ہمیں کیا کرنا چاہیے ؟
ایک اہم سوال جو اکثر جگہوں پر پوچھا بھی جاتا ہے اور بے شمار ڈسکشن فورمز میں بھی زیر بحث آ رہا ہے ، یہ ہے کہ اس افراتفری اور مایوسیوں کے دور میں جب ہر طرف گھٹا ٹوپ اندھیرے چھائے ہیں،کہیں سے مثبت خبریں نہیں مل رہیں، لیڈرشپ کا فقدان ہے، جس پر بھروسہ کرو، وہی مایوس کرتا ہے، جماعتیں یا تنظیمیں بھی جمود کا شکار ہیں ... ایسی حالت میں ایک فرد کیا کردار ادا کر سکتا ہے ؟ اس سوال کا جواب کھوجنے کی کوشش کرتے رہنا چاہیے۔ ایک خاصا بڑا حلقہ اس تمام صورتحال سے مایوس ہو کر لاتعلق ہوچکا ہے، وہ صرف اپنے ذاتی معاملات پر فوکس کرتے اور اجتماعی منظرنامے سے کٹ چکے ہیں۔ ان سے بات کی جائے تو نہایت مایوسی اور لاتعلقی سے جواب دیتے ہیں،'' یہ سب چور ہیں، کسی کا ساتھ دینے کا فائدہ نہیں‘‘۔ جب استفسار کیا جائے کہ آپ اپنے طور پر کچھ کریں تو لہجے میں کڑواہٹ بھر کر بولیں گے،'' ہمارے پاس اتنا وقت نہیں، ویسے بھی یہاں کچھ نہیں ہونے والا‘‘۔
کچھ لوگ ایسے بھی ہیں جو اس منفی اور قنوطیت زدہ صورتحال کو دیکھ کر شدت پسندی پر مائل ہوجاتے ہیں۔ ان کے خیال میں اس بگاڑ کو سنوارنے کا واحد طریقہ کسی ایسے گروہ کو برسراقتدار لے آنا ہے ،جو ڈنڈے کے زور پر سب ٹھیک کر دے۔ مجرموں کو سرعام پھانسی پر لٹادیا جائے، تب جرائم ختم ہوجائیں گے۔ وہ یہ نہیں جانتے کہ اہل مغرب یہ تجربہ ایک دو صدی پہلے کر چکے ہیں، جب لندن میں ڈبل روٹی چرانے جیسے جرائم کی سزا بھی موت رکھی جاتی تھی، مگر اس سب کے باوجود جرائم کم نہیں ہوئے۔ پھر انہوںنے تعلیم و تربیت پر توجہ دی، سکول کی سطح پر بچوں کی اخلاقی تربیت کا نصاب بنایا، ان میں چند اہم اخلاقی سچائیاں ڈالیں پھر محروم طبقات کے لئے ریلیف کا انتظام کیا، نظم ونسق بہتر بنانے کے لئے ادارے بنائے، انہیں اس قدر مضبوط اور مستحکم کیا کہ بدعنوان عناصر سرائیت نہ کر سکیں، عدلیہ کی آزادی یقینی بنائی، پولیس کے نظام کو اس قدر طاقتور، آزاد اور خود مختار بنایا کہ آج برطانوی وزیراعظم برملا یہ کہہ سکتا ہے کہ برطانوی حکومت بھی پولیس کے معاملات میں مداخلت نہیں کر سکتی۔ یہ وہ ماڈرن سٹیٹ ہے، جسے تشکیل دئیے بغیر، ڈنڈے کے زور پر معاملات بہتر نہیں بنائے جا سکتے۔
ایک حلقہ اس پیچیدہ اور گنجلک صورتحال سے نکلنے کا واحد حل ڈی کنسٹرکشن یعنی سب کچھ تلپٹ کر دینے میں دیکھتا ہے۔ مثلاً ہمارے لبرل ، سیکولر دانشور اور لکھنے والوں کے خیال میں یہ منتشر سماجی صورتحال مذہبی شدت پسندی کی وجہ سے ہے۔ ان کے خیال میں واحد حل سیکولر ازم ہے، تمام شدت پسندوں کا صفایا کر دیا جائے، مذہبی قوتوں کی ایسی سرکوبی کہ وہ گردن نہ اٹھا سکیں... اور پھر'' گلیاں ہوون سنجیاں ، وچ مرزا یار پھرے‘‘ کے مصداق سیکولر ہی ہر طرف چھائے نظر آئیں۔ مذہبی بیزاری میں یہ بات بھول جاتے ہیں کہ اسلام پاکستانی سماج کے فیبرک کا بنیادی جز ہے۔ مذہبی شدت پسندی کم کرنے کے لئے سیکولر ازم کی نہیں بلکہ مذہب کی اصل تعلیمات پھیلانے اور دینی فکر کی درست تعبیر وتشریح کرنے کی ضرورت ہے۔ ہمارے ہاں ایک شدت کا علاج دوسری طرز کی شدت سے کیا جاتا ہے۔ حل سادہ ہی ہے، درمیان کی جگہ کو مزید کشادہ کیا جائے، اعتدال اور
توازن کی راہ اپنائی جائے، رویوں اور سوچ کی تربیت اور تہذیب کی جائے۔ ماضی میں یہ کام بڑے بھونڈے طریقے سے کیا گیا۔ سوات میں آپریشن کے بعد وہاں فیشن شو کرا کر سمجھا گیاکہ سوات کا معاشرہ تبدیل ہوگیا ہے۔ یہ سراسر غلط ہے۔ ہر علاقے کی اپنی روایات ہیں، ان کا احترام روا رکھنا ہوگا۔ سماج میں شدت کم کرنی ہے تو پھر اس میں علم وادب کی روشنی بھرنی ہوگی۔ پچھلے تین چار عشروں کے دوران ہمارے آس پاس اور ہمارے درمیان بہت خون بہا، بڑی تلخیاں اور کڑواہٹیں مزاجوں میں در آئیں۔ انہیں آہستہ آہستہ نکالنا ہوگا، نرمی لانی ہوگی، علمی ، ادبی، ثقافتی ڈیرے پھر سے آباد کرنے، محفلیں پھر سے سجانی ہوں گی۔ یہ کام بڑی حکمت اور دانش سے کرنا ہوگا۔
یہ کام حکومت اور مختلف سماجی شعبوں کے کرنے کے ہیں، مگر کچھ کام انفرادی طور پر بھی کئے جا سکتے ہیں۔ایک عام آدمی پریشان ہو کر سوچتا ہے کہ اس قدر بگڑی صورتحال میں وہ کیا کرے؟ اس کے ذمے دو تین کام ہیں۔ سب سے پہلے تو اسے خود خیر کا پیام بر بننا ہو گا۔ اپنے اندر نرمی، شائستگی ، حلم اور برداشت لانی ہوگی۔دنیا کے کامل ترین انسان حضورﷺ کی پیروی میں اپنے اخلاق، معاملات کو بہتر بنانا ہو گا۔ یہ کام انقلاب لانے کی جدوجہد سے زیادہ اہم ہے۔ قدرت جب محاسبہ کرے گی تو سب سے پہلے بطور فرد ہی جواب دینا ہوگا۔ حقوق اللہ اور حقوق العباد کا کس قدر خیال رکھا گیا؟ اپنی ذات سے خیر کے کتنے کام ہوئے؟ روزانہ کی بنیاد پر بیلنس شیٹ بنائی جائے، رات کو دیکھا جائے کہ آج پورے دن میں کتنی نیکی کمائی؟ اپنے اندر بہتری لانے ، خود کو صادق اور امین بنانے کے بعد ہی دعوت کا کام شروع ہوتا ہے ۔سب سے اہم ذمہ داری ان لوگوں تک دعوت بلکہ مسلسل دعوت کا پیغام پہنچانا ہے، جو رعیت ہیں۔ اہل خانہ، شاگرد، زیر اثر لوگ وغیرہ۔ اگلے مرحلے میں اپنے محلے اور آس پاس کے لوگوں تک خیر کے اثرات پہنچنے چاہییں۔ یہ دعوت وتربیت کا کام نہایت تحمل، سمجھداری اور حکمت سے کرنے کی ضرورت ہے۔ سب سے اچھا طریقہ صوفیا کرام کا ہے، وہ کبھی وعظ نہیں کرتے تھے، اپنی ذات کو رول ماڈل بنا دیتے تھے۔ لوگ ان کو دیکھ کر خود ہی سیکھ اور سمجھ لیتے تھے۔ جب صوفی اپنی محفلوں میں کسی کی غیبت نہیں کرتا، کسی پر تبصرہ نہیں کرتا، کسی مشکل، کٹھنائی، حتیٰ کہ سخت موسم تک کا شکوہ نہیں کرتا... تو وہاں جانے والے لوگوں کی ازخود تربیت ہو جاتی ہے۔ ہم نے لاہور کے صوفی سکالر سرفراز شاہ صاحب کی محفلوں سے یہی سیکھا۔ اٹھارہ برسوں کے دوران ایک بار بھی شاہ صاحب کی زبان سے کسی کے خلاف کوئی جملہ یا تبصرہ یا طنزیہ مسکراہٹ تک نہیں دیکھی۔
تیسرے مرحلے میں فرد کو اہل خیر یا خیر کی قوتوں کا سپورٹر ہونا چاہیے۔ جہاں اچھا کام ہوتا دکھائی دے، اس کا ساتھ دے، عملی طور پر ممکن نہ ہو تو اخلاقی سپورٹ ہی کر دی جائے۔ اچھا کام کرنے والے خیراتی اداروں، دعوتی تنظیموں، علمی کام کرنے والے اداروں، لائبریریاں قائم کرنے والوں، کتابیں پھیلانے، انہیں ڈسکس کرنے والوں ، سماج میں علمی ذوق پیدا کرنے کی کوششیں کرنے والوں کی حوصلہ افزائی ۔ کم سے کم درجہ یہ ہونا چاہیے کہ اگر اچھے کام کا حصہ نہیں بن سکتے تو تنقید سے باز رہا جائے۔ جو لوگ عملی کام کر رہے ہیں، وہ زبانی باتیں کرنے والے سے ہر حال میں بہتر ہیں۔ چوتھا مرحلہ جو بہت اہم ہے کہ چھوٹے چھوٹے نیکی کے سیل یا مرکز بنائے جائیں۔ ایسے حلقے جو خیر کی کاشت کریں، خیر پھیلائیں اور ایک دوسرے کی اچھے کاموں میں حوصلہ افزائی کریں۔ ایک وقت آئے گا جب یہ تمام سیل اکٹھے ہو کر بڑے نیٹ ورک میں تبدیل ہوجائیں گے اور پھر معاشرے میں بامقصد ٹھوس تبدیلی کی راہ ہموار ہوجائے گی۔ چھوٹے شہروں اور اہم مراکز سے دور رہنے والے بھی اپنی اپنی جگہ پر یہ سب کر سکتے ہیں۔ انہیں یاد رکھنا چاہیے کہ رب تعالیٰ کو جدوجہد اور کوشش پسند ہے، نتائج قدرت نے دینے ہیں، انسان کا کام صرف اپنے حصے کا کام کرنا ہے۔
Aamir Hashim Khakwani dunya.com.pk
Pages
- Home
- FrontPage
- FB
- Delusions
- Save Pakistan
- نظریہ پاکستان
- Electoral Reforms
- ووٹ کی شرعی حیثیت
- Kashmir
- Importance of Pakistan
- Love Pakistan
- Ideology of Pakistan نظریہ پاکستان
- Our Dilemma & Options
- Pak-Pedia
- One God
- Why Religion?
- Why Islam?
- Peace Forum
- Anti Islam FAQs
- Democracy, Shari'a & Khlafah
- Free eBooks
- Faith Forum
- خلافت
- Corruption
- Role of Ulema in Quran
- Reconstruction of Religious Thought
- Tolerance
- Altaf Qamar
- صرف مسلمان Muslim Only
- Free Books
- Islam & Pakistan
- Special Picks
- سلام انڈکس
Featured Post
FrontPage صفحہ اول
Salaam Pakistan is one of projects of "SalaamOne Network" , to provide information and intellectual resource with a view to...
What should Pakistani do in present situation?
Palestine issue.. Need to change strategy?
مسئلہ فلسطین
میرا مخاطب اسرائیل یا امریکہ نہیں،اردو پڑھنے والے وہ لوگ ہیں جو فلسطینیوں پر روارکھے گئے ظلم پر اداس ہیں۔
آج اہلِ فلسطین کے ساتھ ہمدردی کا تقاضا ہے کہ ان کے قتل ِ عام کو رکوایا جائے۔یہی نہیں، اس پر سنجیدگی کے ساتھ غور کیا جائے کہ آئندہ ایسے واقعات کم سے کم ہوں۔میرے نزدیک تشدد کی مکمل نفی کے سوا اس کی کوئی صورت نہیں۔بد قسمتی سے پہلے الفتح اور اب حماس جیسی تنظیموں نے تشدد کو بطورحکمتِ عملی اختیار کرکے فلسطینیوں کو زخموں کے سوا کچھ نہیں دیا۔اس حکمتِ عملی کے نتیجے میں مکمل آزادی تو دور کی بات، اب ادھوری آزادی کا تصور بھی خواب وخیال ہو تا جا رہا ہے۔یاسر عرفات نے بعد از خرابیٔ بسیارتشددکو الوداع کہا۔حماس کوابھی تک تشدد پہ اصرار ہے۔اس لائحہ عمل کی ناکامی نوشتۂ دیوار ہے۔فلسطینیوں کا بہتا لہو،تنہا ایسی دلیل ہے جو اس اندازِ فکر کی غلطی پر شاہد ہے۔آج اہلِ فلسطین کو ایک نئی حکمتِ عملی کی ضرورت ہے۔ایسی حکمتِ عملی جو اُن کے جانی و مالی نقصان کو کم کر سکے اور مسئلے کے ایک منصفانہ حل کے لیے ان کی جد وجہد کو زندہ رکھ سکے۔میری اس رائے کی بنیاد چند دلائل پر ہے۔
1۔چند دنوں کے تصادم میں264فلسطینی مارے جا چکے اور اس کے مقابلے میں صرف ایک اسرائیلی کی جان گئی ہے۔اگر ہم ان واقعات کی ابتدا کو سامنے رکھیں تو تین اسرائیلی نوجوان اغوا کے بعد قتل ہوئے۔یوں یہ دو سو چونتیس اور چار کی نسبت ہے۔گویا ایک اسرائیلی کے بدلے میں اٹھاون فلسطینیوں کی جان گئی۔ابھی جنگ جاری ہے اور نہیں معلوم کہ یہ نسبت کہاں تک جاتی ہے۔اس سے پہلے،جب بھی تصادم ہوا، نسبت کم و بیش یہی رہی۔ 2008-09ء میںبھی یہی ہوا تھا۔اس وقت 1166 فلسطینیوںکے مقابلے میں تیرہ اسرائیلیوں کی جان گئی تھی۔ تب یہ نسبت ایک اور نوے(90)کی تھی۔مجھے اس قیادت پر حیرت ہے جو اس حکمتِ عملی پر اصرار کرتی ہے جس میں انسانی جان کے ضیاع کا تناسب یہ ہے۔اس قربانی کو بھی گوارا کیا جا سکتا ہے اگر یہ معلوم ہو کہ وہ مقصد پورا ہو رہا ہے جس کے لیے جانیں دی جارہی ہیں۔اس کابھی دور دور تک کوئی امکان دکھائی نہیں دیتا۔
2۔ فلسطینی اس وقت کئی سیاسی وعسکری گروہوں میں منقسم ہیں۔ محمود عباس کی جماعت اور حماس کا اختلاف ظاہرو باہر ہے۔یہ اختلاف نظری ہے اور مفاداتی بھی۔برسرِ پیکار گروہ باہم قتل و غارت گری میں بہت سے لوگوں کی جان لے چکے۔اس طرح منقسم قوم کسی منظم ریاست کے خلاف کیسے لڑ سکتی ہے؟
3۔ امتِ مسلمہ‘ جس کو دن میں کئی بار پکارا جاتا ہے، کہیں مو جود نہیں۔ اسی لیے اس پکار کا کوئی جواب نہیں آتا۔مجھے حیرت ہے کہ لوگ اس کے باوجودخلا میں صدا لگاتے اور یہ امید کرتے ہیں کہ جواب آئے گا۔میں بارہا عرض کر چکا کہ امت ایک روحانی وجود تو ہے کوئی سیاسی یا سماجی اکائی نہیں۔ آج مسلمانوں کی قومی ریاستیں ہیں یا مسلکی گروہ‘ سب اپنے اپنے مفادات کی آبیاری کر رہے ہیں۔ 'داعش‘ نے اپنے تئیں خلافت کا اعلان کیا اور القاعدہ نے اسے مسترد کر دیا۔داعش کا اپنا خلیفہ ہے اور القاعدہ کا اپنا۔امت ِ مسلمہ پاکستان جیسے ملکوں میں بعض گروہوں کا رومان ہے۔وہ فلسطینیوں کے لیے صرف احتجاج کر سکتے ہیں اور بس۔کیا اس سے ان کے دکھوں میں کوئی کمی آ سکتی ہے؟
4۔ اسرائیل ایک منظم ریاست ہے اور اس کی پشت پر امریکہ، برطانیہ اور روس جیسی کئی طاقت ور ریاستیں ہیں۔یہ طاقتیں ہر اخلاقی اور بین الاقوامی قانون کو نظر انداز کرتے ہوئے اسرائیل کی حمایت کرتی ہیں۔دنیا کا اس وقت اجماع ہے کہ اسرائیل کو بطور ریاست قائم رہناہے۔فلسطینی ریاست کے بارے میں ابھی تک ابہام ہے۔ فلسطینیوں کی حمایت ایران کی ریاست کرتی ہے یا شام کی۔اس حمایت کی اساس بھی نظریہ یا امت نہیں، ان ریاستوں کے علاقائی مفادات ہیں۔اس وقت حماس کے ساتھ اسلامی جہاد کی تنظیم بھی موجود ہے جسے ایران کی حمایت حاصل ہے۔کہا جاتا ہے کہ اسرائیل اور امریکہ کو ایک تشویش یہ بھی ہے کہ حماس کی نسبت اسلامی جہاد سے معاملات کرنا مشکل تر ہو گا، اس لیے حماس سے معاملہ کرنے کی کوشش کی جائے۔شام کی حکومت اس وقت اپنی بقا کی جنگ لڑ رہی ہے،اس لیے فلسطینیوں کی کوئی مدد نہیں کر سکتی۔یوں بھی،بشار الاسد کے خانوادے کو امتِ مسلمہ سے جو نسبت ہے، اس کا حال کوئی اخوان سے پوچھے جن کی پیٹھ پر اس خاندان کا تازیانہ مسلسل برستا رہا۔پھر یہ کہ ماضی میں بھی ان ریاستوں کی کوئی مدد فلسطینیوں کے کام نہ آ سکی۔مصر میں اخوان ان کا اخلاقی اور کسی حد تک مادی سہارا تھے۔ان کی بے چارگی ہمارے سامنے ہے۔
سادہ سا سوال ہے کہ ان اسباب کی روشنی میں اہلِ فلسطین کو کیا کر نا چاہیے؟میرا خیال ہے کہ قابلِ عمل حل صرف ایک ہے۔فلسطینی خود کوایک سیاسی قیادت کے تحت منظم کریں اور دوریاستی حل کو قبول کرلیں۔وہ اس بات کی پوری کوشش کریں کہ ان کی ریاست ہر طرح سے خود مختار اور آز اد ہو۔اس کے ساتھ یروشلم کو ایک آزاد شہر قرار دینے کا مطالبہ کیا جائے کیونکہ یہ تینوں ابراہیمی مذاہب کے لیے تقدس رکھتا ہے۔دو ریاستی حل پر اس وقت کم و بیش ساری دنیا متفق ہے۔جب یہ فارمولہ پہلی بار سامنے آیا تو اس میں فلسطینیوں کے لیے بہت کچھ تھا۔جب انہوں نے اسے تسلیم نہیں کیا اور یہ خیال کیا کہ وہ عسکری جدو جہد سے اسرائیل کاخاتمہ کردیں گے توان اسباب کی بنا پر ،جن کا میں نے ذکر کیا، ان کا وجود سمٹتا چلا گیا۔آج اگر اسرائیل 1967ء سے پہلے کی سرحد کو تسلیم کرتے ہوئے مقبوضہ علاقے خالی کرتا اور ایک آزاد فلسطینی ریاست کو عملاً تسلیم کرتا ہے تو یہ فلسطینیوں کی بڑی فتح ہو گی۔
اگر تشدد کو خیر باد کہتے ہوئے، فسلطینی اس کے لیے سیاسی جدو جہد کرتے ہیں تو اس کے دو فوائد ان کو فوری طور پر مل سکتے ہیں۔ایک یہ کہ اسرائیلی تشدد میں کمی آ جائے گی۔دوسرا یہ کہ انہیں دنیا کے ایک بڑے حصے کی اخلاقی و سیاسی تائید میسرآ جائے گی۔اس وقت امریکہ میں یہودیوں کی ایک بڑی تعداد ہے جو اسرائیل کے خلاف ہے۔وہ اس ظلم کی تائید پر آ مادہ نہیں۔خود اسرائیل میں بھی بہت سے یہودی ہیں جو اسرائیل کو خوف کی اس فضا سے نکالنا چاہتے ہیں۔اس کے ساتھ مسلمان قومی ریاستیں بھی اپنے قومی مفادات کو قربان کیے بغیر، فلسطینیوں کی حمایت کر سکیں گی۔اسرائیل آسانی کے ساتھ مقبوضہ علاقوں کو خالی نہیں کرے گا۔اس کے لیے بھی طویل جدو جہد کی ضرورت ہو گی؛ تاہم اس وقت ساری توجہ فلسطینیوں کے قتل عام کو روکنے پر مبذول کی جانی چاہیے۔کاش انہیں ایسی قیادت میسر آئے جوان کی بچوں کو زندگی کا پیغام دے سکے۔پاکستان کی اسلامی تحریک اگر اہلِ فلسطین کو یہ مشورہ دے سکے تو ان کے ساتھ یہی حقیقی ہمدردی ہو گی۔اب اس کے سوا کچھ نہیں ہو گا کہ حماس اور اسرائیل کے درمیان جنگ بندی کا معاہدہ ہو جائے۔کیا 264 افراد کی جان اس لیے دی گئی؟یہ سچ ہے کہ اسرائیل نے ظلم کیا لیکن سوال یہ ہے کہ فلسطینی قیادت نے اس ظلم کو روکنے کے لیے کیا کیا؟ اس وقت اہلِ فلسطین کو ایک نئی قیادت اور ایک نئی حکمتِ عملی کی ضرورت ہے۔یہ طے ہے کہ موت کو گلیمرائز کرنے والے زندگی کی امید نہیں دے سکتے۔ جو عمومی زندگی میں بھی جنگ کے اصول اپنا تی ہو،قومیں ایسی قیادت کے ہاتھوں برباد ہو جاتی ہیں۔
Khursheed Nadeem dunya.com.pk
35 Punctures.. in Election 2013
More details <<Click here>>
8PM with Fareeha idress, 10th December 2013 , Rigging in ...
-
tune.pk/.../8pm-with-fareeha-idress-10th-december-20...
Dec 10, 2013
8PM with Fareeha idress, 10th December 2013 , Rigging inElection 2013 , Waqt News. Repeat. Jason Lee ...
Pakistan Elections 2013 Rigging Exposed | Tune.pk
Election 2013 Rigging | Tune.pk
Aitzaz Ahsan on Election Rigging | Tune.pk
tune.pk/video/.../aitzaz-ahsan-on-election-rigging
-
مولوي نہيں ملے گا...صبح بخير…ڈاکٹر صفدر محمود قرارداد مقاصد بھي زير عتاب آگئي ہے جسے اکثر ماہرين آئين محض غير مضر اور سجاوٹي ...
-
While some prefer to emphasise the economic independence within secular Pakistan, others dream of theocracy like Iran. They try to su...
-
شیعہ سنی اختلاف کاامکانی حل بقائمی ہوش وحواس یہ دعویٰ نہیں کیا جا سکتا کہ میرے پاس ایک ایسے مسئلے کاکوئی حل موجود ہے جسے صدیوں سے...
-
WebpageTranslator With a PPP coalition with the dying and discredited PML-Q now almost ready for a takeoff, the brilliance, or some say ...
-
WebpageTranslator Premise: The Quaid-i-Azam Muhammad Ali Jinnah during his first address to the Constituent Assembly of Pakistan on 11th...
-
And Pushtun/Pathan History THERE could hardly be a more appropriate time for Dr Sana Haroon’s Frontier of Faith to hit the bookstores. Subt...
-
دو قومی نظریہ (انگریزی: Two Nation Theory) بر صغیر کے مسلمانوں کےہندوؤں سے علاحدہ تشخص کا نظریہ ہے۔ Read...