Pages

چہرے نہیں سسٹم بدلنا ہوگا Change Political system of Pakistan not mere faces

اگر تاریخ کوئی سبق دیتی ہے تو سمجھ لینا چاہیے کہ ہم بحیثیت قوم اپنی آزادی کے وقت سے جس تبدیلی کا بے تابی سے انتظار کر رہے ہیں اسے معجزہ ہی لا سکتا ہے۔ ہماری داستان ایک ایسے سماج کی ہے جو چھیاسٹھ برس سے ایک ہی دائرے میں بے مقصد چکر لگائے جا رہا ہے۔ جمہوریت‘ قانون کی پاسداری اور اچھی حکمرانی کا فقدان اس کی روش بن چکی ہے۔ بدقسمتی سے ایک نو آزاد قوم کے طور پر ہم آزادی سے وابستہ ان چیلنجوں کا مقابلہ نہیں کر پائے جو ہمارے جیو پولیٹیکل حالات اور سماجی بُنت کا حصہ تھے۔ 

ہمارا اصل مسئلہ یہ ہے کہ ملک کے اقتدار پر جاگیرداروں‘ قبائل اور اشرافیہ کی بالادستی اپنی جڑیں اتنی گہری کر چکی ہے کہ یہ نظام میں کوئی ایسی تبدیلی نہیں لانے دیتی جو اُسے راس نہ آتی ہو۔ وہ صرف اپنے مفاد کی خاطر آئین میں ترامیم کرتے ہیں۔ اس کا سب سے زیادہ نقصان ریاستی اداروں اور قومی سلامتی کو پہنچا اور اس کے نتیجے میں ملک کا ایک ایسا سیاسی نظام وضع نہیں کیا جا سکا جو اس کی نسلی اور لسانی طور پر متنوع آبادی کے لیے موزوں ہو۔ 
ہماری حکمران اشرافیہ نظام کی کمزوریاں دور کرنے اور قومی اتحاد کا باعث بننے والے عوامل پر توجہ دینے کے بجائے ہمیشہ اپنے چھوٹے چھوٹے ذاتی مفادات کو ترجیح دیتی رہی ہے۔ انہوں نے دسمبر 1970ء کے انتخابات میں عوام کی بھاری اکثریت کی طرف سے ظاہر کی گئی آزادانہ رائے کو مسترد کردیا اور اس کے نتیجے میں پیدا ہونے والے بحران کا سیاسی حل تلاش کرنے کے بجائے فوجی حل کا راستہ اختیار کیا؛ چنانچہ سقوط ڈھاکہ کے المناک سانحہ کے ساتھ اصل پاکستان غائب ہو گیا۔ ہم نے اپنی غلطیوں سے کوئی سبق نہ سیکھا اور انہی کو دہراتے چلے جا رہے ہیں۔ 
افسوس! 1971ء کے المیے کا سبب بننے والی وجوہات کا 1973ء کے آئین میں کوئی مداوا نہ کیا گیا۔ وہ لوگ جنہیں آئین سازی کا مینڈیٹ حاصل نہ تھا بلکہ جو پاکستان ٹوٹنے پر منتج ہونے والے پارلیمانی ڈیڈ لاک کے ذمہ دار تھے‘ 1973ء کے ناقص آئین کے مصنفین بن بیٹھے۔ اب تک اس آئین میں بیس ترامیم ہو چکی ہیں‘ لیکن کسی بھی حکومت نے ملک کے جاگیرداری نظام میں موجود تاریخی غلطیوں کو درست کرنے یا صوبوں کی شکایات دور کرنے کی کوئی کوشش نہیں کی۔ ہمارے ملک کے عجیب و غریب سماجی و اقتصادی ڈھانچے اور سیاسی کلچر نے‘ جس کی اساس جاگیردارانہ اور قبائلی روایت پر ہے‘ ملک کو غربت اور ناخواندگی کے علاوہ اقتدار اور دولت کی عدم مساوات سے دوچار کیا ہے۔ اس صورت حال کا تقاضا یہ ہے کہ سماجی‘ اقتصادی اور سیاسی شعبوں میں موجود تمام غیر متوازن عوامل کو درست کرتے ہوئے عوام کو مٹھی بھر مراعات یافتہ طبقے کے استحصال سے نجات دلائی جائے۔ 
تاریخی غلطیوں سے پُر ہمارے آج کے نظام میں بڑے پیمانے پر ایسی تبدیلیاں لانے کی فوری ضرورت ہے جن کا ہدف ملک کے پرانے سیاسی غاصبوں‘ فرسودہ سماجی اور سیاسی نظام اور اشرافیہ کے زیر اثر جمود سے نجات حاصل کرنا ہو۔ لیکن بدقسمتی سے ہوتا یہ ہے کہ جب ہمیں بڑے مسائل کا سامنا ہوتا ہے تو ہم اپنی تباہی کے ذمہ دار حقیقی معاملات کو یہ سوچ کر نظرانداز کر دیتے ہیں کہ ہم ان کی بہتری کے لیے کچھ نہیں کر سکتے۔ ہم زندگی گزارتے چلے جاتے ہیں اور بسا اوقات ہم ان لوگوں کا مذاق بھی اڑاتے ہیں جو ان چیزوں کو درست کرنے کی ضرورت کے علمبردار ہوتے ہیں۔ 
حقیقت یہ ہے کہ اکثر ترقی پذیر ممالک کی طرح ہم ابھی تک پارلیمانی نظام چلانے کے قابل نہیں ہوئے۔ خود برطانیہ کو موجودہ پارلیمانی نظام تک پہنچنے کے لیے صدیوں جدوجہد کرنا پڑی۔ ہمیں اس منزل تک پہنچنے کے لیے طویل اور دشوار سفر طے کرنا ہوگا۔ بانی پاکستان قائداعظم محمد علی جناح کو بھی پاکستان کے لیے عملی طور پر پارلیمانی نظام اپنانے میں تردّد تھا۔ اُن کے اپنے ہاتھ سے لکھا ہوا ایک نوٹ ریکارڈ کا حصہ ہے جس میں انہوں نے پاکستان کے لیے ''صدارتی نظام حکومت‘‘ کو ترجیح دی۔ مزاج کے اعتبار سے بھی ہمیں ''صدارتی‘‘ نظام ہی راس آتا ہے۔ اب وقت ہے کہ ہم وہ نظام ترک کردیں جس پر ہم عمل نہیں کر سکے اور بالغ رائے دہی کی بنیاد پر ایسا ''صدارتی نظام‘‘اختیار کریں جو پاکستان کی عین ضروریات کے مطابق وضع کیا گیا ہو۔
ہمیں انتخابات کے لیے ''متناسب نمائندگی‘‘ کا نظام اپنانا چاہیے تاکہ سیاسی جماعتوں کو قومی اسمبلی میں حاصل کردہ ووٹوں کے تناسب سے حق نمائندگی مل سکے۔ اس سے منتخب اسمبلیوں میں معاشرے کے غیر جاگیردار‘غیر اشرافیہ اور تعلیم یافتہ متوسط طبقات پہنچ پائیں گے۔ ہمیں اپنے وفاقی نظام کو بھی معقول بنانا چاہیے۔ خاص طور پر موجودہ صوبائی ڈھانچے میں ایسی عملیت پسندانہ تبدیلیاں کی جانی چاہئیں جن کی مدد سے علاقائی عدم مساوات سے متعلق مسائل حل ہوسکیں۔ ہمارا موجودہ صوبائی انتظام ہمیشہ سے سیاسی عدم استحکام کا باعث بنا ہوا ہے اور اس سے ملک کی بقا تک کو خطرہ لاحق رہتا ہے۔
اس سے نہ صرف ناقص حکمرانی اور کرپشن بڑھ رہی ہے بلکہ ملک کے مختلف حصوں میں امتیازی سلوک اور محرومی کے جذبات کو بھی ہوا مل رہی ہے۔ پاکستان میں بیس سے زیادہ زبانیں اور تین سو کے قریب بولیاں بولی جاتی ہیں۔ اس تنوع نے علاقائی کشیدگی اور صوبوں کے مابین کھچائو میں اضافہ کیا‘ جس سے نہ صرف آئین سازی میں رکاوٹیں آئیں بلکہ وفاقی اقتدار کو بھی خطرات لاحق رہے۔ کچھ عرصے سے نسلی اور لسانی بنیاد پر مزید صوبے تشکیل دینے کے مطالبات زور پکڑ رہے ہیں۔ اگر یہ رجحان جاری رہا تو ہمارے پاس فیڈریشن کا ایک کمزور ڈھانچہ رہ جائے گا جو ذاتی مفادات کے اسیر کرپٹ سیاستدانوں کے رحم و کرم پر ہو گا۔
بڑے سائز کے غیر مساوی صوبے ہمیشہ علیحدگی کی سوچ پیدا کرنے کا باعث بنتے ہیں‘ ان کے مقابلے میں چھوٹے صوبوں میں یہ رجحانات نہیں پائے جاتے۔ 1960کی دہائی میں نائیجیریا کو 'بیافرا‘ کے علاقے میں مذہب کی بنیاد پر علیحدگی کی تحریک کا سامنا کرنا پڑا‘ اس مسئلے کو بالآخر چھوٹے صوبے بنا کر حل کیا گیا۔ آج کی دُنیا میں اکثر بڑے اور متوسط سائز کے ممالک کو چھوٹے انتظامی یونٹوں میں تقسیم کر دیا گیا ہے۔
اگر دوسرے ترقی یافتہ اور ترقی پذیر ممالک سے تقابل کیا جائے تو ہم اپنے آپ کو ایک منفرد فیڈریشن کی صورت میں پاتے ہیںجس کی پوری دُنیا میں کسی بھی جگہ کوئی دوسری مثال نہیں ملتی۔ رقبے اور آبادی کے لحاظ سے کم و بیش پاکستان کے برابر کسی بھی ملک میں اتنے بڑے صوبے نہیں ہیں اور عام شہری کی قیمت پر ذاتی مفاد کے لیے کام کرنے والے اتنے زیادہ ارکان اسمبلی‘ وزراء اور مشیربھی نہیں ہوتے۔
کسی بھی غیر متوازن اور غیر مساوی نظام میں حکمرانی کا کوئی بھی طریقہ کامیاب نہیں ہوتا‘ مفلوج ہونا ایسے نظام کا مقدر ٹھہرتا ہے اور ہم تو اس کا مشاہدہ بھی کر چکے ہیں۔ ہمیں اپنے سیاسی ڈھانچے میں موجود نقائص دور کر لینے چاہئیں۔ وفاقی انتظام میں تبدیلیاں لانے کے علاوہ اپنے چار صوبوں کو انتظامی بنیادوں پر تیس یا اس سے بھی زیادہ صوبوں میں تقسیم کر دینا چاہیے اور ان پر نسلی یا تنگ نظری پر مبنی کوئی دوسرا لیبل چسپاں کیے بغیر ان کے تاریخی امتیاز کو برقرار رکھنا چاہیے۔ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ نئے یونٹوں کی ازسر نو حد بندی کرنے اور چھوٹی بڑی نہروں کو تقسیم کرنے کے بجائے موجودہ کمشنریوں کو نئے صوبوں کا درجہ دے دیا جائے۔
صوبوں کی اسمبلیاں ‘وزرائے اعلیٰ‘ وزیر‘ کابینائیں‘ اور سیکرٹریٹ وغیرہ نہیں ہونے چاہئیں۔ ہمارے سیاسی نظام سے ان چیزوں کو خارج کر کے دولت کے لالچ اور ہوس اقتدار پر مبنی غلیظ سیاست سے چھٹکارا مل جائے گا اور بڑی مقدار میں فنڈز کی بھی بچت ہو گی جو لوگوں کی فلاح و بہبود پر خرچ ہوں گے۔ اضلاع کو حکومت کا بنیادی یونٹ ہونا چاہیے اور اس کا سربراہ مقررہ معیار پر پورا اترنے والا ایک منتخب شخص کو ہونا چاہیے۔
(شمشاد احمد : کالم نگار سابق سیکرٹری خارجہ ہیں) 
Free-eBooks: http://goo.gl/2xpiv
Peace-Forum Video Channel: http://goo.gl/GLh75