Pages

پاکستان بچاؤ Let's Save Pakistan

پاکستان کی موجودہ  سیاسی و معاشی تباہی سے بچا ؤ!

موجودہ حالات کو درست کرنا صرف حکمران اشرفیہ کی صوابدید پر نہیں جو قوم ملک پر ظلم کر رہے ہیں - اس میں عوام کا کردار اہم ہے

 الله کا فرمان ہے :

وَ اتَّقُوۡا فِتۡنَۃً لَّا تُصِیۡبَنَّ الَّذِیۡنَ ظَلَمُوۡا مِنۡکُمۡ خَآصَّۃً ۚ وَ اعۡلَمُوۡۤا اَنَّ اللّٰہَ شَدِیۡدُ الۡعِقَابِ ﴿سورة الأنفال ۲۵﴾

وَإِذْ قَالَتْ أُمَّةٌ مِّنْهُمْ لِمَ تَعِظُونَ قَوْمًا ۙ اللَّهُ مُهْلِكُهُمْ أَوْ مُعَذِّبُهُمْ عَذَابًا شَدِيدًا ۖ قَالُوا مَعْذِرَةً إِلَىٰ رَبِّكُمْ وَلَعَلَّهُمْ يَتَّقُونَ ‎﴿١٦٤﴾‏ فَلَمَّا نَسُوا مَا ذُكِّرُوا بِهِ أَنجَيْنَا الَّذِينَ يَنْهَوْنَ عَنِ السُّوءِ وَأَخَذْنَا الَّذِينَ ظَلَمُوا بِعَذَابٍ بَئِيسٍ بِمَا كَانُوا يَفْسُقُونَ ‎﴿الأعراف ١٦٥﴾

اور اس فتنہ سے ڈرو جو خاص طور پر صرف ان لوگوں ہی کو نہیں پہنچے گا جو تم میں سے ظالم ہیں ( بلکہ اس ظلم کا ساتھ دینے والے اور اس پر خاموش رہنے والے بھی انہی میں شریک کر لئے جائیں گے ) ، اور جان لو کہ اللہ عذاب میں سختی فرمانے والا ہے (قرآن 8:25)

اور جب ان میں سے ایک گروہ نے (فریضۂ دعوت انجام دینے والوں سے) کہا کہ تم ایسے لوگوں کو نصیحت کیوں کر رہے ہو جنہیں اللہ ہلاک کرنے والا ہے یا جنہیں نہایت سخت عذاب دینے والا ہے؟ تو انہوں نے جواب دیا کہ تمہارے رب کے حضور (اپنی) معذرت پیش کرنے کے لئے اور اس لئے (بھی) کہ شاید وہ پرہیزگار بن جائیں، پھر جب وہ ان (سب) باتوں کو فراموش کر بیٹھے جن کی انہیں نصیحت کی گئی تھی (تو) ہم نے ان لوگوں کو نجات دے دی جو برائی سے منع کرتے تھے (یعنی نہی عنِ المنکر کا فریضہ ادا کرتے تھے) اور ہم نے (بقیہ سب) لوگوں کو جو (عملاً یا سکوتاً) ظلم کرتے تھے نہایت برے عذاب میں پکڑ لیا اس وجہ سے کہ وہ نافرمانی کر رہے تھے،  (قرآن 165 /7:164)

And be afraid of the trial which will not only befall especially those among you who are wrongdoers (rather those who support this wrongdoing and remain silent about it will also be included among them), and know. That Allah is severe in punishment (Quran;8:25)

And when a group of them said (to those who performed the duty of dawa): Why are you admonishing a people whom Allah is about to destroy or whom He is about to punish severely? So they replied: To offer (their) apology to your Lord and (also) so that they might become pious, then when they forgot (all) the things that they had been admonished. (So) We saved the people who forbade evil (i.e. fulfilled the duty of forbidding evil) and We (all the rest) those who wronged (in deed or by remaining  silent) in a very swear punishment, because they were disobedient (Quran;7:164-165)


جب اچھے لوگ بے عملی ( Passive attitude ) اختیار کرکے اپنی انفرادی اچھائی پر قانع اور اجتماعی برائیوں پر ساکت و صامت ہو جاتے ہیں ، تو مجموعی طور پر پوری سوسائٹی کی شامت آجاتی ہے اور وہ فتنہ عام برپا ہوتا ہے جس میں چنے کے ساتھ گھن بھی پس جاتا ہے ۔

وہ اجتماعی فتنے جو وبائے عام کی طرح ایسی شامت لاتے ہیں جس میں صرف ظالم ، گناہ گار ہی گرفتار نہیں ہوتے بلکہ وہ لوگ بھی پکڑے جاتے ہیں جو گناہ گار سوسائٹی میں رہنا گوارا کرتے رہے ہوں ۔ مثال کے طور پر جب تک کسی شہر میں گندگیاں کہیں کہیں انفرادی طور پر چند مقامات پر رہتی ہیں ۔ ان کا اثر محدود رہتا ہے اور ان سے وہ مخصوص افراد ہی متاثر ہوتے ہیں ۔ لیکن جب وہاں گندگی عام ہو جاتی ہے اور کوئی گروہ بھی سارے شہر میں ایسا نہیں ہوتا جو اس خرابی کو روکنے اور صفائی کا انتظام کرنے کی سعی کرے تو پھر اس کے نتیجہ میں جو وبا آتی ہے اس کی لپیٹ میں گندگی پھیلانے والے اور گندہ رہنے والے گندہ ماحول میں زندگی بسر کرنے والے سب ہی آجاتے ہیں ۔

امر بالمعروف اور نہی عن المنکر چھوڑ دینے کی وجہ سے جب عذاب آتا ہے تو اس وقت دعائیں بھی قبول نہیں ہوتیں، حضرت حذیفہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا کہ قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضے میں میری جان ہے امر المعروف اور نہی عن المنکر کرتے رہو، ورنہ عنقریب اللہ تعالیٰ تم پر اپنے پاس سے عذاب بھیج دے گا پھر اس سے دعا مانگو گے اور وہ قبول نہ فرمائے گا۔ (رواہ الترمذی)

حضرت  محمد رسول اللهﷺ نے فرمایا مجھ کو اپنی امت کی تنگ دستی کا کچھ خوف نہیں ہے مجھ کو تو یہ خوف ہے کہ جب ان میں حکومت دولت سب کچھ پچھلی امتوں کی طرح آجاوے اور اس کی شکر گذاری ان سے نہ ہو سکے تو اس ناشکری کے وبال میں کہیں پہلی امتوں کی طرح یہ لوگ بھی نہ پکڑے جائیں-

حضرت نعمان بن بشیر (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے گناہوں میں پڑنے والوں اور گناہ ہوتے ہوئے دیکھنے والوں کی ایک مثال بیان فرمائی اور وہ یہ کہ ایک کشتی ہے اس میں دو طبقے ہیں، قرعہ ڈال کر آپس میں طے کرلیا کہ کون لوگ اوپر کے حصہ میں جگہ لیں اور کون لوگ نیچے والے طبقہ میں بیٹھیں، جب اپنے اپنے حصوں میں بیٹھ گئے تو جو لوگ نیچے ہیں وہ پانی لینے کے لیے اوپر جاتے ہیں، اوپر والے لوگ ان کے آنے سے تکلیف محسوس کرتے ہیں (جب نیچے والوں نے یہ دیکھا کہ یہ لوگ ہمارے آنے سے تکلیف محسوس کرتے ہیں تو) انہوں نے ایک کلھاڑا لیا اور کشتی میں نیچے سوراخ کرنے لگے اوپر والے آئے اور انہوں نے کہا کہ تم یہ کیا کرتے ہو ؟ انہوں نے جواب دیا کہ ہمیں پانی کی ضرورت ہے اور ہم اوپر جاتے ہیں تو تمہیں تکلیف ہوتی ہے (لہٰذا ہم یہیں سے پانی لے لیں گے) تو اب اگر اوپر والے لوگ نیچے والوں کا ہاتھ پکڑ لیں گے (تاکہ سوراخ نہ کریں) تو ان کو بھی بچا لیں گے اور اپنی جان کو بھی بچا لیں گے۔ اور اگر ان کو اسی حال پر چھوڑ دیا تو ان کو بھی ہلاک کردیں گے اور اپنی جانوں کو بھی ہلاک کردیں گے۔ (رواہ البخاری ص ٣٣٩ ج ١۔ ٣٦٩ ج ٢)

یہ نکتہ قابل غور ہے کہ کسی جرم کا براہ راست ارتکاب کرنا ہی صرف جرم نہیں ہے ‘ بلکہ کسی فرض کی عدم ادائیگی کا فعل بھی جرم کے زمرے میں آتا ہے-  حضرت عبداللہ بن عباس نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو اس کا حکم دیا ہے کہ کسی جرم و گناہ کو اپنے ماحول میں قائم نہ رہنے دیں کیونکہ اگر انہوں نے ایسا نہ کیا یعنی جرم و گناہ دیکھتے ہوئے باوجود قدرت کے اس کو منع نہ کیا تو اللہ تعالیٰ ان سب پر اپنا عذاب عام کردیں گے جس سے نہ گناہگار بچیں گے نہ بےگناہ۔ اور بےگناہ سے مراد یہاں وہ لوگ ہیں جو اصل گناہ میں ان کے ساتھ شریک نہیں مگر امر بالمعروف کے ترک کردینے کے گناہگار وہ بھی ہیں اس لئے یہاں یہ شبہ نہیں ہونا چاہئے کہ ایک کے گناہ کا عذاب دوسرے پر ڈالنا بےانصافی اور قرآنی فیصلہ (آیت) اَلَّا تَزِرُ وَازِرَةٌ وِّزْرَ اُخْرٰى کے خلاف ہے۔ کیونکہ یہاں گناہگار اپنے اصل گناہ کے وبال میں اور بےگناہ ترک امر بالمعروف کے گناہ میں پکڑے گئے کسی کا گناہ دوسرے پر نہیں ڈالا گیا۔

حضرت ابوبکر صدیق (رض) نے اپنے ایک خطبہ میں فرمایا کہ میں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے سنا کہ آپ نے فرمایا کہ جب لوگ کسی ظالم کو دیکھیں اور ظلم سے اس کا ہاتھ نہ روکیں تو قریب ہے کہ اللہ تعالیٰ ان سب پر اپنا عذاب عام کردیں  (ترمذی ابوداؤد میں صحیح سند کے ساتھ منقول- معارف القرآن 8:25)

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں خاص لوگوں کے گناہوں کی وجہ سے عام لوگوں کو اللہ عزوجل عذاب نہیں کرتا ہاں اگر وہ کوئی برائی دیکھیں اور اس کے مٹانے پر قادر ہوں پھر بھی اس خلاف شرع کام کو نہ روکیں تو اللہ تعالیٰ سب کو عذاب کرتا ہے ( مسند احمد )

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں اس کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے کہ یا تو تم اچھی باتوں کا حکم اور بری باتوں سے منع کرتے رہو گے یا اللہ تعالیٰ تم پر اپنے پاس سے کوئی عام عذاب نازل فرمائے گا ۔ (مسند احمد )

 حضرت حذیفہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا فرمان ہے کہ ایک آدمی ایک بات زبان سے نکالتا تھا اور منافق ہو جاتا تھا لیکن اب تو تم ایک ہی مجلس میں نہایت بےپرواہی سے چار چار دفعہ ایسے کلمات اپنی زبان سے نکال دیا کرتے ہو واللہ یا تو تم نیک باتوں کا حکم بری باتوں سے روکو اور نیکیوں کی رغبت دلاؤ ورنہ اللہ تعالیٰ تم سب کو تہس نہس کر دے گا یا تم پر برے لوگوں کو مسلط کر دے گا پھر نیک لوگ دعائیں کریں گے لیکن وہ قبول نہ فرمائے گا ( مسند ) 

حضرت نعمان بن بشیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اپنے خطبے میں اپنے کانوں کی طرف اپنی انگلیوں سے اشارہ کر کے فرمایا اللہ کی حدوں پر قائم رہنے والے ، ان میں واقع ہونے والے اور ان کے بارے میں سستی کرنے والوں کی مثال ان لوگوں کی سی ہے جو ایک کشتی میں سوار ہوئے کوئی نیچے تھا کوئی اوپر تھا ۔ نیچے والے پانی لینے کے لئے اوپر آتے تھے اوپر والوں کو تکلیف ہوتی تھی آخر انہوں نے کہا آؤ یہیں سے نیچے سے ہی کشتی کا ایک تختہ توڑ لیں حسب ضرورت پانی یہیں سے لے لیا کریں گے تاکہ نہ اوپر جانا پڑے نہ انہیں تکلیف پہنچے پس اگر اوپر والے ان کے کام اپنے ذمہ لے لیں اور انہیں کشی کے نیچے کا تختہ اکھاڑ نے سے روک دیں تو وہ بھی بچیں اور یہ بھی ورنہ وہ بھی ڈوبیں گے ( ابن کثیر8:25)

رسول صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں جب میری امت میں گناہ ظاہر ہوں گے تو اللہ تعالیٰ اپنے عام عذاب آب پر بھیجے گا ۔ حضرت ام سلمہ نے دریافت کیا یا رسول اللہ ان میں تو نیک لوگ بھی ہوں گے آپ نے فرمایا کیوں نہیں؟ پوچھا پھر وہ لوگ کیا کریں گے؟ آپ نے فرمایا انہیں بھی وہی پہنچے گا جو اوروں کو پہنچا اور پھر انہیں اللہ کی مغفرت اور رضامندی ملے گی ( مسند احمد )

 رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ جو لوگ برے کام کرنے لگیں اور ان میں کوئی ذی عزت ذی اثر شخص ہو اور وہ منع نہ کرے روکے نہیں تو ان سب کو اللہ کا عذاب ہوگا سزا میں سب شامل رہیں گے ( مسند و ابو داؤد) 

روایت میں ہے کہ کرنے والے تھوڑے ہوں نہ کرنے والے زیادہ اور ذی اثر ہوں پھر بھی وہ اس برائی کو نہ روکیں تو اللہ ان سب کو اجتماعی سزا دے گا ۔ 

مسند کی اور روایت میں ہے کہ آپ نے فرمایا جب زمین والوں میں بدی ظاہر ہو جائے تو اللہ تعالیٰ ان پر اپنا عذاب اتارتا ہے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے پوچھا کہ ان ہی میں اللہ کے اطاعت گذار بندے بھی ہوں گے آپ نے فرمایا عذاب عام ہوگا پھر وہ اللہ کی رحمت کی طرف لوٹ جائیں گے ۔  ( ابن کثیر8:25)

غزوہ احد میں جبکہ چند مسلمانوں کو لغزش ہوئی کہ گھاٹی کی حفاظت چھوڑ کر نیچے آگئے تو اس کی مصیبت صرف غلطی کرنے والوں پر نہیں بلکہ پورے مسلم لشکر پر پڑی یہاں تک کہ خود رسالت مآب (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اس معرکہ میں زخم آیا-

* * * * * * * *

شیطان اور ‏ فرعون کے چیلے فاسق قوم کو کیسے بہکتے ہیں! 

وَعَادٌ وَفِرْعَوْنُ وَإِخْوَانُ لُوطٍ ‎﴿١٣﴾‏ اِن سے پہلے نوحؑ کی قوم، اور اصحاب الرس، اور ثمود اور عاد، اور فرعون، اور لوطؑ کے بھائی اور ایکہ والے، اور تبع کی قوم کے لوگ بھی جھٹلا چکے ہیں ہر ایک نے رسولوں کو جھٹلایا، اور آخر کار میری وعید اُن پر چسپاں ہو گئی (50:13)

 قوم فرعون کے بجائے صرف فرعون کا نام لیا گیا ہے ، کیونکہ وہ اپنی قوم پر اس طرح مسلط تھا کہ اس کے مقابلے میں قوم کی کوئی آزادانہ رائے اور عزیمت باقی نہیں رہی تھی ۔ جس گمراہی کی طرف وہ جاتا تھا ، قوم اس کے پیچھے گھسٹتی چلی جاتی تھی ۔ اس بنا پر پوری قوم کی گمراہی کا ذمہ دار تنہا اس شخص کو قرار دیا گیا۔ جہاں قوم کے لیے رائے اور عمل کی آزادی موجود ہو وہاں اپنے اعمال کا بوجھ وہ خود اٹھاتی ہے ۔ اور جہاں ایک آدمی کی آمریت نے قوم کو بے بس کر رکھا ہو ، وہاں وہی ایک آدمی پوری قوم کے گناہوں کا بار اپنے سر لے لیتا ہے ۔ اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ فرد واحد پر یہ بوجھ لَد جانے کے بعد قوم سبکدوش ہو جاتی ہے ۔ نہیں ، قوم پر اس صورت میں اس اخلاقی کمزوری کی ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ اس نے کیوں اپنے اوپر ایک آدمی کو اس طرح مسلط ہونے دیا ۔ اسی چیز کی طرف سورۂ زخرف ، آیت 54 میں اشارہ کیا گیا ہے کہ :

 فَاسْتَخَفَّ قَوْمَہ فَاَطَاعُوْہُ اِنَّہُمْ کَانُوْا قَوْماً فَاسِقِیْنَ ۔

پس (فرعون) نے (اِن باتوں سے) اپنی قوم کو بے وقوف بنا لیا، سو اُن لوگوں نے اُس کا کہنا مان لیا، بیشک وہ لوگ ہی فاسق نافرمان قوم تھے، (قرآن؛ 43:54)

اسی طرح آج کے سیاسی شعبدہ باز (demagogue) اپنے عوام کو نت نئے طریقوں سے بیوقوف بناتے ہیں۔ کوئی ان کے سامنے روٹی کپڑا اور مکان کی ڈگڈگی بجاتا ہے تو کوئی اس مقصد کے لیے کسی دوسرے نعرے کا سہارا لیتا ہے۔ بقول اقبالؔ ابلیس کا بھی یہی دعویٰ ہے کہ میں جب چاہوں ہر قسم کے انسانوں کو بیوقوف بنا سکتا ہوں : ؎

کیا امامانِ سیاست ‘ کیا کلیسا کے شیوخ 

سب کو دیوانہ بنا سکتی ہے میری ایک ُ ہو! 

چنانچہ جب ابلیس یا ابلیس کا کوئی چیلہ عوام الناس کو بیوقوف بنانے میں کامیاب ہوجاتا ہے تو پھر وہ اندھوں کی طرح اپنے ” محبوب لیڈر“ کے پیچھے ہو لیتے ہیں۔ پھر نہ تو وہ سامنے کے حقائق کو دیکھتے ہیں اور نہ ہی کسی علمی و عقلی دلیل کو لائق توجہ سمجھتے ہیں۔ اسی طرح فرعون نے بھی اپنے اقتدار کے رعب و داب کی ڈگڈگی بجا کر اپنی قوم کو ایسا متاثر کیا کہ وہ آنکھیں بند کر کے اس کے پیچھے ہولیے۔ (بیان القرآن ڈاکٹر اسرار احمد)

ایک بہت بڑی حقیقت بیان کی گئی ہے ۔ جب کوئی شخص کسی ملک میں اپنی مطلق العنانی چلانے کی کوشش کرتا ہے اور اس کے لیے کھلم کھلا ہر طرح کی چالیں چلتا ہے ، ہر فریب اور مکر و دغا سے کام لیتا ہے ، کھلے بازار میں ضمیروں کی خرید و فروخت کا کاروبار چلاتا ہے ، اور جو بکتے نہیں انہیں بے دریغ کچلتا اور روندتا ہے ، تو خواہ زبان سے وہ یہ بات نہ کہے مگر اپنے عمل سے صاف ظاہر کر دیتا ہے کہ وہ در حقیقت اس ملک کے باشندوں کو عقل اور اخلاق اور مردانگی کے لحاظ سے ہلکا سمجھتا ہے ، اور اس نے ان کے متعلق یہ رائے قائم کی ہے کہ میں ان بے وقوف ، بے ضمیر اور بزدل لوگوں کو جدھر چاہوں ہانک کر لے جا سکتا ہوں۔

پھر جب اس کی یہ تدبیریں کامیاب ہو جاتی ہیں اور ملک کے باشندے اس کے دست بستہ غلام بن جاتے ہیں تو وہ اپنے عمل سے ثابت کر دیتے ہیں کہ اس خبیث نے جو کچھ انہیں سمجھا تھا ، واقعی وہ وہی کچھ ہیں ۔ اور ان کے اس ذلیل حالت میں مبتلا ہونے کی اصل وجہ یہ ہوتی ہے کہ وہ بنیادی طور پر فاسق لوگ ہوتے ہیں ۔

ان لوگوں کو اس سے کچھ بحث نہیں ہوتی کہ:

حق کیا ہے اور باطل کیا؟ 

انصاف کیا ہے اور ظلم کیا؟ 

سچائی اور دیانت اور شرافت قدر کے لائق ہے یا جھوٹ اور بے ایمانی اور رذالت ۔ 

ان مسائل کے بجائے ان کے لیے اصل اہمیت صرف اپنے ذاتی مفاد کی ہوتی ہے جس کے لیے وہ ہر ظالم کا ساتھ دینے ، ہر جبار کے آگے رہنے ، ہر باطل کو قبول کرنے ، اور ہر صدائے حق کو دبانے کے لیے تیار ہو جاتے ہیں -  (تفہیم القرآن)

Rise and fall of Nations – Law of Quran

قرآن کا قانون عروج و زوال اقوام

* * * * * * * * * * *

 مزید مطالعہ کریں

پاکستان بچاؤ Save Pakistan & Save Pak Army 

Save Pak FB

FrontPage صفحہ اول WakeUp Pakistan! جاگو پاکستان

پاکستان آزادی سے اب تک : کیا کھویا ، کیا پایا؟


Pakistan’s Quagmire پاکستان - امن اور ترقی کا راستہ

Rise and fall of Nations – Law of Quran
 قرآن کا قانون عروج و زوال اقوام




Let’s Save Pakistan Let’s Save Pakistan Let’s Save Pakistan Let’s Save Pakistan

Let’s Save Pakistan Let’s Save Pakistan Let’s Save Pakistan Let’s Save Pakistan

Let’s Save Pakistan Let’s Save Pakistan Let’s Save Pakistan Let’s Save Pakistan

Let’s Save Pakistan Let’s Save Pakistan Let’s Save Pakistan Let’s Save Pakistan

Let’s Save Pakistan Let’s Save Pakistan Let’s Save Pakistan Let’s Save Pakistan

Let’s Save Pakistan Let’s Save Pakistan Let’s Save Pakistan Let’s Save Pakistan

Let’s Save Pakistan Let’s Save Pakistan Let’s Save Pakistan Let’s Save Pakistan

Let’s Save Pakistan Let’s Save Pakistan Let’s Save Pakistan Let’s Save Pakistan

Let’s Save Pakistan Let’s Save Pakistan Let’s Save Pakistan Let’s Save Pakistan

Let’s Save Pakistan Let’s Save Pakistan Let’s Save Pakistan Let’s Save Pakistan

Let’s Save Pakistan Let’s Save Pakistan Let’s Save Pakistan Let’s Save Pakistan


   
~~~~~~~~~~~

اسلامی ریاست 

https://bit.ly/IslamicState-Pk