Pages

کچھ اس سے زیادہ نہیں اوقات ہماری Dialogue or Danda

ایک شخص کی کسی کے ساتھ لڑائی ہوگئی جس نے مُکا مار کر اس کے دو دانت توڑ دیئے۔ اُس کے ایک دوست کو پتہ چلا تو وہ اظہارِ ہمدردی کے لیے چلا آیا جس پر وہ بولا:
''کوئی لڑائی نہیں‘ صرف تُوتکار ہوئی تھی‘‘۔
''اور یہ تمہارے اگلے دو دانت؟‘‘ دوست نے حیران ہو کر کہا تو اس نے جواب دیا۔
''یہ تو میں نے پہلے ہی نکلوا دینے تھے‘‘۔
کون نہیں جانتا کہ ہم اس وقت دہشت گردوں‘ جنہیں طالبان بھی کہا جاتا ہے‘ کے ساتھ حالتِ جنگ میں ہیں لیکن حکومت اگر اسے تُوتکار ہی سمجھتی ہے تو اُسے اپنے شکستہ دانتوں پر بھی ایک نظر ڈال لینی چاہیے اور جس کا ایک مطلب یہ بھی ہے کہ اس قوم کے ساتھ کبھی سچ نہیں بولا گیا۔ اگرچہ وزیراعظم نے اپنے طویل سوچ بچار کے بعد فریقِ مخالف کے ساتھ مذاکرات کے لیے ایک چار رکنی کمیٹی تشکیل دے دی ہے تو اسے بھی اتمامِ حجّت ہی سمجھنا چاہیے بلکہ مزید اتمامِ حجّت‘ کیونکہ بقول صدر ممنون حسین‘ حکومت حجّت تو پہلے ہی تمام کر چکی ہے۔ اور لطف یہ ہے کہ طالبان نے بھی مذاکرات پر آمادگی کا مظاہرہ کر کے حجّت ہی تمام کی ہے اور حکومت کے نہلے پر دہلا ہی مارا ہے کیونکہ حکومت کی طرح وہ بھی سمجھتے ہیں کہ یہ مخولیہ مذاکرات اگر ہو بھی گئے تو ان سے کوئی نتیجہ ہرگز نہیں نکلنے والا‘ اور اس کے بعد جو کچھ ہونا ہے‘ وہ اس کے لیے بھی تیار ہیں۔
سو‘ اگر تو چار معزز ارکان کی یہ جائزہ کمیٹی ہے کہ یہ معلوم کرے کہ طالبان واقعی مذاکرات کرنا چاہتے ہیں تو اس کی ضرورت ہی سرے سے نہیں تھی کیونکہ اس پر وہ اپنی رضامندی کا اظہار تو تیسری چوتھی بار کر ہی چکے تھے۔ اور اگر باقاعدہ مذاکرات بھی انہی حضرات نے کرنا ہیں تو یہ کمیٹی غیر متوازن محسوس ہوتی ہے۔ اس میں دوسرے شعبوں سے بھی نمائندے لیے جانے چاہئیں تھے؛ چنانچہ یہ بھی گونگلوئوں پر سے مٹی جھاڑنے ہی کی ایک مشق ہو کر رہ گئی لگتی ہے۔
سب سے اہم بات یہ ہے کہ طالبان یہ حتمی اعلان کر چکے ہیں کہ وہ نہ تو آئین پاکستان کو مانتے ہیں نہ اس جمہوری نظام کو۔ تو سوال پیدا ہوتا ہے کہ اُن کے ساتھ مذاکرات کس بات پر کیے جا رہے ہیں۔ صاف ظاہر ہے کہ اس ضمن میں دونوں فریق ایک دوسرے کو کوئی رعایت دینے کی پوزیشن میں نہیں ہیں جبکہ مذاکرات ہمیشہ کچھ لو اور کچھ دو کی بنیاد پر ہی ہوتے ہیں؛ چنانچہ حکومت کے پاس تو اس صورتِ حال میں دینے کے لیے کچھ بھی نہیں ہے کیونکہ نہ تو وہ آئین پر کوئی سمجھوتہ کر سکتی ہے نہ اس نظام پر‘ حالانکہ نہ تو یہ کوئی جمہوریت ہے نہ ہی آئین پر صحیح عمل ہو رہا ہے۔ خیر‘ یہ ایک الگ بحث ہے۔
طالبان کی نیت تو یہ ہے کہ وہ اس ملک پر قبضہ کر کے اس پر اپنی پسند کا اسلامی نظام نافذ کرنا چاہتے ہیں جبکہ وزیراطلاعات پرویز رشید صاحب کو یہ فکر لگی ہوئی ہے کہ وہ ہمارا لباس اور شکلیں ہی تبدیل کرنے کے در پے ہیں اور جس کا مطلب یہ ہے کہ ہمیں نہ صرف داڑھیاں چھوڑنی پڑیں گی بلکہ اگر چوغہ نہیں تو کُرتا شلوار پر گزارا کرنا ہوگا۔ اگرچہ ان کے دور میں جو کچھ ہوگا اور جو تبدیلیاں آئیں گی‘ اس پر تفصیل کے ساتھ لکھا جا سکتا ہے یعنی بات صرف داڑھیوں اور کُرتے شلواروں تک محدود نہ رہے گی۔
اور جہاں تک کچھ لو اور کچھ دو کا تعلق ہے تو شاید طالبان فی الحال اُس علاقے پر قناعت کر لیں جہاں وہ رہائش پذیر ہیں اور جہاں حکومت کی رِٹ پہلے ہی نہ ہونے کے برابر ہے جبکہ ڈیورنڈ لائن پہلے ہی ایک کمزور سی لکیر ہی کی حیثیت رکھتی ہے اور افغانستان حکومت اور اس کے عوام اسے تسلیم ہی نہیں کرتے؛ چنانچہ اگر ایسا ہو بھی جاتا ہے تو یہ محض ایک ابتدا ہوگی‘ اور ان کے مقصدِ عظیم کی طرف پہلا قدم‘ اور جس کا بظاہر کوئی امکان نظر نہیں آتا کہ ہم اپنا آئین ان کی مرضی کے مطابق نہیں ڈھال سکتے کیونکہ اس صورت میں اس کا حلیہ ہی تبدیل ہو کر رہ جائے گا اور ہماری طرف سے سب سے بڑا اعترافِ شکست بھی۔
اس صورتِ حال میں کسی کامیاب یا نتیجہ خیز مذاکرات کا وقوع پذیر ہونا دیوانے کے خواب سے زیادہ کی حیثیت نہیں رکھتا اور یہ رسم پوری کرنے کے بعد آپریشن ہی کے آپشن کی طرف آنا پڑے گا۔ پھر‘ امریکہ جو اس جنگ کا پس پردہ سب سے بڑا کھلاڑی ہے وہ اس دوران صرف تماشا دیکھے گا اور اپنی بوئی ہوئی فصل ہی کاٹ رہا ہوگا جبکہ اس دوران فوج کو سب سے بڑا محاذ تقریباً خالی چھوڑنا ہوگا۔
چنانچہ یہ صورت حال اور لاینحل مسئلہ ہماری حکومتوں کی اپنی بے تدبیریوں کا شاخسانہ ہے جبکہ موجودہ حکومت ماشاء اللہ جس ویژن سے آراستہ ہے اور اس نے پچھلے سات آٹھ ماہ کی بے عملی سے معاملہ جس حد تک خراب کر لیا ہے وہ اپنی مثال آپ ہے۔ یہ حکومت کاروباری اسرار و رموز پر تو حیرت انگیز دسترس اور مہارت رکھتی ہے اور جو اس کا اصل کام بھی ہے جبکہ پرویز مشرف کے مقدمے کی طرح یہ چھچھوندر اس سے نہ نگلی جا رہی ہے نہ اُگلی۔ اور برخوردار بلاول بھٹو زرداری جو اُچھل اُچھل کر آپریشن کی دہائی دے رہے ہیں تو ان سے پوچھنا بنتا ہے کہ اس آپشن کے بارے میں موصوف نے اپنے ابا جان سے کیوں نہ کہا جو پانچ سال تک سفید و سیاہ کے مالک رہے ہیں!
سو‘ طالبان جو نہ صرف مسلسل دہشت گردی کی کارروائیاں کرنے کے ساتھ اس کی ذمہ داری اور کریڈٹ بھی لیتے رہتے ہیں‘ انہوں نے اپنی اور ہماری طاقت کا اندازہ کر کے ہی یہ رویہ اختیار کر رکھا ہے‘ اور مذاکرات کے اس ڈرامے کے فلاپ ہونے پر وہ اپنی کارروائیوں کا دائرہ کہیں تک بھی پھیلا سکتے ہیں جبکہ مذاکرات پر آمادگی بھی انہوں نے ان عناصر کی ہمدردیاں برقرار رکھنے کے لیے ظاہر کی ہے جو ان کے لیے پہلے ہی نہ صرف نرم گوشہ رکھتے ہیں بلکہ ان کی حوصلہ افزائی کا باعث بھی ہیں؛ چنانچہ آپریشن کی صورت میں اس ملک میں جو تماشا لگے گا وہ شاید ہمارے خدشات سے کہیں بڑھ کر ہوگا۔
آج کا مطلع
رہ جاتی ہے بس بیچ میں ہی بات ہماری
کچھ اس سے زیادہ نہیں اوقات ہماری

http://dunya.com.pk/index.php/author/zafar-iqbal/2014-01-31/5894/30242839#tab2

Hypocrisy or Sharia Rule? منافقت اور شریعہ کا نعرہ

 ''اسلام اپنے پیروکاروں کوجو بنیادی اصول سکھاتا ہے وہ سچائی اور دیانت داری ہے، لیکن افسوس، آج دنیا بھر میں مسلمانوں کا شمار انتہائی بددیانت افراد میں ہوتا ہے۔ اس ضمن میں کسی سرچ انجن پر جانے کی ضرورت نہیں، اپنے وطن پاکستان کے حالات پر نظر ڈال لیں تو سب کچھ واضح ہوجائے گا‘‘
ایک شخص قتل کا ارتکاب کرتا ہے، اگر قاتل گمنام شخص ہے تو جب مقتول کے مدعی ایف آئی آر درج کراتے ہیں تو وہ اکثر ان افراد کو بطور ملزم نامزد کردیتے ہیں جن سے مقتول کے خاندان کی دشمنی ہوتی ہے۔ ایسا کسی واقعاتی شہادت کے بغیر کیا جاتا ہے۔ بعض صورتوں میں مدعی خاندان کو معلوم ہوتا ہے کہ وہ شخص قاتل نہیں۔ جب کوئی شخص کسی کی جائیداد یا زمین کرائے پر حاصل کرتا ہے تو اس پر قبضہ جماکر بیٹھ جاتا ہے۔ یہ کیس عدالت میں جاتا ہے تو ملزم وہاں مہنگے وکلا کی خدمات حاصل کرتے ہوئے کیس کو لٹکا دیتا ہے۔ ہماری ماتحت عدالتیں بھی جلدی فیصلے سنانا پسند نہیں کرتیں؛ چنانچہ وہ کیس برسوں چلتا رہتا ہے۔ اس دوران وہ شخص زمین پر بدستور قبضہ جمائے بیٹھا رہتا ہے جبکہ اس کا جائزمالک دربدر خوار ہورہاہوتا ہے۔ ایک آدمی اپنی بیوی کوطلاق دیتا ہے لیکن وہ اسے نان و نفقہ دینے سے گریز کرتا ہے اور اس کے لیے وہ کسی شرعی قانون کا سہارا لیتا ہے۔ عام طور پر بھائی اپنی بہنوں کو زمین میں حصہ نہ دینے کے لیے مختلف بہانے تلاش کرتے رہتے ہیں۔اس طرح کے تمام لوگ اسلامی احکامات کی صریحاً خلاف ورزی کرتے ہیں لیکن وہ طالبان کی اس لیے حمایت کرتے ہیںکہ وہ شریعت نافذ کرنا چاہتے ہیں۔ 
''ملک میں جھوٹی گواہی دینا معمول ہے۔ اہم برانڈز کی نقلیں تیار کرکے فروخت کی جاتی ہیں اور اسے مذہبی احکامات کی خلاف ورزی نہیں سمجھا جاتا۔ سیکولر تعلیم کے نام سے ان کے تن بدن میں آگ لگ جاتی ہے لیکن بات کرتے ہوئے انہیں یقین ہوتا ہے کہ ہر قسم کی سائنسی پیش رفت اور ٹیکنالوجی ان کے گھر کی باندی ہے۔ ان کا آئیڈیل سعودی عرب کا اسلامی نظام ہے لیکن ٹریفک جیسے ملکی قوانین کی خلاف ورزی کرتے ہوئے وہ سعودی عرب اور خلیجی ریاستوں کی طرف نہیں دیکھتے‘‘
کیا آپ جانتے ہیں کہ اس ملک میں جہاں شریعت کے نفاذ کے لیے لوگ ایک دوسرے کو ماررہے ہیں، جعلی اشیا تیار کرنے پر کسی کو آخری بار سزا کب ملی تھی؟ 
جب معاملات خرابی کی طرف مائل تھے تو حکومتی ادارے اور سکیورٹی ایجنسیاں کہاں تھیں؟ اُنھوں نے یہاں آنے والی تبدیلیوں سے اغماض برتتے ہوئے معاملات کو خراب ہونے کی اجازت کیوں دی؟ ڈاکٹر رفعت کا کہنا ہے کہ اب تواٹک کا پل پار کرتے ہی خوف کے سائے دل میں گھر کر لیتے ہیں ، ہر چادر پوش خودکش حملہ آور دکھائی دیتا ہے۔ 
کیا پانچ وقت کی عبادت اور جعل سازی ایک ساتھ چل سکتی ہے؟ اگر ریاست ان معاملات سے اغماض برتتی رہی ہے تواس میں حیرت کی کوئی بات نہیںکہ اس کے نتیجے میں دہشت گردوںکو کھلی چھٹی ملی ہوئی ہے۔ اگر کسی برائی کا شروع میں خاتمہ نہ کیا جائے تو بعد میں اس کی بیخ کنی دشوار ہوجاتی ہے۔ ہمارے ساتھ شاید یہی کچھ ہوا ہے۔آج دہشت گردی کرنے والے کبھی نہایت معصوم بچے ہوتے تھے۔ آج کے کسی خود کش بمبار کی انگلی پر لگنے والے زخم سے بھی اس کی والدہ تڑپ اٹھتی تھی،اس کے والد نے خود بھوکے رہ کر اُسے جوس کا پیکٹ اوربسکٹ کاڈبہ لا کر دیا ہوگا ۔ درست کہتے ہیں کہ یہ ہمارے ہی لوگ ہیں، تو پھر تلاش کریں ان لوگوں کو جنہوںنے ان کو ہماری جان کا دشمن بنا دیا۔ یقین کریں ، وہ بھی آپ کے آس پاس ہی ہیں، لیکن ان کا نام لینے کی کوئی جرأت نہیںکرتا۔ ہم کس آتش فشاں میںکود چکے ہیں کہ ہزاروں جانوں کا لہو بھی کھولنے والے اس الائو کو سرد نہیں کرسکا؟ 
Extract from Anjum Niaz
http://dunya.com.pk/index.php/author/anjum-niaz/2014-01-26/5834/72785901#tab2
Related:
Free-eBooks: http://goo.gl/2xpiv
Peace-Forum Video Channel: http://goo.gl/GLh75

Terrorism & Ideology of TTP not Islamic


اللہ کے آخری رسولؐ نے ارشاد فرمایا: اللہ نے عقل کو پیدا کیا تو اس سے کہا کہ چل پھر کے دکھا۔ پھر اس پہ ناز فرمایا اور یہ ارشاد کیا کہ کسی کو جو کچھ بھی دوں گا‘ تیرے طفیل دوں گا اور جو بھی لوں گا‘ تیری وجہ سے لوں گا۔ قرآن کریم کی اس آیت کریمہ کا بار بار ناچیز حوالہ دیتا ہے: جو ہلاک ہوا‘ وہ دلیل سے ہلاک ہوا‘ جو جیا وہ دلیل سے جیا۔ 
جانور اور آدمی کا بنیادی فرق کیا ہے؟ عقل و شعور۔ غوروفکر کی استعداد اور علم۔ روزِ ازل فرشتوں نے جب آدمی کو اللہ کا خلیفہ بنانے پر تعجب کیا تو ان کے درمیان ایک مقابلے کا اہتمام کیا گیا۔ قرآن کریم کہتا ہے کہ آدم علیہ السلام نے تو سوالوں کے جوابات فرفر دیئے۔ فرشتوں نے یہ کہا: تو پاک ہے‘ ہم صرف اتنا ہی جانتے ہیں‘ جو تو نے ہمیں عطا کیا۔ 
فرد یا قوم‘ تخلیقی اندازِ فکر کے بل پر آدمی آگے بڑھتا ہے۔ روایتی مذہبی طبقے کا مسئلہ یہ ہے کہ وہ ماضی میں زندہ رہتا ہے اور ہیجان کا شکار ہوتا ہے۔ دنیا بدل گئی۔ صنعتی انقلاب اور سائنس نے زندگی کو یکسر تبدیل کردیا۔ ہمارا مذہبی آدمی مگر قبائلی عہد میں جیتا ہے۔ خود دین کو بھی وہ پچھلی دو صدیوں میں جنم لینے والے مکاتبِ فکر کے ذریعے سمجھنے کی کوشش کرتا ہے۔ قرآن و حدیث‘ سیرت اور تاریخ کے براہِ راست مطالعے سے نہیں۔ اکثر وہ غلط نتائج اخذ کرتا ہے۔ ایک صاحب کو دیر تک میں سمجھاتا رہا کہ مسواک سنت نہیں بلکہ دانتوں کی صفائی۔ اگر کراچی کے دو کروڑ شہری صبح سویرے مسواک ڈھونڈنے نکلیں تو کیا ہوگا۔ بولے: کمال کرتے ہیں آپ‘ یہ مولانا انور شاہ کاشمیری کا فتویٰ ہے۔ ایک ذرا سا غور کیا ہوتا‘ مولانا کاشمیری کے زمانے میں ٹوتھ پیسٹ نہیں تھی‘ مسواک کا حصول آسان تھا‘ اب تقریباً ناممکن۔ بجا طور پر امام ابو حنیفہؒ کو اہلِ علم کا امام کہا گیا۔ آج ان کے فتوے پر مگر نظرثانی کی ضرورت ہے کہ سفر کی نماز 29 کلو میٹر کے بعد روا ہے۔ بارہ سو برس پہلے جیٹ طیارے نہیں تھے۔ اب نیویارک جانے والا‘ ہوائی اڈے پر سفر کے دبائو کا شکار ہو جاتا ہے۔ 
ہم اپنے عصر میں جیتے ہیں۔ سرکارؐ سے منسوب یہ ہے کہ دانا وہ ہے جو اپنے زمانے کو جانتا ہے۔ ابدی چیز‘ اقدار اور اصول ہیں‘ طرزِ حیات کے ظاہری عنوانات اور مظاہر نہیں۔ ہم طالبان کی شریعت کے تحت کیسے زندگی گزار سکتے ہیں‘ جو داڑھیاں ماپتے ہیں اور جن کا فرمان ہے کہ وہ ریڈیو‘ ٹیلی ویژن اور بینک کو بروئے کار رہنے کی اجازت نہیں دے سکتے۔ دین کی روح سے وہ بے خبر ہیں‘ ایک انتہا پسند مذہبی مکتب فکر کے اسیر‘ فرقہ پرست۔ جو نہیں جانتے کہ رحمۃ اللعالمینؐ نے فروغِ علم سے معاشرے کو بدلا تھا‘ طاقت کے بل پر نہیں۔ ابوجہل تک کے دروازے پر آپؐ تشریف لے گئے۔ خیرخواہی‘ نرمی اور محبت کا درس دیا۔ ریاست قائم کی تو مشرکین اور یہودیوں کے ساتھ‘ مسلمانوں کو ایک امت قرار دیا‘ قوانین کا اطلاق جن پہ یکساں تھا‘ حقوق و فرائض بھی یکساں۔ مسلمان کی ذاتی زندگی الگ ہے اور ریاست ایک دوسری چیز۔ عمرؓ فاروق اعظم کی فوج میں دس ہزار یہودی موجود تھے۔ وہی کیا‘ بعد کے ادوار میں بھی مسلمان حکومتوں میں یہودی محفوظ و مامون رہے۔ 
سید منور حسن نے سچ کہا‘ نہ بمباری سے فساد ختم کیا جا سکتا ہے اور نہ بندوق کے بل پر شریعت نافذ کی جا سکتی ہے۔ امریکہ سے نجات حاصل کرنے کے لیے ملک کو طاقتور ہونا چاہیے‘ مستحکم! اور یہ نفاذِ قانون سے ممکن ہے۔ ایسی پولیس اور ایسی عدالت‘ جو طاقتوروں کو سزا دے سکے۔ قبائلی علاقوں کا ذکر کیا‘ جمعہ کو خرم دستگیر کے حامیوں نے کیا کیا؟ بالکل وہی اندازِ فکر۔ گوجرانوالہ شہر میں کشمیری برادری کے غلبے کا اعلان۔ یہ میاں محمد نوازشریف کی عنایت کے طفیل ہے‘ جن کی آدھی کابینہ نسلی بنیاد پر چُنی گئی۔ کشمیری خوب ہیں‘ مگر دوسرے؟ 
تقریباً تمام کی تمام قومی توانائی انتشار کی نذر ہے۔ غور کیجیے کہ فقط ٹیکس وصولی‘ بھارت کے برابر‘ 16 فیصد ہو جائے تو امریکہ کے ہم محتاج نہ رہیں گے۔ حقیقی امن اگر قائم ہو سکے اور انصاف میسر ہو تو چند برس میں پاکستانی شہری چھ ہزار ا رب سالانہ ٹیکس ادا کر سکتے ہیں۔ 
عفریت دو ہیں‘ ایک افغانستان میں در آنے والا امریکہ اور دوسرے ریاست کو ادھیڑ دینے پر تلے ہوئے طالبان۔ کیسا ظلم ہے کہ کچھ لوگ امریکہ کے خلاف زبان ہی نہیں کھولتے‘ جو عالمِ اسلام کی تباہی کے در پے ہے‘ اسرائیل اور بھارت کا پشتیبان۔ کچھ دوسرے مساجد‘ مزارات اور مارکیٹوں میں قتلِ عام کرنے والوں کے لیے جواز ڈھونڈتے پھرتے ہیں۔ ایک استعمار سے مرعوب اور ایک اس فرقہ پرست مولوی سے۔ جدید زندگی کیا‘ جو مذہب سے آشنا بھی نہیں۔ اقبال نے سچ کہا‘ فرانزز فینن نے سچ کہا‘ غلامی عقل و خرد کو چاٹ جاتی ہے۔ 
بھروسہ کر نہیں سکتے غلاموں کی بصیرت پ
Free-eBooks: http://goo.gl/2xpiv
Peace-Forum Video Channel: http://goo.gl/GLh75

لال مسجد Madaris -Need of reforms : key for Peace & Progress


مدارس کا وجود اس لحاظ سے غنیمت جانیے کہ وہ اپنے طور پر دس پندرہ لاکھ یتیم، غریب اور بے آسرا بچوں کو اپنی چھت تلے پناہ دیتے ہیں۔ انہیں مفت رہائش و خوراک بھی مہیا کرتے ہیں اور مذہبی تعلیم بھی، ورنہ ان میں سے بہت سے بچے کشکول اٹھائے سڑکوں پر گدائی کرتے نظر آئیں اور کچھ چوری، ڈاکے اور دوسرے جرائم میں پس دیوار زنداں ہوں۔ کوئی گلی محلوں میں چرس اور ہیروئین کا زہر بیچ رہا ہو اور کوئی خود نشے کی لت میں گرفتار 'جہاز‘ بنا اڑتا پھرے۔ مگر ہمیں یہ بھی دیکھنا ہو گا کہ مدارس کی تعلیم کے بعد ایک نوجوان سماج میں کیا کردار ادا کرتا ہے؟ وہ فقہی اختلافات پر افہام و تفہیم کا راستہ لیتا ہے یا بم و بارود کا؟ مدارس کے فارغ التحصیل نوجوان بحیثیت مجموعی قوم کے پیداواری عمل (Productive Activity) میں اپنا کتنا حصہ ڈالتے ہیں؟ وہ قوم اور سماج کو اپنی محنت سے کتنا فائدہ پہنچاتے ہیں اور علم و ادب کے گیسو کس طرح سنوارتے ہیں؟ ان سے کتنی سائنسی ایجادات سرزد ہوتی ہیں اور وہ ریسرچ کے میدان میں کیا کیا معرکے مارتے ہیں؟
ان معاملات میں مدارس کی تہی دامنی تکلیف دہ حقیقت سے کم نہیں کہ شاید دوچار مدارس کے سوا ان طلبہ کو کوئی ایسی ٹیکنالوجی یا ہنر نہیں سکھایا جاتا جس کے ذریعے وہ عملی زندگی میں اپنے لیے خود روزی کما سکیں۔ یہی وجہ ہے کہ ان مدارس کا کوئی فارغ التحصیل نوجوان نہ تو ہمیں کھیتوں کھلیانوں میں ہل چلاتا نظر آتا ہے اور نہ کسی صنعت، فیکٹری یا ورکشاپ میں مصروف کار دکھائی دیتا ہے۔ جب کوئی مبلغ دین اپنی روٹی کمانے سے ہی لاچار ہو تو وہ سماج کے لیے 'رول ماڈل‘ کیسے بن پائے گا؟ لوگوں کو تو اسوۂ حسنہ پر چلنے کی تلقین کرے مگر خود محنت شاقہ سے جی چرائے۔ آپؐ نے تبلیغ دین کے ساتھ ساتھ اپنے ہاتھوں کی مشقت سے اپنے لیے روٹی کمائی جبکہ ہم بچوں کو پڑھارہے ہیں کہ وہ یہی آیات سنا کر روزی کمائیں۔ اسلام میں تھیوکریسی کا کوئی تصور نہیں۔ نہ پنڈت کا اور نہ پادری کا مگر آج ہماری حالت علامہ اقبال کے اس شعر سے کہیں زیادہ خراب تر دکھائی دے رہی ہے؛
گلا تو گھونٹ دیا اہل مدرسہ نے تیرا
کہاں سے آئے صدا لا الہ الا اللہ
ملائیت نے آج تک عورت کے حقوق کی حمایت میں کوئی فتویٰ جاری نہیں کیا۔ کوئی غریب اور بے آسرا عورت اگر دارودوا اور علاج کے بغیر مرتی ہے تو مرتی رہے۔ اگر کسی کو سر پر چھت میسر نہیں تو نہ ہو۔ اگر کوئی مطلقہ عورت سڑکوں پر بھیک مانگتی پھرتی ہے تو شرع کی توہین نہیں ہوتی۔ کسی پر جبر و تشدد ہوتا ہے تو یہ اس کا ذاتی مسئلہ...ہاں البتہ اگر اس نے نیل پالش لگا لی تو نہ اس کا وضو جائز ہے اور نہ نماز۔ اگر اس نے گاڑی چلا لی تو قابل تعزیر ٹھہری۔ کوئی پوچھے ! اگر اس کا گاڑی کی فرنٹ سیٹ پر بیٹھنا گرفت کے قابل نہیں تو پھر ڈرائیونگ سیٹ پر بیٹھ جانے سے کونسا زلزلہ آ جائے گا؟ آخر وہ زمانہ قدیم میں اونٹ اور گھوڑے کی پیٹھ پر بھی تو سوار ہوتی رہی ہو گی۔
طالبان کے پہلے شرعی دور میں علم و ہنر سے بے بہرہ طالبان‘ ڈنڈے ہاتھوں میں لیے افغانستان کے کوچہ و بازار میں گھوما کرتے۔ جس گھر سے ریڈیو یا ٹی وی کی آواز ابھرتی، وہیں گرفت ہو جاتی۔ کسی گاڑی سے کیسٹ پلیئر یا موسیقی کی کیسٹ کا مل جانا ناجائز بم رکھنے سے بھی بڑا جرم تھا۔ طالبانی ٹولیاں سڑکوں پر داڑھی کی پیمائش بھی کرتیں اور عورتوں کے حجاب کو بھی پوری سختی کے ساتھ کنٹرول کیا جاتا۔ کسی عورت کو طالبانی شرع کے مطابق یہ اجازت نہیں تھی کہ وہ اکیلی ہسپتال تک جا سکے۔ اگر سرراہ کسی کے پائوں کا ناخن بھی نظر آ جاتا تو اس کی ٹانگوں پر قمچیاں ماری جاتیں۔
یہ تب کا ذکر ہے جب لال مسجد کے مولانا غازی انٹیلی جنس کے گھیرے میں تھے۔ میں اُن سے ملنے گیا، اُن سے میری سلام دُعا تھی، میں نے اُن سے کہا کہ اگر دس گیارہ ہزار نوجوانوں کا یہ پرجوش لشکر میرے پاس ہوتا تو میں صرف پانچ سال کے اندر
اندر اس ملک کا نقشہ بدل کر رکھ دیتا۔ میں ان بچیوں سے لائبریری پر قبضہ کروانے کی بجائے انہیں اس لائبریری میں موجود علوم جدیدہ پر مبنی ساری کتب حفظ کروا دیتا۔ ان کے ہاتھ میں لاٹھی کی بجائے قلم کا ہتھیار دیتا۔ کلاشنکوف اور راکٹ لانچر کی بجائے خود بھی جھاڑو اٹھاتا اور انہیں بھی یہی ترغیب دیتا۔ ہم ہفتے میں دو دن غریب بستیوں میں جا کر گندی نالیاں اور کوچے صاف کرتے اور ساتھ ساتھ یہ ورد بھی کرتے جاتے، ''صفائی نصف ایمان ہے۔‘‘ ہم ہفتے میں ایک بار ہسپتالوں کے اندر دارودوا کے لیے ترستے اور بلکتے مریضوں کے پاس جاتے اور تپتی دھوپ میں اُن کے جلتے ورثاء کا دکھ درد بھی بانٹتے۔ جو بچہ سڑک پر بھیک مانگتا نظر آتا، اسے اپنے ہسپتال اور اپنے مکتب میں لے آتے۔ جو روکھی سوکھی خود کھاتے، وہ اسے بھی کھلاتے اور اسے زیورِ تعلیم سے آراستہ کرتے۔ اپاہجوں اور معذوروں کے لیے صدقات جمع کرتے تاکہ ہر چوراہے پر کوئی انہیں بھیک مانگتا ہوا نہ دیکھے۔ ہم فرقہ وارانہ منافرت پھیلانے کی بجائے ہر مسلمان، ہر ہندو اور ہر عیسائی کے صحن میں حاضری دیتے۔ اسلام کے نام پر ڈنڈے لہرانے، کف بدہان ہونے کی بجائے سماج کے مفلوک الحال طبقات کی خدمت کرتے۔ نہ سماج پر درے برساتے اور نہ لوگوں پر کفر کے فتوئوں کی چاند ماری کرتے۔
عورتوں کے پائوں دیکھنے کی بجائے ان کو سماجی تحفظ دیتے۔ یہی انسانی فریضہ بھی ہے اور یہی اللہ کا راستہ بھی۔ یہی دین کا طریقہ بھی ہے اور یہی دنیا میں رہنے کا سلیقہ بھی۔
جب تک حکومت ان مدارس کے طلبہ و طالبات کو دین کی تعلیم کے ساتھ ساتھ جدید علوم و فنون سے آراستہ کرنے کی پالیسی نہیں اپنائے گی‘ فتنہ و فساد اور فرقہ واریت کا بازار گرم رہے گا۔
By Raja Anwar:
http://dunya.com.pk/index.php/author/raja-anwar/2014-01-23/5802/47953613#tab2

Confusion in negotiations with TTP Terrorists

مذاکرات سے مراد کیا ہے؟ مذاکرات کس لیے؟ اگرچہ یہ سوالات ہنوز جواب طلب ہیں، لیکن ہم اس سے ایک عمومی مفہوم اخذ کر سکتے ہیں۔ طالبان جو کچھ کر رہے ہیں ،ہم متفق ہیں کہ درست نہیںکر رہے۔ ہم چاہتے ہیں کہ وہ اس سے باز آ جائیں۔اس کے لیے ہم ان سے مذاکرات کرنا چاہتے ہیں اور انہیں گفت و شنید سے یہ سمجھانا چاہتے ہیں کہ وہ اپنے طرزِ عمل سے رجوع کر لیں۔اگر مطمح نظر یہی تھا تو اس کے کچھ مضمرات تھے۔سب سے پہلے تو ہمیں یہ جانناتھا کہ طالبان کا نظریہ کیا ہے۔ دوسرا یہ کہ ان کے مطالبات کیا ہیں۔ تیسرا یہ کہ سماج میں ان کے نقطۂ نظر کی کتنی پذیرائی ہے۔ اس کے بعد ہم اس قابل ہوتے کہ ایک متبادل نقطۂ نظر (Alternate Narrative) مرتب کرتے۔ میرے علم میں نہیں ہے کہ حکومت میں کسی بھی سطح پر یہ بحث اس طرح اُٹھائی گئی ہو۔
طالبان کا ایک دینی استدلال ہے۔ مذاکرات کا آغاز ہو نہیں سکتا جب تک یہ واضح نہ ہو جائے کہ ان کی تعبیرِ دین درست نہیں۔ یہ کام ظاہر ہے کہ علما اور دینی سکالرز کا تھا۔ حکومت کو سب سے پہلے اہلِ علم کو تلاش کرنا چاہیے تھا جو طالبان کے دینی استدلال کی غلطی واضح کر سکتے۔اس کے بعد ان تک علماء کی معرفت یہ نقطۂ نظر پہنچایا جاتا۔ مجھے اس بات سے کبھی اتفاق نہیں ہو سکا کہ طالبان کسی امریکی سازش کاحصہ ہیں۔ وہ اپنے مؤقف میں مخلص ہیں۔اس لیے وہ کبھی کسی ابہام کا شکار نہیں ہوئے۔مذاکرات کا آغاز علمی مذاکرات سے ہوتا۔ اس کے بعد ان کے مطالبات پر بات ہوتی۔ انہیں بتایا جاتا کہ نفاذ اسلام سے مراد اگر قانونی پیش رفت ہے تو پاکستان کا آئین اس کی ضمانت دیتا ہے۔ اگر اس سے مراد خاص لوگوں کی حکومت ہے تواسلامی تعلیمات کے مطابق یہ جبر سے نہیں ہو سکتا۔ آپ سماج میں اپنا نقطۂ نظر پیش کریں۔ اگر لوگ آپ کے ہم نوا ہو جاتے ہیں تو پھر آپ اپنی مرضی کے حکمران لے آئیں۔ اگر انہیں جمہوریت پر اعتراض تھا تو انہیں بتایا جا سکتا تھا کہ ہماری جمہوریت مغربی جمہوریت سے مختلف ایک تصور ہے۔پاکستان کے آئین قرآن و سنت کی قیادت اور اﷲ تعالیٰ کی حاکمیت اعلیٰ کو تسلیم کرتا ہے۔اس لیے اسے مغربی جمہوریت پر قیاس نہیں کیا جا سکتا جس میں حاکمیت اعلیٰ عوام کے پاس ہے۔ان کا دوسرا مطالبہ تھا امریکا سے تعلقات کا خاتمہ۔اس حوالے سے بھی ان کے سامنے عملی مسائل رکھے جاتے اور ان پر واضح کیا جاتا کہ کس طرح خود رسالت مآب ﷺ نے اپنے عہد کے سماجی ماحول کو پیش نظر رکھ کر حکمتِ عملی ترتیب دی۔
اس کو بھی دیکھنا ضروری تھا کہ سماج میں اس نقطہ نظر کی کتنی پزیرائی ہے۔اگر ایک معاشرے میں کوئی نقطہ نظر مقبول ہے تو پھر اس کے عَلَم برداروں کے خلاف کوئی اقدام نتیجہ خیز نہیں ہو سکتا۔ضرورت تھی کہ حکومت متبادل نقطہ نظر پورے جوش و خروش اور دینی استدلال کے ساتھ عوامی سطح پر متعارف کراتی تاکہ طالبان کو مزید افرادی قوت میسر نہ آسکتی۔ اس کے ساتھ چوتھا کرنے کا کام یہ تھا کہ ان لوگوں کو تلاش کیا جاتا جن کے ساتھ طالبان کا اعتماد کا رشتہ ہے اور ان کے ذریعے ان تک اپنا موقف پہنچایا جاتا۔
حکومت نے اس طرح کا کوئی کام نہیںکیا۔ان کی تمام تر توجہ انتظامی امور پر رہی۔حکومت کے ذمہ داران کی نگاہ اس جانب نہیں اٹھی کہ جب مقابلہ ایک نظر یے(Ideology) سے ہو تو صرف مادی تیاری کافی نہیں ہوتی۔ طالبان کی کامیابی کی سب سے بڑی وجہ ان کی نظریاتی یک سوئی ہے۔ ان کو اپنی نظریاتی صحت پر اتنا یقین ہے کہ وہ اپنی بات پورے استدلال کے ساتھ علماء، ریاست اور میڈیا کے سامنے رکھ چکے۔ یہ نقطۂ نظر بلا شبہ غلط ہے لیکن ابہام سے پاک ہونے کی وجہ سے اس کے ماننے والے منظم ہیں اور یک سو بھی۔وہ سیرت کے اہم باب صلح حدیبیہ سے استدلال کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ انہوں نے درپیش معرکے میں ایک جائز فریق کی حیثیت حاصل کر لی۔ یہ بات اس وقت ثابت ہو گئی جب حکومت اور وزارتِ داخلہ کے پسندیدہ علماء نے ایک اعلامیہ جاری کیا جس میں حکومت اور طالبان کو ایک تنازع کے دو فریق قرار دیاگیا جن کی اخلاقی ، قانونی اور شرعی حیثیت یکساں ہے۔ طالبان نے اپنے آپ کو دوبارہ منظم کرنے کا وقت بھی حاصل کر لیا۔ اب وہ مستقبل کی منصوبہ بندی کر رہے ہیں۔ اس کے جواب میں حکومت کے پاس کیا ہے؟صرف ابہام۔
آٹھ ماہ اور ان گنت جانیں ضائع کرنے کے بعد یہ واضح نہیں ہو سکا کہ حکومت کیا چاہتی ہے؟ میرا تو خیال ہے دہشت گردی کا خاتمہ ابھی تک حکومت کی پہلی ترجیح ہی نہیں بن سکا۔ کام دو ہی ہیں۔ ایک متبادل نقطہ نظر کی تشکیل اور پھر بااعتماد لوگوں کی معرفت پاکستان تحریکِ طالبان سے بات چیت، اگر حکومت مذاکرات کے لیے یکسو ہے تو میرا خیال ہے اس کام کے لیے ملا عمر سے بہتر کوئی واسطہ نہیںہو سکتا۔ پاکستان تحریکِ طالبان کے لوگ انہیں امیر المومنین کہتے ہیں۔ حکومت کو چاہیے کہ ''کوئٹہ شوریٰ‘‘ یا کسی اور واسطے سے ان کے ساتھ رابطہ کرے اور انہیں ثالث بنا دے۔اس وقت پاکستانی طالبان سے نتیجہ خیز مذاکرات کا یہی طریقہ ممکن دکھائی دیتا ہے۔کیا حکومت یہ طرزِ عمل اختیار کر سکے گی؟ میرا خیال ہے اس کا وقت گزر چکا۔اب اصل فریق میدان میں آچکا۔شمالی وزیرستان اس وقت پاک فضائیہ کے طیاروں کی زد میں ہے۔
By Khursheed Nadeem dunya news

مذہبی سیاسی جماعتیں Religious Islamic political parties & Islamic Republic of Pakistan


بالآخر جمعیت علمائے اسلام وفاقی کابینہ تک پہنچ گئی۔کیا اس طرزِ سیاست کا دور دور تک نفاذِ اسلام سے کوئی تعلق ہے؟
مو لا نا فضل الرحمن اقتدار کے دروازے پرایک مدت سے دستک دے رہے تھے۔پہلے اسلامی نظریاتی کونسل کی کھڑکی کھلی۔مولا نا نے اس پر اکتفا نہیں کیا۔ پھر کشمیر کمیٹی کا دروازہ نما دریچہ واہوا۔اقتدار کے ایوانوں سے آنے والے لطیف جھونکوں سے جمعیت کی فضامزید خوش گوار ہوئی لیکن مو لانا چند کلیوں پہ کہاں قناعت کرنے والے ہیں۔ان کی 'تکبیرِمسلسل‘ سے ان پر وفاقی کابینہ کا 'شاہ در‘ بھی کھل گیا۔میرے نزدیک اس عمل میں کوئی بات ناجائز ہے نہ قابل ِگرفت۔سیاست اقتدار کے لیے ہوتی ہے۔یہ فراست اور بصیرت کا امتحان ہے۔مو لا نا کو یہ فن آتا ہے کہ کس طرح اپنے جثے سے زیادہ حصہ وصول کیا جائے۔اگر دینے والوں کو اعتراض نہیں تو ہمیں کیا اعتراض۔میرا اعتراض مگر ایک اور پہلو سے ہے۔یہ سب کچھ سیاست نہیں، اسلام کے نام پر ہو تا ہے۔اسے مذہب کا سیاسی استعمال کہتے ہیں اور آج اسلام اور ریاست کے لیے اگرکوئی بات سب سے زیادہ نقصان دہ ہے تو یہی ہے۔مو لا نا فضل الرحمن اس کار ِ خیر میں تنہا نہیں۔یہ بدعت اب ہماری سیاست کے رگ و پے میں سرایت کر چکی ہے۔
مذہب سیاست سے جدا نہیں۔ اس کا قطعی مطلب یہ نہیں کہ مذہب کے نام پر سیاست کی جا ئے۔مذہب جس طرح زندگی کے تمام شعبوں کے لیے راہنمائی فراہم کر تا ہے، اسی طرح سیاست اور ریاست کے امور میں بھی راہنما ہے۔یہ بات ہم نے اپنے آئین میں لکھ دی ہے۔ہم نے اس ملک میں ایک ساتھ رہنے کے لیے جو عمرانی معاہدہ کیا ہے،اس میںبطور اصول یہ مان لیا گیا ہے کہ قرآن وسنت کے خلاف کوئی قانون نہیں بنے گا۔ایک عام آ دمی بھی آج یہ حق رکھتا ہے کہ وہ عدالت کا دروازہ کھٹکھٹائے اور ایسے قانون کو چیلنج کر دے جو اس کی دانست میں خلافِ اسلام ہے۔اسی کے تحت اس وقت سود کے خلاف ایک مقد مہ زیرِ سماعت ہے اور عدالت نے حکومت کو طلب کر رکھا ہے۔اب اس کام کے لیے کسی سیاسی جماعت کی ضرورت ہے نہ کسی مہم کی۔دوسرے لفظوں میں اس وقت کسی مذہبی سیاسی جماعت کی ہمیںحاجت نہیں ہے۔
آج چند مسائل ایسے ہیں جن میں قانون اور ریاست کی سطح پر پیش رفت کی ضرورت ہے۔ان میں ایک سودی نظام کا خاتمہ ہے۔ 1973ء کے آئین میں یہ وعدہ کیا گیا تھا کہ دس سال میں اس کا خاتمہ کر دیا جائے گا۔یہ نہیں ہو سکا۔اس کے اسباب اس وقت زیر ِ بحث نہیں۔یہاں صرف یہ نکتہ واضح کر نا ہے کہ اس آئین کے بعد اس باب میں جو کچھ ہوا، وہ عدالتوں میں ہوا۔سود کے خاتمے کے لیے مذہبی سیاسی جماعتوں کا کوئی کردار نہیں رہا اور ہو بھی نہیں سکتا تھا۔اب یہ کام دین کے علماء، ماہرینِ معیشت، حکومت اور عدالت کا ہے۔علماء اور سکالر دین کے حوالے سے راہنمائی دیں گے۔ماہرینِ معیشت عصری مسائل کو نمایاں کریں گے اور حکومت کویہ دیکھنا ہے کہ ان دونوں آراء کی روشنی میں وہ کیسے معاشی نظام ترتیب دے سکتی ہے۔عدالت کو اس کا جائزہ لینا ہے کہ حکومت اگر اب تک اس میں ناکام ہے تو اس کی وجہ اس کی عدم دلچسپی ہے یااس راہ میں اسے فی الحقیقت مسائل کا سامنا ہے۔اس سارے عمل میں کسی مذہبی سیاسی جماعت کا کوئی کردارنہیں۔اس مثال سے واضح ہے کہ ریاست کی اسلامی تشکیل کے لیے کوئی ایسی ضرورت باقی نہیں جو ایک مذہبی سیاسی جماعت کے وجودکو ناگزیر بنائے۔
اس وقت مسئلہ ریاست سے زیادہ،سماج اور فرد کا ہے۔اگر تمام سماجی اداروں اور افراد کا تزکیہ ہو جائے تو ہمارا معاشرہ اپنی ساخت میںاسلامی ہو سکتا ہے۔آج اگر ہماری اخلاقی قدریں زوال کا شکار ہیں تو اس کی بڑی وجہ حکومت نہیں، سماجی ادارے ہیں۔مسجد، محراب و منبر، خانقاہ، مدرسہ، میڈیا، یہ سب سماجی ماحول پر اثر انداز ہوتے ہیں۔ ان میں سے کوئی ریاست یا حکومت کے تابع نہیں۔اس باب میں ریاست کی بے بسی کا یہ عالم ہے کہ اگر وہ مدارس کو قانون کا پابند کرنا چاہتی ہے تو اسے مداخلت فی الدین سمجھا جاتا ہے اور اگر میڈیا کو روکتی ہے تو یہ آزادیٔ رائے کا مسئلہ بن جا تا ہے۔ان سماجی اداروں کا کردارا ُس وقت سماج کی اخلاقی ضروریات سے ہم آہنگ ہوگا جب اصلا ح کی کوئی بڑی علمی، فکری اور سماجی تحریک برپا ہو گی۔ یہ تزکیۂ علم سے تزکیۂ سماج تک کا سفر ہے۔ظاہر ہے کہ یہ کام کسی سیاسی جماعت کا نہیں۔اس لیے میں کہتا ہوں کہ آج پاکستان کو کسی سیاسی مذہبی جماعت کی ضرورت نہیں۔
میرا تجزیہ ہے کہ پچھلے پچیس سال میں ریاست و سماج کی اسلامی تشکیل کے باب میں ہماری مذہبی سیاسی جماعتوں کا کوئی کردار نہیں ہے۔اس سے پہلے جب تک آئین سازی کے مراحل درپیش رہے،تب ان کا ایک کردار تھا۔ یہ سفر مکمل ہو چکا، اس لیے ان جماعتوں کا کردار بھی ختم ہو گیا۔گزشتہ پچیس سالوں میں یہ جماعتیں اسی طرح اقتدار کی حریفانہ کشمکش میں فریق ہیں جس طرح کوئی دوسری غیر مذہبی جماعت ہو سکتی ہے۔ دونوں کے سیاسی کردار اور رویے میں مکمل یکسانیت ہے۔جمعیت علمائے اسلام، اس حوالے سے بطورِ خاص نمایاں ہے۔اگر اسے شریکِ اقتدار کر لیا جائے تواسے پیپلزپارٹی کے ساتھ کام کرنے میں کوئی تکلف ہے نہ مسلم لیگ کے ساتھ۔کیا ایم کیو ایم کا رویہ اس سے مختلف ہے جو اعلانیہ ایک سیکولر جماعت ہے؟ 
مذہب کے نام پر ہونے والی اس سیاست کا البتہ مذہب کو بہت نقصان پہنچا ہے۔مذہبی جماعتوں نے اپنے مفاد کے لیے مذہب کو استعمال کیا۔کبھی اپنے انتخابی نشان 'کتاب‘کو قرآن مجید بنا کر پیش کیا۔کبھی سیاسی مخالفین کو یہودی ایجنٹ کہا۔عام سیاسی اختلاف کو مذہبی لبادے میں پیش کیا تا کہ عام آ دمی کے مذہبی جذبات کا استحصال کیا جائے۔لوگوں نے جانا کہ سیاسی فائدے کے لیے جس طرح ایک غیر مذہبی سیاسی جماعت ہر حربے کو جائز سمجھتی ہے، اسی طرح ایک مذہبی جماعت کو بھی وہی حربے استعمال کرتے ہوئے کوئی ندامت نہیں ہوتی۔ایک مذہبی جماعت بھی اسی طرح گروہی مفادات کا تحفظ کر تی ہے جس طرح ایک غیرمذہبی جماعت بلکہ بعض مو قعوں پہ تو ان کا رویہ دوسری جماعتوں سے بھی بدتر ہو تا ہے۔ہماری حالیہ سیاسی تاریخ گواہ ہے کہ ان جماعتوں کا غیر مذہبی جماعتوں سے کوئی اصولی اختلاف ہے نہ نظریاتی۔اگر ہے تو مفادات کا ۔انتخابی اتحاد اس لیے نہیں ہوتا کہ نشستوں کے لین دین پر اتفاق نہیں ہوتایا وزارتوں کی تقسیم پر جھگڑا ہو جاتاہے۔ 
سیاست مو لانا فضل الرحمن کا بھی اِسی طرح حق ہے جس طرح الطاف حسین‘ سید منور حسن اور اسفندیار ولی کا۔ لیکن اس کے لیے مذہب کو استعمال کرنا خود مذہب کے لیے بہت نقصان دہ ثابت ہو رہا ہے۔جمعیت علمائے اسلام کو وزارتیں مبارک‘ لیکن اگر وہ یہ سیاست مذہب کے نام پر نہ کرتے تویہ اسلام کی خد مت ہوتی۔مکرر عرض ہے کہ ہمیںسیاست سمیت زندگی کے ہر شعبے میں اسلام سے راہنمائی لینی ہے۔اس کے لیے ہمیں مذہبی سیاسی جماعتوں کی ضرورت نہیں۔ امرِ واقعہ یہ ہے کہ اب وہ اس راہ میں حائل ہو رہی ہیں۔مذہب کے سیاسی استعمال کا خاتمہ آج مذہب کی سب سے بڑی خدمت ہے۔کیا مذہبی سیاسی جماعتیں اس کے لیے اپنے وجود کی قربانی دے سکتی ہیں؟
By Khursheed Nadeem:
http://dunya.com.pk/index.php/author/khursheed-nadeem/2014-01-20/5767/17575310#tab2