Pages

Hypocrisy or Sharia Rule? منافقت اور شریعہ کا نعرہ

 ''اسلام اپنے پیروکاروں کوجو بنیادی اصول سکھاتا ہے وہ سچائی اور دیانت داری ہے، لیکن افسوس، آج دنیا بھر میں مسلمانوں کا شمار انتہائی بددیانت افراد میں ہوتا ہے۔ اس ضمن میں کسی سرچ انجن پر جانے کی ضرورت نہیں، اپنے وطن پاکستان کے حالات پر نظر ڈال لیں تو سب کچھ واضح ہوجائے گا‘‘
ایک شخص قتل کا ارتکاب کرتا ہے، اگر قاتل گمنام شخص ہے تو جب مقتول کے مدعی ایف آئی آر درج کراتے ہیں تو وہ اکثر ان افراد کو بطور ملزم نامزد کردیتے ہیں جن سے مقتول کے خاندان کی دشمنی ہوتی ہے۔ ایسا کسی واقعاتی شہادت کے بغیر کیا جاتا ہے۔ بعض صورتوں میں مدعی خاندان کو معلوم ہوتا ہے کہ وہ شخص قاتل نہیں۔ جب کوئی شخص کسی کی جائیداد یا زمین کرائے پر حاصل کرتا ہے تو اس پر قبضہ جماکر بیٹھ جاتا ہے۔ یہ کیس عدالت میں جاتا ہے تو ملزم وہاں مہنگے وکلا کی خدمات حاصل کرتے ہوئے کیس کو لٹکا دیتا ہے۔ ہماری ماتحت عدالتیں بھی جلدی فیصلے سنانا پسند نہیں کرتیں؛ چنانچہ وہ کیس برسوں چلتا رہتا ہے۔ اس دوران وہ شخص زمین پر بدستور قبضہ جمائے بیٹھا رہتا ہے جبکہ اس کا جائزمالک دربدر خوار ہورہاہوتا ہے۔ ایک آدمی اپنی بیوی کوطلاق دیتا ہے لیکن وہ اسے نان و نفقہ دینے سے گریز کرتا ہے اور اس کے لیے وہ کسی شرعی قانون کا سہارا لیتا ہے۔ عام طور پر بھائی اپنی بہنوں کو زمین میں حصہ نہ دینے کے لیے مختلف بہانے تلاش کرتے رہتے ہیں۔اس طرح کے تمام لوگ اسلامی احکامات کی صریحاً خلاف ورزی کرتے ہیں لیکن وہ طالبان کی اس لیے حمایت کرتے ہیںکہ وہ شریعت نافذ کرنا چاہتے ہیں۔ 
''ملک میں جھوٹی گواہی دینا معمول ہے۔ اہم برانڈز کی نقلیں تیار کرکے فروخت کی جاتی ہیں اور اسے مذہبی احکامات کی خلاف ورزی نہیں سمجھا جاتا۔ سیکولر تعلیم کے نام سے ان کے تن بدن میں آگ لگ جاتی ہے لیکن بات کرتے ہوئے انہیں یقین ہوتا ہے کہ ہر قسم کی سائنسی پیش رفت اور ٹیکنالوجی ان کے گھر کی باندی ہے۔ ان کا آئیڈیل سعودی عرب کا اسلامی نظام ہے لیکن ٹریفک جیسے ملکی قوانین کی خلاف ورزی کرتے ہوئے وہ سعودی عرب اور خلیجی ریاستوں کی طرف نہیں دیکھتے‘‘
کیا آپ جانتے ہیں کہ اس ملک میں جہاں شریعت کے نفاذ کے لیے لوگ ایک دوسرے کو ماررہے ہیں، جعلی اشیا تیار کرنے پر کسی کو آخری بار سزا کب ملی تھی؟ 
جب معاملات خرابی کی طرف مائل تھے تو حکومتی ادارے اور سکیورٹی ایجنسیاں کہاں تھیں؟ اُنھوں نے یہاں آنے والی تبدیلیوں سے اغماض برتتے ہوئے معاملات کو خراب ہونے کی اجازت کیوں دی؟ ڈاکٹر رفعت کا کہنا ہے کہ اب تواٹک کا پل پار کرتے ہی خوف کے سائے دل میں گھر کر لیتے ہیں ، ہر چادر پوش خودکش حملہ آور دکھائی دیتا ہے۔ 
کیا پانچ وقت کی عبادت اور جعل سازی ایک ساتھ چل سکتی ہے؟ اگر ریاست ان معاملات سے اغماض برتتی رہی ہے تواس میں حیرت کی کوئی بات نہیںکہ اس کے نتیجے میں دہشت گردوںکو کھلی چھٹی ملی ہوئی ہے۔ اگر کسی برائی کا شروع میں خاتمہ نہ کیا جائے تو بعد میں اس کی بیخ کنی دشوار ہوجاتی ہے۔ ہمارے ساتھ شاید یہی کچھ ہوا ہے۔آج دہشت گردی کرنے والے کبھی نہایت معصوم بچے ہوتے تھے۔ آج کے کسی خود کش بمبار کی انگلی پر لگنے والے زخم سے بھی اس کی والدہ تڑپ اٹھتی تھی،اس کے والد نے خود بھوکے رہ کر اُسے جوس کا پیکٹ اوربسکٹ کاڈبہ لا کر دیا ہوگا ۔ درست کہتے ہیں کہ یہ ہمارے ہی لوگ ہیں، تو پھر تلاش کریں ان لوگوں کو جنہوںنے ان کو ہماری جان کا دشمن بنا دیا۔ یقین کریں ، وہ بھی آپ کے آس پاس ہی ہیں، لیکن ان کا نام لینے کی کوئی جرأت نہیںکرتا۔ ہم کس آتش فشاں میںکود چکے ہیں کہ ہزاروں جانوں کا لہو بھی کھولنے والے اس الائو کو سرد نہیں کرسکا؟ 
Extract from Anjum Niaz
http://dunya.com.pk/index.php/author/anjum-niaz/2014-01-26/5834/72785901#tab2
Related:
Free-eBooks: http://goo.gl/2xpiv
Peace-Forum Video Channel: http://goo.gl/GLh75