بے جا تکرار
فوج کو ثالث ‘ ضامن یا سہولت کاربنایا جائے۔ فرق کیا ہے؟ فوج کی ذمہ داریاں کسی سے ڈھکی چھپی نہیں۔ بنیادی طور پر یہ ادارہ ملکی سلامتی کا ذمہ دار ہے۔ سرحدوں کادفاع کرتا ہے۔ اندرون ملک سلامتی اور یکجہتی کو لاحق خطرات میں خدمات انجام دیتا ہے۔ سیلاب‘ زلزلے اور دیگر قدرتی آفات میں عوام کی مدد کرتا ہے۔ اس کے یہی فرائض انتہائی اہمیت کے حامل ہیں۔ فوج کو جہاں بھی پکارا جائے‘ اسے ایک لمحے کی تاخیر کے بغیر ‘ خدمات فراہم کرنے کا عمل شروع کرنا پڑتا ہے۔ جنگ ‘ سیلاب‘ زلزلہ یا بدامنی ‘کسی بھی حالت میں فوج کے پاس مہلت نہیں ہوتی۔اسے ہر ممکن تیزرفتاری کے ساتھ جاب پر پہنچنا پڑتا ہے۔ جس کا مطلب یہ ہے کہ فوجی ‘ ہر لمحے ڈیوٹی پر مستعد رہتا ہے۔ ڈیوٹی کہیں بھی ہو‘ فوجی کی جان ہمیشہ خطرے میں ہوتی ہے۔ جنگ ہو‘ تو دشمن کی گولیوں‘ راکٹوں یا بموں کا نشانہ۔ سیلاب ہو‘ تو طوفانی لہروں کا ہدف۔ زلزلہ ہو‘ تو گرتی ہوئی عمارتوں اور چٹانوں کے خطرات۔ ہمہ وقت تیاری سے لے کر‘ زندگی قربان کرنے کی ہمہ وقت تیاری تک‘ فوجی کی زندگی کبھی محفوظ نہیں ہوتی۔ ایسی صورتحال اور فضا میں رہنے کے لئے‘ جس خاص ذہنی اور جسمانی تربیت کی ضرورت ہوتی ہے‘ اس میں سماجی برائیوں کے لئے فرصت ہی نہیں ہوتی۔ فوجی کی زندگی میں ریشہ دوانی‘ سازش‘ جوڑتوڑ‘ دھوکہ‘ فریب کاری اور دروغ جیسی چیزوں کا گزر ہی نہیں۔ اسی لئے وہ سیاست نہیں جانتا۔ہمارے ملک میں جتنے بھی فوجی حکمران آئے ‘ ان کا عرصہ اقتدار کتنا ہی طویل رہا ہو‘ وہ کامیاب سیاستدان ہرگز نہیں تھے۔ سب کے سب حتمی نتیجے میں سیاستدانوں سے مات کھاتے رہے۔ سب نے کسی نہ کسی انداز میں‘ معاشرے اور ملک کی دفاعی صلاحیت کونقصان پہنچایا۔ ایوب خان اور یحییٰ نے کشمیر اور مشرقی پاکستان میں جنگیں ہاریں۔ ضیاالحق اور پرویزمشرف نے‘ افغانستان کی جنگوں میں الجھ کر‘ پاکستان کی سٹریٹجک اور دفاعی طاقت کو نقصان پہنچانے کے علاوہ‘ پاکستان کے سماجی ڈھانچے کو بھی درہم برہم کر دیا۔ ملک کا کوئی حصہ دہشت گردوں سے محفوظ نہ رہا۔ اپنے پروفیشن پر یقین رکھنے اور فخر کرنے والے فوجی‘ اس ریکارڈ پر رشک نہیں کر سکتے۔ اکثر وہ آمروں کے دفاع سے گریزاں رہتے ہیں اور جو اس بیکارمشق میں پڑتے ہیں‘آخر میں انہیں لاجواب ہونا پڑتا ہے۔
میں نے کل کے کالم میں ان فوجی سربراہوں کا ذکر کیا تھا‘جنہیں اپنے منصب کے دوران اقتدار پر قابض ہونے کے مواقع ملے اور بعض کو تو پلیٹ میں رکھ کر اقتدار پیش کیا گیا‘ لیکن وہ ترغیب میں نہیں آئے۔ اقتدار وہ چیز ہے‘ جس کے لئے سیاستدان اپنی جان‘ عزت اور شہرت ہرچیز قربان کر دیتا ہے۔ قومی تاریخ میں‘ ایسا سیاستدان شاید ہی کوئی ہو‘ جسے اقتدار پلیٹ میں رکھ کر پیش کیا گیا ہو اور اس نے انکار کر دیا ہو‘ لیکن فوج میں جتنی مثالیں اقتدار پر قبضے کی ہیں‘ اس سے زیادہ یا برابر مثالیں‘ اقتدار کو ٹھکرانے کی ہیں۔ ایک فوجی کی تربیت اور فطرت ثانیہ میں‘ وطن کو جو تقدس اور مقام حاصل ہوتا ہے‘ اس کا عام شہری تصور نہیں کر سکتا اور جو فوجی پس منظررکھنے والے خاندانوں میں پیدا ہو کر‘ فوج کا حصہ بنتے ہیں‘ ان کی شخصیت کی ساخت ہی مختلف ہوتی ہے۔ سپاہ گری‘ ان کے خون اور پرورش میں شامل ہو جاتی ہے۔ ان کی مائیں اور خاندان کے بزرگ ‘ جنوں اور پریوں کی کہانیاں نہیں سناتے‘ آبائو اجداد کے جنگی کارنامے بتاتے ہیں۔ وہ خود بھی فوج اور اپنے خاندان کے برگزیدہ افراد سے متاثر ہوتے ہیں اور ان میں ایک منفرد جذبہ اور عزم یہ ہوتا ہے کہ وہ اپنے خاندان کی شہرت اور وقار پر دھبہ نہیںلگنے دیں گے۔عام شہریوں اور خصوصاً سیاستدانوں کو فوجیوں کے ساتھ معاملات کرتے وقت‘ ان باتوں کا بطور خاص خیال رکھنا چاہیے اور انہیں معلوم ہونا چاہیے کہ ہر فوجی ایک طرح کا نہیں ہوتا۔ بعض اپنی ترکیب میں مختلف اور منفرد ہوتے ہیں۔ پاکستان کے موجودہ چیف آف آرمی سٹاف‘ جنرل راحیل شریف انہی میں شامل ہیں۔گزشتہ چند روز میں انہیں جس تجربے سے گزرنا پڑا‘ میں صرف تصور کر سکتا ہوں کہ ان پر کیا گزری ہو گی؟ سیاستدان پر جھوٹ یا غلط بیانی کا الزام لگ جائے‘ تو یہ ان کے لئے روزمرہ کی بات ہوتی ہے اور ایک فخرمند فوجی کی سچائی پر ذرا سا شک بھی کر لیا جائے‘ تو یہ اس کے لئے کاری زخم کی طرح ہوتا ہے۔ ہمارے سیاستدانوں نے‘ جنرل راحیل شریف کے ساتھ گزشتہ چند روز میں جو کھیل کھیلا ہے‘ وہ اس فخرمند جنرل کی شایان شان نہیں۔ جنرل راحیل سے بات کرتے وقت‘ یہ بات ہمیشہ پیش نظر رکھنا چاہیے کہ ان کا تعلق پیشہ سپاہ گری میں‘ امتیازی مقام رکھنے والے کس خاندان کے ساتھ ہے۔ نشان حیدر وہ اعزاز ہے‘ جو صرف وطن پر جان قربان کرنے والوں کو نصیب ہوتا ہے۔ جس خاندان میں ایک نشان حیدر آ جائے‘ اس کی فخرمندی کا عالم ہی اور ہوتا ہے۔ ایسے خاندان سے دور کا تعلق رکھنے والے بھی باعزت اور قابل احترام سمجھے جاتے ہیں۔ ان سے بات کرتے وقت محتاط رہنا پڑتا ہے۔ ہمارے لوگوں اور ہمارے میڈیا نے‘ جنرل راحیل شریف کو جس گندی بحث کا موضوع بنایا‘ وہ نشان حیدر سے نسبت رکھنے والے خاندان کے لئے انتہائی تکلیف دہ ہے۔ میں عرض کرتا ہوں کس طرح۔
جنرل راحیل شریف کے حوالے سے‘ میڈیا میں ایک خبر آئی کہ وزیراعظم نے جنرل راحیل شریف کے ساتھ ایک ملاقات میں‘ فوج سے درخواست کی ہے کہ وہ اپوزیشن اور حکومت کے درمیان ثالث اور ضامن کا کردار ادا کرے۔ حکومت کے اعلیٰ ترین عہدوں پر فائز اراکین نے لگی لپٹی رکھے بغیر اس خبر کو غلط قرار دیا۔ یہ خبر وزیراعظم اور پاک فوج دونوں کے ذرائع سے ‘میڈیا میں بھیجی گئی۔ دونوں میں الفاظ مختلف تھے‘ لیکن حقیقت یہی تھی کہ وزیراعظم نے فوج سے کوئی کام کرنے کے لئے کہا ہے۔ اس ''کہنے کو‘‘ آپ کچھ بھی کہہ سکتے ہیں۔ حکم‘ درخواست‘ خواہش‘ فرمائش۔ مدعا یہی رہتا ہے کہ وزیراعظم نے‘ فوج سے کوئی کام کرنے کے لئے کہا۔ اس کام کی نوعیت فوج کے مقررہ پیشہ ورانہ فرائض کے دائرے میں نہیں آتی۔ فوج کی کسی کتاب میں یہ نہیں لکھا کہ حکومت جب اپنے سیاسی مخالفین کے ساتھ کشمکش یا محاذ آرائی کی کیفیت میں پھنس جائے‘ تو فوج کسی بھی طرح اس کی مدد کرنے کی پابند ہے۔ یہ معاملات حکومتوں کو خود نمٹاناہوتے ہیں اور اگر اپوزیشن کے ساتھ حکومت کا کوئی تنازعہ مذاکرات میں حل نہ ہو سکے‘ تو حکومت کے لئے دو ہی راستے ہوتے ہیں۔ یا اپوزیشن کو اپنی بات طاقت کے زور سے منوا لے یا دلائل سے قائل کر لے۔ تیسرا راستہ یعنی فوج سے مدد لینا کسی بھی اعتبار سے مناسب نہیں۔ جب کوئی حکومت ایسی صورت حال میں پھنس جائے کہ مخالفین ‘ دلیل سے قائل نہ ہوں اور احتجاجی تحریک کے ذریعے دبائو بڑھاتے جا رہے ہوں‘ تو حکومت کے پاس واحد راستہ یہ ہوتا ہے کہ وہ دوبارہ عوام کی طرف رجوع کر کے‘ فیصلے کا اختیار ان کے ہاتھ میں دے دے‘ کیونکہ جمہوریت میں عوام ہی حکمرانی کے فیصلوں میں حتمی اختیار رکھتے ہیں۔ وزیراعظم نے فوج کو سہولت کاری کے لئے کہا ہو؟ مدد کے لئے کہا ہو؟ معاونت کے لئے کہا ہو؟ یا ساتھ دینے کے لئے؟ حقیقت یہی ہے کہ وزیراعظم نے اپوزیشن کے ساتھ جھگڑے میں فوج سے مدد کے لئے کہا۔ فوج کے تعلقات عامہ کے محکمے‘ آئی ایس پی آر نے ایک پریس ریلیز میں یہ خبر جاری کر دی۔ اس میں کچھ بھی لکھا گیا ہو‘ مدعا یہی تھا کہ وزیراعظم نے فوج کو ایسے کام کے لئے کہا‘ جو اپوزیشن سے‘ ان کے تنازعے کا حل نکالنے کے لئے مددگار ثابت ہو۔ حکومت سیاسی طور پر فوج سے کی گئی اس فرمائش کو کچھ بھی کہہ لے‘ ثالثی‘ ضامنی یا سہولت کاری۔ حکومت نے بہرطور فوج سے کچھ مانگا ہے۔ یہی بات فوج نے اپنی پریس ریلیز میں کہی ہے۔ جب وزیرداخلہ اور وزیراعظم نے اس حقیقت کی بھاری بھرکم تردید کی‘ توآئی ایس پی آر کے سربراہ‘ میجرجنرل عاصم باجوہ نے اس ملاقات کے حوالے سے اپنی ٹویٹ میں لکھا :ـ"COAS was asked by the Govt to play facilitative role for resolution of current impasse, in yesterday's meeting, at #PM House."
لفظ"Impasse" کا مطلب پیچیدگی۔ وہ صورتحال جس سے بچناممکن نہ ہو۔ تعطل۔سخت مشکل۔بند گلی ہے۔گویا وزیراعظم نے یہ کہا کہ فوج‘ ان کی حکومت کو بندگلی ‘ تعطل یا پیچیدگی سے نکالنے کے لئے سہولت کاری کرے۔ان الفاظ کو آپ جتنا بھی توڑمروڑ لیں‘ مفہوم ایک ہی نکلتا ہے کہ وزیراعظم نے اپنی حکومت کو مشکل‘ پیچیدگی یا بند گلی سے نکالنے کی خاطر‘ سہولت کاری کے لئے کہا۔ خدالگتی کہیے کہ حکومت اور فوج کے سربراہوں کے مابین دوطرفہ کمیونیکیشن میں اس سطح کی تکرارمناسب ہے؟ جو وزیراعظم اور چیف آف آرمی سٹاف کے درمیان ہو رہی ہے؟ اگر جواب میں معذرت کے ساتھ کہہ دیا جائے کہ''سوری سر! اس بحث میں پڑنا ہمارے فرائض میں شامل نہیں۔‘‘ تو صورتحال کیا ہو گی؟
N.Naji. dunya.com.pk
Pages
- Home
- FrontPage
- FB
- Delusions
- Save Pakistan
- نظریہ پاکستان
- Electoral Reforms
- ووٹ کی شرعی حیثیت
- Kashmir
- Importance of Pakistan
- Love Pakistan
- Ideology of Pakistan نظریہ پاکستان
- Our Dilemma & Options
- Pak-Pedia
- One God
- Why Religion?
- Why Islam?
- Peace Forum
- Anti Islam FAQs
- Democracy, Shari'a & Khlafah
- Free eBooks
- Faith Forum
- خلافت
- Corruption
- Role of Ulema in Quran
- Reconstruction of Religious Thought
- Tolerance
- Altaf Qamar
- صرف مسلمان Muslim Only
- Free Books
- Islam & Pakistan
- Special Picks
- سلام انڈکس
Featured Post
FrontPage صفحہ اول
Salaam Pakistan is one of projects of "SalaamOne Network" , to provide information and intellectual resource with a view to...
Military Army mindset & politics
OVER SEAS PAKISTANIS CAN HELP GAIN AZADI for Whole PAKISTAN, How?
Pakistan' corrupt ruling mafia dance at humiliating conditions of IMF for just over 6 bn $ loan. Overseas Pakistanis remit around 1.2bn $ per month 14 Bn $ per year. If they stop just for one month Corrupt rulers will bow down to demands of IK for Freedom..
Share ... spread this message ....
#AzadiSquare #AzadiMarchPTI
AZADI MARCH PTI IS THE MOST HISTORICAL MOMENT OF PAK AND BIGGEST THREAT TO STATUS QUO FORCES – DR. FARRUKH SALEEM
Imran Khan has declared war against Status Quo forces, the Corrupt Ruling Elite. All evil forces stands one one side, against Imran Khan.
Where your stand?
Freedom is Priceless
http://AftabKhan.blog.com
* * * * * * * * * * * * * * * * * * *...
عمران خان کامیاب ہے Imran Khan Azadi March & Democracy - Analysis
کیا عمران خان کی یہ کامیابی معمولی ہے کہ انہوں نے سوئی ہوئی قوم کو جگانے کی کوشش کی ہے۔ وہ قوم جس کے سامنے دو برائیاں ہوتی تھیں ‘جو ووٹ دیتے وقت یہ سوچتی تھی کہ چلو اس بار پیپلزپارٹی کی بجائے نون لیگ کو ووٹ دے دو‘ یہ کم بری جماعت ہے‘ کیا اس قوم کو اپنے حقوق کیلئے بیدار کرنے کی کوشش کبھی کسی نے کی اور وہ بھی اس پیمانے پر؟
کیا اس سے بڑی کامیابی ہو سکتی ہے کہ راتیں سڑکوں پر صرف اس لئے گزاردیں تاکہ لوگوں کوحقیقی آزادی کے معانی سمجھائے جا سکیں۔
لوگ فیس سیونگ کی بات کرتے ہیں۔ میں کہتا ہوں اگر عمران خان چھ میں سے ایک مطالبہ منوائے بغیر بھی واپس آجائیں تو بھی وہ کامیاب ٹھہریں گے کہ انہوں نے لوگوں کو غیرت کے ساتھ جینے کا پیغام دیا ہے
نون لیگ آئین‘ جمہوریت‘ اخلاقیات‘ سسٹم اور قانون کی بات کرتی ہے۔
آئین‘ قانون اور جمہوریت کا سبق پڑھانے والے بتائیں کہ اس وقت آئین اور جمہوریت کہاں تھی جب اسی کی دہائی میں فوج کی نرسری میں یہ جماعت پروان چڑھی؟
اس وقت آئین کہاں تھا جب نون لیگ کے متوالوں نے سپریم کورٹ پر حملہ کیا تھا؟
اس وقت جمہوریت کہاں تھی جب فضا میں آرمی چیف کے طیارے کارخ تبدیل کیا گیا؟
اس وقت آئین کہاں تھا جب سعودی عرب سے دس سال کی جلاوطنی کا معاہدہ کیا گیا؟
اس وقت آئین کہاں تھا جب میثاق جمہوریت سے انحراف کرتے ہوئے پی سی او جج کو چیف جسٹس تسلیم کیا گیا؟
اس وقت اخلاقیات کہاں تھی جب ایک منتخب صدر کو سڑکوں پر گھسیٹنے‘ الٹا لٹکانے اور پھینٹی لگانے کے
نعرے لگتے تھے؟
اس وقت قانون کہاں تھا جب مومن پورہ کے جلسے میں پولیس کو حکومتی احکامات ماننے سے روکنے کے نعرے لگے؟
اس وقت آئین کہاں تھا جب ایک پولیس والے نے اپنی پیٹی اتاری تو اعلان ہوا کہ سب پولیس والے اس کی پیروی کریں؟
اس وقت جمہوریت کہاں ہے جب الیکشن میں اے طائر لا ہوتی کے شعر سنانے والے آئی ایم ایف کے قدموں میں بچھے چلے جا رہے ہیں؟
اس وقت آئین کہاں ہوتا ہے جب چیئرمین نادرا کی بیٹی کو دھمکیاں دے کر پوری فیملی کو جلاوطن کر دیا جاتا ہے؟
اس وقت آئین کہاں ہوتا ہے جب ایک بیکری کے مالک پر شاہی خاندان سے گستاخی پر بدترین تشدد کیا جاتا ہے؟
اس وقت اخلاقیات کہاں ہوتی ہے جب حنیف عباسی جیسے لوگ ٹاک شوز میں اپنے مخالفین کی بہنوں کی عزت کی دھجیاں اڑانے سے بھی گریز نہیں کرتے؟
اس وقت قانون کہاں ہوتا ہے جب آپ کے اپنے گھروں کے باہر بیرئیر لگے ہوں اور آپ دوسروں کے بیرئیر ہٹانے کیلئے چودہ بندے مار دیتے ہیں؟
بتائیں ناں ‘اس وقت کہاں ہوتا ہے آپ کا قانون‘ آئین‘ سسٹم‘ جمہوریت اور آپ کی اخلاقیات؟
یہ بادشاہت اور ڈکٹیٹر شپ نہیں تو اور کیا ہے کہ اگر کوئی آپ کی بات نہ مانے تو آپ اس کو خریدنے کی کوشش کریں‘ تب بھی نہ مانے تو دھمکیاں دیں‘ تب بھی نہ مانے تو اس کے خلاف جھوٹے کیس بنوا دیں اور تب بھی نہ مانے تو اس کی زندگی کا چراغ بجھانے پر آ جائیں۔
ڈاکٹر طاہر القادری کی ذات سے ہمیں لاکھ اختلاف ہو سکتا ہے لیکن دل پر ہاتھ رکھ کر بتائیے کہ وہ جو کہہ رہے ہیں اس میں غلط کیا ہے۔
کیا نون لیگ سیاہ و سفید کی مالک نہیں بن چکی؟
کیا صرف حکمران خاندان کے 84لوگ اہم ترین سرکاری عہدوں پر فائز نہیں ہیں؟
کیا اسحاق ڈار‘ حمزہ شہباز‘عابد شیر علی‘ اور مریم نواز شریف کو اس لئے وزارتیں اور اعلیٰ عہدے نہیں ملے کہ ان کا تعلق شاہی خاندان سے ہے؟
کیا تھانے ‘ کچہری‘ سرکاری اداروں میں عام آدمی ذلیل و رسوا نہیں ہورہا؟
کیا سابق چیف جسٹس افتخار چودھری سے یہ نہیں پوچھا جانا چاہیے کہ حضور آپ نے مقدمات جلد نمٹانے اور عام آدمی کو انصاف دینے کے لئے کیا کیا؟
کیا جمہوریت اسے کہتے ہیں جس میں چودہ مقتولوں کی ایف آئی آر تک درج نہ کی جا سکے؟
کیا کوئی بتائے گا کہ حکمرانوں کو ایسی کیا مجبوری ہے کہ وہ ہیلی کاپٹر پکڑتے ہیں اور ڈیرہ غازی خان میں زیادتی کا شکار ہونے والی لڑکی کے سر پر ہاتھ رکھ کر محض تصویریں بنواتے ہیں اور بس۔ کیوں ایسا سسٹم نہیں بناتے یا چلنے دیتے جس کے تحت ہر علاقے کا تھانیدار اس علاقے کے ظالموں کو کٹہرے میں لا سکے۔
اگر ایک دن میں پچاس خودکشیاں‘ پچاس زیادتیاں اور پچاس قتل ہوں گے تو یہ کہاں کہاں جائیں گے اور کس کس کو انصاف دینے کا وعدہ کریں گے۔ ان میں سے کون سی بات غلط ہے۔
کیا یہ سب کچھ ایسا ہی نہیں جیسے قادری صاحب فرما رہے ہیں اور اگر ایسا ہے تو پھر آپ اسے تسلیم کیوں نہیں کر لیتے؟
کسی غلط بات کو دل سے برا ماننا ایمان کی کمزور ترین نشانی ہے۔ کیا نون لیگ کے خوف نے ہمارا ایمان اتنا کمزور دیا کہ ہم غلط کو غلط سمجھنے کو بھی تیار نہیں؟
میں دعوے سے کہتا ہوں‘ آج میاں نواز شریف یہ اعلان کر دیں میں:-
اقتدار نچلی سطح پر منتقل کرتا ہوں‘
مں پولیس کو آزاد کرتا ہوں‘
میں بیوروکریسی کی اکھاڑ پچھاڑ ختم کرتا ہوں‘
میں خاندانی رشتوں کو اعلیٰ عہدوں سے ہٹاتا ہوں‘
میں میرٹ کو اوپر رکھتا ہوں
‘میں اپنے گھر پر مامور سترہ سو پولیس اہلکاروں کو عوام کی حفاظت پر لگا دیتا ہوں‘
اپنا پیسہ ملک میں واپس لاتا ہوں
اور میں تعلیم‘ صحت‘ انصاف اور روزگار جیسے معاملات کو وہی اہمیت دینے کو تیار ہوں جو برطانیہ‘ کینیڈا اور امریکہ میں دی جاتی ہے
تو خدا کی قسم‘ کسی عمران خان‘ کسی طاہر القادری کو سڑک پر آنے کی ضرورت ہی نہ رہے ۔ایسا ہو جائے تو کون ان کی باتیں سنے گا۔
جب لوگوں کو صاف پانی‘ صحت‘ سستی اور اعلیٰ تعلیم مل رہی ہو گی‘
جب تھانے کچہری میں لوگوں کی بات عزت سے سنی جائے گی‘ جب امیر غریب‘ لیگی اور تحریکی کا فرق دیکھے بغیر انصاف دیا جائے گا‘ تب کسی کو پاگل کتے نے کاٹا ہے کہ وہ ایسی حکومت اور ایسے حکمرانوں کے خلاف تحریک چلائے یا دھرنے دے ؟
لوگ کہتے ہیں عمران غلط کر رہا ہے۔
میں پوچھتا ہوں حکمرانوں نے اس کے لئے کون سا راستہ چھوڑا تھا۔ وہ جہاں جاتا ‘ پتہ چلتا سارے کے سارے افسر‘ سارے کا سارا محکمہ حکومت نے خرید رکھا ہے۔
آپ خود ہی بتائیں جو عمران کے ساتھ ہوا کیا وہ آج اس ملک کے کروڑوں عوام کے ساتھ نہیں ہو رہا؟
کیا یہ سب آپ کے اور میرے ساتھ نہیں ہو رہا؟
کسی کے گھر ڈاکہ پڑ جائے‘ کسی کا بچہ قتل ہو جائے‘ کسی کے ساتھ زیادتی ہو جائے‘ کسی کی زمین پر قبضہ ہو جائے وہ انصاف حاصل کرنے کے لئے کیا کیا جتن نہیں کرتا اور جب انصاف نہیں ملتا تو اس کے پاس دو راستے ہوتے ہیں‘ ایک یہ کہ وہ اللہ کی رضا سمجھ کر خاموش ہو جائے اور دوسرا یہ کہ وہ نظام کے خلاف بغاوت کر دے۔
آئین‘ قانون اور جمہوریت کا مذاق بھی حکمرانوں نے اڑایا اور عمران کو بغاوت کا راستہ بھی حکمرانوں نے دکھایا اور یہ اب خود آئین‘ قانون اور جمہوریت کے پیچھے چھپنے کوشش کر رہے ہیں۔
میں اس قوم سے پوچھتا ہوں کیا زعیم قادری‘ حنیف عباسی‘ حمزہ شہباز اور عابد شیر علی ان کی قسمت بدلیں گے؟ میں پھر کہتا ہوں کہ عمران خان آئیڈیل لیڈر ہیں نہ ڈاکٹر طاہر القادری غلطیوں سے مبرا۔ مقدمہ صرف اتنا ہے کہ ان دونوں لیڈروں نے عوام کو حقیقی آزادی کیلئے سوچنے پر مجبور کر دیا‘ ان کے دماغ پر جمی گرد صاف کر دی اور انہیں حق اور سچ کا راستہ دکھلانے کی کوشش کی۔ اس کے بعد بھی یہ قوم نہیں جاگتی تو پھر ایسی قوم کو خاندانی غلامی مبارک!
By Ammar ch (Extract) dunya.com.pk
Nawaz Sharif: From King like prime minister to Deputy commissioner type Joker
Besieged Prime Minister Nawaz Sharif has been assured by military that there will be no coup, but in return he must “share space with the army”, according to a government source who was privy to recent talks between the two sides.
Last week, as tens of thousands of protesters advanced on the federal capital to demand his resignation, Sharif dispatched two emissaries to consult with the army chief.
He wanted to know if the military was quietly engineering the twin protest movements by cricket star-turned-politician Imran Khan and activist cleric Tahirul Qadri, or if, perhaps, it was preparing to stage a coup.
According to a government insider with a first-hand account of the meeting, Sharif's envoys returned with good news and bad: there will be no coup but if he wants his government to survive, from now on it will have to share space with the army.
The army's media wing declined to comment.
Thousands of protesters marched to parliament on Tuesday, using a crane and bolt cutters to force their way past barricades of shipping containers, as riot police and paramilitaries watched on after being told not to intervene.
Military spokesman General Asim Bajwa tweeted a reminder to protesters to respect government institutions and called for a “meaningful dialogue” to resolve the crisis.
Even if, as seems likely, the Khan and Qadri protests eventually fizzle out due to a lack of overt support from the military, the prime minister will emerge weakened from political crisis.
Sharif may have to be subservient to the generals on issues he wanted to handle himself — from the fight against Taliban to relations with India and Pakistan's role in neighbouring, post-Nato Afghanistan.
“The biggest loser will be Nawaz, cut down to size both by puny political rivals and the powerful army,” said a government minister who asked not to be named.
“From this moment on, he'll always be looking over his shoulder.”
A year ago, few would have predicted that Sharif would be in such trouble: back then, he had just swept to power for a third time in a milestone poll that marked the first transition from one elected government to another.
But in the months that followed, Sharif — who had crossed swords with the army in the past — moved to enhance the clout of the civilian government in a country that has been ruled by the military for more than half of its history.
He irked the generals by putting former military head Pervez Musharraf, who had ended Sharif's last stint as prime minister in a 1999 coup, on trial for treason.
Sharif is also said to have opposed a military offensive to crush Taliban insurgents and sought reconciliation with India.
India rapprochement at risk
Sources in Sharif's government said that with civilian-military relations in such bad shape, Sharif suspected that the street protests to unseat him were being manipulated from behind the scenes by the army.
He also feared that if the agitations turned violent, the army would exploit the situation to seize power for itself.
However, the two close aides who went to see army chief Raheel Sharif in the garrison town of Rawalpindi last Wednesday were told that the military had no intention of intervening.
“The military does not intend to carry out a coup but ... if the government wants to get through its many problems and the four remaining years of its term, it has to share space with the army,” said the insider, summing up the message they were given.
“Sharing space” is a familiar euphemism for civilian governments focusing narrowly on domestic political affairs and leaving security and strategic policy to the army.
The fact that the military is back in the driving seat will make it harder for Sharif to deliver the rapprochement with India that he promised when he won the election last year.
Indian media speculated this week that Sharif had already been forced by the generals to scuttle peace talks.
New Delhi on Monday called off a meeting between foreign ministry officials of the two countries, which had been set to take place on Aug 25, because Pakistan announced its intention to consult Kashmiri separatists ahead of the meeting.
The Himalayan region of Kashmir has been a bone of contention between India and Pakistan since both gained independence in 1947. The two nations have fought three wars, two of them over Kashmir, and came close to a fourth in 2001.
The Pakistani army's predominance could also mean it could torpedo the government's relationship with Afghanistan, where a regional jostle for influence is expected to intensify after the withdrawal of most foreign forces at the end of this year.
Paying the price
Few believed that the army would back Khan's bid for power even if it used him to put Sharif on the defensive.
“Even the army knows that Imran Khan may be a great pressure cooker in the kitchen, but you can't trust him to be the chef,” said a former intelligence chief who declined to be named.
Sharif may now pay the price for miscalculating that the military may have been willing to let the one-time cricket hero topple him.
“Thinking that Imran could be a game-changer, Nawaz has conceded the maximum to the army,” a Sharif aide said.
“From a czar-like prime minister, they (the army) have reduced him to a deputy commissioner-type character who will deal with the day-to-day running of the country while they take care of the important stuff like Afghanistan and India. This is not a small loss.”
But Sharif's aides say a stint in jail under Musharraf, followed by exile from Pakistan and five years as leader of the opposition party, have made him realise that he needs to share power to survive.
“This is not the old Nawaz, the wild confrontationalist,” said an adviser to the prime minister in Lahore, the capital of his Punjab province power base.
“This is the new Nawaz who has learnt the hard way that politics is about living to fight another day.”
Dawn.com
تعداد سے کچھ فرق نہیں پڑتا کیوں ؟ ?Why Numbers do not matter in Azadi, Inqilab March
ایجنڈا کے قریب ہے طریقہ پر اختلاف ہے
ان کے ١٤ افراد ماڈل ٹاؤن میں ظالمانہ طریقے سے پولیس نہیں شہید کر دے ، ٩٠ زخمی کر دے . ان کو ابھی تک انصاف نہیں ملا ، ان کے ہزارون کارکن گرفتار ہیں . ان پر جھوٹے مقدمات دال دیے ،
http://AftabKhan.blog.com
* * * * * * * * * * * * * * * * * * *...
IMRAN KHAN'S MOVEMENT OF CIVIL DISOBEDIENCE - FACTS & ILLUSIONS
Imran Khan Azadi March and Tahirul Qadri Inqliab March
http://AftabKhan.blog.com
* * * * * * * * * * * * * * * * * * *...
-
مولوي نہيں ملے گا...صبح بخير…ڈاکٹر صفدر محمود قرارداد مقاصد بھي زير عتاب آگئي ہے جسے اکثر ماہرين آئين محض غير مضر اور سجاوٹي ...
-
While some prefer to emphasise the economic independence within secular Pakistan, others dream of theocracy like Iran. They try to su...
-
شیعہ سنی اختلاف کاامکانی حل بقائمی ہوش وحواس یہ دعویٰ نہیں کیا جا سکتا کہ میرے پاس ایک ایسے مسئلے کاکوئی حل موجود ہے جسے صدیوں سے...
-
WebpageTranslator With a PPP coalition with the dying and discredited PML-Q now almost ready for a takeoff, the brilliance, or some say ...
-
WebpageTranslator Premise: The Quaid-i-Azam Muhammad Ali Jinnah during his first address to the Constituent Assembly of Pakistan on 11th...
-
And Pushtun/Pathan History THERE could hardly be a more appropriate time for Dr Sana Haroon’s Frontier of Faith to hit the bookstores. Subt...
-
دو قومی نظریہ (انگریزی: Two Nation Theory) بر صغیر کے مسلمانوں کےہندوؤں سے علاحدہ تشخص کا نظریہ ہے۔ Read...