دنیا میں شاید ہی ایسی کوئی مثال پیش کی جاسکے کہ ایک سیاسی پارٹی بھاری اکثریت سے انتخابات جیتے اور پھر کسی مجبوری کے بغیر حکومت دوسروں کے سپرد کردے۔ مصر میں الاخوان المسلمون نے ایک نہیں تین شاندار عوامی کامیابیوں کے باوجود تمام جماعتی وابستگیوں سے بالاتر ہوکر ایک وسیع تر قومی حکومت تشکیل دی ۔ وزارت عظمی سمیت تقریباً تمام اہم وزارتیں اور مناصب غیر اخوانی افراد کو سونپ دیے۔ 35 رکنی کابینہ میں سے صرف چار وزراء اخوان سے تعلق رکھتے ہیں۔ مصر میں قومی اسمبلی ہی نہیں سینٹ اور صدر مملکت بھی براہ راست عام انتخابات کے ذریعے منتخب کیے جاتے ہیں۔ انتخابات بھی ایک یا چند روز میں نہیں کئی مراحل میں تقریباً چھ ماہ پر محیط عرصے کے دوران مکمل ہوتے ہیں۔ یوں انتخاب کا ہر مرحلہ ایک براہ راست عوامی ریفرنڈم کی صورت اختیار کرجاتا ہے۔ اخوان نے ان تینوں مراحل میں بھرپور عوامی اعتماد حاصل کیا لیکن جب اعصاب شکن انتخابات کے بعد حکومت سازی کا مرحلہ آیا تو قومی وحدت کو ترجیح اول قرار دیتے ہوئے، سب عہدے اور مناصب دیگر افراد کو سونپ دیے۔ ڈاکٹر ھشام قندیل، حسنی مبارک کے بعد تشکیل پانے والی عبوری کابینہ میں آبی وسائل کے وزیر تھے، وزارت عظمی کا تاج ان کے سر پر رکھ دیا گیا۔ کلیدی وزارتوں سمیت تمام مناصب کا تعین بھی جماعتی وابستگی سے بالاتر ہوکر کیا گیا۔ حسنی مبارک اور اس سے پہلے تمام ڈکٹیٹروں نے ملکی اداروں کو مستحکم کرنے کے بجائے تمام تر توجہ اور وسائل اپنے شخصی اقتدار کو دوام بخشنے پر صرف کردیے۔ فرد واحد کو اس قدر مرکزیت حاصل تھی کہ ریاست کے نائب صدر کا عہدہ ہمیشہ خالی ہی رکھا گیا حالانکہ اس عہدے پر تقرری اہم دستوری تقاضا تھا۔ ڈکٹیٹر سمجھتا تھا کہ برائے نام نائب کے اعلان سے بھی عوام کے سامنے متبادل کے طور پرایک دوسرا نام نمایاں ہوجائے گا۔ تیس سالہ اقتدار میں حسنی مبارک نے نائب صدر کا اعلان کیا بھی تو اپنے اقتدار کے آخری ہفتے اس وقت جب اسے محسوس ہونے لگا کہ اب اقتدار کی لیلی روٹھ چکی۔ صدر محمد مرسی نے صدر منتخب ہونے کے ایک ماہ بعد ہی جسٹس محمود مکی کو ملک کا نائب صدر مقرر کردیا ہے۔ جسٹس مکی کا بھی اخوان سے کوئی تعلق نہیں ہے، لیکن ایک منصف مزاج قومی شخصیت کے طور پر انہیں انتہائی محترم شخصیت گردانا جاتا ہے۔اخوان نے اپنے انتخابی منشور میں منصب صدارت کوایک فرد کی غلامی سے نکال کر ایک مستحکم قومی ادارے کی حیثیت دینے کا اعلان کیا تھا۔ عہدہء صدارت سنبھالے ابھی تین ماہ کا عرصہ بھی نہیں گزرا کہ اخوان نے اپنا یہ اہم انتخابی وعدہ نبھاتے ہوئے دنیا کے سامنے ایک روشن مثال قائم کردی ہے۔ صدر محمد مرسی نے چار معاون صدور اور سولہ ارکان پر مشتمل ایک ایسی صدارتی مجلس مشاورت تشکیل دی ہے، جس میں ملک کے تمام مذاہب اور طبقات کو بھرپور نمائندگی دی گئی ہے۔ اسلامی تحریکوں پر ہمیشہ خواتین کے حقوق کی پامالی اور انہیں دوسرے درجے کے شہری سمجھنے کا الزام لگایا جاتا ہے۔ اخوان نے نہ صرف کابینہ میں بلکہ چار معاون صدور اور صدارتی مجلس مشاورت میں بھی خواتین کو واضح نمائندگی دی ہے۔ مصر میں تقریبا دس فیصد آبادی قبطی مسیحیوں کی ہے، مسیحیوں کو بھی کابینہ، معاون صدور اور صدارتی مشاورت میں نمایاں حصہ دیا گیا ہے۔ حالیہ انتخابات میں النور کے نام سے ایک سلفی تحریک نے نمایاں کامیابی حاصل کی۔ اخوان مخالف بعض عرب حکومتوں نے بھی اخوان کا مقابلہ کرنے کے لیے اس تحریک کو بھرپور وسائل سے نوازا۔ انتخابات کے بعد اخوان اور سلفی حضرات کو باہم لڑانے کی بھی کئی کوششیں ہوئیں، جنہیں طرفین کے حکیم ذمہ داران نے ناکام بنادیا۔ اب اخوان نے النور کے سربراہ عماد عبد الغفور کو معاون صدر مقرر کرتے ہوئے فرقہ وارانہ ہم آہنگی اور باہم تعاون کی بنیاد مستحکم کردی ہے۔ منصب صدارت کو ایک ادارے کی شکل دینے کا اعلان صرف رسمی نہیں ہے، تمام افراد کو مختلف شعبہ ہائے زندگی کی ذمہ داریاں سونپتے ہوئے انہیں اُمور ریاست میں فعال کردار ادا کرنے کا ہدف دیا گیا ہے۔ مصری تاریخ دانوں کے مطابق صدر محمد مرسی مصری تاریخ میں وہ پہلے سویلین صدر ہیں جو عوام کے براہ راست اور آزادانہ ووٹ کے ذریعے منتخب ہوئے۔ ان کی راہ میں بھی قدم قدم پر رکاوٹیں کھڑی کی گئیں اور مسلسل کی جارہی ہیں، لیکن اخوان نے مکمل صبر و تحمل کی پالیسی اختیار کی ہے۔ کئی عشروں کی ڈکٹیٹر شپ کے بعد پہلی حقیقی منتخب اسمبلی وجود میں آئی، حلف برداری ہوگئی، قانون سازی کا عمل شروع ہوگیا، ملک کے پہلے سویلین دستور کا خاکہ وضع ہونے لگا، لیکن ابھی دوماہ کا عرصہ بھی نہیں گزرا تھا کہ فوجی کونسل کی سرپرستی میں دستوری عدالت کے ذریعے اسمبلی تحلیل کردی گئی۔ وجہ یہ بتائی گئی کہ ایک تہائی ارکان کو پارٹیوں کے اُمیدوار کے طور پر نہیں، آزاد حیثیت میں انتخاب لڑنا چاہیے تھا۔ فرض کرلیجیے کہ واقعی ایسا ہی تھا تو اس میں ان کروڑوں عوام کا کیا قصور تھا جنہوں نے کئی ماہ کی انتخابی مہم، پھر کئی ماہ کے مرحلہ وار انتخابی عمل کے بعد اسمبلی منتخب کی تھی۔ اور اگر بفرض محال قصور الیکشن کمیشن اور حکومت کا نہیں عوام اور نومنتخب ارکان اسمبلی ہی کا تھا، تب بھی ان ایک تہائی ارکان کا انتخاب کالعدم قرار دے کر ان نشستوں کا دوبارہ انتخاب کروا لیا جاتا، اسمبلی برقرار رہتی۔ لیکن چونکہ اصل ہدف جیتنے والی سیاسی جماعتوں بالخصوص دونوں بڑی جماعتوں اخوان اور النور کو مشتعل کرکے انہیں احتجاجی تحریک کی طرف دھکیلنا تھا، پوری اسمبلی تحلیل کردی گئی۔ یہ فیصلہ بھی عین اس وقت سامنے آیا جب صدارتی انتخاب کے دوسرے مرحلے کی ووٹنگ شروع ہونے میں صرف تیرہ گھنٹے باقی تھے اور اس میں اخوان کے اُمیدوار محمد مرسی کی جیت کے واضح امکانات تھے۔ اخوان نے کمال ضبط و تحمل کا مظاہرہ کرتے ہوئے اسمبلی توڑنے کے فیصلے کے خلاف اپنا موقف تو واضح کردیا لیکن کارکنان کو ہدایت کی کہ وہ اپنی ساری توجہ صدارتی انتخابات پر مرکوز رکھیں۔ اسی طرح صدارتی انتخاب سے صرف ایک دن پہلے انوکھا عبوری دستوری آرڈر جاری کرتے ہوئے صدر مملکت کے تقریباً تمام اختیارات عبوری فوجی کونسل کو دے دیے گئے۔ اس انوکھے حکم نامے کے مطابق قانون سازی کا حق بھی فوجی کونسل ہی کے سپرد کردیا گیا۔ گویا نومنتخب صدر کے ہاتھ پاوٴں باندھ کر کھلے سمندر میں پھینکنے کا انتظام تھا۔ اس عبوری حکم اور دستوری عدالت کی لٹکتی تلوار کے باوجود اخوان نے صدارتی انتخاب بھی پرامن انداز سے گزارے، اور بالآخر فوجی کونسل کے سامنے انتقال اقتدار کے سوا کوئی راستہ نہ رہ گیا۔ بعد از خرابی بسیاراقتدار تو منتخب صدر کے سپرد کردیا گیا، لیکن اب بھی آئے روز کوئی نہ کوئی نیا بحران سامنے آتا رہتا ہے۔ حسنی مبارک اور اس کے پیش رو ڈکٹیٹروں نے اپنے پون صدی کے اقتدار کے دوران ہر میدان، بالخصوص ذرائع ابلاغ میں اپنے نمک خواروں کی نسلیں پروان چڑھائی ہیں۔ 25 جنوری 2011 کو شروع ہونے والی عوامی تحریک اور پھر حسنی مبارک کی رخصتی سے لے کر اب تک ان لوگوں نے انقلابی قوتوں بالخصوص اخوان کے خلاف مہیب ابلاغیاتی محاذ کھول رکھے ہیں۔ نومنتخب حکومت نے ان لوگوں کی طرف سے تمام اخلاقی و پیشہ ورانہ سرحدیں پھلانگ جانے کے باوجود صبر و درگزر کی پالیسی اختیار کی ہے۔ اس ابلاغیاتی یلغار میں تین واقعات ایسے بھی پیش آئے، کہ خود صحافتی برادری ان کا نوٹس لینے پر مجبور ہوئی۔ ایک پرائیویٹ چینل کا نام ہے ”الفراعین“ - فراعین، فرعون کی جمع ہے۔ حیران نہ ہوں، مصر میں ایک گروہ اپنی مسلم، عرب، یا مصری شناخت پر نہیں فرعونی شناخت پر فخر کرنا چاہتا ہے۔ فراعین چینل کے سربراہ اور اینکر پرسن توفیق عکاشہ روزانہ نومنتخب صدر مملکت کے خلاف ہی نہیں تمام انقلابی عناصر کے خلاف دشنام کا محاذ کھولتے تھے۔ ایک پروگرام میں ایک شہید کی والدہ سے مخاطب ہوتے ہوئے کہنے لگا ”تم سمجھتی ہو تمہارا بیٹا شہید جمہوریت ہے۔۔ بے وقوف وہ تو منشیات کا رسیا تھا، تم اسے شہید افیون کہا کرو۔ واضح رہے کہ اس نوجوان شہید کا اخوان سے کوئی تعلق نہیں تھا۔ اسے جاننے والے تمام لوگ اس کے اخلاق کے گرویدہ تھے، منشیات سے اس کا دور کا بھی واسطہ نہیں تھا۔ پھر ایک روز عکاشہ نے حد ہی کردی صدر محمد مرسی کے بارے میں کہنے لگا ”وہ واجب القتل ہے۔ کاش کوئی نوجوان اٹھے اور اسے قتل کرڈالے۔۔ اگر کسی نے قتل نہ کیا تو میں خود اسے قتل کرڈالوں گا“ یہ ہذیان کسی پاگل کی زبان سے ادا نہیں ہوا، ٹی وی پر براہِ راست نشر ہونے والے پروگرام میں ایک معروف اینکر کا انداز ہے۔ اس پروگرام کے بعد خود صحافیوں کی تنظیم نے عکاشہ کا نوٹس لیا اور اس کے پروگراموں پر پابندی لگادی۔ اب ان کا معاملہ عدالت میں ہے، لیکن خود پاکستان میں بھی کچھ یار لوگ اس عدالتی کاروائی کو صحافیوں کے خلاف اخوان کی فرعونی کاروائیاں قرار دے کر تبرا بازی کررہے ہیں۔ ایک اور صحافی ہیں صبری نخنوخ۔ ان صاحب نے اپنا غنڈوں کا ایک باقاعدہ گروہ پالا ہوا ہے۔ یہ بھی حسنی مبارک کے متوالوں میں سے ہیں۔ ان کی صحافی ”کاروائیوں“ پر لوگوں نے احتجاج کیاتو کئی ایکڑ پر محیط ان کے محل پر چھاپہ مارا گیا۔ سیکولر میڈیا بھی حیران رہ گیا - وہاں سے غنڈوں اور بھاری مقدار میں اسلحے کے علاوہ، مخالفین پر تشدد کے لیے بڑے بڑے پنجروں میں بند کئی خونخوار شیر، زہریلے سانپ اور تربیت یافتہ کتے بھی برآمد ہوئے۔ اب نخنوخ بھی عدالت کا سامنا کررہا ہے۔ روزنامہ الدستور کے ایڈیٹر اسلام عفیفی کا معاملہ بھی ایسا ہی ہے۔ انہوں نے بھی صدر مرسی سمیت اپنے مخالفین پر تنقید کو ایسی گالیوں کی زبان دے دی کہ وہ کسی بھی شہری کو ایسی گالیاں دیتا تو شاید جان سے ہاتھ دھو بیٹھتا۔ ان گالیوں، بے بنیاد الزامات اور فرقہ وارانہ منافرت کو ہوا دینے کے الزام کے باعث ایک عدالت نے عفیفی کو 24 روز قید کی سزا سنادی۔ صدر مرسی نے اپنے خصوصی اختیارات استعمال کرتے ہوئے اس کی یہ 24 دن کی ”طویل“ سزا معاف کردی، جس سے ایسے تمام صحافیوں کے لیے درگزر کی ایک قانونی نظیر پیدا ہوگئی، لیکن اس واقعے کو بھی اخوان مخالف مزید پراپیگنڈے کی بنیاد بنا لیا گیا۔ الزامات اور پراپیگنڈا ہی نہیں وسط رمضان میں ایک خوفناک سازش کی گئی۔ مصر فلسطین سرحدپر عین اس وقت 16 مصری فوجی شہید کردیے گئے جب وہ روزہ افطار کررہے تھے۔ یہ انتہائی گھناوٴنی کاروائی تھی جسے بنیاد بناکر اسرائیل اور امریکا بھی مصر کے لیے مزید مشکلات پیدا کرسکتے تھے۔ حیرت انگیز طور پر اس خونی کاروائی سے صرف دو روز قبل اسرائیل نے علاقے میں موجود اپنے شہریوں کو وہاں سے نکل جانے کا حکم دیا تھا۔ وجہ یہ بتائی کہ یہ علاقہ پرامن نہیں رہے گا۔ پھر جب کاروائی عمل میں آئی تو اگلے ہی لمحے اسرائیلی لڑاکا جہازوں نے بم برسا کر تمام حملہ آور قتل کرتے ہوئے تمام شواہد زمین برد کردیے۔ ساتھ ہی تمام مصری اور عالمی ذرائع ابلاغ دہائیاں دینے لگے کہ: ” دہشت گرد القاعدہ سے تعلق رکھتے تھے۔ مصر میں آنے والے اخوانی صدر سے انہیں حوصلہ ملا ہے۔ یہ کاروائی گزشتہ پانچ سال سے جاری غزہ کا حصار ختم کرنے کا نتیجہ ہے“۔ اللہ تعالی نے باقی تمام مشکلات اور سازشوں کی طرح، اس بڑے شر کو بھی خیر کثیر کا ذریعہ بنادیا۔صدر مرسی نے فوراً علاقے میں آپریشن شروع کروایا۔ پانچ روز کے اندر اندر دومرتبہ علاقے کا دورہ کیا۔ اور پھر انتہائی جرأت مندانہ اقدام کرتے ہوئے،فوج اور خفیہ ادارے کے سربراہ تبدیل کردیے، عبوری دستوری حکم منسوخ کردیا اور سابق الذکر صدارتی مجالس قائم کرتے ہوئے مصر کو ایک حقیقی جمہوری دور میں داخل کردیا۔ فوج کے قابل فخر ادارے کی تطہیر و تعمیر کایہ عمل ابھی جاری ہے۔ وزیر دفاع اور فوج کے سربراہ جنرل سیسی نے 70 ایسے فوجی افسر ریٹائر کردیے ہیں جو اپنی مدت ملازمت پوری کرچکے تھے لیکن کسی نہ کسی سفارش ،تعلق یا وابستگی کی بناء پر اعلی عہدوں پر براجمان تھے۔ یہ فیصلہ ملک میں میرٹ اور ضابطے کی پابندی اور جمہوریت کی مضبوطی کی جانب انتہائی اہم قدم ہے۔ صدر مرسی کی پوری انتخابی مہم کا محور ایک ہی لفظ تھا۔ ”النہضة“ یعنی بیداری و ترقی۔ یہ لفظ اب بھی مصری حکومت کا ہدف اول ہے۔ پہلے 100 دنوں کو بنیاد بناکر ہنگامی بنیادوں پر اقدامات اٹھائے جارہے ہیں۔صدر مرسی کا اپنے ساتھ 70 رکنی تاجروں کا وفد لے کر حالیہ دورہٴ چین، پھر دورہٴ ایران اور اس سے پہلے دورہٴ سعودی عرب، پھر امیر قطر کا دورہٴ مصر کہ جس میں انہوں نے کئی منصوبوں میں سرمایہ کاری کے علاوہ مصری بینک میں 2 ارب ڈالر رکھوانے کا اعلان کیا، سب اسی ایجنڈے کا حصہ ہیں۔ صدر محمد مرسی کی جیت کا اعلان ہونے کے بعد سے لے کر مصری سٹاک ایکسچینج مسلسل منافعے کے نئے سے نئے ریکارڈ قائم کررہا ہے۔ دوست دشمن سب تسلیم کرنے لگے ہیں کہ 100 دنوں یا پانچ سالوں میں مصر یقینا جنت نہیں بن جائے گا، لیکن کرپشن کے سوتے خشک کردینے، ملک میں قومی وحدت اور قانون کی عمل داری کو فروغ دینے اور اخلاص و ہمت سے جدوجہد جاری رکھنے سے، بالآخرمصر اسی مالک کون و مکان کی نصرت حاصل ہوگی ،جس نے حالیہ قیادت کو جیل کی کوٹھڑیوں سے نکال کر ایوان اقتدار میں لا بٹھایا ہے۔ مصر۔ قومی وحدت کا نیا سفر...عبدالغفار عزیز |
Pages
▼