایت کی تصدیق یا تردید کا بیڑا اُٹھایا، اور پھر تحقیق کا حق ادا کردیا۔ اس تحقیق کیلئے وہ حکومت پاکستان کے نیشنل آرکائیو گئے ۔موضوع سے متعلق ایک ایک کاغذ دیکھا اور پڑھا، قائد اعظم کی 7اگست 1947ء کو کراچی آمد سے لیکر 15اگست 947ء تک ایک ایک لمحہ کی مصروفیت کاریکارڈ دیکھا، قیام پاکستان سے بہت پہلے سے لے کر 25اپریل1948ء تک قائد اعظم سے ملنے والوں کی مصدقہ فہرست دیکھی، قائد اعظمؒ کے اُن دنوں کے اے ڈی سی، جناب عطاربانی، جو قائد اعظمؒ کی تمام مصروفیات اور ملاقاتوں کا اہتمام کرتے تھے، سے ملاقات کرکے جگن ناتھ آزاد کے ساتھ قائد کی کسی ملاقات کے بارے میں دریافت کیا ۔اس کے بعد ریڈیوپاکستان کی14اگست 1947ء سے لیکر بہت بعد تک کی ایک ایک منٹ کی ٹرانسمیشن کاریکارڈ چیک کیا ،اُس وقت کے ریڈیو پاکستان سے وابستہ افسران سے ملاقاتیں کرکے اِس بارے میں دریافت کیا۔ مختلف مؤرخین اور مضمون نگاروں کی کتابوں سے اس زمانے کے واقعات ومعاملات کی تفصیلات پڑھیں اور اس دور کے اخبار ات اوردرسی کتب کوکھنگالا۔ اُن کی اس تمام تحقیق کا نچوڑ یہ تھا کہ جگن ناتھ آزاد نامی کسی شخص کا کسی بھی وقت ایک سیکنڈ کیلئے بھی قائد اعظمؒ کے ساتھ کسی قسم کا کوئی رابطہ ،ملاقات یاگفتگو ثابت نہیں۔ یہاں تک کہ جگن ناتھ آزاد کا قائداعظمؒ کی اندرون خانہ یا بیرون خانہ کسی سرکاری یا نجی میٹنگ ،محفل یامجلس میں محض موجود ہونا بھی نہیں پایاگیا، اور نہ ہی اُس کے کسی گیت کو ریڈیو پاکستان سے کبھی قومی ترانے کی حیثیت سے پڑھا،گایا یابجایا گیا۔
جگن ناتھ آزاد معروف شاعرتلوک چند محروم کا بیٹا تھا۔ میانوالی میں پیداہوا، گورڈن کالج راولپنڈی سے بی اے اور پنجاب یونیورسٹی سے ایم اے فارسی کیا۔قیام پاکستان کے وقت وہ قطعی طور پر ایک غیرمعروف شخص اور ایک پاکستان مخالف اخبار ’جے ہند‘کے ساتھ منسلک تھا۔اُس وقت اُس کی عمر 29سال جبکہ قائداعظمؒ کی عمر 71سال تھی۔ قائداعظم بمبئی میں جبکہ جگن ناتھ آزاد لاہور میں رہتا تھا۔ اِن حقائق کے پیشِ نظر اِ ن دونوں کی دوستی تو کجا، تعارف تک نظر نہیں آتا۔جگن ناتھ آزاد قیام پاکستان کے ایک ماہ بعد ستمبر 1947ء میں اپنے ’دوست‘ اور اس کی عمر بھی کی جدوجہد اور خوابوں کی تعبیر ’پاکستان‘ اور پاکستان کیلئے اپنا لکھا ہوا ’قومی ترانہ‘،جو اس افسانے کے مطابق پاکستان میں ہر جگہ بج رہا تھا ، چھوڑ کر ہندوستان ہجرت کرگیا۔ ایک ماہ بعدلاہور واپس آیا،کچھ روز اپنے مسلمان دوستوں کے گھر چھُپ چھُپا کر رہا لیکن حالات کو ناموافق پاکردوبارہُ واپس چلا گیا اور مستقلاً ہندوستان میں بس گیا۔ تاہم حالات نارمل ہونے کے بعد وہ وقتاً فوقتاً پاکستان آتا جاتا رہا۔بے شک اس کا لکھا ہوا ایک ملی نغمہ ریکارڈ پر موجود ہے جس سے اِس کی پاکستان سے محبت ظاہر ہوتی ہے ۔لیکن یہ حقیقت اپنی جگہ موجود ہے کہ تحریک پاکستان ا ور ان کے اکابرین پر لکھی ہوئی درجنوں مصدقہ کتابوں اور انسائیکلوپیڈیاز میں جہاں عام سے عام چیز ،جگہ یا شخص جس کا پاکستان کے ساتھ کوئی معمولی سے معمولی تعلق بھی رہا ہو کا ذکرموجود ہے وہاں جگن ناتھ آزاد کا اِن کتابوں میں سِرے سے کوئی ذکرنہیں۔ ایسے شخص کو قائداعظمؒ کادوست گرداننا، اور قائداعظم کا اپنی صفوں میں موجود حفیظ جالندھری ،مولانا ظفر علی خان، مولانا حسرت موہانی جیسے بلند پایۂ شعراء کو چھوڑ کر،اور کسی ساتھی سے مشورہ کئے بغیر ،جگن ناتھ آزاد جیسے غیرمعروف شاعر سے پاکستان کا قومی ترانہ لکھوانا کسی طرح قرینِ قیاس نہیں۔ مزے کی بات یہ ہے کہ جگن ناتھ آزاد نے خود کبھی بھی قائد اعظم سے اپنی دوستی ، اُن کے کہنے پر کوئی ترانہ لکھنے اور اِس ترانے کا پاکستان کے قومی ترانے کے طور پر ریڈیو پاکستان پر بجائے جانے کا دعویٰ نہیں کیا۔ممکنہ طور پر یہ شوشہ اُن سیکولر عناصر کا چھوڑا ہوا ہے جنہیں پاکستان کا اسلامی تشخص ایک آنکھ نہیں بھاتا ،اور وہ اس شو شے کے ذریعے یہ باور کراناچاہتے ہیں کہ اگرپاکستان ایک سیکولر ملک ہوتاتو یہاں سب مذاہب کے ماننے والوں کو ایک نظر سے دیکھا جاتا،اور کسی ہندوکا لکھا ہوا ترانہ یوں رد نہ کیاجاتا، جوکہ سراسر خلافِ حقیقت اور خلافِ حقائق ہے۔
ریکارڈ کی اس درستگی کے بعد میں اصل موضوع کی طرف آتاہوں کہ پاکستان کا قومی ترانہ کب اور کن کن مراحل سے گذر کر معرضِ وجود میں آیا۔ قومی پرچم اور قومی ترانہ کسی بھی ملک کے نظریۂ وجود ،ماضی کی شان، حال کی آن اور مستقبل کی بان کا مظہر ہوتاہے۔ اس کی عزت و حرمت پر گردنیں کٹا دیناباعثِ افتخار سمجھا جاتاہے، اور تاریخ ایسی مثالوں سے بھری پڑی ہے۔ پاکستان معرضِ وجود میں آیا تو اسے بھی ایک ایسے ہی ولولہ انگیز اورمعنویت سے بھرپور قومی ترانہ کی ضرورت تھی ۔چنانچہ اوائل 1948ء میں وزراتِ داخلہ نے اپنی سفارشات پر مبنی ایک سمری کیبنٹ ڈویژن کو بھجوائی۔ سفارشات کا خلاصہ یہ تھا کہ ملک کو ایک قومی ترانے کی ضرورت ہے ،چنانچہ ملک بھر کے بہترین شعراء کو پاکستان کا قومی ترانہ لکھنے کی دعوت دی جائے، ایک اعلیٰ سطحی کمیٹی بنائی جائے جو موصول ہونے والے ترانوں میں سے بہترین ترانے کا انتخاب کرے اور یہ بھی دیکھے کہ آیا یہ ترانہ کسی میوزیکل دُھن کے ساتھ ہم آہنگ کیاجاسکتا ہے۔ ان سفارشات کے ساتھ پاکستان براڈ کاسٹنگ سروس کے کنٹرولر سید ذوالفقار علی بخاری (زیڈ اے بخاری)کاایک نوٹ بھی منسلک تھا جس میں انہوں نے تجویز کیا ہو اتھا کہ قرآن کی سورہ فاتحہ کو ہی پاکستان کا قومی ترانہ بنالیاجائے۔ ان سفارشات کو 27فروری 1948ء کو وزیراعظم لیاقت علی خان کی زیرصدارت ہونے والے کابینہ کے اجلاس میں پیش کیا گیا ۔کابینہ نے سفارشات سے اتفاق کیا،تاہم کہا کہ پہلے ایک دُھن بنائی جائے اور پھر اس کے ساتھ ہم آہنگ ہوجانے والے نغمے لکھوائے جائیں، اوراس سارے کام کی نگرانی اور تکمیل کیلئے ایک کمیٹی بنائی جائے ۔ یہ بات اخبارات میں بھی آ گئی۔اس پر جنوبی فریقہ میں رہنے والے ایک شخص اے آر غنی نے حکومت پاکستان کو لکھا کہ وہ قومی ترانے کے لئے منتخب ہونے والی دُھن اور نغمے کے خالق کو پانچ ہزار روپے فی کس انعام دیں گے۔چنانچہ وزارتِ داخلہ نے 2جون 1948ء کو ایک پریس نوٹ کے ذریعے ملک بھر کے موسیقاروں اور شعراء کو قومی ترانے کیلئے دُھن بنانے اور نغمے لکھنے کی دعوت دی اور ان انعامات کا بھی ذکر کیا۔ اس اعلان کے جواب میں حکومت کو 723دُھنیں اور نغمے موصول ہوئے۔ دسمبر 1948ء کو وزیرِاعظم کی طرف سے قومی ترانہ کمیٹی (National Anthem Committee)کے نام سے سردار عبدالرب نشتر (وزیر مواصلات ) کی سربراہی میں 9رکنی کمیٹی قائم کی گئی جس کا کام موصول شدہ دُھنوں اور نغموں میں سے بہترین دُھن اورنغمے کومنتخب اور ہم آہنگ کرکے قومی ترانہ ترتیب دینااور کابینہ کے سامنے منظوری کیلئے پیش کرناتھا۔ اس کمیٹی کے دیگر اراکین میں عبدالستار پیرزادہ(وزیر خوراک و زراعت و صحت)، چوہدری نذیر احمد خاں (رکن آئین ساز اسمبلی)، راج کمار چکروتی(رکن آئین ساز اسمبلی) حفیظ جالندھری (نامورشاعر)، اے ڈی اظہر(بیوروکریٹ اور اہل قلم)، زید اے بخاری(کنٹرولر پاکستان براڈ کاسٹنگ سروس)،جسیم الدین (بیوروکریٹ اور بنگالی شاعر) اور ایس ایم اکرام (جائنٹ سیکرٹری وزارتِ اطلاعات ونشریات) تھے۔ اس کمیٹی نے مزید دوکمیٹیاں بنائیں۔ ایک کمیٹی بہترین دُھن اور ایک کمیٹی بہترین الفاظ (نغمے) کے انتخاب کیلئے ۔ دُھن کمیٹی نے موصول ہونے والی تمام دُھنوں کو سنا لیکن ان میں سے کوئی بھی معیار پر پورااُترتی محسوس نہ ہوئی۔ ان میں سے ایک دُھن ریڈیوپاکستان کے ایک موسیقار سجاد سرور نیازی کی بنائی ہوئی بھی تھی۔اس پر اے جی چھا گلہ (احمد غلام چھاگلہ)جو لندن کے مشہور ٹرینٹی میوزک سکول کے تربیت یافتہ اور ایک نامور موسیقار تھے اوراپنی اسی شہرت اور اہلیت کی بنا پر دُھن کمیٹی کے ممبر چنے گئے تھے سے درخواست کی گئی کہ وہ کوئی دُھن ترتیب دیں ۔ چھاگلہ نے دن رات ایک کرکے پاک بحریہ کے بینڈ کی مدد سے ایک دُھن ترتیب دی، جسے قومی ترانہ کمیٹی نے 10اگست 1949ء کو سنا اورمنظور کرلیا۔اِسی اثنا میں مارچ 1950ء میں شاہِ ایران کا دورہ پاکستان آگیا۔ ایسے مواقع پر استقبالیہ اور دیگر تقاریب میں میزبان اور مہمان ملک کے قومی ترانے بجائے جاتے ہیں۔اب مسئلہ پیداہوگیا کہ پاکستان کا تو ابھی تک کوئی قومی ترانہ ہی نہیں بنا، تو کیاکیاجائے۔ اس پر وزیراعظم کی توجہ اس طرف دلائی گئی کہ قومی ترانے کیلئے اے جی چھاگلہ کی ترتیب دی ہوئی ایک دُھن منظورکی جاچکی ہے لیکن اسے ابھی باقاعدہ منظوری کیلئے کابینہ کے سامنے پیش نہیں کیاگیا کیونکہ ابھی تک اس کے ساتھ ہم آہنگ کرنے کیلئے کوئی نغمہ منتخب نہیں کیاجاسکا۔ وزیراعظم کی خواہش پر ان کے سامنے اس دُھن کو بجایاگیا جنہیں انہوں نے پسند کیا اور حکم دیا کہ شاہِ ایران کی آمد کے موقع پر اسے ہی پاکستان کے قومی ترانے کے طور پر بجایاجائے۔چنانچہ یکم مارچ 1950ء کو شاہِ ایران کی آمد پر اس دُھن کوپہلی بار سرکاری ترانے کے طور پر پاک بحریہ کے بینڈ پر بجایاگیا۔ اس کے دوماہ بعد 3مئی 1950ء کووزیراعظم کو امریکہ کے دورہ پر جانا تھا ۔ وہاں بھی پاکستان کے قومی ترانے کے طور پر اسی دُھن کو بھجوایا اور بجایاگیا ۔یوں کابینہ کی طرف سے باقاعدہ سرکاری منظوری سے قبل ہی اس دُھن کو عارضی طور پر پاکستان کے قومی ترانے کے طور پر اختیار کرلیا گیا اور باقاعدہ منظوری تک یہی دُھن پاکستان کے اندر اور باہر سرکاری تقریبات میں بجائی گئی۔ اس دوران کابینہ کی ایک میٹنگ میں فیصلہ کیاگیا کہ چھاگلہ کی دُھن کو حتمی تصور نہ کیاجائے ۔اگر اس سے بہتر کوئی دُھن مل جائے تو اُس کو اختیار کیاجاسکتاہے ۔چنانچہ ایس ایس نیاز ی اور اے جی چھاگلہ کی دُھنیں باہمی موازنے اور اُن کے تکنیکی معیار کی جانچ پڑتال کیلئے بی بی سی لند ن کو بھجوائی گئیں۔ادھر سے بھی یہی رپورٹ موصول ہوئی کہ چھاگلہ کی دُھن تکنیکی طور پر نیازی کی دُھن سے بہتر ہے۔ 30دسمبر 1953ء کو کابینہ کے اجلاس میں اِن دونوں دُھنوں کو بجایاگیا اور اتفاقِ رائے سے اے جی چھاگلہ کی دُھن کو پاکستان کے قومی ترانے کیلئے رسمی اور باقاعدہ طور پر منتخب کرلیاگیا۔
دوسری طرف مناسب نغمے کے انتخاب کا معاملہ تھا ۔ شروع شروع میں تجویز کیاگیا کہ ایک قومی ترانہ اُردو زبان میں اور ایک بنگالی زبان میں بنایاجائے اور دونوں پاکستان کے قومی ترانے شمار ہوں۔بنگالی زبان میں تو بنگا ل کے مشہور شاعر قاضی نذرالاسلام کا نغمہ میسر آگیا لیکن اُردو نغمے کیلئے خاصی تگ ودوکرناپڑی۔ اب ساتھ یہ بھی شرط تھی کہ نغمہ اے جی چھاگلہ کی دُھن پر لکھا جائے ۔اگر چہ ایک موقع پر قومی ترانہ کمیٹی کے چیرمین نے اپنے تحفظات کا اظہار کیا کہ پہلے دُھن اور پھر نغمہ کے بجائے پہلے نغمہ اور پھر اس کے مطابق دُھن ہوناچاہئے ، لیکن وزیراعظم کا فیصلہ حاوی رہا۔ابھی کوئی نغمہ منتخب نہیں ہوا تھا کہ یہ فیصلہ ہوا کہ چونکہ پاکستان کی قومی زبان اُردو ہے ، اس لئے صرف ایک ہی ترانہ اور وہ اُردو زبان میں ہونا چاہئے۔ چنانچہ بنگالی ترانے کا انتخاب ترک کر دیا گیا۔
29مارچ 1951ء کو قومی ترانہ کمیٹی نے بہت سارے نغمات کاجائزہ لے کر فیصلہ دیا کہ حفیظ جالندھری اور حکیم احمد شجاع کے نغمات بہترین ہیں لہذا اِن کو چھاگلہ کی دُھن سے ہم آہنگ کیاجائے۔حفیظ جالندھری کا نغمہ تو ہم آہنگ ہوگیا، لیکن حکیم احمد شجاع کا نغمہ چھاگلہ کی دُھن سے مطلوبہ تکنیکی معیار کے مطابق ہم آہنگ نہ ہوسکا، لہذا اسے ترک کردیاگیا۔ اس دوران بہت ساوقت گذر گیا۔ ریڈیوپاکستان کے کنٹرولر براڈ کاسٹنگ ،زیڈ اے بخاری ،اپنی سرکاری حیثیت کی وجہ سے ان سارے معاملات میں بہت اہم اور متحرک تھے۔ انہوں نے اپنا ایک نغمہ بھی اس مقابلے میں بھجوا رکھا تھا۔ انہوں نے کوشش کرکے اپنا نغمہ بھی دُھن کے ساتھ ہم آہنگ کرکے کمیٹی کے سامنے پیش کردیا۔اسے بھی بہتر پایاگیا ۔اب مقابلہ حفیظ جالندھری اور زیڈ اے بخاری کے نغمات کے درمیان آن پڑا۔ ایک موقع پر یہاں تک فیصلہ ہوا کہ قومی ترانے کا پہلا بند زیڈ اے بخاری اور آخری دو بند حفیظ جالندھری کے نغمے سے لے لئے جائیں۔ اس فیصلہ پر حفیظ جالندھری نے شدید تحفظات کا اظہار کیا اور کہا کہ نغمہ ایک ہی شاعر کا ہونا چاہئے خواہ وہ کسی شاعر کا ہو۔ اسی دوران کابینہ کے ایک دو ممبران نے حفیظ جالندھری سے درخواست کی کہ وہ اپنے نغمے میں الفاظ ’پرچم‘ اور ’جانِ استقبال‘ کی ترکیب پر نظر ثانی کریں اور ان کے کوئی متبادل الفاظ شامل کردیں۔ حفیظ جالندھری نے اس پر ایک مدلل اور پُر مغز جواب ارسال کرکے اپنے انہی الفاظ وترکیب پر اصرار کیا اور اسے بدلنے سے انکار کردیا۔ بالآخر 4اگست 1954ء کو کابینہ نے اپنے حتمی فیصلے میں اے جی چھاگلہ کی دُھن پر حفیظ جالندھری کے اصل نغمہ کو ہم آہنگ کرکے بنے ہوئے ترانے کو پاکستان کے قومی ترانہ کے طور پر منظور کرلیا۔ اس ترانے کو پاکستان کے منظور شدہ قومی ترانے کے طور پر پہلی بار ریڈیوپاکستان پر 14اگست 1954ء کو ابوالعصر حفیظ جالندھری نے خود اپنی آواز میں گایا۔حفیظ جالندھری کے ترانے کو اپنی آواز میں گانے پر کسی کو حیرت نہیں ہونی چاہئے ۔حفیظ جالندھری ایک عظیم شاعر ہونے کے ساتھ ساتھ ایک بہت اچھے گائیک بھی تھے۔شروع سے ہی مسلم لیگ کے جلسوں میں عوام کو گرمانے کیلئے وہ اپنا کلام خصوصاً’شاہ نامہ اسلام‘ ترنم کے ساتھ گایاکرتے تھے۔ اُنہوں نے اپنا یہ کلام حضرت علامہ اقبالؒ اور حضرت قائداعظمؒ کی زیرِ صدارت اجلاسوں میں بھی گا یا اور داد پائی۔ بعد ازاں1955ء میں پاکستان کا قومی ترانہ ملک کے اُس وقت کے گیارہ ممتاز گلوکاروں شمیم بانو، کوکب جہاں، رشیدہ بیگم، نجم آراء، نسیم شاہین، احمد رشدی، زوار حسین، اختر عباس، غلام دستگیر، انور ظہیر، اختر وصی علی کی مشترکہ آواز میں ریکارڈ کیاگیا۔اور یہی وہ ترانہ ہے جو تب سے اب تک ہر جگہ بجایاجاتاہے۔ قومی ترانہ ریکارڈ کرنے میں 21آلاتِ موسیقی اور 38مختلف ٹونز استعمال کی گئیں۔ اس کا مکمل دورانیہ ایک منٹ اور بیس سیکنڈ ہے۔
پاکستان کے قومی ترانے کی دُھن بڑی بلند آہنگ اوردبنگ ہے جو انسانی طبیعت میں ولولہ اور جوش وخروش کی کیفیت پیدا کرتی ہے۔ قومی ترانہ فوجی بینڈ سے مکمل طور پر ہم آہنگ ہے اوراسی خصوصیت کی بناپردنیاکے کسی بھی ملک کے فوجی بینڈ پر آسانی سے بجایاجاسکتاہے ۔ قومی ترانہ فارسی زبان کاایک خوبصورت مرقع، نظریہ پاکستان کا ترجمان، سرزمین پاکستان کی خوبصورتی اور شان وشوکت کا مظہر ، پاکستانی عوام کی عظمتوں کا امین، ان کے شاندار ماضی وحال اور بہترین مستقبل کا پیش گواور خدائے ذوالجلال کے سایۂ لطف وکرم کا طالب ہے۔ ایک عالمگیر سروے کے مطابق پاکستان کا قومی ترانہ اپنی دُھن کے تکنیکی معیار اور الفاظ کی معنویت کے اعتبار سے دنیاکے تین بہترین ترانوں میں سے ایک ہے۔ (بحوالہ ’’پاکستان ۔۔۔میری محبت‘‘ از ڈاکٹر صفدرمحمود، ’ ’پاکستان کرانیکل‘‘ مرتّبہ عقیل عباس جعفری ، ’’انسائیکلوپیڈیا پاکستانیکا‘‘ مرتّبہ سید قاسم محمود، ’’انسائیکلوپیڈیاتحریکِ پاکستان‘‘ مرتبہ احمد سلیم شیخ، ’’تاریخ قومی ترانہ پاکستان۔۔کیبنٹ ڈویژن کے ریکارڈ کے مطابق‘‘ مرتّبہ حکومتِ پاکستان، ’’اکابرینِ پاکستان ‘‘ از محمد علی چراغ و کتب دیگر)
از محمد الطاف قمر(سابق انسپکٹر جنرل پولیس )
پاکستان کا قومی ترانہ ’ پاک سرزمین شاد باد کشور حسین شاد باد‘ خون کو گرما دینے والی دبنگ دُھن اور دل کی گہرائیوں کو چھُو لینے والی شاعری کاایک خوبصورت مرقع ہے ۔ یہ کب اور کن مراحل سے گذر کر معرض وجود میں آیا ،اس پرکچھ لکھنے سے پہلے ایک افسانوی روایت کی تردید ضروری ہے جس کا آج کل سوشل میڈیا پر چرچا ہے اوردرحقیقت اسی نے مجھے یہ مضمون لکھنے پر آمادہ کیا۔ اس روایت کے مطابق ’’حضرت قائد اعظمؒ نے قیام پاکستان سے قبل 9اگست 1947ء کو اپنے دوست جگن ناتھ آزاد کو بطور خاص بلایا اور کہا کہ 14اگست سے پہلے پہلے پاکستان کا قومی ترانہ لکھ کر دو ، جسے 14اگست کو ریڈیو پاکستان پر بجایاجائے گا۔ حکم کی تعمیل کرتے ہو ئے جگن ناتھ آزاد نے ایک ترانہ لکھ کر قائد اعظم ؒ کو پیش کردیا جو14/15اگست کی رات ریڈیوپاکستان پربجایاگیا اور پھر اس کے بعد 18ماہ تک پاکستان میں ہر جگہ بجتا رہا، لیکن پھر اسے اس بناپر ترک کردیاگیا کہ وہ ایک ہندوکا لکھا ہواتھا۔‘‘
برسوں قبل جب یہ خود ساختہ روایت سامنے آئی اوربار بار دُہرائی گئی تو پاکستان کے نامور مؤرخ اور محقق ڈاکٹر صفدر محمودنے ،جو تحریک پاکستان اور قائد اعظمؒ پر ایک اتھارٹی کی حیثیت رکھتے ہیں، ایک قومی ذمہ داری اور چیلنج سمجھتے ہوئے اس روایت کی تصدیق یا تردید کا بیڑا اُٹھایا، اور پھر تحقیق کا حق ادا کردیا۔ اس تحقیق کیلئے وہ حکومت پاکستان کے نیشنل آرکائیو گئے ۔موضوع سے متعلق ایک ایک کاغذ دیکھا اور پڑھا، قائد اعظم کی 7اگست 1947ء کو کراچی آمد سے لیکر 15اگست 947ء تک ایک ایک لمحہ کی مصروفیت کاریکارڈ دیکھا، قیام پاکستان سے بہت پہلے سے لے کر 25اپریل1948ء تک قائد اعظم سے ملنے والوں کی مصدقہ فہرست دیکھی، قائد اعظمؒ کے اُن دنوں کے اے ڈی سی، جناب عطاربانی، جو قائد اعظمؒ کی تمام مصروفیات اور ملاقاتوں کا اہتمام کرتے تھے، سے ملاقات کرکے جگن ناتھ آزاد کے ساتھ قائد کی کسی ملاقات کے بارے میں دریافت کیا ۔اس کے بعد ریڈیوپاکستان کی14اگست 1947ء سے لیکر بہت بعد تک کی ایک ایک منٹ کی ٹرانسمیشن کاریکارڈ چیک کیا ،اُس وقت کے ریڈیو پاکستان سے وابستہ افسران سے ملاقاتیں کرکے اِس بارے میں دریافت کیا۔ مختلف مؤرخین اور مضمون نگاروں کی کتابوں سے اس زمانے کے واقعات ومعاملات کی تفصیلات پڑھیں اور اس دور کے اخبار ات اوردرسی کتب کوکھنگالا۔ اُن کی اس تمام تحقیق کا نچوڑ یہ تھا کہ جگن ناتھ آزاد نامی کسی شخص کا کسی بھی وقت ایک سیکنڈ کیلئے بھی قائد اعظمؒ کے ساتھ کسی قسم کا کوئی رابطہ ،ملاقات یاگفتگو ثابت نہیں۔ یہاں تک کہ جگن ناتھ آزاد کا قائداعظمؒ کی اندرون خانہ یا بیرون خانہ کسی سرکاری یا نجی میٹنگ ،محفل یامجلس میں محض موجود ہونا بھی نہیں پایاگیا، اور نہ ہی اُس کے کسی گیت کو ریڈیو پاکستان سے کبھی قومی ترانے کی حیثیت سے پڑھا،گایا یابجایا گیا۔
جگن ناتھ آزاد معروف شاعرتلوک چند محروم کا بیٹا تھا۔ میانوالی میں پیداہوا، گورڈن کالج راولپنڈی سے بی اے اور پنجاب یونیورسٹی سے ایم اے فارسی کیا۔قیام پاکستان کے وقت وہ قطعی طور پر ایک غیرمعروف شخص اور ایک پاکستان مخالف اخبار ’جے ہند‘کے ساتھ منسلک تھا۔اُس وقت اُس کی عمر 29سال جبکہ قائداعظمؒ کی عمر 71سال تھی۔ قائداعظم بمبئی میں جبکہ جگن ناتھ آزاد لاہور میں رہتا تھا۔ اِن حقائق کے پیشِ نظر اِ ن دونوں کی دوستی تو کجا، تعارف تک نظر نہیں آتا۔جگن ناتھ آزاد قیام پاکستان کے ایک ماہ بعد ستمبر 1947ء میں اپنے ’دوست‘ اور اس کی عمر بھی کی جدوجہد اور خوابوں کی تعبیر ’پاکستان‘ اور پاکستان کیلئے اپنا لکھا ہوا ’قومی ترانہ‘،جو اس افسانے کے مطابق پاکستان میں ہر جگہ بج رہا تھا ، چھوڑ کر ہندوستان ہجرت کرگیا۔ ایک ماہ بعدلاہور واپس آیا،کچھ روز اپنے مسلمان دوستوں کے گھر چھُپ چھُپا کر رہا لیکن حالات کو ناموافق پاکردوبارہُ واپس چلا گیا اور مستقلاً ہندوستان میں بس گیا۔ تاہم حالات نارمل ہونے کے بعد وہ وقتاً فوقتاً پاکستان آتا جاتا رہا۔بے شک اس کا لکھا ہوا ایک ملی نغمہ ریکارڈ پر موجود ہے جس سے اِس کی پاکستان سے محبت ظاہر ہوتی ہے ۔لیکن یہ حقیقت اپنی جگہ موجود ہے کہ تحریک پاکستان ا ور ان کے اکابرین پر لکھی ہوئی درجنوں مصدقہ کتابوں اور انسائیکلوپیڈیاز میں جہاں عام سے عام چیز ،جگہ یا شخص جس کا پاکستان کے ساتھ کوئی معمولی سے معمولی تعلق بھی رہا ہو کا ذکرموجود ہے وہاں جگن ناتھ آزاد کا اِن کتابوں میں سِرے سے کوئی ذکرنہیں۔ ایسے شخص کو قائداعظمؒ کادوست گرداننا، اور قائداعظم کا اپنی صفوں میں موجود حفیظ جالندھری ،مولانا ظفر علی خان، مولانا حسرت موہانی جیسے بلند پایۂ شعراء کو چھوڑ کر،اور کسی ساتھی سے مشورہ کئے بغیر ،جگن ناتھ آزاد جیسے غیرمعروف شاعر سے پاکستان کا قومی ترانہ لکھوانا کسی طرح قرینِ قیاس نہیں۔ مزے کی بات یہ ہے کہ جگن ناتھ آزاد نے خود کبھی بھی قائد اعظم سے اپنی دوستی ، اُن کے کہنے پر کوئی ترانہ لکھنے اور اِس ترانے کا پاکستان کے قومی ترانے کے طور پر ریڈیو پاکستان پر بجائے جانے کا دعویٰ نہیں کیا۔ممکنہ طور پر یہ شوشہ اُن سیکولر عناصر کا چھوڑا ہوا ہے جنہیں پاکستان کا اسلامی تشخص ایک آنکھ نہیں بھاتا ،اور وہ اس شو شے کے ذریعے یہ باور کراناچاہتے ہیں کہ اگرپاکستان ایک سیکولر ملک ہوتاتو یہاں سب مذاہب کے ماننے والوں کو ایک نظر سے دیکھا جاتا،اور کسی ہندوکا لکھا ہوا ترانہ یوں رد نہ کیاجاتا، جوکہ سراسر خلافِ حقیقت اور خلافِ حقائق ہے۔
ریکارڈ کی اس درستگی کے بعد میں اصل موضوع کی طرف آتاہوں کہ پاکستان کا قومی ترانہ کب اور کن کن مراحل سے گذر کر معرضِ وجود میں آیا۔ قومی پرچم اور قومی ترانہ کسی بھی ملک کے نظریۂ وجود ،ماضی کی شان، حال کی آن اور مستقبل کی بان کا مظہر ہوتاہے۔ اس کی عزت و حرمت پر گردنیں کٹا دیناباعثِ افتخار سمجھا جاتاہے، اور تاریخ ایسی مثالوں سے بھری پڑی ہے۔ پاکستان معرضِ وجود میں آیا تو اسے بھی ایک ایسے ہی ولولہ انگیز اورمعنویت سے بھرپور قومی ترانہ کی ضرورت تھی ۔چنانچہ اوائل 1948ء میں وزراتِ داخلہ نے اپنی سفارشات پر مبنی ایک سمری کیبنٹ ڈویژن کو بھجوائی۔ سفارشات کا خلاصہ یہ تھا کہ ملک کو ایک قومی ترانے کی ضرورت ہے ،چنانچہ ملک بھر کے بہترین شعراء کو پاکستان کا قومی ترانہ لکھنے کی دعوت دی جائے، ایک اعلیٰ سطحی کمیٹی بنائی جائے جو موصول ہونے والے ترانوں میں سے بہترین ترانے کا انتخاب کرے اور یہ بھی دیکھے کہ آیا یہ ترانہ کسی میوزیکل دُھن کے ساتھ ہم آہنگ کیاجاسکتا ہے۔ ان سفارشات کے ساتھ پاکستان براڈ کاسٹنگ سروس کے کنٹرولر سید ذوالفقار علی بخاری (زیڈ اے بخاری)کاایک نوٹ بھی منسلک تھا جس میں انہوں نے تجویز کیا ہو اتھا کہ قرآن کی سورہ فاتحہ کو ہی پاکستان کا قومی ترانہ بنالیاجائے۔ ان سفارشات کو 27فروری 1948ء کو وزیراعظم لیاقت علی خان کی زیرصدارت ہونے والے کابینہ کے اجلاس میں پیش کیا گیا ۔کابینہ نے سفارشات سے اتفاق کیا،تاہم کہا کہ پہلے ایک دُھن بنائی جائے اور پھر اس کے ساتھ ہم آہنگ ہوجانے والے نغمے لکھوائے جائیں، اوراس سارے کام کی نگرانی اور تکمیل کیلئے ایک کمیٹی بنائی جائے ۔ یہ بات اخبارات میں بھی آ گئی۔اس پر جنوبی فریقہ میں رہنے والے ایک شخص اے آر غنی نے حکومت پاکستان کو لکھا کہ وہ قومی ترانے کے لئے منتخب ہونے والی دُھن اور نغمے کے خالق کو پانچ ہزار روپے فی کس انعام دیں گے۔چنانچہ وزارتِ داخلہ نے 2جون 1948ء کو ایک پریس نوٹ کے ذریعے ملک بھر کے موسیقاروں اور شعراء کو قومی ترانے کیلئے دُھن بنانے اور نغمے لکھنے کی دعوت دی اور ان انعامات کا بھی ذکر کیا۔ اس اعلان کے جواب میں حکومت کو 723دُھنیں اور نغمے موصول ہوئے۔ دسمبر 1948ء کو وزیرِاعظم کی طرف سے قومی ترانہ کمیٹی (National Anthem Committee)کے نام سے سردار عبدالرب نشتر (وزیر مواصلات ) کی سربراہی میں 9رکنی کمیٹی قائم کی گئی جس کا کام موصول شدہ دُھنوں اور نغموں میں سے بہترین دُھن اورنغمے کومنتخب اور ہم آہنگ کرکے قومی ترانہ ترتیب دینااور کابینہ کے سامنے منظوری کیلئے پیش کرناتھا۔ اس کمیٹی کے دیگر اراکین میں عبدالستار پیرزادہ(وزیر خوراک و زراعت و صحت)، چوہدری نذیر احمد خاں (رکن آئین ساز اسمبلی)، راج کمار چکروتی(رکن آئین ساز اسمبلی) حفیظ جالندھری (نامورشاعر)، اے ڈی اظہر(بیوروکریٹ اور اہل قلم)، زید اے بخاری(کنٹرولر پاکستان براڈ کاسٹنگ سروس)،جسیم الدین (بیوروکریٹ اور بنگالی شاعر) اور ایس ایم اکرام (جائنٹ سیکرٹری وزارتِ اطلاعات ونشریات) تھے۔ اس کمیٹی نے مزید دوکمیٹیاں بنائیں۔ ایک کمیٹی بہترین دُھن اور ایک کمیٹی بہترین الفاظ (نغمے) کے انتخاب کیلئے ۔ دُھن کمیٹی نے موصول ہونے والی تمام دُھنوں کو سنا لیکن ان میں سے کوئی بھی معیار پر پورااُترتی محسوس نہ ہوئی۔ ان میں سے ایک دُھن ریڈیوپاکستان کے ایک موسیقار سجاد سرور نیازی کی بنائی ہوئی بھی تھی۔اس پر اے جی چھا گلہ (احمد غلام چھاگلہ)جو لندن کے مشہور ٹرینٹی میوزک سکول کے تربیت یافتہ اور ایک نامور موسیقار تھے اوراپنی اسی شہرت اور اہلیت کی بنا پر دُھن کمیٹی کے ممبر چنے گئے تھے سے درخواست کی گئی کہ وہ کوئی دُھن ترتیب دیں ۔ چھاگلہ نے دن رات ایک کرکے پاک بحریہ کے بینڈ کی مدد سے ایک دُھن ترتیب دی، جسے قومی ترانہ کمیٹی نے 10اگست 1949ء کو سنا اورمنظور کرلیا۔اِسی اثنا میں مارچ 1950ء میں شاہِ ایران کا دورہ پاکستان آگیا۔ ایسے مواقع پر استقبالیہ اور دیگر تقاریب میں میزبان اور مہمان ملک کے قومی ترانے بجائے جاتے ہیں۔اب مسئلہ پیداہوگیا کہ پاکستان کا تو ابھی تک کوئی قومی ترانہ ہی نہیں بنا، تو کیاکیاجائے۔ اس پر وزیراعظم کی توجہ اس طرف دلائی گئی کہ قومی ترانے کیلئے اے جی چھاگلہ کی ترتیب دی ہوئی ایک دُھن منظورکی جاچکی ہے لیکن اسے ابھی باقاعدہ منظوری کیلئے کابینہ کے سامنے پیش نہیں کیاگیا کیونکہ ابھی تک اس کے ساتھ ہم آہنگ کرنے کیلئے کوئی نغمہ منتخب نہیں کیاجاسکا۔ وزیراعظم کی خواہش پر ان کے سامنے اس دُھن کو بجایاگیا جنہیں انہوں نے پسند کیا اور حکم دیا کہ شاہِ ایران کی آمد کے موقع پر اسے ہی پاکستان کے قومی ترانے کے طور پر بجایاجائے۔چنانچہ یکم مارچ 1950ء کو شاہِ ایران کی آمد پر اس دُھن کوپہلی بار سرکاری ترانے کے طور پر پاک بحریہ کے بینڈ پر بجایاگیا۔ اس کے دوماہ بعد 3مئی 1950ء کووزیراعظم کو امریکہ کے دورہ پر جانا تھا ۔ وہاں بھی پاکستان کے قومی ترانے کے طور پر اسی دُھن کو بھجوایا اور بجایاگیا ۔یوں کابینہ کی طرف سے باقاعدہ سرکاری منظوری سے قبل ہی اس دُھن کو عارضی طور پر پاکستان کے قومی ترانے کے طور پر اختیار کرلیا گیا اور باقاعدہ منظوری تک یہی دُھن پاکستان کے اندر اور باہر سرکاری تقریبات میں بجائی گئی۔ اس دوران کابینہ کی ایک میٹنگ میں فیصلہ کیاگیا کہ چھاگلہ کی دُھن کو حتمی تصور نہ کیاجائے ۔اگر اس سے بہتر کوئی دُھن مل جائے تو اُس کو اختیار کیاجاسکتاہے ۔چنانچہ ایس ایس نیاز ی اور اے جی چھاگلہ کی دُھنیں باہمی موازنے اور اُن کے تکنیکی معیار کی جانچ پڑتال کیلئے بی بی سی لند ن کو بھجوائی گئیں۔ادھر سے بھی یہی رپورٹ موصول ہوئی کہ چھاگلہ کی دُھن تکنیکی طور پر نیازی کی دُھن سے بہتر ہے۔ 30دسمبر 1953ء کو کابینہ کے اجلاس میں اِن دونوں دُھنوں کو بجایاگیا اور اتفاقِ رائے سے اے جی چھاگلہ کی دُھن کو پاکستان کے قومی ترانے کیلئے رسمی اور باقاعدہ طور پر منتخب کرلیاگیا۔
دوسری طرف مناسب نغمے کے انتخاب کا معاملہ تھا ۔ شروع شروع میں تجویز کیاگیا کہ ایک قومی ترانہ اُردو زبان میں اور ایک بنگالی زبان میں بنایاجائے اور دونوں پاکستان کے قومی ترانے شمار ہوں۔بنگالی زبان میں تو بنگا ل کے مشہور شاعر قاضی نذرالاسلام کا نغمہ میسر آگیا لیکن اُردو نغمے کیلئے خاصی تگ ودوکرناپڑی۔ اب ساتھ یہ بھی شرط تھی کہ نغمہ اے جی چھاگلہ کی دُھن پر لکھا جائے ۔اگر چہ ایک موقع پر قومی ترانہ کمیٹی کے چیرمین نے اپنے تحفظات کا اظہار کیا کہ پہلے دُھن اور پھر نغمہ کے بجائے پہلے نغمہ اور پھر اس کے مطابق دُھن ہوناچاہئے ، لیکن وزیراعظم کا فیصلہ حاوی رہا۔ابھی کوئی نغمہ منتخب نہیں ہوا تھا کہ یہ فیصلہ ہوا کہ چونکہ پاکستان کی قومی زبان اُردو ہے ، اس لئے صرف ایک ہی ترانہ اور وہ اُردو زبان میں ہونا چاہئے۔ چنانچہ بنگالی ترانے کا انتخاب ترک کر دیا گیا۔
29مارچ 1951ء کو قومی ترانہ کمیٹی نے بہت سارے نغمات کاجائزہ لے کر فیصلہ دیا کہ حفیظ جالندھری اور حکیم احمد شجاع کے نغمات بہترین ہیں لہذا اِن کو چھاگلہ کی دُھن سے ہم آہنگ کیاجائے۔حفیظ جالندھری کا نغمہ تو ہم آہنگ ہوگیا، لیکن حکیم احمد شجاع کا نغمہ چھاگلہ کی دُھن سے مطلوبہ تکنیکی معیار کے مطابق ہم آہنگ نہ ہوسکا، لہذا اسے ترک کردیاگیا۔ اس دوران بہت ساوقت گذر گیا۔ ریڈیوپاکستان کے کنٹرولر براڈ کاسٹنگ ،زیڈ اے بخاری ،اپنی سرکاری حیثیت کی وجہ سے ان سارے معاملات میں بہت اہم اور متحرک تھے۔ انہوں نے اپنا ایک نغمہ بھی اس مقابلے میں بھجوا رکھا تھا۔ انہوں نے کوشش کرکے اپنا نغمہ بھی دُھن کے ساتھ ہم آہنگ کرکے کمیٹی کے سامنے پیش کردیا۔اسے بھی بہتر پایاگیا ۔اب مقابلہ حفیظ جالندھری اور زیڈ اے بخاری کے نغمات کے درمیان آن پڑا۔ ایک موقع پر یہاں تک فیصلہ ہوا کہ قومی ترانے کا پہلا بند زیڈ اے بخاری اور آخری دو بند حفیظ جالندھری کے نغمے سے لے لئے جائیں۔ اس فیصلہ پر حفیظ جالندھری نے شدید تحفظات کا اظہار کیا اور کہا کہ نغمہ ایک ہی شاعر کا ہونا چاہئے خواہ وہ کسی شاعر کا ہو۔ اسی دوران کابینہ کے ایک دو ممبران نے حفیظ جالندھری سے درخواست کی کہ وہ اپنے نغمے میں الفاظ ’پرچم‘ اور ’جانِ استقبال‘ کی ترکیب پر نظر ثانی کریں اور ان کے کوئی متبادل الفاظ شامل کردیں۔ حفیظ جالندھری نے اس پر ایک مدلل اور پُر مغز جواب ارسال کرکے اپنے انہی الفاظ وترکیب پر اصرار کیا اور اسے بدلنے سے انکار کردیا۔ بالآخر 4اگست 1954ء کو کابینہ نے اپنے حتمی فیصلے میں اے جی چھاگلہ کی دُھن پر حفیظ جالندھری کے اصل نغمہ کو ہم آہنگ کرکے بنے ہوئے ترانے کو پاکستان کے قومی ترانہ کے طور پر منظور کرلیا۔ اس ترانے کو پاکستان کے منظور شدہ قومی ترانے کے طور پر پہلی بار ریڈیوپاکستان پر 14اگست 1954ء کو ابوالعصر حفیظ جالندھری نے خود اپنی آواز میں گایا۔حفیظ جالندھری کے ترانے کو اپنی آواز میں گانے پر کسی کو حیرت نہیں ہونی چاہئے ۔حفیظ جالندھری ایک عظیم شاعر ہونے کے ساتھ ساتھ ایک بہت اچھے گائیک بھی تھے۔شروع سے ہی مسلم لیگ کے جلسوں میں عوام کو گرمانے کیلئے وہ اپنا کلام خصوصاً’شاہ نامہ اسلام‘ ترنم کے ساتھ گایاکرتے تھے۔ اُنہوں نے اپنا یہ کلام حضرت علامہ اقبالؒ اور حضرت قائداعظمؒ کی زیرِ صدارت اجلاسوں میں بھی گا یا اور داد پائی۔ بعد ازاں1955ء میں پاکستان کا قومی ترانہ ملک کے اُس وقت کے گیارہ ممتاز گلوکاروں شمیم بانو، کوکب جہاں، رشیدہ بیگم، نجم آراء، نسیم شاہین، احمد رشدی، زوار حسین، اختر عباس، غلام دستگیر، انور ظہیر، اختر وصی علی کی مشترکہ آواز میں ریکارڈ کیاگیا۔اور یہی وہ ترانہ ہے جو تب سے اب تک ہر جگہ بجایاجاتاہے۔ قومی ترانہ ریکارڈ کرنے میں 21آلاتِ موسیقی اور 38مختلف ٹونز استعمال کی گئیں۔ اس کا مکمل دورانیہ ایک منٹ اور بیس سیکنڈ ہے۔
پاکستان کے قومی ترانے کی دُھن بڑی بلند آہنگ اوردبنگ ہے جو انسانی طبیعت میں ولولہ اور جوش وخروش کی کیفیت پیدا کرتی ہے۔ قومی ترانہ فوجی بینڈ سے مکمل طور پر ہم آہنگ ہے اوراسی خصوصیت کی بناپردنیاکے کسی بھی ملک کے فوجی بینڈ پر آسانی سے بجایاجاسکتاہے ۔ قومی ترانہ فارسی زبان کاایک خوبصورت مرقع، نظریہ پاکستان کا ترجمان، سرزمین پاکستان کی خوبصورتی اور شان وشوکت کا مظہر ، پاکستانی عوام کی عظمتوں کا امین، ان کے شاندار ماضی وحال اور بہترین مستقبل کا پیش گواور خدائے ذوالجلال کے سایۂ لطف وکرم کا طالب ہے۔ ایک عالمگیر سروے کے مطابق پاکستان کا قومی ترانہ اپنی دُھن کے تکنیکی معیار اور الفاظ کی معنویت کے اعتبار سے دنیاکے تین بہترین ترانوں میں سے ایک ہے۔ (بحوالہ ’’پاکستان ۔۔۔میری محبت‘‘ از ڈاکٹر صفدرمحمود، ’ ’پاکستان کرانیکل‘‘ مرتّبہ عقیل عباس جعفری ، ’’انسائیکلوپیڈیا پاکستانیکا‘‘ مرتّبہ سید قاسم محمود، ’’انسائیکلوپیڈیاتحریکِ پاکستان‘‘ مرتبہ احمد سلیم شیخ، ’’تاریخ قومی ترانہ پاکستان۔۔کیبنٹ ڈویژن کے ریکارڈ کے مطابق‘‘ مرتّبہ حکومتِ پاکستان، ’’اکابرینِ پاکستان ‘‘ از محمد علی چراغ و کتب دیگر)
- تحریکِ پاکستان کے شہیدوں کا قرض از محمد الطاف قمر (سابق آئی جی پولیس) <<یہاں پڑہیں >>
View my Flipboard Magazine.
Related:
Love Pakistan: http://pakistan-posts.blogspot.com/p/love-pakistan.html
Why Pakistan? http://pakistan-posts.blogspot.com/p/why-pakistan.html
..........................................Love Pakistan: http://pakistan-posts.blogspot.com/p/love-pakistan.html
Why Pakistan? http://pakistan-posts.blogspot.com/p/why-pakistan.html
پنجاب ، سندھ ،بلوچ، انڈیا اور پختون اکثریت کے مسلمانوں نے پاکستان کے حق میں فیصلہ دیا- خیبر پختون خواہ (سابقہ صوبۂ سرحد) کے غیور مسلمانوں نے ہندوستان کی تقسیم کے وقت ،ریفریڈم میں اسلامک ریپبلک پاکستان کے حق میں ووٹ دے کر پختون قوم پرستی کوہمیشہ ہمیشہ کے لینے مسترد کردیا- اب پنجابی ، سندھی، بلوچی، پختون یا مہاجر قوم پرستی پر سیاست صرف انتشار، فساد اور پاکستان دشمن قوتوں کی مدد کے مترادف ہے- ہان اپنی برادری کے فایدہ، حقوق اور ترقی کے لیے کام کرنے پر کون اعتراض کر سکتا ہے؟
قرآن و حدیث کے واضح احکام کے بعد بھی اگر ہم نسل ، زبان کی بنیاد پر قوم پرستی کا پرچار کریں اور اپنے آپ کو مسلمان بھی کہیں یہ کیسے ممکن ہے ؟
قرآن و حدیث کے واضح احکام کے بعد بھی اگر ہم نسل ، زبان کی بنیاد پر قوم پرستی کا پرچار کریں اور اپنے آپ کو مسلمان بھی کہیں یہ کیسے ممکن ہے ؟
Over 100 Selected Videos on Pakistan
~ ~ ~ ~ ~ ~ ~ ~ ~ ~ ~ ~ ~ ~ ~ ~ ~ ~ ~ ~ ~
Humanity, Religion, Culture, Science, Peace
A Project of
Peace Forum Network
Peace Forum Network Mags
Books, Articles, Blogs, Magazines, Videos, Social Media
Overall 2 Million visits/hits
Peace Forum Network
Peace Forum Network Mags
Books, Articles, Blogs, Magazines, Videos, Social Media
Overall 2 Million visits/hits