Pages

Survival of the fittest

When Charles Darwin published his book Origin of Species in 1859, it immediately became a success and 20,000 copies were sold within a week.

The book challenged the religious views on creation, substantiating the evolutionary process of human beings. Darwin argued that strong species survive in nature while the weak are wiped out.

Darwinism did not imply superiority of a race. His argument actually meant that it is the rule of nature that the strong are privileged to sustain hardships of nature and continue to exist while it is the fate of the weak to succumb to death.

Herbert Spencer (1820-1903), an English philosopher, coined the term social Darwinism and applied it to prove racial superiority of the white race. In the 19th century, European imperialism flourished and acquired political, economic and cultural domination over Asian and African countries. Since the theory of social Darwinism provided them with a moral tool that it was the law of nature for the strong to survive and rule over weak nations, they continued to occupy colonies, exploit their resources, and to enslave or massacre the colonised people. Later, the theory provided an effective ideology for the Nazis to purify the German or Aryan race from other elements which, according to them, were polluting their race.

Hitler admired the British for occupying the Indian subcontinent, affirming the superiority of the white race. Some scientists even measured the size of skulls of different races in order to determine their racial superiority and status.

Herbert Spencer further argued that it was useless to introduce reforms which protected the weaker section of society and contradicted the law of nature. He was against the concept of a welfare state or any reform which would sustain the weak.
Darwinism was soon challenged by the emergence of a new theory of Nationalism which inspired colonised nations to rebel against their colonial masters and challenge their authority and superiority. Supremacy of the white race ended after the first and second World Wars and the European imperial powers were forced to leave their colonies and grant them independence.

On the other hand, democratic institutions and values provided the weaker sections of society new ammunition to fight against the domination of the stronger groups of society who controlled politics and maintained a hegemony over the common man.

This ammunition included strikes, boycott, civil disobedience and demonstrations to assert their demands; completely changing the concept of power. In the 1960s, the civil disobedience movement of African-Americans compelled the government to abolish racism. In South Africa, the Apartheid government surrendered because of the National African Movement and released Nelson Mandela. Finally the theory of social Darwinism came to an end.

Sadly, the theory of survival of the fittest is the order of the day in Pakistan. Politically and socially powerful feudal lords and tribal leaders monopolise and mistreat the common man. Since they control all political parties, they use state institutions to protect their power and privileges.

Following the theory of Herbert Spencer, the ruling classes are unwilling to introduce social and political reforms to empower the masses. They are kept educationally and socially backward so that they can be exploited easily. Deprived of their democratic rights, their protests are crushed by using the police or the army.

Perhaps, it will take time for the weak and subordinate groups of society to achieve their basic rights.

By Mubarak Al: http://dawn.com/2012/09/30/past-present-survival-of-the-fittest/

Visit: http://freebookpark.blogspot.com

First put house in order Pakistan, then talk of unity of Muslim Ummah

Courtesy: http://dunya.com.pk/news/authors/detail_image/378_61019490.jpg
Visit: http://freebookpark.blogspot.com

? Change.. but how تبدیلی … مگر کیسے؟

پاکستان کے لئے بہت اچھی تجویز جامع حل.
پاکستان کے تمام تر مسائل کا حل صرف جمہوریت میں ہی پوشیدہ ہے۔یہ بات بہت اہم ہے اور تاریخ کے اس موڑ پر ہمیں اس حقیقت کو اچھی طرح سے سمجھ لینا چاہیئے۔ ان افراد کے لئے جنہیں میں گروہ ملامتی کہوں گا ،ہر چیز میں کچھ نہ کچھ موقع ملامت موجود ہوتا ہے ،یہ وہ گروہ ہے جو صرف مسائل کی نشاندہی کرنا جانتا ہے ،لیکن اگر انہیں کسی بھی موقع پران مسائل کا حل تجویز کرنے کیلئے کہا جائے تو یہ کنی کترا جاتے ہیں،اس کی وجہ شاید یہ ہے کہ وطن عزیز کی روایا ت میں مسائل کا ڈھنڈورا پیٹنا ہی اصل جہاد تصور کیا گیا ہے،اسی لئے بہت سی برائیوں کے بارے میں بات صرف ان کی نشاندہی تک رہتی ہے ،چاہے وہ برائیاں معاشرتی ہو یا معاشی۔
سیاست کی ہی مثال لیجئے ،جتنا کچھ اس ملک میں سیاستدانوں اور سیاسی عمل میں موجود برائیوں کے بارے میں لکھا گیا شاید ہی کسی اور ملک میں لکھا گیا ہو،لیکن سیاسی عمل کی ان برائیوں سے چھٹکارا پانے کے لئے کبھی کسی نے کوئی خاطر خواہ یا ٹھوس قدم نہیں اٹھایا۔جمہوری عمل جس کی بدولت ملک میں عوام کی حکمرانی قائم ہوتی ہے ،اس میں موجود برائیوں سے نبرد آزما ہونا اتنا بھی مشکل نہیں۔ایک نسخہ جو میری جوانی کے دنوں میں ڈاکٹر مبشر حسن نے بلیک بورڈ پر لکھ کر ہمیں سمجھا یا تھا،آج میں عوام کی نذر کئے دیتاہوں۔یہ وہی نسخہ ہے جس کی بدولت ،70کی دہائی کے انتخابات میں شیخ رشید صاحب اور ان جیسے اور بہت سے غریب افراد کو ہم عوام نے اپنی قسمت کا فیصلہ کرنے قومی اسمبلی میں بھیج دیا تھا،اگر طاقت صرف دولت کی ہوتی ،تو ایسا کبھی ممکن نہ ہوتا ،شیخ رشید صاحب تو اپنے پیسوں سے ایک پولنگ اسٹیشن کا خرچہ بھی نہیں اٹھا سکتے تھے،ایک قومی اسمبلی کے اخراجات برداشت کرنا تو دور کی بات تھا۔
یہ فلسفہ ہے عوام کے سیاسی عمل میں بھرپور حصہ لینے کا ،سیاسی جماعت چاہے کوئی بھی ہو،نظریہ کوئی بھی،سیاسی عمل میں عوام کی شمولیت کا مطلب ملک کی 6600یونین کونسلز کی سطح پر پارٹیوں کی تنظیم سازی کا عمل ہے۔سیاسی جماعت اگر یونین کونسل کی سطح پر پوری طرح منظم ہوگی تو پھر اسے نہ صرف عوام تک اپنا پیغام پہنچانے میں آسانی رہے گی بلکہ عوامی شمولیت کے باعث انتخابات کے دنوں میں بہت سے غیر ضروری اخراجات بچانے میں بھی کامیابی ہوگی۔
اگر ایک یونین کونسل میں کسی سیاسی جماعت کی تنظیم میں 100منظم افراد ہوں تو پھر پارٹی کے پاس ملک بھر میں اپنے فلسفے سے وابستگی رکھنے والے 6لاکھ افراد ہونگے،اور اگر ملک میں تین یا چار بڑی سیاسی جماعتیں ایسے تنظیمی مقابلے میں آجائیں تو 25لاکھ کے قریب ایسے افراد، گلیوں اور محلوں میں فعال ہوجائیں گے جن کے پاس پاکستان کے مسائل کے حل کے لئے کہنے اور کرنے کو بہت کچھ ہوگا۔ان لاکھوں کارکنوں کے درمیان مسائل کے حل کے لیے ہونے والا مباحثہ ہی تو اس ملک کے مسائل حقیقی معنوں میں حل کرنے کی طرف ایسا قدم ہوگا جس کے نتیجے میں ایسا نظام جنم لے گا جسے عوام کی تائید حاصل ہوگی۔
جب انہیں احساس ہوگا کہ آپ بھی کامیابی اور ناکامی میں اسٹیک ہولڈر ہیں تو پھر پولنگ سٹیشنوں پر انتظام انہی عوام کے ہاتھوں میں ہوگا جو کہ وہاں کے رہنے والے ہیں ،پھر نہ تو کوئی کسی سے روٹی کے پیسے لے گا ، نہ اسٹیشنری اور نہ ہی قناتوں کے ، نہ کوئی گھی اور چینی کے ڈبے کے لئے ووٹ فروخت کرے گا نہ ہی سرکاری نوکری کے لئے۔ اگر وہ چاہیں تو اپنی پارٹی کو اپنی قوت سے مجبور کرسکتے ہیں کہ کس کو ٹکٹ ملنا چاہییے کس کو نہیں،شاید فوری طور پر اس حد تک کامیابی حاصل نہ ہوسکے جس کا خواب میں دیکھتاہوں ،لیکن دس پندرہ سال کے عرصے اور چار پانچ مقامی حکومتوں کے انتخابات کے بعد میں سمجھتاہوں کہ میرا خواب شرمندہ تعبیر ہوسکتا ہے ،اور پھر حقیقتاََ اقتدار عوام کا ،عوام سے اورعوام کے لئے، کاعمل مکمل ہوسکتا ہے۔قومی اسمبلی کی ایک سیٹ کے لئے ہونے والے انتخابات میں تقریباً 200سے زائد پولنگ اسٹیشن بنائے جاتے ہیں۔اگر ایک سیاسی جماعت کے نمائندے اور ممبر یونین کونسل کی سطح پر منظم ہوں تو قومی اسمبلی کے کسی حلقے میں عوامی امنگوں کے مطابق افراد کو منتخب کرنا ہر چند مشکل نہیں ،ہر پولنگ اسٹیشن پر سیاسی جماعت کے کارکن ووٹ کے تقدس کے تحفظ پر جب ڈٹ جائیں گے تو کسی کی جرات نہیں ہوگی کہ الیکشن چرا سکے،یا پھر کسی بنکر میں بیٹھ کر کمپیوٹر کی مدد سے اپنے مقاصد کو پورا کرسکے۔یہ لوگ ہر پولنگ اسٹیشن سے نتیجہ کی دستخط شدہ چٹ لے کر جائیں گے اور دھاندلی کے تمام ارادے دفن ہوجائیں گے۔
یہ سب کوئی الف لیلیٰ کی داستان نہیں ہے،پاکستان میں 1970ء کے انتخابی معرکے میں ایسا ہی ہوا تھا،چاہے وہ پارٹی پاکستان میں عوامی انقلاب کی داعی پیپلزپارٹی ہو ،یا پھران کی مخالف جماعت اسلامی۔1970ء کے انتخابات میں مقابلہ دولت اور شان وشوکت کا نہیں تھابلکہ کارکنوں اور ان کے اپنے اپنے پارٹی نظریات کا ، آمریت سے تھا ۔ سیاسی تاریخ اس بات کی گواہ ہے کہ عوام نے طاقت کے بڑے بڑے بتوں کو پاش پاش کر دیا۔اس وقت کی سیاسی جماعتیں بھرپور انداز میں منظم تھیں ،ساتھ ہی ساتھ نوجوانوں کے سیلاب نے بھی آمریت کی دیوار ڈھانے کا عزم کرلیا تھا اور اسی بناء پر وہ تاریخ رقم کرنے میں کامیاب ہوئے ۔آج پھر وطن کی فضاؤں میں نوجوانوں کی آوازیں گونج رہی ہیں،اگر یہ نوجوان خود کو سیاسی عمل میں شامل کرنے پر آمادہ ہوجائیں تو پھر ان کے سامنے موجود سیاسی گروہ بندیاں کوئی معنی نہیں رکھتیں۔منظم سیاسی افراد کے سامنے ذات ،برادری اور دولت کی دیواریں گر جاتی ہیں۔اگر یہ نوجوان آج اپنے اپنے علاقوں میں اپنی مرضی اور پسند کی سیاسی جماعت کی تنظیم سازی کا حصہ بن جائیں تو کوئی دنیاوی طاقت انہیں سیاست کے موجودہ گند کو صاف کرنے سے نہیں روک سکتی ۔
مجھے صرف نوجوانوں سے اتنا ہی کہنا ہے کہ زندگی کے کچھ لمحات ملک میں تبدیلی کے لیے دے دو ،صرف تنقید کرنے سے کام نہیں چلے گا،تحمل کرنا ہوگا،جھنڈا لگانا ہوگا،نعرہ سیکھنا ہوگا ،ووٹ بنوانا ہوگا ،ووٹ کا حق استعمال کرنا ہوگا ۔جو ووٹ نہیں بنواسکتے ان کی رہنمائی کرنا ہوگی کیونکہ تم دوسرں کے مقامی رہنما بن سکتے ہو۔محلوں،گلیوں کے رہنما مل کر ،قصبوں ،تحصیلوں ،شہروں اور پھر ملک کے رہنما بن جاتے ہیں ۔صرف اپنے گرد ہر چیز کو برا کہنے والوں کے شر سے بچے رہو، تبدیلی کے لئے کسی کا انتظار کرنے کی بجائے خود تبدیلی بن جاؤ۔
http://search.jang.com.pk/NewsDetail.aspx?ID=26145
Visit: http://freebookpark.blogspot.com

The Prophet Muhammad: A Mercy for Creations


وَمَا أَرْسَلْنَاكَ إِلَّا رَحْمَةً لِّلْعَالَمِينَ
اے محمدؐ، ہم نے جو تم کو بھیجا ہے تو یہ دراصل دنیا والوں کے حق میں ہماری رحمت ہے
We sent thee not, but as a Mercy for all creatures[Quran;21:106]

إِنَّ اللَّـهَ وَمَلَائِكَتَهُ يُصَلُّونَ عَلَى النَّبِيِّ ۚ يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا صَلُّوا عَلَيْهِ وَسَلِّمُوا تَسْلِيمًا
اللہ اور اس کے ملائکہ نبیؐ پر درود بھیجتے ہیں، اے لوگو جو ایمان لائے ہو، تم بھی ان پر درود و سلام بھیجو
"Verily, God and His angels bless the Prophet: [hence,] O you who have attained to faith, bless him and give yourselves up [to his guidance] in utter self-surrender!" [Qura'n;33:56]

Allah's Messenger was the kindest of men in the same way as he excelled all others in courage and valour. Being extremely kind-hearted, his eyes brimmed with tears at the slightest sign of inhumanity. A Companion, Shaddaad bin 'Awsreported the Apostle as saying: "Allah has commanded you to show kindness to everyone, so if you have to kill, kill in a good manner, and if you slaughter an animal, slaughter it gently. If anyone of you has to slay an animal, he should sharpen the blade first and treat the animal well." Continue reading >>>>>

At the mercy of bigots

When it comes to the exercise of freedom of speech or action, there exist no absolute principles. Even in the West, lines drawn to protect such freedoms are largely arbitrary. They are products of the historical evolution of those societies, as well as their existing social consciousness and power matrix and not the outcome of the consistent application of any principle. US law prohibits discrimination on the basis of race, religion, ethnic or national origin, but denigrating the beliefs of Muslims is defended as an essential human liberty. 9/11 did many terrible things to this world, one of which was allowing bigots all over the world to wear their hate on their sleeves and practice it freely. The hypocrisy and double standards are all too obvious in the West as well as the Muslim world. 
Bigotry and racism are penalised for being illegal in some situations and celebrated as markers of freedom in others. There are laws against anti-Semitism in many western countries that have a history of tormenting the Jewish people. There are laws prohibiting the denial of the Holocaust. These are useful laws introduced to curb religious hatred and acknowledge widespread persecution of Jews in the past. But if anti-Semitism is prohibited (as it rightly should be, being a product of racism and bigotry) why have manifestations of Islamophobia, motivated by the same sentiments of hate and prejudice, come to be celebrated as expressions of necessary human liberty worth protecting? 
Let us consider three unrelated concepts to understand competing narratives on the problem of blasphemy, bigotry and mindless violence. The first is John Stuart Mill’s ‘harm principle’ propounded in his essay “On Liberty” – that remains a foundation for contemporary liberal thought – where he argued that, “the only purpose for which power can be rightfully exercised over any member of a civilized community, against his will, is to prevent harm to others. His own good, either physical or moral, is not a sufficient warrant...” The right to free speech and action is an extension of the right to think freely. An assumption implicitly included within Mill’s harm principle is that speech in itself can cause no harm. 
The second concept is one presented by John B Finch, who highlighted the limits of ones freedom of action by asserting that, “my right to swing my fist ends where your nose begins.” And the third is apublic policy concept that justifies prohibiting free speech when “shouting fire in a crowded theatre” will produce a “clear and present danger.” Oliver Wendell Holmes, Jr., while declaring illegal the distribution of pamphlets opposing the draft during the First World War had argued in the US Supreme Court case Schenck v. United States that, “the question in every case is whether the words used are used in such circumstances and are of such a nature as to create a clear and present danger that they will bring about the substantive evils that Congress has a right to prevent...” 
What is the logical basis to argue that words can do no harm? If ‘words can do no harm’ is an immutable principle, why criminalise Holocaust denial? Why recognise provocation as a mitigating factor in criminal law? Why contrive the crime of defamation or ban hate-speech? Why prohibit anyone from yelling fire in a crowded theatre? Let us not forget the difference between law and justice. Justice is the ideal that law has historically failed to realise being a tool in the hands of the powerful. The point is simply this: there exists no absolute right to free speech, expression or action anywhere in the world. The policies reflected in the law meant to protect these liberties are products of arbitrary choices made by power wielders based on their own sensibilities, worldview and taste. 
The International Covenant on Civil and Political Rights (ICCPR) that entered into force on March 23, 1976, mandated that, “any advocacy of national, racial or religious hatred that constitutes incitement to discrimination, hostility or violence shall be prohibited by law.” If presenting the Prophet of Islam, whose humanism and virtuosity forms the cornerstone of the faith of over 2 billion Muslims, in the vilest possible manner doesn’t constitute advocacy of religious hatred and incitement of violence, what else will? Just because liberal political thought in the West is rooted in the history of separation of church and state that brought along mockery of religion, doesn’t necessarily mean that mockery of Muslim faith and sensibilities must accompany expansion of liberties in Muslim societies. 
Let us agree that Machiavelli got it right. Those who wield power determine what is and isn’t acceptable conduct. So what should Muslims do when they feel that the dominant West is promoting and defending hate speech against them and their Prophet in the name of liberty? In terms of taking constructive action there are two obvious strategies. There is a moral argument to be made: justifying manifestations of Islamophobia meant to hurt Muslim dignity and faith is wrong and such conduct must be discouraged within civilised societies through legal and social censure. The real-politick argument would be that Muslim states and societies must acquire such power and influence that their sensibilities can no longer be ignored in global power corridors. 
But how do we choose to respond? We cut the nose to spite the face. We indulge in vandalism, burn down public property, attack our own police, and terrorise fellow citizens for the offense caused by bigots on the other side of the world. The reaction in Pakistan to the offensive film against our Prophet corroborates views of Dominique Moisi in The Geopolitics of Emotion. Moisi has suggested that Muslim societies around the world have been enveloped by a sense of humiliation nurtured by loss of hope in the future. This causes despair and breeds a sense of revenge. Such revenge, being a negative emotion, doesn’t aim at rising to the level of ones perceived tormenters but bringing them down to one’s level through violence and destruction. 
So what is our strategy? That we will react to provocation by bigots abroad by cultivating and unleashing on ourselves the biggest hoodlums and bigots possibly conceivable? And that acting blindingly incensed will somehow terrorise the whole conspiring infidel world into respecting Islam and our Prophet? The ironic part is that the bearded bigots amongst us who have transformed hate mongering into a profession are most incensed on being served a taste of their own medicine. The Ishq-e-Rasool Day – when Pakistanis ought to have projected the values of civility and humanism that we associate with our Prophet – has brought into full public view the predatory tendencies of our society and the pusillanimity of the state. 
So what is the brave new idea of our ruling power elite: let us highjack the agenda of the bigoted brigades. And how is that to be accomplished? Simple: let the non-bearded act and prove to be bigger fanatics than the bearded. If the few days of Shariah enforcement in Swat under Sufi Mohammad and Fazlullah opened people’s eyes to the catastrophe that had hit that serene valley, the conduct of our bigoted brigades and their mindless recruits and followers on Ishq-e-Rasool Day should be a wake-up call for all thoughtful minds in Pakistan. Gen. Zia-ul-Haq might have sown and nurtured the seeds of bigotry and intolerance as a matter of state policy, but subsequent regimes have continued to water those plants. They are now bearing fruit. 
Intolerance is the biggest threat confronting Pakistan today. It is becoming an auto-immune disease proliferating and radicalising the society. Our power-wielders and thought leaders must understand that appeasement won’t work. Let us convince the West to rethink Mill’s ‘harm principle’. But it is more crucial for the state to ensure that religious bigots keep their fists in check.
Visit: http://freebookpark.blogspot.com

مصر۔ قومی وحدت کا نیا سفر Egypt: Journey to Democracy, reconciliation - Lessons for Pakistan

دنیا میں شاید ہی ایسی کوئی مثال پیش کی جاسکے کہ ایک سیاسی پارٹی بھاری اکثریت سے انتخابات جیتے اور پھر کسی مجبوری کے بغیر حکومت دوسروں کے سپرد کردے۔ مصر میں الاخوان المسلمون نے ایک نہیں تین شاندار عوامی کامیابیوں کے باوجود تمام جماعتی وابستگیوں سے بالاتر ہوکر ایک وسیع تر قومی حکومت تشکیل دی ۔ وزارت عظمی سمیت تقریباً تمام اہم وزارتیں اور مناصب غیر اخوانی افراد کو سونپ دیے۔ 35 رکنی کابینہ میں سے صرف چار وزراء اخوان سے تعلق رکھتے ہیں۔ مصر میں قومی اسمبلی ہی نہیں سینٹ اور صدر مملکت بھی براہ راست عام انتخابات کے ذریعے منتخب کیے جاتے ہیں۔ انتخابات بھی ایک یا چند روز میں نہیں کئی مراحل میں تقریباً چھ ماہ پر محیط عرصے کے دوران مکمل ہوتے ہیں۔ یوں انتخاب کا ہر مرحلہ ایک براہ راست عوامی ریفرنڈم کی صورت اختیار کرجاتا ہے۔ اخوان نے ان تینوں مراحل میں بھرپور عوامی اعتماد حاصل کیا لیکن جب اعصاب شکن انتخابات کے بعد حکومت سازی کا مرحلہ آیا تو قومی وحدت کو ترجیح اول قرار دیتے ہوئے، سب عہدے اور مناصب دیگر افراد کو سونپ دیے۔ ڈاکٹر ھشام قندیل، حسنی مبارک کے بعد تشکیل پانے والی عبوری کابینہ میں آبی وسائل کے وزیر تھے، وزارت عظمی کا تاج ان کے سر پر رکھ دیا گیا۔ کلیدی وزارتوں سمیت تمام مناصب کا تعین بھی جماعتی وابستگی سے بالاتر ہوکر کیا گیا۔
حسنی مبارک اور اس سے پہلے تمام ڈکٹیٹروں نے ملکی اداروں کو مستحکم کرنے کے بجائے تمام تر توجہ اور وسائل اپنے شخصی اقتدار کو دوام بخشنے پر صرف کردیے۔ فرد واحد کو اس قدر مرکزیت حاصل تھی کہ ریاست کے نائب صدر کا عہدہ ہمیشہ خالی ہی رکھا گیا حالانکہ اس عہدے پر تقرری اہم دستوری تقاضا تھا۔ ڈکٹیٹر سمجھتا تھا کہ برائے نام نائب کے اعلان سے بھی عوام کے سامنے متبادل کے طور پرایک دوسرا نام نمایاں ہوجائے گا۔ تیس سالہ اقتدار میں حسنی مبارک نے نائب صدر کا اعلان کیا بھی تو اپنے اقتدار کے آخری ہفتے اس وقت جب اسے محسوس ہونے لگا کہ اب اقتدار کی لیلی روٹھ چکی۔
صدر محمد مرسی نے صدر منتخب ہونے کے ایک ماہ بعد ہی جسٹس محمود مکی کو ملک کا نائب صدر مقرر کردیا ہے۔ جسٹس مکی کا بھی اخوان سے کوئی تعلق نہیں ہے، لیکن ایک منصف مزاج قومی شخصیت کے طور پر انہیں انتہائی محترم شخصیت گردانا جاتا ہے۔اخوان نے اپنے انتخابی منشور میں منصب صدارت کوایک فرد کی غلامی سے نکال کر ایک مستحکم قومی ادارے کی حیثیت دینے کا اعلان کیا تھا۔ عہدہء صدارت سنبھالے ابھی تین ماہ کا عرصہ بھی نہیں گزرا کہ اخوان نے اپنا یہ اہم انتخابی وعدہ نبھاتے ہوئے دنیا کے سامنے ایک روشن مثال قائم کردی ہے۔ صدر محمد مرسی نے چار معاون صدور اور سولہ ارکان پر مشتمل ایک ایسی صدارتی مجلس مشاورت تشکیل دی ہے، جس میں ملک کے تمام مذاہب اور طبقات کو بھرپور نمائندگی دی گئی ہے۔ اسلامی تحریکوں پر ہمیشہ خواتین کے حقوق کی پامالی اور انہیں دوسرے درجے کے شہری سمجھنے کا الزام لگایا جاتا ہے۔ اخوان نے نہ صرف کابینہ میں بلکہ چار معاون صدور اور صدارتی مجلس مشاورت میں بھی خواتین کو واضح نمائندگی دی ہے۔ مصر میں تقریبا دس فیصد آبادی قبطی مسیحیوں کی ہے، مسیحیوں کو بھی کابینہ، معاون صدور اور صدارتی مشاورت میں نمایاں حصہ دیا گیا ہے۔ حالیہ انتخابات میں النور کے نام سے ایک سلفی تحریک نے نمایاں کامیابی حاصل کی۔ اخوان مخالف بعض عرب حکومتوں نے بھی اخوان کا مقابلہ کرنے کے لیے اس تحریک کو بھرپور وسائل سے نوازا۔ انتخابات کے بعد اخوان اور سلفی حضرات کو باہم لڑانے کی بھی کئی کوششیں ہوئیں، جنہیں طرفین کے حکیم ذمہ داران نے ناکام بنادیا۔ اب اخوان نے النور کے سربراہ عماد عبد الغفور کو معاون صدر مقرر کرتے ہوئے فرقہ وارانہ ہم آہنگی اور باہم تعاون کی بنیاد مستحکم کردی ہے۔ منصب صدارت کو ایک ادارے کی شکل دینے کا اعلان صرف رسمی نہیں ہے، تمام افراد کو مختلف شعبہ ہائے زندگی کی ذمہ داریاں سونپتے ہوئے انہیں اُمور ریاست میں فعال کردار ادا کرنے کا ہدف دیا گیا ہے۔
مصری تاریخ دانوں کے مطابق صدر محمد مرسی مصری تاریخ میں وہ پہلے سویلین صدر ہیں جو عوام کے براہ راست اور آزادانہ ووٹ کے ذریعے منتخب ہوئے۔ ان کی راہ میں بھی قدم قدم پر رکاوٹیں کھڑی کی گئیں اور مسلسل کی جارہی ہیں، لیکن اخوان نے مکمل صبر و تحمل کی پالیسی اختیار کی ہے۔ کئی عشروں کی ڈکٹیٹر شپ کے بعد پہلی حقیقی منتخب اسمبلی وجود میں آئی، حلف برداری ہوگئی، قانون سازی کا عمل شروع ہوگیا، ملک کے پہلے سویلین دستور کا خاکہ وضع ہونے لگا، لیکن ابھی دوماہ کا عرصہ بھی نہیں گزرا تھا کہ فوجی کونسل کی سرپرستی میں دستوری عدالت کے ذریعے اسمبلی تحلیل کردی گئی۔ وجہ یہ بتائی گئی کہ ایک تہائی ارکان کو پارٹیوں کے اُمیدوار کے طور پر نہیں، آزاد حیثیت میں انتخاب لڑنا چاہیے تھا۔ فرض کرلیجیے کہ واقعی ایسا ہی تھا تو اس میں ان کروڑوں عوام کا کیا قصور تھا جنہوں نے کئی ماہ کی انتخابی مہم، پھر کئی ماہ کے مرحلہ وار انتخابی عمل کے بعد اسمبلی منتخب کی تھی۔ اور اگر بفرض محال قصور الیکشن کمیشن اور حکومت کا نہیں عوام اور نومنتخب ارکان اسمبلی ہی کا تھا، تب بھی ان ایک تہائی ارکان کا انتخاب کالعدم قرار دے کر ان نشستوں کا دوبارہ انتخاب کروا لیا جاتا، اسمبلی برقرار رہتی۔ لیکن چونکہ اصل ہدف جیتنے والی سیاسی جماعتوں بالخصوص دونوں بڑی جماعتوں اخوان اور النور کو مشتعل کرکے انہیں احتجاجی تحریک کی طرف دھکیلنا تھا، پوری اسمبلی تحلیل کردی گئی۔ یہ فیصلہ بھی عین اس وقت سامنے آیا جب صدارتی انتخاب کے دوسرے مرحلے کی ووٹنگ شروع ہونے میں صرف تیرہ گھنٹے باقی تھے اور اس میں اخوان کے اُمیدوار محمد مرسی کی جیت کے واضح امکانات تھے۔ اخوان نے کمال ضبط و تحمل کا مظاہرہ کرتے ہوئے اسمبلی توڑنے کے فیصلے کے خلاف اپنا موقف تو واضح کردیا لیکن کارکنان کو ہدایت کی کہ وہ اپنی ساری توجہ صدارتی انتخابات پر مرکوز رکھیں۔ اسی طرح صدارتی انتخاب سے صرف ایک دن پہلے انوکھا عبوری دستوری آرڈر جاری کرتے ہوئے صدر مملکت کے تقریباً تمام اختیارات عبوری فوجی کونسل کو دے دیے گئے۔ اس انوکھے حکم نامے کے مطابق قانون سازی کا حق بھی فوجی کونسل ہی کے سپرد کردیا گیا۔ گویا نومنتخب صدر کے ہاتھ پاوٴں باندھ کر کھلے سمندر میں پھینکنے کا انتظام تھا۔ اس عبوری حکم اور دستوری عدالت کی لٹکتی تلوار کے باوجود اخوان نے صدارتی انتخاب بھی پرامن انداز سے گزارے، اور بالآخر فوجی کونسل کے سامنے انتقال اقتدار کے سوا کوئی راستہ نہ رہ گیا۔
بعد از خرابی بسیاراقتدار تو منتخب صدر کے سپرد کردیا گیا، لیکن اب بھی آئے روز کوئی نہ کوئی نیا بحران سامنے آتا رہتا ہے۔ حسنی مبارک اور اس کے پیش رو ڈکٹیٹروں نے اپنے پون صدی کے اقتدار کے دوران ہر میدان، بالخصوص ذرائع ابلاغ میں اپنے نمک خواروں کی نسلیں پروان چڑھائی ہیں۔ 25 جنوری 2011 کو شروع ہونے والی عوامی تحریک اور پھر حسنی مبارک کی رخصتی سے لے کر اب تک ان لوگوں نے انقلابی قوتوں بالخصوص اخوان کے خلاف مہیب ابلاغیاتی محاذ کھول رکھے ہیں۔ نومنتخب حکومت نے ان لوگوں کی طرف سے تمام اخلاقی و پیشہ ورانہ سرحدیں پھلانگ جانے کے باوجود صبر و درگزر کی پالیسی اختیار کی ہے۔ اس ابلاغیاتی یلغار میں تین واقعات ایسے بھی پیش آئے، کہ خود صحافتی برادری ان کا نوٹس لینے پر مجبور ہوئی۔ ایک پرائیویٹ چینل کا نام ہے ”الفراعین“ - فراعین، فرعون کی جمع ہے۔ حیران نہ ہوں، مصر میں ایک گروہ اپنی مسلم، عرب، یا مصری شناخت پر نہیں فرعونی شناخت پر فخر کرنا چاہتا ہے۔ فراعین چینل کے سربراہ اور اینکر پرسن توفیق عکاشہ روزانہ نومنتخب صدر مملکت کے خلاف ہی نہیں تمام انقلابی عناصر کے خلاف دشنام کا محاذ کھولتے تھے۔ ایک پروگرام میں ایک شہید کی والدہ سے مخاطب ہوتے ہوئے کہنے لگا ”تم سمجھتی ہو تمہارا بیٹا شہید جمہوریت ہے۔۔ بے وقوف وہ تو منشیات کا رسیا تھا، تم اسے شہید افیون کہا کرو۔ واضح رہے کہ اس نوجوان شہید کا اخوان سے کوئی تعلق نہیں تھا۔ اسے جاننے والے تمام لوگ اس کے اخلاق کے گرویدہ تھے، منشیات سے اس کا دور کا بھی واسطہ نہیں تھا۔ پھر ایک روز عکاشہ نے حد ہی کردی صدر محمد مرسی کے بارے میں کہنے لگا ”وہ واجب القتل ہے۔
کاش کوئی نوجوان اٹھے اور اسے قتل کرڈالے۔۔ اگر کسی نے قتل نہ کیا تو میں خود اسے قتل کرڈالوں گا“ یہ ہذیان کسی پاگل کی زبان سے ادا نہیں ہوا، ٹی وی پر براہِ راست نشر ہونے والے پروگرام میں ایک معروف اینکر کا انداز ہے۔ اس پروگرام کے بعد خود صحافیوں کی تنظیم نے عکاشہ کا نوٹس لیا اور اس کے پروگراموں پر پابندی لگادی۔ اب ان کا معاملہ عدالت میں ہے، لیکن خود پاکستان میں بھی کچھ یار لوگ اس عدالتی کاروائی کو صحافیوں کے خلاف اخوان کی فرعونی کاروائیاں قرار دے کر تبرا بازی کررہے ہیں۔
ایک اور صحافی ہیں صبری نخنوخ۔ ان صاحب نے اپنا غنڈوں کا ایک باقاعدہ گروہ پالا ہوا ہے۔ یہ بھی حسنی مبارک کے متوالوں میں سے ہیں۔ ان کی صحافی ”کاروائیوں“ پر لوگوں نے احتجاج کیاتو کئی ایکڑ پر محیط ان کے محل پر چھاپہ مارا گیا۔ سیکولر میڈیا بھی حیران رہ گیا - وہاں سے غنڈوں اور بھاری مقدار میں اسلحے کے علاوہ، مخالفین پر تشدد کے لیے بڑے بڑے پنجروں میں بند کئی خونخوار شیر، زہریلے سانپ اور تربیت یافتہ کتے بھی برآمد ہوئے۔ اب نخنوخ بھی عدالت کا سامنا کررہا ہے۔ روزنامہ الدستور کے ایڈیٹر اسلام عفیفی کا معاملہ بھی ایسا ہی ہے۔ انہوں نے بھی صدر مرسی سمیت اپنے مخالفین پر تنقید کو ایسی گالیوں کی زبان دے دی کہ وہ کسی بھی شہری کو ایسی گالیاں دیتا تو شاید جان سے ہاتھ دھو بیٹھتا۔ ان گالیوں، بے بنیاد الزامات اور فرقہ وارانہ منافرت کو ہوا دینے کے الزام کے باعث ایک عدالت نے عفیفی کو 24 روز قید کی سزا سنادی۔ صدر مرسی نے اپنے خصوصی اختیارات استعمال کرتے ہوئے اس کی یہ 24 دن کی ”طویل“ سزا معاف کردی، جس سے ایسے تمام صحافیوں کے لیے درگزر کی ایک قانونی نظیر پیدا ہوگئی، لیکن اس واقعے کو بھی اخوان مخالف مزید پراپیگنڈے کی بنیاد بنا لیا گیا۔
الزامات اور پراپیگنڈا ہی نہیں وسط رمضان میں ایک خوفناک سازش کی گئی۔ مصر فلسطین سرحدپر عین اس وقت 16 مصری فوجی شہید کردیے گئے جب وہ روزہ افطار کررہے تھے۔ یہ انتہائی گھناوٴنی کاروائی تھی جسے بنیاد بناکر اسرائیل اور امریکا بھی مصر کے لیے مزید مشکلات پیدا کرسکتے تھے۔ حیرت انگیز طور پر اس خونی کاروائی سے صرف دو روز قبل اسرائیل نے علاقے میں موجود اپنے شہریوں کو وہاں سے نکل جانے کا حکم دیا تھا۔ وجہ یہ بتائی کہ یہ علاقہ پرامن نہیں رہے گا۔ پھر جب کاروائی عمل میں آئی تو اگلے ہی لمحے اسرائیلی لڑاکا جہازوں نے بم برسا کر تمام حملہ آور قتل کرتے ہوئے تمام شواہد زمین برد کردیے۔ ساتھ ہی تمام مصری اور عالمی ذرائع ابلاغ دہائیاں دینے لگے کہ: ” دہشت گرد القاعدہ سے تعلق رکھتے تھے۔ مصر میں آنے والے اخوانی صدر سے انہیں حوصلہ ملا ہے۔ یہ کاروائی گزشتہ پانچ سال سے جاری غزہ کا حصار ختم کرنے کا نتیجہ ہے“۔ اللہ تعالی نے باقی تمام مشکلات اور سازشوں کی طرح، اس بڑے شر کو بھی خیر کثیر کا ذریعہ بنادیا۔صدر مرسی نے فوراً علاقے میں آپریشن شروع کروایا۔ پانچ روز کے اندر اندر دومرتبہ علاقے کا دورہ کیا۔ اور پھر انتہائی جرأت مندانہ اقدام کرتے ہوئے،فوج اور خفیہ ادارے کے سربراہ تبدیل کردیے، عبوری دستوری حکم منسوخ کردیا اور سابق الذکر صدارتی مجالس قائم کرتے ہوئے مصر کو ایک حقیقی جمہوری دور میں داخل کردیا۔ فوج کے قابل فخر ادارے کی تطہیر و تعمیر کایہ عمل ابھی جاری ہے۔ وزیر دفاع اور فوج کے سربراہ جنرل سیسی نے 70 ایسے فوجی افسر ریٹائر کردیے ہیں جو اپنی مدت ملازمت پوری کرچکے تھے لیکن کسی نہ کسی سفارش ،تعلق یا وابستگی کی بناء پر اعلی عہدوں پر براجمان تھے۔ یہ فیصلہ ملک میں میرٹ اور ضابطے کی پابندی اور جمہوریت کی مضبوطی کی جانب انتہائی اہم قدم ہے۔
صدر مرسی کی پوری انتخابی مہم کا محور ایک ہی لفظ تھا۔ ”النہضة“ یعنی بیداری و ترقی۔ یہ لفظ اب بھی مصری حکومت کا ہدف اول ہے۔ پہلے 100 دنوں کو بنیاد بناکر ہنگامی بنیادوں پر اقدامات اٹھائے جارہے ہیں۔صدر مرسی کا اپنے ساتھ 70 رکنی تاجروں کا وفد لے کر حالیہ دورہٴ چین، پھر دورہٴ ایران اور اس سے پہلے دورہٴ سعودی عرب، پھر امیر قطر کا دورہٴ مصر کہ جس میں انہوں نے کئی منصوبوں میں سرمایہ کاری کے علاوہ مصری بینک میں 2 ارب ڈالر رکھوانے کا اعلان کیا، سب اسی ایجنڈے کا حصہ ہیں۔
صدر محمد مرسی کی جیت کا اعلان ہونے کے بعد سے لے کر مصری سٹاک ایکسچینج مسلسل منافعے کے نئے سے نئے ریکارڈ قائم کررہا ہے۔ دوست دشمن سب تسلیم کرنے لگے ہیں کہ 100 دنوں یا پانچ سالوں میں مصر یقینا جنت نہیں بن جائے گا، لیکن کرپشن کے سوتے خشک کردینے، ملک میں قومی وحدت اور قانون کی عمل داری کو فروغ دینے اور اخلاص و ہمت سے جدوجہد جاری رکھنے سے، بالآخرمصر اسی مالک کون و مکان کی نصرت حاصل ہوگی ،جس نے حالیہ قیادت کو جیل 

کی کوٹھڑیوں سے نکال کر ایوان اقتدار میں لا بٹھایا ہے۔ 
مصر۔ قومی وحدت کا نیا سفر...عبدالغفار عزیز
Visit: http://freebookpark.blogspot.com

عمران خان کا معاشي ويژن اور نوجوان :Economic vision of imran Khan & Youth


اليکشن تو معلوم نہيں کب ہوں گے؟ اس سال، اگلے سال يا پھر 2014ميں؟مگر سياسي جماعتوں نے اپنا ہوم ورک شروع کر ديا ہے? حکمران اتحاد پارليمنٹ ميں نشستوں کي بندر بانٹ کا فارمولا طے کر رہا ہے? سنا ہے مسلم ليگ (ن) اپنے اميدواروں کي چھان پھٹک کر رہي ہے جبکہ تحريک انصاف اپنے جماعتي انتخابات کے ساتھ مستقبل کي پاليسيوں کي تشکيل ميں مصروف ہے? ماہرين کي کميٹياں ملکي مسائل کا حل تلاش کر رہي ہيں? خارجہ پاليسي کے خد و خال کيا ہوں گے؟ توانائي کے سنگين بحران اور مہنگائي و بے روزگاري پر کيسے قابو پايا جا سکتا ہے؟ تعليم و صحت کے شعبوں ميں کس قسم کي اصلاحات ازبس ضروري ہيں؟ صنعتي اور کھيت مزدور کے حقوق و فرائض ميں توازن پيدا کرنے کي تدبيريں اور موجودہ اقتصادي جمود اور معاشي زوال کا خاتمہ کيونکر ممکن ہے؟ وغيرہ وغيرہ?
عمران خان تحريک انصاف کي توانائي پاليسي اور اکنامک پلان کا اعلان کر چکے ہيں? سياست کي گرم بازاري اور روزمرہ نوعيت کے موضوعات پر سطحي بحث مباحثے کي وجہ سے ملک کي ايک مقبول جماعت کي توانائي و اقتصادي پاليسي پر سنجيدہ نوعيت کي نقد و جرح نہيں ہوئي جو الميہ ہے تاہم تحريک انصاف کے دو زرعي و اقتصادي ماہرين جہانگير ترين اور اسد عمر شہر شہر جا کر دانشوروں اور قلمکاروں کو تحريک انصاف کے اقتصادي و معاشي ايجنڈے کے مختلف پہلوؤں سے آگاہ کر رہے ہيں جو کسي سياسي جماعت کي طرف سے خوشگوار اور منفرد پيش رفت ہے? اس نوعيت کي ايک نشست کا اہتمام لاہور ميں تحريک انصاف کے سيکرٹري اطلاعات شفقت محمود نے طلعت نقوي اور ثانيہ ساجد کے ساتھ مل کر کيا? اردو پريس کو پہلي بار شفقت کا احساس ہوا اور يہ تاثر دور کہ عمران خان کي طرح ان کي ميڈيا ٹيم بھي بالعموم لئے ديئے رہتي ہے? بے بنياد ، لا تعلق اور اپنے آپ ميں مگن?
تحريک انصاف ميں اب ہر شعبے کے تجربہ کار اور سرد گرم چشيدہ ماہرين موجود ہيں? خارجہ امور ميں خورشيد محمود قصوري، شاہ محمود قريشي، سردار آصف احمد علي، زراعت ميں جہانگير ترين اور اسحاق خاکواني، اقتصادي و معاشي شعبے ميں اسد عمر اور ديگر جبکہ سياست کے مرد ميدان مخدوم جاويد ہاشمي جو بيس سے ساٹھ سال تک کي عمر کے خورد و کلاں کے آئيڈيل اور ہيرو ہيں? ابھي تو ميں جوان ہوں کي جيتي جاگتي تصوير? اس لئے لوگ اب عمران خان کے ساتھيوں کو بھي سنجيدگي سے لينے لگے ہيں اور جہانگير ترين و اسد عمر کے ساتھ بحث و مباحثے ميں سب کو مزا آيا?
دونوں نے پہلے تو اعداد و شمار کي مدد سے بتايا کہ اس وقت ملک کو معيشت، توانائي، محصولات، تعليم، صحت، سرمايہ کاري اور بجٹ خسارے کے شعبے ميں کس قدر سنگين مسائل و مشکلات کا سامنا ہے اور سٹيٹس کو کي علمبردار سياسي و انتظامي مشينري کو احساس تک نہيں کہ خط غربت سے نيچے زندگي بسر کرنے والوں کي تعداد ميں اضافے، بڑھتي ہوئي مہنگائي و بے روزگاري اور حکومتي قرضوں کي وجہ سے تعليم، صحت اور سرمايہ کاري کے لئے وسائل ميں کمي کي بنا پر کس تباہ کن انجام کي طرف بڑھ رہا ہے پھر انہوں نے برسراقتدار آ کر ہر شعبے ميں دور رس، نتيجہ خيز اور موثر اصلاحات کا ذکر کيا جن سے شرح نمو ميں اضافہ ہو گا? تين سے چھ فيصد ، افراط زر بارہ فيصد سے سات فيصد پر لائي جائے گي اور عوامي ترقي و خوشحالي کے منصوبوں پر اخراجات کي شرح موجودہ اعشاريہ نو فيصد سے بڑھا کر چار اعشاريہ چھ فيصد تک پہنچا دي جائے گي? احتساب کا ايسا موثر نظام کہ نہ تو کارٹيل وجود ميں آ سکيں اور نہ قومي وسائل ميں لوٹ مار کا امکان باقي رہے? صوابديدي فنڈز، اختيارات اور الاٹمنٹوں کا مکمل خاتمہ اور ارکان اسمبلي کو قانون سازي تک محدود کر کے ترقياتي فنڈز بلدياتي اداروں کے حوالے ہوا? تعليم، صحت اور ترقياتي منصوبوں پر خرچ کريں اور عوام کو جوابدہ ہوں?
تعليم اور صحت کے ادارے تحصيل اور ضلع کي سطح پر خود کار نظام کے تحت کام کريں گے اور انہيں سيکرٹري ، وزير اور وزير اعلي? کے احکامات کا انتظار نہيں کرنا پڑے گا? نظام تعليم يکساں اور ضلع، تحصيل، گاؤں کي سطح پر مستند ڈاکٹروں کے علاوہ جديد طبي آلات سے آراستہ صحت مراکز کا قيام، غربت اعلي? تعليم کي راہ ميں رکاوٹ نہ ہو گي اور دو سال ميں بيس لاکھ نوجوانوں کو ہنرمند بنا کر روزگار فراہم کيا جائے گا? محصولات کے حجم ميں اضافے اور قومي وسائل کي ترقي کے لئے مختلف اقدامات کا ذکر ہوا اور ديہي دانش سے فائدہ اٹھانے کا دعوي? کيا گيا?
يوتھ عمران خان کا سرمايہ تو ہے مگر اب تحريک انصاف کے معاشي ماہرين نے اسے معدنيات، درياؤں، زرعي رقبے و پيداوار اور سونے کي طرح ملکي معيشت کے لئے بطور سرمايہ (کيپٹل) استعمال کرنيکا منصوبہ بنايا ہے? جاپان اور چين کي روشن مثاليں ان کے سامنے ہيں جوش جذبے سے سرشار توانائي سے بھرپور نوجوان قومي معيشت کي زندگي ميں خون کي طرح دوڑے تو صديوں کا سفر برسوں ميں طے ہو گا اور ناکامي کا خوف اميد، ايقان اور کامراني ميں بدل جائے گا? جہانگير ترين اور اسد عمر يہ تاثر دينے ميں کامياب رہے کہ تحريک انصاف کو نہ صرف ملکي مسائل کا علم، عوامي جذبات و احساسات کا فہم، سياسي و انتظامي پيچيدگيوں کا ادراک اور عالمي و علاقائي سطح پر ٹھوس تبديليوں کا شعور ہے بلکہ وہ ماضي کي غلط قومي پاليسيوں کے نتائج سے بھي آگاہ ہے اور تحريک انصاف کي اہليت و صلاحيت، معاشي ويژن کے بارے ميں عوامي تحفظات سے لا علم نہيں اس لئے تبادلہ خيال کي ضرورت محسوس کي جا رہي ہے?
نوجوانوں کے جوش و جذبے سے ياد آيا کہ خورشيد قصوري کے جلسے، بعض افطار پارٹيوں اور جمشيد اقبال چيمہ کي عيد ملن پارٹي ميں تحريک انصاف کے کارکنوں بالخصوص جذبہ و جنون سے سرشار يوتھ نے بے صبري اور نديدے پن سے وافر کھانے پر ہلہ بولا جو عمران خان کے لئے لمحہ فکريہ ہے يہ محض بھوک کا شاخسانہ نہيں سياسي و اخلاقي تربيت کا فقدان ہے اور اقتدار کے دنوں ميں يہ چھينا جھپٹي برسوں کے کئے کرائے پر پاني پھير دے گي اس لئے ابھي سے سونامي کي بے قابو لہروں پر قابو پانے کي تدبير سٹڈي سرکلز اور تربيت گاہوں ميں خصوصي نشستوں کے ذريعے کي جائے ورنہ ساري منصوبہ بندي خس و خاشاک ميں بہہ جائے گي? بھٹو کا عوامي انقلاب اپنے ہي بے قابو ہجوم کے ہاتھوں بدنام اور
ناکام ہوا اور تاريخ کا يہ سبق کسي کو فراموش نہيں کرنا چاہئے
عمران خان کا معاشي ويژن اور نوجوان...طلوع … ارشاد احمد عارف
http://search.jang.com.pk/details.asp?nid=20906#
Visit: http://freebookpark.blogspot.com

آئيں ايسے پاگلوں کو سليوٹ کرتے ہيں

.
 

آئيں ايسے پاگلوں کو سليوٹ کرتے ہيں ... دورِنو…علي معين نوازش
17 ستمبر 2005 ء کو واہگہ بارڈر کے راستے بھارتي حکام نے قيديوں کا ايک گروپ پاکستاني حکام کے حوالے کيا?اس گروپ ميں مختلف نوعيت کے قيدي تھے?ان کے ہاتھوں ميں گٹھڑيوں کي شکل ميں کچھ سامان تھا جو شايد ان کے کپڑے وغيرہ تھے?ليکن اس گروپ ميں ساٹھ پينسٹھ سالہ ايک ايسا پاکستاني بھي شامل تھا?جس کے ہاتھوں ميں کوئي گٹھڑي نہ تھي?
جسم پر ہڈيوں اور ان ہڈيوں کے ساتھ چمٹي ہوئي اس کي کھال کے علاوہ گوشت کا کوئي نام نہيں تھا?اور جسم اس طرح مڑا ہوا تھا جيسے پتنگ کي اوپر والي کان مڑي ہوتي ہے?خودرو جھاڑيوں کي طرح سرکے بے ترتيب بال جنہيں ديکھ کر محسوس ہوتا تھا کہ طويل عرصے تک ان بالوں نے تيل يا کنگھي کي شکل تک نہيں ديکھي ہو گي?اور دکھ کي بات کہ پاکستان داخل ہونے والے اس قيدي کي زبان بھي کٹي ہوئي تھي ليکن ان سارے مصائب کے باوجود اس قيدي ميں ايک چيز بڑي مختلف تھي اور وہ تھيں اس کي آنکھيں جن ميں ايک عجيب سي چمک تھي?
پاکستاني حکام کي طرف سے ابتدائي کارروائي کے بعد ان سارے قيديوں کو فارغ کرديا گيا?سارے قيدي اپنے اپنے گھروں کو روانہ ہو گئے?ليکن يہ بوڑھا قيدي اپنے گھر جانے کي بجائے ايک عجيب منزل کي تلاش ميں نکل کھڑا ہوا?کانپتے اور ناتواں ہاتھوں سے وہ ٹوٹے ہوئے الفاظ لکھ لکھ کر اپني منزل کا پتہ پوچھتا رہا اور ہر کوئي اسے ايک غريب سائل سمجھ کر اس کي رہنمائي کرتا رہا?اور يوں 2005 ء ميں يہ بوڑھا شخص پاکستان آرمي کي آزاد کشمير رجمنٹ تک پہنچ گيا وہاں پہنچ کر اس نے ايک عجيب دعوي? کرديا?اس دعوے کے پيش نظر اس شخص کو رجمنٹ کمانڈر کے سامنے پيش کرديا?کمانڈر کے سامنے پيش ہوتے ہي نہ جانے اس بوڑھے ناتواں شخص ميں کہاں سے اتني طاقت آگئي کہ اس نے ايک نوجوان فوجي کي طرح کمانڈر کو سليوٹ کيا اور ايک کاغذ پر ٹوٹے ہوئے الفاظ ميں لکھا
”سپاہي مقبول حسين نمبر 335139 ڈيوٹي پر آگيا ہے اور اپنے کمانڈر کے حکم کا منتظر ہے“
کمانڈر کو کٹي ہوئي زبان کے اس لاغر ، ناتواں اور بدحواس شخص کے اس دعوے نے چکرا کے رکھ ديا?کمانڈر کبھي اس تحرير کو ديکھتا اور کبھي اس بوڑھے شخص کو جس نے ابھي کچھ دير پہلے ايک نوجوان فوجي کي طرح بھرپور سليوٹ کيا تھا?
کمانڈر کے حکم پر قيدي کے لکھے ہوئے نام اور نمبر کي مدد سے جب فوجي ريکارڈ کي پراني فائلوں کي گرد جھاڑي گئي اور اس شخص کے رشتہ داروں کو ڈھونڈ کے لايا گيا تو ايک دل ہلا دينے والي داستان سامنے آئي ?اور يہ داستان جاننے کے بعد اب پھولوں، فيتوں اور سٹارز والے اس لاغر شخص کو سليوٹ مار رہے تھے?
اس شخص کا نام سپاہي مقبول حسين تھا?65 ء کي جنگ ميں سپاہي مقبول حسين کيپٹن شير کي قيادت ميں دشمن کے علاقے ميں اسلحہ کے ايک ڈپو کو تباہ کرکے واپس آرہا تھا کہ دشمن سے جھڑپ ہو گئي?سپاہي مقبول حسين جو اپني پشت پر وائرليس سيٹ اٹھائے اپنے افسران کے لئے پيغام رساني کے فرائض کے ساتھ ہاتھ ميں اٹھائي گن سے دشمن کا مقابلہ بھي کر رہا تھا مقابلے ميں زخمي ہو گيا?سپاہي اسے اٹھا کر واپس لانے لگے تو سپاہي مقبول حسين نے انکار کرتے ہوئے کہاکہ بجائے ميں زخمي حالت ميں آپ کا بوجھ بنوں، ميں دشمن کا مقابلہ کرتے ہوئے آپ کيلئے محفوظ راستہ مہيا کرتا ہوں?ساتھيوں کا اصرار ديکھ کر مقبول حسين نے ايک چال چلي اور خود کو چھوٹي کھائي ميں گرا کر اپنے ساتھيوں کي نظروں سے اوجھل کرليا? دوست تلاش کے بعد واپس لوٹ گئے تو اس نے ايک مرتبہ پھر دشمن کے فوجيوں کو آڑے ہاتھوں ليا? اسي دوران دشمن کے ايک گولے نے سپاہي مقبول حسين کو شديد زخمي کرديا? وہ بے ہوش ہو کر گرپڑا اور دشمن نے اسے گرفتار کرليا? جنگ کے بادل چھٹے تو دونوں ملکوں کے درميان قيديوں کي فہرستوں کا تبادلہ ہوا تو بھارت نے کہيں بھي سپاہي مقبول حسين کا ذکرنہ کيا?اس لئے ہماري فوج نے بھي سپاہي مقبول حسين کو شہيد تصورکرليا?بہادر شہيدوں کي بنائي گئي ايک يادگار پر اس کا نام بھي کندہ کرديا گيا?ادھربھارتي فوج خوبصورت اور کڑيل جسم کے مالک سپاہي مقبول حسين کي زبان کھلوانے کيلئے اس پر ظلم کے پہاڑ توڑنے لگي?اسے 4X4فٹ کے ايک پنجرا نما کوٹھڑي ميں قيد کرديا گيا? جہاں وہ نہ بيٹھ سکتا تھا نہ ليٹ سکتا تھا?دشمن انسان سوز مظالم کے باوجود اس سے کچھ اگلوانہ سکا تھا?سپاہي مقبول حسين کي بہادري اور ثابت قدمي نے بھارتي فوجي افسران کو پاگل کرديا?جب انہوں نے ديکھا کہ مقبول حسين کوئي راز نہيں بتاتا تو وہ اپني تسکين کيلئے مقبول حسين کو تشدد کا نشانہ بنا کر کہتے ”کہو پاکستان مردہ باد“ اور سپاہي مقبول حسين اپني ساري توانائي اکٹھي کرکے نعرہ مارتا پاکستان زندہ باد، جو بھارتي فوجيوں کو جھلا کے رکھ ديتا?وہ چلانے لگتے اور سپاہي مقبول کو پاگل پاگل کہنا شروع کرديتے اور کہتے کہ يہ پاکستاني فوجي پاگل اپني جان کا دشمن ہے اورسپاہي مقبول حسين کہتا ہاں ميں پاگل ہوں???ہاں ميں پاگل ہوں??? اپنے ملک کے ايک ايک ايک ذرّے کے لئے???ہاں ميں پاگل ہوں اپنے ملک کے کونے کونے کے دفاع کيلئے??? ہاں ميں پاگل ہوں اپنے ملک کي عزت و وقار کے لئے??? سپاہي مقبول حسين کي زبان سے نکلے ہوئے يہ الفاظ دشمنوں کے ذہنوں پر ہتھوڑوں کي طرح لگتے? آخر انہوں نے اس زبان سے بدلہ لينے کا فيصلہ کرليا انہوں نے سپاہي مقبول حسين کي زبان کاٹ دي اور اسے پھر 4x4 کي اندھيري کوٹھڑي ميں ڈال کر مقفل کرديا?سپاہي مقبول حسين نے 1965ء سے ليکر 2005ء تک اپني زندگي کے بہترين چاليس سال اس کوٹھڑي ميں گزار ديئے اب وہ کٹي زبان سے پاکستان زندہ آباد کا نعرہ تو نہيں لگا سکتا تھا ليکن اپنے جسم پر لباس کے نام پر پہنے چيتھڑوں کي مدد سے 4x4 فٹ کوٹھڑي کي ديوار کے ايک حصے کو صاف کرتا اور ا پنے جسم سے رستے ہوئے خون کي مدد سے وہاں پاکستان زندہ باد لکھ ديتا?يوں سپاہي مقبول حسين اپني زندگي کے بہترين دن اپنے وطن کي محبت کے پاگل پن ميں گزارتا رہا? آئيں ہم مل کر آج ايسے سارے پاگلوں کو سليوٹ کرتے ہيں?
http://search.jang.com.pk/details.asp?nid=20359
facebook.com/ali.moeen.nawazish
Visit: http://freebookpark.blogspot.com

Illogical Logic of Takfiri Taliban to kill innocent people- Refuted

Takfiri Taliban Pakistan through a letter to press tried to justify their immoral, illogical and  un-Islamic war against the state of Pakistan and its people.  Following points have been raised to justify killing of about 35,000 innocent Muslims including  women, children, civilians young & old and soldiers: 
1.   It is justified to fight against believing Muslims, because there was fighting among early Muslims.
2. After defeat of USSR the Jihad in Afghanistan was not against USSR or USA, it was against the Muslims of Afghanistan, the Mujahedin who  had fought against USSR. This was justified through Fatwas by Ulema [Islamic Scholars] on the grounds of implementation of Shariah rule in Afghanistan. If Jihad was justified against pious Mujahedeen of Afghanistan, why it is not justified against people of Pakistan who are neither Mujahedeen nor scholars of Islam?
If some non Muslims would have given such logic to justify mass murders, one might excuse him being ignorant, but such argument from those claiming to be pious and learned Muslims reflect nothing but their total ignorance to Quran, Sunnah & Islamic history. Keep reading >>> 

Visit: http://freebookpark.blogspot.com

Islamic provisions of constitution in Pakistan


مولوي نہيں ملے گا...صبح بخير…ڈاکٹر صفدر محمود
قرارداد مقاصد بھي زير عتاب آگئي ہے جسے اکثر ماہرين آئين محض غير مضر اور سجاوٹي شے سمجھتے ہيں ليکن بدقسمتي سے يہ قرارداد الٹرا لبرل دانشوروں کي مادر پدر آزاد آنکھوں ميں بہت چبھتي ہے بلکہ روڑے کي مانند ”روڑکتي“ ہے? ميں نے اپنے ان دوستوں کي خوبصورت آنکھوں ميں کئي بار جھانکا ہے? ان ميں ان کي بے بسي ديدني ہے? بہت سے مہربانوں کا فرمان ہے کہ قرارداد مقاصد ہم پر مسلط کي گئي ہے اور يہ ہماري گردن کا طوق ہے حالانکہ بيچاري قرارداد مقاصد ميں ايسي کوئي بات نہيں جو ہمارے 1956ء اور 1973ء کے آئين کا حصہ نہ رہي ہو? شايد ہمہ وقت جمہوريت اور آئين کا شور مچانے والے اور ترانے گانے والے آئين کو پڑھتے ہي نہيں يا پھر انہيں متفقہ طور پر قبول آئين کے کچھ حصے منظور ہيں اور کچھ نامنظور… مسلط تو وہ شے ہوتي ہے جو کسي باہر کي قوت يا غير آئيني قوت کي جانب سے نافذ کي جائے قرارداد مقاصد پاکستان کي پہلي دستور ساز اسمبلي نے مارچ 1949ء ميں پاس کي اور يہ وہي اسمبلي تھي جس کے اراکين نے قيام پاکستان ميں اہم کر دار سر انجام ديئے تھے? وزيراعظم لياقت علي خان نے اسے آئين سازي کي جانب اہم قدم قرار ديا تھا البتہ اقليتي اراکين اور آزاد خيالوں کے ”باوا“ مياں افتخارالدين نے اس پر تنقيد کي تھي? تاہم چند آوازوں کي مخالفت کے ساتھ يہ قرارداد بہت بھاري اکثريت کے ساتھ منظور ہوگئي? 1956ء ميں جس آئين ساز اسمبلي نے آئين بنايا يہ تقريباً وہي تھي جسے 1945-46ء کے انتخابات ميں منتخب کيا گيا تھا? آپ چاہيں تو 1956ء کا آئين مجھ سے مستعار لے ليں? اس آئين ميں قرارداد مقاصد کے مقاصد معمولي ترميمات کے ساتھ شامل تھے? ايوبي دستور البتہ مسلط کيا گيا تھا اس لئے اس کا ذکر چھوڑيئے? ان الٹرا لبرل دانشوروں کے ذہني ہيرو اور انقلابي سرخيل جناب ذوالفقار علي بھٹو نے جب 1973ء ميں آئين بنايا تو اسے ابتدائيہ ميں شامل کيا? حيرت ہے يہ لوگ اپنے آپ کو بھٹو کا نظرياتي وارث اور عاشق کہتے ہيں ليکن اس کے بنائے ہوئے آئين کے بارے ميں شاکي ہيں? بھلا شاکي کيوں ہيں؟ وہ اس لئے کہ قرارداد مقاصد سے قطع نظر1973ء کا آئين يہ اعلان اور وعدہ کرتا ہے کہ ”مسلمانان پاکستان کي زندگيوں کو اسلامي سانچے ميں ڈھالنے کے لئے اقدامات کئے جائيں گے اور مواقع بہم پہنچائے جائيں گے کہ قرآن و سنت کي روشني ميں زندگي کا مفہوم سمجھ سکيں“?
(آرٹيکل 31) يہ حضرات جب آئين کا يہ آرٹيکل پڑھتے ہيں تو ان کے دلوں اور ذہنوں پر غم کے بادل چھا جاتے ہيں حالانکہ حقيقت يہ ہے کہ رياست اسے اپني ذمہ داري قرار دے چکي ہے? چنانچہ رياست کو اس ذمہ داري کا احساس دلانے يا پھر ياد دہاني کرانے کا فريضہ جرم نہيں بلکہ شہري و آئيني تقاضا ہے? اس پر ناک بھوں چڑھانا فيشن تو ہوسکتا ہے ليکن معاشرے کے ضمير کي آوازہرگز نہيں? ہمارے ان دين بيزار دوستوں کو سمجھ نہيں آتي کہ ان کے ہيرو ذوالفقار علي بھٹو نے ان اصولوں کو آئين کا حصہ کيوں بننے ديا؟ موٹي سي بات ہے بھٹو عوامي ليڈر تھا، ڈرائنگ روم پيو پلاؤ دانشور نہيں تھا وہ عوام کے دل کي آواز سمجھتا تھا چنانچہ اس نے وہ حق ادا کيا جو قوم نے فرض کے طور پر اسے سونپا تھا? اب اگر چند درجن آزاد خيال دانشوري کے زور پر اس طوق سے نجات حاصل کرنا چاہئيں تو يہ ممکن نہيں اس لئے ان کي ”فلاح“ اسي ميں ہے کہ وہ حدود و قيود کا تعين کروا ليں اور وضاحت ہونے ديں کيونکہ وہ اپنے نظريات اور اپنا کلچر پاکستان کي مسلمان قوم پر تھوپ نہيں سکتے، نہ ہي کوئي اسے قبول کرے گا? مجھے ايک لاہوري بزرگ ياد آرہے ہيں نام ان کا حضرت شورش کاشميري تھا? عمر ميں خاصا تفاوت ہونے کے باوجود وہ ميرے دوست اور نہايت مہربان دوست تھے? کبھي کبھي ترنگ ميں ہوتے تو کہتے کہ ”يارو! ان کو سمجھاؤ، ايسا نہ ہو ان کا جنازہ پڑھنے کے لئے کوئي مولوي ہي نہ ملے“? ميرا مرحوم دوست شورش کاشميري زبان اور قلم کا بادشاہ اور حکمران تھا نہ جانے اس فقرے سے ان کي مراد کيا تھي؟ اگر آپ سمجھ گئے ہوں تو مجھے بھي بتا ديں?

آئين پاکستان کي شق 3 ميں کہا گيا ہے کہ رياست ہر قسم کے استحصال کو ختم کرنے کو يقيني بنائے گي
 شق 37 اور 38 ميں رياست پر ذمہ داري ڈالي گئي ہے کہ وہ سستا اور جلد انصاف فراہم کرے، سماجي انصاف کو فروغ دے اور ربو (سود) کا جلد از جلد خاتمہ کرے
 شق 227 ميں کہا گيا ہے کہ تمام متعلقہ قوانين کو قرآن و سنت کے مطابق بنا ديا جائے اور کوئي نيا قانون اسلامي تعليمات کے خلاف 
نہيں بنايا جائے? ان تمام امور پر اسلامي نظرياتي کونسل، وفاقي شرعي عدالت اور سپريم کورٹ کي کارکردگي انتہائي مايوس کن ہے
 آئين کي حکمراني کي باتيں تو معزز جج صاحبان کي جانب سے تواتر کے ساتھ کي جارہي ہيں مگر معيشت سے سود کا خاتمہ کرنے کا عمل
 اعلي عدالتوں کي وجہ سے رکا ہوا ہے
 وفاقي شرعي عدالت نے1991ء ميں قوانين کو اسلام کے منافي قرار ديا تھا وہ فيصلہ ہي سپريم کورٹ کے پي سي او ججز نے معطل کرديا تھا مگر 10برس سے زيادہ کا عرصہ گزرنے کے باوجود شرعي عدالت مقدمہ کي شنوائي شروع ہي نہيں کررہي  بينکوں کے کھاتے داروں کو منافع ميں شريک نہ کرکے اور غلط طريقوں سے اربوں روپے کے قرضے معاف کرکے ان کا استحصال کيا ہے مگر اس ضمن ميں اہم مقدمات سپريم کورٹ نے بھي پس پشت ڈال ديئے ہيں
 سپريم کورٹ تقريباً 1000 دنوں سے ايسے مقدمے ميں الجھي ہوئي ہے جو منطقي انجام تک نہيں پہنچ رہے? اين آر او کے فيصلے پر عمل درآمد کيلئے جو مانيٹرنگ سيل 3برس قبل سپريم کورٹ اور ہائي کورٹس کي سطح پر قائم کئے گئے تھے ان کي کارکردگي نظر نہيں آرہي? ان تمام معاملات ميں معيشت کو کئي کھرب روپے کا نقصان ہوچکا ہے? انتخابات سے قبل وطن عزيز ميں زبردست سياسي جوڑ توڑ اور الزامات کي سياست ہورہي ہے مگر ان تمام اہم ترين معاملات کو مذہبي و سياسي جماعتيں مطلق نظر انداز کررہي ہيں چنانچہ ان خدشات کو تقويت مل رہي ہے کہ 2013ء کے ممکنہ انتخابات کے نتيجے ميں کسي معني خيز بہتري کا امکان روشن نہيں ہے الّا يہ کہ عوام اٹھ کھڑے ہوں
 آئين ميں دي گئي قرارداد پاکستان کي شق31 کو پڑھ لے، تمام حقيقتيں کھل جائينگي? 1973ء کے آئين ميں درج قرارداد پاکستان کہتي ہے :
”چونکہ اللہ تبارک تعالي? ہي پوري کائنات کا بلاشرکت غيرے حاکم مطلق ہے اور پاکستان کے جمہور کو اختيارو اقتدار اسکي مقرر کردہ حدود کے اندر استعمال کرنيکا حق ہو گا يہ ايک مقدس امانت ہے? چونکہ پاکستان کے جمہور کي منشاء ہے کہ ايک ايسا نظام قائم کيا جائے جس ميں مملکت اپنے اختيارات و اقتدار کو جمہور کے منتخب کردہ نمائندوں کے ذريعے استعمال کرے گي؛ جس ميں جمہوريت ? آزادي ? مساوات ? رواداري اور عدل عمراني کے اصولوں پر جس طرح اسلام نے تشريح کي ہے، پوري طرح عمل کيا جائيگا؛ جس ميں مسلمانوں کو انفرادي اور اجتماعي حلقہ ہائے عمل ميں اس قابل بنايا جائيگا کہ وہ اپني زندگي کو اسلامي تعليمات و مقتضيات کے مطابق جس طرح قرآن پاک اور سنّت ميں ان کا تعين کيا گيا ہے، ترتيب دے سکيں؛ جس ميں قرار واقعي انتظام کيا جائے گا کہ اقليتيں آزادي سے اپنے مذاہب پر عقيدہ رکھ سکيں اور ان پر عمل کر سکيں اور اپني ثقافتوں کو ترقي دے سکيں…!!
دستور پاکستان اسلام کو رياست کا مذہب قرار ديتا ہے اور آرٹيکل31 ميں حکومت ? عوام اور ہر ادارے کي کچھ يوں ذمہ داري لگاتا ہے:
”(?)31پاکستان کے مسلمانوں کو انفرادي اور اجتماعي طور پر اپني زندگي اسلام کے بنيادي اصولوں اور اساسي تصورات کے مطابق مرتب کرنے کے قابل بنانے کيلئے اور انہيں ايسي سہولتيں مہيا کرنے کيلئے اقدامات کئے جائيں گے جن کي مدد سے وہ قرآن پاک اور سنّت کے مطاق زندگي کا مفہوم سمجھ سکيں? (?) پاکستان کے مسلمانوں کے بارے ميں مملکت مندرجہ ذيل کيلئے کوشش کريگي? (?) قرآن پاک اور اسلاميات کي تعليم کو لازمي قرار دينا ? عربي زبان سيکھنے کي حوصلہ افزائي کرنا اور اس کيلئے سہولت بہم پہنچانا اور قرآن پاک کي صحيح اور من و عن طباعت اور اشاعت کا اہتمام کرنا…“
اگر ہم نے آئين پر عمل کيا ہوتا تو آج پاکستان ايک بہترين اسلامي فلاحي رياست بن چکا ہوتا جہاں اسلام پر فخر کرنے والے مسلمانوں کا راج ہوتا، جہاں اقليتوں کے حقوق کا تحفظ کيا جاتا، جہاں عورتوں کو ان کے حقوق ديے جاتے، جہاں کاروکاري، قرآن سے شادي، زندہ عورتوں کو درگور کرنے جيسي غير اسلامي روايات کا کوئي تصور نہ ہوتا، جہاں مذہب، عقيدے، نسل، فرقہ اور علاقائيت کي بنياد پر قتل و غارت نہ ہوتي، جہاں حکمران طبقہ ايماندار اور اسلام پسند ہوتا، جہاں رياست اپنے شہريوں کي سہولتوں کي ضامن ہوتي اور???? بہت کچھ? چليں پہلے نہيں ہوا تو اب ہم سب مل کر ايک اسلامي فلاحي رياست کے خواب کو شرمندہ تعبير کرنے کے ليے کام کريں? ايک ايسي اسلامي فلاحي رياست جو کسي ڈکٹيٹر يا کسي مخصوص سياسي و مذہبي جماعت کے اصولوں کے مطابق نہيں بلکہ اسلامي شريعت کي مرہون منّت ہو? 
http://search.jang.com.pk/details.asp?nid=19524
More: 
While some prefer to emphasise the economic independence within secular Pakistan, others dream of theocracy like Iran. They try to support their perceptions by misquoting and twisting sayings of Muhammad Ali Jinnah, the ...

Visit: http://freebookpark.blogspot.com

Muslim world: Economy, Corruption, Morality

.

پستي کا کوئي حد سے گزرنا ديکھے...معيشت کي جھلکياں…ڈاکٹرشاہد حسن صديقي
مسلمان ملکوں کي مجموعي آبادي کرہ? ارض کي کل آبادي کا تقريباً 23فيصد ہے جبکہ دنيا کے رقبے ميں اسلامي دنيا کا حصہ بھي تقريباً اتنا ہي ہے? اسلامي ممالک 2011ء ميں بيروني قرضوں کے تقريباً 1683/ارب ڈالر کے مقروض تھے جبکہ مسلمانوں کي اس سے کئي گنا زيادہ رقوم کے ڈپازٹس صرف مغربي ممالک ميں بينکوں اور مالياتي اداروں ميں جمع ہيں? مسلمانوں کي خطير رقوم ”ٹيکسوں کي جنت آف شور کمپنيز“ ميں بھي جمع ہيں جہاں دنيا بھر کے مالدار افراد کے 32 ہزار ارب ڈالر کي رقوم جمع ہيں? يہ بات روز روشن کي طرح عياں ہے کہ مسلمانوں کي دولت کا ايک حصہ مغربي ممالک نے براہ راست يا عالمي مالياتي اداروں کے ذريعے مسلمان ملکوں کو بطور قرض مہيا کرکے ان کي معيشت کو اپنا دست نگر اور ان کي پاليسيوں کو اپنا اسير بنا ليا ہے? اندازہ ہے کہ صرف مشرق وسطي? کے مالدار شہريوں کے پاس3500/ارب ڈالر کے اثاثے ہيں جن کا خاصہ بڑا حصہ مغربي ممالک ميں ہے? مارچ 2012ء ميں پاکستان کے بيروني قرضوں و ذمہ داريوں کا حجم 60.28/ارب ڈالر تھا جبکہ ملک ميں رہائش پذير اور سمندر پار پاکستانيوں کے مغرب ميں رکھے ہوئے سيال اثاثوں کا حجم تقريباً 400/ارب ڈالر ہے? اسلامي ممالک کے متعلق چند مزيد حقائق اور اعداد و شمار نذر قارئين ہيں?
(1) دنيا کي آبادي ميں تقريباً 23 فيصد اور توانائي و قدرتي وسائل ميں تقريباً 50 فيصد حصہ ہونے کے باوجود عالمي جي ڈي پي ميں او آئي سي کے 57 مسلمان ملکوں کا حصہ صرف8.1 فيصد ہے? جاپان کي آبادي پاکستان سے کم ہے مگر جاپان کي جي ڈي پي جہاں قدرتي وسائل بھي نہيں ہيں، 57 اسلامي ملکوں کي مجموعي جي ڈي پي سے زيادہ ہے? فرق ٹيکنالوجي اور محنت کي لگن کا ہے?(2) اسلامي ملکوں ميں مالياتي کرپشن ناسور کي طرح پھيلا ہوا ہے? ٹرانسپيرنسي انٹرنيشنل کي2011ء کي رپورٹ کے مطابق دنيا کے22 شفاف ترين ملکوں ميں کوئي مسلمان ملک شامل نہيں ہے جبکہ22 بدعنوان ترين ملکوں ميں11 مسلمان ملک سے شامل ہيں?(3) اسلامي دنيا کے 10 شفاف ممالک ميں نسبتاً کم آبادي والے مگر تيل کي دولت سے مالا مال خليج کے ممالک بھي شامل ہيں? 5 شفاف ترين مسلمان ملکوں کي مجموعي آبادي کرہ? ارض کي مجموعي آبادي کے ايک فيصد سے بھي کم ہے?(4) آبادي کے لحاظ سے 5بڑے اسلامي ملکوں ميں کرپشن بہت زيادہ ہے? 182 ممالک کي فہرست ميں نائجيريا کا نمبر 143 ہے يعني ان 5ملکوں ميں يہ سب سے بدعنوان ملک ہے? اس کے بعد پاکستان 134، بنگلہ ديش 120، مصر112 اور انڈونيشيا 100 ويں نمبر پر آتے ہيں? ان 5مسلمان ملکوں کي مجموعي آبادي دنيا کے57 مسلمان ملکوں کي مجموعي آبادي کا 52 فيصد ہے? يہ پانچوں ممالک انساني وسائل کي ترقي کے لحاظ سے بہت پيچھے ہيں?(5) دنيا کے صرف دو مسلمان ملکوں يعني قطر اور متحدہ عرب امارات ميں کرپشن اسرائيل سے کم ہے? ان دونوں ممالک کي مجموعي آبادي صرف72لاکھ ہے? 55 اسلامي ملکوں بشمول کويت، بحرين، اردن، سعودي عرب، ملائيشيا اور ترکي جيسے ملکوں ميں کرپشن اسرائيل سے زيادہ ہے? انڈونيشيا، مصر، بنگلہ ديش، ايران، نائجيريا اور پاکستان جيسے ملکوں ميں کرپشن بھارت سے زيادہ ہے?(6) بيشتر اسلامي ملکوں کے پاليسياں بنانے والے اور ان پاليسيوں پر اثرانداز ہونے والے طاقتور طبقے دين اسلام کي محدود تعبير سے تو متفق ہيں مگر عملاً اسلام کي جامعيت کے مخالف ہيں کيونکہ اس سے ان کے مفادات پر ضرب پڑتي ہے? ان ممالک کے عوام اسلامي نظام کے نفاذ کے تو حامي ہيں مگر ماديت پرستي سے مغلوب ايک عام آدمي يہ چاہتا ہے کہ حرام طريقوں سے روزي کمانے اور کرپشن ميں ملوث ہونے کے اس کے اعمال سے چشم پوشي کي جاتي رہے?
پاکستان کي معيشت اور سلامتي کو خوفناک چيلنجوں کا سامنا ہے? امريکہ نے پاکستان پر 2004ء سے اب تک 321 ڈرون حملے کئے ہيں جن ميں سے312 موجودہ حکومت اور فوجي قيادت کے دور ميں ہوئے ہيں? يہ قيادتيں امريکي دباؤ پر شمالي وزيرستان ميں فوجي آپريشن کرنے کا فيصلہ اصولي طور پر کرچکي ہيں? موجودہ حالات ميں اس کے نتائج کا سوچ کر روح بھي کانپ جاتي ہے? ہم سمجھتے ہيں کہ جب شمالي وزيرستان ميں آپريشن کرکے پاکستان بري طرح پھنس جائے گا تو امريکہ ڈرون حملے روک دے گا کيونکہ وہ افواج پاکستان سے لڑنے والوں کو مزيد کمزور نہيں کرنا چاہے گا? حکومت اور قوم کو اب دہشت گردي کي جنگ يا پاکستان ميں سے ايک کا انتخاب کرنا ہوگا?
Visit: http://freebookpark.blogspot.com

Objectives Resolution : Supremacy of Islam in Constitution of Pakistan


While some prefer to emphasise the economic independence within secular Pakistan, others dream of theocracy like Iran. They try to support their perceptions by misquoting and twisting sayings of Muhammad Ali Jinnah, the founder of Pakistan. Both are far from the reality. This fundamental question has been settled through Objectives Resolution, adopted by first constituent assembly on March 9, 1949, and subsequently by all assemblies till now. Any ambiguity was further clarified by Liaquat Ali Khan, the 1st Prime Minister of Pakistan, also a close associate of Muhammad Ali Jinnah, in his speech on the Objectives Resolution, March 9, 1949. 
"Pakistan was founded because the Muslims of this sub-continent wanted to build up their lives in accordance with the teachings and traditions of Islam, because they wanted to demonstrate to the world that Islam provides a panacea to the many diseases which have crept into the life of humanity today."
"Islam does not recognize either priesthood or any sacerdotal authority; and, therefore, the question of a theocracy simply does not arise in Islam. If there are any who still use the word theocracy in the same breath as the polity of Pakistan, they are either labouring under a grave misapprehension, or indulging in mischievous "propaganda."
"The Preamble of the Resolution deals with a frank and unequivocal recognition of the fact that all authority must be subservient to God. It is quite true that this is in direct contradiction to the Machiavellian ideas regarding a polity where spiritual and ethical values should play no part in the governance of the people and, therefore, it is also perhaps a little out of fashion to remind ourselves of the fact that the State should be an instrument of beneficence and not of evil."

"The Muslim [in Pakistan] shall be enabled to order their lives in the individual and collective spheres in accord with the teachings and requirements of Islam as set out in the Holy Quran and the Sunnah"
[Excerpts: Liaquat Ali Khan, the 1st Prime Minister of Pakistan, on the Objectives Resolution, March 9, 1949]
The Objectives Resolution was a resolution adopted on March 12, 1949 by the Constituent Assembly of Pakistan. The resolution, proposed by thePrime Minister, Liaquat Ali Khan, proclaimed that the future constitution of Pakistan would not be modelled entirely on a European pattern, but on the ideology and democratic faith of Islam.

[edit]Objectives resolution

The Objectives Resolution proclaimed the following principles:
  1. Sovereignty belongs to Allah alone but He has delegated it to the State of Pakistan through its people for being exercised within the limits prescribed by Him as a sacred trust.
  2. The State shall exercise its powers and authority through the chosen representatives of the people.
  3. The principles of democracy, freedom, equality, tolerance and social justice, as enunciated by Islam, shall be fully observed.
  4. Muslims shall be enabled to order their lives in the individual and collective spheres in accordance with the teachings of Islam as set out in the Quran and Sunnah.
  5. Adequate provision shall be made for the minorities to freely profess and practice their religions and develop their cultures.
  6. Pakistan shall be a federation.
  7. Fundamental rights shall be guaranteed.
  8. The judiciary shall be independent.[1]
The Objectives Resolution, which combines features of both Western and Islamic democracy, is one of the most important documents in the constitutional history of Pakistan. At the time it was passed, Liaquat Ali Khan called it "the most important occasion in the life of this country, next in importance only to the achievement of independence". 

Visit: http://freebookpark.blogspot.com