زمینی حقائق یہ ہیں کہ موجودہ حکومت ان کی توقعات پوری کرنے میں بری طرح ناکام ہوئی ہے۔ وزیراعظم کہتے ہیں کہ ان کی حکومت نے شہید بینظیر بھٹو کے منشور پر کافی حد تک عمل کر دیا ہے۔ یہ دراصل پیپلز پارٹی کا منشور تھا جس میں عوام کو روٹی کپڑے اور مکان کی ضمانت دی گئی تھی۔ عام آدمی آج ان تینوں سہولتوں کیلئے مارا مارا پھر رہا ہے۔ بین الاقوامی سروے رپورٹوں کے مطابق پرویز مشرف نے اقتدار چھوڑا تو ملک میں خطہ غربت سے نیچے زندگی گزارنے والوں کی تعداد چار کروڑ سے کم تھی۔ آج انہی رپورٹوں کے مطابق ان لوگوں کی تعداد جن کے گھروں میں صرف ایک وقت کھانا پکتا ہے سات کروڑ سے اوپر نکل گئی ہے جو موجودہ حکومت کی طرف سے غریبوں کی دل لگا کر ”خدمت“کرنے کا منہ بولتا ثبوت ہے یہ وہی غریب ہیں جو پیپلز پارٹی کو اقتدار دلانے والی اصل قوت ہیں۔پارٹی کے منشور پر عملدرآمد کا عالم یہ ہے کہ ملک میں مہنگائی آسمان کی بلندیوں کو چھو رہی ہے۔ دن بھر کی مشقت کے بعد دو سو روپے اجرت پانے والا غریب مزدور ایک سو ساٹھ روپے کلو گھی 80روپے کلو چینی اور 70روپے کلو دودھ خریدنے پر مجبور ہے۔ دالیں ڈیڑھ سو روپے فی کلو سے زائد گائے اور مرغی کا گوشت 4سو روپے کلو اور مرچ سو روپے کی سو گرام فروخت ہورہی ہے۔ 20کلو آٹے کا تھیلا ساڑھے پانچ سو میں ملتا ہے۔ ضروری اشیاء کی بے محابا گرانی کے علاوہ بھی حکومت عوام کا کوئی بڑا مسئلہ حل نہیں کر سکی۔ دہشت گردی اور بدامنی نے قوم کا سکون غارت کر رکھا ہے اور آئے روز بے گناہ لوگوں کی لاشیں گر رہی ہیں۔ سرمایہ کاری رک گئی ہے۔ صنعتیں بند ہو رہی ہیں۔ بجلی اور گیس کی کمی پوری کرنے کے دعوے تو بہت کئے گئے مگر عملی صورتحال یہ ہے کہ ان دونوں کی لوڈشیڈنگ کے دورانیے میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے جبکہ ان کے نرخ متواتر بڑھائے جا رہے ہیں اس کے ساتھ ہی وزیر پٹرولیم ”خوش خبری“ سنا رہے ہیں کہ قوم سردیوں میں تین ماہ گیس کی قلت کا سامنا کرنے کو تیار رہے۔ ایک طرف ملک اتنی بدحالی سے دوچار ہے تو دوسری طرف ہمارے حکمرانوں کے شاہانہ اخراجات ہیں کہ بڑھتے ہی جا رہے ہیں۔ وہ عالی شان محلوں کروڑوں روپے کی بلٹ پروف گاڑیوں دولت کی ریل پیل اور کروڑوں کے اخراجات سے غیر ملکی دورے کرنے میں امریکہ برطانیہ جرمنی جاپان آسٹریلیا اور کینیڈا جیسے ملکوں کے لیڈروں پر سبقت حاصل کرنے کی دوڑ میں لگے ہوئے ہیں۔ حالات اس نہج پر پہنچ گئے ہیں کہ امریکہ کی ری پبلکن پارٹی کے صدارتی امیدواروں نے پاکستان کو ”ناکام ریاست“ قرار دیتے ہوئے اپنی انتظامیہ سے اس کی امداد بند کر دینے کا مطالبہ کیا ہے۔ یہ سوچ اس ملک کے لیڈروں کی ہے افغانستان میں جس کی جنگ کیلئے ہم نے سو ارب ڈالر جھونک دئیے اور 5ہزار فوجی جوانوں سمیت چالیس ہزار انسانی جانوں کی قربانی دی ۔
وزیر اعظم میثاق جمہوریت پر عملدرآمد کا دعویٰ بھی کر رہے ہیں جس پر عمل درآمد کے حوالے سے حکمران جماعت کا اپنا ریکارڈ بھی کسی طرح قابل رشک نہیں رہا خود پیپلز پارٹی کی اعلیٰ ترین سطح سے کہا گیا تھا کہ معاہدے قرآن و حدیث نہیں ہوتے کہ ان سے انحراف نہ کیا جائے۔ انتقام پر یقین نہ رکھنے کے ثبوت میں پرویزمشرف کی معافی کو اپنا کارنامہ قرار دیا جا رہا ہے یہ وہ شخص ہے جس نے دو مرتبہ ملک کے آئین کو سبوتاژ کیا۔ اسے گارڈ آف آنر پیش کر کے ملک سے رخصت کیا گیا۔ اس طرح کئی ناکامیاں حکومت کے نامہ اعمال میں درج ہیں جنہیں عوام اچھی طرح جانتے ہیں۔ وقت آ گیا ہے کہ حکمران اپنی ”کامیابیوں“ کا ڈھنڈورا پیٹ کر غریب عوام کے زخموں پر نمک پاشی کرنے کی بجائے ان کے دکھوں کا مداوا کریں۔ ہماری نہ صرف حکمران پارٹی بلکہ دوسری سیاسی جماعتوں سے بھی گذارش ہے کہ وہ ملک اور عوام کے بہتر مستقبل کیلئے کوئی واضح اور مشترکہ لائحہ عمل اختیار کریں۔ ملک اس وقت جن مشکلات میں گھرا ہوا ہے ان پر قابو پانے کیلئے سیاسی قیادت کو سنجیدگی اختیار کرناہ
Please visit: http://aftabkhan.blog.com